بھیڑیوں کی ضرورت کے فتاویٰ!
اسلام میں
’’فردپرست رجحانات‘‘ individualism کا فروغ...
الحادی بھیڑیے کو
انسانی معاشروں میں راستہ دینے کےلیے جادوئی نسخہ!
موجودہ عالمی
افکار پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے، یہاں فردپرستی individualism کو فروغ دینے پر عالمی رجحان ساز اِداروں کی کتنی محنت ہو رہی ہے۔ اس
کی وجہ نہایت سادہ ہے:
ایک مخصوص تہذیب
(فرائڈ اور ڈورکیم کے بہیمی عقیدے پر قائم تہذیب) کو پوری دنیا پر پھیلادینے کے
لیے لازم تھا کہ ’قوموں‘، ’قبیلوں‘ اور ’امتوں‘ کو اس کی راہ سے مکمل طور پر ہٹا
دیا جائے اور اس بھیڑیے کی چیرپھاڑ کےلیے صرف اور صرف ’’فرد‘‘ کو اس کے سامنے پیش
کیا جائے؛ تاکہ اسے ہڑپ کرنے میں دشواری نہ ہو!
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ’فرد‘ اپنے ’’شجر‘‘ سے
پیوستہ رہ کر ہی اپنا تشخص بچا سکتا اور حملہ آور تہذیبوں کے دانت توڑ سکتا ہے۔ پس لازم تھا کہ عالمی استبداد یہاں کوئی ’’شجر‘‘
باقی نہ رہنے دے! صرف ’’اسلام‘‘ ہی نہیں کوئی اور بھی پیڑ ایسا نہ چھوڑا جائے جو زمین میں صدیوں سے اپنی جڑیں گاڑے کھڑا ہے؛
اور اس کے بعد ’افراد‘ سے معاملہ کیا جائے!
پس عالمی استبداد
کے حق میں ضروری تھا کہ تاریخ کے اس موقع پر یہاں کوئی ’علمی‘ تحریک ایسی ہو جو
’’بھیڑوں‘‘ کو یہ ثابت کر کے دے کہ ’’ریوڑ‘‘ بننے کا مسئلہ نرا ایک ڈھکونسلہ ہے؛
’’الجماعۃ‘‘ کا حکم بھلا شریعت میں کہاں آیا ہے!!!
اس مسئلے کی ایک
اور جہت بھی تھی...
یہودی جوکہ حالیہ
’گلوبلائزیشن‘ کا روحِ رواں ہے، دنیا کی سب سے چھوٹی اور سب سے ذلیل قوم ہے؛ یعنی
کل دو کروڑ کی ایک امت جو ہمارے کراچی یا قاہرہ جیسے ایک شہر میں آجائے۔ اب سوال
یہ تھا کہ دو کروڑ کی ایک قوم اربوں افراد پر مشتمل قوموں اور امتوں کو ہڑپ کرنا
چاہے تو اس کی کیا صورت ہو؟ (وہی لکڑہارے کی کہانی!) اس کی ’’گٹھے‘‘ والی حیثیت
ختم کردی جائے؛ پھر جب اس کی ’تیلیاں‘ ہوجائیں تو جیسے مرضی ان پر اپنا شوق پورا کرو!
چنانچہ یہود کو
موجودہ عالمی سیناریو میں اس بات کی بطورِ خاص ضرورت تھی کہ عالمی ذہن سازی عمل
میں وہ دنیا کے اندر individualism کو فروغ دیں البتہ
خود ایک وحدت کے طور پر قائم رہیں۔ صرف اسی طریقے سے دو کروڑ کی ایک ’وحدت‘ اربوں
’پتنگوں‘ پر مشتمل اقوام کو بڑے آرام سے ہضم کر سکتی تھی۔
یہاں سے آپ اندازہ
کرسکتے ہیں، برصغیر پاک و ہند کی یہ تحریک جو وحیدالدین خان ایسی شخصیات کے ہاتھوں
اٹھی یہاں کیسی بروقت پیش رفت تھی! یعنی وہ چیز جو عالمی استبداد کو ہمارے یہاں سے
مانگے نہ ملتی، اِدھر وہ ’نظمِ قرآن‘ اور ’اتمامِ حجت‘ اور نہ جانے کیسے کیسے
’رموز واشاراتِ قرآنی‘ سے ثابت کرکے دی جارہی تھی! اُدھر وہ عالمی اور اِدھر یہ
مقامی پیش رفت؛ دنیا میں آج تک بڑا بڑا حسنِ اتفاق ہوا ہوگا مگر اس کا شمار تو
عجائبِ زمانہ میں کیجئے!
شاید آپ کے علم
میں ہو، ’’المورد‘‘ سے الحاق شدہ مفتیان کی جانب سے باقاعدہ فتویٰ
سامنے آچکا کہ ایک مسلمان لڑکی ہندو مرد سے نکاح کرسکتی اور اُس ہندو کے بچے جن
سکتی ہے۔ ذیل میں اس فتویٰ کی نقل کا ویب لنک دیا جاتا ہے۔ اس دین
اکبری کی بابت اب آپ جو رائے قائم کرنا چاہیں، اس کےلیے آپ آزاد ہیں۔
ہماری نظر میں: ملحد گلوبلائزیشن کا وہ ایجنڈا جو ادیان
کے فرق کو زمین میں آخری حد تک حاشیائی کر دینا چاہتا ہے؛ اور خاص اس بنیاد پر
انسانی معاشروں کی ایک نئی ساخت کرنا چاہتا ہے... عالم اسلام میں یہ دبستان اس
ملحد گلوبلائزیشن کی ایک بہت بڑی امید پوری کرتا ہے۔ اِس کے جاری کردہ ’’فرد پرست
رجحانات‘‘ ہزارہا انداز میں اُس بھیڑیے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔