یوم عرفہ کے حوالہ
سے چند اشکالات
تحریر: حامد
کمال الدین
عرفہ کے حوالہ سے، گلوب
پر پائے جانے والے "گھنٹوں کے فرق" کو دلیل سمجھنے والے حضرات سورج اور
چاند کے عمل کو خلط کرتے ہیں۔
بھائی چاند کا کام صرف
"تاریخ" بتانا ہے، اور سورج کا کام "وقت" بتانا۔
"تاریخ" چوبیس گھنٹے میں ایک ہی بار بدلتی ہے؛ اور یہ چاند کی ڈومین ہے۔
"وقت" ہر
گھنٹے اور ہر سیکنڈ بدلتا ہے؛ اور یہ سورج کی ڈومین ہے۔ چاند کے عمل یعنی
"تاریخ" کو بارہ گھنٹے، یا اٹھارہ یا بیس گھنٹے کے فرق سے کوئی بھی فرق
نہیں پڑتا۔ حتىٰ کہ تیئیس گھنٹے انسٹھ منٹ کے فرق سے بھی "تاریخ" کو
یعنی "ڈیٹ" کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ وجہ ہے؛ انسانوں کے ہاں
"گھنٹوں" کے خاصے خاصے فرق کے باوجود پوری زمین پر "ڈیٹ" ایک
ہی ہوتی ہے۔ پوری زمین پر "بدھ" ایک ہی دن ہوتا ہے، فرق ہو گا تو بس
"گھنٹوں" کا؛ اور اس "گھنٹوں کے فرق" سے، چاہے وہ کتنا بھی
ہو، روئے زمین پر "بدھ" کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ "جمعرات" دنیا
میں ایک ہی دن ہو گی۔ "جمعہ" دنیا کو ایک ہی دن کرنے میں کبھی کوئی
مسئلہ نہیں آیا۔ "یکم جنوری" پورے روئے زمین پر "یکم جنوری"
ہی ہوتا ہے۔ کبھی روئےزمین پر دو "ڈیٹس" نہیں ہوئیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ
چونکہ ایک ملک میں ابھی ناشتے کا وقت ہے اور دوسرے ملک میں عین اسی لمحے عشائیے کا
وقت، لہٰذا دو ڈیٹس کر دیتے ہیں!!! "نیو ایئر" کی رات چوبیس گھنٹے میں
پورے عالم پر اپنا چکر پورا کر لیتی ہے، اور وہ "گھنٹوں کے فرق" کے
باوجود ایک ہی رات کو "نیو ایئر" کی رات مان کر منا لیتے ہیں۔
"کرسمس ایو" ایک ہی شام پوری دنیا میں منا لی جاتی ہے۔ "ڈیٹ کا
فرق" گھنٹوں کے فرق کی "دلیل" سے ہمارے ہی بھلے مانسوں کے ذہنِ رسا
پر منکشف ہوا ہے!
وجہ وہی؛ سورج اور چاند
کے عمل کو خلط کرنا۔ "ڈیٹ" کو "وقت" کے احکام دینا اور
"وقت" کو "ڈیٹ" کے۔
کچھ عرصہ پیشتر، کسی مجلس
میں ایک صاحبِ علم مقامی رؤیت کے وجوب پر اپنے تئیں ایک زبردست دلیل دیتے ہوئے فرمانے
لگے، یہ جو دُور دراز کی رؤیت لے لینے کے قائل ہیں، یہ پھر ظہر بھی تو اُسی وقت
پڑھیں نا جس وقت سعودی عرب میں ظہر پڑھتے ہیں۔ سحری بھی اُسی وقت کریں اور افطاری
بھی! میں نے ان سے پوچھا: لاہور اور فیصل آباد کےلیے تو اغلباً آپ ایک ہی رؤیت
مانتے ہیں نا؟ فرمانے لگے: ہاں۔ میں نے عرض کیا: فیصل آباد اور لاہور کا چند منٹوں
کا فرق ہے، کیا آپ فیصل آباد میں لاہور کے "وقت" پر سحر افطار کریں گے،
اپنی اُسی دلیل سے!؟ انہیں کہنا پڑا: نہیں؟ فیصل آباد میں لاہور کے وقت پر ظہر
پڑھیں گے؟ فرمایا: نہیں۔ اور وہ موٹی وجہ بھی سمجھ گئے کہ وہ سورج اور چاند کے عمل
کو خلط فرما رہے ہیں!
اس لیے حضرات! یہ جو بارہ
بارہ یا سولہ سولہ یا اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کے فرق کی بڑی زبردست سی
"دلیل" دے رہے ہیں، یہ وہی ہیں جو چاند کو سورج کا کام سونپنا چاہتے ہیں
اور سورج کو چاند کا!
اور یہ کس نے کہا کہ عرفہ
سے حجاج کے کوچ کر جانے کا اگر "ٹائم" ہو گیا ہے، تو زمین کے ان گوشوں
میں جہاں ابھی صبح ہے، "دن" البتہ جمعرات ہی ہے، تو اَب ان گوشوں کے لوگ
روزہ نہیں رکھ سکتے؛ کیونکہ حاجی عرفہ سے کوچ کر کے جا چکے ہیں؟ ارے کس نے کہا
معاملے کا تعلق "وقت" سے ہے؟ "ڈیٹ" سے ہے حضرات؛ اور وہ تو
نہیں بدلی۔ جیسا کہ ہم نے کہا: یومِ عرفہ کوئی "وقت" نہیں بلکہ ایک
تاریخ یعنی ایک ڈیٹ ہے، جو چوبیس گھنٹے میں پورے گلوب پر لازماً گزر جائے گی۔
چنانچہ عرفہ اِس سال اگر – مثال کے طور پر – جمعرات کو ہے، تو فیجی کے لوگ جس دن
کو "جمعرات" کہتے ہیں، اس دن کو یومِ عرفہ ماننا ان کےلیے بالکل بھی
کوئی مسئلہ نہیں۔ اور روزے وغیرہ کے حوالے سے عرفہ کا "وقت" نہیں عرفہ
کا "دن" matter کرتا
ہے؛ اور "دن" چوبیس گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ ورنہ اگر "وقت" کی بات
ہو تو وقت تو مکہ اور مدینہ کا تھوڑا سا مختلف ہو سکتا ہے۔ مکہ اور قصیم کا مختلف
ہو سکتا ہے۔ مکہ اور نجران کا مختلف ہو سکتا ہے۔ "وقت" کو آپ مسئلہ ہی
کیوں بناتے ہیں؟ "ڈیٹ" کی بات کریں نا؛ کیونکہ بحث "ڈیٹ" کی
ہے۔
*****
براہ کرم نوٹ کر لیا
جائے، "اختلافِ مطالع" یا "اتحاد مطالع" دونوں علماء کے قول
ہیں۔ بحث یہ بالکل نہیں ہے۔ جو جو شخص جس جس قول پر مطمئن ہے، وہ اسی پر عمل کرے۔
ان مسائل میں بہت گنجائش ہے۔ ہم نے صرف اس خلطِ مبحث کا رد کیا ہے جو گلوب پر پائے
جانے والے "وقت کے فرق" کو گلوب پر "ایک ہی تاریخ" ہو سکنے کے
خلاف اپنے تئیں دلیل سمجھ کر لوگوں کو خاموش کروا رہے ہیں۔ باقی، کریں وہی جو آپ
کے اعتماد کا عالم آپ کو بتائے۔
*****
پس نوشت:
ایک سوال: کیلیفورنیا اور نیوزی لینڈ کا فرق
(سوال ذرا طویل ہے، لہٰذا
کامنٹ
سیکشن میں دیے ہوئے لنک سے ہی وہ پڑھ لیا جائے)۔ Syed Warsi
ج:
فی الوقت تو گفتگو عرفہ
کے روزے سے متعلق ہے۔ اور چونکہ حجاج کا وقوفِ عرفہ کا دن سب کو پیشگی معلوم ہوتا
ہے؛ اس لیے گلوب پر جیسے جیسے "جمعرات" آتی جائے گی ویسے ویسے وہاں کے
لوگ روزہ رکھ لیں گے۔ لہٰذا کوئی اشکال نہیں۔
اور ہم بھی صرف
"عرفہ" کے حوالے سے ہی یہ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق وقوفِ عرفہ سے ہے۔ کم
از کم یہ ایک رائے ضرور ہے جیسا کہ شیخ ابن باز کی سربراہی میں اللجنۃ الدائمۃ کے
فتوىٰ سے ظاہر ہے۔ آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہ اسے ایک رائے بھی
نہ مانیں۔ غرض لجنۃ کے اس فتوىٰ پر عمل کرتے ہوئے جو لوگ گلوب پر
"جمعرات" کا روزہ رکھیں گے ان پر ایسا کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا جو آپ
کے سوال میں ذکر ہوا۔
رہ گیا "عرفہ"
کے علاوہ مسائل تو اس میں بھی بےشک ہم ایک رائے رکھتے ہیں، لیکن فی الوقت ان میں
پڑنا کچھ غیر ضروری بحثوں کو اٹھانے کا موجب ہو گا۔ مختصر یہ کہ: مثال کے طور پر
سوموار کو اگر کہیں اقصائے مغرب میں چاند نظر آنے کی اطلاع ملی، درحالیکہ آپ اقصائے
مشرق میں رہنے کے باعث سوموار کے دن کا کچھ حصہ گزار چکے ہیں، تو "اتحادِ
مطالع" کی رائے پر چلنے والے حضرات کے ہاں: اس کا وہی حکم ہو گا جو حدیث میں
چاند کی "لیٹ اطلاع" ملنے سے متعلق بیان ہوا۔ یعنی رمضان کی صورت میں آپ
امساک کریں گے۔ اور فطر کی صورت میں، آپ فطر کر لیں گے البتہ نمازِ عید اگلے دن
پڑھ لیں گے۔ گو، جیسا کہ آپ نے خود فرمایا، ایسا کبھی کبھار ہی ہو گا۔ حدیث میں
البتہ "رؤیت کی لیٹ اطلاع" کےلیے رہنمائی موجود ہے۔
رہ گیا آپ کا یہ فرمانا
کہ "مطالع" کے لحاظ سے کرہٴ ارض کے کچھ زون بنا لینے چاہییں، تو
"اتحادِ مطالع" کی رائے رکھنے والے فریق کے ہاں تو اس کی ضرورت نہیں،
اور وہ تو اس مسئلے کا وہی حل پیش کریں گے جو اوپر بیان ہوا۔ البتہ "اختلافِ
مطالع" کی رائے رکھنے والے فریق کو یہ لازماً کرنا چاہیے۔ یعنی
"مطالع" کی کوئی طبعی اور معقول تقسیم۔ کیونکہ اس وقت تومعاملہ صرف
"نیشنل بارڈرز" کی بنیاد پر چل رہا ہے، جو کہیں پر چند میل مربع کا ہو
سکتا ہے تو کہیں پر لاکھوں میل مربع کا۔ اندازہ کر لیں کہاں چند میل اور کہاں
لاکھوں میل۔ نیز یہ سکڑنے پھیلنے والی چیز ہے؛ جبکہ ہماری عبادات ثابت و غیر
متبدل۔ طبعی مطالع تو چلیں ضرور ایک چیز ہو گی؛ لیکن چاند نامی مخلوق بارڈرز کی
پابند کیسے؟ "بارڈر" کے چند گز پار کے کلمہ گو لاکھ کہتے رہیں کہ ہم نے
چاند دیکھ لیا، آپ کےلیے وہ کوئی معنىٰ اور حجت ہی نہیں رکھتا۔ ہاں پشاور میں
بیٹھے ہوئے کراچی کا اور امرتسر میں بیٹھے ہوئے کلکتہ کا – یعنی ہزاروں کلومیٹر
دور کا – چاند آپ کےلیے حجت ہو جاتا ہے! امریکہ میں نیویارک (ایسٹ کوسٹ) اور
کیلیفورنیا (ویسٹ کوسٹ) کے مابین پورے تین ٹائم زونز کا فاصلہ ہے (4689 کلومیٹر) ،
جو کہ مدینہ و دمشق کے اُس فاصلے (1271 کلومیٹر) سے چار گنا ہے جو حدیثِ کُریب میں
مذکور ہوا! اور جس سے ہمارے "اختلافِ مطالع" والے حضرات چاندوں کا فرق
ثابت کر دیا کرتے ہیں! محض اس لیے کہ نیویارک اور کیلی فورنیا کا – تین ٹائم زون
کا فاصلہ رکھنے کے باوجود – بارڈر ایک ہے!!!
بنابریں؛ مطالع کی کوئی
معقول اور طبعی جغرافیائی حدبندی "اختلافِ مطالع" والے حضرات پر ہی قرض
ٹھہرتی ہے نہ کہ ہم "اتحادِ مطالع" والے فریق پر۔ فی الحال تو فریقِ اول
- عملی حوالے سے - "مطالع" کے اختلاف پر نہیں "سیاستوں/بارڈروں"
کے اختلاف پر ہے۔ کل کو یہ دو ملک ایک ہو جائیں تو ہماری عبادات کے دن بدل جائیں؟
اور کوئی ایک ملک خدانخواستہ دو یا تین ہو جائے تو ہماری عبادات کے دن اُکھڑ کر
کچھ سے کچھ ہو جائیں!!؟ قصہ کوتاہ، "اختلافِ مطالع" والے فریق کو ضرور
کوئی طبعی زون بنانے چاہییں، جو کہ تاحال ہمیں نظر نہیں آتے۔