"فرد" اور
"نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح
تحریر: حامد کمال الدین
عزیزم
عثمان ایم نے محترم سرفراز فیضی صاحب کی ایک
نہایت وقیع تقریر پر کچھ نہایت
جاندار ملاحظات اٹھائے ہیں۔ جن میں عثمان کا
یہ پیراگراف بلاشبہ ایک عمرانی حقیقت کا نہایت درست بیان ہے:
[[یہ سبق ہمارے ان سارے مسلمانوں کے لئے ہے جو Trickle down effect سے
ناواقف ہیں ۔ اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کئی کئی دہائیوں اور صدیوں تک (اتھارٹی )
اقتدار حاصل کرنے اور لیڈ کرنے کے اہل نہیں ہیں جب تک وہ انفرادی سطح پر پرفیکشن
حاصل نہیں کر لیتے ۔۔۔ اس سوچ کے نتیجے میں وہ ہمیشہ زمیں پر ہی رینگتے رہتے ہی
اور منزل کا چاند ان سے ہمیشہ اتنے ہی فاصلے پر رہتا ہے]]
مسئلہ
کو individualism تحریک
کے اس تناظر میں بھی لینا چاہیے جو حالیہ گلوبلائزیشن کا ایک بڑا ایجنڈا ہے۔ اِس خاموش مگر کامیاب گلوبلسٹ
تحریک individualism کے زیر اثر بھی؛ مدرسہ سلفیہ (نیز مدرسہ صوفیہ) کی ایک معروف
تقریر (ظاہر سے پہلے باطن کی تطہیر کرنا ضروری ہے۔ انسان اندر سے سدھر جائے تو
باہر سے خودبخود سدھر جاتا ہے) کی یہاں ایک ایسی دھڑادھڑ توظیف employment ہو رہی ہے جو معاشرے میں انکل سام
کا کام آسان کرتی ہے، اور جس کا لب لباب یہ کہ ’بس اپنے من میں ڈوب جا‘ یا یہ کہ
’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘۔
یہاں سے آگے چلنے والی سمتیں بےشک
بہت بہت مختلف بلکہ متحارب ہو جاتی ہیں۔ تاہم جس نقطہ سے ان کے سرے الگ ہوتے ہیں،
وہ کسی قدر دقیق ہے۔ چنانچہ اس دقیق پوائنٹ کو صحیح طرح متعین نہ کرنے سے ہی ایک
خلط مبحث پیش آتا ہے۔
"موٹی بات" کرنے کے شوق
یا جلدی میں اس دقیق پوائنٹ پر سرسری گزر جانا…یا اس مقام پر کسی ایک طرف کو لڑھک
جانا… اور پھر آگے چل کر "وضاحت در وضاحت" کا ضرورت مند ہونا… یا وہاں
پر ان متحارب سمتوں کو ’تطبیق‘ دینے چل پڑنا… کوئی صائب طریق نہیں۔ لہٰذا اس
بنیادی پوائنٹ پر ہی کچھ توجہ اور وقت دے لینا کچھ حرج کی بات نہیں۔
"فرد" کے متعلق اس بحث میں…ویسے یہ ساری گنجھلک
دور ہو جاتی ہے اگر "فرد" کو آپ دو اقسام میں تقسیم کر لیں:
1. "عام فرد"
جو لا محالہ "نظام" کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی جو نظام کا
"نتیجہ" ہوتا ہے نہ کہ نظام کا "موجد"۔
اور
2.
"استثنائی صلاحیتوں کا حامل فرد" (exceptional / extra-ordinary
individual) ۔ اللہ نے یقیناً ہر دور میں ایسے
مٹھی بھر افراد پیدا کر رکھے ہوتے ہیں جو دریا کے مخالف رخ پر تیر کر دکھائیں؛
"تبدیلی" کا عمل ایسے ہی غیرمعمولی لوگوں کے ملنے اور جُتنے پر منحصر
ہوتا ہے۔ یہ وہ "فرد" ہے جسے "نظام" کو وجود میں لانا
ہوتا ہے نہ کہ "نظام" کے ہاتھوں وجود میں آنا ہوتا ہے۔
یہاں سے؛ آپ اس مخمصے سے نکل آتے ہیں کہ ’مرغی پہلے یا
انڈہ‘۔ کیونکہ چیزیں ہمارے پاس اب دو نہیں تین ہو گئی ہیں: (1) نظام کا تخلیق کار
ہونے کی طاقت رکھنے والا فرد۔ (2) نظام۔ (3) نظام کا ڈھالا ہوا فرد۔
پس ایک
"فرد" لامحالہ نظام سے پہلے ہے اور وہ "عام فرد" نہیں ہے؛ اِس
استثنائی exceptional
"فرد" کو اور اِس کی تیاری کو
اُس نظام سے پہلے ہی ہونا ہے جس کو عدم سے وجود میں لانا کسی وجہ سے آپ کے پیش نظر
ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اِس "فرد" کی اصلاح میں ہی
"نظام" کی اصلاح مضمر ہے۔ جبکہ ایک "فرد" وہ جو لا محالہ کسی "نظام" سے ہی وجود میں آئے گا؛ اور وہ اِس وقت
بھی کسی نہ کسی "نظام" سے وجود میں آ رہا ہے۔ اور تھوک کے حساب سے وجود
میں آ رہا ہے۔ اِس "عام فرد" کی اصلاح سے متعلق یوں سوچنا کہ [جیسا فرد
ویسا نظام! بھئی جب لوگ ہی خراب ہوں گے تو نظام تو خراب ہو گا ہی! اور اگر لوگ
(کسی معجزہ کے نتیجے میں) ٹھیک کر لیے جائیں تو نظام ’خودبخود‘ ٹھیک ہوجائے گا!
لہٰذا اصل چیز تو معاشرے کی اصلاح ہے آپ خوامخواہ نظام کے پیچھے پڑے ہیں! یہ وجہ
ہے کہ ہم نےفرد ہی کو ٹھیک کرنے پر محنت شروع کر رکھی ہے؛ جس کے نتیجے میں نظام
’خودبخود‘ ٹھیک ہوتا چلا جائے گا] اس طبقہ
کا اصل مخمصہ ہے جو اوپر ذکر ہونے والی اس معروف سلفی یا صوفی تقریر اس کے غلط محل پر رکھتا ہے۔ اور فی الحقیقت
گھوڑے کو اس کے چھکڑے کے پیچھے جوتتا ہے۔
ہمارے اِس وقت کے "تبلیغی" حلقوں – نیز ان جیسی
مساعی کرنے والے بہت سے سلفی یا صوفی یا مسلکی
حلقوں – کو درپیش اصل خلطِ مبحث یہی ہے کہ: جس عمل سے وہ "معاشرے کی
اصلاح" کی امید لگائے ہوئے ہیں وہ اس "عام فرد" پر محنت ہے جس کا
اوپر ذکر ہوا۔ جبکہ یہ "عام فرد"
کہیں پر پائے جانے والے "نظام" کی پراڈکٹ ہوتا ہے، چاہے آپ کچھ بھی کر
لیں اور کتنا ہی زور لگا لیں۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے یہ سارے تبلیغی، سلفی، صوفی،
روحانی، مذہبی، مسلکی حلقے پچھلی ایک صدی سے "عام فرد" پر جو محنت کر
رہے ہیں – اور بلاشبہ وہ ایک عظیم الشان محنت ہے، جس میں ہزاروں مسجدوں، مدرسوں،
خانقاہوں کا زور لگا رہا ہے – وہ ساری محنت اور جدوجہد مل کر بھی اس فساد کو روکنے میں نہ صرف ناکام ہے جو یہاں کے
"عام فرد" کو پوری قوت اور کامیابی کے ساتھ اپنے بہاؤ میں بہاتا چلا جا
رہا ہے اور جو ہر نیا سال گزرنے کے ساتھ "عام فرد" کے عقیدہ سے لے کر اس
کے اخلاق اور معاشرت تک ہر چیز کا گراف کچھ اور نیچے لے جاتا ہے… بلکہ یہ ساری
اصلاح – جو ہمارے یہ نیک طبقے کرنے میں لگے ہوئے ہیں – اپنے اس بھاری بھرکم حجم کے باوجود اُس فساد فی
الارض کے ساتھ کوئی تناسب proportion ہی نہیں رکھتا جو "سسٹم" کے ہاتھوں یہاں برپا کیا
جا رہا ہے۔ یہ سارا کچھ بچشم سر دیکھتے آنے کے باوجود؛ یہ اصرار کہ "سسٹم"
کی بجائے "فرد" ہی کی اصلاح ایک صائب و صحیح و "سلفی" طریق
فکر ہے… نہ صرف انبیاء کی دعوت کا ایک انتہائی ناقص اور جزئی مطالعہ ہے بلکہ صورتِ
واقعہ کا بھی ایک نہایت غلط تجزیہ ہے!
*****
اب آ جائیے محترم سرفراز فیضی صاحب
کی پوسٹ پر۔ وہ اس میں بصراحت یہ کہہ چکے کہ اس میں انہوں نے "منہجِ
تربیت" بیان کیا ہے۔ مطلب: وہ یہاں کوئی ’منہجِ اقامتِ دین‘ بیان نہیں کر
رہے۔ حتى کہ ’منہجِ دعوت‘ بھی بیان نہیں کر رہے۔ "تربیت" کی بابت ایک
نکتہ بیان کر رہے ہیں۔ "تربیت" کے باب میں سلفی منہج کی ایک ترجیح کا
ذکر کر رہے ہیں۔ بتائیے اس میں کیا غلطی ہے؟ "تربیت" سے ہم، آپ، سب
تقریباً جو مراد لیتے ہیں اس کا خلاصہ یہ کہ انسانوں میں اسلام کا مطلوبہ کردار
پیدا کرنا۔ یا اسلام کے مطلوبہ انسان کو وجود میں لانا۔ ہاں اسلام کے مطلوب ان
انسانوں کو، جب وہ وجود میں آ جائیں، کرنا کیا ہے، اور کس کس دائرے اور کس کس
میدان میں اپنی فاعلیت دکھانی ہے، یہ اس پوسٹ میں نہ ان کا موضوع تھا، اور نہ اس
حوالے سے خاص ان کی اس پوسٹ کا حوالہ دے کر ان کا مؤاخذہ کرنا بنتا تھا۔ ہاں یہ آپ
ضرور کہہ سکتے تھے کہ منہجِ تربیت تو فی الواقع یہی ہے جو جناب فیضی نے بیان کیا،
البتہ ایسے انسانوں کو اس اس طریقے اور اس اس ترتیب سے اور ان ان میدانوں میں کام
بھی کرنا چاہیے۔ یا آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ "تربیت" کے علاوہ بھی کئی
امور ہیں جو اپنی جگہ اسلام میں مطلوب یا توجہ طلب ہیں۔ پھر اگر ہم دیکھتے کہ آپ
کے بتائے ہوئے ان "کئی امور" میں سے فلاں فلاں امر کے فیضی صاحب نرے
منکر ہیں، جبکہ وہ امور صاف طور پر اسلام کا مطالبہ ہیں، تو فیضی صاحب کے اس
مؤاخذہ پر ہم بھی آپ کے مؤید ہوتے۔ مگر ایسا تو کچھ ہوا ہی نہیں۔ محض "منہجِ
تربیت" کا ایک نکتہ بیان کر دینے پر، جوکہ اپنی جگہ صحیح بھی ہے، یہ رد عمل،
حضرات؟؟! اور چلیں عثمان ایم نے تو محض کچھ علمی اشکالات ہی اٹھائے۔ ادھر کئی
اصحاب کے ہاں بڑےبڑے قبیح الفاظ میں اس پر سرفراز فیضی صاحب کے لتے لیے گئے،
باقاعدہ نام لے کر! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اک دوجے کو برداشت tolerate کرنے میں یہ نوبت آئی ہوئی ہے؟؟؟ جیالا پن کی حد ہے! کیا وہ
سب بھلے بھلے آدابِ مکالمہ جو ہم سنتے رہتے ہیں، کافروں اور لبرلوں کے ساتھ معاملہ
کرنے کے وقت کےلیے رکھے گئے ہیں؛ اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ ہماری برداشت کا یہ
حال؟؟؟ علمی مسئلے تو رہے ایک طرف، یہاں تو بات تک نہیں کر سکتے ہم ایک دوسرے کے
ساتھ۔ ’فرقہ واریت‘ محض ’مسالک‘ میں تو محصور نہیں! جس بھی طبقے اور طرزِ فکر پر
یہ نوبت آ جائے اس کو فرقہ واریت کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
درست ہے، فیضی صاحب کا دو جملوں پر
مشتمل آخری پیرا باعثِ تشویش ہو سکتا ہے:
"باہر کی تطہیر کا آغاز اندر
کی تطہیر سے ہوتا ہے۔ افراد کا پیوریفکیشن ہو گا تو سسٹم خودبخود پیوریفائی ہو
جائے گا"۔
اس میں بھی پہلا جملہ "منہجِ
تربیت" سے متعلق ہے، اور اس میں کچھ غلط نہیں: " باہر کی تطہیر کا آغاز
اندر کی تطہیر سے ہوتا ہے"۔ یہ تقریباً وہی بات ہے جو حدیث میں آئی: إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله. ہاں دوسرا جملہ وہ معنىٰ ضرور دے
سکتا ہے جس کا بطلان ہم اپنی گفتگو میں اوپر کر چکے۔ خصوصاً اس میں وارد ’خودبخود‘
کا لفظ۔ گو اس جملے کی تفسیر کا بھی فیضی
صاحب خود زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اگر اس ’خودبخود‘ کا یہی مطلب ہے کہ ’نظام‘ کو درست
کرنا بجائےخود کوئی جان لیوا محنت طلب پراجیکٹ نہیں بلکہ بغیر کسی قوت و اقتدار کے
’افراد‘ کی اصلاح والا معجزہ برپا ہونے کے ساتھ ہی ’نظام‘ کے درست ہو جانے کا عمل
بھی آپ سے آپ ہی انجام پا جائے گا… تو عثمان ایم کا اس پر گرفت کرنا سو فیصد درست
ہے۔ اور اگر اس سے ان کی مراد کچھ اور ہے، تو اس پر کچھ عرض کرنا اس مراد کے سامنے
آنے کے بعد ہی ممکن ہے۔
البتہ یہ طے ہے کہ جس چیز کو آج کل
"نظام" کہا جا رہا ہے وہ معاشرے کے "عام فرد" کی ساخت میں ایک
بنیادی و کلیدی کردار رکھتا ہے۔ اس کی مثال بعینہٖ وہ رہے گی جو "عام تیرنے
والوں" کے حق میں دریا کے رخ کی ہوتی ہے اور جس کے خلاف تیر لینا معاشرے کے حق
میں "اصل" نہیں بلکہ استثناء کا درجہ رکھتا ہے۔ "نظام" کے اس
بھاری بھر کم، زوردار، ناقابلِ مزاحمت irresistible کردار سے انجان رہنا دین فہمی ہے اور نہ معاشرہ
فہمی۔ اس پر مستزاد، یہاں "عام فرد" کی اصلاح سے "نظام" کی
اصلاح کو مشروط کر رکھنا، یعنی ساری ترتیب ہی الٹی کر دینا اور یہ سمجھنا کہ جب
کسی معجزہ کے نتیجے میں آپ "عام فرد" کی اصلاح کے اس نااختتام پزیر مشن
سے ’کامیابی کے ساتھ‘ فارغ ہو لیں گے تو نظام نامی شےء یہاں "خودبخود"
درست ہوئی پڑی ہو گی!
*****
آگے چلنے سے پہلے چند ڈسکلیمرز:
1. "نظام" کا
لفظ میں کسی وقت محض ایک بحث کی ضرورت کے تحت استعمال کر لیتا ہوں اور وہ بھی
بالعموم inverted commas ("") کے اندر۔ یعنی ایک الزامی سے انداز میں۔ خود میں اس لفظ کو
اپنے اسلامی ڈسکورس کے اندر اون own نہیں کرتا۔ اس لیے کہ "نظام" اور "ریاست" وغیرہ الفاظ ایک
مخصوص (ماڈرنسٹ) تہذیبی ڈسکورس کی نمائندہ تعبیرات ہیں، نہ کہ ہماری اسلامی روایت میں
مستعمل چلی آتی تعبیرات۔ دین اسلام کے بیان و ایضاح میں کسی مخصوص اجنبی تہذیب کی
نمائندہ تعبیرات کا من و عن استعمال ترک رکھنا میرے یہاں کیوں ضروری ہے، اس پر کسی
اور مقام پر بات ہو سکتی ہے؛ فی الوقت اس کی گنجائش نہیں۔ ہماری اس بحث میں
"نظام" کے تحت آنے والے کچھ صالح معانی کےلیے ہماری اپنی اسلامی اصطلاح
البتہ "سلطۃ" یا "سلطان" ہے۔ قرآن میں: وَاجْعَلْ لِيْ مِن لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيْرًا "اور فرما دے اپنے ہی پاس سے بندوبست میرےلیے کسی مددگار
اقتدار کا"۔ جبکہ حضرت عثمانؓ کے الفاظ: إنَّ اللهَ يَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَا لَا يَزَعُ
بِالْقُرْآنِ "یقیناً اللہ اقتدار کے ذریعے وہ
وہ چیزیں زیرنگیں لاتا ہے جو قرآن کے ذریعے سے نہیں لاتا"۔
2.
"نظام کو بدلنے" کی یہاں
بات کرنے والے دینی طبقے عام طور پر "انقلابی" کہلاتے ہیں اور اپنی اس
دعوت یا پروگرام کو بالعموم "انقلاب" یا "اسلامی انقلاب" سے
تعبیر کرتے ہیں۔ اپنی متعدد تحریروں میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ میں کسی نظریہٴ
"انقلاب" کا نہ صرف مؤید نہیں ہوں بلکہ اس سے ایک اختلاف، اور اس پر
شدید ملاحظات بھی رکھتا ہوں۔ یہاں پر مطلوب اسلامی تبدیلی کے حق میں، اس نظریہٴ
انقلاب کو میں اچھا خاصا نقصان دہ بھی جانتا ہوں۔ اس پر بھی کچھ بات کر چکا ہوں کہ
اکثر اسلامی ملکوں میں، جہاں جہاں کچھ اسلامی پیش رفت ہوئی ہے، وہ وہاں کے
"انقلابی" طبقوں کے "نظریہٴ انقلاب" سے پیچھے ہٹنے کے نتیجے
میں ہی ہو سکی ہے۔ "انقلاب" کی بجائے؛ میں اپنے آپ کو "اصلاح"
والے اسکول کا پیروکار رکھتا ہوں۔ ان دونوں (مدرسہٴ انقلاب اور مدرسہٴ اصلاح) میں
کیا بنیادی فرق ہے، اس پر بھی گاہے گاہے میں کچھ لکھ چکا ہوں۔ نیچے کامنٹس سیکشن میں، اپنی ان تحریروں کے کچھ لنک
بھی دیے جا سکتے ہیں۔ اس دوسری بات سے متعلقہ چند امور یہاں اور بیان کیے جا رہے
ہیں:
*****
یہاں بالعموم دو طبقے ہیں۔ ایک کا نظریہ: فرد کے ٹھیک ہو
جانے سے نظام "خودبخود" ٹھیک ہو جاتا ہے؛ نتیجتاً یہ اپنا میدانِ عمل "عوامی
اصلاح" کو بنا چکا ہے۔ دوسرا، جو اپنی تمام تر امیدیں پچھلی ایک صدی سے
"نظام کی تبدیلی" کے ساتھ وابستہ کیے بیٹھا ہے۔
پہلے کے متعلق ہم اوپر کچھ بات کر چکے۔ دوسرے کے متعلق یہاں
چند معروضات ہیں:
"فرد" کی صلاح یا فساد میں "نظام" کو
بےشک ایک بڑا دخل حاصل ہے – جیسا کہ ہم پیچھے عرض کر چکے – پھر بھی "نظام کو
تبدیل کر دینے" کے نعرے یا ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اترنا کسی مسئلے کا حل
نہیں ہے۔ نہ ہی کسی نبی کی دعوت کا ہمیں یہ عنوان نظر آتا ہے۔ نبیوں کے یہاں؛ دعوت
کا مخاطب اول تا آخر "فرد" اور "معاشرہ" رہا ہے (فرد، اپنی
اپنی سماجی پوزیشن کے بقدر)، جبکہ دعوت کا مضمون "اللہ کی بلاشرکت غیرے
عبادت" اور "یومِ آخرت کو اس کے آگے جواب دہی"۔ ’نظام نظام نظام‘
کی گردان یہاں کسی ہدف کے حصول میں ممد نہیں ہے۔ الٹا؛ یہ معاملے کو انتہائی خشک
اور غیر ضروری حد تک "سیاسی" کر دینے والی ایک چیز ہے۔ علاوہ اس بات کے
کہ "سٹیٹس کو" طبقوں کو یہ غیرضروری طور پر اپنا دشمن کر لینے اور انہیں
اس کو "اقتدار
کی جنگ" قرار دینے کی ایک آفیشل
official بنیاد
فراہم کرتی ہے۔ یعنی جس چیز کو انہیں آپ کی دعوت سے بظاہر "اخذ" کرنے
اور اسے بطور "الزام" آپ پر عائد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے – جبکہ آپ کو
بہت خوبصورتی اور پختہ کاری کے ساتھ اسے طرح دینا ہوتی ہے – وہ آپ از خود تھال میں
رکھ کر انہیں پیش کر دیتے، یوں ان کا کام حد درجہ آسان کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً؛ ساری
جنگ کا عنوان ایک فریق سے اقتدار کا "چھینا جانا" اور دوسرے فریق کو
اقتدار کا "حاصل ہونا" ہو جاتا ہے جبکہ اصل مضمون جس پر ڈھیروں محنت
ہونا ہوتی ہے، اور جس سے آپ کا فریقِ مخالف پوری کوشش کے ساتھ کنی کتراتا ہے، پس
منظر میں جاتا ہے۔ "مقاصد" کی بجائے "ذرائع" معاملے کا اصل
عنوان بن جاتے ہیں؛ خصوصاً اس لیے کہ تماشائی بھی ایسے ہی کسی عنوان سے مانوس ہوتے
ہیں؛ یعنی "اقتدار کی جنگ"۔ نتیجتاً؛ اس کھیل کا بڑا حصہ دشمن کی پِچ pitch پر چلا جاتا ہے، جہاں وہ ایک بہتر
پوزیشن میں ہوتا ہے اور آپ ایک مشکل پوزیشن میں۔
ہمارے بہت سے پڑھنے والے یہاں اعتراض کریں گے کہ "نظام بدلنے" اور "اقتدار میں
آنے" والا مسئلہ اس "اللہ کی عبادت" سے خارج تو نہیں ہے جو آپ ان
دونوں میں ایک مغایرت کا تاثر دے رہے ہیں، جبکہ آپ خود مانتے ہیں کہ
"نظام" کی درستی و خرابی میں ہی بہت بڑی حد تک "فرد" کی درستی
اور خرابی مضمر ہوتی ہے۔
اس پر ہمارا جواب:
"نظام" والا مسئلہ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود
اصل مسئلہ کے ایک اقتضاء یا ایک "بین السطور شے" کی حیثیت میں رہنا
چاہیے اور وہ "اصل مسئلہ ہے:" توحید۔ جھوٹے خداؤں کی عبادت کو چھوڑنا۔
غیراللہ کی اطاعت و بندگی سے بیزاری۔ خالق کی اتاری ہوئی رسالت اور شریعت کا اتباع
اور اس کے مقابلے پر ہر طریقے، ہر فلسفے اور ہر دستور سے دستبرداری ۔ اور یہ اصل
مسئلہ [یعنی رب العزت کی توحید اور اس کی رسالت و شریعت کا اتباع] بھی ایک اصولی
پوزیشن کے طور پر۔ کیونکہ جہاں تک اس پر عملدرآمد کی بات ہے تو وہ آپ کی سماجی
قدرت و استطاعت کے ساتھ مشروط ہے اور حالات و صورتحال پر منحصر ہے۔ (نجاشی کا
واقعہ بطور خاص ملحوظ رہے)۔ یعنی شریعت کا عملی اتباع اس پر ایمان لے آنے والوں کی
سکت اور صلاحیت کے ساتھ متعلق ہے، اور اس میں بہت سی تدریج اور درگزر ہے۔ حق یہ ہے
کہ عالم اسلام میں جہاں جہاں آپ انقلابیوں کی ’اپنی‘ حکومت آئی، آپ کو خوب معلوم
ہو گیا کہ "نظام" کے مسئلہ میں تو بہت سی تدریج اور درگزر ہی ہوتی ہے
اور ہونی چاہیے لیکن ایسی کوئی چھوٹ آپ وہاں دینے پر شاید تیار نہیں جہاں آپ کی
’اپنی‘ حکومت نہیں ہے لہٰذا وہاں ’نظام نظام اور نظام‘ ہی ہوتا ہے! یہاں تک دیکھا
گیا کہ جہاں جہاں آپ کی ’اپنی‘ حکومت آتی ہے وہاں وہاں "اسلامی نظام"
والا مسئلہ سرے سے آپ کی زبان اور بیان سے غائب ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اس کا ذکر و
تکرار حالات کے لحاظ سے انتہائی نامناسب و غیرموزوں اور نقصان دہ ہو جاتا ہے! جبکہ
وہ (اسلامی نظام) آپ کی دعوت کا ’اصل مسئلہ‘ ہے! یعنی معاشرے کی باگ آپ کے ہاتھ
میں آنے کا پہلا اقتضاء exigency یہ کہ آپ کا "اصل
مسئلہ" (اسلامی نظام) آپ کے زبان و بیان سے غائب ہو جائے اور آپ یکسر اس کے
ذکر سے تہی ہو کر اپنی پیش قدمی کےلیے کوئی صورت پیدا کریں!!! بلکہ اقتدار میں آنا
تو دور کی بات، اقتدار کی اس رسہ کشی میں اترنے کےلیے بھی ’اسلامی نظام‘ والے نعرے
کو پس منظر میں لے جانا ضروری، اور اس کی جگہ بجلی، پانی، مہنگائی اور کرپشن وغیرہ
ایسے (عوام کو سمجھ آنے والے) مسائل کو آگے رکھنا کہیں زیادہ فائدہ مند جانیں!
یہاں آپ کی توجیہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کا اصل ہدف تو ’اسلامی نظام‘ ہی ہے یہ بجلی
پانی وغیرہ مسائل تو عوام میں اس کےلیے راستہ بنانے کی خاطر ہیں۔ خود مجھے یہ
سٹرٹیجی اختیار کرنے کے ساتھ کوئی اصولی اختلاف نہیں لیکن اس سے یہ بہرحال ثابت
ہوتا ہے کہ ’اسلامی نظام‘ والا مسئلہ آپ کی جدوجہد کا "عنوان" ہونے کی بجائے
اس جدوجہد کا ایک "بین السطور" مسئلہ ہو سکتا ہے اور بہت اوقات اسے ایک
"بین السطور" مسئلہ ہی ہونا چاہیے۔ اور یہی میری اس گفتگو کا اصل مدعا۔
قصہ کوتاہ "اسلامی نظام" – ہمارے اصیل بیانیہ کے
اندر – اس "عمل" میں آتا ہے جس میں استطاعت کا مسئلہ بھی باقاعدہ طور پر
داخل ہے، تدریج کا مسئلہ بھی، تکسیر (جزو بندی) fractionation کا بھی، اور
گناہ ہونے پر سرزنش و ھجر اور استغفار وغیرہ کا بھی، اور "تحت المشیئۃ"
کا بھی۔ لہٰذا یہ کسی شےء کا "اقتضاء" implication رہنا چاہیے نہ کہ اس کا اصل originator
اور اس كا موجب exigent۔ دعوت کا تمام تر اصل originator
اور اس كا موجب exigent اور مسلسل داعیوں کی زبان پر رہنے والا عنوان اور لب لباب quintessence توحید ہی کو رہنا
ہے، اپنی کاملیت اور جامعیت کے ساتھ، جس میں ’نظام‘ والا مسئلہ اپنی ترتیب پر ہی
آئے گا، اور وہ بھی اپنے اصلِ شجر سے نکلتی ہوئی ایک شاخ کے طور پر ہی، جبکہ سارا
زور "شجر" پر ہو گا نہ کہ "شاخ" پر۔ اور اس باب میں
"شجر" پر محنت ہی میں "شاخ" کی ترقی اور افزودگی جانی جائے
گی:
1.
"شاخ" کا لاغر پن
"شجر" کی کمزوری اور اس کی پرداخت میں رہ جانے والے نقص پر محمول ہو گا
(خواہ "شاخ" کا یہ لاغرپن کہیں ’وھابیوں‘ کے ہاں نظر آئے یا کسی اور کے
ہاں) اور جب بھی اور جہاں بھی "شاخ" کی یہ مرجھاہٹ دیکھی جائے اس کو
اصلِ شجر (توحید) کی خرابی کے ساتھ ہی جوڑا جائے خواہ کوئی کتنا ہی توحید کا
ٹھیکیدار کیوں نہ ہو۔ (عقیدہ کی خرابی "عقیدہ" کے دعویداروں میں بھی
یقیناً ہو سکتی ہے۔ عبارتوں کی اجارہ داری
سے حقیقتیں ہاتھ میں نہیں آ جاتیں)۔
2.
جبکہ درخت کی قوت اور صحت کا پیمانہ gauge شاخوں کی قوت اور صحت ہی ہو گا۔
"نظام"
کے باب میں سلفی ڈسکورس کی ایک بات تو یہ ہوئی۔
دوسری بات – اس باب میں – یہ ہے کہ
"نظام کو تبدیل کرنا" سلفی ڈسکورس میں شاذ و نادر ہی کہیں بولنے میں آیا
ہو گا؛ کیونکہ یہ شاذ و نادر ہی ہو سکنے والی ایک چیز ہے۔ لہٰذا؛ زیادہ متعلقہ الفاظ
phrasing اس باب میں "نظام پر اثرانداز ہونا" ہو سکتا ہے۔ یہ دوسرا
بڑا اختلاف سمجھیے مدرسہٴ "انقلاب" اور مدرسہٴ "اصلاح" کے
مابین۔ گو ہے یہ پہلے سے ہی متفرع۔
"مکمل تبدیلی" کا مطالبہ
– یا اس کے انتظار میں عشرے یا صدیاں گزارنا –ہماری نظر میں ایک ’یوٹوپیا‘ ہے؛ عمل
اور واقع کے ساتھ اس کا بہت کم تعلق ہے۔ خود ’انقلابیوں‘ کا ایک بڑا طبقہ اب یہ
بات اچھی خاصی سمجھنے لگا ہے؛ گو ’انقلابی ڈسکورس‘ کے حق میں یہ ایک طرح کی موت
ہے؛ کیونکہ "انقلاب" کی فکری بنیادیں اس سماجی حقیقت کو لینے اور اس سے
معاملہ deal کرنے میں اس کا ساتھ نہیں دیتیں؛ اور اس لحاظ سے یہ بات انقلابی
ڈسکورس کے حق میں ایک طرح کی دستبرداری (تنازل) step down ہے۔ اس یوٹوپیا کے مقابلے پر
ہمارے مدرسہٴ "اصلاح" کا شعار ہے: "ایک دی گئی صورتحال میں جو اور
جتنا ہو سکتا ہے"۔ اسی کو ہم منہجِ استطاعت بھی کہتے ہیں؛ اور جو کہ اصول
شریعت میں ایک بالکل ثابت چیز ہے۔ یہ "جو اور جتنا ہو سکتا ہے" (یعنی جس
چیز پر ایک مخصوص صورتحال میں آپ کو سماجی قدرت حاصل ہے) کسی وقت بہت زیادہ ہو
سکتا ہے اور کسی وقت بہت کم۔ یہ وجہ ہے کہ ائمہٴ سنت کسی دور میں یہاں کے سیاسی یا
سماجی سیناریو پر بہت بہت حاوی ہو کر رہے اور کسی دور میں بہت بہت پسپا۔ البتہ اپنے
صالح خداپرست ایجنڈا کے ساتھ ہمیشہ سیناریو پر رہے؛ غائب بہرحال نہیں ہوئے۔ بلکہ
کہنا چاہیے، نہ غائب رہے اور نہ اپنے کسی اسلامی ایجنڈا کےلیے خود اقتدار ہی کے طلب
گار۔ اور یہ ہے "دستیاب گنجائش" available space کے اندر کھیلنا؛
جس کو ہم "منہجِ استطاعت" بھی بولتے ہیں۔ کیونکہ "اقتدار کا
مطالبہ" بھی اس "دستیاب گنجائش"
available space کو بالعموم ختم کروا دیتا ہے۔ دوسری جانب "جس قدر اصلاح ہو
سکتی ہے" اس سے ہی پیچھے ہو جانا، یا اس کےلیے کوئی فکرمندی اور پریشانی ہی
نہ رکھنا – جو کہ اِس وقت کے مذہبی طبقہ کی عمومی حالت ہے – یہ بھی ہمارے ائمہٴ
سنت کا دستور نہیں ہے۔ چنانچہ کسی ماحول میں شریعت کے تقاضوں پر امت سے جس قدر عمل
کروانا "ممکن" ہے – جو کہ دَور دَور کے فرق سے، یا ماحول ماحول کے
اختلاف سے، خاصا خاصا مختلف ہو سکتا ہے – اسی "ممکن" کو رو بہ عمل لانے
پر فوکس رہنا – اور جو ممکن نہیں، یا جو دستیاب نہیں، اس کے نہ ہونے یا نہ ہو سکنے
کو اس چیز کی ’دلیل‘ نہ بنانا کہ [[یہ تو "مکمل تبدیلی نہ ہوئی" لہٰذا
اس کو کیا خاطر میں لانا!]]… "پورے" کے تعاقب میں "تھوڑے" کو
چھوڑ نہ بیٹھنا، بلکہ جو ہاتھ آتا ہے اسے بہرحال لینا – یہ ہے ہمارے اس مدرسہٴ
اصلاح کا ایک باقاعدہ منہج۔ جو کہ حق بھی ہے اور عملی بھی۔ اور "تھوڑے"
کو رفتہ رفتہ "زیادہ" بنا سکنے والی ایک چیز بھی۔
یہاں اس ممکنہ اعتراض کو دیکھتے چلیں جس کا کہنا ہے کہ یہ
تو مفاہمت ہوئی، یعنی کومپرومائز یا ریکونسائل۔ کہ آپ "پورے" پر اصرار
نہ کریں اور "تھوڑے" پر ہی قناعت کر جائیں۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں:
"نادستیاب" پر اصرار کرنا ایک وہمی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔ "مفاہمت"
(کومپرومائز یا ریکونسائل) یہ اس وقت ہو گا جب ایک چیز "دستیاب" کے
دائرے میں ہے مگر آپ اس سے دستبرداری قبول کر رہے ہیں۔ البتہ جس وقت ایک چیز "دستیاب"
کے دائرے میں نہیں، اس وقت اس کی شرعی توصیف description ہے: "خارج از استطاعت"۔ (معلوم
رہے، استطاعت جسمانی بھی ہو سکتی ہے اور سماجی بھی)۔ پس جو چیز جس وقت آپ کی
استطاعت میں نہیں اس وقت آپ خدا کی طرف سے ہی اس کے مکلف نہیں۔ لہٰذا یہ ’کومپرومائز‘
کیونکر ہوا! ’کومپرومائز‘ ایسی صورت میں یہ ہو گا کہ آپ اعتقاد کی سطح پر ہی اسلام
کی اس بات سے دستبردار ہو جائیں۔ جوکہ بہت سی دینی تحریکوں کے یہاں ہو بھی رہا ہے۔
یعنی یہ کہنا کہ چونکہ آج فلاں چیز کا دور نہیں رہا، بایں معنىٰ کہ اس کا ہمارے
یہاں بہم پہنچنا آج ممکن نہیں، لہٰذا ہم اسلامی تصور (اعتقاد) میں ہی آج یہ ترمیم کر
لیتے ہیں کہ یہ چیز اب ضروری نہیں۔ اور اس کی جگہ جاہلیت کی فلاں چیز کو ہی ہم
اسلام کی سند دے لیتے ہیں۔ بلاشبہ بہت سی اسلامی تحریکوں کے ساتھ آج یہ ہو رہا ہے،
اور دھڑادھڑ ہو رہا ہے۔ اسی کو ہم بعض مقامات پر ’جاہلیت کی اسلامائزیشن‘ کہتے
ہیں۔ اس روٹ پر چلتے ہوئے – یعنی اس ’دلیل‘ سے کہ ’آج اس کا دور یا امکان نہیں رہا‘
– معاصر جاہلیت کی بہت سی چیزیں "اسلامیا" لی گئی ہیں اور اسلام کی بہت
سی چیزیں "متروک" کے حکم میں ٹھہرا لی گئی ہیں۔ یوں ایک نظریاتی سطح پر
ہی اسلام کی بہت سی چیزوں کو جاہلیت کی چیزوں سے بدل لیا گیا ہے، جسے یہ حضرات
معاصر جاہلیت کی ان چیزوں کو ’اسلام سے ہم آہنگ‘ کرنے کا نام دیتے ہیں۔ ’ریاست‘،
’پارلیمنٹ‘، ’دستورپرستی‘، ’حقوقِ انسانی‘، ’ڈیموکریسی‘ اور نجانے کیا کیا کچھ داخل
اسلام کر لیا گیا ہے۔ یہ بالکل ایک اور روٹ ہے۔ اسی کو ہم "ری کونسائل" کہتے
ہیں جس سے مذموم تر چیز اسلامیوں کے حق میں آج شاید ہی کوئی ہو۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی مجبوری یا نارسائی
کی دلیل سے جاہلیت کی کسی ایک بھی چیز کو اسلام کی سند نہیں دی جا سکتی، خواہ آپ
کے یہاں اس کا نام (ایک جاہلی چیز کو) ’اسلام سے ہم آہنگ‘ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔
"اعتقاد" میں کوئی کومپرومائز نہیں۔ ’عدم استطاعت‘ چیزوں کا حکم تبدیل نہیں کر دیا
کرتی۔ حکم اس کا جوں کا توں رہتا ہے؛ جس کی تعلیم اور تلقین کسی وقت معمول سے بھی
بڑھ کر ضروری ہو جاتی ہے، اس لیے کہ ایک چیز کے مٹ جانے یا اپنی جگہ سے سرک جانے
کا اندیشہ پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔ ایک ایسی "عدم استطاعت" جو بلوائےعام کی
صورت اختیار کرے، اس بات کی مستدعی ہوتی ہے کہ اس بابت "دین کا حکم" اور
بھی شدت کے ساتھ قلوب میں جاگزیں کرایا جائے اور اپنا "ٹھیٹ پن" کچھ اور
بھی بڑھا لیا جائے۔ سو ایسے وقت "عمل" میں ایک چیز کی
"بقدرِ حاجت" اجازت بھی بہرحال دینا ہوتی ہے (جبکہ "عدم قدرت"
کے وقت ایسا نہ کرنا ایک طرح کی انتہا extreme ہے) جبکہ "اعتقاد" میں اس
چیز کی حرمت اور اس سے بیزاری کو قلوب میں بٹھانے کےلیے ایک hammering بھی کرنا ہوتی ہے، خصوصاً طلبہٴ علم
کی سطح پر۔ (بلوائے عام کی حیثیت اختیار کر جانے والی مجبوریوں پر ایک نظریاتی ری
کونسائل ہی کرنے چل دینا ایک دوسری انتہا extreme ہے)۔ خلاصہ یہ کہ "عدم قدرت" کسی نئے مفاہمانہ فکر یا اعتقاد کا
موجب نہیں ہو سکتی۔
پس یہ ہے وہ نقطہٴ توازن: [[اعتقاد میں ایک ٹھیٹ
غیرمفاہمانہ اسلام۔ جبکہ عمل اور پیش قدمی میں "جو ممکن ہے"]]۔ اس سے؛
نہ عمل میں آپ کے راستے بند ہوتے ہیں اور نہ اعتقاد میں آپ کی راہ بدلتی ہے۔ ’مگر
اس میں لگتی ہے محنت زیادہ‘۔ اس توازن سے ہٹنا یا ایک طرح کی انتہا ہے یا دوسری
طرح کی۔ سلامت روی کی البتہ یہی صورت ہے۔
واضح رہے، ہمارے بھلے ادوار میں سلفیہ و صوفیہ کے بہت سے
اساطین کا یہی طریقہ رہا ہے: یعنی "سلطان" (امت کے مقتدر حلقوں) پر –
ممکن کے دائرے میں – از حد اثرانداز ہونا؛ اور اس راہ سے حق کو زیادہ سے زیادہ
قائم اور باطل کو زیادہ سے زیادہ پسپا کروانا۔ اس بابت "دست یاب مواقع"
کو زیادہ سے زیادہ لینا اور پچکارنا؛ البتہ جو "دست یاب نہیں" اس کی
بابت غیرضروی تکلفات یا مصنوعی راستے اختیار کرنے سے مجتنب رہنا۔
اوپر کی دونوں باتیں اگر واضح ہو گئیں، تو ایک تیسری گتھی
بھی آسانی سے سلجھ جاتی ہے، اور وہ ہے انقلابی حلقوں کے یہاں ’اسلامی نظام‘ یا ’حکومتِ
الٰہیہ‘ قائم کرنے کو دین کا بنیادی ترین فرض قرار دینا۔ یعنی اوجب الواجبات۔ جبکہ
ہمارے ڈسکورس میں، اسلام کو سلطان و سلطنت پر فائز کروانا… رب العزت کے دین کو غالب
اور قاہر کروانا – چاہے اس کا نام آپ کے یہاں ’اسلامی نظام کا قیام‘ ہو یا ’حکومتِ
الٰہیۃ برپا کرنا‘ – فروضِ کفایہ میں آتا ہے۔ مطلب، کچھ لوگ اگر اس فرض میں پورا
اتر لیں تو یہ باقیوں کے سر سے بھی اتر جاتا ہے، ورنہ سب کے سر پر رہتا ہے۔ "فرضِ
کفایہ" کہہ کر ہم اس فرض کی شان کم نہیں کر رہے، البتہ ایک غلو یا ایک افراط
سے آپ کو ضرور ہٹا رہے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے پر وہ تفریط ہے جس کا کہنا ہے،
اسلام کےلیے حکومت اور غلبہ کی بات کرنا اور اس کو فرض قرار دینا کوئی بدعت اور
’تعبیر کی غلطی‘ ہے۔ یہ ہر دو انتہائیں رد کرنے کی ہیں۔
*****
یہاں چند سوالات لے لیتے ہیں جو اِس
سلسلہ کی مختلف پوسٹوں پر آتے رہے ہیں۔
پوسٹ نمبر ۸ پر آنے والا، نوید
منظور صاحب کا، ایک سوال:
ریاست کو اسلامیا کر اعتقاد میں شامل کر لینا :: بمقابلہ :: ریاست کے ساتھ
تعامل کرتے ہوئے استطاعت کی حد تک جو فائدہ حاصل ہو سکے وہ حاصل کرنا
شیخ محترم، دونوں باتوں میں فرق واضح نہیں ہوا
جواب:
"ریاست" کو اسلامیا کر
اعتقاد میں شامل کرنا:
یہ کہ "ریاست" نامی شےء
جس سے دنیا آج واقف ہے، اور جو کہ خالصتاً ایک جاہلی مغربی شے ہے، اسے ’اسلام سے
ہم آہنگ‘ کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کی کچھ غیراسلامی چیزوں کو اس سے نکالنے اور کچھ
اپنی اسلامی چیزیں اس میں شامل کرنے کا ایک باقاعدہ فلسفہ پیش کرنا۔
اس (ریکونسائل/اسلامائزیشن) ذہن کے
لوگ اپنی ان مزعومہ ترمیمات کے بعد "جدید ریاست" کو اعتقاداً ہی قبول کر
لیتے اور اسے دینِ اسلام کی ایک شےء ماننے لگتے ہیں۔ نظریاتی طور پر باقاعدہ اس کے
داعی اور مبلّغ ہیں۔ ان اسلامی ترمیمات کے بعد بھی جو کچھ جاہلی غیر اسلامی اشیاء "ریاست"
کے بنیادی فارمیٹ میں رہ جاتی ہیں، جیسے [["اجتماع" کی بنیاد (قِوام):
کسی خطے میں پائے جانے والے ’انسان‘ people ہونا]]نہ کہ [[اللہ کی عبادت اور
محمدﷺ کی اطاعت پر ایکا کر رکھنے والے "المؤمنون والمؤمنات" ہونا]]
وغیرہ… تو اس کے جواب میں ان (اسلامائزیشن اصحاب) کا یہ کہنا: آج کے زمانے میں یہ
ممکن نہیں۔
اس کے مقابلے پر ہم کہتے ہیں: یہ
تو شاید درست ہے کہ آج کے زمانے میں یہ ممکن نہیں، اور اس کی وجہ سوائے مسلمانوں
کی کمزوری و پسپائی کے، یا مسلمانوں کے اسلام کو درست طور پر نہ سمجھنے کے، کچھ
نہیں۔ سو ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ اس وقت یہ آپ کی مجبوری تو ہے۔ اور یہ بھی ہم
مانتے ہیں کہ "اجتماع" کے اس غیر اسلامی نسخے میں بھی جس کا نام
"جدید ریاست" ہے، اور جو کہ اس وقت آپ کی مجبوری ہے، اسلام کے جتنے
فرائض پورے کر لینا آپ کی استطاعت میں ہے ان فرائض کو تو پورا کرنا ہی چاہیے۔ البتہ
ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ اس کو اسلام کی سند نہ دے ڈالیں۔ ہم کہتے ہیں: ایک غیر
اسلامی صورتحال میں بھی اسلام کے جس جس حکم اور تشریع پر چلنا ہمارے بس میں ہو، اس
پر چلنا ہم پر واجب ہی ہو گا۔ لہٰذا اس "جدید ریاست" نامی شےء میں اسلام
کے جن جن امور پر عمل پیرا ہونا ہماری استطاعت میں ہوا، وہ ہم کریں گے۔ ہماری
"استطاعت" میں یہاں اگر زیادہ امور ہوئے تو ہم وہ کریں گے۔ ہماری "استطاعت"
میں یہاں اگر کم امور ہوئے تو ہم وہ کریں گے۔ اور جو امور اسلام کے، یہاں ہماری
استطاعت سے باہر ہوں گے وہ ان شاء اللہ ہمیں خدا کی طرف سے معاف ہوں گے۔ اس
"عدم استطاعت" کی دلیل سے؛ ہم ایک غیراسلامی سے غیر اسلامی صورتحال میں
بھی "جو ہمارے بس میں ہے" اسے کرنا خود پر واجب سمجھیں گے۔ پس دلیل ہمارے
ایسی کسی صورتحال کے ساتھ چلنے کی "عدم استطاعت" ہے نہ کہ اس کا
"اسلامی" ہونا۔ "اسلام کی جس جس بات پر عمل ہمارے بس میں ہے" وہ
ہم ایک سوشلزم کی پیداکردہ صورتحال میں بھی کریں گے۔ ایک فاشسٹ صورتحال میں بھی۔
ایک ڈیموکریٹک صورتحال میں بھی۔ اور ایک امپریلسٹ صورتحال میں بھی۔ "جو ہماری
استطاعت میں ہے" اگر تھوڑا ہے تو تھوڑا کریں گے۔ زیادہ ہے تو زیادہ کریں گے۔
دین البتہ ہمارا اپنی جگہ ہے، کامل و مکمل، غیر متبدل۔ اس میں کوئی ریکونسائل
نہیں۔ اپنے دین کی سند ہم اسی شےء کو دیں گے جو فی
الحقیقت اس کے تابع ہو۔
اس لحاظ سے؛ "عمل" میں
تو ہمارا اور اسلامائزیشن والے حضرات کا شاید ایک اشتراک ہو۔ یعنی ہم بھی اس
"جدید ریاست" کے ساتھ ڈیل کر رہے ہوں گے اور وہ بھی۔ لیکن نظریاتی رُوٹ
ہمارا اور ان کا مختلف ہے۔ وہ اسے لیں گے اسے "حق" جانتے ہوئے۔ جبکہ ہم
اسے لیں گے اس دلیل سے کہ ایک باطل سے باطل صورتحال میں بھی حق کے جس حصے پر عمل
کرنا ہماری "استطاعت" میں ہو اس کا کرنا ہم پر واجب ہے۔ پس جہاں تک
اعتقاد کی بات ہے وہ اس کے معتقد و مبلغ ہوں گے، جبکہ ہم اس کے ناقد اور اس کو "اسلام
کی شےء" سے بدلنے کے داعی۔ اُن کی تعلیم و تلقین: اس پر ایمان دلوانا۔ جبکہ
ہماری تعلیم و تلقین: نظریاتی سطح پر اس سے بیزاری رکھنا۔
یہی مسئلہ سیاق و سباق اور پس منظر
کے تھوڑے فرق کے ساتھ ہم نے اپنی چند تحریروں میں بیان کر رکھا ہے۔ ایک تحریر [ایک
نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل، ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق]۔ ایک اور
تحریر [خلافت
مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر]۔ ایک اور تحریر [خلافت
اور کچھ یوٹوپیا افکار]۔ ایک اور تحریر [ماڈرن
سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں]۔
*****
سیریز کی پہلی پوسٹ پر، نوید
منظور صاحب کی طرف سے آنے والا سوال:
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ عام افراد پر محنت کرنے سے
انہی میں سے کچھ استثنائی افراد تیار ہو جائیں
جواب:
بالکل۔ نہ صرف ہو سکتا ہے، بلکہ
ہوتا ہی اس طرح ہے۔ صدا ایک عام ہی لگائی جاتی ہے۔ کوئی "سلیکشن انٹرویوز"
بہرحال نہیں ہوتے کہ کس کو داخلہ دینا ہے اور کس کو نہیں! نہ ہی دعوت پر لبیک کہنے
والے کسی بھی شخص کو ٹھکرایا یا نظرانداز کیا جاتا ہے، خواہ وہ کوئی عام ہو یا
خاص۔ ’محمود و ایاز‘ سب ایک ساتھ ہوں گے۔ توحید یعنی اللہ کی عبادت، جھوٹے خداؤں
سے بیزاری، رسول اور "اس کے لائے ہوئے" کے اتباع اور "لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ
دُونِهٖ أوْلِيَاءَ" کی ایک عام آواز ہی معاشرے کے اندر لگائی جاتی ہے۔ اور اسی
پر لوگوں کی حتى الامکان تربیت اور تثبیت کی جاتی ہے۔ اور یہیں سے اسلام کے مطلوبہ
ہیروں کے نکل آنے کی امید رکھی جاتی ہے۔ نبیﷺ نے جس اصلاحی عمل کا آغاز فرمایاوہ
ہمیں ایسا ہی نظر آتا ہے۔
یقیناً آپ پوچھ سکتے ہیں کہ پھر
ہمارے اس مجوزہ عمل میں اور اُس ’عوامی اصلاح‘ والے فارمیٹ میں کیا فرق ہے جسے ہم
پیچھے غلط یا اپنے وقت کی ضرورت کے حق میں
ناکافی یا غیرمتعلقہ قرار دے آئے ہیں؟
فرق اِس میں اور اُس میں ایک تو
فوکس کا ہے:
·
بلحاظِ "مخاطبین" بھی:
یعنی معاشرے پر حاوی ہو سکنے والے افراد کو بطور خاص اس کا مخاطب بنانا۔ انہیں خصوصی
طور پر اپروچ کرنا۔ اور انہیں اپنی اس حیثیت کو شرک کے خاتمہ اور شرعِ خداوندی کی تمکین
کی خاطر بروئےکار لانے پر باقاعدہ آمادہ کرنا۔
·
اور بلحاظِ تربیت بھی: یعنی دھارے
کے خلاف تیرنے اور معاشرے پر حاوی ہونے کا کیلیبر
caliber رکھنے والے افراد کےلیے اپنے پاس ایک ایسا پراسیس رکھنا جس سے گزر
کر وہ معاشرے پر اثرانداز ہونے اور معاشرے کو راستہ دکھانے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر
چلانے کے عمل میں چوٹی کی پوزیشنوں پر پہنچنے کی اہلیت پائیں۔ اور ایسے لوگوں کا
وجود بجائےخود معاشرے میں تبدیلی کا باقاعدہ ایک سافٹ ویئر بنے۔ نہ کہ "چند
عقائد اور عبادات اور اخلاق" وغیرہ اختیار کر لینے کو یہاں دین کے تقاضے ادا
ہو جانے کا ذریعہ باور کرنا۔
دوسرا، اس دعوت کا مواد اور کوالٹی
بھی ایسی رکھنا جس سے معاشرے پر چھائے ہوئے باطل کو بیخ و بن سے اکھاڑنے اور "مِنْ دُونِهٖ أوْلِيَاءَ" کی جگہ "مَا اُنْزِلَ إلَيْكُمْ مِن رَّبِّكُمْ" کو فائز کروانے کا ایک پیغام سمجھ
آتا ہو۔ اِدھر تو اس وقت یہ حال ہے کہ دعوت یا تبلیغ بس "اللہ ھو اللہ
ھو" سے عبارت ہے، یا پھر اس – تبلیغ – کا خلاصہ ایک "بھلا انسان"
بن جانا ہے، جس سے جاہلیت کو کیا تکلیف! یہاں تک کہ ’عقیدہ کی اصلاح‘ سے بھی جو
شےء بالعموم ذہن میں آ تی ہے تقریباً اس کا تعلق "فرد" ہی کی دنیا سے ہے۔
کوئی مسلک ہو، اس کی مجوزہ تبدیلی اپنے مضمون اور تاثیر میں اسی چھ فٹ کے "فرد"
کے گرد گھومتی ہے۔ یہاں تک کہ شرک سے خبردار کرنے کی صدا بلند ہو گی تو وہ بھی ان باطل
معبودوں کے حوالے سے جو لوگوں کے یہاں ’انفرادی حیثیت‘ میں پوجے جاتے ہیں۔ الا ما
شاء اللہ۔
یہ باتیں – براہِ کرم – غور کرنے
کی ہیں۔ بارک اللہ فیکم
_________
پس نوشت:
سلسلہ کی پوسٹ ۹ پر محمد احمد صاحب
کا ایک کامنٹ:
انقلابی
حلقے ہلکی بات کرتے ہیں جبکہ آپ کی بات میں شدت زیادہ ہے، اولاً تو انقلابی حلقے
"اسلامی نظام کا قیام" یا "حکومت الہیہ برپا کرنا" فرض عین
قرار نہیں دیتے. کم از کم مولانا مودودی رح اور ڈاکٹر اسرار احمد رح ایسا نہیں
کرتے، اُن کے نزدیک "اسلامی نظام کے قیام کی کوشش" فرض عین ہے. یہ
دو مختلف باتیں ہیں، جو اپنی استعداد کے لحاظ سے کوشش کر رہا ہے، وہ اللّٰہ کے
نزدیک سرخرو ہو گا اور نجات پا جائے گا جبکہ سزا اُس کا مقدر ہے جو صرف نماز روزے
کے ذریعے سے خدا کو راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے.
آپ
کی بات سے یہ لازم آتا ہے کہ جب تک فرض ادا نہیں ہو رہا ہے تب تک سب گناہ میں لت
پت رہیں گے خواہ کوشش کریں یا نہ کریں،اسلامی نظام قائم کیے جانے کے بعد ہی بندہ
پاک ہو سکے گا.
جواب:
۱۔ یقیناً ہم نے نہیں کہا کہ
انقلابی حلقے اسے فرضِ عین قرار دیتے ہیں۔ ہاں وہ اس کے دین کا ایک بنیادی ترین
فریضہ ہونے کا تاثر ضرور دیتے ہیں۔ ہم نے اسے فرضِ کفایہ کہا ہے تو دراصل اس بات
کا ابطال کرنے کےلیے کہ یہ دین کا ایک بنیادی ترین فریضہ ہے۔ کیونکہ جسے آپ فرضِ
کفایہ مان لیں وہ دین کا بنیادی ترین فرض نہیں ہو سکتا۔ "قیام یا برپا
کرنا" فرضِ عین نہیں بلکہ اس کی "کوشش" کرنا آپ کے نزدیک فرض عین
ہے، میرا مقصد بھی اس کی "کوشش" کے متعلق بات کرنا تھا، اسے میری تعبیر
کا غیر دقیق ہونا کہہ لیجیے۔ یہی سہی۔ یہ "کوشش" ہی ہمارے نزدیک فرض عین
نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ اور یہ تصحیح بہرحال لازم ہے۔
۲۔ اس بات کو دین کا ایک بنیادی
ترین فریضہ قرار دینا انقلابی حضرات کے بیانیہ سے اچھا خاصا عیاں ہے۔ یہاں تک کہ انقلابی
مفکرین کی بعض تعبیرات میں نماز روزہ کو بھی اس ’اصل فریضہ‘ کا کسی درجے میں تقاضا
یا اس سے متفرع ہونے والی کوئی شے جاننے پر مشتمل تقریر دیکھنے کو ملی ہے۔ پوسٹ ۹
میں میری یہ ساری گفتگو دراصل اس افراط کی تصحیح کےلیے ہے۔
۳۔ آپ کا فرمانا [[آپ کی بات سے یہ لازم آتا ہے کہ جب تک فرض ادا نہیں ہو رہا ہے تب تک سب
گناہ میں لت پت رہیں گے خواہ کوشش کریں یا نہ کریں]]، یہ "فرض کفایہ" نامی
شےء کے متعلق صحیح تفہیم نہیں۔ انسان کے بس میں ایک شےء کی کوشش ہی ہے، وہ کرنے کے
بعد بھی وہ کس دلیل سے گناہ میں لت پت رہے گا؟
پس نوشت ۲:
پوسٹ ۱۱ پر نوید
منظور صاحب کا کامنٹ:
یہ تشنگی باقی ہے کہ
اصلاح کے منہج میں مکمل تبدیلی کی منزل کیسے آتی ہے۔ یعنی جو اصلاح کا منہج یہاں
بیان ہوا ہے،، دی گئی صورتحال میں دستیاب وسائل میں جو اصلاح ہو سکے وہ کرنا، کیا
اسی سطح پر رہتے ہوئے اصلاح کا عمل رفتہ رفتہ سو فیصد تک پہنچ کر مکمل ہو جائے گا
یا کسی درجہ پر پہنچنے کے بعد نظام کی تبدیلی کے لئے کوئی خصوصی اقدام بھی درکار
ہو گا۔
جواب:
بہت ہی اچھا سوال ہے۔ "مکمل تبدیلی"
ایک کلائمیکس ہے اور کلائمیکس خدا کی اس دنیا میں کوئی بہت کثرت یا طوالت کے ساتھ
پیش آنے والا واقعہ نہیں۔ ناممکن بھی بہرحال نہیں۔ منہجِ اہل سنت انسانی فطرت اور
واقعیت پسندی پر قائم ایک منہج ہے۔ کسی خیالی دنیا میں آپ کو نہ بسانا اس کی خامی
نہیں بلکہ اس کی خوبی ہے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ [مکمل تبدیلی کی منزل اس میں کیسے آتی ہے؟] تو "مکمل تبدیلی" بھی یہاں اسی راہ سے
آتی ہے جس راہ سے "کچھ تبدیلی" آتی ہے؛ probability کے فرق کے ساتھ۔ اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ [اصلاح کا عمل رفتہ رفتہ سو فیصد تک پہنچ کر مکمل
ہو جائے گا؟] تو یہ
رفتہ رفتہ اوپر بھی جاتا ہے اور نیچے بھی۔ اوپر جاتے جاتے کسی وقت نیچے آ جاتا ہے،
اور نیچے جاتے جاتے کسی وقت اوپر اٹھ جاتا ہے۔ سارا مسئلہ مصلحین کی تعداد اور
استعداد کے ساتھ ہے؛ یا پھر مواقع اور خدا کی قضاء وقدر کے ساتھ۔ اور جہاں تک سوال
ہے: [کسی درجہ پر
پہنچنے کے بعد نظام کی تبدیلی کے لئے کوئی خصوصی اقدام بھی درکار ہو گا؟] تو"خصوصی اقدام" کی راہیں اپنی شروط
کے ساتھ ہمیشہ کھلی رہتی ہیں؛ صرف "کامل تبدیلی" کےلیے نہیں بلکہ کسی
بھی درجہ کی تبدیلی کےلیے۔ اصل فرق اس بابت ہمارے اور "انقلابی منہج" کے
مابین یہ ہے کہ ہم معاملے کو "جس طرح اور جس قدر ٹھیک کرنا ہمارے بس میں
ہے" اس بنیاد پر لیتے ہیں جو کسی وقت مطلوب سے بہت کم ہو سکتا ہے اور کسی وقت
مطلوب کے خاصا قریب یا عین مطلوب۔ جبکہ انقلابی منج میں دیکھنے کا زاویہ عموماً یہ
ہوتا ہے کہ یا "عین مطلوب" یا "کچھ نہیں"؛ جبکہ یہ دونوں
چیزیں بالعموم حقیقت اور واقعہ سے دور ہوتی ہیں۔