عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Monday, April 29,2024 | 1445, شَوّال 19
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
EmanKaSabaq آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
جاہل دیندار
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

وئے تم دوست جس کے!

 

جاہل دیندار

 

استفادہ از الفوائد، مؤلفہ ابن القیم

جاہل دیندار، کہ اللہ کی بابت کوئی علم، نہ اُس کے اسماءوالقاب سے واقفیت، نہ اس کی صفات سے آگاہی.. علم کے نام پر کچھ سیکھا تو صفات کی تعطیل، یعنی نری جہالت.. اور اس پر ظلم یہ کہ لوگوں کو خدا کا پتہ دینے بیٹھے ہیں..!

مخلوق کے دلوں میں خدا کے لئے نفرت پیدا کرنا ان دین داروں کا گویا صبح شام کا مشغلہ ہے۔ محبت، چاہت اور طلب کے جتنے راستے خدا تک جاتے ہیں، اپنی لاعلمی اور جہالت سے یہ ان سب راستوں کو مسدود کرنے میں لگے ہیں۔ خدا کی اطاعت اور فرماں برداری کی جو اصل روح ہے اور خدا کی جانب بڑھنے کا جو اصل لطف ہے اس کا ستیاناس کر کے رکھ دینا ان کی کل کارگزاری بن گئی ہے۔ عقیدے کی وہ جاہلانہ تشریحات کریں گے اور کلام کے وہ مبحث چھیڑیں گے کہ بندگی کے سب نفیس جذبے اور عبدیت کی سب بے ساختگی تباہ ہو کر رہ جائے۔

اس کی مثالیں یوں تو ختم ہونے میں نہیں آتیں، مگر ہم یہاں صرف ایک جہالت کا ذکر کریں گے....

عام لوگ جوکہ ضعیف نفوس کے مالک ہوتے ہیں اور بے چارے دین سے بھی لاعلم، جب وہ دین کی طرف آتے ہیں، تو کچھ جاہل، جن کو زعم ہے کہ یہ خدا سے واقف ہیں، عوام الناس کو خدا کا کچھ اس انداز کا تعارف کرائیں گے:

’ارے کہاں بھائی، اُس کا کچھ پتہ نہیں، خوش ہوجائے تو کسی بھی بات سے خوش ہوجائے، پکڑ لے تو کسی بھی بات پر پکڑ لے! ٹھیک ہے عبادت کرو ، مگر بھروسہ کسی چیز کا نہیں، بڑے بڑے عبادت گزار نمازی پرہیزی یہاں ہو گزرے، کہ کبھی کوئی ایک نیکی نہ چھوٹی ہوگی، صبح شام جب دیکھو نیک اعمال میں مصروف، مگر پکڑے گئے تو پکڑے گئے! آدمی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ خدا کے داؤ سے بے خوف ہوجانا (أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللّهِ فَلاَ ۔ الاعراف: 99) تو ویسے بھی از روئے قرآن مذموم ہے! کوئی پتہ نہیں کس دن تقدیر اپنا کام دکھائے اور ایک متقی جس کی ساری زندگی محراب کے اندر عبادت میں گزری، اگلے دن دیکھو تو شراب خانے میں جام تھام کر بیٹھا ہو، توحید کا ایک علمبردار کل کو مشرک بنا ہوا ہو، جو آج تسبیح کرتا نہیں تھکتا کل ناچ گانے میں مست ہو! خدا کسی کے دل کو ایک دم میں پلٹ دے اور وہ قسمت کا مارا خالص ایمان سے صریح کفر میں جا پڑے! اپنے اس انداز فکر پر یہ کچھ نصوص اور آثار بھی لے کر آئیں گے جن میں سے کئی ایک مستند ہوں گے مگر ان نصوص کو انہوں نے سمجھا نہایت غلط معنیٰ میں ہو گا، جبکہ کچھ ایسے نصوص اور آثار لائیں گے جو ویسے ہی غلط اور بے بنیاد ہیں اور جن کی معصوم ﷺ سے نسبت ہی ثابت نہیں۔

ظالم سمجھتے ہیں کہ توحید اور تقدیر پر ایمان رکھنا خدا کی قوت اور قہر کی بابت کچھ اسی انداز کا اعتقاد رکھنا ہے! اپنے اس مفہوم کے ثبوت پر یہ آیات پڑھ پڑھ کر سنائیں گے اور ’دلائل‘ دیں گے:

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (الاَنبیاء: 23)

”خدا جو کرے اس کیلئے جوابدہ نہیں، اور وہ (مخلوقات) جواب دہ ہیں“

أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللّهِ فَلاَ يَأْمَنُ مَكْرَ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (ال اَعراف: 99)

”کیا یہ لوگ اللہ کے داؤ سے نڈر ہوگئے ہیں؟ (سن لو کہ) اللہ کے داؤ سے وہی لوگ نڈر ہوتے ہیں جو خسارہ پانے والے ہیں “

وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (ال اَنفال: 24)

اور جان رکھو، اللہ بندے اور اس کے دل کے مابین حائل ہوجاتا ہے“

پھر ابلیس کا قصہ اِس موضوع پر کچھ اس انداز سے سنائیں گے کہ ہزاروں سال وہ فرشتوں کے سر کا تاج بنا رہا تھا، آسمان کا کوئی گوشہ اس نے چھوڑاور نہ زمین کا کوئی چپہ جہاں اس نے سجدہ یا رکوع نہ کر رکھا ہو، کہ اچانک اس پر تقدیر کی قلم چلی اور ایک لمحے میں وہ پرہیزگار سے بدکار جا بنا!

حتیٰ کہ ان کے بعض ’پہنچے ہوئے‘ خدا سے یوں ڈرائیں گے، معاذ اللہ، جیسے شیر سے ڈرایا جاتا ہے، کہ جو آپ پر حملہ آور ہوتا ہے تو کچھ اس وجہ سے نہیں کہ آپ سے اس کے حق میں کوئی قصور ہوا ہے!

کبھی یہ نبی ﷺ کی اس حدیث کا حوالہ دیں گے، کہ: ’تم میں سے کوئی شخص اہل جنت کے سے اعمال کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے مابین ایک ہاتھ کا فاصلہ ہوتا ہے، تب لکھا ہوا غالب آجاتا ہے، تو وہ اہل دوزخ کے سے اعمال کرنے لگتا ہے ، پھر دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے‘!

کبھی یہ اپنی اس کوتاہ فہمی پر سلف کا یہ قول روایت کریں گے کہ: ’کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے: اللہ کے داؤ سے بے خوف ہوجانا اور اس کی رحمت سے مایوس ہوجانا‘۔ اور یہ کہ امام احمد نے عون بن عبد اللہ یا کسی اور بزرگ سے بیان کیا کہ انہوں نے کسی شخص کو دعا کرتے سنا: ’یا اللہ مجھے اپنے داؤ سے بے خوف نہ کر‘ تو انہوں نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا، دعا یوں نہیں بلکہ یوں کرو: یا اللہ مجھے ان لوگوں میں سے نہ کر جو تیرے داؤ سے بے خوف ہو گئے“۔

ان کی یہ سب گمراہی جس ایک باطل بنیاد پہ سہارا کر رہی ہوتی ہے وہ ہے: ان ظالموں کا خدا کے ہاں حجتِ بالغہ اور حکمتِ لامتناہی پائے جانے کا انکار کر بیٹھنا یا پھر خدا کے لطف و کرم اور عدل و رحمت اور حکمت و دانائی والی صفت پر اس انداز سے زور نہ دینا جس انداز سے یہ جاہل ’تقدیر کے کرنے‘ پر زور دیے رکھتے ہیں۔ مخلوقات میں ہدایت اور گمراہی پانے کا کوئی ایسا واقعہ ہوا تو ان کے خیال میں گویا نہ تو اس کی کوئی علت ہوتی ہے اور نہ اس کے کچھ نہایت معقول اسباب! گویا اللہ کے کام (معاذ اللہ) نہ تو دانائی اور خرد سے پر ہوتے ہیں اور نہ کسی حقیقی سبب سے انکا کوئی تعلق، بلکہ گویا وہ محض اپنی ’مشیئت‘ سے فیصلے کر ڈالتا ہے جن کے پیچھے نہ تو نہایت عظیم حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں، نہ اس کی کوئی نہایت زبردست علت پائی گئی ہوتی ہے اور نہ کوئی سبب ہی ہوتا ہے!!! اور یہ کہ اللہ جو کرتا ہے (معاذ اللہ) بس یونہی کر دیتا ہے، بندے کی طرف سے ہرگز اس کی کوئی وجہ فراہم کی گئی ہوتی ہے اور نہ کوئی بنیاد! اور یہ کہ وہ چاہے تو اہل اطاعت کو بدترین عذاب میں پہنچا دے اور اپنے دشمنوں اور اہل معصیت کو بہترین ثواب پہ لے جائے یا اس سے برعکس کرے، اور یہ کہ ہر دو امر اس کے حساب سے معاذ اللہ ایک برابر ہیں!

اب جب عمل کرنے والا یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قاعدہ اور اصول یہاں پایا ہی نہیں جاتا، اور معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ’خدا کے داؤ‘ کا کوئی بھروسہ ہی نہیں، تو پھر اُس کا تقرب پا رکھنے کا کیا اعتبار؟! اور اُس کی اطاعت وفرماں بردرای اور اس کے احکامات کی اتباع پہ اعتماد کی کہاں گنجائش؟! پھر تو یہ تھوڑا ہی وقت ہے، کیونکہ آگے تو معاملے کا کوئی سر پیر ہی نہیں! معاذ اللہ آخرت سے تو پھر یہ دنیا ہی بھلی، جس کے کوئی اصول تو ہیں! یہاں آپ بلندی سے چھلانگ لگائیں تو نیچے آگریں گے، آگ میں ہاتھ ڈالیں گے تو اس کو جلا بیٹھیں گے، مگر آخرت کا تو معاملہ ہی اور ہے، کیا پتہ کریں کچھ اور ہو جائے کچھ! ہم اپنی سب خواہشات بھی چھوڑ دیں، سب مزوں کو خیرباد بھی کہہ دیں، عبادت میں صبح شام جتے بھی رہیں، مگر بھروسہ ہرگز نہیں کہ وہ ہمارے ایمان کو ہی ایک دم کوئی ایسا پلٹا دے کہ وہ کسی دن کفر بنا ہوا ہو! (معاذ اللہ) ہماری توحید کسی دن شرک بنی پڑی ہو، اطاعت معصیت بن گئی ہو، نیکوکاری بدکاری میں بدل گئی ہو.... یوں دنیا تھی سو گئی اور آخرت ہے سو وہ برباد!

عوام الناس کے اذہان میں جب یہ طرز فکر جاگزیں ہو جائے گا، اور یہیں سے ان کی ایک ’دینی نفسیات‘ تشکیل پائے گی تو بھلا ہوگا کیا؟ جب ان کو خدا کے احکامات سنائے جائیں اور حرام خواہشوں اور لذتوں سے دستکش رہنے کی بات کی جائے گی تو ان کا حال اس بچے کا سا ہوگا جس کا باپ اس کو مکتب بھیجتا ہے تو ساتھ میں وہاں کے استاد کا تعارف کچھ یوں کراتا ہے: یہ استاد ہے تو بہت لائق، پر کچھ پتہ نہیں تم بہت اچھا لکھ کر اؤ، اور سبق یاد کرنے کا حق ادا کردو، اور مکتب میں اس کے ہر ہر حکم کی تعمیل بھی کرتے رہو، مگر وہ پھر کوئی ایسی حجت نکال لے کہ تمہیں نہایت سخت سزا مل جائے! اور یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تم حد درجہ نالائقی دکھاؤ، کوئی ایک سبق یاد کر کے نہ دو، اور کسی ایک حکم کی تعمیل نہ کرو مگر اس سے زبردست تحسین اور انعام پاکر گھر لوٹو! اب اس بچے کا یہ حال ہوگا کہ ماسٹر اس کو جب بھی تنبیہ کرے گا کہ فلاں سبق یاد نہ ہوا یا فلاں کام نہ کیا گیا یا فلاں حکم نہ مانا گیا تو یہ اور یہ سزا ملے گی، یا یہ کہ فلاں اچھا کام کرنے پہ یہ اور یہ انعام دیا جائے گا.... تب بچہ نہ تو اس کی تنبیہ کو سنجیدگی سے لے گا اور نہ اس کے وعدۂ انعام کو، آخر اصول جو کوئی نہیں! ایسا بچہ کیا خاک پڑھ کر اور سدھر کر آئے گا؟

اب جب یہ بچہ کچھ بڑا ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل ہوتا ہے اور کسی ملازمت پر لگنے کی نوبت آتی ہے، تو بزرگوار اس کو حاکم وقت کا تعارف کچھ اس انداز سے کراتے ہیں: ہمارے شہر کا یہ جو حاکم ہے، کچھ نہیں کہہ سکتے یہ چور کو کسی دن جیل سے نکالے اور امیر وزیر کے کسی منصب پر فائز کردے، اور کسی نہایت محنتی، ایماندار اور فرض شناس اہلکار کو قیدخانے میں ڈال دے، بلکہ تو یہ پتہ نہیں اس کو سولی پر لٹکا دے! اب یہ نوجوان کیوں نہ حاکم سے بدک کھڑا ہو؟ اس کو نہ حاکم کے کسی وعدے پر بھروسہ ہوگا اور نہ کسی تنبیہ اور وعید کا یقین۔ یہ اپنے امیر سے محبت تو خیر کر ہی کیا پائے گا، ڈرے گا تو ویسے ہی جیسے ایک ظالم سے ڈر کر رہا جاتا ہے جو نوازنے پر آئے تو ایک گناہگار کو نواز دے اور پکڑنے پر آئے تو ایک بے گناہ کو پکڑ لے!

اب ایسا شخص کیونکر یہ اعتقاد رکھے کہ نیک اعمال لازماً نفع بخش ہیں اور برے اعمال پکڑوا کر رہتے ہیں؟ اب نہ یہ نیکی کے اندر اطمینان پائے اور نہ شر سے اس کو وحشت ہو۔ کیا خدا سے خلقت کو بھگانے اور اُس کی عبادت سے نفرت دلانے میں اس سے بڑھ کر کوئی چیز ہوسکتی ہے؟ بخدا سب ملحد اور زندیق اکٹھے ہو کر بھی انسانوں کو دین سے متنفر کرنے اور خدا سے وحشت دلانے میں وہ کارکردگی نہ دکھا سکیں گے جو یہ دیندار دکھا لیتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ایسا کر کے یہ لوگوں کو توحید اور تقدیر پر ایمان دلاتے ہیں، اور تقدیر کے منکر بدعتیوں کا رد کر کے دین کی نصرت کا حق ادا کر رہے ہیں! بخدا، ایک عقلمند دشمن ایک جاہل دوست کی نسبت کہیں وارے کا ہے۔ خدا کی سب کتابیں اور سب رسول اِن کے باطل ہونے پر صاف شہادت ہیں، خصوصاً خدا کی آخری کتاب قرآن مجید۔

دین کے یہ داعی، لوگوں کو دین پر لانے میں اگر وہ منہج اختیار کرتے جو اللہ نے اور اس کے رسول نے لوگوں کے اندر دین کی حقیقت جاگزیں کرانے کیلئے اختیار کیا تو کیا ہی بہتر ہوتا۔ اصلاح کی ایک ایسی صورت سامنے آتی کہ فساد نام کو نہ رہتا....

اللہ رب العزت نے قرآن میں جگہ جگہ یہ حقیقت واضح فرمائی، جبکہ اس کا قول سچ ہے اور اُس کا وعدہ وفا ہو کر رہنے والا ہے، کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا معاملہ لوگوں کے اپنے ہی کسب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور یہ کہ وہ ان کو ان کے اپنے اعمال ہی کی جزا دینے والا ہے، نہ کہ محض اپنے کسی فعل کی بنا پر معاذ اللہ ان کو گمراہی میں ڈالنے والا۔ اور یہ کہ نیکوکار کو اس کے ہاں کوئی ڈر ہونا ہی نہ چاہیے کہ اس پر ظلم ہوگا، یا اس کا کوئی حق مارا جائے گا، یا حتیٰ کہ اس میں کوئی کمی کر دی جائے گی، یا کسی بھی قسم کی کوئی زیادتی ہوگی۔ (قرآن کے اندر اس سیاق میں مختلف جگہوں پہ بدل بدل کر چار الفاظ ایسی کسی بھی زیادتی کے امکان کی نفی کیلئے آئے: بندے کو اپنے رب کے ہاں نہ ’ظلم‘ کا ڈر، نہ ’ہَضم‘ کا، نہ ’بَخس‘ کا اور نہ ’رَہَق‘ کا)۔ خدا کی کتاب بار بار بتاتی ہی یہ ہے کہ انسانوں کا مالک کسی نیکی کرنے والے کا کوئی بھی عمل ضائع نہ کرے گا، اور یہ کہ ایک ذرہ بھی خیر کا ہوگا تو وہ ہرگز ضائع جانے نہ دیا جائے گا۔ کیسا کیسا خوبصورت بیان قرآن کے اندر آیا:

إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا (النساء: 40)

”اللہ ایک ذرہ برابر ظلم کرنے والا نہیں۔ اگر نیکی (کی) ہو گی، تو وہ اُس کو کئی گنا بڑھا دینے والا ہے اور خود اپنے ہاں سے اجرِ عظیم بخش دینے والا“!!!

اُس کی کتاب بار بار بتلاتی ہے کہ رائی برابر کوئی نیکی اس کے ہاں پوشیدہ نہ رہ پائے گی بلکہ میزان میں تلنے کیلئے سامنے لا رکھی جائے گی۔ اور یہ کہ کسی نے برائی کی ہے تو اس کا بدلہ صرف ایک مثل ہوگا، بلکہ اگر وہ توبہ کر لے اور ندامت اور استغفار کی راہ اختیار کرے ، تو اس ایک مثل کو بھی وہ کالعدم کر دے گا۔ اِس کے دامن میں کچھ نیکیاں ہیں تو اِس کی اس برائی کو وہ اِس کی نیکیوں کے بدلے میں ہی ختم کر ڈالے گا۔ کسی وقت ان مصائب کو ہی جو اس پر دنیا میں آئے ہوں، اس کی برائی کا کفارہ بنا دے گا۔ البتہ اگر اس نے نیکی کی ہے تو اس کا بدلہ وہ مہربان ایک مثل نہیں، پورے دس مثل دے گا۔ بلکہ بعید نہیں سات سو مثل تک بڑھا دے، بلکہ تو بڑھاتا ہی جائے!

پھر خدا کی کتاب اور خدا کا رسول پروردگارِ عالم کا تعارف کراتا ہے کہ وہ ذات ہے جو برائی کا شکار ہوجانے والوں کو سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ مردہ دلوں کو زندگی دیتی ہے۔ گناہگار وں کی توبہ قبول فرماتی ہے۔ در پہ آئے کو، چاہے وہ گناہوں کے پہاڑ اٹھا لایا ہو، بخشے بغیر لوٹانا اس کی شان نہیں۔ گم گشتہ راہ کو، جب وہ ہدایت کا سوال کرلے، راہ دکھانا اس کی صفت ہے۔ تائب کو باریاب کرنا اس کے دربار کا آئین ہے۔ اس سے بھاگا ہوا خواہ کسی حد تک کیوں نہ چلا گیا ہو، اس کے پاس لوٹ کر آئے تو خیر مقدم کے سوا کسی اور سلوک کی توقع نہ ہونی چاہیے۔ وہی ہے جو جاہلوں کو علم دے۔ بے شعوروں کو بصیرت دے غافلوں کو یاد دہانی کرائے اور قلوب کی زندگی کیلئے زمین پر کتابوں کا نزول اور رسولوں کی بعثت فرمائے۔ پھر جب وہ کسی کو عذاب بھی دے تو اس کے بغاوت کی ایک خاص حد کو پہنچ لینے کے بعد اور خود سری کے حد سے بڑھ جانے کے بعد، اور وہ بھی تب جب اپنی جانب لوٹ آنے اور اپنی خدائی اور کبریائی کا اعتراف کر لینے کی باقاعدہ دعوت وہ بندے کو پہنچا چکا ہو، بلکہ بار بار اس کو یاد دہانی کرا چکا ہو۔ پھر جب بندہ یہ امکان ہی ختم کر دے کہ وہ اُس کی ربوبیت اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کر کے دے گا اور اس کی تعظیم اور بندگی کا راستہ اختیار کرنے پر تیار ہوگا.. تب جا کر وہ اس کے کفر اور اس کی سرکشی اور خود سری کی کچھ سزا اس پر وارد کر دیتا ہے۔ یہاں تک بتایا کہ خدا بندے کا عذر ختم کر دینے میں اس حد تک جاتا ہے کہ دوزخی عذاب لیتے ہوئے صاف تسلیم کریں گے کہ سب قصور انہی کا تھا:

فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ (الملک: 11)

”پس وہ اپنے گناہ کااقرار کریں گے سو دوزخیوں کے لئے (رحمتِ الٰہی سے) دُوری ہے“

حتیٰ کہ دنیا میں کسی قوم پر اس کا عذاب آیا تو اس کی تصویر ہمیں یوں دکھائی گئی:

قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ (الاَنبیاء: 14- 15)

”کہنے لگے ہائے شامت! بیشک ہم ظالم تھے۔ وہ اسی طرح پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو (کھیتی کی طرح ) کاٹ کر (اور آگ کی طرح) بجھا کر ڈھیر کر دیا“

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: یہ جہنم میں جائیں گے، جبکہ خدا کے عدل کی تعریف ان کے دلوں میں ہوگی، کہ وہ اُس پر کوئی حجت نہ رکھ پائے اور نہ ہی وہ اپنا کوئی جواز سامنے لاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں واؤ، حالیہ ہے:

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ  (ال اَنعام: 45)

”تو پھر ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جبکہ سب تعریف اللہ رب العالمین ہی کےلئے ہے“

یعنی ان کی جڑ کاٹ دی گئی اس حال میں کہ خدا اس پر لائقِ تعریف و ستائش ہی ٹھہرا۔ یوں جب وہ کسی کی جڑ کاٹے تو اس کا ایسا کرنا درحقیقت اُس کی تعریف اور اُس کے اِس پر سراہے جانے کا ہی موجب ہوگا کہ حکمت اور دانائی کا تقاضا ہی درحقیقت یہ تھا اور عدل تھا ہی یہ کہ وہ اپنی عقوبت عین وہاں نازل کرے جہاں اس کے نازل ہونے کا حق ہے۔ یوں کہ جیسا کسی مجرم کی بابت کہا جاتا ہے: یہ سزا اس شخص کو ہی ملنی چاہیے تھی اور یہ شخص اس سزا کا ہی حقدار تھا۔

یہی وجہ ہے سورۂ زمر کے آخری حصہ میں، جہاں خوش بختوں اور بد بختوں ہر دو کے انجام کی نہایت اثر انگیز تصویر کھینچ کر دکھا دی گئی، یوں کہ دونوں فریق اپنے اپنے ٹھکانے جا پہنچے، تو بات یہاں جا کر ختم ہوئی:

وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الزمر: 75)

”اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا اور کہہ دیا گیا ”تعریف اللہ ہر طرح کی اللہ ہی کو سزاوار ہے جو مالک ہے سب جہانوں کا“

یہاں قِيلَ یعنی مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا، جس کے اندر فاعل مذکور نہیں ہوتا.. یہ بتانے کیلئے کہ پوری کائنات اور سب مخلوقات نے یک زبان ہو کر خدا کا فیصلہ سن کر کہا: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ  ”تعریف اور ستائش اللہ کی جو مالک ہے سب جہانوں کا“!

اسی مقام کی یہ آیت، جو اس سے ذرا ہی پہلے گزری ہے:

قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ (الزمر: 72)

” کہہ دیا جائے گا: داخل ہوجاؤ دوزخ کے دروازوں میں، ہمیشہ اس میں رہنے کے لئے، تکبر کرنے والوں کا بُرا ٹھکانہ ہے“

یہاں بھی  قِيلَ کا لفظ آیا۔ گویا پوری کائنات ان بد بختوں کو کہہ رہی ہے کہ جاؤ جہنم میں۔ حتیٰ کہ ان کے اعضاءان کو یہی بات کہہ رہے ہیں، ان کی روحیں ان کو کہہ رہی ہیں، ان کے پیروں تلے کی زمین، سر اوپر کا آسمان سب کچھ گواہی دے رہا ہے کہ وہ لائق ہی اسی کے تھے۔

جہاں اس نے اپنی کتاب میں کسی قوم کی ہلاکت کا قصہ سنایا وہیں کچھ لوگوں کے بچ جانے کی خبر بھی مذکور کر دی، اور یہ بات بھی ذکر کئے بغیر نہ چھوڑی کہ ہر دو فریق کے ساتھ اس قدر مختلف برتاؤ رکھا گیا تو آخر کیوں؟ حالانکہ وہ چاہتا تو محض اپنی مشیئت سے سب کو ہی ہلاک کر ڈالتا! نوحؑ نے جب پانی میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے لخت جگر کی نجات کیلئے فریاد کی تو اُس ذات کبریائی نے اس درخواست کو صاف رد کر دیا اور بغیر کسی ادنیٰ تاخیر کے یہ بتایا کہ اس فرزند کے ”عمل غیر صالح“ ہیں، یہ نہیں کہا اس کو ہلاک کر ڈالنا نری میری مرضی اور مشیئت ہے جس کا اس کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں!

پھر اُس نے ان کے لئے جو اُس کی راہوں کو پانے کیلئے کوشش اور تگ ودو کریں، اور بھی ہدایت دینے کی ضمانت اٹھائی:وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:69)۔ کیا اُس کی اِس بات سے واضح نہیں کہ خدا کا کسی کو ہدایت نصیب فرمانا دراصل انسانی جہد کا ہی خدائی صلہ ہے؟

اسی طرح جو لوگ تقویٰ کی راہ اپنائیں اور اُس کی خوشنودی کے اسباب ڈھونڈیں، ان کیلئے اور بھی ہدایت کی ضمانت اٹھائی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ  (محمد: 17)

اُس نے صاف بتا دیا کہ وہ کس طرح کے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے:وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ۔۔ (البقرۃ: 26-27) پس وہ انہی لوگوں کو گمراہ کرے گا جو ہیں ہی بدکار، جو خدا کے عہد کو اس کے میثاق کے بعد توڑ دینے پر اتر آئیں۔ اُس نے بے شمار انداز میں واضح فرمایا کہ وہ انہی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو گمراہی کو ہی ترجیح دیں اور اسی کو ہدایت پر مقدم جانیں۔ تب پھر وہ ضرور ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔ ایسا شخص جس کو اُس کی ہدایت پہنچی اور بار بار اس کے کان میں ڈالی گئی مگر اس نے اپنی اس گمراہی کی حالت کو ہی اپنے دل سے لگا کر رکھا اور خدا کی ہدایت پر ایمان لانا قبول ہی نہ کیا، بلکہ الٹا اس کو رد کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا اور خدا کی اس بات کو ہی غلط اور باطل ثابت کرنے اور اس کو رسوا کرنے پر کمر بستہ ہوگیا تو ایسے شخص کا ضرور پھر وہ دل ہی اوندھا کر دیتا ہے اور اس کی آنکھیں حق کیلئے اندھی کر دیتا ہے، جوکہ اُس کی جانب سے اس بات کی سزا ہوتی ہے کہ وہ یہ جان لینے کے بعد کہ یہ جہانوں کے مالک کی طرف سے ہے، اس کے ساتھ دشمنی کرنے پر اتر آیا تھا۔

اُس نے یہ تک واضح کیا کہ اس صورتحال میں بھی کہ جس کو گمراہی اور بدبختی کہا جاتا ہے، وہ ان نفوس میں خیر کی کوئی رمق پائے تو وہ ان کے کان میں نیکی اور ہدایت کی بات ضرور کسی نہ کسی طرح ڈال دے: وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأسْمَعَهُمْ  (الانفال: 23) مگر وہ جانتا ہے اور صرف وہی جان سکتا ہے ان کے یہ دل ہدایت کے لائق ہیں ہی نہیں۔

رسولوں کو مبعوث فرمانے اور کتابیں اور شریعتیں اتارنے کا یہ سارا سلسلہ خدا نے ان کے عذر ختم کرنے کیلئے ہی تو جاری کیا اور اپنی حجت واضح کر دینے کیلئے ہی تو قائم فرمایا! ہدایت کے اس قدر اسباب مہیا فرمائے کہ کسی کے پاس کہنے کو کچھ رہ ہی نہ جائے۔ قرآن میں کس طرح بار بار اور پیرائے بدل بدل کر یہ واضح فرمایا کہ وہ نہیں گمراہ کرتا مگر بدکاروں اور ظالموں کو ہی۔ اور یہ کہ وہ ٹھپہ نہیں لگاتا مگر حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ہی۔ اور یہ کہ وہ فتنہ کے اندر اوندھا کر کے نہیں پھینکتا مگر منافقت کی راہ اختیار کرلینے والوں کو ہی۔ اور یہ کہ کافروں کے دلوں پر جو زنگ چڑھتا ہے وہ ان کے اپنے ہی کسب اور کمائی کی بدلی ہوئی ایک صورت ہے (كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ۔۔ المطففین: 14) یعنی ان کے جو کرتوت ہیں وہ ہی زنگ بن کر ان کے دلوں کے اوپر جم گئے ہیں۔ اپنے دشمن یہود کے بارے میں اُس نے واضح فرمایا: وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً (النساء: 155) یہ ٹھپہ ان کے دلوں پر خدا کی طرف سے لگا ہے، مگر بِكُفْرِهِمْ ’ان کے اپنے ہی کفر کے سبب‘۔ اور جگہ واضح فرمایاکہ اُس کا یہ طریقہ نہیں کہ جب وہ کسی کو ہدایت دے دے تو پھر ان کو گمراہی دے تاآنکہ وہ ان پر آخری حد تک واضح نہ فرما چکا ہو کہ انہیں کس کس چیز سے حد درجہ بچ کر رہناہے:وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ (التوبہ: 115) یعنی وہ اُس کی جانب سے واضح کر دیے جانے کے بعد پھر اپنے فیصلے اور اختیار سے بدبختی اور ضلالت کو ہی ہدایت کی بجائے اپنے لئے اختیار کر لے اور خدا کو صاف مسترد کرتے ہوئے شیطان کو ہی اپنی دوستی اور کارسازی کیلئے چن لے تو وہ بھی پھر اپنے دشمن کے دوست کو اپنی دوستی اور ولایت (کارسازی) سے بے دخل کر دیتا ہے۔

ایسے بے شمار مقامات اور حوالے جو قرآن میں بوضاحت بیان ہوئے کیا یہ بتانے کیلئے کافی نہیں کہ بندے کو خدا کی جانب سے گمراہی میں دھکیل دیا جانا خود بندے کے ہی کسب اور فعل کا نتیجہ ہوتا ہے نہ کہ ابتداءً اس کا سبب؟ اور یہ کہ خدا کا ایسا کرنا محض کسی بات کی جزا ہوتی ہے، جس سے آپ سے آپ یہ واضح ہے کہ اس کی نوبت بعد میں آتی ہے، جبکہ پہل بندے ہی کی جانب سے ہوچکی ہوتی ہے؟ بلکہ بندے کو بدبختی سے بچ رہنے کے کافی سے زیادہ مواقع تک دیے جا چکے ہوتے ہیں؟

رہ گیا آیت أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللّهِ ”کیا یہ لوگ اللہ کے داؤ سے نڈر ہوگئے ہیں؟“ (الاَعراف: 99) سے ان لوگوں کا اپنے اس خیال پر استدلال کرنا.. تو اس آیت کا سیاق ہی درحقیقت کچھ اور ہے۔ ’مَکر‘ کا یہ لفظ اللہ رب العزت کیلئے علیٰ وجہ الجزاءآیا ہے، یعنی ان ظالموں کے مکر کا مکر سے جواب دینا جو اللہ کے ولیوں اور رسولوں کے خلاف داؤ چلتے ہیں۔ وہ اللہ کے حزب کے خلاف ایک گھناؤنا داؤ چلتے ہیں تو اللہ ان کے خلاف نہایت حق داؤ برتتا ہے۔ پس ’داؤ‘ کا لفظ دشمنان خدا کے لئے نہایت قبیح معنیٰ میں آیا ہے اور اللہ ذو الجلال کیلئے نہایت خوب معنیٰ میں، مگر آیا علی سبیل الجزاءہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف میں یہی بات کی گئی ہے کہ یہ بدبخت جو حق کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے صبح شام نبوتوں اور رسالتوں کے خلاف چالیں چلتے ہیں کیا یونہی بڑے آرام سے چین کی نیند سوئیں گے، اور خدا تو ان کی کسی چال کا جواب ہی نہ دے گا، کہ ان کے خیال میں تیزی اور چالاکی بس انہی کا خاصہ ہے!؟ اسی وجہ سے آیت کے آخری حصہ میں واضح کیا گیا کہ سب سے بڑھ کر اپنا ہی نقصان کرانے والے کوئی ہو سکتے ہیں تو وہی جو چال بازی کی صورت میں خدا کے ساتھ ماتھا لگا بیٹھتے ہیں۔فَلاَ يَأْمَنُ مَكْرَ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ۔

رہ گیا ان کا اس حدیث سے استدلال کرنا کہ ’تم میں سے ایک شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے مابین ایک ہاتھ جتنا فاصلہ رہ جاتا ہے، تب لکھا ہوا اس پر غالب آتا ہے....“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں(1)ایک شخص کے عمل اہل جنت والے ہوتے ہیں۔ ورنہ اگر وہ اللہ کی نظر میں صالح اور مقبول ہوں اور واقعی جنت کے قابل ہوں، اور اللہ کو پسند آچکے ہوں اور اُس کی نظر میں وقعت پا چکے ہوں تو اللہ انہیں یوں ناکارہ کر کے نہ رکھ دے۔

یہاں لم یبق بینہ وبینہا اِلا ذراع ”اس شخص کے اور (جنت) کے مابین ایک ہی ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا ہوتا ہے“ کے لفظ سے کئی لوگوں کو اشکال پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اصل اعتبار آدمی کی زندگی میں اعمال کی آخری حالت کا ہی ہوتا ہے، نہ کہ ان اعمال کا جو وہ پہلے کسی وقت زندگی میں کرتا رہا ہو۔ مگر یہ ایک ایسا شخص تھا جس کے اعمال کے اپنے ہی اندر کوئی کھوٹ تھا اور کچھ پوشیدہ آفتیں تھیں جن کو بڑھنے کیلئے چھوڑ دیا گیا اور جو آخر عمر میں جا کر اس کو دغا دے گئیں، یوں اس کا معاملہ الٹ گیا اور وہ ان نیک اعمال سے، جن کے وہ قابل ہی نہ تھا، کلیتاً محروم ہوگیا۔ اگر ابتدا سے اس نے اپنی عبادت اور اطاعت میں وہ کھوٹ نہ رہنے دیا ہوتا اور ان آفتوں کو وہ اپنے سامانِ آخرت سے نکال نکال کر پھینکتا رہتا تو وہ اتنی پل نہ چکی ہوتیں کہ وہ آخر اس کے لٹ جانے کا ہی سبب بن جائیں۔ وہ اپنے عمل کو صاف ستھرا اور خالص اللہ کیلئے کئے رکھتا تو اللہ بھی اس کے ایمان کو کفر میں ڈھل جانے کیلئے یوں بے یار ومددگار نہ چھوڑتا۔

رہ گیا ابلیس کا واقعہ، تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا تھا: اِنی اَعلم ما لا تعلمون کہ ’میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘۔ چنانچہ پروردگار عالم جانتا تھا کہ ابلیس دل میں کیا کچھ رکھ کر بیٹھا ہے اور کیسا کیسا کفر اور کبر اور حسد اس کے اندر پل رہا ہے، جس کا کہ فرشتوں کو سان گمان تک نہ تھا۔ پھر جب سجدے کا حکم ہوا تو سب کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ باہر آگیا۔ جن کے دلوں میں پاکیزگی اور اطاعت تھی، محبت، خشیت اور فرماں برداری تھی، وہ فوراً سر تسلیم خم ہوگئے۔ اور جس کے دل میں کبر، کھوٹ، حسد اور گندگی تھی، وہ اپنا آپ بتائے بغیر نہ رہا، حکم ماننے سے صاف انکاری ہوا، گھمنڈ میں آیا اور کافروں میں جا شامل ہوا۔

اللہ مالک الملک البتہ مطلق لائق حمد ہے۔ عیب، معاذ اللہ، کیا ہم اس ذات میں ڈھونڈیں جس کو عیب سے پاک اور نقص سے مبرا کہنے پر کائنات کی ہر صالح مخلوق لگی ہے اور آسمانوں اور زمین میں ہر دم اُس کی تسبیح کرتی ہے؟! جتنا کسی کا علم اتنی اس کی خدا کے لئے تسبیح اور تنزیہ!!! اور اُس کی مطلق ثنا کا تو خود اُس کے سوا کسی کو یارا نہیں!!!

اَنت کما اَثنیت علیٰ نفسک، لا اَحصی ثناءعلیک!!!

(استفادہ از الفوائد، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 159- 165)


(1) امام ابن قیمؒ نے اس مشہور حدیث کی یہ جو وضاحت کی ہے (یعنی ’لوگوں کے دیکھنے میں‘) یہ وضاحت بھی دراصل ایک دوسری حدیث ہی سے ماخوذ ہے، اور یہ ابن قیم کا یا دیگر علماءکا ’نرا ’فہم‘ نہیں۔ یہ حدیث جو ابن قیم کی ذکر کردہ اس وضاحت کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، گو ابن قیمؒ نے یہاں درج نہیں کی کیونکہ یہ مقام تفصیل کا نہ تھا، مگر چونکہ اس حدیث کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو ایک اشکال رہتا ہے، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں پر وہ حدیث نقل کر دیں جو اس اشکال کو ہی سرے سے رفع کر دیتی ہے۔ اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ احادیث کو مجموعی طور پر ہی سمجھنا چاہیے، نہ کہ ایک آیت کو بقیہ آیات یا ایک حدیث کو بقیہ احادیث سے تنہا کر کے:

امام مسلم اپنی صحیح میں کتاب القدر (تقدیر کی کتاب) کے باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن اَمہ وکتابۃ رزقہ و اَجلہ وعملہ (اس بات کا بیان کہ کیسے آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کیا جاتا ہے اور پھر اس کا رزق، اس کی اجل اور اس کا عمل (اسی وقت) لکھ دیا جاتا ہے) کے تحت یہ حدیث لاتے ہیں:

عن سہل بن سعد الساعدی، اَن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اِن الرجل لیعمل عمل اَہل الجنۃ فیما یبدو للناس وہو من اَہل النار۔ و اِن الرجل لیعمل عمل اَہل النار فیما یبدو للناس وہو من اَہل الجنۃ۔

سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے ، کہا، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:

بے شک ایک آدمی لوگوں کے دیکھنے میں اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے مگر وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اور بے شک ایک آدمی لوگوں کے دیکھنے میں اہل دوزخ کے سے عمل کرتا ہے مگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے“

بنا بریں کثیر علماءنے اُس مشہور حدیث کو، جس میں ’لکھے ہوئے‘ کے غالب آنے کا ذکر ہے، اِس حدیث کی روشنی میں سمجھا ہے، جیسا کہ ابن قیمؒ کی مذکورہ بالاوضاحت سے عیاں ہے، بلکہ امام مسلمؒ کے اس حدیث کو ’تقدیر کی کتاب‘ میں ’ماں کے پیٹ میں تقدیر لکھی جانے سے متعلق باب‘ کے تحت لے کر آنے سے ہی یہ بات واضح ہے کہ امام مسلم اِس حدیث کو اُس حدیث کے ساتھ ملاکر ایک ساتھ سمجھنا ہی درست جانتے ہیں۔

بہرحال اُس مشہور حدیث کا یہ فہم تو نہایت غلط ہے کہ ایک آدمی کے جنت جانے کی تو پوری تیاری اور اہلیت ہوتی ہے، کہ اچانک کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس پر اس کا کوئی اختیار ہی نہیں، کہ اس کا رخ یک لخت بدل جاتا ہے اور وہ دوزخیوں والے کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ دوزخ میں جا پڑتا ہے!اس غلط فہم کی وجہ سے ہی بعض منکرین حدیث کو اپنے طعن وتشنیع کیلئے اس حدیث کو نشانہ بنانے کا موقعہ ملا۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز