عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, May 4,2024 | 1445, شَوّال 24
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دعوت کا منہج کیا ہو؟
:عنوان

:کیٹیگری
محمد قطب :مصنف

"دعوت کا منہج" مکمل کتابی شکل میں شائع  ہوچکا ہے۔ آن لائن پڑھنے یا ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

دعوت کا منہج کیا ہو؟

 

(حصہ اول)

(حصہ دوم۔ یہاں کلک کریں)

یہ ہے وہ منظر نامہ جس کا آج کی اس اسلامی بیداری کو سامنا تھا اور ہے....

رہی خود یہ اسلامی بیداری اور یہ تحریکی اٹھان تو یہ خدا کی جانب سے ایک مقرر شدہ واقعہ ہے جو ہر دشمن کے نہ چاہتے ہوئے بلکہ دشمن کے پورا زور لگا لینے اور تمام تر مکروہ تدبیر کرلینے کے باوجود ہو کر رہا۔ حالانکہ دشمن نے ’اسلام‘ کو موت کی نیند سلا دینے کی اپنی طرف سے کوئی بھی کسر نہ چھوڑی تھی۔ وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ(یوسف: 21) ”اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“۔ (1)

اس تحریکی بیداری کی توقع کوئی بھی تو نہ کر سکتا تھا ،دشمن تو دشمن خود مسلمان ہی نہ کر سکتے تھے!

جہاں تک دشمنوں کا تعلق ہے تو وہ تو صرف ’مرد بیمار‘ کے وفات پاجانے کی ہی پیش بینی کر رہے تھے، جیسا کہ خلافت عثمانیہ کیلئے ان کے ہاں یہ بطور لقب مستعمل تھا۔ وہ بھی یہی سہانے خواب دیکھ رہے تھے کہ اس مرد بیمار کو دفنانے کی دیر ہے وہ اس کا ترکہ آپس میں تقسیم کریں گے۔ اس کے حصے بخرے ہضم کریں گے اور اس کے ساتھ ہی یہ کھیل ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا اور اسلام کا قصہ تمام ہو جائے گا!

اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو مایوسی اور شکست خوردگی کی ایک ایسی کیفیت ان پر حاوی ہو چکی تھی اور ایک ایسی بھیانک صورتحال میں وہ اپنے آپ کو گھرا ہوا دیکھ رہے تھے کم از کم ان میں سے اکثر کی یہی حالت تھی کہ ان کی سوچ کی انتہا بھی اس سے آگے نہ جاتی تھی کہ دشمن کی یہ آہنی گرفت جو ان کی گردن پہ آن پڑی ہے ذرا اگر کچھ نرم ہی ہو جائے اور اگر کچھ تھوڑے بہت ’حقوق‘ ہی مل جائیں اور بس اب زندہ ہی رہ لینے دیا جائے تو بڑی بات ہو چاہے یہ زندہ رہنا کیسی ہی رسوا کن شرطوں پر ہو....

مگر خدا کا یہ مقدر کیا ہوا وقوعہ جسے غالب آکر رہنا تھا، اور اس کا وہ دائمی وعدہ کہ وہ اس اُمت میں ایسے افراد کھڑے کرتا رہے گا جن کے دم سے اس دین کی روح پھر سے زندہ اور تازہ ہو جایا کرے.... خدا کی یہ تقدیر اور خدا کا یہ وعدہ آج کی اِس اسلامی بیداری کو ایک ناقابل یقین انداز میں پھر بھی نکال لایا اور دشمن کے سب مکروہ تدبیر اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے!

آج ہم خدا کی اس تقدیر کا نظارہ کرتے ہوئے مستقبل کے افق پر امیدوں کی زبردست گھٹائیں دیکھ رہے ہیں اور خدا کے اس وعدہء حق کو عمل پذیر ہوتا دیکھ کر اطمینان پا رہے ہیں کہ وہ اس دین کو ہر دین پر غالب رکھے گا۔ ہمارا یقین ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف: 9) ”وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو“۔

مگر ہماری بحث یہاں جس چیز سے ہے وہ ہے منہج عمل جسے کہ آج کے اس تحریکی بیداری کے عمل کو اپنانا ہے، انسانی زندگی میں خدائی تقدیر کے روپذیر ہونے کیلئے انسانوں کو ہی ’عمل‘ کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے نہیں کہ خدا اپنی تقدیر کو کسی اور انداز میں روپذیر کرانے سے عاجز ہے بلکہ اس وجہ سے خدا کی سنت کا کچھ یہی تقاضا ہے کہ انسانی دُنیا کے اندر انسان ہی برسرعمل ہوں اور ’انسانوں‘ ہی کے پردے میں ’خدا کی تقدیر‘ روپذیر ہو۔ ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاء اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ  (محمد: 4) ”اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اس نے اس لئے اختیار نہیں کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ آزمائے“۔ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: 11) ”کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ خود اپنے نفوس کی حالت نہ بدلیں“۔

تو پھر یہ منہج عمل کیا ہے؟

دین کا کام کرنے والوں کے ہاں کئی سارے طریقے اور اسلوب پائے جاتے ہیں۔ ہم ان میں سے ایک ایک کو اختصار کے ساتھ یہاں زیربحث لائیں گے اور اس کے مالہ وما علیہ پر نظر ڈالیں گے۔ آئیے مل کر دیکھیں ان میں سے کون سا طریقہ زیادہ مؤثر وفائدہ مند ہے اور اس وقت کی صورتحال کے پس منظر میں جس کی ہم نے یہاں کچھ تشخیص کی ہے، ان میں سے کونسا اسلوب اُمت کے زیادہ مناسب حال ہے، آیا وعظ یا روحانی تربیت یا پھر جذبہ ابھارنے کا اسلوب یا پھر فکری پختگی پیدا کرنا اور یا جہادی تیاری؟

ایک بات ہم ابتداءمیں کہتے چلیں کہ یہ سب مذکورہ بالا وسائل ہی اپنی اپنی جگہ مطلوب ہیں اور ان میں سے کسی ایک سے بھی استغنا ممکن نہیں۔ ہم جو گفتگو یہاں کریں گے وہ یہ نہیں کہ ان میں سے کسی چیز کو چھوڑا جائے اور کسی چیز کو اختیار کیا جائے بلکہ ہم یہ جائزہ لیں گے کہ ان میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ کتنی افادیت ہے اور یہ کہ کسی طبقے کے ہاں اگر یہ سب کے سب وسائل کماحقہ استعمال ہوتے ہیں پھر تو الگ بات ہے لیکن اگر ان میں سے کسی ایک پر ہی زور ہے۔ یوں وہی اس کے ہاں منہج اور طریق کار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس کے ماسوا اسالیب اس کے ہاں بڑی حد تک فروتر ہیں تو تبدیلی لے آنے کے معاملہ میں، یہ منہج تنہا کہاں تک موثر ہو سکتا ہے۔

سب سے پہلے ہم ’وعظ‘ پہ بات کرتے ہیں یعنی تقریریں، خطاب، جلسے اور اجتماعات وغیرہ۔ کیونکہ بہت سے لوگوں کے ہاں دین کے کام کی یہ صورت بہت زیادہ پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ ’واعظ‘ سمجھتا ہے کہ جس قدر جذبے سے وہ خطاب کرے گا جس قدر اس کو اپنی بات پر یقین ہوگا اور جس قدر زبردست الفاظ وہ اپنی تقریر میں استعمال کرے گا اور جس قدر علمی بیان ہوگا اسی قدر سننے والوں پر اس کی تاثیر ہوگی۔ ’مقرر‘ کے اس وہم کو واقعہ خود ہی غلط ثابت کرتا ہے۔۔۔۔۔

ہر جمعہ کو عالم اسلام میں براعظم تا براعظم تک کتنے ٹن وعظ القا کیا جاتا ہے!؟ اتنے خطبوں نے عالم اسلام کے اندر براعظم تا براعظم مسلمانوں کی حالت کو کہاں تک بدل دیا ہے؟!

اگر میں کہوں: ذرہ بھر بھی نہیں، تو کیا یہ خلاف حقیقت ہوگا؟

دعوت میں ”وعظ“ کا استعمال خدائی حکم ہے: ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: 125) ”اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور موعظہء حسنہ کے ساتھ“۔

مگر خدا نے یہ نہیں کہا کہ تنہا وعظ ہی دعوت کا طریقہ واسلوب ہے۔ نہ ہی خدا نے یہ کہا ہے کہ اگر تنہا یہی اسلوب اختیار کیا جائے تو سب مطلوبہ ثمرات حاصل ہو جائیں گے! خدائی منہج تو یہ ہے کہ ’وعظ کے ساتھ‘ دراصل ایک عدد ’رسول“ بھی آیا کرتا ہے جس کو نمونہ کی صورت دیکھنے کیلئے لوگوں کی نگاہیں اس پرمرکوز ہو جایا کریں۔ تب جا کر وہ ’اس‘ سے اس ’وعظ‘ کو سمجھیں اور پھر اس کے بعد اپنی دُنیا میں اس کے مضمون پر عمل پیرا ہوں:

کان خلقہ القرآن ”آپ کا خلق قرآن تھا“۔

یا یہ کہ ”آپ چلتا پھرتا قرآن تھے“۔ یہ ہے وہ وصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کا جو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے طرز عمل ہے کی بابت ہمیں بیان کرکے دیا ہے۔۔۔۔۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خالی خطیب نہ تھے جو منبر یا سٹیج پر سے بس خطبہ دے دیا کریں! اس سے پہلے آپ ایک مربی تھے اور حقیقت دین کا ایک چلتا پھرتا نمونہ۔ اس سے پہلے آپ ایک دعوت اور ایک پیغام رکھتے تھے اور ’وعظ‘ صرف اس ’پیغام‘ کو لوگوں تک پہنچانے کے ’ذرائع‘ میں سے محض ایک ’ذریعہ‘ تھا.... اور تو اور صحابہء کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو یہ تشنگی محسوس ہوتی ہے کہ یتخولھم بالموعظہ آپ ان کو وقفوں کے بعد ہی جا کر وعظ کرتے ہیں ادھر آپ کو خدشہ لاحق ہے کہ انہیں اس سے اکتاہٹ نہ ہو جائے! اُکتاہٹ بھلا کس شے سے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ سے! اور کن کو؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو! ان نفوس کو جو اس دہن مبارک سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کیلئے بے تاب ہیں اور اس کیلئے رغبت اور عقیدت اور توجہ کی آخری حد تک چلے جانے پہ تیار۔ کیونکہ لسان نبوت سے عطا ہونے والا ہر لفظ ان کی نگاہ میں جنت کا یقینی راستہ ہے.... پھر ہم جیسے انسانوں کیلئے کیونکر اس بات کی گنجائش ہے کہ دعوت میں ہماری کل پونجی ہی بس وعظ اور تلقین اور ارشاد ہو!

حتی کہ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وعظ اور ارشاد کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہو رہا ہے اور اس سے وہ ’اکتاہٹ‘ بھی نہیں ہو رہی، جو کہ ویسے ایک غلط مفروضہ ہے، تو بھی کیا وعظ اور ارشاد تنہا وہ سب گہرے اور دیرینہ روگ دور کر سکتا ہے جن کا اس سے پہلے ہم کچھ ذکر کر آئے ہیں اور جو کہ اُمت کے وجود کے اندر بُری طرح سے سرایت کر چکے ہیں اور مغربی یورش سے ماقبل زمانے سے لیکر آج تک چلے آرہے ہیں؟

خطبوں سے کیا اس ارجائی فکر کا خاتمہ ہو جائے گا جو عمل کو ایمان کے مفہوم سے ہی خارج کئے بیٹھا ہے اور جس نے کئی صدیوں سے لوگوں کو اس وہم میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اگر وہ اسلام کے کسی ایک بھی حکم پر عمل پیرا نہ ہوں پھر بھی رہیں گے وہ ’ایمان والے‘ ہی! کیا اکیلا ’وعظ‘ ان کی حالت بدل دے گا اور ان کو ایمان کے تقاضوں پر عمل پیرا کرا دے گا.... عمل کے ان سب تقاضوں سمیت جن میں دین کیلئے محنت بھی آتی ہے جدوجہد بھی، مشقت سہنا بھی، ذمہ داریاں اٹھانا بھی، اجتماعی اُمور کی پابندی بھی اور ڈسپلن بھی!؟

’وعظ‘ سے اگر یہ سب کچھ ہوسکتا ہے تو پھر ہو کیوں نہیں رہا؟ ہم ہر جمعہ ’وعظ‘ میں کوئی کسر تھوڑی چھوڑتے ہیں۔ وعظ کے دیگر مواقع اس کے علاوہ اور ریڈیو اور ٹی وی کا وعظ اس پر مستزاد! اکیلا وعظ کیا صوفیت میں ڈوبے ہوؤں کو نکال لائے گا اور وہ لوگ جو درگاہوں اور آستانوں سے تبرک پاتے ہیں اور اولیاءکے کشف غیب پر قدرت رکھنے کے معتقد ہیں اور کرامات کے نام پر عجیب وغریب کہانیوں کودین سمجھتے ہیں.... اکیلا وعظ کیا ان سب انحرافات کا شکار ہو جانے والوں کو بدل ڈالے گا؟!

لوگ آج جس بدنظمی اور بے ہنگم طرز عمل پہ زندگی گزار رہے ہیں ڈسپلن سے کوسوں دور تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے پر کبھی تیار نہ ہونا جو بھی کریں عین وقت آپڑنے پر کریں۔ یہ آناً فاناً کی ذہنیت اور پھر لمبا نہ چلنے کی وہ نفسیات جو پل میں مشتعل ہو کر سب کچھ کرگزرنے پہ تیار ہو جائے تو پل میں بجھ کر رہ جائے.... یہ سب روگ کیا ’وعظ‘ سے دور ہو جائیں گے؟

ملازم دفتروں میں جس کاہلی اور کام چوری کے عادی ہیں، معاملات کو دیانت کے ساتھ اور وقت پہ انجام دینے پہ تیار نہیں، صرف تنخواہ حلال کرنا جانتے ہیں کہ بس وقت پہ حاضری لگوا لیں اور وقت پہ چھٹی کر جائیں بلکہ تو حاضری اور چھٹی بھی وقت پہ ضروری نہیں! ابھی اس غبن اور خردبرد اور رشوت ستانی کا تو ذکر ہی نہیں جو حد سے بڑھی ہوئی ہے.... کوئی سر پر نہ ہو تو خود ذرہ بھر ہاتھ ہلاکر راضی نہیں اور کام میں اخلاص اور دل لگی کا تو خیر تصور ہی کیا، البتہ تنخواہ پوری لینے پہ ملال تک نہیں بلکہ تنخواہیں بڑھانے کے مطالبات ہی ہر وقت زبان پر ہوں گے.... علاوہ ازیں لوگوں کے یہ معمولات کہ وعدے کا پاس نہیں حتی کہ اس پر دل میں کوئی خلش یا قصور واری کا احساس تک نہیں، کسی کو وقت دیا اور منٹوں کے حساب سے نہیں گھنٹوں کے حساب سے تاخیر کی بلکہ معاملہ دنوں اور ہفتوں تک پہ چلا گیا یا پوری زندگی ہی وعدہ وفا نہ ہوا، افسوس یا ندامت کا ذرہ بھر دِل میں نہ آئے.... کیا یہ سب بیماریاں ’وعظ‘ کرنے سے چلی جائیں گی؟

وغیرہ وغیرہ وغیرہ....

******

واعظ حضرات فرمائیں گے: وعظ کے سوا اور آخر ہم کر سکتے ہیں؟ ہمارے حصہ کا کام تھا وہ ہم نے کردیا۔ اب کسی کو ہدایت نہیں آتی تو ہم کیا کریں ہدایت ہمارے ہاتھ میں تھوڑی ہے وہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے؟

ہدایت بالکل خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر خدا نے دعوت کا اور معاشرے کو تبدیل کرنے کیلئے محنت اور جدوجہد کا ایک منہج بھی تو رکھا ہے جس کی اساس اسوہ اور تربیت ہے۔ اس کے وسائل میں سے ایک ’وعظ‘ بھی یقینا ہے مگر وعظ جب اس کی پشت پر اسوہ اور تربیت ہو۔ تب خدا کے فضل سے وعظ ثمرآور بھی ہوگا۔

ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہتے کہ معاملہ اگر صرف وعظ تک محدود ہو تو اس کا ذرہ بھر فائدہ نہیں۔ حاشا وکلاّ۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ وعظ اکیلا زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہوسکتا ہے تو وہ اس حد تک کہ بس کچھ ’افراد‘ کی اصلاح کر دے، رہا یہ کہ وعظ وخطاب کا یہ اسلوب معاشرہ بدل ڈالے اور اُمت کی کایا پلٹ دے جبکہ خرابی معاشرے میں اس سطح کو پہنچ چکی ہو جس پر ہم اُسے اس وقت دیکھ رہے ہیں، یہ ممکن نہیں۔ یہ اسلوب ایک ایسی دعوت کھڑ ی کر دینے سے بہرحال عاجز ہے جس کا مشن یہ ہو کہ یہ اُمت جس کی نوبت حدیث کے الفاظ میں ’خس وخاشاک‘ تک آچکی ہے اس کی اب ایک باقاعدہ تعمیر نو کردی جائے!

******

’روحانی تربیت‘ ایک اہم ترین ضرورت ہے اور تعمیر کے اس عمل میں اس سے ہرگز کوئی استغنا نہیں.... بلکہ یہ تصور کیا ہی نہیں جا سکتا کہ کوئی دعوتی عمل اس کے بغیر پروان چڑھ لے۔ یہاں روحانی تربیت سے ہماری مراد ہے خدا کے ساتھ تعلق مضبوط کرانا۔ دِل میں خدا کیلئے رقت اور اخلاص پیدا کرنا۔ یوم آخرت کو ذہن اور شعور کے اندر بٹھا رکھنے کی محنت کرانا اور اس لمحے کو آدمی کے خیالات و احساسات کا محور بنا دینا جب وہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا.... یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت میں جو آپ نے اپنے اصحاب کو دی، بے انتہا نمایاں نظر آتی ہے، خصوصاً مکہ میں جب ان پر قیام اللیل فرض تھا کہ وہ خدا کے ساتھ اس تعلق کو پختہ سے پختہ تر کرلیں۔ مگر یہ سب کچھ دراصل کسی اور بات کی تیاری تھا۔ یہ فی ذاتہ ’آخری منزل‘ نہ تھی!

آپ سورۃ مزمل پہ غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جہاں قیام اللیل کی ہدایت کی جا رہی ہے عین وہیں پر واضح انداز میں ایک اور اشارہ بھی کردیا جاتا ہے.... ان ’بھاری ذمہ داریوں‘ کی طرف جو عنقریب آپڑنے والی ہیں۔ قیام اللیل کو دراصل اس کی ایک مضبوط بنیاد بنایا جا رہا تھا اور اس مرحلہ میں پورا اترنے کیلئے اہلیت پیدا کرنے کی ایک صورت:

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ---قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا---نِصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ---أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا---إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا   (المزمل:5۔1)

”اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ یقینا ہم تم پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کرنے والے ہیں“۔

تب غور کرنے پر خدا کی وہ حکمت بھی آپ پر کھلتی ہے جو قیام اللیل کو نفس مومن کے اندر اس خاص اہلیت کے پیدا کردینے کا ایک ذریعہ بناتی ہے جو کہ زمین میں مومن کے کردار ادا کرنے کیلئے مطلوب ہے:

إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْءًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (المزمل: 6)

”درحقیقت رات کا اٹھنا (نفس کو) دبا لینے میں شدید تر ہے اور بات کو بہت درست کردینے والا ہے“۔

اشد وطئاً یعنی یہ نفس کو کوٹ کوٹ کر ایک خاص چیز بنا دینے اور ایک ایسی زمین بنا کردینے والا ہے جس پر ذمہ داریاں اور فرائض ’دھرے‘ جا سکیں۔

غرض خدا کے ساتھ تعلق کے اندر یہ پختگی اور گہرائی بطور خاص مطلوب ہے تاکہ انسان وہ چیز بن سکے جس پر دین کے وہ سب بھاری بھر کم فرائض شریعت جب چاہے ’لاد‘ سکے اور وہ ذمہ داریاں باحسن اسلوب اس کو اٹھوائی جا سکیں جو اس راستے کا لازمہ ہیں۔ خصوصاً وہ فرائض اور ذمہ داریاں جو جہاد اور آزمائشوں میں صبر واستقامت سے متعلق ہیں۔

رہی وہ روحانیت جو خود ہی اس راستے کی آخری منزل بن جائے.... رہی وہ ’قلبی‘ ترقی جو اس گاڑی کا ’آخری سٹیشن‘ ہو اور تربیت کے عمل میں نفوس کو دینے کیلئے اس کے ماسوا کچھ نہ رہ گیا ہو تو اس صورت میں کیا روحانیت وہی روحانیت ہوگی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے نفوس کے اندر پھونکی تھی؟ گو تشبیہ میں کچھ فرق ہے مگر یہ گویا ایسے ہی ہے کہ آپ ایک سپاہی کو عسکری تربیت تو خوب دیں مگر اسے کسی معرکہ میں بھیجنا کسی پروگرام کا حصہ ہی نہ ہو! یا پھر کسی بنیاد کو آپ کوٹ کوٹ کر پختہ کردیں مگر اس پر کوئی عمارت اٹھانا سرے سے پیش نظر نہ ہو!

اس دین کامعاملہ بے حد عظیم الشان ہے۔ یہ وہ خدائی منہج ہے جو زندگی کے پورے کے پورے دھارے کو بدل دینے اور اصلاح کردینے کیلئے آیا ہے اور اس پائے کا ایک صالح انسان پیدا کرنے جس کے بل پر زمین میں خلافت راشدہ کی سطح کا اجتماعی انتظام ممکن ہو.... یہ محض کوئی روحانی پرواز نہیں۔ یہ محض کوئی ’اشراقات‘ نہیں۔ یہ محض پرکیف، احساسات اور پرجذب مقامات کا لطف نہیں چاہے یہ احساسات اور مقامات کتنے ہی اعلیٰ پائے کے کیوں نہ ہوں.... یہ تو ایک سرتوڑ محنت اور جہد کا نام ہے۔ یہ تو جہاد کا راستہ ہے۔ باطل کے ساتھ جنگ اور کشمکش میں آخری حد تک جان لڑا دینے کا مشن ہے۔ عمل اور جہاد کی ایک ایسا ڈائینامک جہت ہے جو باطل کے انہدام اور معاشرے میں حق کے ناقابل تسخیر قلعے کھڑا کرنے سے کم کسی چیز پہ قانع ہی نہ ہو.... ’روحانی تربیت‘ اس عمل کی اساس اور غذا ہے نہ کہ اس راستے کی سب سے آخری منزل۔

باطل کے ساتھ جنگ میں انسان کتنی ہی بار لڑکھڑاتا ہے۔ شکستہ حال ہو جاتا ہے۔ ہمت ساتھ چھوڑنے لگتی ہے۔ اس کو اس سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے گرنے سے پہلے سنبھال لے اور بیٹھتے ہوئے کو اٹھا دے۔ بے ہمتی کے حملوں سے اس کا تحفظ کرے.... یہاں۔ وہ روحانی قوت اور توانائی ہمارے سامنے آتی ہے جو ہر بار اس کے ایمانی وجود میں زندگی کی رمق بن کر دوڑ جایا کرے۔ جو اس کو ایمان پر ڈٹ جانے اور جم جانے میں مدد دے اور حق پر استقامت میں اس کی مددگار ہو.... اور اس کیلئے راستے کے اندر چلتے ہوئے قلب کی دُنیا میں روشنیاں کئے رکھے۔

باطل کے ساتھ جنگ میں انسان کسی وقت خوف اور اندیشوں کا شکار ہو جاتا ہے، خصوصاً جب دُنیا دشمنوں سے بھری ہو اور وہ خود کو ان کے مقابلے میں تنہا پائے یا پھر اپنے ساتھ کھڑے ہوؤں کو اپنے ہی جیسا مستضعف اور بے بس پائے جو اسے نصرت دینے سے عاجز ہوں.... یہاں وہ روحانی قوت اور توانائی ہمارے سامنے آتی ہے جس کی بدولت یہ خدا کا اُنس پاتا ہے تو پھر اس کا سب خوف اور وحشت چلی جاتی ہے.... جس کی بدولت یہ آخرت کے وہ پکے ہوئے ثمر اسی دُنیا میں دیکھنے لگتا ہے جو اس کی سعی کو ایک نئی مہمیز دے دیں۔

باطل کے ساتھ جنگ میں انسان دنیوی آسائشوں کا فقدان پاتا ہے۔ قبیلہ وخاندان اور دوستوں مددگاروں کی چہل پہل نہیں دیکھتا۔ آرام دہ بستر اور کام و دھن کی لذت کی اس راستے میں چلنے والے کیلئے کوئی ضمانت ہی نہیں۔ انسان کو یہاں یہ سب کمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں یا مل سکتی ہیں۔ زمینی لطف اور مفاد اپنی ایک کشش رکھتے ہیں اور اس کے پاؤں کی زنجیر بننا چاہتے ہیں.... یہاں وہ روحانی توانائی ہمارے سامنے آتی ہے جو زمین کی اس کشش ثقل کے مخالف سمت میں ایک کشش پیدا کرکے اس کے وجود کو ایک خاص توازن دیتی ہے۔ مادی محرومیتوں کے عوض اسے ایک نہایت اعلیٰ جنس کی دولت بخشتی ہے اور اس کے ذریعے یہ سب نقصانات پورے کروا دیتی ہے۔ یہ خدا کی معیت ہے اور خدا کا اس سے خوش ہوجانے کا احساس اور خدا کا وعدہء جنت۔

یہ دراصل ایک ایسا زاد راہ ہے جسے لے کر انسان صحیح سالم راستے کی سب مسافت طے کرلے.... لیکن اگر انسان کو ’بیٹھا‘ ہی رہنا ہے اور راستے کی’مسافت‘ طے ہی نہیں کرنی تو پھر اس ’زاد‘ کی بھی کیا حقیقت!؟

تو کیا یہ روحانی ترقی تنہا اس بات کیلئے کافی ہے کہ اُمت کو اس تبدیلی سے ہمکنار کردے جو اس کو انحطاط کے اس درجہ اور اس کیفیت سے نکال لائے؟

بلاشبہ یہ کچھ افراد کو ضرور آج کی اس تباہ کن سرگردانی سے رہائی دلا سکتی ہے اور ان کے گرد کچھ ایسی شعوری فصیلیں کھڑی کر سکتی ہے جو ان کو کھلی کھلی بربادیوں سے تحفظ دے سکیں مگر اُمت کی سطح پر جو سرگردانی آج پائی جاتی ہے اور معاشرے کی سطح پر جو انحراف اس وقت دیکھا جا سکتا ہے اس کے مقابلے میں یہ بے اثر ہی رہے گی۔ یہ وہ سپاہ تیار نہیں کر رہی جسے یہ جنگ کے میدان میں لے کر اترے اور اپنے جانبازوں کو اس ’تدافع‘ میں شریک کرائے جو کہ ازروائے قرآن فساد سے زمین کے تحفظ کیلئے ایک خدائی سنت ہے:

وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

”اگر ایسا نہ ہوتا کہ اللہ بعض انسانوں کو بعض انسانوں سے دفع کروایا کرے تو زمین کا نظام بگڑ جاتا مگر اللہ دُنیا والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے“۔

******

’جذبات جگانا‘ دعوتی عمل کے اندر بلاشبہ مطلوب ہے۔ ضرورت ہے کہ لوگ جس چیز پر ایمان رکھتے ہوں، اس کیلئے جوش اور غیرت کھائیں اور کاٹھ کی بے جان مورت نہ ہوں جو غضبناک ہونا جانیں اور نہ کسی بڑے سے بڑے واقعے پر ٹس سے مس ہونا۔ ایسے لوگوں کے بل پر ہرگز دعوت نہ پھیل پائے گی چاہے وہ کتنے ہی دیندار اور باشرع کیوں نہ ہوں.... مگر جذبہ وحمیت تنہا وہ چیز نہیں جو آپ کو کسی کنارے پہنچا دے۔ حتی کہ بعید نہیں یہ فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہو۔ کیونکہ جوش عموماً ہوش کی قیمت پہ ہوتا ہے۔ جذبات عموماً وہاں دیکھے گئے ہیں جہاں علم صحیح وراسخ روپوش ہو۔ ’زور‘ عموماً وہاں دیکھنے میں آیا ہے جہاں تجربہ کاری کا فقدان ہو۔ پس جہاں یہ صورتحال ہو وہاں ’جوش وجذبہ‘ اپنے وہ بہت سے خوبصورت امتیاز کھو دیتا ہے جن سے کہ دراصل اس کو مزین رہنا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ’جوش وجذبہ‘ کی خوبیاں باقی نہیں رہتیں بلکہ اس کے نقصان دہ اثرات سامنے آنے لگتے ہیں خصوصاً اگر یہ ’جوش وجذبہ‘ ایک عصبیت اور حزبیت کی صورت دھارنے لگے۔ خواہ یہ عصبیت ایک خاص شخص کیلئے ہو یا خاص جماعت کیلئے یا خاص طبقے اور حزب کیلئے یا کسی خاص نظریے کیلئے یا کسی خاص مذہب ی مکتب فکر کیلئے۔ تب یہ ’جوش وجذبہ‘ آدمی پر وہ سب راستے بند کر دیتا ہے جن سے کوئی نفع بخش دانائی کبھی اس کے در تک راہ پا سکتی ہو۔ تب ضد اور جھگڑے کی نوبت آتی ہے اور بات بات پر الجھنے کی اور اس بحث وجدال کی جو دین کے اندر حد درجہ مذموم ہے۔

اس وقت دینی کام کے میدان میں جو تفرقہ وانتشار اور سلسلہ ہائے مخاصمت دیکھنے میں آرہے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں بن رہنے کا جو رجحان ملاحظہ کیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے ہی کے خلاف تنقید اور تنقیص کے محاذ سرگرم دیکھے جا رہے ہیں.... زیادہ تر اس کی تہہ میں ہمیں جوش وجذبہ کی وہ صورت نظر آتی ہے جو اپنی اصل جگہ چھوڑ بیٹھتی ہے اور اپنی حد سے تجاوز کر جاتی ہے، جس کے تحت آدمی سمجھتا ہے کہ جس چیز پر اس کا اعتقاد ہے وہ مطلق حق ہے اور اس کے ماسوا ہر چیز مطلق باطل!

******

فکری پختگی ہر دور کے اندر ہی دعوت کے اخص الخاص لوازم میں سے ایک ہے۔ البتہ ہمارے اس دور میں تو یہ کسی بھی دور سے بڑھ کر ضروری ہے کیونکہ غموض اور ابہام اور جہالت کی جس دھند نے اسلام کی صورت آج ڈھانپ رکھی ہے اور لوگوں کے نفوس میں اسلام کے اصل حقائق کو روپوش کرا دیا ہے اور جس کے باعث اسلام کو آج اس غربت ثانیہ کے دور کا سامنا ہے.... دھندلاہٹ کی نہ صرف یہ ایک ایسی دبیز اور کثیف تہہ ہے جس کو ہٹانا آسان نہیں بلکہ یہ اس قدر وسیع بھی ہے کہ اس نے اسلام کے ’بعض‘ نقوش نہیں قریب قریب ’سب‘ نقوش چھپا دیے ہیں۔ جس کے باعث آج یہ ضرورت آن ٹھہری ہے کہ اسلام کے اصل حقائق اور مفہومات کی ایک وسیع اور مکمل محیط تفہیم ہی ازسرنو کرائی جائے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے مفہوم سے لے کر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے تقاضوں تک پر لوگوں کے اذہان کو مرکوز کرا کر رکھ دیا جائے۔

لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے سب نواقض پھر سے ایک ایک کرکے پڑھائے جائیں اور یہ سب اسباق بار بار دہرائے جائیں۔ کیونکہ اس اوجھل پن کی زد میں جس قدر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کا مفہوم آیا ہے اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے تقاضے اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے نواقض اس کی زد میں آئے ہیں مفاہیم اسلام کا کوئی اور پہلو اس اوجھل پن کا اس شدت کے ساتھ شکار نہ ہوا ہوگا۔ گو اسلام کے سب کے سب مفہومات ہی برابرکے ضرورت مند ہیں کہ ان کو ذہنوں میں پختہ و راسخ کردیا جائے۔ خواہ وہ عبادت کا درست مفہوم ہو خواہ وہ قضا وقدر کا، خواہ دنیا وآخرت کی سعی کا، خواہ تعمیر ارض کا، خواہ تربیت کامفہوم ہو اور خواہ جہاد کا مفہوم....

ایک طرف اسلام کے یہ مفہومات ہیں جو ذہن وفکر کی پختگی کا ایک زبردست میدان ہیں تو دوسری طرف اُمت کی حالت موجود کی تشخیص کا علم ہے اور ان اسباب کا احاطہ جو اسے اس حالت کو پہنچا دینے کا باعث بنے۔ فہم وفکر کے اس پہلو میں پختگی پیداکئے بغیر بھی ہم قاصر ہی رہیں گے کہ آج دعوتی عمل کیلئے کوئی لائحہ عمل وضع کر سکیں۔ مرض کی گہرائی سے ناواقف رہیں گے تو سطحی تدبیریں ہی کرتے رہیں گے اور علاج کے صحیح ذرائع تک رسائی نہ کر پائیں گے۔ اُمت کا معاملہ آج جس صورتحال سے دوچار ہے بہت کم لوگ ہیں جو اس کی اصل حقیقت کا ادراک رکھتے ہوں۔ بیشتر لوگ اس کے ادراک سے قاصر ہیں بے شک وہ جانتے ہوں کہ اُمت آج اس حالت پر نہیں جس پر اسے ہونا چاہیے اور بے شک وہ یہ بھی مانتے ہوں کہ اس صورتحال کا باعث اُمت کے ایک بڑے طبقے کا اسلام کی حقیقت سے ناآشنا رہنا ہے مگر یہ کہ یہ ’ناآشنائی‘ کس سطح کی ہے اور اس کی گہرائی کہاں تک جاتی ہے، یہ بات چارہ گروں کی اکثریت پر آج مخفی ہے۔ اُمت کا ’اس حالت پر نہ ہونا جس پر اسے دراصل ہونا چاہئے’ ج کس درجے اور کس نوعیت کا ہے اور اس مسئلے کے نازک پن کی کیا کیا جہتیں ہیں، اصل سوال یہ ہے اور اس کا جواب دینے پر یہاں کے اکثر معالج قدر ت نہیں رکھتے!

پھر اس ذہنی وفکری پختگی کا ایک تیسرا پہلو ہے اور وہ ہے دشمن کی پہچان۔ اعداءکے اس کیدومکر اور ان کے منصوبوں کے حجم اور نوعیت اور طریقہ واردات کی بابت بصیرت جو وہ اسلام کو روئے زمین سے مٹا دینے کیلئے اپنائے ہوئے ہیں۔ آج لوگوںکی اکثریت بلکہ داعیوں کی اکثریت واقعات کی ان سب کڑیوں کو ملانے سے قاصر ہے جو اس عالمی اور علاقائی منظرنامے کی اصل تصویر دکھانے کیلئے ملائی جانا ضروری ہیں۔ سازشیں جو نئے سے نئے پینترے بدلتی ہیں اور حیلے ہتھکنڈے ہاتھ کی جس صفائی سے پیش آتے ہیں اکثر لوگ بلکہ اکثر داعی ان کی نوعیت جاننے سے قاصر ہیں بے شک وہ عمومی طور پر یہ جانتے ہی ہوں کہ یہود ونصاریٰ ہمارے دشمن ہیں، اور یہ کہ ’وہ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں سے کبھی نہ رکیں گے‘! صرف یہ جاننا کافی نہیں! بہت سے پھندے جن میں اسلامی جماعتوں کو دھیرے دھیرے غیر محسوس انداز میں کھینچ لایا جاتا ہے اور وہ بہت سے مواقف جن کو اپنانے کی جانب دینی جماعتوں کو ’راہ‘ دکھائی جاتی ہے اور جو کہ دعوت کیلئے بعد ازاں بے حد ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں اس کا سبب داعیوں اور قیادتوں کی وہ لاعلمی ہے جو ان کو دشمن کے حیلہ ومکر کی حقیقت اور نوعیت کی بابت لاحق ہے۔ جبکہ اعدائے اسلام اپنے ذرائع اور وسائل سے کام لے کر اسلام پسندوں کی سب سرگرمیوں سے مطلع رہتے ہیں اور مسلسل پوری دقت کے ساتھ اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں کس کس قسم کی پیش رفت ہو رہی ہے اور کس کس طرح کے افکار اور تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ وہ بڑی ہوشمندی کے ساتھ منصوبے بناتے ہیں اور ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب ’چوٹ‘ پڑتی ہے!

درست ہے کہ اس فکری پختگی کا پیدا کیا جانا آج اس وقت دعوت کے اخص الخاص لوازم میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ ’فکری پختگی“ اکیلی کافی نہیں کہ تحریک کی دُنیا میں کوئی حقیقی تبدیلی لے آئے۔ اس فکری پختگی کا جو کردار ہوگا وہ یہ کہ یہ راسخ عقیدہ کے ہمراہ میدان میں اترے اور ایک ہوشمند تحریک کا زاد راہ بنے۔ ’تحریک‘ کی ضرورت اپنی جگہ برقرار ہے۔ اسے جو کام کرنا ہے وہ یہ تحریک کا راستہ روشن کرے اس میں بصیرت کی جوت جگائے اور راستے کی رکاوٹوں کو اس پر واضح کرے۔ رہا یہ کہ جب یہ ’فکر‘ محض ایک ’ذہنی عمل‘ بن کر رہ جائے اور معلومات کا انبار بن جائے تو پھر یہ ایک ذہنی عیاشی ہے جس کو نفوس کے اندر کوئی ہلچل مچانا ہے اور نہ دُنیائے واقع کے اندر کوئی انقلاب برپا کرنا۔

******

’جہادی تربیت‘ بلاشبہ تحریک کے لوازم میں سے ایک ہے۔ سہل مزاج طبعتیں جو مجاہدانہ جفاکشی کی خوگر نہ ہوں دعوت کا بار نہیں اُٹھا سکتیں۔ ان کانٹوں کے بیچ سے نہیں گزر سکتیں جو دعوت کی راہ میں بچھا دیے جاتے ہیں۔ ان وحشی درندوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتیں جو داعیوں پر خونخوار انداز میں غراتے ہیں اور جب بھی موقعہ ملے ان پر بے دردی سے جھپٹتے ہیں اور ہزار انداز سے ان پر ستم ڈھاتے ہیں۔

مگر یہ مجاہدہ اور جفاکشی کی یہ تربیت اور یہ سخت کوشی اور یہ جرات اقدام تنہا اس بات کیلئے کافی نہیں کہ یہ ایک دعوت کھڑی کردے۔ بلکہ یہ تنہا اس امر کیلئے بھی کافی نہیں کہ یہ دشمنوں سے دعوت کا تحفظ کردے۔ بسا اوقات تو یہ دشمن کو ایک زیادہ بڑی اور زیادہ بہیمانہ کارروائی کرنے پر ابھارتی ہے خصوصاً اس وقت جب اس مجاہدہ اور جرات اقدام میں سیاسی بصیرت اور تحریکی پختگی کی کمی ہو اور جب اس چیز کا فہم نہ پا یا جائے کہ اس کشمکش میں پورا اترنے کیلئے جہد کی نوعیت دراصل ہے کیا۔

سب سے خطرناک بات جو ان تحریکوں سے کسی نہ کسی وقت سرزد ہو جاتی ہے جن کا کل زور جہادی تربیت پر ہی ہوتا ہے یا پھر یہ کہ وہ تربیت کے اس پہلو پر کچھ اس قدر زیادہ مرکوز کراتی ہیں کہ تربیت کے باقی سب پہلو حاشیائی ہو جاتے ہیں.... وہ سب سے خطرناک بات جو ان تحریکوں سے سرزد ہو جاتی ہے یا ہو سکتی ہے وہ یہ کہ یہ ’تصادم‘ کا راستہ اختیار کریں یا پھر یہ کہ ایک غیر محسوس طریقے سے ان کو ’تصادم‘ کی جانب کھینچ لایا جائے جبکہ ’باعث نزاع‘ اور ’موضوع کشمکش‘ ابھی عین نکھر کر سامنے آیا ہی نہ ہو اور جو کہ لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کا بنیادی قضیہ ہے اور جبکہ سبیل المجرمین ابھی واضح ہی نہ ہوا ہو جیسا کہ کتاب اللہ میں بات کی گئی ہے۔ (2) تب اس بات کا موقعہ اٹھا کر دعوت پر ایک کاری ضرب لگائی جاتی ہے اور لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں کہ ’ہوا کیا ہے‘ جبکہ ضروری یہ ہے کہ کشمکش کا عنوان ہرکس وناکس کو معلوم ہو اور کسی کیلئے یہ ’سمجھ سے باہر‘ نہ ہو کہ دو فریقوں میں کس بات پر ٹھنی ہوئی ہے۔ تب ہی طاغوتوں کو ’عوام‘ کو بے وقوف بنانے کا موقعہ ملتا ہے کہ ’ہم اسلام کے خلاف نہیں ’دہشت گردی‘ کے خلاف برسر جنگ ہیں!

******

یہ وہ سب وجوہات ہیں جن کے باعث ہمیں اصرار ہے کہ یہاں ایک ایسے تربیتی عمل کی ضرورت ہے جو اپنی ایک مدھم رفتار میں آگے بڑھے مگر ہو وہ اس قدر وسیع کہ تربیت کے ان سب جوانب پر محیط ہو۔ جو سب سے پہلے وہ ’بنیادی ایمانی جمعیت‘ پیدا کرے جو اس عمل کا نقطہء اساس ہے اور پھر آہستگی مگر پوری جان کے ساتھ ’توسیع جمعیت‘ کرنے پہ لگ جائے۔ اس پورے عمل میں کئی نسلیں بھی لگ جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں!

اصل بات دیکھنے کی یہ ہوگی کہ ’چیز‘ کیسی تیار کی جا رہی ہے اور وہ ہے کتنی ضروری۔

بیماریوں کا وہ پورا مجموعہ جو اس اُمت کے وجود کو لاحق ہو چکا ہے اور جس نے اس کو ’سیل آب کے خس وخاشاک‘ کی نوبت کو پہنچا دیا ہے، اور پھر اس نوبت کو پہنچا دینے کے بعد صدیوں کے دشمن کو ’کھانے کے اس تھال‘ پر ٹوٹ پڑنے کی دعوت دی ہے.... بیماریوں اور روگوں کا یہ پورا مجموعہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ اس کا کچھ سطحی سا علاج کردیا جائے۔ نرا وعظ، محض روحانی تربیت، محض جذبہ جگا دینا، محض فکری پختگی پیدا کرنے رہنا، صرف جہادی تربیت.... ان میں سے کوئی ایک علاج ایسا نہیں جو تنہا اس مریض کو شفایاب کرا لائے۔ ان میں سے جس چیز کو بھی آپ اس انداز میں اختیار کریں گے کہ بس اسی پر زیادہ زور ہو اور اس ڈر سے کہ ’پورا کام‘ تو بہت وقت لے لے گا بس اسی ایک علاج کو ہی فوری نسخہ جان کہ جلد کوئی نتیجہ برآمد کرنے کی کوشش کریں گے.... ہوتا یہی رہے گا کہ آپ ایک مسئلہ سے نکلیں گے تو کسی دوسرے مسئلے سے دوچار ہو جائیں گے!

اس وقت جو کام ہمارے سامنے ہے وہ ہرگز یہ نہیں کہ ایک ٹھیک ٹھیک عمارت کی کہیں کہیں سے بس کچھ مرمت کر لی جائے.... ہمیں جس چیز کا سامنا ہے وہ یہ کہ ایسی عمارت جو قریب تھا کہ ڈھ جائے اس کی بنیاد کو ازسرنو پختہ کردیا جائے۔ ایک ایسی عمارت جس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہوں اس سے اوپر اوپر سے مرمت کا آپ جتنا بھی کام کریں گے وہ بڑی حد تک بے فائدہ رہے گا۔

بات بہت سیدھی ہے....

اس دین کی بنیاد اور اساس لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ہے:

اأَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء

تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (ابراہیم: 25۔24)

سوال صرف ایک ہے۔ بس اسی کا جواب دے دیجئے مگر جواب بہت ضرور اور صریح اور بے لاگ ہونا چاہیے جس میں آپ نے کوئی التباس نہ رہنے دیا ہو۔ سوال صرف اتنا ہے کہ آپ کا یہ معاشرہ ___ الاماشاءاﷲ ___ لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی حقیقت کا فہم اور ادراک بھی آیا رکھتا ہے.... یا نہیں؟؟

اس کا جواب میری نظر میں تو واضح ہے....

عام ’معاشرے‘ اور ’لوگوں‘ کی تو بات چھوڑیں داعیوں کی ایک کثیر تعداد آج ایسی ہے جن پر لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے مفاہیم اور لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے تقاضے واضح نہیں اور گرد کی ایک دبیز تہہ نے ان مفہومات اور ان تقاضوں کو ان سے ڈھانپ رکھا ہے۔ خاص طور پر جہاں تک لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے نواقض کا تعلق ہے کیونکہ یہ داعی خود بھی ارجائی فکر، جس نے کہ عمل کو مسمائے ایمان سے خارج کر رکھا ہے، کے اثرات سے ابھی آزاد نہیں ہو سکے۔

داعیوں کی کثیر تعداد آج ایسی ہے جو ابھی یہ تعین نہیں کر پائی کہ یہ جسے ’معاشرہ‘ یا ’عوام‘ کہتے ہیں اس کو راہ راست پہ لے آنے کا چیلنج ہے کس نوعیت اور حجم کا اور یہ کہ اسلام سے اس کی دوری ہے کس سطح کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان تحریکوں نے ’مجمع‘ اکٹھا کرنے کی جلدی کی اور ان کو لے کر ’جادہء پیماء ہو جانے میں عجلت سے کام لیا جبکہ ابھی ان داعیوں اور تحریکوں پر وہ مسئلہ اور اس مسئلہ کی نوعیت بھی واضح ہی نہ ہوئی تھی جس کی بنیاد پر ان معاشروں کو دعوت دی جانا تھی اور جس پر ان کو اکٹھا کیا جانا اور ساتھ چلایا جانا تھا!

یہ وجہ ہے جو ہمیں اصرار ہے کہ اس معاملہ کا نقطہء ابتداء’بنیادی ایمانی جمعیت‘ کی تیاری ہے عین اس نہج پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وہ ٹھوس بنیادی جمعیت ابتدا کے اندر تیار کی تھی، بے شک ہم یہ جانتے ہیں یہ ناممکن ہے کہ آج تیار کی جانے والی ایسی کوئی جمعیت اس معیار کو پہنچے جس کو رسول اللہ کی تیار کردہ اولین جمعیت پہنچی تھی! بلکہ یہ تو مطلوب بھی نہیں کہ بعد کی کوئی نسل اسلام کی اس اولین نسل کے معیار کو پہنچے۔ معیار وہی ہو، یہ شرط نہیں، البتہ نہج کی بات اور ہے۔ نہج وہی ہو، یہ شرط ہے۔ ’معیار‘ بدلتا رہنے والی چیز ہے مگر ’منہج‘ ایک آفاقی چیز ہے۔ اس کو بہرحال نہیں بدلنا۔ اس ’منہج‘ کی بنیاد پر ’تربیت‘ دی جانا ایک آفاقی ضرورت ہے اس کو بہرحال نہیں بدلنا، چاہے اس ’نہج‘ پر تربیت دینے اور تربیت لینے والے پھر جس بھی ’معیار‘ کو پہنچیں ”اور ہر ایک ہی کیلئے ان کے عمل کے بقدر درجات ہیں“۔  

اب جب اس ٹھوس بنیادی جمعیت کی تیاری ہوگی تو اس کا پہلا سبق لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ہوگا.... علم میں، عمل میں اور اس کے تقاضوں کی بنیاد پر تربیت پانے میں۔ یہ سبق پڑھی ہوئی اور اس کی بنیاد پر تیاری پانے والی ’اساسی جمعیت‘ پھر ’توسیع شدہ‘ جمعیت کو وجود میں لائے گی اور اس کو ساتھ لے کر چلے گی.... اُس وقت جب ’عوام‘ کو دعوت کے گردا گرد اکٹھا کرکے ’چل پڑنے‘ کا وقت آئے گا۔

(باقی آئندہ)

 

******

(1) ترجمہ از تفہیم القرآن

(2) سبیل المجرمین کے واضح ہو جانے کا مبحث ملاحظہ فرمائیے اس کتاب کی فصل ”اسلام کی پہلی پود کیسے وجود میں آئی“ کے تحت (ایقاظ جون تا اگست 2

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز