دین کا مخاطب فرد
بھی معاشرہ بھی
دین کو ’’فرد‘‘ میں محصور کردینے کا نقطۂ نظر __ بظاہر __ یوں بیان
کیا جاتا ہے:
اسلام نے جو احکام معاشرے کو دیئے ہیں، اس کے مخاطب بھی درحقیقت وہ افراد ہیں
جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کررہے
ہوں۔ لہٰذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس
کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند
بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے
گا۔
(’’اسلام اور ریاست:: ایک جوابی بیانیہ‘‘۔ روزنامہ جنگ 22 جنوری
2015۔http://goo.gl/0yWPD0 )
ممکن ہے اس عبارت سے مضمون نگار کا مقصود کچھ
اور ہو۔ اُس صورت میں ہماری یہ گفتگو غیرمتعلقہ ہوگی۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ
ایسا ہو۔ لیکن اس سے مقصود اگر ایک ایسے اجتماعی عمل کی نفی ہے جہاں راعی
اور رعایا ہردو ایک دوسرے کو شرعِ
خداوندی کے کٹہرے میں کھینچ لانے کے مجاز
اور پابند ہوتے ہیں تو یہ ایک
انتہائی خطرناک سٹیٹمنٹ ہے۔ یہ عبارت اگر ایک ایسی اجتماعیت کو جنم دیتی ہے جہاں: بطور
ایک فرد یہ راعی کے اپنے اوپر ہے کہ وہ شرعِ محمدی کے تحت معاملاتِ کار چلائے یا شرعِ موسوی کے تحت یا وید یا
گرنتھ یا شرعِ انگریزی کے تحت؛ جس کا جوابدہ اس کو صرف خدا کے آگے
ہونا ہے؛ نہ وہ معاشرے (جماعت) کے آگے اس بات کا پابندکہ وہ رسالتِ محمدی کے تحت معاملاتِ کار چلائے اور نہ وہ یہاں کے قومی/ اجتماعی/ ریاستی عمل میں اس بات کےلیے
کسی کے آگے جوابدہ؛ اور نہ یہاں کے افراد ہی ایک دوسرے کو دینِ خداوندی کا پابند
رکھنے کے مجاز... تو یہ الحاد کی پوری ایک ترکیب recipe ہے۔
تین اطاعتوں والی آیت } يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ
تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إنْ
كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحۡسَنُ
تَأوِیلاً (النساء: 59) ’’اے
ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے
اولی الامر کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف
اگر ہو تم اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے۔ یہ بہت بہتر ہے اورمآل کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ‘‘{۔ یہاں بات نہایت کھول دی گئی ہے۔ معاشرہ (جماعت) بطورِ
مجموعی شرعِ خداوندی کے پاس اپنے فیصلے لے جانے کا پابند ہے:
ü اولی الامر (اربابِ حل و عقد) کی اطاعت فرض ہے جب وہ ’’مِنْكُمْ‘‘ ہوں۔ یعنی ایمان
والے۔ }چنانچہ راعی اور رعایا دونوں کےلیے حوالہ ’’ایمان‘‘ ہے؛ مقصودِ کلام سے
ازحد واضح ہے کہ یہاں ایک باقاعدہ انسانی جماعت قرآن کی مخاطَب ہے جو ایمان
لاچکی؛ کافر اجتماعیت سے الگ تھلگ ایک اجتماعی ہستی social entity ہے: جہاں راعی بھی مومن اور رعایا بھی؛ ’تیسری‘ کوئی پارٹی
معاملے میں شریک ہی نہیں؛ حالانکہ ’تیسری‘ پارٹی (وہاں پر بسنے والے یہودی عیسائی
وغیرہ) اسی سرزمین میں موجود ہیں{۔ یعنی ایک خودمختار،
جداگانہ، آئینِ محمدیؐ کی پابند اجتماعی ہستی؛ جو اپنے باہمی معاملات کو طے
کرنے کےلیے اپنے آپس میں صرف ایک حوالہ رکھتی ہے: اللہ اور
رسولؐ۔
ü پھر یہ بات اور
بھی زیادہ کھول دی۔ اولی الامر سے ’’شریعت‘‘ کی روشنی میں آپ کا نزاع ہو سکتا ہے؛
اور آپ کو اس کا پورا حق ہے۔ بتائیے ’’آئین‘‘ اور کیا ہوتا ہے؟ یہاں؛ راعی اور
رعایا ہردو کو ہدایت ہوتی ہے کہ وہ اپنا یہ نزاع شریعت کے پاس لے کر جائیں:فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ۔ ہردو فریق کا
مسلمان ہونا ہی ایسا آئین رکھنے سے مشروط کر دیا گیا: إنْ
كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ۔ چنانچہ آیت میں
پہلے تین اطاعتوں کا ذکر ہوا۔ لیکن عندالنزاع صرف دو اطاعتوں کا۔
کیونکہ تیسری اطاعت کا محل (اولی الامر) خود یہاں فریقِ نزاع ہو سکتا ہے؛ اور اِس
مقام پر، اور خاص اِس حیثیت میں؛ راعی اور رعایا دونوں برابر ہو گئے؛ اور دونوں
ایک دوسرے کو فیصلۂ شریعت کا پابند ٹھہرانے کے باقاعدہ مجاز بلکہ پابند۔
کسی دستاویز کی بنیاد پر رعایا کو راعی کے ساتھ
نزاع کا حق ہو؛ اورعندالنزاع ہر دو اسی دستاویز کی جانب رجوع کے پابند ٹھہرائے
گئے ہوں... یہ وہ چیز ہے جسے دورِحاضر میں آپ ’’آئین‘‘ وغیرہ کا نام دیتے ہیں
(ہمیں نام وغیرہ پر اصرار نہیں ہے؛ مقصود سے غرض ہے)۔
پس اِس آیت کی رو سے: یہاں ایک ایسا خودمختار
انسانی اکٹھ ہے جس کا ہر فرد ریاستی و غیر ریاستی معاملات میں ایک دوسرے کو ’’اللہ
اور رسول‘‘ کا حوالہ دے سکتا ہے اور وہ ایک ہی حوالہ بائنڈنگbinding ہونے کے معاملہ
میں ان کے مابین ’’معتبر‘‘ valid اور باقی ہر حوالہ پر بالادست superseding ہے۔ معاملات
میں کسی کا ’’اختیار‘‘ صرف وہاں پر ہے جہاں وہ ’’اللہ اور رسول‘‘ کے فیصلے کے ساتھ
متصادم نہ ہو۔ یعنی خود اولی الامر کا اختیار بھی (جہاں وہ شریعت سے متصادم نہیں)
اس معتبر حوالہ سے ثابت ہوا أَطِيعُوا اللَّهَ
وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ، نہ کہ کسی ہیومن
اسٹ پیراڈائم سے۔ پس جہاں سب لوگ ایک دوسرے کو ایک بات کا پابند کر سکتے
ہوں... وہاں اُس ’’ایک بات‘‘ کا یہ سٹیٹس نہ ہوگا کہ ’’فرد‘‘ کے حق میں وہ صرف اور
صرف ’اخروی جوابدہی‘ ہو جبکہ دنیوی حوالے سے وہ خالی ’’صوابدید‘‘ کا درجہ رکھے۔
سبحان اللہ! یہ بھی کیا فہمِ قرآن ہے جو اِس بات کو دنیوی حوالے سے ’فرد کی
صوابدید‘ بنا دے! یہاں تو وہ ’’آئینی‘‘ طور پر کتاب اور سنت کا پابند ہوگا۔
اب اگر اس بات کا انتظام ہو گیا ہے کہ کسی
اجتماعی واقعے میں ’’کتاب اور سنت‘‘ کو اس کا یہ مقام ملا ہوا ہے جو سورۃ النساء
کی اِس آیت میں بیان ہوا تو آپ اپنے مومن ہونے کی شرط پر پورا اترے (إنْ
كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ)[1] خواہ
’’کتاب اور سنت‘‘ کو یہ سٹیٹس دے
رکھنے کی آپ نے جو بھی صورت اختیار کی ہو۔ آپ اس کو ’’قراردادِمقاصد‘‘ کہیں یا جو
بھی، اصل چیز وہ مضمون ہے جو آیت النساء میں بیان ہوا۔ یعنی انسانوں کے ایک مجموعہ
کا __باہمی طور پرmutually __ (زندگی کے
تمام معاملات میں) آسمان سے اترے ہوئے احکام کا پابند ہونا اور ایک دوسرے کو ان
احکام کی عدالت میں لے جانے کا حق رکھنا۔
*****
جو لوگ اس بات کو ’’قرادادِ مقاصد‘‘ وغیرہ کے
زیرعنوان لے کر آئے اللہ ان کو جزائےخیر دے۔ اس میں اگر ان سے کوئی کمی رہ گئی تو
اس کے کچھ اسباب بھی ہو سکتے ہیں، جس میں ان کے ہاتھ بندھے ہوں؛ اور اس کےلیے
معاشرے پر کچھ زیادہ کام کرنے اور سیاسی طور پر ایک بہتر پوزیشن میں آنے کی ضرورت
ہو۔[2] البتہ
اس بات کا ذکر ہی ہو جانا کہ ایک قوم اپنی اجتماعی زندگی میں شرعِ آسمانی سے نسبت
اختیار کر چکی اور رسالتِ محمدی کو اپنے لیے حوالہ بنا چکی... بجائےخود مستحسن ہے
اور اس سمت میں آگے بڑھنے اور کمیاں دور کرنے کےلیے وہ بنیاد بھی جس سے کفار
و منافقین کے تن بدن میں آگ لگ اٹھی؛ ان کا بس نہیں چل رہا کہ ایک لمحے میں وہ اِس
قومی عہد کو اِس مسلم جماعت کی زندگی سے باہر کردیں۔
*****
مضمون نگار یا تو ’آئینی ریاست‘ کے ہی قائل نہ
ہوں۔ لیکن اگر ہیں تو اپنی اجتماعی زندگی کے بنیادی اصولوں کا ذکر آپ آئینی زبان
میں ہی تو کریں گے! الا یہ کہ تحکیمِ شریعت کا پورا معاملہ ہی آپ کے نزدیک ’’فرد
کی صوابدید‘‘ میں محصور ہو، جس پر بات ہو چکی۔
ہمارا یہ اصل مقصود اگر
واضح ہوگیا تو ہم بھی
کہیں گے: ’آئینی ریاست‘ کوئی شریعت کا مسئلہ نہیں۔ اصل چیز آپ کا __
بطور قوم __ شرعِ آسمانی کی جانب تحاکم ہے۔ اصل چیز آپ کی اجتماعی زندگی
میں شرع کو ’’حتمی مرجع‘‘ اور ’’بالاترین حوالہ‘‘ کی حیثیت حاصل ہونا ہے۔
بالاترین حوالہ اپنی ’’آپ سے آپ‘‘ حیثیت میں؛
نہ کہ کسی کے عطا کرنے سے۔
معاملے کی اصل ترتیب
بلاشبہ یہ ہے کہ قرآن وہ چیز ہو جو آپ کے ہاں پائی جانے والی کسی بھی دستاویز کو اعتبار validity بخشے نہ کہ وہ دستاویز قرآن کو۔ قرآن __ قومی
زندگی میں __ آپکا منتہیٰ ہو۔ یعنی ہر چیز اپنی بائنڈنگ حیثیت
رکھنے میں قرآن سے سند پاتی ہو البتہ قرآن کسی چیز سے سند نہ پاتا ہو؛ جس طرح ایک
جدید ریاست میں ہر چیز آئین سے سند پاتی ہے البتہ آئین کسی چیز سے سند نہیں پاتا۔
’’جماعۃ المسلمین‘‘ اور ’جدید ریاست‘ میں ایک بہت بڑا فرق یہی ہے۔
[1] اگر کوئی شخص
اپنے ہیومن اسٹ ڈسکورس میں اس سے بھی آگے جانا چاہتا ہے تو اس کےلیے ہمارا جواب
ہے: راعی اگر فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ پر آنے کےلیے تیار نہیں تو إنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ کے الفاظ
نے واضح کردیا کہ ایسے راعی کے حق میں ’’مِنْكُمْ‘‘ کی شرط جاتی
رہی۔ لہٰذا اب وہ گھر جا کر آرام فرما سکتا ہے؛ اہل ایمان کی گردن میں اس کی اطاعت
باقی ہی نہیں رہی۔
تاآنکہ مذہبِ خوارج کا کوئی شخص ہماری اس بات
کو اپنے مطلب کا مفہوم نہ پہنا لے... فَرُدُّوهُ إلَى
اللَّهِ وَالرَّسُولِ کی کم از کم حد یہ ہوگی کہ اصولی
سطح پر راعی لازماً اللہ اور رسولؐ کا فیصلہ تسلیم کرنے والا ہو
اگرچہ عملاً وہ اس میں کوتاہی کیوں نہ کر بیٹھتا ہو۔ ہاں اگر وہ اصولی سطح پر ہی
اللہ اور رسول کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتا تو یقینی طور پر وہ ’’مِنْكُمْ‘‘ کی شرط کھو
دیتا ہے؛ اور اِس پر إنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ کی تفسیر کے
حوالے سے تمام اہل سنت کا کوئی اختلاف نہیں۔ جبکہ اِس کتابچہ میں ہماری ساری گفتگو
اصولی حوالے سے ہوئی ہے۔
[2][2] گو اس صورت میں ضروری ہوگا کہ اسے ’’احکامِ اضطرار‘‘
میں شمار کیا جائے نہ کہ اتباعِ شریعت کی عین صحیح ومثالی صورت کے طور پر اس کا
ذکر کیا جائے۔
واضح رہے، اوپر اہل تفریط کا رد ہوا ہے۔ اہل
افراط کی تصحیح ہونا گو اپنی جگہ ضروری ہے: مسلم قیادتوں کو بلاشبہ ایسی صورت کا
سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں وہ ’’مغلوبٌ علىٰ امرِھم‘‘ ہوں۔ یعنی معاملات انکی گرفت سے باہر ہوں؛ اور کفار و منافقین
وہاں براہِ راست یا بالواسطہ اس قدر دخیل ہوں کہ اہلِ شریعت، شریعت کے بہت سے
احکامات کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں لاگو کرنے کی قدرت سے ہی
محروم کردیے گئے ہوں۔ اِس صورت میں؛ شریعت کے جتنے حصے پر یہ عمل کر سکتے ہوں اور
جس ذریعے سے عمل کر سکتے ہوں، یہ صرف اس کے مکلف ہوں گے۔ شریعت کے بقیہ اجزاء عدم استطاعت کے باعث، ان پر واجب نہ رہیں گے تاوقتیکہ وہ
ان پر عملدآمد کی قدرت پا لیں۔ یہ بھی شریعت
کا اپنا ہی دیا ہوا ایک اصول ہے۔ اِس مسئلہ کی تفصیل کسی اور مقام پر کی جائے گی،
ان شاءاللہ۔
غرض ’’عدم استطاعت‘‘ کی دلیل سے؛ قومی زندگی
میں شریعت کے بہت سے احکام پر __ تاوقتِ استطاعت __ عمل
موخر ہو سکتا ہے۔ یہاں؛ اہل شریعت کو جتنی گنجائش ملے اتنی گنجائش لینا اور
باقی کےلیے کوشش کرتے رہنا ہی ان پر واجب ہوگا۔ اس کےلیے شرط وہی ہے جو اوپر بیان
ہوئی: ایسے کسی (وقتی) سمجھوتے compromise کو
یہ ’’احکامِ ضرورت‘‘ میں شمار کریں یعنی خلافِ اصل۔ جبکہ ’’اصل‘‘ کےلیے کوشش
جاری رکھیں۔ جبکہ ’’اصل‘‘ وہی ہے جو ہم نے جابجا بیان کیا: یعنی ایک قوم کی
زندگی میں قرآن کا مطلق، حتمی اور بالاترین حوالہ ہونا۔