رؤیتِ ہلال
فرد اور جماعت کے احکام کا فرق
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«الفِطْرُ
يَوْمَ يُفْطِرُ النَّاسُ، وَالأَضْحَى يَوْمَ يُضَحِّي النَّاسُ»
(الترمذی. رقم
الحديث 802. أبواب الصوم، باب: ما جاء فی الفطر والأضحى متی یکون)
حضرت عائشہ سے روایت ہے،
کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے:
’’عیدِفطر اُس دن جس
دن لوگ عیدِفطر کریں۔ عیدِقربان اُس دن جس دن لوگ عیدِقربان کریں‘‘۔
کئی کتبِ حدیث کے اندر یہی حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے:
«الفِطْرُ يَوْمَ
تُفْطِرُ ونَ، وَالأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ»
معنیٰ ان سب احادیث کا ایک ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (دیکھئے: اِرواء
الغلیل حدیث رقم 905 اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم الحدیث 224)۔
سلسلۃ صحیحہ میں، سند کی بحث اور حدیث کو درست قرار دینے کے
بعد، شیخ البانی نے اس حدیث سے ماخوذ ہونے والی فقہ پر کچھ مفید کلام کیا اور اس میں زیادہ تر
متقدمین اہل علم کے کلام سے ہی استشہاد فرمایا ہے۔ موضوع کی ضرورت و افادیت کے پیش
نظر ،اِس بار کی مجلسِ حدیث میں شیخ البانی کا یہ کلام ہی ہم اردو میں نقل کریں گے:
فقه الحديث:
قال
الترمذیُ عقب الحدیث: "وفسر بعض أهل العلم هذا الحديث، فقال: إنما معنى هذا
الصوم والفطر مع الجماعة وعظم الناس".
ترمذی نے، حدیث کے آخر میں، فرمایا: بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: ’’اس کا معنیٰ یہ ہے کہ روزہ اور عید (وغیرہ) جماعت اور لوگوں کے انبوہ کے ساتھ کیا جائے گا‘‘۔
وقال
الصنعاني في " سبل السلام " (2 / 72) : "فيه دليل على أنه يعتبر في
ثبوت العيد الموافقة للناس، وأن المتفرد بمعرفة يوم العيد بالرؤية يجب عليه موافقة
غيره، ويلزمه حكمهم في الصلاة والإفطار والأضحية".
صنعانی نے سبل السلام میں
فرمایا: اس میں دلیل ہے اس بات پر کہ عید کے ثبوت میں لوگوں کی موافقت کرنا ہی
معتبر ہے۔ اور یہ کہ وہ شخص جسے اکیلے ہی رؤیت کے ذریعے عید کا علم ہوا، اس پر
واجب ہے کہ وہ دوسروں کی موافقت میں رہے؛ اس پر دوسروں کا پابند رہنا ہی نماز، عید
اور قربانی میں لازم ہے۔
وذكر معنى
هذا ابن القيم رحمه الله في "تهذيب السنن" (3 / 214)، وقال: "وقيل:
فيه الرد على من يقول إن من عرف طلوع القمر بتقدير حساب المنازل جاز له أن يصوم
ويفطر، دون من لم يعلم، وقيل: إن الشاهد الواحد إذا رأى الهلال ولم يحكم القاضي
بشهادته أنه لا يكون هذا له صوما، كما لم يكن للناس".
ابن القیم نے ’’تہذیب السنن‘‘ میں اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرمایا: اہل علم کا قول ہے: اس (حدیث) میں ایسے شخص پر رد ہے جو یہ کہے کہ جو آدمی چاند کے حساب سے پتہ لگا لے کہ چاند چڑھ گیا ہے اس کےلیے جائز ہے کہ وہ روزہ اور عید کر لے، اور جسے پتہ نہیں وہ نہ کرے۔ (اہل علم کی جانب سے) بیان
کیا گیا کہ اکیلا گواہ اگر چاند دیکھ بھی چکا ہے لیکن قاضی نے اس کی شہادت کے
مطابق فیصلہ نہیں کیا ہے، تو باقی لوگوں کی طرح اس کا اپنا بھی روزہ نہیں ہے۔
وقال أبو
الحسن السندي في "حاشيته على ابن ماجه" بعد أن ذكر حديث أبي هريرة عند
الترمذي: "والظاهر أن معناه أن هذه الأمور ليس للآحاد فيها دخل، وليس لهم
التفرد فيها، بل الأمر فيها إلى الإمام والجماعة، ويجب على الآحاد اتباعهم للإمام
والجماعة، وعلى هذا، فإذا رأى أحد الهلال، ورد الإمام شهادته ينبغي أن لا يثبت في
حقه شيء من هذه الأمور، ويجب عليه أن يتبع الجماعة في ذلك".
ابو الحسن السندھی اپنی ’’حاشیہ بر ابن ماجہ‘‘ میں ابوہریرہ والی ترمذی کی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ظاہر یہ ہے کہ حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ ان امور میں افراد کو کوئی دخل ہی
نہیں ہے۔ فرد کےلیے جائز نہیں کہ وہ اکیلا رہے۔ بلکہ اس معاملہ میں مسئلہ امام اور جماعت پر ہے۔ افراد پر
واجب یہی ہے کہ وہ امام اور جماعت کے پیچھے چلیں۔ بنا بریں؛ پس اگر وہ (فرد) چاند
دیکھے، مگر امام اس کی شہادت رد کر دے، تو لازم ہے کہ خود اس کے حق میں بھی ان
امور میں سے کچھ ثابت نہ ہو۔ اس پر واجب یہی ہے کہ وہ اس معاملہ میں جماعت کے
پیچھے رہے۔
(اہل علم کی یہ نقول دینے کے بعد البانی کہتے ہیں):
میں کہتا ہوں: یہی معنیٰ اس حدیث سے پھوٹ کر آتا ہے۔ اسی کی
تائید حضرت عائشہ کے مسروقکے مقابلے پر اس حدیث سے حجت پکڑنے سے ہوتی ہے، جب مسروق نے عرفہ کا روزہ رکھنے سے اس اندیشے
کے تحت اجتناب کیا کہ کہیں آج یوم النحر (روزِ قربان) نہ ہو۔ تب عائشہ نے مسروقؒ پر واضح فرمایا: کہ ان کی اس رائے کا کوئی اعتبار نہیں، اور یہ کہ ان پر یہی واجب ہے کہ وہ جماعت کے پیچھے رہیں۔ چنانچہ فرمایا: النحرُ یومَ ینحر الناسُ، والفِطرُ یومَ یُفطِر الناسُ ’’قربانی اس دن جس دن لوگ قربانیاں کریں۔ عیدِفطر اس
دن جس دن لوگ عیدِفطر کریں‘‘۔
میں (البانی) کہتا ہوں: ہماری شریعت باوسعت کے لائق بھی عین یہی بات ہے، جس کی غایتوں میں باقاعدہ یہ بات آتی ہے کہ لوگوں کا اجتماع اور ان کی وحدتِ صف قائم رکھے، اور ان کو ایسی تمام آراء سے دور رکھےجو انہیں متفرق کر دے۔
لہٰذا شریعت روزہ، عید اور نماز باجماعت ایسی اجتماعی عبادت میں فرد کی رائے کو
دیکھتی ہی نہیں ہے چاہے وہ رائے آدمی کی اپنی نظر میں ٹھیک ہی کیوں نہ ہو۔ کیا آپ
غور نہیں کرتے کہ صحابہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے باوجودیکہ ان میں ایسے بھی تھے جن کی رائے
یہ تھی کہ عورت کو مس کرنے، یا عضو تناسل کو مس کرنے، یا جسم سے خون نکلنے سے وضوء
ٹوٹ جاتا ہے، اور ایسے بھی تھے جن کی رائے میں ان باتوں سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔ صحابہ میں ایسے بھی تھے جو سفر میں پوری نماز پڑھتے اور ایسے بھی تھے جو قصر کرتے۔ اس مسئلہ یا اس جیسے
دیگر مسئلوں میں ان کا ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھنا انہیں اس بات سے مانع نہ
ہوتا کہ وہ نماز میں سب ایک ہی امام کے پیچھے اکٹھے ہوں اور اس کی نماز کو
نماز جانیں۔ یہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ دین میں متفرق ہونا آپس میں کچھ آراء کے
اندر اختلاف رکھنے کی نسبت برا ہے۔ صحابہ میں سے بعض کا معاملہ تو یہاں تک رہا کہ کسی بڑے اجتماعی موقع پر آدمی امامِ اعظم (امیر) کی رائے کے معارض رائے کو پیش نظر ہی نہ رکھتا، جیسے مِنیٰ کے جمعِ اعظم میں۔ یہاں تک کہ اس اجتماع گاہ میں وہ اپنی رائے پر عمل ہی موقوف کیے رکھتا۔ اس ڈر سے کہ
اس کے اپنی رائے پر عمل کرنے سے شر برآمد ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ابوداوٗد میں روایت
ہوئی ہے کہ: عثمان نے منیٰ میں نماز پڑھائی تو چار رکعات پڑھیں۔ تب عبداللہ بن مسعود ان پر انکار کرتے ہوئے کہنے لگے: میں نبیﷺ کے پیچھے
نماز پڑھتا رہا ہوں دو رکعت۔ ابوبکر کے پیچھے دو رکعت۔ عمر کے پیچھے دو رکعت۔ خود عثمان کے پیچھے ان کی امارت کا ابتدائی عرصہ دو رکعت۔ پھر تم الگ الگ راستوں پر ہو لیے۔ کاش میری تو ان چار رکعتوں سے دو ہی رکعتیں ہی قبول ہونے والی ہوں۔ پھر عبد اللہ بن مسعود نے پڑھیں چار رکعتیں ہی! ان سے کہا گیا: آپ نے عثمانؓ پر تنقید کی اور پھر خود چار پڑھیں؟! فرمایا: اختلاف زیادہ برا ہے۔ (اس کی سند صحیح ہے)۔ امام احمد نے ایسی ہی بات حضرت ابوذر سے بھی روایت کی ہے۔
مذکورہ بالا حدیث اور مذکورہ بالا اثر پر آج ان لوگوں کو
غور کرنا چاہئے جو اپنی نمازوں میں متفرق ہیں اور بعض مساجد کے ائمہ کے پیچھے نماز
پڑھنے کے روادار نہیں، خاص طور پر رمضان میں وتر کی نماز۔ دلیل ان کی یہ ہوتی ہے
کہ ان کے (اختیارکردہ) مذہب کے خلاف نماز پڑھی جا رہی ہے! ان میں سے بعض کو چاند
اور فلکیات کا حساب رکھنے کا دعویٰ ہوتا ہے، اور اس بنا پر یہ مسلمانوں کی جماعت
سے الگ یا تو ان سے پہلے روزہ اور عید کر رہے ہوتے ہیں یا ان کے بعد! ان کو خود
اپنی ہی رائے اور اپنے ہی علم پر مان ہوتا ہےاور مسلمانوں کی اجتماعیت سے نکلنے کی
ذرا پریشانی نہیں ہوتی۔ ان سب کو چاہئے کہ وہ منقول علم جو ہم نے ان کے گوش گزار
کیا اس پر سوچیں، شاید کہ ان کے دل میں بیٹھا ہوا جہل اور غرور کا روگ کچھ شفا
پائے، اور یہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ایک صف ہو جائیں۔ کیونکہ یَدُ اللہِ مَعَ الۡجَمَاعَۃِ ’’مجتمع
(مسلمانوں) کے ساتھ اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔
سلسلة الأحاديث الصحيحة، مؤلفہ شیخ
البانی، جلد 1 صفحہ443 تا 445۔ ویب پر اس کا لنک خود پڑھیے:
http://shamela.ws/browse.php/book-9442#page-441