بازیافت
سلف ومشاہیر
سلطان العلماء
عز الدین بن عبدالسلام
قصہ ایک عالم ِدین کا کہ جس نے بادشاہ نیلام کئے
آخری قسط
تالیف سلمان العودۃ
اُردو استفادہ: حامد کمال الدین
حکمرانوں کیلئے دُعائے خیر کرنا ایک نیک عمل ہے مگر حکمرانوں کو راہِ راست پر لے آنے کیلئے ہیبتِ علم کو بروئے کار لانا ایک خاص مقام ہے جو کہ علمائے سنت کا تاریخی امتیاز رہا ہے۔ آئیے ایک عالم دین کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ مقالہ کے مصنف ہیں شیخ سلمان العودۃ اور مقالہ کا عنوان ہے ”سلطان العلماء“
اپنے دور اور زمانے سے وابستہ رہنا:
ایک نہایت اہم بات جس نے امت میں عز بن عبد السلام کی ایک خاص پزیرائی کرا رکھی تھی وہ یہ کہ آپ اپنے گردوپیش سے پوری طرح باخبر اور معاشرے کے بیچ میں رہتے تھے۔ آپ معاشرے سے کٹے ہوئے نہ تھے۔ نہ ہی امت کے روزمرہ مسائل و مشکلات، حالات و واقعات اور امت کی پریشانیاں ان سے روپوش رہتی تھیں۔ امت کے معاشی بحران ہوں یا سیاسی یا سماجی، عز بن عبد السلام سب سے بڑھ کر ان کو محسوس کرنے والے ہوتے۔ امام عز الدین کا امت کے مسائل کو اپنے دل پر محسوس کرنا اور ان میں اپنا کردار ادا کرنے کی پوری کوشش کرنا ویسے تو پیچھے مذکور کئی ایک واقعات سے ہم پر واضح ہو ہی چکا، مگر اس کے علاوہ بھی، اگر ہم ان کی تصانیف پر ایک نظر ڈالیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ آپ اپنے دور اور زمانے کے ساتھ باقاعدہ ایک تعلق رکھتے تھے اور وقت کے مسائل میں امت کو ایک راہ نکال کر دیتے تھے۔
درست ہے کہ عز بن عبد السلام نے فقہ، حدیث، اصول اور تفسیر وغیرہ پر وقیع علمی تصانیف چھوڑیں مگر ان کی تصانیف میں ایسی بھی کتب ہیں جن کا ان کے اپنے دور اور زمانے سے ایک خاص ربط ہے، مثلا:
- آپ کی کتاب ”الفتن والبلایا والرزایا“جس میں آپ نے مصائب کے آنے اور ان پر صبر و برداشت اختیار کرنے کے موضوع پر نصوص جمع کیں۔ اس کتاب کا تعلق دراصل ان مصائب اور مشکلات سے ہے جن سے عز بن عبد السلام کے دور کے اندر امت دوچار تھی۔
- آپ کی ایک اور کتاب ہے: ”ترغیب اہل الاسلام فی سکنیٰ الشام“۔ آپ نے یہ کتاب اس وقت تصنیف کی جب صلیبیوں نے بلاد شام پر چڑھائی اور وہاں کے مسلم باشندوں کو ایک شدید حالت خوف میں مبتلا کردیا تھا۔ تب مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے شام سے نقل مکانی شروع کرلی تھی اور دوسرے ممالک میں اقامت اختیار کرنے لگے تھے۔اس پر امام عز بن عبد السلام ایک ایسی تصنیف سامنے لے کر آئے جس سے نہ صرف یہ ہو کہ بلاد شام میں مقیم مسلمان اپنی اقامتِ شام کو برقرار رکھیں بلکہ وہ مسلمان جو دوسرے خطوں کے اندر آباد تھے ان میں تحریک پیدا ہو کہ وہ وہاں سے نقل مکانی کرکے شام کو اپنا مسکن بنائیں اور یوں دشمن کو بلاد شام سے دفع کرنے میں ایک کردار ادا کریں۔
- آب کی ایک اور تصنیف ہے: ” احکام الجہاد“، جس کے اندر آپ نے جہاد، جہاد کے احکام اور جہاد کے فضائل پر زبردست مواد دیا، علاوہ اس بات کے کہ آپ نفسِ نفیس جہاد کے اندر شریک ہوتے تھے اور لشکر اسلام کے خوب خوب حوصلے بڑھاتے۔ یہاں تک کہ ایک بار ایسا ہوا جب تاتاری پورے عالم اسلام کو روندنے میں کامیابی پا لینے کے بعد مصر پر یلغار کرنے آئے توسارا مصر تھر تھر کانپ رہا تھا۔ سلطانِ مصر، عمائدینِ مصر اور افواجِ مصر کو بھاگ جانے تک کیلئے کہیں کوئی پناہ نظر نہ آرہی تھی۔ تب اما م عز الدین بن عبد السلام سے سوال ہوا کہ وہ بتائیں کیا کیا جائے؟ سلطان العلماءعز بن عبد السلام نے اس موقعہ پر جو جواب دیا وہ یہ تھا: ”مقابلے کیلئے نکلو، میری ضمانت رہی کہ اللہ تمہیں اس معرکہ میں فتح دے گا“۔ چنانچہ اس معرکہ (عین جالوت) کے روح رواں عز بن عبد السلام تھے۔ لشکر کے اندر عز بن عبد السلام ایک عجیب انداز میں جرات و بسالت کی روح پھونک رہے تھے۔ ایک ایک سپاہی کے حوصلے بلند کرتے اور ایمان پر ثابت قدم کراتے۔ یہاں تک کہ تاتاری ایک بھاری ہزیمت اٹھا کر پلٹے اور مسلمان فتح کے شادیانے بجاتے مصر لوٹے!
- اسی طرح اگر آپ عز بن عبد السلام کے فتاویٰ پر نظر ڈالیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ آپ کا تعلق اپنے زمانے اور زمانے کے مسائل سے بے حد گہرا تھا اور ان کی بابت آپ امت کو نہایت مؤثر راہنمائی فراہم کرتے۔
علماءکا آپ کے ساتھ یکجہتی رکھنا:
عز بن عبد السلام کی کامیابی کا ایک اور نمایاں پہلو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علماء وقت آپ کے ساتھ ایک زبردست یکجہتی رکھتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں کہ دوسرے علماء کہیں: ’ساری مقبولیت اور پزیرائی تو یہ لے گیا، ہمارے لیا کیا بچا!؟‘ بلکہ علماءآپ کے ساتھ مل کر حق کی ایک قوت بنتے تھے، خاص طور پر وقت کے باعمل علما۔ جس کے ہم متعدد شواہد پاتے ہیں:
امام منذری کا موقف:
امام عبد العظیم منذری مفتی مصر تھے۔ مگر جب عز بن عبد السلام مصر آئے تو امام منذری کہنے لگے: مصر میں اب تک میں فتویٰ دیتا رہا ہوں، کیونکہ اب تک ابن عبد السلام یہاں نہیں پائے گئے تھے مگر اب جب وہ ہمارے ما بین ہیں تو منصب افتاءان کے سوا کسی کیلئے سزاوار ہی نہیں۔
جمال الدین حصیری کا موقف:
جس وقت شام کے کچھ امراءمیں سے ایک صاحب عز بن عبد السلام پر غضبناک ہوئے اور آپ کو مسندِ درس سے ہٹا دیا بلکہ آپ کو گھر میں نظر بند بھی کردیا، تب فقہاءاحناف میں سے ایک مشہور شخصیت امام جمال الدین حصیری، جوکہ ایک بڑی شان اور عزت و احترام رکھتے تھے، اس حاکم کے پاس اس کے قلعہ میں گئے اور قلعہ کے دروازے پر پہنچ کر اپنا گدھا روک کر کھڑے ہوگئے۔ حاکم نے حکم دیا: شیخ کو اندر آنے دو۔ شیخ اندر آئے تو حاکم ان کیلئے کھڑا ہوگیا اور خود بڑھ کر ان کو سواری سے اتارا۔ خوب تکریم اور تواضع کی یہاں تک کہ دسترخوان پر کہنے لگا ’شیخ پہلے آپ تناول فرمائیے ہم پھر ہی کھانے کی جانب ہاتھ بڑھائیں گے۔ تب شیخ ان سے کہنے لگے: میں آپ کے کھانوں اور آپ کے مشروبات کی طلب میں نہیں آیا۔ یہ سن کر حاکم صاحب چونکے اور گویا ہوئے ’حضرت! حکم فرمائیے، ہم پورا کرنے کو حاضر ہیں۔ تب جمال الدین حصیری کہنے لگے: تمہارے اور امام عز الدین بن عبد السلام کے درمیان کیا معاملہ پیش آیا ہے؟ حاکم نے اپنے الفاظ میں ماجرا بیان کیا۔ تب یہ فقیہ باعمل کہنے لگے: بخدا! اگر عز بن عبد السلام ہند میں یا کہیں اس سے بھی دور دنیا کے آخری مشرقی کونے میں ہوتے تو بھی تمہارے لئے شرف کی بات ہوتی کہ اپنی پوری کوشش کرکے ایسے عالم دین کو اپنے یہاں لے آؤ۔ تمہارے لئے اس سے بڑھ کر نصیب کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ تم ایک ایسی قوم پر بادشاہ ہو جس کے اندر عز بن عبدالسلام ایسا نابغہ روزگار ہے تمہارے لئے تو لازم ہے کہ جیسے بھی ہو تم ان کو راضی ہی کرلو۔ تب یہ حاکم اس پر تیار ہوا اور جاکر عز بن عبدالسلام کو راضی کیا اور اور آپ کو ایک بلند مقام پر فائز کیا۔
آگے کون لگے؟!
امت، خاص طور پر فتنوں اور ضعف کے ایسے ادوار میںجن ہم اس وقت گزر رہے ہیں اور جن سے عز بن عبدالسلام کے دور کو سابقہ تھا جب ایک طرف امت پر تاتاری چڑھ آئے تھے دوسری طرف صلیبی ارض اسلام کو روندتے پھڑ رہے تھے تیسری طرف اندرونی ضعف اور ناتوانی کو دور دورہ تھا چوتھی طرف داخلی تفرقہ و نزاع اپنے عروج پر تھا....
امت کے اندر ایسے ضعف کے لمحات میں ہمیشہ یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ’آگے کون لگے‘؟ اپنی تمام تر مخفی قوتوں اور صلاحیتوں اور ولولوں کے باوجود امت حیران و سرگرداں رہتی ہے اور کسی ایسے طبقے کی تلاش میں ہوتی ہے جو کہے ’ہاں میں آگے لگتا ہوں، چلو آگے بڑھو‘ یہاں تک کہ امت اس کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کا راستہ پائے، علمائ، طلبہء علم، داعیانِ دین اور عوام سب کو ایک راہ عمل مل جائے۔
جب شیوخ ایسے ہوں..!
عز بن عبد السلام جن اہل علم کے زیر تربیت پروان چڑھے خود وہ علما ہی وہ علما تھے جن کے اندر حق کیلئے ایک جرات اور قوت رکھ دی گئی ہوتی ہے۔ ایسے ہی علما سے عز بن عبد السلام نے علم پڑھا، اور ایسے ہی ائمہء سنت کی راہ پر پھر وہ خود آگے بڑھے۔ یہاں ہم ان میں سے چند ایک کا مختصر ذکر کریں گے:
فخر الدین بن عساکر:
عز بن عبد السلام کے استاد فخر الدین بن عساکر دمشق میں ہوا کرتے تھے۔ اس نابغہء روزگار سے تقاضا ہوا کہ قضاءکا منصب قبول کرلیں۔ ابن عساکر انکار کرگئے۔ مجبور کیا گیا تب بھی انکار برقرار رہا۔ جرات حق کا یہ عالم تھا کہ حاکمِ دمشق کو اس بات پر سرزنش فرمائی کہ دین کے لئے غیرت مند طبقے جب شراب کے اڈے ختم کرتے اور مالکانِ شراب کا مال تلف کردیتے ہیں اور کچھ دیگر برائیوں کے اڈوں کا بھی خاتمہ ہ کردیتے ہیں تو یہ حاکم ان مالکان شراب وغیر کے نقصان کی مالی تلافی کرتا ہے۔
عبد الصمد حرستانی:
عز بن عبدالسلام کے اساتذہ میں سے ایک عبد الصمد حرستانی بھی بتائے جاتے ہیں۔ ان صاحب کو بھی منصبِ قضاءقبول کرلینے پر مجبور کیا گیا۔ یہ منصب تو انہوں نے قبول کرلیا مگر اس پر شان وہ اختیار کی جو سلف کی ہوتی تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ وہ مسند قضاءپر بیٹھے تھے کہ دو اشخاص کا تنازعہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ ان میں سے ایک شخص بڑے اعتماد سے آگے بڑھا اور ایک رقعہ آپ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ آپ نے یہ رقعہ پڑھے بغیر اپنے دراز میں رکھا اور فریقین سے اپنا اپنا موقف بیان کرنے کو کہا۔ سماعت مکمل کرلینے کے بعد فیصلہ سنایا جوکہ اس شخص کے خلاف گیا جو آپ کے پاس رقعہ لے کر آیا تھا۔ فریقین رخصت ہوئے تو اس عالم ذی شان نے دراز سے وہ رقعہ نکالا۔ اس کی مہر توڑی۔ پڑھا تو وہ حاکمِ دمشق کی جانب سے تھا اور اس میں سفارش کی گئی تھی کہ ’حامل رقعہ ہذا اپنا خاص آدمی ہے ، اس کا ’خیال‘ رکھا جائے اور فیصلہ اس کی موافقت میں کرنے کی کوشش کی جائے۔ آپ نے یہ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا: اللہ کی کتاب اس شخص کے رقعے پر بھاری ہے!
ایسے ہی شیوخ کے زیر نگرانی عز بن عبد السلام ایسے ہیرے تراشے گئے تھے، ان ہی سے عز عبد السلام نے جراتِ حق سیکھی تھی۔ دین کیلئے شجاعت، غیرت ، حمیت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معاملے میں بے باکی، قضاءاور عہدوں کو منصب علم کے سامنے بے وقعت جاننا یہ سب ایسی ہی صحبتوں کا فیض تھا۔ یہاں تک کہ عز بن عبد السلام نے چار بار اپنے آپ کو ازخود منصبِ قضاءسے معزول کیا۔ جب بھی قیامِ حق کے باعث آپ کے اور سلاطین کے مابین ٹھن جاتی آپ عہدہء قضاءسلاطین کو واپس کر آتے اور فرماتے: مجھے تو اس کی ضرورت نہیں، تمہی نے مجھ پر یہ بار ڈالا تھا ، میں تو اس کا حاجت مند نہیں۔
اور پھر شاگرد بھی اسی راہ پر!
حق کیلئے جرات و بے باکی کا یہی علم پھر آگے چلتا ہے۔ عز بن عبد السلام کے شاگرد عین اسی کردار کو زندہ رکھتے ہیں جس کو انہوں نے اپنے پیش رو اہل علم کی سیرت و عمل میں پایا..
ابن دقیق العید:
اس عالم بے مثل نے بھی اپنے استاد ہی کی طرح خود کو چار بار منصبِ قضاءسے از خود معزول کیا۔ جب بھی حکام بالا کے ساتھ معاملہ خراب ہوتا اور حق پر کوئی مصالحت کرلینے کا سوال اٹھتا آپ عہدہء قضاءسے سبکدوش ہوجاتے اور فرماتے: مجھے اس کی ضرورت تھوڑی ہے ، یہ تو تمہاری ڈالی ہوئی ذمہ داری ہے، میں اس کا پابند تھوڑی ہوں۔
یہاں تک کہ ابن دقیق کو بھی عین ویسا ہی ایک موقعہ پیش آیا جیسا ان کے شیخ، عز بن عبد السلام کو اس سے پہلے پیش آچکا تھا۔ ہوا یہ کہ سلطان محمد بن قلاوون نے لوگوں سے اموال لینا چاہے کہ تاتاریوں کے خلاف جنگ کی تیاری ہوسکے۔ اس کا کہنا تھا چاہے یہ اموال فی الحال قرض ہی سمجھ لئے جائیں مگر لوگوں سے بہرحال کٹوتیاں کرلی جائیں۔ ایسا ہی واقعہ سلطانِ مصر قطز کو عز بن عبد السلام کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ تب سلطان ابن قلاوون نے علما کو جمع کیا اور اس پر ان کی تایید چاہی۔
ابن دقیق نے مجلس میں سلطان کو مخاطب کرکے کہا: لوگو ں سے ان کے اموال تم تب تک نہیں لوگے جب تک اپنے سلاطین، اپنے امرا اور ان کی بیگمات سے ان کے اموال نہ لے لو۔ یہاں تک کہ ابن دقیق کے یہ جملے بھی اس مجلس کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں:
”تمہارے ایسے ایسے امرا بھی ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کے جہیز میں بے حدوحساب ہیرے اور جواہرات دیے، ریشم و کمخواب پہنائے، سونے اور چاندی کے برتن دیے، تمہارے مابین ایسے امرا بھی ہیں جنہوں نے اپنی بیگمات کی دہلیزوں میں ہیرے اور جواہرات مڑھ رکھے ہیں۔ یہ سارے اموال پہلے اگر تم لے آؤ اور وہ اس جہاد کیلئے کافی نہ رہیں تو پھر ہم رعایا سے اموال حاصل کرنے کیلئے نکل پڑیں گے“
پس ہم دیکھتے ہیں یہ عالمانہ شان نسل در نسل منتقل ہوتی ہے اور حق گوئی کا یہ علم ایک کے بعد دوسرے عالم کو منتقل ہوتا ہے۔ یہ عز بن عبد السلام ہیں جو ابن عساکر اور حرستانی سے یہ علم لے کر پوری زندگی کھڑے رہتے ہیں اور پھر اسی شان سے ابن دقیق سمیت اپنے کئی ایک تلامذہ کو یہ علم تھما جاتے ہیں۔
موت کے وقت تک وہی لہجہ!
عز بن عبد السلام کی وفات ہوئی تو یہ سلطان بیبرس کا زمانہ تھا، جوکہ عز بن عبد السلام سے بے پناہ عقیدت رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ، مشہور ہے، جب عز بن عبد السلام کی وفات ہوئی تو سلطان بیبرس کے منہ سے الفاظ نکلے: لا الہ الا اللہ، کیا میرے ہی عہد میں اس امام کی موت ہونی تھی! یعنی بیبرس نے آپ کی موت کو اپنے عہد حکومت کے حق میں ایک بڑا نقصان جانا۔
عز الدین بن عبد السلام جس وقت مرض الموت میں تھے تو سلطان بیبرس آپ کی عیادت کو خود چل کر آیا اور آپ سے خواستگار ہوا کہ اپنے بعد اپنے صاحبزادوں میں سے کسی ایک کو اپنے منصب پر فائز کر جائیں۔ عز بن عبد السلام کو اللہ نے نرینہ اولاد دے رکھی تھی۔ لائق بیٹے تھے، جن میں سے سب سے مشہور عبد اللطیف تھے، جو اپنے والد سے علم حاصل کرچکے تھے۔ یہی آپ کے سوانح نگار بھی ہیں۔ پھر بھی عز بن عبد السلام کا سلطان بیبرس کو جواب تھا: ان میں سے کوئی اس منصب کے شایان نہیں۔ ان کے بجائے میں فلاں شخص کو اس منصب کے زیادہ مناسب سمجھتا ہوں اور وہی اس کو زیادہ بہتر چلائے گا۔
سبحان اللہ! دین کے معاملہ میں اور مسلمانوں کی امانتوں اور منصبوں کے معاملہ میں کوئی رشتہ داری اور پدرانہ شفقت آڑے نہیں آتی!اتنا بڑا عہدہ اور اتنی بڑی شان اس گھر سے کسی اور گھر چلی جائے گی، کیونکہ یہ خدا کے آگے جوابدہی کا معاملہ ہے۔
عز بن عبد السلام کا یہ موقف، جو آپ کو بوقت موت نصیب ہوا، خاتمہ بالخیر کی ہی ایک دلیل ہوئی اور موت کے وقت بھی حق پر ثابت قدمی اور توفیق ےانے کا ایک واقعہ۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
٭٭٭٭٭
تمت بالخیر