عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Monday, December 2,2024 | 1446, جُمادى الآخرة 0
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
معجزے کی سائنسی تشریح
:عنوان

. ایقاظ ٹائم لائن :کیٹیگری
ذيشان وڑائچ :مصنف

معجزے کی سائنسی تشریح!

                                                 تحریر : ذی شان وڑائچ  

جب سے انسانوں کی ایک بڑی آبادی نے اس مادی دنیا کو سمجھنے پر زور دیا اور اس کو اپنے فوائد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو مذاہب پر بہت سارے نئے اعتراضات کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی لے کر حاضر ہوا۔ اس کے نتیجے میں کچھ مسلمانوں کو جوابات دینے میں کچھ زیادہ ہی دقتیں پیش آئیں اور کچھ مخلص مسلمانوں نے تو جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے دین کی بنیادوں پر ہی انتہائی قسم کے سمجھوتے کر لئے۔ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کا ان جدید علوم کی حقیقت سے نابلد ہونا اور خود اعتمادی کی شدید کمی تھی جبکہ سائنسی علوم کو پیش کرنے والے اپنی علمیت پر بہت پر اعتماد تھے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں شکوک و شبہات کا بخوبی جواب دے دیا گیا لیکن ہمارا ایک طبقہ ابھی بھی شکوک و شبہات میں ہی جی رہا ہے۔

چونکہ باطل ایک ہی حالت میں نہیں رہتا، بھیس بدل بدل کر اور مختلف وسائل کو استعمال کر کے آتا ہے، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ جو پرانے سوالات نئی نسل کے سامنے بالکل نئے انداز میں سوشیل میڈیا کے ذریعے سے سامنے آرہے ہیں ان کا اسی طرح جواب دیا جائے۔

تو سوال یہ ہے کہ آیا معجزات کا صادر ہونا سائنس سے مطابقت رکھتا ہے؟

اس بارے میں پہلے تو معجزات و کرامات اور سائنس کی حقیقت کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے۔

کلام پاک میں انبیاء کے معجزات کے جو واقعات پیش کئے گئے ہیں ان کو وسیع تر معنوں میں دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اول یہ کہ جب رسول اپنی نبوت کا دعوی پیش کرتے تھے تو یہ ایک بہت بڑا دعوی ہوتا تھا۔ ایک انسان جب یہ دعوی کرے کہ میں رب العالمین کا نمائندہ ہوں اور اس کی طرف سے اس کے احکامات سنانے جارہا ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ رسول کے اس دعوے کی دلیل کیا ہے۔ اس کے لئے اگرچہ رسول کی سیرت، اخلاق، طبعی سلامت روی اور رسول کا سنایا ہوا پیغام خود سے دلیل ہوتا تھا لیکن ہر ذہن اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتا تھا اس لئے رسول کے ذریعے کوئی ایسا خرق عادت واقعہ پیش کیا جاتا جو کہ معلوم فطری قوانین کے مطابق ناممکن ہوتا۔ لیکن اس بات کا فیصلہ کہ آیا ایسا کوئی خرق عادت واقعہ پیش کرنا ضروری ہے یا نہیں اس کا فیصلہ رب العالمین خود کرتا تھا۔ اور اس واقعہ کا اصل فاعل اللہ ہی ہوتا تھا۔ مثلاً عیسی، صالح اور موسی علیہم السلام سے متعلق قرآن پاک میں ایسے واقعات کا ذکر ہے، لیکن نوح، ہود، لوط علیہم السلام کے معاملے میں ایسے کسی واقعے کا ذکر نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایک اور بات سمجھنے کی ہے کہ یہ خرق عادت واقعات خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے پیش نہیں کئے گئے، بلکہ اصلاً رسول کو رسول ہونے کی دلیل کے طور پر اور  ضمناً رسول کی تعلیمات کے حق ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کئے گئے۔ یہاں پر یہ واضح ہو کہ کسی نبی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے خرق عادت کام کر کے دکھا سکتا ہے۔

دوسری قسم کے معجزات وہ ہیں جو کہ اللہ کی طرف سے کسی نبی کی مدد و نصرت کے لئے پیش آئے۔ اس مدد میں نبی کو تعلیم دینا، نبی کے دل میں اطمینان و سکینت کا پیدا کرنا، نبی کو دشمنوں کی دشمنی سے بچانا یا نبی کی کسی خاص ضرورت کو خرق عادت طریقے سے پورا کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس قسم کا معجزہ بھی کسی انسان کی مرضی پر منحصر نہیں ہے کہ وہ جب چاہے اس کو پبلک مقامات پر یا لیباریٹری میں اس کا مظاہرہ کر کے دکھائے۔

کچھ معجزات ان دونوں قسموں پر محیط ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہونا۔

کرامات ان خرق عادت چیزوں کو کہا جاتا ہے جو کہ کسی غیر نبی کے ذریعے سے پیش آئے۔  چونکہ کسی غیر نبی کےلئے پہلی قسم کی خرق عادت چیز کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے کرامات کی شکل میں صرف دوسری قسم باقی رہ جاتی ہے۔

جدید سائنس علمیت کی ایک شاخ ہے جو کہ مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہے۔ کسی چیز کے سائنس ہونے کے لئے ضروری ہے کہ علم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر ہو۔ اور ان مشاہدات اور تجربات کا صرف ایک بار ہونا کافی نہیں ہے بلکہ بقدر ضرورت اس کو دہرانا بھی ضروری ہے۔ اور مزید یہ کہ ان مشاہدات اور تجربات سے جو علمی نتائج اخذ کئے جاتے ہیں اس کی بنیاد پر آگے کی پیشن گوئی بھی ممکن ہو۔ علم و تحقیق میں سہولت کے لئے سائنس کچھ بنیادی اصول بھی طئے کرتا ہے۔ مثلاً یہ دعوی کہ مادہ اور قوت نہ پیدا کی جاسکتی ہے اور ختم کی جاسکتی ہے۔ اس کائنات کے اندر جو بھی مادہ اور قوت ہے وہی چیز اپنی شکلیں تبدیل کرتی رہتی ہے۔ سائنس کا یہ بھی دعوی ہے کہ کائنات ایک بند نظام (Closed system)ہے۔ یعنی سائنس کا دعوی ہے کہ اس کائنات کے اندر جو بھی ہوتا ہے اس کی علت اسی کائنات کے اندر موجود ہے۔ واضح ہو کہ یہ دونوں نکات یعنی مادہ اور قوت کا کائنات کے اندر محدود ہونا اور کائنات کا ایک بند نظام ہونا، وہ بنیادی مفروضات ہیں جن پر سائنسی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔

سائنس کے یہ دونوں اصول سائنسی تحقیق کیلئے بہت بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر سائنسی تحقیق کے لئے پہلے ہی سے یہ اصول نہ گھڑے ہوتے تو اتنی سائنسی ترقی ممکن نہ ہوتی۔ اگر انسان ہر واقعے کو کائنات سے باہر کی کسی با ارادہ ہستی سے منسوب کرتا تو پھر وہ قواعد اور قوانین جن کے تحت کائنات چلتی ہے کا دریافت کیا جانا انتہائی مشکل ہوتا۔ پھر انسان کسی قانون کی دریافت کے بجائے اس بیرونی قوت کے ارادے کو معلوم کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ سائنسی تحقیق میں تجربہ و مشاہدہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے اس لئے سائنس کا بہت بڑا حصہ استقرائی منطق پر مبنی ہے۔ یعنی سائنسدان ایک نتیجے کو اخذ کرنے کیلئے مختلف تجربات کر کے اس کو دہراتے ہیں اور جب تمام تجربات اس نتیجے کی تائید کرتے ہیں تو اس نتیجے کی توثیق کردیتے ہیں کہ ہمیشہ اس تجربے کا لازمی طور پر یہی نتیجہ نکلے گا۔

اس طرز تحقیق میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ محدود تجربے کو بنیاد بنا کر لا محدود نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔

اس طرز تحقیق کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک نتیجے کی وجہ معلوم ہوئے بغیر صرف تجربے کی بنیاد پر اس نتیجے کو قبول کر لیا جاتا ہے۔

مثلا جب نیوٹن نے یہ دیکھا کہ درخت سے سیب ہمیشہ نیچے گرتا ہے، اونچائی پر چڑھنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ سیارے سورج کے گرد گھومتے ہوئے اپنے مدار سے باہر نہیں نکل پاتے اگرچہ عام طور پر چیزیں خط مستقیم میں ہی سفر کرتی ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مادہ اپنی کمیت کے مطابق دوسرے مادے کو کھینچتا ہے۔ اس کھینچنے کی خصوصیت کو کشش ثقل کہتے ہیں۔ اور اسی بنیاد پر ہم علم ریاضی کے فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے کسی جسم کی حرکت کے بارے میں پہلے ہی سے بتا سکتے ہیں اس کی حرکت کیسی ہوگی۔ لیکن اس تحقیق سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ مادہ کیوں دوسرے مادے کو کھینچتا ہے۔

بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو کہ ہمارے شعور سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، لیکن ہم اوپر بیان کئے گئے سائنسی علوم کے دائرے میں اس کی تشریح نہیں کرپاتے۔ مثلاً یہ سوال کہ کائنات ہمیشہ سے وجود رکھتی ہے یا کسی محدود وقت سے پہلے بنی، کائنات کا کوئی خالق ہے یا نہیں، انسانی شعور کی کیا حقیقت ہے؟ آیا یہ ہمارے حیاتیاتی دماغ کا ہی حصہ ہے یا اس سے خارج میں کوئی چیز۔ اس طرح کے معاملے میں اپنی عقل کو استعمال کر کے غور و فکر کیا جاتا ہے اور استخراجی منطق کو استعمال کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے مشاہدے اور تجربے کا بہت محدود ہونا ہے۔ اس کو معقولات کہتے ہیں۔

علم فلسفہ کی ایک بنیادی بحث یہ ہے کہ علم کا منبع تجربات ہیں یا معقولات۔ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے، لیکن یہاں پر اس بات کی وضاحت کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سائنسی علوم کی کچھ حدود ہیں۔ سائنس فی نفسہ  تمام علوم کا احاطہ نہیں کرتی۔

چونکہ سائنس اوپر بیان کردہ کچھ بنیادی مفروضات رکھتا ہے اس لئے ہم کبھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ سائنسی دریافت سے جو علم حاصل ہوا وہ حتمی ہے۔

چونکہ سائنس محدود تجربات سے لاحدود نتائج اخذ کرتی ہے اس کی وجہ سے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ اگر حالات یا دئیے  گئے پیرامیٹر میں کوئی جوہری تبدیلی آگئی تو نتیجہ ہمارے علم کے مطابق ہی نکلے گا یا نہیں۔

چونکہ سائنس کسی نتیجہ کی وجہ بتانے سے قاصر ہے اس لئے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ جو چیز سائنس کے نزدیک آج حتمی کل بھی حتمی ہی رہے گی۔ سائنس کسی ظاہرے کی وجہ بتاتی ہے تو پھر اس کے جواب میں ایک اور "کیوں" چھپا ہوا ہوتا ہے۔ جب اس نئے کیوں کا جواب ملتا ہے تو اس کے پیچھے ایک اور کیوں ضرور ہوتا ہے۔

سائنس کی غیر یقینیت کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ نیوٹین نے اپنے تجربات کی بناء  پر کشش ثقل (Newton’s law of gravitation)دریافت کیا۔ اسی طرح نیوٹن نے حرکیات کے تین مشہور کلیے (Newton’s laws of motion)دریافت کئے۔ جس کی وجہ سے نیوٹن کو دنیا کا سب سے عظیم تر سائنسدان مانا جاتا ہے۔

لیکن جب تکنالوجی میں زیادہ ترقی ہونے کی وجہ سے درست ترین پیمائش کے نئے طریقے ایجاد ہوئے تو پتہ چلا کہ نیوٹن کے کلیات سے اخذ ہونے والے نتائج میں واضح طور پر غلطی موجود ہے جو کہ نئے پیمائش کے طریقوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں آئنسٹاین نے دو نظریات پیش کئے جنہیں Special theory of relativity  اور General theory of relativity کا نام دیا جاتا ہے۔ عام نظریہ اضافت یا General theory of relativity  کے مطابق جہاں پر بھی مادہ ہوتا ہے وہاں پر خلا مادے کی طرف ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ویسے تو ایک جسم body خلا میں سیدھ میں ہی جارہا ہوتا ہے لیکن چونکہ خلا ہی ٹیڑھا ہوگیا ہے اس لئے وہ مادے کی طرف جھک جاتا ہے۔

اسی طرح حرکیاتی تحقیق کرتے ہوئے پتہ چلا کہ جب کوئی جسم body بہت زیادہ رفتار سے حرکت کرتی ہے تو نیوٹن کا دیا گیا فارمولا فیل ہوجاتا ہے۔ آئنسٹائن نے تحقیق کر کے بتایا کہ body کی رفتار روشنی کی رفتار سے جتنی زیادہ قریب ہوگی نیوٹن کے فارمولے میں اتنی زیادہ غلطی  ہوجائے گی۔ اس کے حل کےلئے آئنسٹائن  نےنئی تحقیق پیش کی جسے خاص نظریہ اضافت کہا جاتا ہے ۔ اس نظریے کے مطابق کسی جسم کی رفتار کی بنیاد پر فاصلہ اور وقت سکڑ کر چھوٹے ہوجاتے ہیں۔اسی نظریے کا ایک نتیجہ یہ ہے  کہ وقت بھی خلا کا ایک بعد (Dimension)  ہے۔ یعنی جس طرح لمبائی چوڑائی اور اونچائی خلا کے ابعاد ہیں اسی طرح وقت بھی خلا کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسی نظریے کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مادہ اور قوت ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ مادے کو قوت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور قوت کو مادے میں۔ اسی نظریے کو بنیاد بنا کر ایٹمی تحقیق کی گئی اور یورینیم نامی مادے کو جزوی طور پر قوت میں تبدیل کردیا گیا۔ جس کو ایٹم بم اور نیوکلیر ریکٹر میں استعال کیا جاتا ہے۔

 ان دونوں نظریات نے سائنسی دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کردیا جس کی وجہ سے انسان وجود، وقت، خلا اور مادے کو بالکل ہی دوسرے انداز میں دیکھنے کے قابل بن گیا۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی جان لیں کہ آئنسٹائن کے ہی دور میں نظریہ اضافت سے آگے بڑھ کر ایک تھیوری ایجاد ہوئی جسے کونٹم تھیوری Quantum Theory کہتے ہیں۔ اس نے مزید کچھ گتھیاں سلجھائیں تو مزید کچھ الجھنیں پیدا کیں۔قوانٹم فزکس دراصل مادے اور قوت کے بنیادی ذرات سے متعلق نئی تحقیق تھی۔ اب تک سائنس کا نظریہ تھا کہ کائنات میں موجود ہر چیز ایک لگے بندھے قاعدے کے مطابق چلتی ہےاور اگر ہمیں ان قواعد کا علم ہو تو ہر ہر ذرے کی حرکت یا رویے کے بارے میں بالکل صحیح پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔ لیکن کوانٹم فزکس نے ثابت کیا کہ انتہائی بنیادی ذرات کی سطح پر مادے کا رویہ بے ترتیب اور غیر متعین  (Random) ہوتا ہے۔ ہاں ان ذرات کے مجموعی رویے یا حرکت کے اوسط کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

 آئنسٹائن کے عام نظریہ اضافت اور قوانٹم تھیوری میں تناقض ہے اور اب تک اس تناقض کو دور کرنے کی راہ نہیں نکل سکی۔ اس تناقض کو دور کرنے کے لئے سائنسدانوں کی تجویز یہ ہے کہ خلا کے چار ابعاد(Dimensions)  کو ماننے کے بجائے  مزید ابعاد کو مانا جائے جن کا ادراک انسان کا شعور نہیں کرسکتا۔

اوپر بیان کردہ کشش ثقل کی مثال سے کچھ باتیں واضح ہوتی ہے۔

چیزوں کا نیچے گرنا عام مشاہدے کی چیز ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے۔ جب اشیاء اورقوانین فطرت کے بارے میں انسان متجسس ہوا تو اس وقت کی معلومات کے پیش نظر کشش ثقل کا نظریہ تیا ر ہوا اور تقریباً تین صدیوں تک اس کو قابل قبول سمجھا گیا۔

لیکن جب نئی معلومات اور پیمائش کے آلے تیار ہوئےتو جو نظریہ تین صدیوں تک قابل قبول تھا اس کی غلطی واضح ہوگئی۔

اس کے بعد نئے نظریے کی تدوین ہوئی جو کہ ریاضیاتی حساب سے تو بالکل صحیح ہے لیکن کونٹم فزکس کا نظریہ اس نظریہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں نظریات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ نظریہ پیش کا گیا کہ خلا کے چار سے زیادہ ابعاد (Dimensions) ہیں۔

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بالکل ہی صحیح ہیں کہ سائنس کی کوئی بھی تحقیق حتمی نہیں ہے۔ جب تک نئی دریافتیں اور نئی معلمومات حاصل ہوتی رہیں گی سائنس اپنے نظریات بدلتی رہے گی۔ ہم کبھی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ ہم یہ دعوی کر سکیں کہ سائنس نے کسی بھی قانون کی مکمل حقیقت دریافت کرلی۔

سائنس کی دریافتوں میں تضاد اور خلا موجود ہوتے ہیں اور سائنس دان ان تضادات میں مطابقت پیدا کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔

چونکہ موجودہ دور کی محیر العقول دریافتوں کی نظیریں تاریخ انسانی میں نہیں ملتی اس لئے کچھ سائنس گرد اس سائنسی ترقی سے شدید متاثر ہوکر یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اس دور میں معقولات غیر ضروری چیز ہیں اور سائنسی طریقہ ہر قسم کی علمی ضرورت کو کفایت کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان محیر العقول دریافتوں کے باوجود یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سائنس کی ہر نئی دریافت قانون فطرت کی ایک پرت کو کھول دیتی ہے اور اس کے نیچے ایک اور پرت ہوتی ہے جو اس بھی زیادہ دبیز ہوتی ہے۔ اس لئے انسانی علوم سے معقولات کو ختم کر کے سائنس کو معقولات کی جگہ دینا ایک بے کار کی کوشش ہے۔ سائنس نے چاہے جتنی ترقی کر لی ہو، ابھی معقولات کا متبادل بننے کا دعوی بہت جلد ہے۔ اس لئے سائنس کا دائرہ اپنی حدود میں ہی رہے گا۔  ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سائنسی ترقی نے ہمارے رہن سہن اور انداز فکر میں بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ لیکن یہ دعوی کہ سائنس کسی بھی چیز کی مکمل حقیقت معلوم کرسکتی ہے ایک بے بنیاد دعوی ہے۔ سائنس آگہی کا ایک آلہ (Tool) ہے جس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

اب آتے ہیں معجزے کی سائنسی توجیہہ پر۔ اس بارے میں دو ممکنہ مؤقف ہوسکتے ہیں۔

ایک یہ کہ جو بھی معجزے ہوئے وہ قانون فطرت کے مطابق ہی ہوئے۔ لیکن چونکہ ہم ابھی قانون فطرت سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کا دعوی کرتے ہیں اس لئے ان معجزات اور معلوم قوانین فطرت کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہاں پر یہ واضح ہوکہ معجزات کے قوانین فطرت کے مطابق ہونے سے معجزے کی اصل حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ مثلاً اگر کوئی کل کو یہ ثابت کرے کہ موسی علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کی سائنسی توجیہہ ممکن ہے پھر بھی ان راستوں کے بننے اور عین موسی علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ عین اسی وقت دریا کے پاس پہونچنے کی ٹائمنگ کی توجیہہ صرف ارادہ خداوندی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ یہ حسن اتفاق بہرحال اخلاقی ہی ہے نہ کہ سائنسی۔

اس بارے میں دوسرا مؤقف یہ ہوسکتا ہے کہ اگرچہ اللہ کے حکم سے کائنات کا ذرہ ذرہ ایک لگے بندھے سائنسی قانون کے مطابق چل رہا ہے، اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کی مخلوقات اللہ کے حکم سے ان قوانین سے انحراف نہیں کرسکتی۔ یہ ماننا کہ تمام مخلوقات قوانین فطرت کے مطابق ہی چلتی ہے اور اس سے انحراف نہیں کرتی، سائنس کا ایک مفروضہ ہے جس کے بغیر سائنس ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ لیکن یہ دعوی کے یہ کلی و بدیہی حقیقت ہے ایک لغو ترین دعوی ہے۔

اس لئے معجزات کی سائنسی توجیہہ دینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ جب سائنس یہ دعوی کرنے کے قابل ہو جائے کہ اس نے کائنات کی تمام حقیقتوں کو دریافت کے لیا  تب سامنے آئے۔ ہم پھر بات کر لیتے ہیں۔

اوپر یہ واضح ہوچکا ہے کہ دونوں قسم کے معجزات میں صاحب معجزہ یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے معجزے دہرا سکتا ہے۔ اس لئے معجزے تجرباتی سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔

اس تناظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائنس کی بنیاد پر معجزے پر اعتراض کرنے والے بنیادی طور پر دو غلطیوں پر اصرار کرتے ہیں۔

اول یہ کہ وہ سائنسی دریافتوں کو حتمی سمجھتے ہیں اور دوم یہ کہ وہ تمام علوم کو نیچرل سائنس کے دائرے کے اندر سمجھتے ہیں۔

اوپر بیان کردہ پہلے مؤقف کو ماننے کی صورت میں یہ بات غیر ثابت شدہ ہوجاتی ہے کہ سائنس اور معجزے میں تناقض موجود ہے۔ اور دوسرے مؤقف کو ماننے کی صورت میں اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ معجزے اور سائنس میں مطابقت پیدا کی جائے۔کسی چیز میں اندرونی تضاد ہونا ایک علیحدہ بات ہے اور کسی چیز کا سائنس کے مطابق نہ ہونا ایک الگ بات۔

اس سطح پر جاکر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معجزے کو دوبارہ تجربہ کر کے دہرایا نہ جائے تو پھر معجزے کے ماننے کے کیا معنی ہیں۔ اول تو یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ معجزے کو ماننا  کوئی اسلام کی بنیادی دعوت نہیں ہے۔ جن لوگوں نے معجزے کا مشاہدہ کیا ان کے لئے معجزہ نبی کی نبوت کی دلیل ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہم یہ دعوت نہیں دیتے کہ چونکہ نبی  نے شق القمر کا معجزہ کیا ہے یا نبیﷺ نےمعراج کا سفر کیا ہے اس لئے انہیں نبی مانا جائے۔ آج کے دور میں معجزے پر ایمان کی حیثیت ایک عقیدے کی بحث ہے نہ کہ نبوت کی دلیل۔ ہم معجزے کو اس لئے مانتے ہیں کیوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ فطری قوانین جن کی تگ و دو سائنس کرتا ہے وہ اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں اور اللہ چاہے تو جب چاہیں انہیں تبدیل کردے۔ یہاں پر واضح ہو کہ کچھ لوگ سائنسی قانون کو سنت اللہ قرار دے کر یہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ کلام پاک میں سنت اللہ کسی اور ہی چیز کو کہا گیا ہے اس لئے اس بارے میں کسی قسم کی الجھن کا شکار نہیں ہونا  چاہئے۔ سنت اللہ وہی کچھ ہے جس کو اللہ اپنی سنت قرار دے۔

آج کے دور میں ہم اسلام کی دعوت قرآن کی بنیاد پر دیتے ہیں جو کہ خود نبی کا ایک زندہ معجزہ ہے  اور آج بھی قابل مشاہدہ ہے۔ یہ قرآن انسان کی منطقی، جمالیاتی، اخلاقی اور کلامی حس سے اپیل کرتا ہے۔ جو لوگ ہدایت کے لئے حسی معجزات کا تقاضا کرتے ہیں تو دراصل ایمان بالغیب کا انکار کرتے ہیں۔ یعنی ان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز پر ایمان لانا ہے اس کے لئے معقول دلیل نہیں بالکل مشاہدہ ضروری ہے۔ قرآن کےبالکل ہی ابتداء میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ہدایت کےلئے شرط ایمان بالغیب ہے۔ معجزے کے ذریعے مشاہدے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے اللہ کی حکمت یہی رہی کہ اب انسان اپنے شعور، جمالیاتی اور اخلاقی حس کی بنیاد پر ایمان لے آئے۔

ہماری اس بحث سے کچھ نتائج واضح ہو جاتے ہیں۔

۱۔       فی زمانہ ہماری دعوت کی بنیاد حسی معجزات نہیں بلکہ انسانی شعور سے اپیل کی بنیاد پر ہے۔ آج کے دور میں معجزات کی حقیقت ایک عقیدے کے طور پر ہے نہ کی دعوت کی بنیاد کے طور پر۔ معجزے صرف وقتی طور پر غیب کے پردے کو ہٹانے کے لئے تھے۔ ہدایت کے لئے ایمان بالغیب ہی شرط ہے۔

۲۔      کسی چیز کا مشاہدہ یا تجربہ نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ چیز خلاف عقل ہے۔علوم کی بہت ساری جہتیں صرف معقولات پر انحصار کرتی ہیں۔

۲۔     سائنسی اعتبار سے یہ دعوی کرنا درست نہیں ہے کہ سائنس حقیقت کے تمام جوانب سے واقف ہوچکی ہے اس لئے معجزے کے صحیح ہونے کے لئے معلوم سائنسی اصولوں کے مطابق ہونا کوئی ضروری نہیں۔ موجودہ سائنسی علوم میں خود اس کے اندرونی تضادات موجود ہیں۔

۳۔     سائنس انسانی علوم کی صرف ایک جہت ہے۔ انسانی علوم کے کچھ پہلو سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس لئے معجزات کی سائنسی تشریح غیر ضروری ہے۔

۴۔      اسلامی عقیدے کے مطابق معجزات اور کرامات کو کوئی انسان اپنی مرضی سے تجربہ کر کےاس کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے معجزے کو سائنسی تجربہ کر کے ثابت کرنے کوشش عبث ہے۔ جب دعوی ہی موجود نہیں تو ثبوت کی طلب بے معنی ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں
تنقیحات-
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں عرصہ ہوا، ہمارے ایک فیس بک پوسٹر میں استاذ سید قطبؒ کے لیے مصر کے مع۔۔۔
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ ایقاظ ڈیسک یہ صاحب[1]  خود اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ یہ طلبِ عل۔۔۔
جدت پسند: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانے کی کوشش! دنیوی اور اخروی احکام کے خلط سے ’دلیل‘ پکڑنا
ایقاظ ٹائم لائن-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
جدت پسند حضرات کی پریشانی: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانا! دنیوی اور اخروی احکام کے۔۔۔
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟ مدیر ایقاظ اِس مضمون سے متعلق یہ واضح کر دیا جائے: ہمارا مقصد معاشرت۔۔۔
حوثی زیدی نہیں ہیں
ایقاظ ٹائم لائن-
شیخ ناصر القفاری
حوثی زیدی نہیں ہیں تحریر: ناصر بن عبد اللہ القفاری اردو استفادہ: عبد اللہ آدم بعض لوگ ۔۔۔
مسلم ملکوں میں تخریب کاری، استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
مسلم ملکوں میں تخریب کاری استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا ایقاظ کے فائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہ۔۔۔
’اَعراب‘ والا دین یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
’اَعراب والا‘ دین... یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟  عَنْ بُرَيدَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُو۔۔۔
ایمان، ہجرت اور جہاد والا دین
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
               ایمان، ہجرت اور جہاد والادین إ۔۔۔
دبستانِ جدید اور فردپرست رجحانات
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
160 دبستانِ جدید اور "فردپرست" رجح۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز