عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, May 16,2024 | 1445, ذوالقعدة 7
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2007-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
اہل بدعت سے اہلسنت کے تعامل کے اصول
:عنوان

. اصولمنہج :کیٹیگری
محمد زکریا خان :مصنف

اہل بدعت سے اہلسنت کے تعامل کے اصول


 

ایسی بدعات جس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا،اُن سے اہلسنت اس طرح کا حسن تعامل کرتے ہیں کہ وہ اُن کی بدعت کا بھی رد کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اہل بدعت سے عدل بھی کرتے ہیں اور ان دونوں صورتوں میں وہ کتاب وسنت کے بہترین شارح ہوتے ہیں
 


ڈاکٹر الشریف حاتم 
اُردو استفادہ: محمد زکریا
 

 


الحمد ﷲ ذی الجلال، والصلاۃ والسلام علی الرسول وازواجہ والآل:

    اما بعد۔۔۔۔۔۔
    دو اصناف ہیں جو اہلِ حق سے عدول اور مخالفت کے مرتکب ہوتے ہیں: ایک اہلِ بدعت اور دوسرے اہلِ فسق۔
    یہاں ہماری گفتگو اہلِ بدعت سے متعلق رہے گی۔ وجہ یہ کہ ایک تو اہلِ فسق وفجور کی نسبت (اہلِ بدعت کے) موضوع پر بہت ابہام پایا جاتا ہے، دوسرامعاشرے میں اس مسئلہ پر اصولی مباحث بھی بہت کم ذکر ہوتے ہیں۔ 
    بلا شبہہ اہلِ بدعت کو کئی طرح سے تقسیم کیا جاتا ہے، کبھی کسی ایک بنیاد پر یہ تقسیم ہوتی ہے تو کبھی کسی دوسری بنیاد پر۔ البتہ اہلِ بدعت کی صنف بندی کی اہم ترین بنیاد یہ ہے کہ 'کس بدعت کے حامل پر مسلمان ہونے کا حکم لگے گا اور کس پر کافر ہو جانے کا، یا یہ کہ کس کو ایمان پر مانا جائے گا اور کس اہلِ بدعت کو فاسق شمار کیا جائے گا'؟ کیونکہ یہی وہ تقسیم ہے جس کی بنیاد پر وہ بہت سے احکام لاگو ہوتے ہیں جن کا تعلق مبتدع کے دنیوی حکم سے بھی ہوتا ہے اور مبتدع کے اخروی حکم سے بھی۔ 
    مبتدع پر اسلام و کفر، اور یا پھر ایمان و فسق کا حکم لگنے کا دار و مدار جس چیز پر ہے وہ دو باتیں ہیں: 
    ایک یہ کہ وہ جس بدعت کا مرتکب ہے خود اُس بدعت کو دیکھا جائے کہ وہ کس نوعیت کی ہے؟
    دوسرا یہ کہ اُس مبتدع کو دیکھا جائے کہ اُس کے اِس بدعت کا مرتکب ہونے کی نوعیت و کیفیت اور اسباب و بواعث کیا ہیں؟
    ان دونوں باتوں کا جائزہ لئے بغیر اہلِ علم کے ہاں کسی مبتدع کے اسلام و کفر یا ایمان وفسق کی بابت حکم نہیں لگایا جاتا۔
    تفصیل اِس اجمال کی یہ ہے کہ بدعت یا تو کفریہ ہوگی اور یا پھر غیر کفریہ۔ جہاں تک'' کفریہ بدعت'' کا تعلق ہے تو اِس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک وہ ''کفریہ بدعت'' جو شہادتین (لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ یعنی وحدانیتِ خداوندی اور رسالتِ محمدی) کے مدلول سے ہی صریح و براہِ راست متصادم ہوں۔ (1) ایسی بدعت کے حاملین کو معین کرکے یعنی فرداً فرداً کافر کہا جائے گا۔ ان پر حکم لگاتے وقت ہم ان کو لا علمی (جہل) یا تاویل یا شبہہ کا عذر بھی نہیں دیں گے۔ دوسری وہ ''کفریہ بدعت'' جو شہادتین کے مدلول سے صریح متصادم نہ ہو مگر وہ کسی ایسے امر سے متصادم ہو جو دین کے اندر قطعی مانا گیاہو۔ ''کفریہ بدعت'' کی یہ البتہ وہ قسم ہے جن میں بعض عذرات کا اعتبار کیا جاسکتا ہے مثلاً آدمی کی جہالت و لا علمی یا خطا وغیرہ، البتہ جب ایسے عذر رکھنے والوں پر حجت (درست اور مکمل انداز میں)قائم ہو جائے تب اہلِ علم کیلئے روا ہو جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تکفیر کردیں۔ (2) اور جہاں تک ''غیر کفریہ بدعت'' کا تعلق ہے، اور جوکہ وہ بدعت ہوگی جو دین کے کسی قطعی امر سے تصادم پر مبنی نہ ہو، تو اِس کی بنیاد پر سرے سے تکفیر نہ ہوگی چاہے اِس کا حامل متاول (تاویل کرنے والا) ہو یا معاند (ہٹ دھرمی کے ساتھ بدعت کا ارتکاب کرنے والا)۔ البتہ ایسے مبتدع کی تفسیق کی جاسکتی ہے (یعنی اس کو فاسق قرار دیا جاسکتا ہے) اور وہ اُس صورت میں جب اُس پر حجت قائم کردی گئی ہو اور قیامِ حجت کے بعد بھی اُس کی جانب سے اِس (غیر کفریہ بدعت) پر اصرار اور عنا د ہی ظاہر ہو۔ 
    چنانچہ بدعت کی کل تین قسمیں ہوئیں۔ جن میں سے ہر ایک کے حامل کا صاحبِ ایمان ہونا یا صاحبِ فسق ہونا یا پھر صاحبِ کفر ہونامختلف صورتوں میں مختلف ہو سکتا ہے۔ 
    اِس مضمون میں البتہ ہماری گفتگوایسے مبتدع (بدعت کا ارتکاب کرنے والا) پر ہی مرکوز رہے گی جس کا اسلام میں ہونا بہ دستور شامل ہے، جوکہ وہ مبتدع ہے جس کی بدعت یا تو سرے سے غیر کفریہ ہو، اور یا پھر ہو تو کفریہ مگر شہادتین (لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) کے مدلول سے صریح و براہِ راست متصادم نہ ہو اور اِس بنا پر اُس کو (باقاعدہ اِقامتِ حجت سے پہلے پہلے) جہالت یا خطا یا نسیان یا شبہات وغیرہ کا عذر دیا جاسکتا ہو۔ (3)
    پس جہاں تک خود بدعات کا تعلق ہے جن کے یہ اہل بدعت مرتکب ہوتے ہیں، تو یقینا وہ تو یہی حق رکھتی ہیں کہ ان کے رد میں خوب شدت اختیار کی جائے اور ان کے بطلان کے بیان میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا جائے۔۔۔۔۔۔ ہر اس طریقے اور اسلوب کو بروئے کار لاتے ہوئے جو حقائقِ دین کے اندر آنے والے اس انحراف کے قلع قمع کے معاملہ میں مطلوبہ دینی مصلحت بر لانے کیلئے ضروری ہو۔ کیونکہ بدعت حقائقِ دین کی تحریف کا ہی دوسرا نام ہے، گو کوئی تحریف زیادہ شدید نوعیت کی ہو سکتی ہے اور کوئی کم۔ پس ان بدعات کا رد کرنا تو واجب ہی رہے گا اور اس کیلئے تمام تر شدت اور ایضاح کے تمام تر ذرائع اختیار کئے جائیں گے، اور اس سلسلہ میں (جہاں تک ممکن ہو) کوئی لاگ لپیٹ یا کسی کی کوئی رو رعایت نہ کی جائے گی۔ ان بدعات کے مبنی بر باطل ہونے کے دلائل فراہم کئے جائیں گے اور معاشرے کے اندر ان کے خلاف ایک ردِ عمل پیدا کیا جائے گا۔ گو اس کیلئے صرف وہی وسائل اختیار کئے جائیں گے جوکہ دستیاب ہوں اور جو کہ شرعی طور پر روا ہوں۔ اگر اہل علم یہ کام نہیں کریں گے تو بدعات ہی دِین کے طور پر رواج پا جائیںگی اور تحریف شدہ دِین ہی دِین برحق بن کر معاشرے میں رچ بس جائے گا۔ (4)
    مگر یہ شدت اور یہ سخت رویہ جس کا ضروری ہونا اوپر بیان ہوا ہے خود اُس بدعت سے ہی متعلق ہے، نہ کہ اُس بدعت کے قائل یا فاعل شخص سے متعلق جو اُس پر سر گرمی سے عمل پیرا ہے۔ عین ممکن ہے کہ بدعت کا مرتکب شخص اپنی بدعت کی کوئی تاویل رکھتا ہوگا۔ چنانچہ اوپر جو بات بیان ہوئی وہ 'بدعت' کے بارے میں فی نفسہ بیان ہوئی ہے ، رہے وہ لوگ جو اِس بدعت کے قائل یا فاعل ہوں، اور جن کے معاملہ میں اصل یہ ہے: کہ انکو جہل (لاعلمی) یا ان شبہات کی بنا پر جو ان کو سنت سے دور رکھنے کا باعث بنے ہوں، عذر دیا جائیگا۔ 
    مبتدع کا متاول ہونا (جس کے ہوتے ہوئے وہ ہمارے ہاں عمومی طور پر معذور مانا جائے گا) اِس امر کا مستوجب ہے کہ ''اصل یہ ہے کہ اُس کے ساتھ شدت اختیار نہ کی جائے'' بلکہ اُس کو عذر دیا جانا اُس کے ساتھ ہمارے تعامل میں بہت واضح ہونا چاہیے، یعنی یہ کہ اُس کے ساتھ رِفق اور نرمی کا اسلوب ہی اختیار کیا جائے۔ بنا بریں اس اصل بنیاد کی رو سے اصحاب بدعت سے اہلسنت ایسا طرز عمل اختیار نہیں کرتے جو حق اور اہل حق سے نفرت دلانے والا ہو، جس کی وجہ سے وہ اپنی بدعت پر اور زیادہ جم جائے اور اہل حق سے دور ہو جائے، بلکہ اُس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا واجب ہوگا جس سے وہ اہل حق کے قریب ہو اور اُن سے بھلائی پانے کا متمنی ہو۔
    یہ درست نہ ہوگا کہ ہم کسی مبتدع کو عذر دینے کے قاعدہ پر تو اتفاق کریں مگر اُس کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت اُس کو عذر دینے کے قاعدہ کو عملاً فراموش کردیں۔ بلکہ ہمیں یہ تک نہ بھولنا چاہیے کہ ایک مبتدع کسی وقت اپنے ارتکابِ بدعت کے معاملہ میں (نہ کہ اُس کے ارتکاب پر) ماجور (قابلِ اجر) بھی ہوسکتا ہے، ایک اِس جہت سے کہ اُس نے حق تک رسائی کیلئے اپنا اجتہاد کیا گو وہ اپنے اس اجتہاد میں ٹھوکر کھاگیا، اور ایک اِس جہت سے کہ اُس کا اس بدعت کا مرتکب ہوا ہونا (ہو تو لا علمی یا غلط فہمی کے باعث ہی مگر) اُس کا محرک اُس کا اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ محبت کرنا ہو۔ جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اس شخص کے بارے میں وارد ہوا ہے جوعید میلاد مناتا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میلاد منانے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے تو ماجور ہوسکتا ہے البتہ اِس فعل کا (جسے وہ عبادت سمجھ کر بروئے کار لاتا ہے) وہ کوئی اجرپانے والا نہیں۔ (5)
    بلکہ اُس مبتدع کی بابت جس کی تکفیر نہیں ہوتی، یعنی وہ شخص جو اسلام سے خارج نہیں ٹھہرایا گیا، ہمیں یہ بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ وہ حقوق جو ایک مسلمان کے ایک مسلمان پر ہوا کرتے ہیں (اور جو کہ نصوصِ وحیین میں بیان ہوئے ہیں) ۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے یہ باہمی حقوق اِس شخص کو بھی شامل ہیں۔ جو حقوق مسلم معاشرے کے اندر دیگر مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ اسے بھی حاصل ہی ہیں، چاہے اُس کی اِس بدعت کی بنا پر ہم نے اُس کی تفسیق کردی ہو یا (ہنوز فاسق نہ قرار دیئے جانے کی بنا پر) اُس کی عدالت ابھی ہمارے ہاں قائم ہو۔ (6)
    بنا بریں اہلسنت ایک مبتدع کا اپنے پر حق جانتے ہیں کہ اُس کے وہ عمومی حقوق جو اسلام اُسے دیتا ہے اور جوکہ نصوصِ شریعت سے ہر اُس شخص کیلئے ثابت ہیں جو اسلام سے خارج نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ اہل سنت یہ سب کے سب حقوق اسے پورے کے پورے ادا کرتے رہیں گے۔ اہلسنت اپنے لئے یہ روا نہیں رکھتے کہ ایک شخص کا، اُس کے ارتکابِ بدعت کے باوجود، کوئی ایسا حق ہضم کرجائیں۔ (7) جو اللہ تعالیٰ نے اُس کو دے رکھا ہو۔ اہلسنت یہ کام اپنے جذبات کے زیرِ اثر کرتے ہیں اور نہ تسکینِ نفس کی خاطر، نہ ضد بازی میں آکر، اور نہ مبتدع کی کسی حرکت کا جواب اُسی کے اسلوب میں دیتے ہوئے، سوائے یہ کہ مبتدع فساد وگمراہی کے معاشرے میں برپا کرنے کا سبب بن رہا ہو، صرف اِس صورت میں اُس کو حقوق دینے میں کچھ کمی ہو گی اور اس کمی کا پیمانہ بھی یہی ہوگا کہ وہ معاشرے میں فساد و انحراف کا ذریعہ بننے میں کس درجہ کی تاثیر رکھتا ہے۔ اِس درجہ سے نہ تجاوز کیا جائے گا اور نہ زیادتی۔ غرض کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے گا جو ضوابطِ شریعت کی رو سے منضبط نہ ہو۔
    اِس کا مطلب ہوا کہ مبتدع کی سزا و سرزنش کا حکم مصلحتِ شرعیہ سے متعلق ہے، یعنی مبتدعین کا کوئی ایک خاص لگا بندھا حکم نہیں جو ہر مبتدع کے حق میں بالفور لاگو کردیا جائے۔ جب ہم کسی حکم کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اِس کا تعلق مصالحِ شریعت سے ہے تو اس سے مراد ہوگی کہ کہ اس پر عمل اُسی وقت مشروع ہوگا جب ہم یہ جان لیں کہ ایسا کرنا مصالحِ شریعت کے عمل میں آنے کا ذریعہ ہے، بصورتِ دیگر مبتدع کی سزا یا سرزنش مشروع نہ ہوگی۔ (8) علاوہ ازیں اس کا یہ مطلب بھی ہوگا کہ یہ ہر کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ طے کرے کہ اس وقت (جسے عام آدمی مبتدع سمجھ بیٹھا ہے)فلاں شخص کے حق میں سرزنش یا تادیب کرنے کی سزا مشروع ہے یا نہیں، بلکہ یہ طے کرنا صرف اور صرف اہلِ علم میں سے انہی لوگوں کا کام ہے جو اہلِ عدل ہیں اور (ان امور میں) صائب فیصلے کرسکتے ہیں۔
    خلاصہ یہ ہوا کہ مبتدع کی عقوبت و سرزنش ایک استثنائی صورت ہے۔ جبکہ اصل یہی ہے، جس کی جانب ہمیں، اس وقت جب سرزنش سے مصلحتِ شرعی پوری ہوتی نظر نہ آرہی ہو، رجوع کئے رکھنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کہ وہ مسلمان ہے اور جو مسلمان کے حقوق ہیں وہ اس کے حقوق ہیں۔ نیز یہ کہ مبتدع کا مستوجبِ سرزنش ہونے کے معاملہ میں ایک شخص کا معاملہ دوسرے شخص کی نسبت مختلف ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ ایک ہی شخص کا معاملہ کچھ خاص حالات یا ماحول کی نسبت کسی دوسری قسم کے حالات یا ماحول میں مختلف ہوسکتا ہے۔ پھر مزید یہ کہ اس عقوبت و سرزنش کی بابت فیصلہ کرنے میں اہلِ علم کے مابین اختلاف ہو جانا بھی روا ہے، یوں کہ یہ عالم کسی معین مبتدع شخص کے مستوجبِ سزا ہونے کی رائے رکھے اور وہ دوسرا عالم اسے مستوجبِ سزا وسرزنش نہ جانے کیونکہ اُس دوسرے کی رائے میں مصلحتِ شرعیہ اس سے پوری نہ ہو رہی ہوگی۔ چنانچہ ہر دو فریق میں سے کسی ایک کی بھی نکیر جائز نہ ہوگی جب تک کہ اُس پر اُس کی رائے کا غلط ہونا واضح نہ کردیا جائے۔
    البتہ وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ کسی سے بدعت کا سرزد ہو جانا بذاتِ خود (اور کسی اور اضافی سبب کے بغیر) اُس کے مستوجبِ سزا ہونے کو لازم ہے، اور اس بنا پر یہ لوگ ایک مبتدع مسلمان کو اپنی مرضی سے کچھ ایسے حقوق سے فارغ کر دیتے ہیں جو کہ اسلام کی رُو سے ہر مسلمان کو حاصل ہیں۔۔۔۔۔۔ تو یہ لوگ بین غلطی پر ہیںاور بعید نہیں کہ اپنے اس ظلم اورشریعت سے تجاوز پر یہ اپنے خالق سے سزا کے بھی مستوجب ہوں۔
    اب یہاں میں ایک مثال بیان کروں گاجو کہ ترک موالات سے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لا یحِلّ لمسلمٍ اْن یھجُرَ اخاہ فوق ثلاثلیالٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (خبردار) کسی مسلمان کیلئے یہ بات قابل تحسین نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زائد قطع تعلق کرے۔ وہ اس طرح کہ جب دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو وہ اِدھر کو رخ موڑ لیتا ہے تو دوسرا اُدھر کو رخ موڑ لیتا ہے، اِن دونوں میں بہتر (وہ مسلمان ہے) جو اپنے بھائی کو منانے میں پہل کرتا ہے۔ (9)
    اگرچہ سلف صالحین کے ہاں اہلِ بدعت کے احکام کے متعلق تفصیلات پائی جاتی ہیں جو ہم اگلی سطور میں بیان کریں گے، لیکن یہ بات طے ہے کہ سلف صالحین کے ہاں اہل بدعت کی گواہی اور روایت قبول کی جاتی تھی۔ جب واقعہ یہ ہے تو ثابت ہوا کہ سلف صالحین کے نزدیک اہل بدعتکی عدالت بدستور باقی سمجھی جاتی ہے (نہ کہ ان کو فاسق سمجھا جاتا ہے) بعض حضرات جو علم میں گہرا رسوخ نہیں رکھتے: مثلاً سلف صالحین کے اقوال سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتے، یا جو نص اُن تک پہنچتی ہے اُس کا مفہوم سمجھنے میں وہ شدید قسم کی ٹھوکر کھاتے ہیں۔ سلف صالحین کے جملہ اقوال میں تو تعارض یا ابہام نہیں ہوتا مگر اُن کی خواہش نفس کے خلاف چونکہ سلف صالحین کے اقوال پڑ رہے ہوتے ہیں یا طبیعت کے ذاتی رجحان کی وجہ سے اُس پر اُن نصوص کا مفہوم نہیں کھل پاتا۔ ایسے کوتاہ بین اور متعصب حضرات سلف صالحین کے وضع کردہ مذکورہ بالا اصول (کہ اہل بدعت کا اصل حکم عدم عقوبت ہے) کے برخلاف دوسرے قول کو اصل مانتے ہیں یعنی مبتدع سے ترکِ موالات اُن کے نزدیک اصل اصول اور کلیہ ہے۔ خاص طور پر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے چند اقوال کو پڑھ کر انہیں اپنے مطلب کی چیز مل جاتی ہے اور وہ اسے پلے سے باندھ لیتے ہیں۔ (10)
    اہلِ علم میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو جس گہرائی سے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھا ہے وہ متاخرین میں سے کم کے حصہ میں آئی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ھجر المبتدع خاضع حُکمہ للمصلحۃ (11)
    اہل بدعت سے قطع تعلق کا انحصار (شرعی) مصلحت پر ہے (نہ کہ محض صاحب بدعت ہونا)
    اِس اصول کی تفصیل بتاتے ہوئے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قطع تعلق سے اصل غرض اصلاح ہے جس کا انحصار بہت سارے عوامل پر ہے، مثلاً قطع تعلق کرنے والے کی شخصیت کا کتنا وقار ہے، اُن کی تعداد زیادہ ہونے سے اور اثرات پڑتے ہیں تو کم ہونے سے اور اثرات پڑیں گے، عام لوگ جو بدعت میں پڑ گئے ہیں، اہلِ علم کے قطع تعلق کے نتیجے میں سنت کی طرف فوری مائل ہو جائیں گے (یا الٹا اپنی بدعت پر راسخ ہو جائیں گے) قطع تعلق سے اصل مقصود اصلاح ہے اگر قطع تعلق کے نتیجے میں اصلاح کی اُمید یقینی نہ ہو (مرجوح ہو) تو ایسی صورت میں قطع تعلق کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ایک فریق کیلئے قطع تعلق، اصلاح کا باعث بن سکتا ہے تو دوسرے فریق کیلئے عین ممکن ہے کہ وہ طریقہ مضر ثابت ہو۔
    وہ مزید فرماتے ہیں کہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے قطع تعلق کے ضمن میں جو اقوال ہیں اُن کا انحصار اِس اصول پر ہے کہ نتیجے کے لحاظ سے کون سا طرزِ عمل شرعی مصلحت کو لانے والا ہے۔ مزید براں امام احمد بن حنبل اس بات کو بھی بنیاد بناتے ہیں کہ علاقے اور خطے کے لحاظ سے بھی حکم میں فرق آئے گا، جس وقت اور جس خطے میں اہلِ بدعت کثرت سے پائے جائیں گے وہاں کا حکم اور ہوگا اور جہاں اہلِ بدعت کی تعداد کم ہوگی اور اہلسنت کی دھاک بیٹھی ہوگی وہاں کے اہلِ علم ایک اور قسم کا طرز عمل اختیار کریں گے۔ اُن کے عہد میں بصرہ میں قدری فرقہ بہت مضبوط تھا اور خراسان کے علاقے میں جہمی فرقے کا زور تھا۔ (12) اور کوفہ میں شیعہ فرقہ قوت پکڑ گیا تھا۔ (13)
    محترم قارئین کرام، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اوپر جو اصول بیان کیا ہے وہ نہ صرف امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے بلکہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی مذہب ہے تمام ائمہ کرام اور اہل علم کا کہ شرعی مصلحت ہی وہ اصل بنیاد ہے جو قطع تعلق کا جواز بن سکتی ہے اور یہ قطع تعلق کچھ اہلِ بدعت سے ہی خاص نہیں ہے کہ ہمیشہ اہلِ بدعت کے حق میں قطع تعلق کا حکم ہو بلکہ شرعی مصلحت کبھی اہلسنت کے اعیان کے حق میں بھی قطع تعلق کے نتیجے میںحاصل ہو جاتی ہے اور بسا اوقات اُن سے قطع تعلق کرنا واجب ہوتا ہے خواہ وہ اہلسنت میں سے ہی ہو۔ لہٰذا اس قاعدے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اہل بدعت کے حق میں یہ قاعدہ سریع النفاذ ہے اور اہلِ سنت کے حق میں قلیل النفاذ ہے بلکہ اہلِ بدعت اور اہلسنت دونوں کیلئے ہر قاعدہ یکساں قابل نفاذ ہو سکتا ہے جبکہ شرعی مصلحت اس کی متقاضی ہو اور اِن دونوں گروہوں (اہل سنت اور اہل بدعت) کے حق میں اصل یہ ہے کہ قطع تعلق نہیں ہے۔ والأصل فی ھجرھما عدم الجواز۔ قطع تعلق دونوں کے حق میں جائز نہیں۔ یہی اصل کلیہ ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل اسلام کے بارے میں ایک عام حکم ارشاد فرمایا ہے کہ تین راتوں سے زائد قطع تعلق ناجائز ہے۔
    مذکورہ بالا اصل قاعدہ کہ اہلِ اسلام میں سے اہلسنت اور اہل بدعت ہر دو کیلئے اصل بنیاد اور کلیہ عدم عقوبت ہے (بشمول قطع تعلق جو خود ایک بڑی عقوبت اور سزا ہے)۔
    سلف صالحین کے اقوال جو اس اصول اور کلیہ کے بظاہر خلاف نظر آتے ہیں اُن کی بابت سلف صالحین کے اقوال کا پورا ادراک نہ رکھنے والوں کو گمان ہوا ہے کہ اہل بدعت کے حق میں اصل عقوبت ہے۔ اس سلسلے میں انہیں کتب سلف میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ملتا ہے: قدریہ (ایک بدعتی فرقہ) کے بارے میں امام ملک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اُن کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے، انہیں سلام نہ کیا جائے۔ یہی حکم تمام اہل اھواء کا ہے (جو سنت کو چھوڑ کر اپنی سمجھ سے کوئی طرز عمل یا تصور اپنا لیں) قدریہ کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے اور اُن کی گواہیوں کا اعتبار نہ کیا جائے۔
    امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا قول کے بارے میں اہل علم کی تشریحات ملاحظہ فرمائیں: ابوعمر بن عبداللہ اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ابو عمر بن عبدالبر اس کی قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ اُن کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کی امامت کا حقدار وہ ہے جو دِین میں کامل ہو، قرآن کی تلاوت، اُس کے معانی اور مفہوم کو سمجھنے والا ہو اور دین میں تفقہ رکھتا ہو، (یہ تب ہے جب اُسے خلیفہ یا اُس کے نائب نے مقرر کیا ہو یا وہ اہلِ خیر کا مستقل امام ہو) (1)
    امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا مخاطب کہ اُن کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے، اہلسنت کی ممتاز اور اعلیٰ شخصیات ہیں جنہیں ائمۃ المسلمین کہا جاتا ہے۔ (14)
    ائمہ اہلسنت کا ان کی نماز جنازہ نہ پڑھانا اِس غرض سے ہے کہ لوگ متنبہ ہو جائیں اور قدریہ کی بدعت کو ترک کردیں (جو ایک شرعی مصلحت ہے) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے کہ لا یصلّی علیہم ان کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے، یہ مراد نہیں ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی ان کی نماز جنازہ نہ پڑھے کیونکہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نے شہادتین کی گواہی دی ہوگی، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی خواہ وہ بدعتی ہو یا کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو۔ (15) امام ابن عبدالبر مزید لکھتے ہیں: فقہاء اسلام اور ائمہ عظام میں سے کسی ایک کا بھی مجھے یہ قول نہیں ملا کہ جو بظاہر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ سے نکلتا ہے۔
    امام ابن عبدالبر اسی کتاب کے سابقہ فصول کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جیسا کہ ہم نے گواہیوں کے باب میں بیان کیا ہے کہ اہلِ بدعت کی گواہی قبول کی جاتی ہے جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ بالا قول (اپنے اطلاق کے ساتھ) (اپنی نوعیت کا واحد قول ہے جس کی تائید دوسرے ائمہ کرام کے اقوال سے نہیں ہوتی) (2) ہاں البتہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے رافضی شیعہ جہمیہ فرقہ اور قدری فرقے کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان فرقوں کی گواہی 'لا تعجبنی'میرے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وکذلک کل صاحب بدعۃ (16) اسحاق کہتے ہیں کہ عدم قبول شہادت کا حکم ہر بدعتی کیلئے ہے۔ (17) امام ابن عبدالبر نے امام مالک کے قول کی جو توجیہ کی ہے وہ بالکل درست ہے۔ یہ درست ہے کہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کو خوب سمجھنے والے ہیں، لیکن اُن کا یہ کہنا کہ امام مالک کا یہ قول دوسرے ائمہ کے اقوال کے خلاف ایک نادر بات ہے، اتنا وجیہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جملہ ائمہ کرام کی طرح کا مذہب رکھنے میں مشہور ہیں اور دوسرا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے دوسرے اقوال بھی اُسی مفہوم کو ثابت کرتے ہیں جیسے امام ابن عبدالبر نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی تشریح میں بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ داؤد بن حصین سے کیوں روایت کرتے ہیں، اسی طرح ثور بن زید اور دوسرے انہیں کی طرح کے دوسرے قدریہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے اشخاص سے روایت قبول کرتے ہیں: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اس لئے کہ اگر ان حضرات کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیا جاتا تو وہ اسے بہ خوشی قبول کر لیتے مگر کذب بیانی پر کبھی آمادہ نہ ہوتے۔ (18)
    بنا بریں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی یہی تاویل معتبر ہے کہ عقوبت کاسُن کر وہ اپنی بدعت کو ترک کردیں یا پھر وہ ایک قسم کے فساد کا سبب بن رہے تھے جس سے بچنے کی صرف یہی صورت رہ گئی تھی۔ امام مالک کے قول رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مفہوم اس لئے اختیار کرنا پڑے گا کہ اہل بدعت کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جو اہلسنت کے گناہگاروں کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے، مذکورہ بالا احکام از قسم عقوبات کی غرض وغایت اصلاح ہوتی ہے جو دونوں کی مطلوب ہے، اہلسنت کے گناہگار افراد کی اور اہل بدعت کے عوام وخواص کی یہ کوئی الگ عقوبات نہیں ہیں جو اہل بدعت کیلئے مخصوص ہوں۔
    ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ عقوبات اور تعزیرات کی بابت فرماتے ہیں کہ کن لوگوں کی بابت اصل قاعدہ عقوبت کا ہے، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: التعذیر لمن ظھر منہ ترک الواجبات وفعل المحرّمات۔۔۔۔۔۔ تعزیرات ان لوگوں کے حق میں اصل ہیں جن کی بابت واجبات کا تارک ہونا ثابت ہو گیا ہو یا وہ حرام امور کا ارتکاب کرتے ہوں جیسے نماز کا تارک ہے یا کھلے عام ظلم کرنا یا فحاشی وبدی کے کام کرنا یا پھر ایسی بدعات کی پرزور دعوت دینا جو کتاب وسنت کے اس مفہوم کے خلاف ہو جس پر اہل علم کا اتفاق ہو یا پھر اہل علم نے کسی بات کی بابت اُس کے بدعت ہونے کا حکم لگایا ہو۔ تمام ائمہ کرام اس قسم کی بدعات کی پرزور دعوت دینے والے کی گواہی کو قبول نہیںکرتے کہ جس کا بدعت ہونا اہل علم کے ہاں طے پا چکا ہے اور انہیں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُن کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے گی، نہ اُن سے اخذِ علم ہوگا اور نہ اُن سے نکاح کے بندھن باندھے جائیں گے۔ درآں حالیکہ وہ متفقہ بدعت کا پرزور حمایتی بنا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بدعت کی طرف دعوت دینے سے باز آجائے۔ تمام اہل علم بدعت کرنے والے اور بدعت کی پرزور دعوت دینے والے کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ (19) بدعت کی دعوت دینے والا دراصل ایک منکر کا برسرعام ارتکاب کرتا ہے، اس لئے وہ عقوبت کا مستحق ٹھہرتا ہے، برخلاف ایسے شخص کے جو صرف بدعت کا مرتکب ہے۔ بھلا کوئی بدعت کرنے والا کسی منافق سے بڑھ کر بُرا ہوتا ہے، نبی علیہ السلام اُن کی ظاہری عبادات کو سامنے رکھ کر اُن سے کسی بھی مسلمان کی طرح حقوق وفرائض کے لحاظ سے پیش آتے تھے جبکہ اُن کے باطن کی نیتوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔ (20)
    امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس موضوع پر بات ختم کرتے ہوئے ایک عام اصول بیان کرتے ہیں کہ مناط ذلک راجع الی المصلحۃ صاحب بدعت کیلئے اصل قاعدہ یہ ہے کہ شرعی مصلحت کس امر کلی کا تقاضا کر رہی ہے (جس کا فیصلہ اہل علم کو کرنا ہوتا ہے۔ مترجم)
    بنا بریں ہمارے عوام کا رویہ اہل بدعت سے وہ نہیں ہے جس پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے، یا پھر کسی امام کے کسی ایک قول کو لے کر اس کا غلط یا جزوی حکم لے کر اس کی تعمیم کر دی جاتی ہے جبکہ یہ بات تمام اہل علم کے نزدیک متفقہ ہے کہ خود بدعت کا اور حکم ہے اور جوشخص کسی بدعت کا ارتکاب کرے اس کا اور حکم ہے۔ بدعت کرنے والے کا کبھی جہل قابل عذر ہوتا ہے، کبھی تاویل یا اس کا اجتہاد جس پر اُسے ایک اجر ملنا ہوتا ہے، شریعت میں یہ تمام اعتبارات ملحوظ خاطر رکھے جاتے ہیں۔ بدعت اور بدعت کا ارتکاب کرنے والے شخص کیلئے ایک سا حکم کرنا دراصل دو مختلف احکام کے متقاضی امور کو ایک حکم میں جمع کرنا ہے جو شریعت میں روا نہیں ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ خود بدعت اور دوسرا صاحب بدعت پر اُس بدعت کے اثرات کا پیمانہ کیا ہو سکتا ہے، ایک دشوار اور ناممکن الحصول بات ہے، البتہ جب وہ اس بدعت کا پرزور حمایتی بن جاتا ہے تو پھر اس صورت میں زجر وتوبیخ سے حسب مصلحت کام لیا جاتا ہے کیونکہ وہ صرف بدعت کا مرتکب نہیں رہا بلکہ اُس میں ایک اور صفت بدعت کا داعی ہونا پیدا ہو تی ہے جبکہ بدعت ایسی ہو کہ اُس کا بدعت ہونا معلوم ہو۔ ایسی مرکب صورت میں عقوبت کا جواز پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ بھی اس قدر کہ وہ بدعت کی دعوت سے باز آجائے اور اتنی تادیب کی جائے کہ جو بس اس قدر ہو کہ وہ دعوت دینے سے باز آجائے۔ جہاں تک اُس شخص کا تعلق ہے جو دعوت دینے سے باز آگیا ہے مگر خود بدعت میں مبتلا ہے تو اب اس شخص کے متعلق وہ تمام عذارت باقی ہیں جو اس سے پہلے قابل قبول سمجھے گئے تھے بہ شمول مغالطہ لگ جانے، جہل اور تاول اور شبہات وغیرہ۔ اُس کا اہل اسلام میں سے ہونا اب بھی ثابت ہے خواہ ہمارے نزدیک اب اُس کی بدعت کی نوعیت مثلاً ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہو۔ پھر بھی اُسے مسلمانوں کے تمام حقوق حاصل رہتے ہیں جیسے مسلمان سے عزت افزائی سے پیش آنا، سلام کا جواب دینا اور دوسرے تمام حقوق۔ جب تک بدعت از قسم بدعت مکفرہ کی قسم سے نہیں ہے تو اہل علم بدعت اور صاحب بدعت کے فرق کے علاوہ اور امور کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ (21) مثلاً بدعت کا سنگین اور غیر سنگین ہونا، وقت اور جگہ کے لحاظ سے فرق کرنا اور یہ کہ وہ اپنی بدعت کی دعوت دینے میں کتنا سرگرم ہے اور اس بدعت کو رائج کرنے کیلئے کتنی قوت اور طاقت کام میں لا رہا ہے۔ ان سب احتمالات کو سامنے رکھ کر اہل علم الفت یا تادیب اختیار کر سکتے ہیں، اس بات پر اتفاق ہونے کے بعدکہ وہ اہل اسلام میں سے ہے اور اس کے وہ تمام حقوق اُسے حاصل ہیں جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں سوائے اس کے کہ شریعت کی رو سے ہی وہ کسی حق کے مسلوب ہونے کا مستحق ٹھہرے۔ (22)
    ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بسا اوقات ایک شخص میں متعدد نیک اور بد خصائل پائے جاتے ہیں، خیر بھی پائی جاتی ہے اور شر بھی، وہ اطاعت بھی بجا لاتا ہے اور معصیت کے کام بھی کرتا ہے، اسی طرح وہ سنت کے موافق کام بھی کرتا ہے اور ایسے کام بھی جو بدعت ہیں، ایسے شخص کے متعلق شریعت کا یہ حکم ہے کہ وہ اپنی نیکوکاری اور سنت پر عمل پیرا ہونے کے موافق موالات کا مستحق ہے اور جس قدر اُس میں معصیت اور بدعت پائی جاتی ہے اسی قدر اُس سے دوری (ہجر) اختیار کی جائے گی اور شر کے بقدر عقاب دی جائے گی۔ وہ ایک ہی وقت میں عزت افزائی کا بھی مستحق ہے اور اہانت کا بھی، جیسے ایسا چور جس نے غربت اور ناداری کی وجہ سے سرقے کا ارتکاب کیا ہو۔ اُس پر شریعت کی حد بھی نافذ ہوگی اور بیت المال سے اُس کے لیے راشن کا بندوبست بھی کیا جائے گا جب تک وہ اس راشن کا مستحق رہتا ہے۔ ایسے تمام اہل اسلام کے بارے میں یہی حکم ہے اور خیر القرون سے اب تک سب اہل علم کا اس پر اتفاق ہے، سوائے فرقہ خوارج اور فرقہ معتزلہ کے یا جنہوں نے ان کے اصولوں میں سے کوئی اصول اختیار کرلیا ہو۔ ان دونوں فریقوں کے نزدیک البتہ معصیت (کبیرہ) کی وجہ سے وہ صرف عقاب کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اگر معصیت نہ کرتا ہو تو پھر ثواب کا مستحق رہتا ہے۔ اُن کے نزدیک ثواب اور معصیت (کبیرہ) ایک شخص میں اکٹھی نہیں ہو سکتی ہیں۔ (23)
    بنا بریں عوام الناس یا کم علم علماء کا بدعت اور اہل بدعت کے متعلق یہ تصور کہ وہ یکساں حکم رکھتی ہیں اور دوسرا اہل بدعت صرف عقوبت (ہجر، ترک موالات) کے سزاوار ہوتے ہیں تمام اہل علم کی متفقہ رائے کے برخلاف ہے۔ درحقیقت اس امر میں بہت سے تفصیلات پائی جاتی ہیں جس کا کچھ تذکرہ ہم گزشتہ سطور میں کر آئے ہیں۔
    ائمہ کرام اور اہل علم کی سوانح اٹھا کر دیکھو، وہ کتنی عزت افزائی سے قتادۃ بن دعامہ سے پیش آتے تھے حالانکہ وہ قدری تھا اس لئے کہ قتادہ بن دعامہ میں جو خیر کا پہلو، دروغ گوئی سے کوسوں دور ہونا اور ایمان میں پختگی پائی جاتی تھی اس کی ان نیکیوں نے اس کی بدی کے کام کو ڈھانپ لیا تھا اور وہ اہل حق سے اکرام وتعظیم کو پاتا تھا۔ اسی طرح اہل حق بدعت کرنے والے اور بدعت کے داعی سے یکساں سلوک نہیں کرتے تھے اور اسی طرح تاویل کرنے والے اور ہٹ دھرم بدعتی سے بھی ایک سا برتاؤ نہیں کرتے تھے بلکہ آخر الذکر سے زیادہ درشتگی کے ساتھ پیش آتے تھے۔
    تمہارا تصور شاید یہ ہوگا کہ ہمارے سلف اہلسنت کے اُن لوگوں کو قدری اور خوارج وغیرہ سے زیادہ احترام دیتے ہوں گے جو اہلسنت میں سے ہوتے اور منکرات از قسم زنا، شراب نوشی، سود خوری وغیرہ کا ارتکاب کرتے تھے۔ اس لئے کہ بدعت تو بڑا ہی قبیح کام ہے اور دین میں جن امور کا ارتکاب کرنا حرام ہے وہ محض کبیرہ گناہ! بخدا ایسا نہیں ہے۔ اہلسنت نے متعدد شخصیات کو بدعت پر محمول کیا ہے بلکہ اُن میں سے اکثر نئی بدعت کے بانی بھی رہے ہیں لیکن تم ان کی تالیفات اور سوانح میں اُن شخصیات کا ذکر جنہیں وہ خود بدعت پر ہونا ثابت کرتے تھے اس قدر احترام اور تعظیم سے سنوں گے کہ تمہیں اعتبار نہیں آئے گا۔ سلف کی چھوڑی ہوئی تراث میں قتادہ قدری کا تذکرہ پڑھو یا عبدالرزاق کا تذکرہ پڑھ لو جو شیعہ تھا یا عبیداللہ بن موسیٰ عبسی جو رافضی تھا اُس کا تذکرہ پڑھ لو، یا مرجئہ فرقے کی اہم شخصیت ابو معاویہ ضریر کا تذکرہ ہو یا پھر عز بن عبدالسلام جو اشعریوں کے امام ہیں یا اور بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کا تذکرہ خیر سے ہی کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام شخصیات اہلسنت کے ہاں عادل اور ثقہ ہیں اور حرام کاموں سے بہت بلند وبالا اور عزت والے ہیں۔ ان کی نیکیوں اور خیر کے کاموں میں مشغول ہونے اور دین اسلام کی حرمت کو اپنی حرمت سے زیادہ عزت دینے کی وجہ سے اہلسنت اُن سے وہ روایات قبول کرتے ہیں جو وہ نبی علیہ السلام سے بیان کرتے ہیں اور اہل حق ان کی گواہیاں بھی قبول کرتے ہیں۔
    بخدا وہ شخص حد درجے کا ظلم کرے گا جو اہلسنت میں سے حرام کام کا ارتکاب کرنے والوں کو محض اس وجہ سے مذکورہ بالا شخصیات سے بہتر سمجھے کہ اول الذکر تو کبیرہ گناہ کرتا ہے اور بدعت کرنے والا گمراہ ہوتا ہے، حالانکہ وہ کسی مسئلے میں اجتہاد کرتے ہیں اور انہیں ایک قسم کا مغالطہ لگتا ہے یا کسی شبہات میں پڑ جاتا ہے یا کوئی وقیع قسم کی تاویل کرتا ہے وہ اپنی ساری عمر دین اور اہل اسلام کی خیر خواہی میں گزار دیتا ہے۔ حد درجے کا متقی اور پرہیزگار ہے۔ علم وعمل میں شب و روز صرف کرتا ہے اور اس کی نیکیاں اُس کے غلط اجتہاد سے زیادہ ہیں جبکہ وہ اپنے غلط اجتہاد میں بھی ایک نیکی کا ثواب پاتا ہے۔ بخدا اہلسنت کے ائمہ سے ایسا قول منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ اہل سنت کے فواحش میں مبتلا مذکورہ بالا شخصیات سے بہتر ہیں۔ اہلسنت کے ائمہ نے جتنا زور لگایا وہ کسی بدعت کے خلاف لگایا ہے اور ان کے اجتہاد کو غلط ثابت کرنے پر لگایا ہے نہ کہ انہیں مسلمانوں کے عوام کی نظروں سے گرانے کیلئے۔ کلاّ وحاشا! کبھی کوئی شخص بدعت میں پڑ جاتا ہے یا اُس پر اصرار بھی کرتا ہے لیکن اُس کی وجہ غلط تاویل ہوتی ہے۔ یہ اکیلا امر اُس سے اکرام اور عزت افزائی کا حق سلب نہیں کرتا اور اگر اس کی خیر اتنی وافر ہو کہ اہل علم نے اُس سے روایت لی ہو تو پھر ایسی شخصیات بعد والوں کیلئے حد درجے قابل احترام ہیں، دُعاؤں کی مستحق ہیں اور اُن کے حق میں کلمہ خیر کہنا ہی واجب ہے۔ اہلسنت کے اکابر البتہ بدعت کو غلط ثابت کرتے ہی رہیں گے۔ بنا بریں یہ تصور شریعت اور ائمہ کرام کے اصولوں کی روشنی میں صحیح نہیں ہے، اِس اطلاق کے ساتھ کہ اہل سنت کا ہر فاسق اہل بدعت کے نیکوکار سے افضل ہے۔ اگر سلف صالحین سے ایسے اقوال مل جاتے ہیں تو وہ زمان ومکان اور زجر وتوبیخ کے نقطہ نظر سے کہی گئی ہیں۔ البتہ تعیین کے ساتھ اہل علم ایسا کرتے ہیں کہ اہلسنت کا فلاں فاسق بھی اہل بدعت کے فلاں شخص سے بہتر ہے۔ بھلے وہ راتوں میں قیام کرتا ہو اور دن میں روزے رکھتا ہو۔ سلف صالحین سے اس قسم کے جتنے اقوال ملتے ہیں وہ برسبیل شرعی مصلحت کے کہے گئے تھے بلکہ سنی اور بدعتی کی دونوں اصطلاحیں بھی شرعی مصلحت کو سامنے رکھ کر کہی جاتی ہیں۔ بدعت کی کئی منازل ہیں اور سنت کے بھی کئی درجات ہیں، کسی شخص پر حکم لگانے کیلئے علاوہ شرعی مصلحت کے یہ بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ سنت کی کتنی منازل وہ طے کر چکا ہے اور بدعت کے کس درجے میں پایا جاتا ہے اور ازروئے شریعت کس سمت میں اُس کا فاصلہ کم ہے یا زیادہ۔ (24)
    محترم قارئین آپ کے پیش نظر شریعت کی تقسیم رہنا چاہیے کیونکہ شریعت سے زیادہ عدل اور انصاف کی بات اور کسی نظام حیات میں نہیںہے۔ ہماری شریعت میں انسانوں کی چار اقسام پائی جاتی ہیں، علاوہ اس کے اور کوئی پانچویں صنف نہیں پائی جاتی۔ یا یوں سمجھوں کہ کل چار منازل ہیں۔ بہترین اور پہلی منزل یا قسم ہے (الف) مومن مسلمان، دوسری منزل یا قسم ہے (ب) فاسق مسلمان، تیسری منزل یا قسم ہے (ج) منافق اور چوتھی منزل یا قسم ہے (د) مشرک کافر کی۔
    پہلی دونوں منازل یا اقسام یعنی مومن مسلمان اور فاسق مسلمان، اہل اسلام میں شمار ہوتے ہیں جبکہ آخر الذکر دو منازل یا اقسام یعنی نفاق اور شرک میں کفر کی مشترکہ صفت پائی جاتی ہے۔ بنا بریں شریعت کے مخاطب یہ دونوں فریق ہیں: اہل اسلام خواہ عادل ہوں یا فاسق اور اہل کفر خواہ چھپا ہو جیسے منافق کا کفر ہے یا ظاہری کفر ہو جیسے ہنود اور نصاری یا مشرکین کا کفر ہے۔ شریعت کے تمام احکام اِن چار اصناف کو سامنے رکھ کر ترتیب پاتے ہیں اور یہی اصناف شریعت کی مخاطب ہیں۔
    عزیز قاری، جب آپ کسی بدعت میں مبتلا شخص کی بابت کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو آپ مذکورہ بالا شریعت کی حدود کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں۔ مذکورہ بالا شرعی اصولوں کی رو سے آپ نے جان لیا ہوگا کہ بدعت کرنے والا بدعت کے باوجود کبھی بہ دستور عادل مسلمان میں ہی شمار ہوتا ہے اور کبھی فاسق مسلمان میں شمار ہوتا ہے۔ اپنی بدعت کی نوعیت اور سنت سے دوری کی بنا پر، یا پھر بدعت کی دعوت میں سرگرمی دکھانے یا اپنے تک محدود رکھنے کی بناء پر یا کسی ایسے زماں ومکان میں ہونے کی وجہ سے جس کا اہل علم اعتبار کرتے ہوں۔ عین ممکن ہے کہ شریعت کی پابندی کرتے ہوئے جبکہ آپ کا اہل علم میں سے ہونا ایک معلوم حقیقت ہو، کوئی شخص منافق اور زندیق کے درجے میں بھی ہو سکتا ہے اور بدعت کی نوعیت اور دیگر شروط کی بنا پر کافر ہو کر دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو سکتا ہے۔ اس میں اصل اصول جو اہلِ علم کے ہاں طے شدہ ہے یہ ہے کہ مذکورہ بالا چار اصناف میں سے کوئی وصف بھی بدعت کے مرتکب میں ہوسکتا ہے بشمول عادل مسلمان کے جس کا تذکرہ گزشتہ سطور میں ہو چکا ہے اور جس کی وجہ سے محدثین جیسے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرھما اُن کی روایت قبول کرتے ہیں۔ کبھی بدعت کے مرتکب پر فاسق مسلمان کا حکم لگتا ہے جبکہ اہل علم میں سے کسی نے بدعت کے علاوہ اُن امور کے اُس سے ظاہر ہونے کی وجہ سے اُسے فاسق کہا ہو جن امور کے کسی سے (خواہ اہل سنت میں سے بھی ہو) بھی ظاہر ہونے سے اُسے فاسق کہا جاتا ہے، یا پھر بدعت بذات خود ایسی ہو جسے بدعت مفسقہ کہا جاتا ہے اور اہل علم نے اُس کے ترک کرنے پر اُس سے خوب بات چیت کر لی ہو اور معاملہ اُس پر کھل چکا ہو مگر وہ پھر ڈھیٹ پنے کی وجہ سے وہ اپنی بدعت مفسقہ پر مصر رہتا ہے تو ایسی صورت میں اہل علم اُس پر فاسق مسلمان کا حکم لگائیں گے۔ اگر بدعت کا مرتکب اپنے باطن میں کفر رکھتا ہے تو وہ منافق کافر میں شمار ہوگا اور اگر بدعت مکفرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اہل علم اُس پر شرعی حجت قائم کر دیتے ہیں تو وہ اُسے مرتد قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیں گے۔ لہٰذا بدعت کے محض سرزد ہو جانے سے ہی وہ مبتدع نہیں کہلائے گا، عین ممکن ہے کہ وہ کوئی تاویل کرتا ہو، یا نسیان ہوا ہو یا کسی شبہے یا شبہات کی وجہ سے ایسا ہوا ہو یا کسی گزرے ہوئے بزرگ کے احترام میں ایسا کرتا ہو، جب تک اُس کی بدعت شہادتین کے واضح مدلول کی ضد میں سرزد نہیں ہوتی، تو اہل علم کے ہاں اُس کے عذرات قابل قبول ہوتے ہیں او جب تک اہل علم نے اُن عذرات کا اعتبار کر رکھا ہو، کسی شخص کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اُس پر ملامت (3) کرے، یا اُس کے کسی شرعی حق سے اُسے محروم کرے، یہ حکم صرف ظاہری نہیں بلکہ دِل میں بھی وہ خیر خواہی کا ہی حقدار ہے اور یہ صرف احکام کچھ دنیا ہی کے نہیں ہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ انہیں دنیاوی حقوق کی بناء پراٹھایا جائے گا۔ یہ مذکورہ بالا احکام دُنیا اور آخرت دونوں کے ہیں۔ (25)
    عزیز قاری آپ کو یہ بات یادرکھنا چاہئے کہ اہل سنت کے ہاں منزلہ بین (4) منزلتین نہیں ہے۔
    بنا بریں اہلسنت کے ہاں یہ دستور نہیں ہے کہ وہ اہل بدعت کیلئے کوئی نیا درجہ ایجاد کریں اس طرح کہ کسی شخص کو ایمان اور فسق کے درمیان کسی درجے میں رکھیں یا اس طرح کہیں کہ وہ کفر اور فسق کے بیچ کسی درجے میں ہے اور اس طرح چار چھوڑ کئی قسم کی منازل پیدا کردیں۔ (26) اہلسنت کے ہاں سرے سے یہ اصطلاح ہی مفقود ہے تو پھر چار مذکورہ بالا اصناف کے علاوہ کوئی صنف کیسے ہو سکتی ہے۔
    بنا بریں یہ تصور بالکل غلط ہے کہ اہل بدعت کے تو نیک و کار بھی فاسق ہوتے ہیں اور اہلسنت کے بدکار بھی عادل ہوتے ہیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ یہ تو بہت ظالمانہ اور ناانصافی والی تقسیم ہوگی۔ یہ تو اس طرح کی تقسیم ہوئی جیسی معتزلہ کرتے ہیں۔ کوئی شخص ہے تو فاسق مگر شامل اہلسنت میں ہے تو کیا تم اُسے اس طرح کہو گے کہ 'سنی فاسق' اور اہل بدعت کرنے والے کے بارے میں کہو گے کہ مومن بدعتی!
    ایسی ناانصافی ہمارے دین میں نہیں ہے بلکہ فسق کرنے والا تو اہل فسق میں ہے اور نیکی اور نیکی کو پھیلانے والے مومنین میں شمار ہوں گے جیسے قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور عزّ بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ اللہ ہی ان دونوں کو خوب جاننے والا ہے۔
    ہم خلیفہ عادل علی بن ابی طالب سے زیادہ دین کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے، آپ ذرہ علی بن ابی طالب کا ان لوگوں کے بارے میں موقف سنیں (یعنی خوارج) جو خود آپ کو (علی بن اَبی طالب) کافر کہتے ہیں بلکہ اپنے علاوہ تمام مومنین کو بھی کافر کہتے تھے۔ اُن کے بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ لوگ (خوراج) مشرک ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: شرک سے ہی تو یہ بھاگے ہیں۔ پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ لوگ منافق کہے جا سکتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: بلاشبہہ منافق تو وہ ہوتے ہیں جو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں (جبکہ خوارج تو ہمہ وقت عبادت میں لگے رہتے ہیں) پھر پوچھا گیا کہ پھر ان کی بابت ہم کیا موقف رکھیں؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: یہ چند لوگ ہیں جو ہمارے خلاف تلوار لے کر اٹھے ہیں، ہم صرف اس سبب سے اِن سے لڑائی کر رہے ہیں۔
    محترم قارئین، امام عادل کا عدل ملاحظہ فرمائیں اور یاد رکھیں کہ عدل اور انصاف پسندی اور توازن وخیر خواہی تمام اہلسنت کی ہر زمانے میں ممتاز ترین صفات ہیں۔ پھر خوارج کے بارے میں تو واضح اور سخت الفاظ میں نصوص بھی تھیں۔ اُمت کو اتنی سختی کے ساتھ خوارج کے علاوہ اور کسی کے بارے میں ہوشیار اور چوکنا رہنے کا نہیں کہا گیا۔ علاوہ ازیں وہ خلیفہ راشد اور نبی علیہ السلام کے داماد اور چچا زاد بھائی سے برسرپیکار بھی ہیں، مگر وہ عدل اور انصاف پسندی کا دامن نہیں چھوڑتے اور اُن سے برابر خیر خواہی کرتے رہتے ہیںاور صرف اُس صورت میں تلوار اٹھاتے ہیں جب خوارج (4)خود تلوار لے کر اہلسنت جو خیر الانام تھے اُن کا قتل کرتے تھے۔
    حضرت علی بن طالب کے مذکورہ بالا موقف پر جو ہم تک صحیح ترین راویوں کے ذریعے پہنچا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں: علی بن ابی طالب نے واضح طو رپر خوارج کو مومنین میں شمار کیا ہے نہ وہ انہیں کافر کہتے تھے اور نہ منافق۔ (28)
    یعقوب بن یوسف مطوعی امام احمد بن حنبل کے ثقہ تلامذہ میں سے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن صالح ازدی ،آئے روز امام احمد بن حنبل کی ملاقات کو آتے تو امام احمد انہیں اپنے برابر جگہ دیتے اور حد درجے احترام سے پیش آتے، آپ سے پوچھا جاتا: ابو عبداللہ، کیا یہ شخص رافضی نہیں ہے! آپ فرماتے: سبحان اللہ، وہ ایک ایسا شخص ہے کہ اہل بیت سے شدید محبت رکھتا ہے، (کیا میں اس بناء پر اُس سے حسن سلوک سے پیش نہ آؤں) اور اُس سے کہوں کہ تم اہل بیت سے محبت نہ کیا کرو، بھائیو، یہ آدمی ثقہ ہے۔ اسی طرح خلف بن سالم نے اس بات کو سخت ناگواری سے محسوس کیا کہ یحییٰ بن معین سند کیلئے عبدالرحمن بن صالح ازدی کے پاس جاتے ہیں، ایک دن یحییٰ بن معین نے حضرت خلف بن سالم کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر کہا، تعجب کرتے ہو، لا صلی اﷲ علیک (6) بخدا ازدی کے پاس ستر حدیثیں ایسی ہیں جو میں نے اور کسی سے اخذ نہیں کی ہیں۔
    ایک موقع پر ابن معین نے عبدالرحمن ازدی کے بارے میں فرمایا شیعہ ہے مگر ثقہ اور سچا راوی ہے ایسا حق گو کہ آسمان سے زمین پر گر رہنا اُسے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ وہ آدھے حرف میں بھی کذب بیانی کرے۔
    ایک مرتبہ ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے رشتہ دار ارض خراسان میں رہتے ہیں اور فتنہ ارجاء میں مبتلا ہیں، ہم اُن سے مراسلت کرتے ہوئے انہیں السلام علیکم کہتے ہیں (آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سبحان اللہ، آخر انہیں السلام علیکم نہ کہنے کی کیا وجہ ؟! ابوداؤد کہتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا: کیا ایسے ہی کیا کروں، فرمایا: ہاں، اِلاّ یہ کہ وہ ارجاء کا پرزور داعی ہو یا لوگوں سے اس بناء پر مخاصمت مول لے لیتا ہو۔
    ابن حبان اپنی کتاب 'الثقات' میں جعفر بن سلیمان ضبعی کے تذکرے میں لکھتے ہیں: شیخین (ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ) سے بغض رکھتا تھا۔ پھر ابن حبان جریر بن یزید بن ہارون کی سند سے لکھتے ہیں، جریر کہتے ہیں کہ مجھے والد صاحب نے جعفر بن سلیمان کی طرف بھیجا، میں نے جعفر سے پوچھا کہ ہمیں بتلایا گیا ہے کہ آپ ابوبکر اور عمر کو گالیاں دیتے ہیں، جعفر نے کہا: گالیاں! نہیں، ہاں بغض تم جتنا کہو(وہ مجھے ان سے ہے)۔
    پھر جریر کہتے ہیں کہ وہ کسی گدھے کی طرح رافضی تھا۔ اس حکایت کے بعد ابن حبان فرماتے ہیں: جعفر بن سلیمان ثقہ راوی ہیں اور روایت میں اُسے اتقان حاصل ہے۔ مگر وہ اہل بیت سے محبت میں غلو کرتا تھا۔ وہ اس جستجو میں نہیں لگا رہتا تھا کہ لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف کھینچ لے جائے۔
    تمام محدثین اور ائمہ کرام کے نزدیک ایک ایسا شخص کہ جو صدوق اور اتقان رکھتا ہو اور اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو تو اس کی روایت قبول کی جاتی ہے۔ خواہ اُس کے اپنے اندر بدعت پائی جاتی ہو۔ اُس کی روایت سے حجت لینا تمام اہل حدیث کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے۔ اور اگر بدعت کے ارتکاب کے ساتھ وہ بدعت کا پرزور حمایتی اور اس کا داعی ہو تو پھر اس کی روایت سے حجت لینا ناجائز ہے۔ یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے سلف صالحین نے بدعت کا ارتکاب کرنے والے بہت سے لوگوں سے روایت لینے اور اُس سے دلیل لینے سے اجتناب کیا ہے حالانکہ اُن میں سے بیشتر ثقہ اور حافظ تھے مگر وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والے تھے اس لئے اُن سے روایت اور دلیل سے سلف نے اجتناب کیا ہے۔ جو لوگ اپنی بدعت کے پرزور داعی نہیں تھے اُن سے ہم البتہ روایت بھی لیتے ہیں اور ان کی روایت سے حاصل ہونے والے علم سے دلیل بھی لیتے ہیں۔ یہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ بدعت اور اُس کی طرف اُن کا مائل ہونا، اُن کا اور اُن کے رب کا معاملہ ہے۔ (33)
    امام ابوداؤد اور ایک راوی عمرو بن ثابت کے تذکرے میں کہتے ہیں: 'انّہ کان رجلُ سوئ' برا آدمی تھا، نبی علیہ السلام کی وفات کے بعد کہا کرتا تھا کہ صرف پانچ آدمی مسلمان رہ گئے تھے اور باقی سب کے سب کافر ہو گئے تھے، پھر امام ابوداؤد فرماتے ہیں اُس کی بیان کردہ حدیثیں شیعہ کی طرح نہیں ہیں 'یعنی احادیثہ مستقیمۃ' عمرو بن ثابت کی بیان کردہ حدیثیں البتہ (اس کی بدعت سے پاک ہیں) درست ہیں۔ (34)

خلاصہ کلام

(1)    بدعت اور صاحب بدعت، دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان دونوں کے احکام بھی الگ الگ ہیں۔ بدعت کا ردّ پوری قوت سے کیا جائے گا اور اسے سنت کے مخالف بتانے پر اہل علم پورا زور لگائیں گے، اُس وقت تک اس علمی مناقشے کا فرض ادا نہیں ہو پائے گا جب تک بدعت کا بطلان پر پوری قوت سے نہیں کر لیا جاتا۔ جہاں تک صاحب بدعت کی ذات کا تعلق ہے تو اس میں اصل یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے اور مسلمانوں کے عام حقوق اُسے اُسی طرح حاصل ہیں جس طرح کسی بھی اور مسلمان کے حقوق اور فرائض ہوتے ہیں۔ اس اصل قاعدے کی پابندی کرتے ہوئے ایسا طرز عمل اپنایا جائے گا جس سے بدعت معاشرے میں فساد کا باعث نہ بنے یا جو خود صاحب بدعت کی اصلاح کیلئے اہل علم تجویز کریں، بجز اِن مخصوص دائروں میں جو دراصل معاشرے اور صاحب بدعت کی خیر خواہی کیلئے ہیں اُس کے بنیادی اور عام حقوق سے اُسے محروم نہیں کیا جائے گا۔ ایسا تصور رکھنا کہ جو اہل بدعت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ ضرور انصاف اور خیر خواہی ہی کرے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ اصلاح کار اُلٹا نقصان کا باعث بنے، اسی لئے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ایسے اصلاح کار کے متعلق فرماتے ہیں کہ بدعت کا رد کرنے والا مجاہد کی طرح ہوتا ہے کبھی تو مجاہد عدل اور انصاف کے تقاضے پورا کرتا ہے اور کبھی عدل وانصاف پر پورا نہیں اترتا، اور کئی دفعہ مجاہد میں بدی کے کام بھی پائے جاتے ہیں۔
    بنا بریں بدعت کا رد کرنے والا اپنے طرز عمل میں ہر مرتبہ ہی آفرین کا مستحق ہو، درست بات نہیں ہے۔ وہ تحسین کا اُس وقت مستحق ہوگا جب عدل وانصاف پر قائم رہے اور شریعت کی حدود کی پابندی میں رہتے ہوئے اپنے اوپر شریعت کی حدود وقیود کو لازم پکڑے۔
(2)    عین ممکن ہے کہ بدعت کا مرتکب ہمارے احترام اور بزرگی کا زیادہ مستحق ہو بہ نسبت اہلسنت کے ایک ایسے شخص کے جو فاسق ہے۔ بلاشبہ بدعت اور فسق دونوں شریعت کی ممنوعات میں سے ہیں۔ بدعت اور فسق دونوں اسوہ محمدی کے بھی خلاف ہیں اور سنت جاوداں کے بھی خلاف ہیں۔ جب دونوں امور ہی خلافت سنت ہیں تو پھر سنی فاسق کو کس بنا پر بدعت کرنے والے سے افضل اور بہتر کہا جائے گا۔ اِس پیمانے کی بجائے شرعی پیمانہ کی پاس داری زیادہ قرین قیاس اور درست ہے کہ دونوں فسق کرنے والے اور بدعت کرنے والے میں سے کون خیر اور نیکی میں بڑھ کر ہے۔ عوام الناس میں ایک نادرست اصول طے پا گیا ہے کہ (اَنّ شرّ المبتدع مطلقاً اعظم من شرّ الفاسق) ہمیشہ اور ہر وقت بدعتی سے پہنچنے والا شر بڑھ کر ہوگا بہ نسبت ایک فاسق کے شر سے۔ (36)
    اگر بدعت دین کی صداقتوں کو مسخ کرتی ہے تو بدی اور گناہ کے کام اور فسق کی پلیدی بھی دین کی صداقتوں کو اوجھل کر دیتی ہیں۔ دین کے حرام کاموں کو خاطر میں نہ لانے والا قریب ہے کہ کفر کے درجے میں داخل ہو جائے۔ کسی عابد زاہد کا قول ہے کہ 'العاصی بَریدُ الکفر' معصیت کے کام کی آخری منزل کفر ہے۔ علماء کی ایک کثیر تعداد اس قول کی مؤیدہے۔
    بدعت اور معصیت میں اس مذکورہ بالا حوالے سے بڑا فرق نہیں ہے، ہمارے زمانے میں تم دیکھتے ہو کہ بُرائی اور معصیت کے کام کس خوش نمائی سے پیش کئے جاتے ہیں۔ معاشرے میں اور میڈیا کی سطح پر فسق اور فجور کتنا عام اور دلکش دکھایا جا رہا ہے۔ اللہ کی نافرمانی اور منکرات کا ارتکاب کھلے عام کیا جا رہا ہے اور بدعت جو عموماً اعتقادی اور قلبی چیز ہے، اُس کی نشر واشاعت میں وہ دلکشی نہیں ہے۔ بدعت تو آجکل اپنے اصحاب کے قلوب میں رہ گئی ہے اور بدی اور فسق معاشرے کا ٹرینڈ بنا دیا گیا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی اخلاقی اور تہذیبی قدریں اسلامی اخلاقیات پر چھا رہی ہیں۔ آپ مذکورہ بالا غلط قاعدے پر ہرگز نہ کان دھریں، ایک طرف سہمی سہمی بدعات ہیں اور دوسری طرف کل عالم پر اسٹرجیکل اور منصوبہ بندی سے اسلامی اخلاقیات کی جگہ جاہلی اخلاقیات کو اسلامی معاشروں میں رواج دیا جا رہا ہے ۔
    ہم کب تک بدعت کا ارتکاب کرنے والے اہل اسلام کو ان کے مفوضہ حقوق سے محروم رکھیں گے۔ ہم اس بات کو فراموش نہ کریں کہ اسلام ہمارا اور اُن کا دونوں کا نظام حیات ہے۔ وہ ہم سے چند امور میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن جن امور میں ہمارا اور اُن کا اتفاق ہے وہ بنیادی اور اصولی نوعیت کے ہیں اور جزئیات میں بھی بہت زیادہ ایسے امور ہیں جن میں ہم اور وہ ایک ہیں۔ دُنیا اور آخرت میں ہم دونوں فریق اللہ کی رحمت کے خواست گار ہیں۔ اللہ رب العالمین ہماری طرح انہیں بھی اپنی رحمت کی چادر میں لئے ہوئے ہے اس لئے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئے ہیں۔ دوسرے گناہگار مسلمانوں کی طرح وہ بھی دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہنے والے۔ اُن کا اسلام انہیں ایک دِن آگ سے چھٹکارا دینے والا ہوگا جس قدر ہمارے اور اُن کے درمیان دین کے معاملے میں اتفاق پایا جاتا ہے اور جس قدر اُن میں خیر پائی جاتی ہے اُس قدر وہ ہماری محبت اور الفت کا حق رکھتے ہیں بعینہ ایسے جیسے گناہگار اور فسق میں پڑا ہوا اپنے گناہ اور فسق کی نوعیت کے لحاظ سے دوری کا مستحق ہوتا ہے۔ ہمارا اور ان کا دشمن بھی ایک ہے۔ یہ مشترکہ دشمن دونوں کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کی یہ غرض خود ہم پوری کردیں تو یہ خدمت کس کے پلڑے میں وزن ڈالے گی۔
    عزیز جماعت سنت! تم حق کی بات کرو، باطل کا بطلان کرو مگر کسی اہل اسلام سے اُس کے وہ حقوق مت چھینو جو خدا کی شریعت نے انہیں دے رکھے ہیں کیا تم اُس شخص کو افضل کہتے رہو گے جو اللہ کے حرام کردہ منکرات کو ذرا اہمیت نہیں دیتا بہ نسبت اس شخص کے کہ جو اللہ کے حرام کردہ منکرات سے ایسے بچا ہوا ہے جیسے ہمارے گروہ کے پرہیز گار اور زُہّاد۔ علاوہ اس کے اس بات کا پورا احتمال ہے کہ وہ اپنی بدعت پر قابل قبول عذر رکھتا ہو اور شروط کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ثواب اور اجتہاد کا ایک اجر بھی پاتا ہو۔ عزیز بھائیو فاسق کو صاحب بدعت پر ہر حال میں فوقیت دے کر ہم ایسا تو نہیں کر رہے جس سے اللہ نے منع کیا ہے: افنجعل المسلمن کالمجرمین مالکم کیف تحکمون (7)
    سلف کے قدم پر قدم رکھنے والے خیرالانام، ہمارے بڑے ایسا نہیں کرتے تھے کہ زناکار شرابی اور سود خور کو افضل بتاتے ہوں اِس وجہ سے کہ وہ سنی ہے اور بہرحال بدعت نہیں کرتا، بہ نسبت اُس شخص کے کہ جس سے بدعت کا ارتکاب تو ہوتا ہے مگر ہے وہ بڑا ہی عالم فاضل، عبادت گزار اور اللہ کے دین کیلئے لڑ جانے والاہے۔ اس اصول کو ثابت شدہ مان کر اپنا تصور یہ رکھنا کہ ہر حالت اور ہر زمانے میں فاسق سنی، عالم، عابد بدعتی سے بہتر ہوگا، فاسق کا عالم عابد بدعتی سے بہتر ہونا تو دور کی بات ہے ان کا مقابلہ اور موازنہ کرنا بھی محل نظر ہے۔
    کیا کوئی اہل حق سے کہہ سکتا ہے کہ ہمارے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے سود اور زنا اور فسق وفجور پھیلانے والے جو بڑے بڑے ادارے بنا رکھے ہیں مگر بدعت کے کام نہیں کرتے۔ یہ اہل فسق اِن باعزت اور باوقار بزرگوں سے بہتر اور افضل ہیں جیسے عزّ بن عبدالسلام، تقی الدین سبکی، امام باقلانی اور امام اشعری اس بناء پر کہ اہل سنت نے اُن کے بعض تصورات اور اعتقادات کو مبنی بربدعت کہا ہے !؟
    جیسا کہ ہم اوپر سلف صالحین کے طرز عمل اور اقوال سے ثابت کر آئے ہیں کہ سنی اور بدعتی کی اصطلاح دراصل مبنی بر مصلحت تھی ۔ان اصلاحات کے استعمال سے وہ تصور نہیں آتا تھا جو آج ہمارے ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ اگر یہ غلط تصور اور تعامل ان اصطلاحات کے ساتھ خلط ملط رہتا ہے اور اِن اصطلاحات سے سلف کی جو غرض تھی کہ زجر اور توبیخ ہو وہ کام بھی نہیں ہوتا، تو پھر اِن اصطلاحات کی بجائے ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جو الفت اور محبت پیدا کریں، فساد اور فتنے کا باعث نہ بنیں اور شریعت کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے ہوں۔ اگر بدعت اور سنت کی اصطلاح سے وہی کام ہو جائے جو ان اصطلاحات سے سلف صالحین نے لیا تھا تو ٹھیک ہے بصورت دیگ طبیب اور جراح کا نشتر حجام کو نہیں دیا جا سکتا۔
    بھلا آپ کسی فاسق سنی سے اس کے مفوضہ حقوق جو اُسے ازروئے شریعت حاصل ہیں چھینتے ہیں، جس طرح وہ اپنے فسق کے باوجود صرف اتنی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے جتنی سزا اہل علم یا اسلامی شرعی عدالت کا قاضی تجویز کرے حتی کہ اگر وہ ایسا گناہ کرتا ہے کہ جس کی سزا حدود اللہ میں سے کوئی مقرر شدہ حد کے تحت دی جاتی ہے تو پھر بھی وہ اہل اسلام میں رہتا ہے اور اُسے بجز اُن حقوق کے کہ جس سے خود شریعت نے اُسے محروم کردیا ہے، باقی تمام حقوق اُسے بدستور حاصل رہتے ہیں۔ بدعتی کو بھی تم ایسے سمجھو اور اگر آسانی سمجھو تو بدعتی ایسے جیسے سنی گناہگار، جتنا گناہ زیادہ ہوگا اتنا وہ اللہ کی رحمت اور بندوں کی محبت سے دور ہوگا اُسی طرح جیسی بدعت ہوگی اُسی کے بہ قدر اُس سے دوری روا ہوگی۔ بنا بریں کبیرہ گناہ اور منکرات از قسم زنا، سود خوری اور شراب نوشی کا شر ہر صاحب علم اور صاحب عقل کے نزدیک عظیم تر اور خطرناک ہے، بہ نسبت قلیل شر کے جو ایک صاحب عمل اور علم دوست شخص سے بصورت بدعت سرزد ہوتا ہے۔
    اُمت مسلمہ ایک نازک ترین مرحلے سے گزر رہی ہے، مجھ سمیت تمام اہل اسلام بہ شمول علمائ، مبلغین اور طلبہ کو چاہیے کہ اپنا جائزہ لیں اور اپنا محاسبہ کریں۔ یقین کریں اس دین کا دارلمدار عدل اور انصاف پسندی پر ہے۔ اہلسنت اس قدر عدل کے رسیا ہیں کہ اگر اُن کے مخالف اُن پر ظلم اور زیادتی بھی کریں تو وہ پھر بھی شریعت کی متعین کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرتے۔ ظلم کے اندھیرے صرف عدل کے نور سے دور ہو سکتے ہیں اور باطل کا تدارک صرف حق سے ہو سکتا ہے۔ (38)
    جب ہم عدل اور انصاف کی بات کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ظلم (جیسے بدعت وغیرہ) کے آڑے نہ آیا جائے اور اُسے جڑ سے نہ اکھیڑا جائے۔ عدل کے اصطلاح وسیع معنی رکھتی ہے : عدل یہ ہے کہ ظلم نہ ہونے دیا جائے اور مظلوم کو اس کا حق دلایا جائے اور اس کی قوت بڑھائی جائے نیز عدل اس طور پر انجام پائے کہ ظلم روکنے کیلئے جو طریقہ یا طرز عمل اختیار کیا جائے وہ خود ظلم کی حد کو نہ چھوئے اور جس قدر شریعت کی اجازت ہو اُس حد سے ہرگز نہ گزرا جائے۔ 
    اس شرعی اصطلاحی عدل وانصاف سے جو نظام عدل قائم ہوگا، ہمارے نفوس، طبائع اور طرز عمل کے اندر تو اس کے ثمرات سے سنی اور بدعتی دونوں اپنا اپنا حصہ لیں گے، اِن دونوں میں سے جو جتنا ظلم کرے گا اُسی کے بقدر وبال پائے گا اور جس پر ظلم ہوگا اُسے انصاف کی فراہمی تک برابر نصرت ملتی رہے گی۔
    واﷲ ھو المستعان، و الیہ الملجافی نصر ھذہ الامۃ
    اللھم انصر دینک وکتابک وسنۃ نبیّک وعبادک الصالحین
واﷲ اعلم

حواشی

(1)    شہادتین کی ضد ایسے امور ہیں جو شہادتین کے لغوی مفہوم کی ضد ہوں، جہاں تک شہادتین کے وسیع معانی اور مفہوم اور مدلولات ہیں تو وہ اول تو بہت زیادہ ہیں دوسرا وہ یہاں مراد نہیں ہیں۔ شہادتین کے لغوی اعتبارات کے لحاظ سے مثال کے طور پر واضح اور صریح ترین ضد اللہ تبارک وتعالیٰ کے خالق ہونے کا انکار کرنا ہے (جیسے اشتراکیت کے نظریے کو اپنانے والے اہل اسلام میں سے چند ملحد افراد نے انکار کیا تھا) یا اللہ کے علاوہ کسی اور کو الہ ماننا ہے یا اللہ کے ساتھ اُس کے دوسرے شریک آلہہ کا عقیدہ رکھنا۔مختصر یہ کہ شہادتین کے ان لغوی معانی کا انکار کرنا جس میںاہل علم کے ہاں کوئی اختلاف نہ پایا جاتا ہو۔
    جہاں تک شہادتین کے دوسرے جزء ، محمد رسول اللہ کی ضد کا تعلق ہے تو یہ وہ امور ہیں جو رسالت کے منصب کے صریح مخالف اور ضد ہیں جیسے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں سے کسی حصے یا اجزاء کو جھٹلانا۔ یا یہ اعتقاد رکھنا کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور عناد رکھنا کیونکہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لانے کا صریح اور واضح ترین معنی ہی یہ ہے کہ رسول کی تصدیق کی جائے اور جو شریعت ان پر اتری ہے اُسے حق مانا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت کو واجب جانا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے ، جن کے ذریعے اللہ نے اپنی خیر وبرکت ہم پر نازل کی اور جنہیں لوگو کودوزخ سے بچانے کا ذریعہ بنایا۔
(2)    کسی شخص کی تکفیر کرنے کے موانع (وہ امور جو اُس پر کفر کا حکم لگانے میں شرعی رکاوٹ ڈالیں) بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ عین ممکن ہے کہ حق کو ثابت کرنے والی شرعی نصوص اُس تک نہ پہنچ پائی ہوں۔ یا اگر نصوص تو وہ جانتا ہے مگر وہ انہیں ثابت شدہ نہ مانتا ہو، یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان کا مفہوم ہی نہ سمجھ پایا ہو، یا پھر ایسے مغالطے کا شکار ہو جو اللہ کے ہاں ایک قابل قبول عذر مانا جاتا ہو، بنا بریں جو شخص صاحب ایمان ہے اور حق کا متلاشی بھی ہے وہ غلطی کر سکتا ہے اور ٹھوکر کھا سکتا ہے۔ بلاشبہ ایسے شخص کی غلطی سے اللہ تبارک وتعالیٰ درگزر فرماتے ہیں خواہ غلطی کرنے والا کوئی بھی ہو اور یہ حکم نہ صرف روزمرہ کے مسائل اور عملی عبادات کیلئے ہے بلکہ اعتقادی اور نظریاتی (قلبی تصورات) امور کا بھی یہی حکم ہے۔ یہی اصول تھا ہم سے پہلے اُن لوگوں کا جو اصحاب رسول اور خیر البشرہوئے ہیں اور نسل در نسل ائمہ کرام کا بھی یہی اصول ہے۔ چند اصولی باتیں ہیں کہ جن کو وہ اصول دین کہتے ہیں جو ان کا انکار کرے تو اس کی تکفیر کرتے ہیں اور دوسرے بیشتر مسائل فروعی ہیں جن کے انکار سے تکفیر لازم نہیں ہوتی۔
    اوپر کی سطور میںشیخ الاسلام اہل بدعت کے اُن اصحاب کیلئے تین شروط لگاتے ہیں جن سے کفریہ باتیں سرزد ہوئی ہوتی ہیں۔محترم قارئین آپ اُن لوگوں کے بارے میں تصور کر سکتے ہیں کہ جن کی بدعت کفر سے کم درجے کی ہے اورمزید برآں وہ حق کے بھی زیادہ قریب ہیں۔شیخ الاسلام کی مذکورہ بالا عبارت میں وہ تین شرطیں جنہیں موانع کہا جاتا ہے درج ذیل ہیں: حجت کا پہنچ جانا، حجت کا فہم حاصل ہو جانا اور شبہات اور عذرات کا دور ہونا۔ شیخ الاسلام نے واضح طور پر انہیں مؤمن کہا ہے اوریہ کہ ان کے وہ مغالطے بھی جو امور کفریہ میں (نظری طور پر) شمار ہوتے ہیں اُن کے حق میں بخش دیئے جاتے ہیں۔
    ایسے مغالطے اس لئے شریعت میں قابل مواخذہ نہیں ہوتے کہ کچھ امور از قسم جہالت، عدم بلوغ الحجہ اور مغالطے وشبہات اُس میں موانع سمجھے جاتے ہیں بلکہ ایسی خطائیں ان کے حق میں مذکورہ بالا موانع کی وجہ سے بخش دی جاتی ہیں۔
    کسی کیلئے یہ بات سوچنا قابل تحسین نہیں کہ وہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ یا اُن سے پہلے والے سلف صالحین کے اقوال کو مبنی بر مداہنت سمجھے یا موجودہ دور میں پائے جانے والے فتنئہ ارجاء پر قیاس کرے، کلاّ و حاشا۔ اِن ائمہ کرام نے جہاں موانع کا ذکر کیا ہے اور کفر کی نوعیت والی خطاؤں کو بھی بعض شروط اور موانع کی وجہ سے یہ کہا ہے کہ وہ اُن کیلئے بخش دی جاتی ہیں ،وہاں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے سلف نے اہل اسلام سے منسوب فرقہ قرامطہ اور اُس جیسے دوسرے غالی فرقوں کی تکفیر بھی کی ہے کیونکہ قرامطہ اور اُس جیسے فرقوں نے شہادتین کے لغوی مفہوم کے خلاف عقیدے کا اظہار کیا تھا۔ اُن کے عذرات یا عدم معرفت وغیرہ کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ وضاحت کیلئے ملاحظہ کریں: مجموع فتاوی ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جلد 28 ص 553 اور حاشیہ ابن عابدین جلد 4 ص 244
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اوپر حاشیہ کی ابتداء میں دیئے گئے قول سے ایک اور اصول بھی تم جان سکتے ہو اور وہ اصول یہ ہے کہ بدعت کی دو موٹی اقسام ہیں، ایک بدعت کفریہ اور دوسری بدعت غیر کفریہ۔ جہاں تک قرامطہ کی بدعت کا تعلق ہے تو یہ کفریہ بدعت کی وہ قسم ہے جس کی بابت ہم نے اپنے مقالے کی ابتداء میں کہا تھا کہ کفریہ بدعت کی ایک قسم شہادتین کے لغوی مفہوم کی ضد ہوتی ہے۔ بدعت کفریہ کی یہ قسم ہمارے مقالے کا موضوع نہیں ہے۔ یہاں ہم نے یہ تذکرہ اس لئے کیا ہے کہ قارئین کو اطمینان ہو جائے کہ ہم نے جو تقسیمات گزشتہ سطور میں بیان کی ہیں وہ کچھ ہماری اپنی بنائی ہوئی نہیں ہیں۔
(3)    یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم جس صاحب بدعت کو زیر بحث لا رہے ہیں اُس کی بدعت کی نوعیت شہادتیں کے مفہوم کی ضد والی نہیں ہے۔ اس لئے صاحب مقالہ اور قاری دونوں کے پیش نظر یہ بات رہنا چاہیے کہ اولاً مبتدع اہل اسلام میں ہی شامل ہے اور ثانیاً وہ بدعت کا مرتکب ہوا ہے۔ ہمارا یہ مقالہ پڑھتے ہوئے یہ دونوں مقدمات آپ سے اوجھل نہیں رہنا چاہیں۔
(4)    بدعت دین کے حقائق کو مسخ کر دیتی ہے اور ایک ایسی چیز دین کا لبادہ پہن لیتی ہے جو دراصل دین کہلانے کے لائق نہیں ہوتی، اس لئے بدعت دینی حقائق میں تحریف کا موجب بنتی ہے۔ بدعت کا یہی پہلو سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
(5)    اقتضاء الصراط المستقیم لا بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جلد 2 ص 123
(6)    صاحب بدعت چونکہ کسی تاویل، مغالطے یا شبہے کی بناء پر بدعت کو سنت سمجھ کر اُسے اپناتا ہے اس لئے محض بدعت کے سرزد ہونے سے اُسے فسق سے منسوب نہیں کیا جاتا۔ اہل بدعت کیلئے اہلسنت کا یہی اصول اور ضابطہ ہے۔ جب تک علاوہ بدعت کے دوسرے زائد امور نہ پائے جائیں اسی اصول پر عمل ہوگا۔ بدعت پر زائد امور کئی قسم کے ہو سکتے ہیں مثلاً اُس کی تاویل کا رد ہو گیا ہو اور صحیح دلیل اُس پر واضح کر دی گئی ہو جسے شرعی اصطلاح میں حجت قائم کرنا کہتے ہیں۔ ایسی بدعت جس کی نوعیت بدعت مفسقہ ہے، جب تک ایسی بدعت کے مرتکب کے شبہات اور مغالطے دور نہ ہو جائیں اور اہل علم کے نزدیک اُس کا عناد اور ہٹ دھرمی واضح ہو گئی ہو، اُس شریعت کی رو سے جس پر ہمارا ایمان ہے، تواس کے بعد کہیں جا کر پھر اہل علم اس پربدعتی کا حکم لگاتے ہیں۔
    جہاں تک اہلسنت کے ائمہ کرام کے اقوال سے عام قاری خواہ علماء سے ہوں یا طلبہ سے یہ مفہوم لیتا ہے کہ مبتدع فاسق ہوتا ہے تو ائمہ کرام کے ایسے اقوال کسی متعین مبتدع کے حق میں کہے گئے ہوتے ہیں، جس امام یا عالم نے یہ حکم لگایا ہوتا ہے وہ اپنے اصولوں اور ضوابط کو ملحوظ رکھنے کے بعد ہی ایسا کرتے ہیں یا پھر اگر تم کسی متعین مبتدع کو اس قول کا مخاطب نہیں پاتے تو پھر فسق کا لغوی معنی مراد لو، شرعی معنی اُس وقت امام کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ فسق کا لغوی معنی شریعت کی تعلیمات سے نکلنا ہے اُس وقت یہ صرف خبریہ نوعت کا حکم ہوتا ہے یعنی محض اطلاع ہوتی ہے کہ فلاں شخص شریعت کی تعلیمات کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس فسق سے امام یا عالم کے نزدیک یہ نہیں ہوتا کہ وہ شخص آثم ہے یعنی پکا پاپی یا جس بدعت کا وہ ارتکاب کر رہا ہے اُس میں اب عذارت قبول کرنے کا امکان نہیں رہا، حجت اُس پر تمام ہو چکی ہے اور اب امام یا عالم اُسے اصطلاحی معنی میں فاسق کہہ رہا ہے۔ وہاں صرف لغوی معنی مراد لو، جب کوئی امام یا عالم لغوی معنی میں فسق کہتے ہیں تو اُس وقت چند دیگر امو ربھی مراد نہیں ہوتے، مثال کے طور پراس وقت ائمہ کرام کے نزدیک یہ بھی پیش نظر نہیں ہوتا کہ جسے فاسق کہا جا رہا ہے آیا وہ اللہ کے ممنوعہ کاموں کو اہمیت دیتا ہے یا اُس کے نزدیک شریعت کی ممنوعات کوئی قیمت ہی نہیں رکھتی ہیں کیونکہ جب اصطلاحی معنی میں کسی کو فاسق کہا جاتا ہے تو ایک تو اُسے آثم (پکا پاپی) کہا جا رہا ہوتا ہے اور دوسرا یہ حکم بھی ساتھ لگایا جا رہا ہوتا ہے کہ اُس کے نزدیک ممنوعات شرعیہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اب کوئی ایسا عذر قابل قبول باقی نہیں رہا ہے جو فسق کا حکم لگانے میں امام یا عالم کے ہاں معتبر رہا ہو اور فسق کا حکم لگانے کے جو اصول امام یا عالم نے بنا رکھے ہیں وہ سب پورے ہو گئے ہیں۔ اس لئے اُمت کو اُس شخص سے خبردار کرنے کیلئے امام یا عالم اُسے اصطلاحی معنی میں فاسق قرار دے رہا ہے۔ جس موضوع کو ہم زیر بحث لا رہے ہیں وہاں فسق سے لغوی فسق اُن کے ہاں مراد ہوتا ہے۔
    امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس ضابطے کو بالکل واضح انداز سے پیش کرتے ہیں ۔ الطرق الحکمیۃ جلد اول ص 461 میں وہ لکھتے ہیں: اگر فاسق اپنے تصور دین کے ساتھ (ممنوعہ کاموں میں) حد درجے محتاط واقع ہوا ہو تو اُس کی گواہی (اور روایت) قابل قبول ہوتی ہے، خواہ اُس پر اہل علم نے فسق کا حکم لگایا ہو جیسا کہ اہلسنت کے ائمہ نے اہل بدعت کو فاسق کہا ہے از قسم خوارج، معتزلہ اور روافض اور اُن جیسے دیگر فرقے، تمام ائمہ کرام سے یہی قول ثابت شدہ ہے۔ (شریعت کے حرام کردہ امور سے بچنے والے) اہلسنت کے ہاں ان فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شہادت کے اہل ہیں۔
    مذکورہ بالا وضاحت سے تم نے جان لیا ہوگا کہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ یہاں اصطلاحی معنی میں فسق مراد نہیں لے رہے ہیں کیونکہ فسق میں شریعت کی ممنوعات کا احترام نہیں پایا جاتا جبکہ یہ اس شخص کی بابت کہا جا رہا ہے جو شریعت کی ممنوعات سے حد درجے بچتا رہتا ہے۔
(7)    ھجر (ترک موالات / شرعی قطع تعلق) شریعت میں ایک سنگین اور نازک ترین سزا ہے۔ ھجر کی مشروعیت اور عدم مشروعیت کی بابت شیخ الاسلام ابن تیمۃ رحمۃ اللہ علیہ مجموع الفتاوی جلد 28 ص 217 میں لکھتے ہیں: شریعت میں ھجر (چند ضوابط کے ساتھ) مشروع ہے اور یہ عبادت ہے جس کا حکم اللہ اور اُس کے رسول نے دیا ہے، اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیلئے خلوص نیت ضروری ہے اور اُس کے محل (جس سے ھجر کیا جائے) کا بھی درست ہونا ضروری ہے۔ اگر ذاتی میلان کی وجہ سے ھجر کیا گیا۔ جسے وہ اپنے زعم میں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت سمجھتا ہو۔۔۔۔۔۔ تو اُس نے دراصل اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت نہیں نافرمانی کی ہوتی ہے اور کتنی ہی نافرمانیاں اس زعم میں مبتلا ہو کر کی جاتی ہیں کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسا کر رہا ہے۔
(8)    جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بدعت کے فساد سے معاشرے کو بچانے کیلئے اہل علم ایسا بندوبست کرتے ہیں کہ بدعت سے ہونے والا معاشرتی فساد نہ ہونے پائے یا کم از کم ہو تو اس سے ہمیشہ صاحب بدعت کو کسی قسم کی اخلاقی یا تادبی سزا مراد نہیں ہوتی بلکہ اصل مراد اس سے بھی صاحب بدعت کی اصلاح ہے اور بسا اوقات اصلاحِ احوال کے لیے خوش اخلاقی، افہام وتفہیم، تحفے تحائف اور دوستی کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یاپھر ماحول بدل دینے سے بھی یہ فرض نبھایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جب ہم 'دفع فساد' کہتے ہیں تو اس سے آپ کے ذہن میں اخلاقی (از قسم ھجر) یا تادیبی سزا کا تصور نہیں آنا چاہیے۔
(9)    صحیح بخاری 6077، 2637 صحیح مسلم 2560
(10)    ملاحظہ فرمائیں 'اختلاف النقول' جسے الآداب الشرعیۃ میں ابن مفلح رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے۔ جلد اول ص 229، 236، 237، 239
(11)    ایضاً
(12)     اصل کتاب میں (والتنجیم) ہے جو ہمارے نزدیک سہو ہے اور اصل متن وہی ہے جسے ہم نے اختیار کیا ہے۔ حوالے کیلئے ملاحظہ فرمائیں۔ مجموع فتاوی جلد 20 ص 301
(13)    مجموع فتاوی جلد 28، ص 206، 207۔ اس سے ملتا جلتا متن المسودّۃ لآل تیمیۃ میں بھی جلد اول، ص 524، 528 میں موجود ہے
(14)    یہاں ابن عبدالبر امام مالک کی عبارت سے یہ مفہوم اَخذ کرتے ہیں کہ مسجد کا مقرر کردہ امام (خواہ خلیفہ یا اُس کا نائب مقرر کرے یا اہل محلہ اور بلد) اعلیٰ صفحات کا حامل ہونا چاہیے لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ صاحب بدعت کے پیچھے (اگر وہ نامزد ہو جائے) نماز نہیں ہوتی ہے۔ (کسی شخص کی امامت کی اقتداء میں مقتدیوں کی نماز ہو سکتی ہے یا نہیں) اس ضمن میں اہلسنت کا متفقہ اصول یہ ہے۔ انّ کل من صَحَّت صلاتہ لنفسہ فقد صحَّتَ لغیرہ (8)
    یہاں ابن عبدالبر ایک اور قاعدہ بیان کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں: مسلمانوں میں سے جو شخص مبتدع ہو جائے تو اس کے اسلام میں ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس بات پر منحصر ہے کہ (اہل علم جب تک یہ کہتے رہیں کہ) اس کی نماز اس کی اپنی ذات کیلئے مقبول ہے (تو اُس کا حکم اہل اسلام جیسا ہے) تو وہ مسلمان ہے۔ ملاحظہ فرمائیںشرح عقیدہ طحاویہ مولفہ ابن ابی العز جلد 2، ص 569، 570)
    بنا بریں ابن عبدالبر نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی جو توجیہ کی ہے وہ درست ہے اور اُس کے ظاہری مفہوم کو اس عمومی مفہوم کے مطابق کرنا پڑے گا کیونکہ جو اصول اور قواعد ابن عبدالبر نے بیان کئے ہیں وہ تمام ائمہ کے متفقہ اصول اور قواعد ہیں۔ باقی اماموں نے بھی اپنے سے بڑے امام جو کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہیں، سے یہ قواعد اخذ کئے ہیں۔ ہم نے بھی متن میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے اقوال پیش کئے ہیں جو ابن عبدالبر کے موقف کی توثیق کرتے ہیں اور چند دوسرے اقوال حاشیے کی اگلی سطور میں بھی پیش کریں گے۔
    امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب اس عنوان سے باندھا ہے۔
    باب امامۃ المفتون والمبتدع ۔ (9)
    پھر امام بخاری امام حسن بصری کی ایک تعلیق اس باب میں اس تعین کے ساتھ لائے ہیں کہ اس قول کی نسبت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے صحیح ہے۔ ہمارے نزدیک بھی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا اگلی سطور میں آنے والا قول ثقہ راویوں سے پہنچا ہے۔ اس قول کی جرح وتعدیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں۔ تعلیق التعلیق جلد 2 ص 293
    امام بخاری اپنی صحیح میں تعلیقاً امام حسن بصری کا یہ قول لائے ہیں: صلِّ وعلیہ بدعتہ۔ (10)
    اس کے بعد امام بخاری، امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کی تائید میں مدینہ منورہ کے اُن ایام کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جب حضرت عثمان بن عفان کی خلافت میں مدینہ منورہ پر بلوائیوں کا تسلط قائم ہو گیا تھا۔ فتنے کے دنوں میں بلوائیوں کے قائدین نماز پنجگانہ کی امامت کراتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان سے بلوائیوں کی امامت میں نماز کی ادائیگی کے بارے میں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے حضرت عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: انّک امام عامۃٍ و نزل بک ما تری، ویصلی لنا امام فتنۃٍ و نتحرج۔۔۔۔۔۔
    بلاشبہ آپ تمام مسلمانوں کے (متفقہ) خلیفہ ہیں، اور آپ جس (طرح گھرے ہوئے ہیں) وہ ہمارے سامنے ہے (اور آپ نماز پنجگانہ کی امامت کرانے سے قاصر ہیں) (اگر) ہماری امامت فتنہ پرداز کرتے ہیں اور ہمیں(اس وجہ سے) گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو ؟ (آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں)۔(11) حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: الصلاۃ احسن ما یعمل الناس۔ لوگ جو اعمال کرتے ہیں اس میں نماز سب سے احسن عمل ہے۔ فاذا احسن الناس فاحسن، واذا اساؤ وا فاجتنب اساء تھم: جب لوگ اچھا کام کریں تو تم بھی اچھا کرو اور جب وہ بُرائی کا کام کریں تو اُن کے بُرائیوں والے کام سے بچ رہو۔ (12)
(15)    یہاں ابن عبدالبر یہ فرما رہے ہیں کہ اگر کسی متعین شخص کے متعلق عالم کی یہ رائے بنتی ہے کہ (اخلاقی یا تادیبی) سزا سے اس کی اصلاح ہو جائے گی تو کسی سزا کا تجویز کرکے نافذ کرنے کا فتویٰ دینا ہماری شریعت میں جائز ہے لیکن یہ اختیار کہ سزا کا انتخاب اور اس کی نوعیت کیا ہوگی اور کس شخص پر نافذ کرنا قرین مصلحت ہے اس کا تمام اختیار صرف اور صرف معتبر عالم کو ہے اور عوام الناس کیلئے وہی عام حکم ہے یعنی مبتدع کے جملہ مفوضہ حقوق اسے احسن طریقے سے ادا کرتے رہیں۔
    ہمارا اپنا خیال بھی یہ ہے کہ عقوبت اگر طے پا جاتی ہے تو یہ صرف عالم کے حق میں مشروع ہے جس کی معاشرے میں وجاہت ہو اور اُس کے عمل کو لوگ احترام کی نظر سے دیکھتے ہوں جہاں تک عام مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہونا کہ وہ مبتدع کو کسی حق سے محروم کر دیں تو یہ ناجائز ہے۔ اس کے ناجائز ہونے کی یا تو یہ دلیل ہے کہ صاحب بدعت جبکہ وہ بدعت کفریہ از قسم لا الہ الا اﷲ کے لغوی مفہوم کی ضد نہ ہو۔۔۔۔۔۔ کا اصل حکم یہ ہے کہ اُس کے تمام اسلامی حقوق باقی رہتے ہیں جیسے صاحب بدعت کی نماز جنازہ ہے۔ جیسا کہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ یہ امر ہرگز جائز نہیں کہ صاحب بدعت کی نماز جنازہ سے علاقے کے سارے مسلمان باز رہیں۔
    عوام کو ابن عبدالبر اور دوسرے ائمہ کرام اس لئے سزا کا اختیار نہیں دے رہے جو اس بات کی دوسری دلیل ہو سکتی ہے کہ عوام الناس اس نازک فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ سکتے جو امام یا عالم ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں شرعی تقاضا پورا ہو گیا ہے اور کہاں سے ظلم اور زیادتی کا آغاز ہو گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ عوام الناس کی اکثریت اس سزا سے زیادہ کارگزاری دکھادے جو امام یا عالم کے پیش نظر ہو۔
    اِس موقع پر میں اُمت کے اہل علم سے نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ جب وہ کسی صاحب بدعت کی بابت کوئی رائے قائم کریں اور ایک قسم کی عقوبت تجویز کریں جس پر اہل علم نے عمل کرنا ہے تو وہ اس کا اُسی صورت میں اظہار کریں جب وہ اس پہلو کو سامنے رکھ لیں کہ عوام الناس کی اکثریت اس متعین شخص کے بارے میں متعین شدہ سزا پر یا تو اکتفاء نہیں کریں گے یا پھر عالم کی مراد کو نہیں سمجھ سکیں گے اور یا تو اُسے فاسق سمجھ بیٹھیں گے یا پھر کافر۔
(17)    الاستذکار لابن عبدالبر جلد 26، ص 104, 103
(18)    التھذیب لابن حجر جلد 2، ص 32
(19)    اہل علم نے بدعت پر کاربند رہنے والے اور بدعت پر کاربند رہنے کے ساتھ ساتھ اس بدعت کی طرف لوگوں کو راغب کرنے والے کے درمیان جو فرق رکھا ہے تو اس کی وجہ خود بدعت نہیں ہے کیونکہ اگر اس کی وجہ بدعت ہوتی تو پھر اُس شخص کو بھی منع کیا جاتا، بدعت کی دعوت دینے والے کا الگ حکم بدعت کی بجائے اُس فتنے کے تدارک کیلئے ہے جو بدعت کی طرف دعوت دینے کی صورت میں رونما ہو سکتا ہے۔ (13)
(20)    مجموع الفتاوی جلد 28، ص 205
(21)    سیرت اور صحابہ کے آثار سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ عدم عقوبت نتائج کے لحاظ سے زیادہ مؤثر رہی ہے۔ نبی علیہ السلام کے دور مبارک میں المؤلفۃ قلوبہم ۔ (14) کا حصہ تو بالاتفاق موجود تھا اور اب بھی جمہور علماء کے نزدیک زکوٰۃ میں المؤلفۃ قلوبہم کا حصہ باقی ہے۔
    یوں بھی ذہنی اور نظریاتی تبدیلی کیلئے ذہنی اور نظریاتی دلائل ہی کارگر دیکھے گئے ہیں، محض ترغیب اور ترہیب سے شاید ظاہری تبدیلی ہو جائے مگر بدعت کی نظریاتی بنیادیں محض ترغیب وترہیب (عقوبت) سے کھوکھلی نہیں ہوتی ہیں۔ نظری بحثیں طویل کٹھن اور جہابذہ علماء کے ذریعے تکمیل پاتی ہیں جو ہر وقت اور ہر دو رمیں دستیاب ہوں ممکن نہیں۔ بنا بریں عدم عقوبت کی بجائے احسان، تحائف، ماحول اور دوست احباب کی تبدیلی اور اوپر سے بدعت کی نظریاتی بنیادی کھوکھلی کرنے والے عقلی اور شرعی دلائل ہی مؤثر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب سے مباحثہ کرنے کیلئے بہترین اسلوب اور عمدہ برتاؤ کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں سب سے زیادہ فصیح زبان میں گفتگو فرماتے تھے اور لوگوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ سورہ نحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: وجادلھم بالتی ھی اَحسن۔ (15)
    اِن تمام امور کے پیش نظر ہی اہل علم نے یہ قاعدہ بنایا ہے کہ صاحب بدعت کے حق میں اصل اصول عدم عقوبت ہے اور صرف مخصوص حالات میں کسی متعین شخص کیلئے کوئی عالم کم از کم عقوبت کو بہ غرض اصلاح کیلئے اختیار کر سکتا ہے۔ عقوبت سے بھی اصل مطلوب اصلاح ہے نہ کہ یہ کوئی شرعی حد ہے جو کہ بذات خود مطلوب ہوتی ہے۔
    صاحب بدعت کیلئے آخری چارہ کار کے طور پر ان مواقع پر عقوبت درست ہو سکتی ہے جب اُس کا عناد واضح ہو جائے، حق کی بات سننے پر وہ آمادہ نظر نہ آئے اور ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہو کر تکبر کی روش پر چل پڑا ہو۔ یہاں بھی عقوبت اس بات سے مشروط ہے کہ دینی مصلحت حاصل ہو دوسرے لفظوں میں یا تو بدعت کے کلی طور پر چھوڑ دینے کا قوی امکان ہو، یا پہلے سے اُس کی شدت میں کمی آنے کا قوی امکان ہو، اگر تادیب کے نتیجے میں معاشرے میں فساد اور بڑھ جانے کا قوی امکان ہو تو تادیب پر عملدرآمد مشروع نہیں ہوگا۔
(22)    عذر کب دور ہوتا ہے ایک تفصیل طلب موضوع ہے یہاں ہم چند اشاروں پر اکتفاء کریں گے۔ (الف) حق معاشرے میں کتنا عام ہے اور اُس پر عمل کرنے والوں کی سماجی حیثیت کتنی مضبوط ہے۔ یا پھر معاشرے میں حق گنجلک ہو گیا ہے اور ایک سنجیدہ آدمی کو بہ آسانی دستیاب نہیں ہوتا، یہ دونوں صورتیں الگ الگ حکم رکھتی ہیں۔
(ب)    باطل معاشرے میں کتنا مضبوط ہے اور کثرت سے یا قلت سے پایا جاتا ہے۔ باطل کی سرپرستی طاقتور لوگ کر رہے ہیں یا معاشرے کے رذیل لوگوں کی کثرت کی وجہ سے باطل چھایا ہوا ہے۔
(ج)    صاحب بدعت جس بستی یا علاقے کا باسی ہے وہاں سنت کس قدر عام ہے اور سنت پر عمل کرنے والوں کو عوام الناس اپنا پیشوا اور مقتدا مانتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عمر بن خطاب کی خلافت راشدہ میں عذرات قبول کرنے کی اتنی گنجائش نہیں رہ گئی تھی جتنی مثلاً ہمارے دور میں سنت کی دبی دبی اور سہمی ہوئی حالت ہے۔ بعض خطے ایسے بھی ہیں کہ وہاں سنت تقریباً ناپید ہے۔ ایسے خطوں میں عذارت کے قبول کرنے کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔
(د)    صاحب بدعت کی ذہنی سطح، مثال کے طور پر ایک بغلول کیلئے گنجائش زیادہ ہے بہ نسبت ایک ذہین فطین اور صاحب استدلال یا نابغہ روزگار شخصیت کے۔
    اس تفصیل کو ذہن میں رکھو تو آپ پر ان افراد کی غلطی واضح ہو جائے گی جو سنی فرقوں میں سے لاکھوں کی اس بنا پر تکفیر کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد حجت قائم ہو گئی ہے۔ اب کسی کیلئے کوئی عذر باقی نہیں رہا، اگر کوئی سنت پر نہیں ہے تو یہ اُس کی اپنی کوتاہی ہے۔
    یاد رکھیں جس طرح کسی کافر کے بارے میں جبکہ اس کا اصلی کافر ہونا معلوم ہو۔۔۔۔۔۔ بلاثبوت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مسلمان ہے اس سے بڑی جرأت یہ ہے کہ جس کا مسلمان ہونا ثابت ہے اُسے کافر کہا جائے۔ کسی ایک مسلمان کو کافر کہنا سنگین ترین مسئلہ ہے اور ہمارے نادان سیکڑوں نہیں لاکھوں کروڑوں کو کافر قرار دے دیتے ہیں !
(23)    مجموع الفتاوی، جلد 28، ص 209
(24    کتاب الا م (ما تجوز بہ شہادۃ اھل الأھوائ) جلد 7، ص 509، 511
    ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: اہل الا ہواء (اصحاب بدعت) کی شہادت قبول کرنا ائمہ اور سلف کا عام مذہب ہے۔ اسی مذہب کے قائل ہیں ابولیلیٰ، ابن شبرمہ، ابو حنیفہ، شافعی اور اُن کے تلامذہ۔ ثوری، حسن بن یحییٰ، عثمان بتی، داؤد، طبری اور تمام وہ فقہاء جن کا مذہب کہیں نہ کہیں رائج رہا ہے، اس مذہب کے قائل ہیں کہ اصحاب بدعت کی شہادت قبول کی جاتی ہے سوائے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اور ان کے اصحاب کے سب اسی مذہب کے قائل ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ جب وہ جھوٹ کی گواہی نہ دیتے ہوں اور فسق کے کام نہ کرتے ہوں یعنی عادل ہوں اور نہ ہی اپنے ہی ساتھیوں کی گواہی میں سچ جھوٹ کو نہ دیکھتے ہوں جیسے خطابیہ فرقے کے لوگوں کا وطیرہ ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں: جس صاحب بدعت کی شہادت اور گواہی قابل قبول ہے اُس سے نہ توبہ کرانا جائز ہے اور نہ اُس کے خلاف تلوار اٹھانا جائز ہے (الاستذکار لابن عبدالبر جلد 26، ص 104)
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کی کہ (اہل اھواء کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی) توجیہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دونوں ائمہ کے پیش نظر اہل اھواء کی تادیب تھی، نہ کہ اس کی غرض اہل اھواء کا اِن کے نزدیک آثم ہونا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ دونوں اماموں کی تالیفات ایسی نہیں ہیں کہ ان میں سرے سے اھل اھواء کے واسطے سے روایت نہ ہو۔ اگر اِن دونوں اماموں کے نزدیک اھل اھواء کے آثم (فاسق) شہادت قبول نہ کرنے کی وجہ ان کا آثم یعنی فاسق ہونا ہوتی تو وہ اُن سے کبھی روایت نہ کرتے کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ فاسق کی شہادت قبول نہیں ہوتی۔
(25)    یہی بات راجح ہے اور اسی بات پر محدثین کا اتفاق پایا جاتا ہے اگرچہ ان سے اس بات میں اختلاف بھی بیان کیا جاتا ہے لیکن راجح بات یہی ہے جو متن میں مذکور ہوئی ہے یعنی اہل اھواء کی روایت قبول ہوگی جبکہ حجت قائم ہونے کے بعد اس کا عناد ظاہر نہ ہوا ہو اور روایت اس کی بدعت کو ثابت کرنے والی نہ ہو جبکہ وہ روایت بھی اپنے جیسے راوی سے کرتا ہو اور وہ صحیح حدیثوں کے بھی واضح خلاف ہو۔
(26)    بعض حالات میں یوں کہنا ناجائز نہیں کہ بدعت بس کفر سے کم ہوتی ہے یا یوں کہنا کہ فسق کی بدترین شکل بدعت ہے جیسا کہ کتاب الکلیات میں کَفَویّ کہتے ہیں۔ مگر اس عبارت کا اِن کتب میں جو مفہوم ہے وہ تفصیل طلب ہے۔ عام قاعدہ بس یہ یاد رکھو کہ مطلق طور پر مذکورہ بالا جملے کہنا یا اسے مستقل شرعی اصطلاح سمجھنا درست نہیں ہے۔
(27)    ابن ابی شیبہ (39097) اور محمد نصر نے تعظیم قدر الصلاۃ میں (591، 592، 593) یہ روایت بیان کی ہے اور ان دو کے علاوہ بھی یہ روایت دوسری کتب میں موجود ہے۔
(28)    منہاج السنۃ النبویہ لابن تیمیہ، جلد 4، ص 244
(29)    تاریخ بغداد از خطیب، جلد 10، ص 261، 263
    اور تھذیب التھذیب جلد 6، ص 197، 198
(30)    مسائل ابی داؤد از امام احمد (276)
(31)    متن میں جو حمار (خر) کا لفظ بیان ہوا ہے تو یہ صاحب قصہ کا اپنا اسلوب ہے۔ نبی علیہ السلام کے دہن مبارک سے نازیبا الفاظ نہیں نکلا کرتے تھے پھر جبکہ متن میں مذکورہ شخص ثقہ ہے تو اُسے حمار کہنا صاحب قصہ کی انشاء پردازی ہے، اسے کوئی شرعی دلیل نہ سمجھے کہ کسی صاحب بدعت کو حمار (خر) کہنا درست ہے۔
(32)    التفریق بین الداعیۃ وغیر الداعیۃ یدل علی أن مناط ترک الروایۃ لیس ہو انعدام الثقۃ بنقل الداعیۃ ؛ لأن الداعیۃ وغیر الداعیۃ مشترکان فی البدعۃ التی ہی الطعن , ولذلک ما زال الداعیۃ عند ابن حبان ثقۃً کما قال :وإن کانوا ثقاتا.وإنما سببُ ترکِ روایۃ الداعیۃ ہو الہجر والتأدیب , ولکی لا تکون الروایۃ عنہ سببا فی الترویج لبدعتہ.وہذا ما صرّحَ بہ ابن حبان فی مقدمۃ صحیحہ , حیث ذکر مسألۃ الروایۃ عن أہل البدع , وضرب لہم مثلًا بالمرجئۃ والرافضۃ , وفرّق بین الداعیۃ وغیر الداعیۃ , ثم قال : فإن الداعی إلی مذہبہ والذابَّ عنہ حتی یصیر إمامًا فیہ , وإن کان ثقۃً , ثم روینا عنہ , جعلنا للاتباع لمذہبہ طریقًا , وسوّغنا للمتعلِّمِ الاعتمادَ علیہ وعلی قولہ , فالاحتیاطُ ترکُ روایۃ الأئمۃ الدعاۃ منہم ....الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان لابن بَلَبَان (1/160)
اِس عبارت سے ملتی جلتی دوسری عبارتوں کا ترجمہ پچھلی سطور میں اور متن میں بھی کیا جا چکا ہے۔ یہاں صرف حواشی کی ترتیب بر قرار رکھنے کے لیے عربی عبارت جوں کی توں دے دی گئی ہے۔ 
(33)    الثقات لابن حبان (6/140-141) .
(34)    سؤالات أبی عبید الآجُرّی لأبی داود (رقم591) .
(35)    مجموع الفتاوی (4/13) 
(36)    امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بدعت اور فجور کی بابت لکھتے ہیں: یوں تو جنس بدعت بھی شر کے زمرے میں آتی ہے لیکن فجور بھی ایک اور لحاظ سے بدعت سے بڑھ کر شر ہے، وہ اس طرح کہ ایک صاحب ایمان فجور کرتے ہوئے اُسے اپنے اس تصور کی بنا پر کہ وہ جس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے تو اِس گناہ کو کرنا جائز نہیں سمجھتا، اعتقادی حد تک وہ اُسے امور محرّمہ میں ہی شمار کرتا ہے۔ یوں اُس کا تصور یہ بنتا ہے کہ فجور کا بڑا وبال اُس وقت ہے جب فجور کے کام کو مباح سمجھا جائے، اس طرح وہ فجور کے کام کو اعتقاد میں درست تصور کی بناء پر آسان سمجھ کر فجور کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ سو اس طرح ایک لحاظ سے وہ فجور کا ارتکاب کرتے ہوئے وہ دوران کار دلیل بھی ڈھونڈ لیتا ہے جو بذات خود ایک لحاظ سے شر ہے۔ البتہ اُس کا یہ اعتقاد بہرحال درست بھی ہے کہ جس فجور کا وہ ارتکاب کر رہا ہوتا ہے اُسے ازروئے عقیدہ اور شریعت حرام ہی سمجھتا ہے۔ یوں ایک قسم کا شرّ بھی اِس تصور میں پایا جاتا ہے تو ایک قسم کے اعتقاد کا درست ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب ایک صاحب ایمان بدعت میں ملوث ہوتا ہے تو کیونکہ وہ بدعت کا مرتکب ہوتا ہے جو کہ ایک قسم کا شرّ ہے مگر یہاں ایک ایسی صورت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اس بدعت کو اپنے اعتقاد میں نیک عمل سمجھتا ہے اِس لئے اُس کے نفس پر عمل اور اعتقاد میں تضاد نہیں پایا جاتا اور وہ خلوص نیت سے بدعت کے کام کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے، تو جہاں تک بدعت کا تعلق ہے تو اِس میں وہ خطاکار ہے البتہ حسن نیت ہونا سلامت قلب کی علامت بھی ہے۔ الاستقامہ لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (١/٤٥٥)
    اگر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا اقتباس کو سامنے رکھا جائے تو ہمارے لئے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے اقوال جو مختلف کتابوں میں مذکور ہوئے ہیں اور بہ ظاہر مذکورہ بالا قول کے خلاف لگتے ہیں، تو ہم ہر دو اقوال کو اپنی اپنی جگہ پر رکھ کر بہ آسانی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت اور معاصی میں کون سا خلاف شریعت کام زیادہ بڑا شر ہے: اب ہم ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے وہ اقوال پیش کرتے ہیں جو بظاہر مذکورہ بالا قول کے خلاف پڑتے ہیں:
    تمام اہل علم کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ سنگین ترین بدعات (البِدَع المغلَّظۃ) عمومی گناہوں (عام گناہوں کبیرہ وصغیرہ مگر سنگین ترین گناہوں سے کم) سے زیادہ سنگین ہوا کرتی ہیں بشرطیکہ گناہ کی بابت درست عقیدہ پایا جائے کہ گناہ، گناہ ہی ہے (کفر نہیں جس طرح خوارج کا کبیرہ گناہوں کی بابت اعتقاد ہے یا مرجئہ کا یہ عقیدہ کہ عقیدے کی سلامتی کے ہوتے ہوئے کبیرہ گناہ نقصان نہیں پہنچا سکتے)۔ مجموع الفتاوی (٢٨/٤٧٠)
    اِسی طرح مجموع الفتاوی جلد ٢٠ صفحہ ١٠٣ پر بھی ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسا اصول پیش کرتے ہیں جو مذکورہ بالا اصول کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فجور بدعت سے بھی سنگین تر ہوتے ہیں، کے خلاف پڑتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: اہل بدعت تو اُن اہل معاصی سے بھی برے ہوتے ہیں جن کے گناہ شہوانی قسم سے ہوتے ہیں۔
    مذکورہ بالا دونوں اقوال اگر انہیں درست طور پر نہ سمجھا جائے تو ایک دوسرے کے متضاد نظر آتے ہیں، لیکن دراصل یہ دونوں اقوال یا اصول اور قواعد علی الاطلاق نہیں ہیں بلکہ اگر انہیں اپنے اپنے محل پر پرکھا جائے تو وہ دونوں بظاہر تضاد کے ایک دوسرے کی توضیح کرتے ہوئے معلوم ہوں گی۔
    ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو کہ اہل بدعت، اہل معاصی سے برے ہوتے ہیں خواہ وہ شہوانی نوعیت کی ہی کیوں نہ ہوں، سمجھنے کیلئے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اور اصول کو سامنے رکھنا ہوگا اور وہ یہ کہ اہل بدعت (کے نیک وکار منکرات سے بچ کر زاہدانہ زندگی گزارنے والے) کی شہادت تو قابل قبول ہے مگر اہل فسق یا فجور کی شہادت قابل قبول نہیں ہے۔ اِسی طرح ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی اصول ہے کہ اہل بدعت اور اہل معاصی ہر دو میں ایسی نیک صفات بھی پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا احترام واجب ہوتا ہے اور ایسی خصلتیں بھی پائی جاتی ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ زجر وتوبیخ کے بھی سزاوار ہوتے ہیں۔ اس اصول میں بھی امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اہل بدعت اور اہل فسق سے اُمت کے افراد کیلئے برابر پیش آنے کا اصول بیان کرتے ہیں۔
    اِس پر مستزاد ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی سیرت مطہرہ میں بھی ہمارے لئے اصولی قواعد کی تطبیق موجود ہے۔ وہ اپنے زمانے میں پائے جانے والے اصحاب بدعت کے جن اصولوں اور اقول کے خلاف وہ علمی جہاد کرتے رہے، ان اصحاب کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بہت اچھی رائے رکھا کرتے تھے، جیسے تقی الدین سبکی، اسی طرح آپ کے شدید مخالف البکری کے لیے سفارش کی تھی کہ انہیں سزا نہ دی جائے اور اُس وقت تک جبکہ آپ انہیں سزا دلوانے کی طاقت رکھتے تھے اُن کے حق میں دُعائے خیر کی اور درگزر فرمایا، جس حاکم نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے مشورہ کیا تھا کہ میں ان لوگوں کو قتل کرنے چلا ہوں، حاکم وقت کا یہ ارادہ جان کر سب سے پہلے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اِن مذکور بالا اشخاص کی تعریف کی اور فرمایا کہ اگر یہ اصحاب علم اُٹھ گئے تو پھر تمہاری مملکت میں کوئی ایک بھی ایسا صاحب علم نہیں بچے گا جس طرح کا علم ان کے سینوں میں پڑا ہوا ہے۔
    یاد رہے کہ نہ صرف امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے موقع پر اہل بدعت کی تعریف کی بلکہ جس حاکم وقت کے ساتھ انہیں اہل بدعت پر علمی اور سیاسی برتری حاصل ہوئی تھی وہ حاکم بذات خود بھی بدعت میں پڑا ہوا تھا اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ گاہے بگاہے حاکم وقت کی تعریف بھی کیا کرتے تھے۔
    عقود دریہ میں ابن عبدالھادی لکھتے ہیں کہ اقتدار حاصل ہونے کے بعد جن اصحاب بدعت سے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف درگزر فرمایا بلکہ ان علم وفضل کی تعریف بھی کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا شخصیات میں سے ایک نے اس موقع پر اقرار کیا کہ اگر ہمیں ایسی طاقت حاصل ہوتی تو ہم شاید درگزر سے کام نہ کرتے بلکہ ان کا کام تمام ہی کر دیتے۔
    بنا بریں مذکورہ بالا تفصیلات سے آپ یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ اصول علی الاطلاق نہیں ہے کہ ہمیشہ ہر زماں ومکان میں اہل بدعت، اہل معاصی یا فجور یا فسق سے برے سمجھے جائیں گے بلکہ کبھی یہ اصول درست ہوگا تو کبھی اس کے برعکس، لہٰذا آپ کسی واعظ سے یہ سن کر متاثر نہ ہو جائیں کہ اہل بدعت تو شر کے سرخیل ہوا کرتے ہیں اور اہل معاصی محض گناہگار، دراصل اس واعظ نے جانتے ہوئے یا ان جانے میں اپنے مطلب کے قول کو نکال کر اپنے قضیے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
    اگر مقالے میں اختصار میرے پیش نظر نہ ہوتا تو ہم مذکورہ بالا قول کے علی الاطلاق ہونے کے نادرست ہونے پر اور بھی دلائل پیش کرتے، علاوہ اس کے ہمارے پیش نظر یہ بھی رہنا چاہیے کہ ہمارے دین میں اصل دلیل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اگرچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال ائمہ کرام سے ہی ماخوذ ہیں اور اُمت میں انہیں ایک عظیم مقام حاصل ہے، مزید برآں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے مختلف کتاب میں بکھرے اقوال کو سامنے رکھ کر نتیجہ نکالا جائے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
    یہاں ہم اُس تفصیل کو حذف کر رہے ہیں جو جھوٹے راویوں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مخصوص حالات میں بیان کئے ہوئے کلی اصول کو جستہ جستہ اصحاب بدعت پر چسپاں کرنے میں سبک دستی دکھائی ہے، کہ اگر معصیت اتنی بڑی ہو اور بدعت کتنی ہی چھوٹی ہو تو آخر الذکر کو جنت کی خوشبو تک نہ آنے پائے گی۔ دونوں ائمہ کرام سے منسوب اہل بدعت کی ضد میں بیان کئے گئے قصے اور اقوال محض جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ (مترجم)
(37)    اس حاشیے میں صاحب مقالہ نے جو تفصیل پیش کی ہے وہ اوپر والی تفصیل کے مشابہ ہے، اس لئے اختصار کے پیش نظر ہم اس حاشیہ کا ترجمہ یہاں ضروری نہیں سمجھتے۔ (مترجم)
(38)    آخر میںامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول پر ہم اپنے مقالے کو ختم کرتے ہیں: امام المرّوذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ (احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھا کہ آپ اہل بدعت کے ایسے بدمعاملہ سے کس طرح پیش آنے کی تلقین کرتے ہیں کہ جو اہل سنت کو ستانے میں اور بسا اوقات ان کی تکفیر تک کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تم ہرگز انہیں نہ ستانا (یعنی اہل سنت کو اُن جیسا طرز عمل نہیں اختیار کرنا چاہئے)
    المرّوذی کہتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا کہ آپ انہیں (اہل بدعت کو) قید میں رکھنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ اس پر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: لہم والداتٌ واَخواتٌ مجھے اِس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کی مائیں اور بہنیں تنہا ہو جائیں گی (یا انہیں بہت دُکھ پہنچے گا کیونکہ عورتیں کمزور دِل کی ہوتی ہیں یا ممکن ہے کہ ان ماؤں اور بہنوں کیلئے کمانے والا وہ اکیلا مرد ہو یا یہ کہ عورتیں اس طرح مرد کے بغیر کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں) قوسین میں موجود عبارت اصلی عربی الفاظ کے وہ معانی ہیں جو یہ مفہوم بھی رکھتی ہیں، اس لئے ہم نے امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا جواب عربی میں دے دیا ہے۔ (مترجم)
    المرّذوی کہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں نے (اہل سنت) ایک (بدعتی) شخص کو قید میں ڈال رکھا ہے اور اُس سے نازیبا سلوک کر رہے ہیں، اب انہیں خیال آیا ہے کہ آپ سے رائے طلب کی جائے، آیا اُسے قید میں رکھنا اُن کا درست اقدام ہے یا اُسے رہا کردینا ہی درست اور صائب سلوک ہے۔
    امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اُن میں سے کسی ایک کو بھی قید وبند میں رکھا جائے یہ تو ہرگز درست نہیں۔ اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ اِنْ کانَ یُحْبَسُ مِنھم اَحَدٌ، فَلا۔ یہ کہہ کر امام صاحب فرماتے ہیں: فما اعدل اَھل السنۃ وما ارحمہم: اہل سنت کی انصاف پسندی کا کیا ہی کہنا ! اور ان کی شفقت کا بھی کیا ہی کہنا ! 
    برادران اسلام، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ بالا قول اُن اہل بدعت کے متعلق ہے جو اپنے رویے میں سخت گیر ہیں۔ اہل سنت کو ستاتے ہیں اور ان کی تکفیر کا موقع ہاتھ آئے تو اُس سے بھی نہیں چوکتے ایسے سخت رویے کے حامل اہل بدعت کی بابت وہ فرماتے ہیں کہ اُن میں سے کا ایک فرد بھی قید میں نہ رکھا جائے، اُن سے شفقت اور نرمی کامظاہرہ کیا جائے کیونکہ امام صاحب کے نزدیک محض اکیلی بدعت کا ارتکاب سزا کیلئے کافی نہیں ہے۔

 

حواشی مترجم

(1) قوسین کی عبارت ’امام راتب‘ کا مفصل ترجمہ ہے (مترجم)

(2) قوسین میں دی گئی عبارت ’و انّ مالکاً شذَّ عنہم فی ذلک‘ کا مفصل ترجمہ ہے

(3) ملامت کرنے کیلئے شرعی ضابطے پورے کئے جاتے ہیں جبکہ لعنت اس سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے

(4) منزلہ بین منزلتین دراصل فرقہ معتزلہ کی خودساختہ اصطلاح ہے جس کی رو سے ایک شخص نہ کافر ہوتا ہے اور نہ مسلمان اور نہ عادل ہوتا ہے اور نہ فاسق....

(5) علی بن ابی طالب کے زمانہ خلافت میں اُمت کا اس بات پر اجماع ہوا کہ خوارج کافر نہیں ہیں، جب وہ کافر نہیں ہیں تو مسلمان ہوئے، اس لئے مسلمانوں کے تمام حقوق وفرائض انہیں حاصل تھے۔

(6) عربوں کے ہاں یہ کلمات ڈانٹنے کیلئے اور دو گہرے دوستوں میں پیار ومحبت کے اظہار کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔یہاں الفاظ کے ظاہری معانی مراد نہیں ہیں۔

(7) کیا ہم فرمانبرداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں، تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو۔

(8) جس کی اپنی نماز مقبول ہے اُس کے پیچھے دوسروں کی نماز بھی مقبول ہوتی ہے

(9) فتنے میں مبتلا اور صاحب بدعت کی امامت کا بیان

(10) (تم اُس کے پیچھے) نماز پڑھتے (ہی) رہو اُس کی بدعت کا وبال اُس کے اپنے سر ہے

(11) عبیداللہ بن عدی بن خیار نے یہاں ’امام فتنہ‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اِمام الفتنہ نہیں کہا، لفظ ’فتنہ‘ نکرہ ہونے کی وجہ سے ایسے تمام حالات کیلئے عام ہو گیا ہے جن میں کوئی مبتدع جس کی بدعت بدعت کفریہ نہ ہو تو اُس صورت میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ ہم نے اِسی معنی کا اعتبار کرتے ہوئے قوسین میں اگر کا اضافی لفظ لکھا ہے علاوہ ازیں حافظ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں بھی ابن خیار کے استفسار کو عام لیتے ہیں برخلاف اُن چند علماءکے جو مفتون یعنی مبتدع امام کی امامت میں ادا کی گئی باجماعت نمازوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔ (مترجم)
(12) جہاں تک ابن خیار کے استفسار میں ’نتحرج‘ کے لفظ کا استعمال ہے تو اسے حافظ ابن حجر وغیرہ نے ’تاثم‘ مراد لیا ہے یعنی گناہگار ہونا، اغلب یہ ہے کہ صحابہ کرام اور ابن خیار وغیرہ کو یہ خدشہ نہیں تھا کہ ان کی نماز بلوائیوں کی امامت میں مقبول نہیں ہوئی ہوگی بلکہ وہ اِس اندیشے کا اظہار کر رہے تھے کہ خلیفہ عادل کے خلاف بلوائیوں نے جو بغاوت کر رکھی ہے کہیں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اُن کے بغاوت کے گناہ میں شریک ہونے میں تو نہیں شمار ہوگا۔ جہاں تک حضرت عثمان کے جواب کا تعلق ہے تو اُس سے غالباً یہ مراد ہے کہ اُن کے ساتھ خلفیہ عادل کے خلاف بلوے میں شریک ہونا البتہ گناہ اور تحرج کا کام ہے۔ واﷲ اعلم (مترجم)

(13) بدعت کی طرف جب کوئی بدعت کا مرتکب دعوت دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں اس وقت وہ رائج نہیں ہے تب ہی تو اُسے یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ لوگوں کو اپنے فہم (بدعت) کی طرف راغب کرے۔ جب لوگوں کو ایک امر جسے وہ شریعت نہیں سمجھ رہے ہیں شریعت بنا کر پیش کیا جائے گا تو وہ اس پر تعجب کریں گے اور جوش میں آکر گالی گلوچ یا لڑائی اور خونریزی تک نوبت آسکتی ہے، اس لئے معاشرے میں ناچاقی کے پیدا ہونے کے احتمال کی وجہ سے بدعت کے داعی میں اور خود بدعت پر عمل کرنے میں اہل علم نے فرق کیا ہے۔ یہ کچھ بدعت کی دعوت کیلئے ہی خاص نہیں کہ معاشرے میں فساد اور خونریزی کا اندیشہ ہے، شریعت نے بیع اور لین دین کے وہ تمام معاملات کالعدم قرار دے دیئے ہیں کہ جس کی وجہ سے بیع میں غرر (دھوکے) کا ذرا سا امکان ہو، کیونکہ لین دین میں دونوں فریق دو ٹوک اور واضح سودا نہیں کر رہے ہوتے اس لئے اختلاف رونما ہوگا اور جھگڑا پیدا ہوگا، اس لئے شریعت نے ایسے معاملات جن میں غرر کا ادنیٰ امکان تھا کالعدم قرار دے دیئے ہیں جیسے گندم اور چند دوسری مخصوص اجناس کا ہم وزن تبادلہ کرنا، عین ممکن ہے کہ سودا طے پا جانے کے بعد ایک فریق کو شک گزرے کہ میری گندم اعلیٰ تھی اور اس کی ادنیٰ، میری گندم کو گھن بہت کم لگا تھا جبکہ اس کی گندم تو ساری گھن کھائی ہوئی ہے۔ اِسی پر ائمہ کرام کے طرز عمل کو قیاس کرو کہ وہ ایک امام جو ان کا ہم عصر ہوتا تھا تو ایک امام کے علاقے میں رہنے والے عوام الناس کو فتوی لینے کیلئے اُسی علاقے کے امام کی طرف فتوی پوچھنے کی ہدایت کرتے تھے۔ یا امام احمد بن حنبل مغرب کے فرائض سے پہلے دو رکعتیں ترک کر دیا کرتے تھے جب وہ ایسے علاقے میں ہوتے جہاں مغرب کے فرائض سے پہلے دو رکعتیں ادا کرنا اچنبھے کی بات سمجھا جاتا۔ اِسی اصول کو سامنے رکھ کر محمد بن ابراہیم (مملکت سعودی عربیہ کے مفتی اعظم) نے ایک سائل کو رکوع اور رکوع کے بعد رفع الیدین کے ترک کرنے کا فتویٰ دیا تھا کیونکہ سائل نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نماز کے دوران میں رفع الیدین کرنے سے نمازیوں کے درمیان تکرار اور جھگڑا ہو سکتا ہے۔ جب اہل علم ایک مباح کام کو فتنے کے اندیشے کی وجہ سے ترک کردیتے ہیں تو پھر بدعت کی دعوت دینے والے کا الگ حکم کیوں نہیں ہوگا، لیکن ہماری تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ بدعت کی دعوت دینے والے کا الگ حکم محض فتنے کے رونما ہونے کی وجہ سے ہے نہ کہ خود بدعت کی وجہ سے، کیونکہ بدعت کسی تاویل یا جہل یہ کسی شبہے کی وجہ سے یا کسی گزرے ہوئے بزرگ کے عمل کو سامنے رکھ کر ہوگی اور اگر اُس نے صدق دِل سے اجتہاد کیا ہوگا تو غلطی کے باوجود اُس کے حق میں تو ایک اجر بھی ہوگا، تاہم اہلسنت کے اکابر بدعت کا ردّ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔

(14) حنفیۃ کے نزدیک المو ءلفۃ قلوبہم اسلام کے چہار سو پھیل جانے کے بعد ساقط ہو گیا ہے۔ المو ءلفۃ قلوبہم زکوٰۃ کی ایک مد ہے جو غیر مسلم اقوام کو جن کا عناد نہ رہا ہو اور اسلام کی طرف نرم گوشہ رکھتے ہوں، اسلام قبول کرنے کیلئے ترغیب دینے کیلئے مال زکوٰۃ کا مخصوص حصہ ہوتا ہے۔ غیر مسلم کے علاوہ بعض اہل اسلام کا حوصلہ بڑھانے یا ثابت قدم رکھنے یا متوقع شر سے بچنے کیلئے بھی دیا جا سکتا ہے۔ (مترجم)
(15) اور ان سے خوش اسلوبی سے جدال کرو۔

 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز