گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
اردو استفادہ:
حامد کمال الدین
از مجموع فتاوى ابن تیمیہؒ ج۳۰ ص ۲۵۶ (سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ
مُتَوَلٍّ ولايات ومقطع إقطاعات وعليها من الكُلَف السلطانية ما جرت به العادة):
شیخ (ابن تیمیہؒ) – قدَّسَ اللہُ سِرَّہ – سے ایک
ایسے آدمی متعلق پوچھا گیا: جو کسی اعلىٰ عہدے پر فائز اور زرعی جاگیروں پر عملدار ہے۔ ان جاگیروں
پر معمول کے سب سرکاری لگان لگتے ہیں۔ آدمی کی اپنی ترجیح یہ کہ وہ سارا ہی ظلم ختم کر دے۔
اپنی قدرت کی حد تک وہ اس میں زور بھی صرف کیے ہوئے ہے۔ وہ
جانتا
ہے، اِس کام سے اُس کے
دستبردار ہو جانے (نتیجتاً) یہ اراضی کسی اور کی ماتحتی میں جانے اور اس اعلیٰ عہدے
پر کسی اور کے فائز ہو جانے کی صورت میں ظلم کا کوئی ایک بھی حصہ ختم نہیں ہونے کا،
بلکہ ہو سکتا ہے بڑھ جائے، جبکہ وہ یہ امکان
پاتا ہے کہ ان محصولات میں جو اس کے ماتحت جاگیروں پر لاگو ہیں تخفیف کر دے، یعنی
محصول آدھا کر دے، جبکہ باقی آدھا خرچوں کی مد میں ہے، جنہیں ختم کرنا اس کےلیے
ممکن نہیں، کیونکہ ان خرچوں کا تاوان اس سے طلب کیا جاتا ہے، جو کہ اس کے بس سے
باہر ہے، لہٰذا وہ انہیں لوٹانے پر قادر نہیں۔ تو کیا ایسے شخص کےلیے جائز ہو گا
کہ وہ مذکورہ ولایت اور اراضی پر والی بنا رہے؟ اور کیا ایسا کرنے سے اس پر گناہ آئے گا؟ یا نہیں؟ اور اگر اس میں
اس پر گناہ نہیں، تو کیا اس کو یہ کرنے کی تاکید کی جا سکتی ہے؟ یا نہیں؟
نیز ان دو باتوں میں سے اس کےلیے بہتر کیا ہے: یہ کہ وہ اسی عہدے پر رہتے ہوئے ظلم
کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کرتا رہے؟ یا اس سے ہاتھ ہی اٹھا لے، جبکہ اس صورت میں
وہ ظلم جوں کا توں رہے یا اور بڑھ جائے؟ اور اگر رعایا کی ترجیح یہ ہو کہ وہ شخص
ہی اس عہدے پر رہے کیونکہ اس کے وہاں رہنے اور جتنا ظلم اس نے کم کیا اتنا کم ہونے
سے رعایا فائدہ پا رہی ہے، تو کیا اس کے حق میں اولیٰ یہ ہے کہ رعایا کی اس خواہش
کا احترام کرے؟ یا دستبردار ہو جائے؟ جبکہ رعایا کو (اس کا دستبردار ہونا) ناگوار
ہے، اس لیے کہ جانتی ہے اس کے دستبردار ہونے کی صورت میں ظلم برقرار رہے گا بلکہ
اور بڑھے گا۔
اس پر (شیخ الاسلامؒ) نے جواب دیا:
الحمد للہ۔
ہاں۔ یہ شخص اگر اپنا بس چلنے اور اپنے پیشہ ورانہ اختیار
کی حد تک انصاف اور رفعِ ظلم کےلیے اپنا زور صرف کیے ہوئے ہے تو یہ خوب تر اور
مسلمانوں کے حق میں لائق تر ہے بنسبت اس بات کے کہ اس اعلیٰ عہدے پر کوئی اور فائز
ہو۔ ان جاگیروں پر اس کا اختیار رہنا کسی اور کے ان پر بااختیار ہونے سے بہتر ہو
گا، جیسا کہ بیان کیا جا چکا: اس کےلیے اس اعلیٰ عہدے اور ان جاگیروں پر افسر رہنا
جائز ہے اور اس میں اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بلکہ اس کا یہ عہدہ برقرار رکھنا عہدہ
چھوڑ آنے کی نسبت افضل ہو گا، اور یہ اس وقت جب وہ اسے چھوڑ کر اس سے بھی کسی افضل
عمل میں نہ لگنے والا ہو۔ اور بعض حالات میں تو، جب اس کے سوا کوئی شخص بحالتِ
قدرت یہ کام کرنے والا ہی نہ ہو، یہ (عہدہ رکھنا) اس پر واجب ہو گا۔ کیونکہ انصاف
کو حسب امکان عام کرنا اور ظلم کو حسبِ امکان ختم کرنا فرضِ کفایہ میں آتا ہے: ہر
انسان پر جتنی جتنی اس کو اس بات پر قدرت ہے، یہ کام کرنا واجب ہو گا، اُس وقت جب
کوئی اور اس کی جگہ یہ کام کرنے والا نہ ہو۔ اور جب صورتِ واقعہ یہ ہو تو ظلم ختم
کرنے کے حوالہ سے آدمی ان باتوں کا مکلف نہ رہے گا جن میں وہ بےبس ہے۔ بادشاہوں نے
جو ایسے لگان لگا رکھے ہوتے ہیں جن کو ہٹانا آدمی کےلیے ممکن نہیں، ان کی بابت
آدمی کی جوابدہی نہیں۔ اور جس وقت وہ (بادشاہ) یا ان کے نائبین ایسے مالیات طلب
کریں جنہیں دینا ایسے کچھ لگان لگائے بغیر ممکن نہ ہو، اور یہ مالیات (بادشاہوں یا
ان کے نائبین کو) ادا نہ کرنے کی صورت میں وہ ان جاگیروں اور ان اونچے عہدوں پر
ایسے افراد کو لا بٹھائیں گے جو اس ظلم کو جوں کا توں رکھنے والے بلکہ اس میں
اضافہ کرنے والے ہوں نہ کہ اس میں تخفیف کرنے والے، تو اس صورت میں لوگوں سے وہ
(بعض) لگان وصول کرکے اوپر پہنچانا مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو گا بنسبت اس بات کے
کہ سارے کے سارے لگان ہی ان پر عائد رکھے جائیں۔ جس شخص کا رخ اس سے عدل و انصاف کی طرف ہوا، وہ
دوسرے کی نسبت اقرب ہو گا۔ اور جو اس کا شکار ہوا وہ دوسرے کی نسبت عدل و احسان سے
دور تر ہو گا۔
پس وہ اہلکار جو یہ خیر کا کام کرتا ہے، مسلمانوں سے اتنا
ظلم ہٹا دیتا ہے جتنا اس کے بس میں ہے، مسلمانوں سے جتنا مانگا جا رہا ہے مسلمانوں
سے اس کا کچھ حصہ لے کر وہ اہلِ شر کا (کچھ) شر ان سے ہٹاتا ہے، جبکہ باقی کو
ہٹانا اس کے بس میں نہیں، تو ایسا شخص مسلمانوں کے حق میں نیکوکار ہے نہ کہ ظلم
کار۔ ثواب کا مستحق ہے۔ مذکورہ (لگان) ان سے لینے میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ نہ
یہ لینے پر اس پر کوئی چٹی ہے۔ نہ اس پر دنیا میں کوئی گناہ ہے نہ آخرت میں،
بشرطیکہ اپنا بس چلنے کی حد تک وہ عدل اور احسان ہی میں اپنا زور صرف کیے ہوئے ہے۔
اس شخص کی وہی حیثیت ہو گی جو (فقہی لحاظ سے) کسی یتیم کے وصی (جس شخص کے حق میں
مرنے والا وصیت کر گیا ہو کہ وہ اس کے یتیم کا سرپرست رہے) کی حیثیت۔ یا کسی وقف
کے ناظر (ٹرسٹ انچارج) کی۔ یا کسی مضاربت (انوسٹمنٹ کے مال سے تجارت) کرنے والے کی۔ یا
کسی تجارتی شراکت دار کی۔ وغیرہ وغیرہ اشخاص، جو دوسروں کے حق میں ان کے ولی یا
وکیل کی حیثیت میں تصرف کرتے ہیں، جس وقت ان کےلیے کسی طاقتور ظالم کو اُس (یتیم
یا اُس وقف، یا اُس سرمایہ کار یا اُس شراکت دار) کے مال کا کچھ حصہ ادا کیے بغیر
اُس کی بہتری کا کوئی اقدام کرنا ممکن نہ رہ گیا ہو۔ چنانچہ یہ شخص اپنے اس فعل
میں نیوکار ہے نہ کہ بدکار۔ اس عمل کی وہی حیثیت ہے جو امانت کی حیثیت رکھنے والے
پرائے مال یا اثاثہ جات کا کچھ حصہ ایسے بھتہ خوروں کو (مجبوراً) دے دینے کی ہے جو
راستوں میں جگا (ٹیکس) لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
یہی معاملہ ان محصولات کا ہو گا جو جائیدادوں پر لگا رکھے گئے ہوتے ہیں یا
جو محصولات لوگوں کی خرید و فروخت کے اوپر (بحقِ سرکار) عائد کر رکھے گئے ہوتے
ہیں۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو اِس ملک میں یا اِن حالات کے کسی اور ملک میں اپنی خاطر
یا کسی دوسرے کی خاطر اس انداز کا تصرف کرتا ہے (اپنے یا دوسرے کے مال کا کچھ حصہ
مجبوراً ظالم کو ادا کرتا ہے) ، اس کےلیے یہ امور انجام دیے بغیر کوئی چارہ ہی
نہیں ہے۔ چنانچہ اگر یہ عمل کسی بھی شخص کےلیے جائز نہ رہنے دیا جائے تو اس سے
بندوں کا مفاسد کی نذر ہونا اور ان کے مصالح کا فوت ہونا لازم آئے گا ۔ جو آدمی اس
سے ممانعت کرتا ہے تا کہ تھوڑا ظلم واقع نہ ہو، لوگ اگر اس کا یہ فتوىٰ لے لیں، تو
وہی ظلم اور فساد ان پر کئی گنا بڑھ کر واقع ہونے لگے۔ ایسا فتوىٰ دینے والے کی وہی
پوزیشن ہو گی جو ان برسرِ سفر لوگوں کی جنہیں راہ زن پڑ جائیں اور وہ ڈاکوؤں کو
اپنا کچھ مال دے دلا کر کر چلتا کرٍنے کے روادار نہ ہوں… تب وہ اپنے سارے مال سے
بھی جائیں اور اپنی جان سے بھی۔ پس جو شخص اس قافلے کو فتوىٰ دے کہ ان (رہزنوں) کو
اپنے ساتھ اٹھائے ہوئے مال کا کچھ حصہ دے دینا تمہارے لیے حلال نہیں، تو اس کا
مقصد بےشک اس تھوڑے مال کو محفوظ کرنا ہے جسے دینے سے وہ ان کو ممانعت کر رہا ہے،
تاہم اگر وہ اس کے فتوىٰ پر چلیں تو اپنے تھوڑے مال سے بھی جائیں گے اور زیادہ سے
بھی، اور وہ ان سے زبردستی لے لیا جائے گا۔ جبکہ کوئی عقلمند ایسا نہیں کہے گا کجا
یہ کہ شرائع ایسے احکام لے کر آئیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی بعثت فرمائی
مصالح کی تحصیل (مصالح کو کامل رو بہ عمل لانے) اور مصالح کی تکمیل (مصالح کو جتنا ہو سکتا
ہے اتنا رو بہ عمل لانے) ہر دو کےلیے۔ نیز مفاسد کی تعطیل (مفاسد کو مکمل روکنے) اور مفاسد کی تقلیل
(مفاسد کو جتنا ہو سکتا ہے کم کرنے) ہر دو کےلیے۔
چنانچہ یہ والی جو جاگیروں پر عملدار ہے اور جو موجودہ
محصولات کو اپنی اس ولایت اور عملداری پر رہتے ہوئے ان (حکامِ بالا) کو ادا کرتا
ہے جنہوں نے اسے یہ ولایت تفویض کر رکھی ہے، جبکہ اس دوران وہ بہت سا ظلم اور شر مسلمانوں
سے ہٹا لیتا ہے ، اور جو کہ اس سے کہیں سنگین تر ہے (جو وہ ان سے وصول کرتا ہے)
جبکہ اُتنا سا لیے بغیر اِس کےلیے وہ ولایت انجام دینا ممکن ہی نہیں ہے، اور اگر
وہ اس سے ہاتھ اٹھا لے تو ایسا شخص (اس کی جگہ) والی بنے گا جو اس پورے ظلم کو
برقرار رکھنے والا اور اس میں کچھ بھی کمی کرنے والا نہ ہو… تو یہ شخص اپنے اس عمل
پر ثواب کا مستحق ہے۔ اس پر نہ کوئی گناہ ہے نہ چٹی، دنیا میں نہ آخرت میں۔ اس کی وہی پوزیشن ہے جو کسی یتیم کے وصی کی، یا
کسی وقف کے انچارج کی، جب اس کےلیے (یتیم یا وقف کے مال سے) سرکار کے ظالمانہ
محصولات ادا کیے بغیر اس کی بہتری کا کوئی اقدام کرنا ناممکن ہو جائے۔ جبکہ حال یہ
ہو کہ وہ اگر اس (یتیم کے مال کی رکھوالی، یا وقف کی انچارج شپ) سے ہاتھ اٹھا لیتا
ہے تو وہ ذمہ داری ایسا شخص لے اڑے گا جو ہے ہی ظالم اور ظلم کا خواہش مند۔ لہٰذا
اس ذمہ داری پر اس شخص کا فائز رہنا جائز ہے؛ اور جو یہ اس مال میں سے (کسی ظالم
کو) دیتا ہے اس میں اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بلکہ کسی وقت تو اس پر یہ ذمہ داری
رکھنا واجب ہو سکتا ہے۔ یہی حکم ایسے فوجی رسال دار کا ہے جس کو جاگیروں اور
مالیات میں اختیار دے رکھا گیا ہے اور وہ اپنے زیر اقتدار علاقہ میں محصولات کے
اندر تخفیف کر دیتا ہے جبکہ ان کو مکمل ہٹا دینا اس کےلیے ممکن نہیں، اس لیے کہ اس
سے تقاضا ہوتا ہے کہ (سرکار کو) یہاں سے گھوڑے، ہتھیار اور اخراجات فراہم کرے، جبکہ
ان سب پر پورا اترنا اس کےلیے ممکن نہیں سوائے یہ کہ وہ ان محصولات کا کچھ حصہ
وصول کرے۔ یہ بات۔ اور اس کے ساتھ یہ کہ
یہ (رسال داری کا معاملہ نباہنا) مسلمانوں کےلیے جہاد کے باب میں نفع مند ہے۔
چنانچہ اگر اس سے کہا جائے: یہ تو تیرے لیے جائز نہیں کہ تو اس مال کے کسی بھی حصے
کی لوگوں سے وصولی کرے، تجھے تو چاہیے اس رسال داری سے ہاتھ ہی اٹھا لے، اور وہ اس
(فتوىٰ پر عمل کرتے ہوئے) یہ (منصب) چھوڑ آئے، جو کسی ایسے شخص کے ہاتھ لگے جو ظلم
پر عازم ہے اور مسلمانوں کےلیے چنداں فائدہ مند نہیں: تو ایسا فتوىٰ دینے والا غلط
اور دین کے حقائق سے جاہل ہے۔ حق یہ ہے کہ (یہاں) تُرک اور عرب رسال داروں کا
ہی – جو کہ دوسروں سے بہتر، مسلمانوں کے
حق میں فائدہ مند تر اور عدل کے قریب تر ہیں – اپنا بس چلنے کی حد تک ظلم میں
تخفیف کرتے ہوئے – ان جاگیرداری مناصب پر برقرار رہنا مسلمانوں کے حق میں کہیں
بہتر ہے بنسبت اس بات کے کہ یہ رسال داریاں ان لوگوں کے ہاتھ لگ جائیں جو فائدہ
دینے میں ان سے کمتر ہیں اور ظلم کرنے میں بڑھ کر۔ اِن رسال داروں میں وہ سب لوگ جو (حق اور عدل کےلیے) بس چلنے کی حد
تک اپنا زور صرف کیے ہوئے ہیں، جتنی خیر
وہ کرتے ہیں اس پر اللہ ان کو جزائے خیر دینے والا ہے ، اور جس بات سے وہ عاجز
رہے، اس پر اللہ ان کی پکڑ کرنے والا نہیں۔ ایسے منصب دار جو محصولات وصول کریں
اور (متعلقہ مدوں میں) انہیں خرچ کریں، اس حال میں کہ جب یہی ہو سکتا ہو، تو ان کا
یہ (ذمہ داریاں) چھوڑ بیٹھنا اس (موجودہ) شر سے کہیں بڑا شر لانے کا موجب ہو گا۔
واللہ اعلم
حوالہ: مجموع فتاوى
ابن تیمیہؒ ج۳۰ ص ۲۵۶
نوٹ: مجموع الفتاوىٰ
مؤلفہ ابن تیمیہؒ سے دیا گیا یہ اقتباس منجملہ اس علمی مواد کے ہے جو "فقہ
الموازنات" کے زیرعنوان ایقاظ
میں دیا جا رہا ہے۔ یہ تمام مواد یک جا آپ ایقاظ ویب سائٹ کے اس
ضمیمہ پر جا کر لے سکتے ہیں۔