ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
تحریر: حامد کمال الدین
اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر
مجھے ٹیگ کیا ہے۔ تحریر کے مضمون سے مجھے عمومی اتفاق ہے۔ بس ایک بات سمجھ نہ آ
سکی کہ میری کسی گفتگو سے، جو ماڈرن سٹیٹ کی "اسلام کاری" کو
مسترد کرنے سے متعلق رہی ہو گی، آپ کی اس تحریر کا کیا تعلق ہے۔
مہتاب عزیز صاحب کی تحریر "نمائندگی" کے
متبادل طریقوں کے ضروری ہونے سے متعلق ہے۔ یعنی رسول اللہﷺ کے زمانے میں تو قبائل
کے سردار قدرتی طور پر "نمائندگی" کی ضرورت پوری کر رہے تھے۔ آج چونکہ قبائل کا وہ فنامنا
موجود نہیں تو "نمائندگی" کی کوئی اور صورت دریافت کرنا ہو گی۔ اس میں، میں ان کا ہم
خیال ہوں۔ آبادیاں آج جو صورت اور حجم اختیار کر گئی ہیں، اس میں مسلمانوں کی
نمائندگی کو سامنے لانے کےلیے "انتخابات" ایک کارآمد طریقہ ہے، یا ہو سکتا ہے۔ ان تینوں مقدمات سے،
جو اوپر بیان ہوئے، اور جو میں ایک بار پھر ملخص کردیتا ہوں، مجھے کامل اتفاق ہے:
1. قبائلی طرز بود و باش
ظاہر ہے جب باقی نہیں رہا، تو سرداری اور نیابت کےلیے اُس مخصوص طریقے کا کوئی
متبادل ہی ہونا چاہیے۔
2. مسلمانوں کی نمائندگی
(نیابت) ایک ضروری چیز ہے۔ "أمْرُهُمْ
شُوْرىٰ بَيْنَهُمْ" کا حکم جب شریعت میں موجود ہے، جبکہ سب مسلمان ہر وقت ہر
معاملے میں شریک مشاورت نہیں ہو سکتے، تو "نمائندگی"
ناگزیر ٹھہری۔ اور "نمائندگی" رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی یقیناً تھی۔
3. آبادیوں کی فی زمانہ
صورت اور حجم کو سامنے رکھتے ہوئے، اور کچھ دیگر عوامل کے پیش نظر، "انتخابی
عمل" فی زمانہ "نمائندگی" کی ایک کارآمد صورت ہو سکتی ہے۔
پورا اتفاق۔
البتہ جو چیز سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ کہ ان تینوں باتوں کا
ماڈرن سٹیٹ کی "اسلامائزیشن" سے کیا تعلق ہے، اگر ہے؟
اس پر مزید بات تو مہتاب بھائی کے وضاحت کرنے سے ہی ہو سکتی
ہے کہ ان کی تحریر کا ہماری اُس پہلے سے ہو
چکی گفتگو سے کیا تعلق ہے۔ اور اس لحاظ سے میری بات یہاں ختم ہوئی۔
لگے ہاتھوں، یہ واضح کر دینا – یا دہرا دینا – شاید مفید ہو
کہ جس طرح "سوشلزم" اور "کیپٹلزم" معاصر جاہلیت کے کچھ معاشی نظریات ہیں، اسی طرح "سٹیٹ"، "سوشل کانٹریکٹ" اور "ڈیموکریسی" وغیرہ اس کے کچھ عمرانی و سیاسی نظریات ہیں۔ کچھ شک نہیں اسلام
کا "اشتراک" ان سب نظریوں اور نظاموں کے ساتھ کئی ایک مقامات پر ہو
سکتا ہے؛ یوں "مماثلت" کے بہت سارے پہلوؤں کی نشان دہی اسلام اور ان چیزوں کے
مابین بآسانی کی جا سکتی ہے۔ ایسے "مشترکہ مقامات" کو دیکھ کر ان میں سے کسی بھی نظریے یا نظام کو "اپنانے" کا
فلسفہ بھی پیش کرنے کو کیا جا سکتا ہے، جو کہ طبعی طور پر اس کی ’خلافِ اسلام‘ چیزوں کو نہ
لینے، یا ان ’خلافِ اسلام‘ چیزوں کو اپنی اسلامی چیزوں کے ساتھ بدلنے (replace کرنے)سے مشروط
رکھا جائے گا۔ یعنی اس کی اسلام کاری islamization۔ اس پوائنٹ پر، بالعموم تین مسلک
پائے جاتے ہیں:
1.
ایک جو ’اسلام کاری‘ کا یہ دروازہ اصولاً سب معاصر
نظاموں اور نظریوں کےلیے کھلا رکھتا ہے۔ اسے نہ ’اسلامی سوشلزم‘ کی تعبیر سے کوئی اختلاف ہے نہ ’اسلامی ڈیموکریسی‘ سے۔ نہ ’کیپٹلزم‘ اور ’بینکاری‘ وغیرہ کو اسلام سے "ہم آہنگ" کرنے سے کچھ مسئلہ۔ ہماری نظر میں
غلط ہونے کے باوجود، یہ ایک متَّسِق consistent مسلک ہے، یعنی سب کےلیے ایک سا کشادہ دل۔ گفتگو
کی آسانی کےلیے اسے ہم "یکساں مفاہمت" consistent reconcile کا مسلک کہہ لیتے ہیں۔
2.
دوسرا ہم اہل اتباعِ سلف کا مسلک ہے، جو ایسے کسی بھی ٹانکے کو قبول نہیں
کرتا۔ اسلام اور سوشلزم کے مابین یا اسلام اور جدید ریاست کے مابین یا اسلام اور
جمہوریت کے مابین "اشتراک" بہت سارے مقامات پر ہم بےشک مانتے ہیں۔ بلکہ ہم کہتے ہیں،
دنیا میں کوئی باطل ایسا ہو ہی نہیں سکتا جس کی سب باتیں "باطل" ہوں۔ یقیناً بہت کچھ اس میں
موافقِ اسلام ہو گا، پھر بھی اصل چیز ہمارے اور جاہلیت کے ہاں متداوَل کسی نظریے
میں ہمارا اور اس کا "اختلاف" ہی ہوتا ہے۔ اور یہی دو مستقل بالذات نظریات کی ایک دوسرے
کے مقابل صحیح صحیح پوزیشن۔ جن امور میں ہم اور "وہ" مشترک ہیں، ان امور میں بھی حوالہ
ہمارا اپنا ہی دین ہو گا؛ ان امور میں بھی حوالہ کسی دوسرے کی چیز نہیں ہو گی۔ اور
جن امور میں ہم اور "وہ" مختلف ہیں، ان امور کو البتہ ہم اپنے اور اس کے مابین
معاملے کا اصل حوالہ بنائیں گے۔ اس عالمِ تگ و دو میں "نظریات" کو ایک دوسرے کے معاملہ میں اتنا
ہی بےلحاظ shrewd ہونا ہوتا ہے۔
اس سے زیادہ میٹھے بنیں گے تو نگلے جائیں گے۔ یوں اول الذکر مسلک کا فوکس اگر
اسلام اور کسی جاہلی نظریے کے مابین پائے جانے والے مشترکات commonalities پر رہتا ہے، تو ہمارے اس (ٹھیٹ) مسلک کا فوکس اسلام
اور کسی باطل نظریے کے اختلافات differences پر۔ درحالیکہ نہ وہ (ریکونسائل
کا) مسلک "اختلافات"differences کا منکر ہوتا ہے اور نہ ہم (ٹھیٹ لوگ) "مشترکات" commonalities کے انکاری۔
3.
تیسرا مسلک چنیدہ مفاہمت selective reconcile کا ہے۔ یہ "اسلامی سوشلزم" کے خلاف اعلانِ جنگ رکھے گا جبکہ "اسلامی ڈیموکریسی" کے حق میں تبلیغ کرے گا۔ "اسلامی سوشلزم" کو رد کرنے میں قریب قریب ہمارے
والے دلائل آپ اس کے یہاں دیکھیں گے۔ اور "اسلامی ڈیموکریسی" کو قبول کرنے میں اول الذکر مسلک
والے دلائل۔ حالانکہ "مشترکات" commonalities کو حوالہ بناتے تو ہر دو کےلیے سینہ فراخ رکھتے۔ اور "اختلافات" differences کو حوالہ بناتے تو دونوں کو مسترد
کرتے۔ وغیرہ۔
"اشتراک" commonality یا "مماثلت" concurrence کا موضوع – جو کہ ہم امید کرتے ہیں واضح ہو
چکا ہو گا – اصل میں ہماری اس گفتگو
کے دوران "نمائندگی" والی بات سے نکل آیا تھا؛ کیونکہ "نمائندگی" یا
"انتخاب"
والی بات سے ایک اشکال اٹھ سکتا تھا کہ ہمارا اور کسی معاصر جاہلی نظریے کا ایک سا
معاملہ ہے۔ "نمائندگی" کی حد تک ہم یہ مان آئے کہ دور نبوت کے قبائلی سرداروں کا
کوئی فی زمانہ متبادل آج فی الواقع ہماری ضرورت ہے، جس کی ایک صورت "انتخاب" ہو
سکتا ہے… تو یہاں اب عرض کر دیں: یہ "انتخابی عمل" بھی، جس کی ہم نے تائید کی، سردست ایک مجمل بات ہے۔
جہاں تک عملی صورت کی بات ہے، تو "انتخابی
عمل" گو ویسے بھی ساری دنیا میں یکساں نہیں؛ بڑے بڑے مختلف ماڈل
اس کے موجود
چلے آتے ہیں۔ پھر بھی حرج نہیں کہ مسلمانوں کی مشاورتی ضرورت کےلیے نمائندگی کو
سامنے لانے والا "انتخابی عمل" ان سارے ہی ماڈلز سے جدا ہو۔ یعنی اس میں جُہلاء اور نفس
پرستوں کو – جو کہ بہت ہوتے ہیں – معاشرے میں آخری حد تک غیر مؤثر رکھنے ، اور
اقامتِ شرع کو اس کی پوری سپرٹ کے ساتھ لے کر چلنے والے عناصر کے اوپر آنے اور
اوپر رہنے کو یقینی بنانے کے کچھ غیرمعمولی اقدامات کیے گئے ہوں۔ یہ ایک ہی
بات، ہو سکتا ہے، ’مروجہ‘ معاملے کی ساری تصویر بدل کر رکھ دینے والی ہو۔ یہاں تک کہ ’جمہوریت‘ کی روح اس سے تڑپ اٹھنے والی ہو۔
اس لیے کہ ہر تہذیب کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور ہماری تہذیب کی سب سے بڑی
ترجیح "ما أنزل اللہ" کو اس کی صحیح سپرٹ کے ساتھ قائم
رکھنا جس سے بہرحال طبیعتیں بھاگتی ہیں۔ یہ ایک بلندی ہے جس پر معاشرے کو رکھا
جانا "لوگوں" کی خواہشوں اور فرمائشوں کی نذر
نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ (وَلَوۡ أَنَّهُمۡ أَقَامُواْ ٱلتَّوۡرَىٰةَ وَٱلۡإِنجِيلَ
وَمَآ أُنزِلَ إِلَيۡهِم مِّن رَّبِّهِمۡ لَأَكَلُواْ مِن فَوۡقِهِمۡ وَمِن تَحۡتِ
أَرۡجُلِهِمۚ)۔ جبکہ "عوام" کا معاملہ بڑی حد تک گھر کے ان آسائش پسند افراد ایسا ہوتا
ہے جنہیں نماز بھی اکثر زبردستی پڑھانا ہوتی ہے، بقیہ "پابندیاں"
تو جن کی شریعت متقاضی رہتی ہے، اور بھی بڑی بات۔ عام گھروں میں نہیں
اچھےخاصے دیندار گھروں میں آپ نے یہ دیکھ رکھا ہو گا کہ ان کو نماز اور کچھ دیگر
اہم فرائض دین کا پابند کرنے اور بڑی بڑی خرابیوں سے روکنے والا گھر کا "بڑا" ان کو زیادہ پسند نہیں آتا۔ جبکہ
کوئی روک ٹوک ان کو نہ کرنے والا ان کو بہت بھلا لگتا ہے۔ اور جو ان کو کھل کھیل کرنے میں خوب ہلہ شیری دے،
وہ ان کا ہیرو ہوتا ہے۔ غیر دیندار گھرانوں میں تو، جو کہ اکثریت میں ہوں گے، ان
کو دین پر لگانے والے شاید ڈانٹ کر بٹھا دیے جائیں۔ طبائع بہرحال اسی طرح ہیں؛ اور
اس حقیقت سے نگاہ چرانا کبھی آپ کو صحیح نتائج پر نہیں پہنچا سکتا۔
یہ مفروضہ کسی حسین خواب سے کم نہیں کہ شریعت کا
سٹیٹس جب ایک بار آپ نے "آئین" میں طے کر دیا تو پھر عوام جس کو بھی منتخب کر آئیں، نافذ
تو شریعت نے ہی ہونا ہے! تھوڑی دیر کےلیے، یہ فرض کر لیں کہ آئینی سطح پر شریعت کا
سارا ہی حق ادا کر لیا گیا ہے، البتہ "انتخابی عمل" جو آپ کے ہاں انجام پایا اس سے آپ کے یہاں کی ساری ہی نمائندگی کچھ سیاست
کے ’آصف زرداریوں‘ یا کلچر کے گویّوں ڈھولچیوں سٹیج
ایکٹروں کی نکل آئی…تو وہاں آپ کے اس اچھے اور مثالی آئین کا تعویذ کیا کرے گا؟ دُور
کیوں جائیں، آپ کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی تو اچھا خاصا اسلامی ہے،
اسلام کی بہت ساری باتیں یقیناً اس آئین سے بھی روبہ عمل آ سکتی ہیں اگر اچھے لوگ
کسی دن اللہ کے حکم سے اوپر آ جائیں۔ مگر "نمائندگی" کی خرابی اس آئین کا کیا کیا حشر
نہیں کر رہی؟ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ دستور کا ٹھیک ہونا جتنا اہم ہے،
نمائندگی کے صحیح رہنے کا بندوبست ہونا اس سے کم اہم نہیں ہے۔ بلکہ آئین کا ٹھیک
ہونا آپ کا ایک بار کا مخمصہ، جبکہ نمائندگی کا ٹھیک ہونا آئے روز کا دردِ سر۔ بلکہ
نمائندگی کا خراب ہونا خود آئین ہی کے حق میں ایک دُوررَس خطرہ۔ اور معاشرے کی
تباہی کا بھی پورا ایک نسخہ۔ تو پھر کیا تعجب کہ ان سب واقعات سے سبق لیتے ہوئے "نمائندگی" والے مسئلے پر بھی کچھ غیرمعمولی
پہرے بٹھا دیے جائیں، اور اس کےلیے درکار "انتخابی عمل" جو آپ اختیار کریں وہ دنیا کے
مروجہ طریقوں سے اتنا مختلف ہو کہ دنیا شاید اسے "انتخاب" ہی ماننے پر تیار نہ ہو! بہرحال
ہمیں اس سے غرض نہیں کہ آپ اسے کیا نام دیتے ہیں، "انتخاب" یا کچھ اور، لیکن اس بات کو یقینی
بنانے کےلیے کہ آپ کے نمائندے لازماً "ما انزل اللہ" کے روح شناس ہوں، اور مسلم معاشرہ
جس مقصد کےلیے وجود میں آتا ہے وہ اس مقصد سے کما حقُّہٗ واقف اور معاشرے کو اس پر
کاربند رکھنے کے داعیہ اور صلاحیت سے پوری طرح لیس ہوں، جو بھی اِجراءات measures یہاں لینا ضروری ہوں آپ بےپروا ہو
کر وہ لیں گے۔ اس کی تفصیلی صورت کیا ہو، یہ بحثیں ابھی بےوقت ہیں، اور ان میں
الجھنا بڑی حد تک فضول، مگر اتنا طے ہے کہ یہ "انتخابی عمل" اپنی حقیقت میں دنیا کی مروجہ
چیزوں سے بہت ہی مختلف ہوگا ۔ دنیا کی مروجہ چیزوں سے یکسر مختلف؛ اس لیے کہ دنیا
کا کوئی معاشرہ فی الوقت ایسا نہیں جو اپنے دستوری و سیاسی انتظامات کے لحاظ سے "ما انزل اللہ" پر چلنے کےلیے استوار کر رکھا گیا
ہو۔ حق تو یہ کہ اس معاملہ میں آپ دنیا کی طرف دیکھیے ہی نہیں۔ زیادہ ’کُول‘ نظر آنے کے خواہشمند آپ کے مفکرین
صرف اسی ایک نکتے پر آپ کو آپ کے تمام اسلامی اہداف سمیت ڈبو دینے کا انتظام رکھتے
ہیں۔
ویسے "انتخابی عمل" کی حد تک مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے داخلی
انتخابات کا جو ایک نہایت زبردست طریقہ متعارف کروایا، میرے دیکھنے میں وہ اسلامی
روح اور اسلامی مقاصد کے ساتھ غیرمعمولی ہم آہنگ ہے۔ میرے علم کی حد تک، جماعت میں
ہونے والے "انتخاب" کےلیے نہ تو کوئی اپنے حق میں کنویسنگ کرتا ہے، نہ آفیشللی
officially کوئی پارٹی بازی ہوتی ہے (جوکہ "جماعۃالمسلمین" کے
حق میں صریح بربادی ہے)، نہ ایک دوسرے کے ’مقابلے‘ پر آنے کا کوئی
عمل، نہ کوئی الیکشن "لڑتا" ہے…یعنی "لڑنے" کی پوری قاموس یہاں متروک رہتی ہے، اس کے باوجود "نمائندگی"
سامنے آنے کا بہترین انتظام ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ استفادہ اس ماڈل سے، جو فی الحال
ایک جماعت میں رائج ہے، معاشرے کی سطح پر کیا جا سکتا ہے۔
اس ماڈل کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ شاید یہ کہ
"منتخب کنندہ" ہی کے اندر کچھ شروط رکھی جاتی ہیں۔
*****
آخر میں ایک بات…
اس میں شک نہیں کہ پہلے یا تیسرے فریق سے بظاہر تعلق رکھنے
والے بعض راست فکر اصحاب، کسی معاصر چیز پر اپنی "اسلامی"
شرطیں لگانے میں اس قدر بیدار، محتاط اور دقیق ہیں کہ – ایک جگہ پر جا کر – ہمارا اور ان
کا اختلاف بڑی حد تک تعبیر کا اختلاف رہ جاتا ہے۔ جبکہ مضمون میں ہمارا ان کا کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہوتا۔ یہ بات حق
ہے۔
البتہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ "تعلیم
و تربیت" میں تعبیرات کا ٹھیٹ اور خالص رہنا بوجوہ ضروری اور فائدہ
مند ہے۔ اور اِس وقت تو عملاً تعلیم ہی
ہے ہمارے ہاں بھی اور ان کے ہاں بھی۔ "اسلامی ریاست" کا جو ڈیزائن وہ دے رہے ہیں، وہ بھی کہیں آج کل میں نصب ہونے
نہیں جا رہا۔ بلکہ اس کا معاملہ بھی پیچھے سے پیچھے جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ
کامیابیاں بعض ملکوں میں اسلامی پارٹیوں کو ملی ہیں، وہ اپنے "اسلامی
ریاست" والے پروگرام سے آفشیللی officially پیچھے ہٹنے کی قیمت پر ہوا ہے۔ اس
لحاظ سے، کسی کی بھی چیز آج کل میں نصب ہونے نہیں جا رہی (اگر ایسا ہو تو میرے لیے
بےحد خوشی کی بات ہو گی)۔ اور اس لحاظ سے ہم سب اس وقت "تعلیم" ہی کر رہے ہیں۔ اس تعلیم کے متعلق
تہذیبوں کی اس اکھاڑ پچھاڑ کے زمانے میں
البتہ ہمارا کہنا ہے، تعبیرات جتنی خالص اور ٹھیٹ ہوں گی اتنی بہتر رہیں گی۔ یہ
ایک ہی چیز ہے ہمارے پاس جس میں ہم باہر کے لوگوں اور چیزوں کو نہ گھس آنے دیں۔
رہ گیا یہ کہ جو ہم کہتے ہیں وہ تو
فی زمانہ ممکن ہی نہیں۔ تو اس پر ہمارے دو جواب ہیں:
ایک یہ کہ جس چیز کو آپ ممکن سمجھ
رہے ہیں، ویسے تو وہ بھی فی زمانہ ممکن نہیں۔ روز بروز وہ بھی آپ سے دور ہی ہو رہا
ہے۔ یہاں تک کہ اب جگہ جگہ اس سے پیچھے ہٹنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس لحاظ سے، صرف
ہمارا نہیں آپ کا بھی "مجوزہ جہان" فی الحال ہواؤں میں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ "عمل" میں ہم سب اس چیز کا سوچیں جو فی
الواقع آج کی تاریخ میں یہاں ہو سکتا ہے، اگرچہ وہ ہمارے یا آپ کے مطلوب سے کتنا
ہی کم کیوں نہ ہو۔ اور بلاشبہ جن جن ملکوں میں لوگوں نے اپنا ’عملی‘ پیکیج چھوٹا یا ہلکا کر کے کچھ
پیش قدمی کی کوشش کی ہے وہ بہت بہت کامیاب قدم اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
دوسرا جواب یہ کہ: اگر فی الواقع "ممکن" آج صرف وہی ہے جو آپ تجویز فرما
رہے ہیں – اور جو کہ ہمارے ہاں محل نظر ہے – تو "ممکن" ہونے کے باب سے ہم تو اس سے بھی
کمتر کو – فی الحال کےلیے – اختیار کرنے کے قائل ہیں، جیسا کہ ہمارے پچھلے مضامین
میں گزرا۔ (اعتقاد میں: پورا اسلام۔ البتہ عمل میں: جو ممکن ہے)۔ عمل میں تو ہم اس قدر flexible ہیں کہ اِس وقت جو پاکستان، یا مصر، یا ترکی، یا تیونس، یا لیبیا، یا
سعودیہ، یا کویت،یا قطر کے "نظاموں" میں، اسلام کے حق میں "ممکن" ہے "آج" کےلیے اسی کو واجب کہہ چکے اگرچہ
وہ "مطلوب" سے کتنا ہی کم ہو۔ پھر اپنے اس
عمل سے جو آج یہاں "ممکن" ہے کل اس میں جو بہتری لا سکتے ہوں اسے "کل" کےلیے واجب کہیں گے۔ پھر کل کی
جانے والی چیز میں جو مزید بہتری لا سکتے ہوں، اسے "پرسوں" کےلیے واجب کہیں گے۔ ظاہر ہے جو "اسلامی ریاست" آپ تجویز فرما رہے ہیں وہ تو ان
سب سے کہیں بہتر اور اقرب الی الحق ہے جو آج ہمیں پاکستانی یا مصری یا ترکی یا
تیونسی یا سعودی، یا قطری "نظام" میں کرنا دستیاب ہے۔ اب اگر وہ جو آپ تجویز فرما رہے ہیں "ممکن" بھی ہے تو عمل میں تو اسے اختیار
کرنے میں ہمیں بالکل کوئی تامل نہ ہو گا۔ یہاں تک کہ اگر – بالفرض – آئندہ ہزار
سال تک وہی "ممکن" ہے جو آپ تجویز فرما رہے ہیں اور وہ بالکل "ممکن" نہیں جس پر ہم اعتقاد رکھتے ہیں
تو "عمل" میں تو ہزار سال تک ہم اسی کو
اختیار کریں گے جو "ممکن" ہے؛ اور ایسا کرنے میں ہمارا مسلک تو ایک انچ متاثر نہیں
ہو گا۔ ہم تو کسی ایسے آئیڈیل یا ریڈیکل مسلک پر نہیں کہ جو چیز ہمارے دین کا صحیح
صحیح مطلوب ہے، وہ آج کسی وجہ سے اگر ہمیں دستیاب نہیں تو ہم ’تصورِ جاناں کیے‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کے میسر آنے
کے انتظار میں بیٹھے رہیں گے۔ ہم نے تو صرف اتنا کہا ہے – اور اسے اس مسئلہ میں
ہمارے مدرسہ کا لب لباب سمجھیے – کہ "جو مطلوب ہے" کا "جو ممکن ہے" سے فرق رکھا جائے۔ "جو مطلوب ہے" کے تعین میں اس وجہ سے دل چھوٹا
مت کیجیے کہ یہ تو آج آپ کے بس سے باہر ہے۔ اور "جو آج ممکن ہے" اسے اس وجہ سے مت چھوڑیے کہ یہ تو
وہ نہیں جو پورے طور پر "مطلوب ہے"۔ یہ توازن ہمارے
بیانیہ کا ایک مرکزی ترین مضمون ہے۔
یہ دلیل کہ ’آج اس کا زمانہ نہیں‘ ہم ہر زمانے میں دیکھ آئے۔ ہمارے اُس
بارہ سو سالہ دورِ ملوکیت میں بھی – جب ایک طرف قرطبہ و استنبول تا دہلی و رنگون
اور دوسری طرف ٹمبکٹو تا خوارزم بادشاہتیں ہی بادشاہتیں تھیں – "خلافۃ على منہاج النبوۃ" کا لفظ یا تصور میرے خیال میں "زمانے" کے لحاظ سے کسی قدر تعجب انگیز ہی
ہوتا۔ "جدید ریاست" میں تو یہ ہونا بھی چاہیے! البتہ
ہم یہی کہتے ہیں کہ ہم ہر زمانے کو اسلام سے اور اسلامی معیارات سے جتنا قریب کر
دیں، "عمل" میں ہمارے لیے بس وہی کافی ہے۔ (سَدِّدُوا، وَقَارِبُوا)۔ بغیر اس کے کہ "زمانے" کو ہم اسلام پر حجت ٹھہرائیں یا
اسلام کو "زمانے" کی مطابقت میں لانے کی کوشش کریں۔