فصل3
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
"مغضوب علیھم"
اور "ضالین" کا بیان
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ:
أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي
المَسْجِدِ فَقَالَ القَوْمُ: هَذَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ وَجِئْتُ بِغَيْرِ
أَمَانٍ وَلَا كِتَابٍ، فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَيْهِ أَخَذَ بِيَدِي، وَقَدْ كَانَ
قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ: «إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ يَدَهُ فِي يَدِي»
، قَالَ: فَقَامَ فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ وَصَبِيٌّ مَعَهَا، فَقَالَا: إِنَّ
لَنَا إِلَيْكَ حَاجَةً. فَقَامَ مَعَهُمَا حَتَّى قَضَى حَاجَتَهُمَا، ثُمَّ
أَخَذَ بِيَدِي حَتَّى أَتَى بِي دَارَهُ، فَأَلْقَتْ لَهُ الوَلِيدَةُ وِسَادَةً
فَجَلَسَ عَلَيْهَا، وَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى
عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا يُفِرُّكَ أَنْ تَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
فَهَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلَهٍ سِوَى اللَّهِ؟» . قَالَ: قُلْتُ: لَا. قَالَ: ثُمَّ
تَكَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ: «إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ اللَّهُ أَكْبَرُ،
وَتَعْلَمُ شَيْئًا أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «فَإِنَّ
اليَهُودَ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ، وَإِنَّ النَّصَارَى ضُلَّالٌ» قَالَ:
قُلْتُ: فَإِنِّي حَنِيْفٌ مُسْلِمٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَجْهَهُ تَبَسَّطَ
فَرَحًا۔
عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا، آپؐ مسجد میں
تشریف فرما تھے۔ لوگوں نے کہا: یہ عدی بن حاتم ہے، جبکہ میں بغیر کسی امان یا
معاہدے کے آیا تھا۔ مجھے آپ کے پاس لے جایا گیا۔ پیش ازیں آپﷺ (میرے بارے میں)
فرما چکے تھے: میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا۔ کہا:
آپﷺ وہاں سے اٹھے۔ (راستے میں) آپؐ کو ایک عورت اور بچہ ملے اور کہنے لگے: ہمیں آپ
کے ساتھ ایک کام ہے۔ آپؐ رک کر ان کے پاس کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کی ضرورت پوری
کی۔ پھر آپؐ نے مجھے ہاتھ سے پکڑا، یہاں تک کہ اپنے گھر لے گئے۔ بچی نے آپؐ کے آگے
ایک تکیہ لا دھرا۔ آپؐ اس پر تشریف فرما ہوئے۔ میں آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔ تب آپ
نے اللہ کی حمد و ثناء کی اور فرمایا: یہ کہنے سے کیوں بھاگتے ہو کہ اللہ کے سوا
کوئی الٰہ نہیں؛ کیا اللہ کے سوا کسی الٰہ کو جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔
فرمایا: تم یہ کہنے سے بھاگتے ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے؛ تو کیا کسی کو جانتے ہو جو
اللہ سے بڑا ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: تو
جان رکھو: یہود ہیں مغضوبٌ علیھم۔ اور نصاریٰ ہیں ضالین۔ میں نے عرض
کیا: تو میں مسلم حنیف ہوتا ہوں۔ میں نے دیکھا آپؐ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا ہے‘‘۔
یہاں حدیث میں جو معنیٰ وارِد ہوا، اس پر
خود کتاب اللہ کے اندر دلالت موجود ہے:
یہود کا
’’مغضوب علیھم‘‘ ہونا.. قرآن سے دلالت:
قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ
بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ
عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ (المائدۃ: 60)
پھر کہو "کیا میں اُن
لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ
جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے،
جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی"۔
اوپر کی آیت کا موضوع یہود ہیں، جیسا
کہ سیاقِ کلام سے واضح ہے۔
اسی طرح فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَى
الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَا
مِنْهُمْ (المجادلۃ: 14)
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو
ایسوں کے رفیق ہوئے جن پر اللہ کا غضب ہے؟ یہ (درحقیقت) نہ تم میں سے ہیں اور نہ اُن
میں سے۔
اوپر کی آیت منافقین کے بارے میں ہے،
جو یہود کے ساتھ یارانے گانٹھتے۔ اس پر
اہل تفسیر کا اتفاق ہے، اور سیاقِ کلام بھی اسی پر دالّ۔
نیز یہ آیت:
ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ
الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ
النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ (آل عمران: 112)
یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر
ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو اور
بات۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں۔
یہ ہوا یہود سے متعلق۔
نصاریٰ کا ’’ضالین‘‘ ہونا.. قرآن سے
دلالت:
جبکہ نصاریٰ کو ضالین قرار دینے سے
متعلق سورۃ المائدۃ میں مضمون شروع ہوا:
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ
قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ (المائدۃ: 73)
یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے
جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے۔
اور یہاں جا کر اختتام پزیر ہوا:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ
لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ
قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (المائدۃ: 77)
تم فرماؤ اے کتاب والو! اپنے
دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ایسے لوگوں کی آراء پر نہ چلو جو پہلے گمراہ ہوچکے
اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔
سیاقِ کلام: نصاریٰ سے خطاب ہے۔ اِن کو
غلو سےمنع کیا جا رہا ہے؛ جس کا مطلب ہے حد سے گزر جانا۔ اسی غلو اور بےقیدی پر
انہیں سورۃ النساء میں ٹوکا جا رہا ہے:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا
تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا
الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ (النساء: 171)
اے کتاب والو! اپنے دین میں غلو
نہ کرو اور اللہ پر نہ کہو مگر سچ مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا ا لله کا رسول ہی ہے
اور اس کا ایک کلمہ۔
چنانچہ یہود حق سے پیچھے رہنے والے
ہوئے اور نصاریٰ حق سے آگے بڑھ جانے والے (غلو کرنے والے)۔
ایک علم کا فساد، دوسرا عمل کا فساد
یہود کو ’’غضب‘‘ سے اور نصاریٰ کو
’’ضلال‘‘ سے نسبت رہی۔ اس کے اسباب ظاہری بھی ہوئے اور باطنی بھی؛ حس کا بیان یہاں
ممکن نہیں۔ مسئلہ کا لب لباب یہ کہ:
o یہود کا کفر زیادہ اس جہت سے کہ یہاں علم تھا تو عمل مفقود۔
یا تو یہ عملاً حق کے پیروکار نہ رہے۔ یا عملاً اور قولاً ہر دو صورت میں۔
o جبکہ نصاریٰ کا کفر زیادہ اس جہت سے کہ یہاں عمل تھا تو علم
مفقود۔ بڑی بڑی محنت یہاں ایسی عبادات پر رہی جن پر خدا نے کوئی شریعت ہی اتار
نہیں رکھی۔ یہ اللہ پر بغیر علم کے باتیں
تھوپتے رہے۔
یہ وجہ ہے کہ سفیان بن عیینہ وغیرہ
سلف کہا کرتے تھے:
جو ہمارے علماء میں سے خراب نکلا اس میں یہود کے ساتھ
ایک مشابہت ہے۔ اور جو ہمارے عبادت گزاروں میں سے خراب نکلا اس میں نصاریٰ کے ایک
مشابہت۔
مسئلہ کی تفصیل میں جانے کا یہ مقام
نہیں۔
(کتاب کا صفحہ 68)