مفتی کاکاخیل
کے ایک شاگردِرشید کی فرمائش پر
تنقیحات
جناب مفتی عدنان
صاحب کاکاخیل نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر کہیں ہماری ایک پرانی تحریر __ از راہِ کرم __ شیئر فرما رکھی ہے (لنک: https://goo.gl/bVbLj9)۔ ہماری اس تحریر میں عالم اسلام پر مسلط حالیہ نظام یا صورتحال
پر ایک مختصر نقد ہے اور اس کی مزاحمت کی ضرورت کا کچھ عمومی تذکرہ۔ اس پر تبصرے ہیں۔ حمایت میں
بھی مخالفت میں بھی۔ کوئی چیز خلافِ معمول نہیں۔ تاہم ایک تبصرے پر مفتی صاحب حفظہ
اللہ کے ایک شاگردِ رشید نے ہمیں توجہ دلاتے ہوئے فرمائش کی ہے کہ اس کا جواب ضرور
صاحب تحریر ہی کی طرف سے آنا چاہئے۔ یہ
کامنٹ مفتی صاحب کی اسی پوسٹ پر اس لنک پہ دیکھا جا سکتا ہے: (https://goo.gl/TfUeyi)۔ کامنٹ نگار کوئی فرنود عالم صاحب ہیں۔ سبھی کامنٹ فرمانے والے بھائی
ہمارے لیے قابل قدر ہیں اور ان کی رائے قابل اعتناء۔ مذکورہ کامنٹ کا جہاں تک تعلق
ہے، خود ہماری رائے میں اس کا مخصوص طور
پر جواب ضروری نہیں۔ مگر تلمیذ الشیخ __ أعزھما
اللہ ونصر بھما الدین _ کی
خواہش پر ہم چند باتیں عرض کر دیتے ہیں:
1۔ جمہوریت ایسے ایک جدید
مسئلہ سے متعلق کسی قول کو یوں جھٹ سے اکابرِ دیوبند کے ہاں ایک طےشدہ مسئلہ کے
طور پر پیش کرنا میری نگاہ میں خاصا بڑا تحکُّم ہے۔ خاص مولانا سندھی کے ایک موقف کو ’دیوبندی اجتہادات‘ میں
شامل کرنا شاید دیوبند کے علمی حلقوں میں محل
نظر ہو، کجا یہ کہ دیوبندی مواقف اس میں محصور بھی ہو جانے لگیں۔ اگر ایسا ہو تو ’جمہوری فکر‘ سے بھی پہلے شاید
’سوشلسٹ فکر‘ دیوبندی آباء سے منسوب ہونے کا حق رکھے! حاشاھم عن ذٰالک۔ ابوالکلام
رحمہ اللہ اکابر دیوبند میں نہیں آتے؛ اغلباً ان کا ذکر تبصرہ نگار کے ہاں بھی اِس
زمرے میں نہیں آیا۔ مولانا مدنی رحمہ اللہ دیوبند میں یقیناً ایک بڑا نام ہیں۔ مگر
خود وہ کس علمی اپروچ کے تحت ایک چیز کو مسلمانوں کے معاملات سلجھانے اور کچھ بحرانات پر قابو پانے کےلیے اختیار کرنے کے
قائل تھے، الگ سے ایک تھیسس ہے اور
علمی مکالمہ چاہتا ہے۔ اور اگر کچھ عبارتوں کے ظاہری و سرسری معانی پر کلام کو
محمول کرتے ہوئے ایک بات کو حضرت علیہ الرحمہ کا باقاعدہ علمی موقف ہی قرار دیا
جائے، جوکہ ہے ویسے محل نظر، تو بھی
مکتبِ دیوبند کے اقوال کو اس میں محصور کردینا؟! اس پر فاضل تبصرہ نگار سے یہی کہا جا سکتا ہے: لَقَد ضَيَّقْتَ وَاسِعًا۔ دیوبند ایک بڑا سمندر ہے۔ حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ کا
جمہوریت پر نہایت جاندار نقد میری نظر سے گزرا ہوا ہے۔ دیگر فضلاء کے اقوال بھی وقتاً فوقتاً دیکھنے میں آئے ہیں۔
اس مسئلہ پر پورے مکتب کو ایک ہی قول پر قرار دے ڈالنا میری نظر میں ایک خاصا بڑا
دعوىٰ ہے، کجا یہ کہ مکتب کے ایک استاذ اور مفتی کو اس سے خروج کرتا جان کر
’نازیبائی‘ کا طعنہ بھی دیا جائے! اہل علم پر استدراک اگر بنتا بھی ہو تو وہ ذرا
اور قسم کا اسلوب چاہتا ہے۔ یہ اسلوب میرے علم کی حد تک نہ تو دیوبندی طلبۂ علم
میں پایا جاتا ہے اور نہ دیوبندی عوام میں۔ تبصرہ نگار کا تعلق اگر غیردیوبندی
مکتب فکر سے ہے، تو ان کا مفتی کاکاخیل صاحب کو دیوبندی مذہب کی تعلیم دینا یا
دیوبندی ’اجماع‘ سے خروج پر سرزنش فرمانا کچھ اور بھی معنی خیز ہے!
جہاں تک کسی قول کی نسبت پورے ایک مکتب سے کرنے کا تعلق ہے تو وہ عقیدہ و
فقہ کے روایتی مسائل کی حد تک تو میرے خیال میں درست ہے، گو وہ بھی ہر مسئلے میں
نہیں۔ البتہ جہاں تک جدید پیش آمدہ مسائل و اصطلاحات کا تعلق ہے تو ان میں کسی بھی
ایک مکتب کے علماء کے ہاں بہت کچھ سنے اور کہے جانے کی گنجائش موجود ہے؛ اور یہاں
پر ’’تحریرِ مسئلہ‘‘ ایک بہت بڑا استقصاء چاہتا ہے۔ لہٰذا ان مسائل میں کسی پورے
ایک مکتب کی ترجمانی کا دعویٰ خاصی بڑی بات ہو گی۔ اللہ اعلم
2۔ ’جمہوریت‘
اِس پوری تحریر میں دراصل ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔ خود یہ جملہ ہماری اسی تحریر
میں لائقِ توجہ ہے:
’’اس نظام کا بنیادی نکتہ صرف
یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے ایک غلام قوم کو چلایا جائے اور غلام رکھا جائے۔ اس سسٹم
کا کسی وقت ’جمہوری‘ شکل اختیار کرلینا اور کسی وقت ’آمریت‘ والا روپ دھار لینا
میرے نزدیک کچھ بڑا فرق نہیں رکھتا۔ میری نظر میں یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جب
آپ اس سکے کو اچھالتے ہیں تو کبھی ایک رخ اوپر آجاتا ہے تو کبھی دوسرا‘‘۔
درج بالا عبارت سے واضح ہے کہ ہم اِ س نظام کو ’جمہوریت
بمقابلہ آمریت‘ والے ڈائلیکٹ سے بڑے کسی تناظر میں لے رہے ہیں۔ یعنی ہم اِسے ایک نظامِ باربرداری کے طور پر لے رہے
ہیں؛ ہمارے کسی مسلم ملک میں اس کا ’جمہوری‘ اور کسی مسلم ملک میں اِس کا ’آمرانہ‘
چہرہ خاص ہمارے زیربحث موضوع کے لحاظ سے غیرمتعلقہ ہے۔ بھائی ہم اگر ایک ’آمریت‘
کے دور میں ہوتے یا کسی ’بادشاہت‘ والے ملک میں ہوتے تو اِس نظامِ برداری پر ہماری
تنقید اور اس میں ذکر ہو جانے والی اچٹتی مثالوں سے شاید آپ یہ نتیجہ نکالنے چل
پڑتے کہ ہمارا نشانۂ تنقید اصل میں ’آمریت‘ یا ’بادشاہت‘ ہے! جبکہ ہمارا موضوع نہ
یہ نہ وہ۔ ہمیں تو درکار ہے ’’ما أنزل اللہ‘‘ کا معاشرے کے حق میں حتمی مرجع
ہونا، یہ ہمیں ’’فرد (واحد)‘‘ کے ذریعے ملتا ہے تو ہمارا کام ہوتا ہے،
’’عوام‘‘ کے ذریعے ملتا ہے تو ہمارا کام ہوتا ہے (کسی کا نہ ہوتا ہو؛ ہمارا ہوتا
ہے۔ اِس قدر کھلے ہیں ہم تو اِس معاملہ میں۔ یعنی ’’عوام بمقابلہ فرد‘‘ ہمارے
ڈسکورس کا مرکزی نقطہ ہی نہیں ہے)۔ ہمارا نشانۂ تنقید ہوتا ہے یہاں کا وہ سیاسی،
سماجی اور ثقافتی سٹیٹس کو a political, social,
intellectual status quo جس میں انسانوں کا مرجع صاف
صاف ’’اللہ اور اس کا رسولؐ‘‘ نہیں ہے۔ یعنی ایک ایسا اجتماعی سیٹ اپ جو کسی سبب
سے ’’ما انزل اللہ‘‘ کی اپنی پابند کن حیثیت own
binding status کو نہ ماننے پر کھڑا ہے اور مسلسل ایک غیرآسمانی
نقشے پر ہمارے فکرونظر سے لے کر ہمارے سماج تک کی ساخت کیے چلا جا رہا ہے۔ رہا یہ
کہ وہ کن اَشکال میں اپنا ظہور manifestation کرتا ہے، بادشاہت یا جمہوریت، یا افسرشاہی، یا
ٹیکنوکریسی، یک پارٹی سسٹم یا کثیر پارٹی سسٹم وغیرہ وغیرہ؟... تو وہ ہمارے اِس
اصل مضمون کے اعتبار سے غیرمتعلقہ ہے؛ اور اگر اس کا کچھ ذکر ہے تو محض ضمنی ہے۔
اور ایسے مقامات پر اصطلاحات کے اندر الجھنا تو آخری درجے کی نادانی۔
اصطلاحات ہمارے نزدیک نرے ظروف containers
ہیں۔ لہٰذا ہم ان پر کبھی نہیں الجھتے۔ کم از
کم ایک بنیادی مضمون کے طور پر بالکل نہیں الجھتے۔ ہماری بحث ہوتی ہے ایسے کسی ظرف
container میں ڈال رکھے گئے مظروف content پر، جوکہ دیکھنے میں آیا ہے جدید اصطلاحات کی اسلامیائی گئی اشیاء Islamized items کے معاملہ میں ہر شخص کے ہاں ایک دوسرے سے مختلف
ہوتا ہے، لہٰذا اس پر الجھنا بےفائدہ ہے۔ بلکہ ایک درجے میں گمراہ کن misleading ۔
یہاں تک کہ مضمون content کے اعتبار سے ہم خیال لوگوں کے مابین بھی یہ چیز
اختلاف ظاہر کروانے کا موجب ہو سکتی ہے۔
مثلاً بہت امکان یہ ہوگا کہ ’جمہوریت کو قبول کرنے‘ کے تحت آپ جس چیز کو قبول
کر رہے ہوں مضمون content کی حد تک مجھے بھی اس سے کوئی بہت بنیادی اختلاف
نہ ہو۔ (میری بات اس شخص سے ہو رہی ہے جو
ایک وسیع معنیٰ میں اہل السنۃ والجماعۃ کے پیراڈائم سے وابستہ ہے؛ یعنی نصِ شرعی
کی حاکمانہ حیثیت اس کے ہاں کسی بھی طرح محل نظر نہیں؛ معروف سیکولر ڈسکورس کا
حامل شخص یہاں میرا مخاطب نہیں)۔ اِسی طرح
’جمہوریت کو قبول نہ کرنے‘ کے تحت میں جس چیز کو رد کر رہا ہوں بہت امکان یہ ہے کہ
مضمون content کی حد تک آپ بھی اس کو رد ہی کرتے ہوں۔ تو پھر
جھگڑا کس بات کا؟
بےشک ہم ذاتی طور یہ موقف رکھتے ہیں کہ اصطلاحات کے معاملہ میں بھی مسلمانوں
کے ہاں اہل کفر کا تشبُّہ نہ ہو، غیر ہدایت یافتہ ملتوں (مغضوب علیہم اور ضالین)
سے ہماری مغایرت اس سطح پر بھی برقرار ہی رہے، ظروف بھی ہمارے اپنے ہوں اور مظروف
بھی، مشروب بھی ہمارا اپنا ہو اور جام بھی کہیں
سے مستعار نہ ہو، تاہم اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ ہمارا بنیادی تنازعہ اس بات پر بہرحال نہ ہو گا کہ ایک حلال مشروب وہ
میخانے سے اٹھائے گئے کسی جام میں بھر کر کیوں
پی رہا ہے۔ بنیادی جھگڑا اگر ہو گا تو وہ مشروب پر ہی ہو گا۔ یہاں تک کہ
مشروب میں کافر سے خریدی گئی کوئی حلال چیز شامل ہے تو بھی یہ کوئی جھگڑنے کی
بات نہیں ہو گی۔ اس لیے؛ اپنے متبع سنت
بھائیوں کے ساتھ ہم تو لفظوں اور عبارتوں پر الجھتے ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ مضمون content میں بیشتر مقامات پر اہل سنت کا کوئی اختلاف
ہوتا ہی نہیں ہے۔ اور یہ بات ہمیں ’’ما أنزل اللہ‘‘ کی حاکمانہ حیثیت عالم اسلام
میں قائم کروانے اور ’’ما أنزل اللہ‘‘
کو رد یا حاشیائی کر رکھنے والے سٹیٹس کو کو عالم اسلام میں رد کروانے کےلیے الحمد
للہ ایک وسیع بنیاد فراہم کرتی ہے، اگر ہم اس کا اندازہ کر لیں۔
لہٰذا ہمارا اصل موضوع تحریرِ مذکورہ کے اندر بھی بیرون سے حملہ آور وہ الحادی
استحصالی صورتحال ہے جو کسی بھی جمہوری یا غیرجمہوری چولے میں ہم پر حملہ آور ہوتی
ہے اور جس نے ڈیڑھ سو سال کے مختصر عرصہ میں ہمارے سب سماجی و تعلیمی خدوخال بدل
ڈالے ہیں۔ اصل رونا اس کا ہے میرے بھائی اس پوری تحریر میں! ہم ایک بہت بنیادی بات
پر آپ کی توجہ لے رہے ہیں اور آپ ایک نہایت غیربنیادی بات پر حضرت مدنی اور اقبال
و مودودی کو آپس میں بھڑوا رہے ہیں! یہاں تک کہ اقبال کے اپنے ہی دو اقوال کو آپس
میں بھڑوا رہے ہیں، درحالیکہ ان کے مابین تطبیق بھی بڑے آرام سے ہو سکتی ہے! آپ
غور فرمائیں تو شاید ہم اُس شر کی نشاندہی کر رہے ہوں جس کے خلاف حضرت مدنی اور
اقبال و مودودی یکساں مزاحمت کے داعی تھے اور صبحِ قیامت تک رہیں گے! تعبیرات کے
اختلاف کے باوجود یہ سب مجاہدینِ حریت تھے میرے بھائی، جو ہم نہیں ہیں! اس مغربی
ڈسکورس کے خلاف جو ہمارا اصل نشانۂ تنقید ہے اور جوکہ مسلسل ہمارے فکر و نظر سے
لے کر ہماری سوسائٹی تک کی تشکیل کیے جا رہا ہے، یہ تمام بزرگ اپنے اپنے طور پر
اور اپنے اپنے میدان میں شمشیر بکف تھے اور ان کی ساری زندگی اس کے خلاف مزاحمت
میں ہی گزری۔
دوبارہ میری درخواست ہو گی، ہمارے ساتھ باعثِ نزاع مسئلہ ’جمہوریت‘ کو
خوامخواہ نہ بنایا جائے، خصوصاً ’جمہوریت‘ کی اُس نظری صورت کو جو کسی وجہ سے بہت
سارے متبعینِ سنت کے یہاں کچھ مخصوص حدود و قیود کے تحت قبول ہوتی ہے۔ ہماری تنقید
ایک نظامِ قائم پر اس سے ایک وسیع تر تناظر میں ہے؛ اور اس پر ان شاء اللہ یہ سب
طبقے متفق ہوں گے۔ ہماری ’مزاحمت‘ کا
حوالہ بھی دراصل وہی ہے۔ براہِ کرم اس کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ ڈیڑھ سو سال میں
ہماری تعلیمی academic،
ثقافتی intellectual اورسماجی ساخت ایک خالصتاً غیرآسمانی (مغربی)
نقشے پر جو ہو رہی ہے اور پورے تسلسل اور زور و شور کے ساتھ جاری ہے،اس کے خلاف
مزاحمت کی ضرورت کا انکار آخر کون کر سکتا ہے؟ اور اس کے خلاف مزاحمت ہم میں سے
کون کر رہا ہے؟ ان لفظی بحثوں میں الجھنے کی بجائے، آئیے کچھ اس طرف توجہ دیں۔ آپ دوبارہ میری وہ تحریر پڑھ لیجئے، اس میں آپ
کو ’مزاحمت‘ کا یہی معنیٰ واضح اور جلی صورت کے اندر ملے گا۔
3۔ حضرت مدنی وحضرت اقبال میں کامیاب مقابلہ کروا لینے کے بعد، تبصرہ نگار کا
رخ جمہوریت اور خلافت کا مقابلہ کروانے کی طرف ہو جاتا ہے؛ اور وہ بھی میری ایک
تحریر پر تنقید فرماتے ہوئے۔ خلافت کا لفظ میری اس پوری تحریر میں نہیں ہے! تحریر
میں اس کا کچھ ذکر ہوتا تو شاید اس سے میری بات کا مقصود اور سیاق بھی کچھ واضح
ہوتا اور یہ بھی شاید معلوم ہو سکتا کہ صورتِ موجودہ میں ’خلافت خلافت‘ گردان
فرمانے والی جماعتوں سے خود ہمارا نقطۂ نظر کس قدر مختلف ہے۔ لیکن ایک بات کا ذکر
ہوئے بغیر اس پر تنقید کر کے تو میرے اس
بھائی نے تمام مسئلے ہی حل کر ڈالے! اب کوئی مسئلہ ہو تو بات کریں!