مابین "مسلک پرستی" و
"مسالک بیزاری"
تحریر:
حامد کمال الدین
میری
ایک پوسٹ
میں "مسالک بیزار" طبقوں کا کچھ ذکر آ گیا، جس پر ہمارے ایک بہت ہی عزیز
دوست کا سوال آیا:
شیخ
بات واضح نہیں ہو سکی۔ کیا مسالک کا بچاو مقصود ہے یا موجودہ مذہبی قیادت کے
متبادل کا خوف؟
اسے
روکنے کی کیا موثر حکمت عملی ممکن ہے؟
مسالک
کا بچاو، موجودہ قیادت کا پروموشن یا اصلاح کی کوشش یا پھر کسی "واقعی متبادل"
کی کوشش؟؟
مہتاب
عزیز
جواب:
کچھ
باتوں کو تھوڑا کھولا نہ گیا، تو میرے جوابات الجھاؤ کا باعث ہوں گے۔ اس طوالت
کےلیے معذرت۔
سب سے پہلے ایک وضاحت۔ "مسالک"
نام کی چیز جس سے ہم یہاں پر متعارف ہیں، ہمارے علمی مصادر میں معروف چلی آتی ایک
اور چیز "فقہی مذاہب" کی مترادف نہیں ہے۔
"مسالک" ہمارے برصغیر کی چیز ہیں؛ جو ڈیڑھ دو سو سال سے زیادہ پرانی
نہیں۔ اتفاق سے یہ وہ زمانہ ہے جب ہم معاشرے کی زمین سے پسپا ہو آئے اور "مسجد"
میں آ بیٹھے تھے۔ جبکہ "مذاہب" کسی مخصوص خطہ نہیں، امت کی، تیرہ صدیوں
سے چلی آتی چیز۔ اور وه ہماری ترقی اور نصرت مندی کی صدیاں ہیں۔ لہٰذا میری ان
گزارشات کے حوالہ سے "مسالک" اور "مذاہب" کو خلط نہ ہونا
چاہیے۔
کتاب و سنت کے سوا کسی شے کا پابند نہ ہونا؟
یہاں
"مسالک بیزار" طبقوں پر میرا پہلا ملاحظہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت اپنی اس
بیزاری میں "مسالک" اور "مذاہب" کا فرق نہیں کرتی؛ یعنی ہر دو سے یکساں آزاد۔
حالانکہ ہماری فقہ (یعنی دین سے اخذِ مسائل کا عمل) – تاریخی طور پر –
"مذاہب" ہی کی صورت چلا آیا ہے؛ ہر مذہب دراصل "فقہِ اسلامی"
کا ایک باقاعدہ ڈسپلن discipline ہے۔ جبکہ ڈسپلن ناگزیر؛ اور اس بات کا کوئی تعلق ’تفرقہ‘
(دھڑےبندی وغیرہ) کے ساتھ نہیں ہے۔ لہٰذا؛ "مسلک" و "مذہب"
ہر دو کو یکساں لینا درست نہ ہو گا ۔ جبکہ یہ (مسالک بیزار طبقے کی اکثریت) "کتاب
و سنت" کے سوا گویا کسی بھی شےء کی پابند نہیں۔ [یہ الگ بات کہ
"کتاب" اور "سنت" کی تعریف تک میں ان کے مابین اختلاف ممکن
ہے۔ پھر کتاب و سنت سے مسائل اخذ کرنے کے مبادی کا جہاں تک تعلق ہے (جنہیں ہمارے
علمی عرف میں "اصولِ فقہ" کہا جاتا ہے) تو اس باب میں یہاں اور بھی
زیادہ غرائب
دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔ ان
("مسالک" سے ہول کھا کر نکلنے والوں) میں آج ہر علمی سطح کے لوگ آتے
ہیں، اور ایسا طبقہ اپنے یہاں مسلسل رُو بہ اضافہ ہے۔ میرے خیال میں، یہ یہاں ایک
اور بھی بڑی انارکی anarchy لے کر آنے والا ہے۔ بنابریں…؛
"مسالک" پر آپ کتنے ہی شدید ملاحظات رکھتے ہوں، اِس "مسالک
بیزار" روٹ کا معاملہ اس سے دگرگوں ہے… اور شاید ’دشت کو دیکھ کے گھر یاد
آیا‘ والی بات۔ گو میرا یہ مطلب نہیں کہ "مسالک" سے ان حضرات کی وحشت نری
بےسبب ہے۔ یقیناً اپنی بہت سی باتوں میں یہ (مسالک بیزار حضرات) حق بجانب بھی ضرور
ہیں۔ مگر اس سے بھاگ کر جدھر کو وہ جا رہے ہیں، اس سے زیادہ تشویش ناک ہے۔
یہ
بات بھی اپنی جگہ نوٹ کرنے کی ہے کہ ہمارے برصغیر میں پائے جانے والے مسالک میں سے
ایک (اہل حدیث نام سے معروف) سامنے آیا ہی اس بنیاد پر تھا کہ لوگوں پر
"مذاہب" کی پابندی نہ رہنے دی جائے؛ پابندی ہو تو بس کتاب و سنت کی۔
اصولاً یہ وہی بات ہے جو آج کوئی بھی "مسالک سے بالاتر" شخص کرے گا۔ تاہم
اس (مسلک اہل حدیث) کے فی زمانہ رجال نے ایک اچھا کام یہ کیا (جس کے بغیر انسانوں
کا گزارہ ہی نہیں) کہ "دین سے ماخوذ" مسائل کا ایک مناسب ضرورت کا بنڈل a sizable bundle بھی اس "مذاہب کا پابند نہ
رہنے والی" دعوت کے ساتھ ہی لوگوں کو فراہم کر دیا۔ (اب یہ ایک تناقض تھا؟ یا
"غلط فقہ" کے مقابلے پر ایک "صحیح فقہ"؟ اس بحث میں ہم فی
الحال نہیں پڑیں گے۔ علاوہ ازیں، "صحیح" رہنے کےلیے یہ مسلسل اپ ڈیٹ update کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ
"نماز" ایسے متواتر عمل میں کہہ نہیں سکتے کہ "تحقیق" ہاتھ آ
چکی؛ خود اسی (نماز) کے اندر ہر پانچ دس سال بعد کچھ تبدیلیاں (حذف اور اضافے) عمل میں آتے ہم بچشمِ سر
دیکھتے ہیں، جبکہ باقی دین کا معاملہ شاید اس سے بھی زیادہ باعثِ فکرمندی ہو… یہ
باتیں بھی ہم سرِ دست اپنا موضوع نہیں بنائیں گے)۔ یہ بہرحال ایک ضرورت تھی کہ
"دین سے ماخوذ" مسائل کا ایک بنڈل یا ایک پیکیج رکھا جائے اور ایک گروہ (یا
ایک ماحول) میں آنکھ کھولنے والے (یا مخصوص صورتوں میں اس گروہ کو جوائن join کرنے والے) لوگ – وہاں کے رجال پر علمی سہارا کرتے ہوئے – "دین
سے ماخوذ" مسائل کے اُس بنڈل یا اُس پیکیج کو given (مسلّم بہٖ) کے طور پر لیں۔
کیونکہ اس کے بغیر – ایک غیر مجتہد کے حق میں – دین معطل ہے۔ حتىٰ کہ مجتہد کے حق
میں بھی مجتہد بن جانے کے بعد؛ ورنہ سب کے حق میں معطل ہے۔ نیز مجتہد کے حق میں
بھی شاید سب مسائل کے اندر نہیں؛ کیونکہ ایک ایک مسئلے کو دیکھنے میں زمانے بیت
جاتے ہیں۔ غرض مجتہد تک کے حق میں، کئی حوالوں سے، "دین سے ماخوذ" مسائل
کا ایک بنا بنایا (تیار حالت کا) پیکیج پڑا ہونا ضروری ہے۔ اب یہ بات جسے ہم نے
ناگزیر کہا ہے [یعنی "دین سے ماخوذ" مسائل کا ایک باقاعدہ پیکیج رکھنا
اور ایک ماحول میں آنکھ کھولنے والوں کے حق میں اس کا given (مسلّم بہٖ) ہونا]… ہم نے دیکھا
کہ اس بات نے اس گروہ (اہل حدیث) کو بھی آپ کے یہاں ایک "مسلک" بنا دیا!
اور آج یہ صورت حال، کہ ہمارے "آزاد" طبقے اپنی اُس "ناگواری"
disapproval میں اِس مسلک کو بھی وہیں پر رکھتے ہیں جہاں دیگر مسالک کو۔ اس کا
سادہ مطلب یہ ہو گا کہ "مسلک" بن جانے کے خوف سے اب آپ اس بات کی ہی
مخالفت کریں کہ
1.
ایک ماحول میں آنکھ کھولنے والوں
کے حق میں کچھ ایسے علمی رجال پائے جائیں جنہیں وہ given (مسلّم بہٖ)کے طور پر لیں۔
2.
نیز ان (رجال) کی تحقیق و استدلال
سے سامنے آنے والا مسائل کاپورا ایک پیکیج ہو جسے ان کے ہاں given (مسلّم بہٖ) کے طور پر لیا جاتا
ہو۔
اب یہ بات کتنی غیر علمی ہے اس پر نہ بھی جائیں، دین پر چلنے چلانے کے حق میں
اس کا غیر عملی ہونا حد سے بڑھ کر ہے۔ نیز
اس میں انارکی کی پوری ایک بنیاد پڑی ہونا واضح ہے۔
مسالک میں اصل ’قابل اعتراض‘ نقطہ کا تعین؟
"مسالک
بیزار" حضرات میں یقیناً ایک طبقہ ایسا ہے جسے ان علمی و عملی پیچیدگیوں کا اندازہ ہے جن کی جانب اوپر
اشارہ ہوا۔ ان کا مدعا سنیں تو گویا یہ کسی مسلک کے فی نفسہٖ "ہونے" پر
معترض نہیں [بایں معنىٰ کہ "مسلک" کچھ جانے مانے رجال پر علمی سہارا
کرنے کا نام ہو اور نتیجتاً؛ ان رجال کے ہاتھوں اخذ کیے گئے دین کے کسی مخصوص "مجموعہٴ مسائل" کو ایسے
پختہ راستے paved path کے طور پر لیا جائے جس پر انسانوں کا ایک بڑا طبقہ نسلاً بعد نسلٍ
عمل پیرا رہ لے؛ یہاں تک کہ اس کے ہاں وہ ایک "حوالہ" کی حیثیت رکھنے
لگے]۔ "مسالک" سے ان نیک حضرات کی بیزاری صرف ان رویّوں کے باعث ہے جو
اہل مسالک کے ہاں پرورش پا چکے ہیں اور جو تعصب اور فرقہ واریت کی ایک بدترین
تصویر پیش کرنے لگے ہیں۔ یہاں ہم کہیں گے: وجہ اگر اہل مسالک کے (بالعموم) "رویّے"
ہیں، تو آپ کی اس بیزاری کا تعلق ان "رویّوں" سے ہی رہنا چاہیے، نہ کہ
فی نفسہٖ "مسالک" سے۔ یہ تو تعصب کے مقابلے پر ایک "تعصب" ہوا
کہ آپ اپنے ناپسندیدہ شخص کی اس چیز کے خلاف بھی تحریک اٹھا دیں جو آپ کے اعتراض
کا محل ہی نہیں!
چنانچہ اعتراض اگر مسالک سے لوگوں کی وابستگی پر نہیں،
بلکہ اس وابستگی کے دوران پروان چڑھنے والے متعصبانہ رویّوں پر ہے… اور یہ تو شاید
ایک بہت صحیح genuine اعتراض ہے… تو پھر ہونا یہ چاہیے کہ آپ کی
تحریک "مسالک" کے مدِمقابل نہیں بلکہ مسالک سے وابستہ لوگوں کے یہاں پرورش
پا جانے والے کچھ ناروا "رویّوں" کے مدِمقابل ہو۔ "مسالک" کی
آپ بہرحال قدر ہی کریں گے۔ اس صورت میں؛ بالکل ضروری نہیں کہ اِس وقت جاری آپ کا یہ
جدل dialect "مسلک پرستی" کے مقابلے پر
"مسالک بیزاری" ہو؛ یعنی ایک نئی فرقہ واریت۔ بلکہ اس صورت میں یہ تحریک صرف "تعصب" کے
مقابلے پر "عدم تعصب" رہنی چاہیے؛ یعنی "فرقہ واریت" کے
مقابلے پر "اجتماع و شیرازہ بندی"۔ خود "اہلِ مسالک" میں سے
تب بہت سے انصاف پسند ہو سکتا ہے اس صدا میں آپ کے ساتھ ہو لیں؛ جس سے واقعتاً یہاں
کوئی اصلاح عمل میں آئے۔ تب بجائے اس کے کہ آپ "دیوبندیوں" کے خلاف
پوسٹیں کریں، "اہلحدیثوں" کو پوری کوشش کے ساتھ چڑائیں،
"سلفیوں" کو چھیڑیں… اور وہ بھی
اس بنیاد پر کہ یہ "دیوبندی"، "اہلحدیث"، "سلفی"
وغیرہ دینِ اسلام کے لحاظ سے کوئی چیز نہیں… یہاں تک کہ اپنے اس "رویّے"
سے آپ ان مسالک کے بہت سے غیرمتعصب لوگوں
کےلیے غیرمتعصب رہنا دشوار کر دیں؛ یعنی ان کے اندر کے "دیوبندی" یا
"اہلحدیث" کو جگانے اور اشتعال دلانے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کریں… یوں
فرقہ واریت کو ختم کرنے کے اپنے اس ’معصومانہ‘ فعل سے فرقہ واریت میں روز ایک نئی
جان ڈال آیا کریں… آپ "دیوبندیوں"، "اہلحدیثوں" حتیٰ کہ
"غیر مسلکیوں" میں سے کسی مخصوص غلط کار شخص یا اشخاص ہی کو موضوع
بنائیں اور اسی کے ظلم اور زیادتی کی نشان دہی کریں۔ بلکہ وہاں بھی جس قدر ممکن ہو
کسی کا نام لینے سے گریز ہی کرتے ہوئے (خصوصاً ان کے بڑوں کا) تاکہ تعصبات کو
جگانے کے گناہ میں آپ کا کوئی بھی کسی بھی صورت کا حصہ نہ پڑے؛ کیونکہ ابلیس سب سے
زیادہ اسی عمل میں رنگ اور جوش ڈالتا ہے؛ اور یہ ایک ایسا چین ری ایکشن chain reaction ہے جسے ایک چھوٹی سے چھوٹی ’تِیلی‘
کافی ہوتی ہے۔
*****
تعصب اور فرقہ واریت
کوئی عقیدہ نہیں بلکہ رویّہ ہے
یہاں ایک طرزِفکر کا جائزہ لیتے چلیں… کیا جس بھی عمل کے
حوالہ سے آپ دیکھیں کہ اس پر چلنے والوں کی تھوڑی یا زیادہ تعداد کے اندر کوئی
تعصب اور گروہ بندی پرورش پانے لگی ہے، اس کا تدارک آپ اُس عمل ہی کو غلط ٹھہرا کر
کریں گے، اگرچہ فی نفسہٖ اس عمل میں کوئی خرابی نہ ہو؟!
تعصب اور زیادتی انسان کی سرشت میں ہے (وَكَانَ الْإنْسَانُ ظَلُومًا جَهُولًا)، جو ایک صحیح چیز پر عمل پیرا ہونے کے دوران بھی انسانوں
کے مابین سر اٹھا سکتی ہے۔ خود "فقہی مذاہب" ہماری تاریخ میں ایک عرصہ
تک بڑی صحت مند اور جان دار چیز رہے۔ پھر ایک وقت آیا جب "مذاہب" کےلیے
لوگ تعصب پر اتر آئے؛ ایک دوسرے کے خلاف بڑے بڑے شدید اور شرم ناک مواقف ان کے بعض
طبقوں کے یہاں پرورش پانے لگے۔ یہ ایک بگاڑ تھا؛ اور اس کا علاج یہ کہ جس قدر بس
میں ہو اس تعصب کو ختم کروانے کی کوشش، محنت اور تربیت ہو، اور جہاں بس نہ ہو وہاں ایسی
زیادتیوں پر صبر۔ لیکن یہ تعصب وغیرہ دیکھ دیکھ کر ایک طبقے نے اس کا
"حل" یہ سوچا کہ "مذاہب" یا ان سے "وابستگی" کو ہی
غلط قرار دیا جائے! اور اس کا نتیجہ یہ کہ ان حضرات کی جنگ "تعصب" کی
بجائے "مذاہب" کے خلاف ہو گئی؛ جس سے ایک بڑی انارکی anarchy نیز ایک بڑی سطحیت naiveness اپنے یہاں جنم لینے میں کامیاب ہوئی۔
یہی معاملہ اب ایک عرصہ سے
"مسالک" کے ساتھ ہونے لگا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ "مسالک" ہوں
اور ان سے وابستہ ایک تعداد کے ہاں ان کےلیے "تعصب" نہ ہو۔ اس کا حل: اس
"تعصب" کی بجائے خود ان "مسالک" ہی کے خلاف جنگ!
دیوار پر آ بیٹھنے والے کوّوں کی
کائیں کائیں سے تنگ آ کر… اس چیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ دیوار کے کیا کیا
فوائد رہے ہوں گے، اس کو گرا دینا ہی اس کا حل؟! بلکہ ان لوگوں کو کوسنا جو کبھی
اسے بنانے کے ذمہ دار رہے یا جو آج اس کو بچانے کےلیے کوشاں یا اس کےلیے فکرمند
دکھائی دیں!
آگے چلیے۔ موجودہ زمانے میں، کہ جب
خلافت تو اپنے یہاں سے گئی ہی گئی تھی، اسلام کی علاقائی امارتوں نام کی چیز بھی
جاتی رہی، تو مسلم جذبہٴ عمل اور صلاحیتوں کو ایک اچھی سطح پر جوتنے کےلیے
"جماعتوں" یا "تنظیموں" کا فنامنا سامنے آیا۔ دین کا کچھ نہ
کچھ اِحیاء، دین کے کئی ایک اجتماعی فرائض کی مقدور بھر انجام دہی، یہاں تک کہ مسلم
خطوں پر چڑھ آئے کافر کے خلاف جہاد کے بعض محاذوں پر پورا اترنا، جیسا کیسا، انہی
جماعتوں/تنظیموں کا مرہونِ منت رہا۔ صورتِ موجودہ میں بہت سے ملکوں کے اندر ان کی
ضرورت اور افادیت مسلّم چلی آئی ہے۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ وہ تعصب اور زیادتی جو
انسان کی سرشت میں رکھی گئی ہے، یہاں بھی انسانوں کی ایک تعداد میں سر اٹھا لیتی
ہے… اور دھڑے بندی، حسد، رقابت اور مخالفت کے ایسے اَن گنت مظاہر اور واقعات کا ان
تنظیموں کے یہاں آسانی سے حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ تعصب، حزبیت اور دوسرے پر
زیادتی سے شاید ہی کوئی جماعت بچی ہوئی ہو… لہٰذا اس کا بھی وہی آسان حل: ختم کرو
ان کو، نکل آؤ ان میں سے، صبح شام ان کے خلاف بولو، یوں "حزبیت کے خلاف ایک حزبیت" سامنے لے آؤ! یعنی وہ لڑائی بھڑائی
اور توتکار بھی جسے امت میں ختم کروانا تھا اب آپ کے دم سے یک نہ شد دو شد، اور وہ
اہداف بھی جو ان جماعتوں کے دم سے کچھ نہ کچھ سر ہونے تھے گئے بھاڑ میں! صورتِ
موجودہ میں یہ جماعتیں ختم، تو انکل سام کا امت کو individualism کی راہ چلانے کا وہ ہدف خودبخود
آسان!
آپ دیکھ رہے ہیں، وہ ایک ہی اندازِفکر ہے جو ماضی میں امت کو "فقہی
مذاہب" سے برگشتہ کرانے سے لے کر… فی زمانہ اسلام کے بعض اجتماعی فرائض پر
جتی ہوئی "جماعتوں" تک – انسانی طبیعتوں کی زیادتیوں، ناہمواریوں کا –
وہی آسان حل دیکھتا ہے: انہیں ختم یا ترک کروانا، اگرچہ اس سے کیسا ہی خلا جنم
لیتا اور دین کے کتنے ہی امور خراب اور
معطل ہوتے ہوں!
تعصب کا جواب تعصب نہیں بلکہ اصلاح اور صبر
اصل کرنے کا کام، اِس باب میں، دو
باتیں ہیں:
1.
خرابی کو اس کی حد تک رکھنا۔ اور
جتنا زور دینا ہو اسی (خرابی) کی اصلاح اور درستی پر دینا، علاوہ دعاء۔ کوئی معالج
پھوڑے کا علاج عضو کاٹنے سے نہیں کرتا۔
2.
اصلاح کی کوششوں کے باوجود کچھ
پھوڑے خرابیاں رہتی ہیں۔ کچھ خاص حالات میں بڑھ بھی جاتی ہیں۔ ان پر بہرحال صبر کرنا۔
خدا کی اس دنیا میں، جو اُس نے ہماری شرطوں پر نہیں بنائی، کچھ چیزوں کا "ممکنہ
حل" ان پر صبر ہی ہے۔
اور اگر یہ نہیں… تو ایسا کریں ہر
چار بندوں کے اکٹھا ہونے پر یہاں پابندی لگا دیں، از روئےدین! ’دفعہ ایک سو
چوالیس‘! جہاں اکٹھ ہوں گے کچھ نہ کچھ خرابیاں وہاں پائی جائیں گی۔ یہ تو ہونے سے
رہا کہ پوری امت ایک "فقہی مذہب" یا ایک "مسلک" یا ایک
"تنظیم" میں آ جائے۔ تعدُّد تو رہے گا۔ اور جہاں تعدُّد ہو گا وہاں تعصب
آنے کا امکان بھی ہو گا۔ یہاں تک کہ "شیوخ" کےلیے لوگوں کے ہاں بڑا بڑا
تعصب آیا رہنا کتابوں میں ذکر ہوتا ہے۔ مطلب: خود ایک ہی "مذہب" یا ایک
ہی "مسلک" کے اندر بھی تلامذہ یا ارادت مندوں کے یہاں اپنے اپنے استاد
یا مرشد کےلیے خاصا خاصا تعصب آ جانا ۔ ایک ہی مشرب کی دو بڑی شخصیات یا دو بڑے
مدرسوں یا دو بڑے خانوادوں یا ایک ہی فن کے دو بڑے ستاروں کےلیے پیروکاروں followers یا شائقین fans کی عقیدت اور وابستگی کا دھڑوں کی
صورت دھار جانا۔ معاملہ رقابتوں تک جا پہنچنا۔ نیز ہم منصبوں یا ہم شعبہ لوگوں کے
مابین ایک دوسرے سے آگے گزر جانے کا جذبہ، یہ سب کسی کسی وقت، بلکہ اکثر، غیر
صحتمند مظاہر کی صورت میں سامنے آتا اور انسان کے اندر پڑے "شرورِ انفس"
کو باہر لا دھرتا ہے۔ یہاں شاعروں میں دھڑے بندیاں ملتی ہیں۔ ادیبوں کے مابین
لڑائیاں ہوتی ہیں۔ لابیاں بنتی ہیں۔ مفادات کا کھیل کہاں نہیں آ جاتا؟ انسانی
کمزوریاں کہاں نہیں ملتیں؟ تو کیا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ تعلیم و تعلم، وعظ و
ارشاد، روایت، شاعری، ادب اور فضل و سبقت پانے کے یہ سب جذبے اور سرگرمیاں اساس سے
غلط ٹھہرا دی جائیں؛ کہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!؟ قصہ کوتاہ: خرابی کی جس قدر
اصلاح ہو سکے اس کی کوشش، اور جو نہ ہو سکے اس پر صبرکے سوا کوئی چارہ نہیں۔ زندگی
کو معطل کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔
کسی چیز کو ختم کریں اس کے فی نفسہٖ غلط ہونے کی وجہ سے، نہ کہ اس کے باعث
لوگوں میں تعصب اور منافرتیں پیدا ہونے کی دلیل سے۔
*****
"فرقہ واریت" اہلِ مسالک کے ساتھ خاص نہیں
یہ تاثر بھی درست نہیں کہ مذہبی
فرقہ واریت صرف مسالک کے بیچ ہے۔ جیسے جیسے "مسالک سے آزاد" مذہبی طبقہ
ہمارے ہاں بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے مذہبی لڑائی بھڑائی کی ایک نئی سمت تیزی کے ساتھ
سامنے آ رہی ہے: "مسالک سے آزاد" طبقے کے بعض متعصب و شرپسند عناصر اور
"مسالک کے پابند" طبقے کے بعض متعصب و شرپسند عناصر کے مابین۔ خاصا بڑا
شور تو اب ایک عرصہ سے اسی لڑائی کا کانوں میں پڑ رہا ہے، خصوصاً سوشل میڈیا وغیرہ
پر۔
اصل بات کیا ہے؟ جیسے ہی آپ ایک
"طبقہ" بنتے ہیں، اور کسی دوسرے "طبقے" سے اپنا کوئی اختلاف
سامنے لاتے ہیں، تعصب، چھیڑ چھاڑ، پوائنٹ سکورنگ، اشتعال انگیزی، تنک مزاجی،
مخاصمت، ردِ عمل، وغیرہ رویّوں کی ایک
لمبی سیریز کے حوالہ سے آپ کی اور آپ کے مدِمقابل کی ایک آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ اُدھر
بھی ایک پورا طبقہ، اِدھر بھی پورا ایک طبقہ۔ ہر دوجانب کچھ لوگ معقولیت، ذمہ
داری، سلیقہ، تحمل، درگزر، ظرف، خیرخواہی، شیرازہ بندی، خداخوفی کی اعلیٰ مثالیں
قائم کرنے والے ہوں گے… تو کچھ لوگ اختلاف کے ان اعلیٰ معیارات کو قائم نہ رکھ
پانے والے بھی ہوں گے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی طبقہ ہو جو "جیالوں" کے
وجود سے یکسر خالی ہو۔ ایسی کوئی ضمانت دی بھی نہیں جا سکتی۔ بس جیسے ہی یہ آئیں
گے، معاملہ شروع! لہٰذا "فرقہ واریت" تو ہر "اختلاف" کے ساتھ
خودبخود آ جاتی ہے، خصوصاً جیسے ہی وہ "اختلاف" عوام کی سطح پر لے آیا
جائے اور کچھ خاص خواص تک محدود نہ رہے، پھر جب اس کے اندر ایک شدید گرمجوشی بھی آ
جائے۔ اب اس بات کو کسی ایک ہی "اختلاف" سے جوڑ رکھنا (مسالک کے اپنے
مابین پائے جانے والے اختلاف سے)، اور کسی دوسرے "اختلاف" کو اس سے مبرأ
رکھنا ("مسالک" اور "لامسلک" والوں کے بیچ اٹھ کھڑا ہونے والے
اختلاف کو)… یہ یا تو خوش فہمی ہے، یا استنتاج کا فریب (fallacy)، یا وہ دھونس کہ ’مجھے ایک بات کا
حق ہے اور تمہیں نہیں‘!
بنابریں… فرقہ واریت کا لفظ بولنے
کے ساتھ ہی "مولویوں" یا "مسالک" کا ذہن میں آنا، جبکہ مذہب
سے وابستہ دیگر طبقوں کےلیے ایک پکی کلین چِٹ ایشو ہوئی رہنا… حقیقت
کا صحیح یا پورا عکاس نہیں۔
نوٹ: تعصب و منافرت اٹھانے کے
حوالہ سے میری گفتگو میں "مسالک" والے کیمپ کا زیادہ ذکر نہیں ہوا، تو
اس باب سے کہ اس کا بیان کرنا تحصیلِ حاصل ہوتا۔ نہ اس باب سے کہ اس کا دفاع کرنا
مقصود ہے۔ یہاں فرقہ واریت کا عرصہ سے ڈیرے ڈال رکھنا ایک معلوم حقیقت ہے۔ بلکہ یہ
کہنا شاید غلط نہ ہو کہ دوسری جانب پائی جانے والی منافرت اسی کا ایک طبعی ردعمل
ہو۔
*****
ویسے کوئی علمی یا فقہی گروہ ہونا فرقہ واریت نہیں
ایک اور تاصیل بھی کرتے چلیں: آپ
کا ایک علمی یا فقہی گروہ ہونا کسی بھی لحاظ سے تفرقہ (گروہ بندی) نہیں، خواہ اسے
آپ مسلک کہیں، مشرب کہیں، مذہب کہیں، مدرسہ کہیں، یا مکتب، یا کچھ بھی۔ اور یہ دین
کی ایک باقاعدہ ضرورت ہے۔ معیار نام کی کسی چیز کا تصور ہی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس
بات کی کچھ وضاحت:
1.
دین نامی حقیقت اتنی بڑی ہے، یہاں
تک کہ دین کا کوئی ایک بھی شعبہ – مانند عقیدہ، یا فقہ، یا سلوک (تربیت) – اس قدر
بڑا ہوتا ہے…کہ وہ کسی اکیلے شخص میں سمانے کا نہیں، خواہ وہ کوئی ابوحنیفہ یا ابن
حنبل کیوں نہ ہو۔ واضح رہے، بعض مدارس یا مکاتب کا اپنی کسی ایک سربرآوردہ شخصیت
سے منسوب ہونا (جیسے حنفی یا حنبلی) محض ایک تسمیہ کی ضرورت کے تحت ہوتا ہے۔ ورنہ
ایک "مدرسہ" بہت سے بڑےبڑے
دماغوں کے خاصے عرصے تک ایک مخصوص جہت میں لگاتار عمل کرنے کا نتیجہ یا ثمر ہوتا
ہے۔ ایک معنیٰ میں وہ شے جسے آج زمانہ collective wisdom کے نام سے جاننے لگا ہے۔ ایک بہت بڑی شے کے صحیح
طرح انسان میں سمانے کی یہی صورت ہے۔ یعنی معاملہ "فرد" سے اوپر کا ہو
جانا۔ یہ بات (یعنی کسی اکیلے شخص کا ناکافی ہونا) بھی وہاں جہاں واقعی کوئی بہت
بڑا extra-ordinary سر بر آوردہ دماغ ہو۔ یعنی ایسی کوئی غیرمعمولی ہستی (فحل) بھی
ہو، تو ایک بڑی حقیقت کے کئی ایک جوانب کا احاطہ کرنے کے حوالہ سے اس کو ذُھول (ایک
بات یا پہلو کی طرف نگاہ نہ جا پانا) ہو سکتا ہے۔ قرونِ اولىٰ
سے، دین کا ہر علم اور ہر شعبہ "مکتب" یا "مکاتب" ہی کی صورت
چلا آیا ہے۔ علم کے کسی ایک بھی شعبہ کی پوری گہرائی اور گیرائی کو "ہاتھ میں
کرنے" کی یہی صورت رہی ہے؛ یعنی فرد نہیں مکتب۔
2.
ایسی کوئی بڑی شے جسے آپ
"مکتب" یا "مدرسہ" کہیں، روز بننے کی نہیں ہوتی۔ لہٰذا دوسری
چیز اس میں ایک دوام (continuity) اور انسلاک (belonging) ہوتا ہے۔ یعنی ایک بہت کام کی چیز خدا کی توفیق اور کچھ سربرآوردہ
دماغوں کی عرصوں پر محیط، لگاتار، ہم رنگ محنت سے سامنے آ گئی… تو وہ امت کو صدیوں
تک کام دے (دوام) اور ہزار ہا لوگوں کو کفایت کرے (انسلاک)۔ {شافعی ؒ کا اپنے دو
پیش روؤں – مالک بن انسؒ اور لیث بن سعدؒ – کے مابین یہ تقابل کرنا ایک طرح سے اسی چیز کا بیان
ہے: اللَّيْثُ
أَفْقَهُ مِنْ مَالِكٍ إِلَاّ أَنَّ أَصْحَابَه لَمْ يَقُوْمُوا بِهِ "فقہ میں لیثؒ مالکؒ سے بڑھ کر ہیں۔ بس یہ ہے کہ ان کے اصحاب
انہیں لے کر نہیں چل پائے" (سِیَر أعلَامِ النُّبَلَاء للإمام الذهبي)}۔
3.
آدمی خواہ علم کا پہاڑ ہو، کسی
مالک و شافعی کے پائے کا ہو، پھر بھی معاملہ جب "فرد" سے بڑا ہے، اور اس
کےلیے "مکتب" ہی ناگزیر ہے، جیسا کہ پیچھے کہا جا چکا، تو پھر ایک عام
سا آدمی تو کیونکر ’ذاتی تحقیق‘ کے سہارے چھوڑا جا سکتا ہے؟ پس آج کی وہ ’فری
لانسنگ‘ free-lancing جو حالیہ ’مسلک آزاد‘ طبقوں میں تیزی کے ساتھ مقبولیت پا رہی ہے،
کیونکر کسی کےلیے قابل تجویز ہو سکتی ہے، کجا یہ کہ وہ قابل فخر بھی مانی جائے ’کہ
وہ کسی کے پیچھے نہیں چلتا‘!
4.
"مکتب" جب ہو گا اپنے
"رجال" کے بغیر نہ ہو گا؛ اور یہ بات پچھلے تین مقدمات کا قطعی لازمہ ہے۔
رجال کا "حوالہ" ہونا ایک طعنہ آپ کی نظر میں اسی وقت ہو گا جب آپ
"مکتب" کے تصور سے نابلد ہوں۔"رجال" ایک مکتب کے یہاں درجہ بدرجہ ہوں گے۔ تاہم ایک بڑی قسم
"رجال" کی، وہ شخصیات ہوں گی جو اس مدرسہ کی اساس مانی جائیں اور صدیوں
اس کے حق میں حوالہ رہیں۔ جبکہ ایک دوسری قسم "رجال" کی، وہ شخصیات ہوں
گی جو آپ کے اپنے زمانے میں پائی جائیں اور اپنے ہم عصر عوام یا خواص کے حق میں اس
مدرسہ کی ترجمان مانی جائیں۔ معیار یا تسلسل نام کی چیز اس کے بغیر متصور نہیں۔ اس
"رجال" نامی ایک اعلیٰ پیشہ ورانہ professional تصور کو ’بابے‘ کہہ کہہ کر دین اور اس کے معیاروں سے
ناواقف عوام کے ہاں ایک جُگت بنا رکھنا کسی مجمع بازی یا عطائی پن سے کم نہیں
(معذرت کے ساتھ)۔ فٹ پاتھ پر بیٹھے اُسترا پکڑے ایک حجام کی طرح جو سرجری اور
میڈیکل سائنس کے جانے مانے معیاروں پر فقرے چست کرنا سیکھ جائے۔
5.
کسی مکتب کے "رجال" میں
شمار ہونے والی ایک شخصیت – خاص اپنی انفرادی حیثیت میں – خود مکتب کے یہاں بھی
تنقید یا مراجعہ سے بالاتر نہیں ہوتی۔ ایسی کسی شخصیت سے – خاص اپنی انفرادی حیثیت
میں – بہت بڑا بڑا "ذُھول" (بےخبری/بےتوجہی/عدم انتباہ) ہو جانا یا کوئی
فاش غلطی یا لغزش یا زیادتی ہو جانا مکتب کی اپنی نظر میں بھی ممکن ہی ہوتا ہے ۔
(دین کی معیاری تفسیر پانے کےلیے ’فرد‘ کی بجائے "مکتب" رکھنے میں یہ
بھی ایک بڑی حکمت ہے کہ فردی غلطیوں سے تحفظ ہو۔ collective wisdom ایک بہت بڑا "سیفٹی
والو" ہے)۔ لہٰذا ایک مکتب کی کسی ایک شخصیت سے سرزد ہو جانے والا کوئی قول
یا جملہ یا لفظ ’مجمع‘ کے اندر نکال نکال کر دکھانا اور اس پر اس کا ریکارڈ لگانا،
اس خیال کے تحت کہ اس سے پورے ایک مکتب کو گرا دینے میں کامیابی پا لی گئی ہے… یہ
بھی عطائی پن quackery ہی کی ایک صورت ہے۔ مکتب کا آفیشل موقف وہی ہو گا جو اس کے رجال کا عمومی یا
مجموعی رجحان ہو یا جو "مذہب" کے طور پر اس کے ہاں نقل ہوتا ہو۔ فرد کے
تفردات مکتب کی پوزیشن متعین نہیں کرتے۔ (اور یہی تو فائدہ ہے فرد کی بجائے مکتب
ہونے کا)۔ یہ بھی ویسا ہی ہے کہ ایک بہت بڑے ڈاکٹر کی کسی ایک یا چند فاش غلطیوں
کی نشان دہی کر کے سرجری یا میڈیسن کے پورے ایک سکول کو (اپنے تئیں) فرسودہ ثابت
کر لینا! اور اس پر ناسمجھوں کے سر ہلا دینے کو اپنی فکر کے "وائرل"
ہونے کے حق میں کوئی مخصوص آسمانی تائید جاننا!
6.
اوپر پوائنٹ 2 میں آنے والی بات… دوام: ایک مکتب (ڈسپلن) کا نسلوں چلنا۔ اور
انسلاک: ہزاروں لاکھوں انسانوں کا اُس مخصوص ڈسپلن میں آنا، جن میں ہر سطح کے لوگ
ہوں گے۔ اس سے؛ خودبخود ہر ’مکتب‘ ایک معنىٰ کا ’گروہ‘ بھی ہو گا۔ ایسا ہونے میں چنداں
مضائقہ نہیں۔ بیک وقت ایسے بہت سے علمی یا فقہی گروہ ہونا انہیں "فرقے"
نہیں بناتا۔ "سنت و جماعت" سے وابستہ ایسے بہت سے علمی یا فقہی گروہ مل
کر، "سنت و جماعت" سے خروج کر جانے والے ٹولوں – مانند خوارج، جہمیہ،
روافض، سیکولر وغیرہ – کے مقابلے پر ایک ہی فرقہ (ناجیہ) شمار ہوں گے۔ مطلب: اپنے
آپس میں ایک دوسرے کے مقابلے پر یہ علمی ڈسپلن ہوں گے، یعنی مکاتب۔ جبکہ باہر کے
اہل ضلال ’ٹولوں‘ کے مقابلے پر یہ ایک ہی یکجان "جماعت" (یا
"الجماعۃ")۔ یہاں سے "جماعت" کا معنىٰ بھی واضح ہوا جو دین
میں فرض ہے، اور مختلف علمی ڈسپلن (مکاتب) رکھتے ہوئے فرض ہے۔ جبکہ "فرقہ واریت"
کا معنىٰ بھی سامنے آیا، جس کی تھوڑی وضاحت اب ہم اگلے پوائنٹ میں کرتے ہیں:
7.
"تفرقہ" یا "دین
میں تنازع" کے متعلق اہل علم کے اطلاقات دیکھیں تو اس کی دو صورتیں ہیں: (1)
پہلا: سبیل المؤمنین سے خروج۔ اس کی مثالیں: خوارج یا روافض وغیرہ ایسی راہیں
اختیار کرنا (سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ
عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً)۔ (2) دوسرا: جن امور میں اہل سنت و حق کے مابین اختلاف کی
گنجائش ہے (جیسے حنفی، شافعی، مالکی کا اختلاف اپنی عمومی حیثیت میں)، اور جو کہ
اپنی حقیقت اور کُنہ میں صحابہؓ کے اپنے مابین ہوا رہنے والا علمی اختلاف ہے… وہاں
دوسروں کو اپنے مذہب پر لانے کےلیے فساد، دنگا، لڑائی جھگڑا اور تعدِّی۔ وہاں
مسلمانوں کی صف کو پھاڑنا اور آپس کی منافرتیں پھیلانا۔
8.
اب جب "جماعت" کا معنیٰ
بھی واضح ہوا جو کہ دین کے عائد کردہ بڑے فرائض میں سے ایک ہے، اور اس کے مقابلے
پر "فرقہ" یا "تفرقہ" کا معنىٰ بھی واضح ہوا جو کہ دین کے
حرام کردہ بڑے امور میں سے ایک ہے… تو اس بات کا اعادہ کر دیں کہ آپ کا "سنت
و جماعت" سے وابستہ بہت سارے علمی و فقہی گروہوں میں سے کوئی ایک گروہ ہونا
نہ تو فی نفسہٖ حرام ہے اور نہ فرقہ واریت۔ حرام اور فرقہ واریت اس میں اگر کچھ ہے
– اور یقیناً ہے – تو وہ ہے (اس دائرہ
میں) آپ کا اپنے مذہب یا مکتب (یا مسلک) کو دوسروں پر ٹھونسنا، اپنے علاوہ مکاتب
کے خلاف نفرتیں اگلنا، بغض کی فصلیں کاشت کرنا، ان کی تحقیر کرنا ("لَسْتُمْ عَلَى شَیْءٍ" والی حیثیت دینا)، ان کے ساتھ مل
کر ایک "جماعت" ہونے سے اِباء کرنا اور اس کو اپنے مقام سے فروتر جاننا۔
9.
دین کے بعض اجتماعی فرائض کی انجام
دہی کےلیے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے والی "تنظیموں" کا ہونا بھی فی
نفسہٖ فرقہ (واریت) نہیں۔ تاہم اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔
10.
بلاشبہ دور آخر میں ہمارے بہت سارے
علمی یا تنظیمی گروہ، اپنے ساتھ منسلک لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ہاں پائے جانے
والی خودزعمی، تعصب اور منافرت کے باعث، اوپر (پوائنٹ 7 میں) مذکور فرقہ (واریت)
کی صورتوں میں سے دوسری صورت کا شکار ہیں۔ تاہم اس کا حل، جیسا کہ پیچھے گزر چکا،
یہ نہیں کہ ان علمی یا تنظیمی گروہوں کے "ہونے" کو ہی تفرقہ جانتے ہوئے
اس کے خلاف تحریک اٹھائی جائے۔ (ان کے "ہونے" اور "رہنے" میں
فی نفسہٖ کوئی برائی نہیں)۔ بلکہ ان کی بڑی بڑی تعداد کے یہاں در آنے والے ان
منافرانہ رویّوں کی جہاں ہو سکے اصلاح کی جائے، اور جہاں نہ ہو سکے وہاں صبر اور
برداشت سے کام لیا جائے۔ دورِ زوال آخر کسی چیز کا نام ہے!
*****
اپنے دورِ حاضر کے مسالک
پہلے کہا جا چکا، برصغیر میں دورِ
آخر کے اندر دیکھے جانے والے "چاروں مسالک" اور تاریخِ امت میں اول عہد
کے "چار فقہی مذاہب" دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ان چار میں سے ایک مسلک (اہل
حدیث) کی بابت پیچھے کچھ بات ہو چکی، عقائدی جہت یہاں بہت اعلیٰ ہے۔ جبکہ ایک ’مسلک‘
(رافضہ) اپنے ٹیکنیکل معنیٰ میں "فرقہ" ہے اور "سنت و جماعت"
سے آفیشلی officially باہر۔ "فرقے" چھڑوائے ہی جائیں گے۔ لہٰذا
"مسالک" کے متعلق ہماری جتنی بات ہوئی وہ اس سے متعلقہ نہیں۔ گو ان سے
کافروں والا معاملہ ہمارے نزدیک درست نہیں۔ "بدعتی ٹولے" اور ان کے ساتھ
تعامل ہماری عقائدی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں؛ اور کوئی یکسر نئی بحث اس پر آج
چھیڑنا ہماری ضرورت نہیں۔ رہ گئے باقی دو مسلک (یعنی دیوبندی اور بریلوی) تو ان
دونوں کی فقہی پوزیشن ایک سی ہے، یعنی حنفی۔ ان کے مابین فرق کرنے والی چیز ان کی
عقائدی پوزیشنیں ہیں، جن میں ان کے مابین محاکمہ سر دست ہمارا موضوع نہیں۔ البتہ
عقائدی پوزیشنیں ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں؛ جو "فقہی پوزیشن" کی طرح اختلافِ
سائغ (قابلِ قبول اختلاف) کے تحت درج نہیں ہو جاتیں۔ یہاں بھی "سب اچھا
ہے" یا "یہ تو نرا فروعی اختلاف ہے" حقیقتِ امر کی عکاسی نہیں۔
یہاں؛ بلاشبہ مسئلے ہیں۔ تفصیل میں جانے کا یہ مقام نہیں، تاہم بہت کچھ
یہاں پر ایسا ہے کہ آپ کا وقت، محنت اور توجہ اگر دین کے اس سے اہم تر کسی محاذ
کےلیے وقف نہیں کر رکھی گئی تو اس اختلاف کی خبر لینا جو یہاں پائے جانے والے
مسالک کی کچھ مخصوص عقائدی پوزیشنوں سے متعلق ہے… اس میں؛ جس جس چیز کو اصولِ اہل
سنت کی رُو سے آپ غلط سمجھتے ہیں، لوگوں کو اسے چھوڑنے کےلیے کہنا، اس کا بطلان ان
پر واضح کرنا… حکمت، موعظہ حسنہ وغیرہ سے کام لے کر اسے بدلنے کی پیہم کوشش کرنا…
اور اس پر اگر کچھ رد عمل آئے تو درگزر، جبکہ احسان، اپنائیت اور خیرخواہی کا دامن
اس پورے عمل کے اندر نہ چھوڑنا… دینِ حق کا تقاضا رہے گا۔
خود ہم اگر برصغیر کے اس پنڈورا
باکس کو عموماً ہاتھ نہیں لگاتے تو اس لیے کہ: اپنے محدود سے وقت اور صلاحیتوں کا
بنیادی مصرف prime use – صورتِ موجودہ کے اندر – ہم نے یہ رکھا ہے کہ اسلام پر اس کی تاریخ کی جو
منفرد ترین یلغار اہلِ کفر و نفاق کے ہاتھوں آئی ہوئی ہے، اور صدی دو صدی کی محنت
سے اب وہ ہمارے مسلم معاشرے کو چاروں شانے چت کیے اس کی چھاتی پر چڑھی بیٹھی ہے…
اور جو کہ ہماری تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا، پھر اس نایاب ترین موقع سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے وہ یہاں اب کچھ بہت دور رس اقدامات بھی کیے جاتی ہے، اور جس سے ہمارا
مذہبی طبقہ بالعموم غافل اپنے اُنہی پرانے معمولات میں اس درجہ گم ہے گویا یہ
واقعات ابھی بھی ’مغرب‘ کے اندر پیش آ رہے ہیں اور بس ’اخباروں‘ میں پڑھے جانے کے
ہیں!…… تو یہاں ہم اپنے وقت، ہمت اور صلاحیت کا جس قدر مصرف کر سکیں خاص اس ہدف پر
کریں کہ کفر اور نفاق کی اس بدترین اور بےرحم ترین یلغار کے مقابلے پر اہل سنت کا ایک
وسیع تر محاذ اٹھانے میں کچھ ہمارا حصہ ہو۔ ہاں یہ "ترجیحات" priorities کا تعین البتہ ایک درست مبدأ ہے۔ علاوہ ازیں، اہل حق کے مابین تقسیمِ کار division of work ایک درست مبدأ ہے؛ اور ہمارے دین
میں موجود "فروضِ کفایہ" کے تصور سے ہم آہنگ۔ پھر، محاذوں کو خلط کرنے
سے بچنا الگ سے ایک درست مبدأ ہے، تا کہ آپ کی فاعلیت زیادہ سے زیادہ یقینی بنائی
جائے۔ خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب ’زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘۔ ورنہ ایسا نہیں کہ
بہت کچھ یہاں (مسالک کی دنیا میں) خاصا خاصا سنجیدہ نوٹس لینے کا نہیں۔ کفر اور ارتداد
کے لشکر ہمارے صحن میں آج یوں نہ دندنا رہے ہوتے تو یقیناً اس گھر کا بہت کچھ بدل
دینے کا تھا اور ہرگز یہ اس حال پر چھوڑنے کا نہ تھا۔
اس کے باوجود… ہم کہتے ہیں، جس کسی
صاحبِ عقیدہ کی صلاحیت اور تیاری "مسالک" وغیرہ کی اسی داخلی اصلاح کے
ساتھ زیادہ موافق ہے، اور اس کی فاعلیت وہیں پر زیادہ کارگر ہے، وہ بےشک آج بھی
اسی ہدف پر جتا رہے۔ بلکہ ضرور بضرور ایسا کرے۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے، اہل حق کے
مابین تقسیمِ کار ایک درست مبدأ ہے، اور یہ سب مل کر ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔
ایک بہت اچھی بات ان تینوں مسالک
سے متعلق یہ ہے کہ صحابہؓ پر ان کی پوزیشن ایک سی ہے (جس سے ایک بہت گہرے اور
دوررس عمل کی بنیاد پڑ جاتی ہے)۔ یہاں تک کہ مشاجراتِ صحابہؓ ایسے نازک ترین مقامات
پر سب یوں جیسے گھڑیاں ملائی ہوئی ہوں (synchronization)! (مسلک آزاد
طبقوں کی ایک تعداد کےلیے کسی قدر باعثِ آزاری!)۔ صحابہؓ کی حیثیت بطور شان و مقام
بھی، اور صحابہؓ کی حیثیت بطور بنائے شرع کا سنگِ بنیاد بھی، سب کے یہاں ایک سی۔
(حیرت انگیز حد تک، وہ دقیق سے دقیق پوزیشن جو صحابہؓ، اہل بیتؓ، خلفاءؓ، ان کے مواقف، اور ان سے خروج
یا ان کی سنت سے انحراف، وغیرہ موضوعات پر اہل سنت کی کتبِ عقیدہ میں ایک سٹینڈرڈ بیانیہ
standard narrative کے طور پر ملتی ہے، وہ ان تینوں میں سے ہر ہر مسلک کے مین سٹریم main-stream کے یہاں آپ کو من و عن مل جاتی
ہے۔ اور بسا اوقات رَتّیوں ماشوں کا فرق نہیں ہوتا)۔ صحابہؓ کے مرویات (حدیثی
ذخیرے) سب کے ہاں حتمی و قطعی مراجعِ دین؛ اور ان کے نصابوں کا حصہ۔ اس کے تسلسل
میں؛ اصولِ حدیث ایک۔ کتبِ رجال ایک۔ تصحیح و تضعیف اور تحقیق و تخریج کے اوزار
ایک۔ وہی محدثین سب کے محدثین۔ وہی تصانیف سب کی تصانیف۔ پچھلی صدی دو صدی چھوڑ
کر، شروحِ حدیث سب کی مشترک۔ حوالے references اس باب میں سب کے لفظ بلفظ ایک سے۔ کوئی مشکل نص دیکھتے ہی
سب کے ہاں جو کتابیں کھلیں گی، وہ ایک۔ تفسیر پر اہل سنت کی امہات الکتب ہی سب کے
ہاں "تفسیر"؛ اس کے سوا قدیمی مکتبہ میں یہ کچھ نہیں رکھتے۔ صحابہؒ سے
چلےآتے علمی دساتیر سب کے ہاں مسلّم؛ اور ان کا پڑھنا پڑھانا کسی نہ کسی صورت انہی
سے جُڑا۔ لغت کی کتب ایک۔ ادب کے ساتھ تعامل ایک سا۔ لفظ و تعبیر سب کی ایک سی۔
تاریخ کے مراجع ایک۔ یہاں تک کہ تاریخ کے متعلق مواقف اور جذبات سب کے ایک سے۔
(جوکہ تاریخی و تہذیبی طور پر آپ کو "ایک گروہ" رکھنے، نیز "حلیف و
حریف" کو ری لوکیٹ relocate کروانے، اور کچھ رکے ہوئے دھاروں کو بحال کروانے میں فیصلہ کن رہتا ہے؛ اور یہ ایک ہی بات آج ہمیں درپیش
تہذیبی گھمسان کے پس منظر میں کوئی چھوٹی بات نہیں ہے)۔ مفاخر ایک۔ سانحے ایک۔ عدل
اور ظلم کے کردار اور استعارے حرف بحرف وہی۔ زہد میں ائمہ اور اُسوہ ہستیاں سب کی
وہی۔ اَخلاق کے مواعظ وہی۔ دعوت و عزیمت، امر و نہی میں روایات سب کی وہی۔ اصلاح و
تجدید میں آئیڈیل شخصیات اور حکایات سب کی وہی۔ سِیَر ایک۔ علومِ شریعت و حفظِ
شریعت کی بابت رویے یکساں۔ تدریس ایک سی۔ نصابوں میں – ایک "فقہ" اور اس
سے ملحق "اصولِ فقہ" کو چھوڑ کر (نیز کچھ کتبِ کلام کو چھوڑ کر) – باقی
سب کچھ میں ایک حیرت انگیز یکسانیت۔ یہاں وعظ و خطابت کے ہاتھوں ’سڑک‘ پر اڑی ہوئی
دھول سے اگر آپ گزر کر دیکھنے پر آمادہ ہوں، تو تعلیم گاہوں اور سنجیدہ مجلسوں میں
تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ ایک ہی جماعت بیٹھی دکھائی دے گی۔ اس اتنے بڑے سرمائے کو،
اپنے اس دورِ مفلسی میں، کسی شوقِ دانش وری کے پیچھے لگ کر، کیا ہم یونہی قربان کر
دیں؟ ’فرقہ واریت‘ کا طعنہ اتنا بڑا تو
نہیں کہ اپنی اس عظیم الشان دولت سے ہاتھ دھو لیں… اگرچہ اس کی سرمایہ کاری ایک نئی
محنت چاہتی ہو! جیسی کیسی یہ ’آبادیاں‘ چھوڑ کر اُس "بیابان" میں جا
بیٹھیں جہاں سمتوں کا تعین تک ابھی مشکل ہے اور جو کسی دشتِ تیہ کا نقشہ پیش کرتا
ہے! کیا کوئی دانش مند قبول کرے گا کہ وہ ایک اتنا بڑا اثاثہ شعلہ باز واعظوں کے آگ
لگانے کو چھوڑ دے اور اس کو بچانے کی ہر ہر تدبیر نہ کرے؟! یا ایک ’نئی دنیا‘ بسانے کے جھانسے میں آ کر اس آبائی شےء سے ’بقلم خود‘
اپنی دستبرداری لکھ دے؟!
*****
ان تاصیلات کے بعد اب میں آپ کے
سوالات پر آ سکتا ہوں۔
س:
کیا
مسالک کا بچاو مقصود ہے یا موجودہ مذہبی قیادت کے متبادل کا خوف؟
جواب:
خوف نہیں۔ میری تو طلب ہے۔ اور
دعاء ہے۔ بلکہ متبادل کا لفظ بھی کچھ زائد ہے، کیونکہ قیادت ہی تو یہاں نہیں ہے۔ البتہ
متبادل کا لفظ اگر میری متعلقہ پوسٹ کے تناظر میں بالتعیین کسی شخص کےلیے آیا ہے،
تو شاید ہاں۔ اور اس ’خوف‘ کی نوعیت: فَرَّ مِنَ الْمَطَرِ، وَقَامَ تَحْتَ الْمِيْزَاب "بارش سے بھاگا اور پرنالے
تلے جا کھڑا ہوا"!
رہا مسالک کا بچاؤ؟ تو الدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ "دین خیرخواہی ہے"۔ ایک
مسلم فرد یا گروہ اگر کسی اچھی حالت میں نہیں بھی ہے تو اس سے بری حالت میں پڑنے
سے اس کو بچایا ہی جائے گا۔ ہاں اگر اس سے بہتر کسی حالت میں لانے کی کوئی بات یا
آپشن ہو، تو ضرور۔ اور یہ ہم سب – مقدور بھر – کر بھی رہے ہیں؛ اور مزید کےلیے آرزو
مند۔ یقیناً یہاں بہت کچھ تبدیل ہونے کا اشد ضروت مند ہے؛ مسئلہ اپنے دامنِ
استطاعت کا ہے۔ إِنۡ أُرِيدُ إِلَّا ٱلۡإِصۡلَٰحَ مَا ٱسۡتَطَعۡتُۚ
وَمَا تَوۡفِيقِيٓ إِلَّا بِٱللَّهِۚ
*****
"حل" کی طرف
س:
اسے
روکنے کی کیا موثر حکمت عملی ممکن ہے؟
مسالک
کا بچاو، موجودہ قیادت کا پروموشن یا اصلاح کی کوشش یا پھر کسی "واقعی متبادل"
کی کوشش؟؟
جواب:
میری اُس پوسٹ میں ویسے اتنی بات ہوئی تھی کہ اسے چمکانے
میں مددگار مت ہوں۔ "روکنا" البتہ حل ہے نہ ہدف۔ پیروؤں کی سطح، پیشواؤں کا معیار طے کرتی ہے۔ سو یہ
ہنگامے تو رہیں گے، خواہ کچھ بھی کر لیں۔ بلکہ روکنے سے شاید اور بڑھیں۔ حکمتِ
عملی، اس بحران سے نکلنے کی ہونی چاہیے، نہ کہ اس مٹی کو کیچڑ بنانے کی۔ اس کےلیے
میرا مختصر جواب:
ایک فعال، پُرتحمل، بےلوث، دین فہم، باصلاحیت، اثر آور،
آئیڈیلزم (یوٹوپیا) سے دور، ہر الجھے ہوئے معاملے میں خیر کے پہلو کو اوپر لا سکنے
والی، شر کو طرح دے جانے اور راستے کے ہر غیرضروری کانٹے سے دامن بچا کر گزر سکنے
والی، سرایت کی استعداد سے لیس، گمنام، وسیع البنیاد broad-based، غیر رسمی informal، اصلاحی جمعیت ۔
یہاں broad-based سے مراد: وہ ہر مسلک میں ہو۔ ہر تنظیم میں ہو۔ ہر شعبے میں ہو۔ ہر
فورم پر ہو۔ ہر سرگرمی میں ہو۔ اور ہو سکے، تو ہر پارٹی میں ہو۔
جبکہ غیر رسمی سے مراد: وہ خود نہ کوئی مسلک ہو، نہ تنظیم، نہ جماعت، نہ
دھڑا، نہ پارٹی، نہ نام، نہ عنوان۔ اس کا کل سروکار: "سنت و جماعت" میں
ہر خیر کو اوپر لے آنا اور زیادہ سے زیادہ مؤثر بنا دینا۔ ہر شر کو، اس کے ساتھ
زیادہ الجھے بغیر، غیرمؤثر کر دینا۔ (یہاں آپ کے الجھنے کےلیے وہ شر بہت ہے جو "سنت
و جماعت" سے باہر ہے)۔ نیز غیررسمی سے
مراد: اس کی کوئی اپنی hierarchy نہ ہو۔ ہاں معلم، مربی یا inspirational resource ہو سکتے ہیں، وہ بھی بہتر یہ ہے
کہ کسی ایک ’مسلکی پس منظر‘ سے نہ ہوں۔
آئیڈیلزم (یوٹوپیا) سے دور، مراد: اپنے تعامل کےلیے خیر اور شر کے مطلق حوالے نہ
رکھتی ہو: ’فلاں تنظیم میں اس خرابی کے ہوتے ہوئے بھلا آپ کیسے رہ سکتے ہیں!‘۔ ’مسالک
میں یہ یہ کچھ ہوتے اور چلتے ہوئے کیسے آپ نے وہاں رہنا گوار کر لیا!‘۔ یا
وقتاًفوقتاً ایسا آئینہ دکھانا کہ کیا ابھی بھی آپ ان کے ساتھ چلیں گے! چنانچہ آئیڈیلزم سے خاص یہاں ہماری مراد: کسی مسلک یا
کسی تنظیم وغیرہ میں "نہ" ہونے کو باقاعدہ سراہنا اور پروموٹ کرنا (بلکہ
ایک طرح سے اس کی تحریک چلانا) اور نتیجتاً؛ ایسے تنہا چلنے والے اور ’غلطیوں پر
ہمیشہ سب کو ٹوکنے والے‘ فکری یا صحافتی ٹارزن پیدا کرنا جنہیں اپنے سی وی CV کے صرف ایک نقطہ کی فکر ہو: انہوں
نے کبھی کسی غلطی والے گروہ کی تائید نہیں کی اور کبھی کسی کو بےنقاب کیے بغیر
نہیں چھوڑا! اس کی ظاہر ہے ایک ہی صورت ہو سکتی ہے: یہ خود کسی گروہ میں نہ ہوں۔
اکیلے جییں اور اکیلے خدا سے جا ملیں! غرض ایسی خیر کا متلاشی یا منتظر ہونا جس کے
ساتھ کوئی شر ملا ہوا نہ ہو، جو کہ اس دنیا میں کم ہی کہیں دستیاب ہو گا۔ (نوٹ: اصول
اہل سنت میں ایک اہم مبحث بعنوان "فقہ الموازنات" ہمارے ویب سائٹ پر دے رکھا گیا ضمیمہ اس باب میں دیکھ لینا فائدہ مند
ہو سکتا ہے)۔
جبکہ اصلاحی سے یہاں ہماری ایک خاص مراد "انقلابی" اپروچ کے
مقابلے پر ہے۔ مطلب: ایک صورتِ درپیش کو – مجموعی طور پر – ہی بہتر کرنے
میں اپنا کردار ادا کرنا۔ اس کو اندریں حالات "جس قدر"
ٹھیک کیا جا سکتا ہو [آپ اپنی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے بھی، اور ماحول میں پائے
جانے والے عوامل، مواقع ( اور رُفَقاء بلحاظ تعداد، و بلحاظ معیار) کو سامنے رکھتے
ہوئے بھی]… "بس اسی قدر" ٹھیک کرنے کی فکر کرنا۔ نہ کہ تبدیلی کا
کوئی خاص حجم یا حد پہلے سے مقرر کر لینا، اور پھر اس کےلیے ’درکار‘ افراد،
امکانات اور مواقع پر اصرار کرتے ہوئے پوری عمر "اسی" کےلیے تگ و دو
کرنا… اور اگر یہ ’درکار‘ نہ ملے تو آخرِ عمر اس ناکامی کو ’دیہاڑی دار مزدور‘
والی منطق سے کامیابی بنانا اگرچہ وہ بھاری پتھر وہیں کا وہیں پڑا ہو، مگر یہ
سوچنے پر آمادہ نہ ہونا کہ اہداف کے تعین میں ہی کوئی غلطی کر لی اور چادر دیکھے
بغیر پاؤں پھیلا لیے گئے تھے۔ واضح رہنا چاہیے، چودہ صدیوں سے امت کے نامور اَعیان
اور صُلَحاء نے اسی "اصلاحی اپروچ" کے ساتھ امت کی حالت بہت بہت
بدل لینے اور صورتحال کو بہت بہت اونچا لے جانے میں کامیابی پائی؛ اور یہ ایک
نہایت مجرب، عملی اور حقیقت پسندانہ منہج ہے۔ "اصلاحی اپروچ" کا یہ مبحث ہم نے مختصر طور پر کہیں کہیں واضح کیا
ہے، تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ کسی وقت اس کا بیان کیا جائے گا۔
*****
اصل جواب تو "حکمتِ عملی" کے متعلق اوپر ہو
چکا۔ تاہم سوال میں وارِد آپشنز پر بھی تھوڑا عرض کر دوں:
مسالک کا بچاؤ؟ یا مسالک
کا گراؤ؟
ہدف اگر یہ ہو کہ اس حالیہ بحران سے نکلنا ہے… تو اس پر عرض کروں گا کہ: نہ مسالک کا بچاؤ اور
نہ مسالک کا انہدام۔ یہ دونوں کام اس وقت آپ کی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ وہ پوائنٹ ہے
جہاں الجھ کر آپ اپنا بقیہ سفر ختم کر بیٹھیں گے اور ساری عمر اسی گرداب میں پھنسے
رہیں گے۔ نہ یہ کوئی مختصر عرصے میں ٹھیک کر لینے کی چیز ہے، اور نہ فتح کر لینے کی،
اور نہ ختم کر دینے کی۔ جبکہ زمانہ آپ کے اقدامِ حق کا بےصبری سے منتظر۔ لامحالہ؛
اس بھنور کو طرح ہی دے کر گزرنا ہو گا۔ زمانے کو بہت دیر آپ انتظار نہیں کروا
سکتے۔ سو اِس (پرو-مسالک بمقابلہ اینٹی-مسالک) محاذ پر
لڑنے والے، اور اسے نیکی سمجھ کر یہاں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے
والے – خواہ وہ محاذ کے اِس طرف ہوں یا اُس طرف – اگر مخلص بھی ہیں تو اپنا اور
امت کا وقت برباد کر رہے ہیں، علاوہ فتنوں کو ہوا دینے کے، جبکہ فتنے ہمارے ہاں
پہلے بہت ہیں۔ (سخت الفاظ کےلیے معذرت)۔ پس "مسالک" ایجاباً یا سلباً آج عمل
پسند طبقوں کی سرگرمی اور دوڑ دھوپ کا محور نہ ہونے چاہییں۔
البتہ چونکہ یہ بات عمل پسند طبقہ کے نظر انداز کرنے کی
نہیں کہ برصغیر کا مسلمان قریب قریب مسالک ہی کے اندر محصور ہے، اور اس کو یہاں سے
ہٹانا فی الحال ایک پہاڑ ہلانے کے مترادف، جو ہماری توانائیوں کا اِس وقت تو مصرف
ہی نہیں ہے، اور نہ ہماری فوری ترجیحات اس کی متحمل، پھر یہ کہ حالیہ مسالک فی
نفسہٖ کوئی اتنی بری چیز بھی نہیں جتنی ایک مخصوص پراپیگنڈہ نے بنا ڈالی ہوئی ہے،
بلکہ اصولاً یہ فی الوقت کے "اینٹی مسالک" سے کسی درجہ بہتر ہی ہوں گے
(جیسا کہ پیچھے بیان ہوا)… لہٰذا مسالک کو "ٹھیک" کرنے کے کسی مشن پر
روانہ ہوئے بغیر، ان کے ساتھ وہ محبت اور اپنائیت تو جو مسلمان کا مسلمان پر حق
ہے، ضرور ہی رکھیں؛ اگر واقعتاً یہاں آپ کچھ "انجام" دینے کے متمنی ہیں۔
"مسالک" کو اپنا دشمن بنانا ہے تو پھر ساری عمر یہی کریں اور ’بڑے‘
اہداف کا بھول جائیں! کیا آپ نے دیکھا نہیں، مسالک کے ساتھ محاذ کھولنے والے پھر
کچھ اور نہیں کرتے! (؎’مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘!)۔ محبت، تعلق، کلمہٴ
خیر تو کم از کم چیز ہے؛ اور یہ (یہاں کے نوّے پچانوے فیصد) آپ کے مسلمان بھائی
ہیں۔ اس سے بڑھ کر… اپنی مطلق اطاعت اصولِ حق کےلیے رکھتے ہوئے، کچھ حرج نہیں ان
مسالک کے اندر رہا جائے اور یہاں خلقِ خدا کو فائدہ پہنچایا جائے۔ خرابیاں کہاں
نہیں ہیں؟ اگر ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ اسلام کو فائدہ دینے کےلیے، لاکھ
خرابیوں کے باوجود، آپ "تنظیمیں" نہ چھوڑیں، محکمے نہ چھوڑیں، سماجی
مناصب نہ چھوڑیں؛ کیونکہ ’موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘!… تو
"مسالک" سے ناطہ توڑ آنا کیا ضروری ہے؟
موجودہ مذہبی قیادت کا
پروموشن؟
اور جو آپ نے پوچھا "موجودہ قیادت کا
پروموشن"؟ تو میرے خیال میں، یہ شہادتِ زُور میں آئے گا۔ اور فائدہ بھی اس کا
دینی، دنیوی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، کچھ نہیں۔ اِلا یہ کہ "قیادت" سے آپ
کی مراد کسی مسلک کے حقیقی علماء ہوں۔ ہاں اس صورت میں، بلاشبہ۔ بلکہ کسی ٹھوس
دُور رَس اصلاحی عمل کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ یہاں اگر ہو جاتا ہے، تو کرنے کے کچھ
نہایت اہم کاموں میں سے ایک یہ ہو گا کہ: ہر طبقے، ہر مسلک اور ہر جماعت میں موجود
مخلص، درویش، بےلوث، گمنامی پسند اہل فضل کو ڈھونڈااور قوم کو ان سے متعارف اور
مستفید کروانے کی زیادہ سے زیادہ اور مؤثر سے مؤثر صورتیں پیدا کرائی جائیں۔ "متبادل"
دینے کی بہت سطحیں اور بہت جہتیں ہیں، جن پر شاید ہمارے یہاں غور کیا نہیں گیا۔
اللہ اعلم
اصلاح کی کوشش؟
بےشک ہونی چاہیے۔ بس اس مقام پر
اتنا عرض کرنا ہےکہ "اصلاح" کا بہت سارا کام لاکھ چاہتے ہوئے بھی حالتِ محکومی
میں انجام نہیں پا سکتا۔ اس بات کا ادراک نہ کرنے کی صورت میں، آپ اپنے بہت سارے
اصل کام سے بھی جاتے ہیں۔ سو اس معاملہ میں حریص ambitious رہنے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند realistic رہنا ضروری ہے۔ یہ انتباہ اس لیے کہ بعض
آئیڈیلسٹ حضرات کے خیال میں، یہاں صورتحال کو ایک بڑی سطح پر بدلنے کےلیے پہلے آپ
کو ’قوم کے ایک بڑے حصے‘ کی اصلاح کا پراجیکٹ کرنا اور اپنی پیش قدمی کےلیے یہاں موجود بڑی بڑی
رکاوٹیں ’ایک ایک کر کے‘ دور کرنے پر ایک بہت ہی طویل محنت کرنی ہے، جبکہ ان بڑی
رکاوٹوں میں سے ایک: یہ فرقہ واریت والی صورتحال بھی ہے۔ (گویا کوئی وقت آئے گا کہ
آپ کی اس ’اصلاحی‘ مہم کے نتیجے میں یہ فرقہ واریت یہاں نہیں رہے گی!)۔ میری
عاجزانہ رائے میں، یہ آئیڈیلسٹ خیال ایک بہت بڑا سراب ہے جس کے اندر دھنس کر آپ
ختم ہو سکتے ہیں؛ کہیں پہنچنے والی بات اس میں دور دور تک نہیں ہے۔ اس حالتِ
محکومی و بےبسی میں، جہاں سماج کے سب شعبے اور سب ڈوریں، یہاں تک کہ الا ما شاء
اللہ لوگوں کے کان اور آنکھیں جاہلیت کے کنٹرول میں ہوں، ایسے کسی ’طویل اصلاحی
پراجیکٹ‘ سے امیدیں لگانا ایسے ہی ہے جیسے
سمندر میں جزیرے بنا ڈالنے کے کسی منصوبے پر روانہ ہونا۔ آئیڈیا سننے کو بھلا لگتا
ہے کہ سمندر کے عین وسط میں آپ ایک شہر آباد کر لیں، کیا ہے کچھ محنت ہی ہے! مگر
قابل عمل ہونے سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔
ہزار خطرے کے باوجود کہ بنی
اسرائیل کا ایک اتنا بڑا ٹڈی دل – بغیر کسی "بنیادی اصلاح و تربیت" کے –
ساتھ لے کر سمندروں اور صحراؤں میں نکل کھڑے ہونا قدم قدم پر آپ کےلیے کیسے کیسے مسائل کھڑے کر سکتا ہے، اور جو کہ
واقعتاً پیش آئے (اور جن کا ایک حصہ قرآن میں باقاعدہ مذکور ہوا، یہاں تک کہ شرک
کے حق میں نبیِ وقت سے اُن کے دیدہ دلیرانہ مطالبے، اور بچھڑا پوجنے کےلیے تقریباً
پوری قوم کا اکٹھے ’موقع‘ استعمال کر جانا، وغیرہ)… لہٰذا "فرعون والے
مصر" میں ہی بیٹھ کر تسلی کے ساتھ "پہلے" قوم کے بڑے حصے کی اصلاح
کر لی جائے اور پھر اگلے سب مرحلے ان شاء اللہ ٹھیک ہی ٹھیک! (بلکہ قوم کی تربیت
سے پہلے فرعون ہی کے ساتھ الجھنے کی کیا ضرورت!!!)…… غرض ’اصلاح‘ کے بغیر ایک قوم
کو ساتھ چلانے سے متعلق ایسے ہزار خطرے اور اندیشےکے باوجود… ایک بگڑی ہوئی قوم کو
سب سے پہلے حالتِ محکومی سے نکالنے کی ہی تدبیر کی گئی؛ اور باقی سب کچھ مؤخر۔ اس
لیے کہ اس کے علاوہ کوئی ترتیب اس معاملے کی ہے ہی نہیں، (اور یہ ایک "منصوص"
ترتیب تھی)، اگرچہ "آئیڈیلزم" والوں کو اس پر کتنا ہی تعجب ہو۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ایک حالتِ
محکومی و مغلوبیت میں جب ہم "اصلاح" کا لفظ بولتے ہیں اس سے ہماری حد
اور مقصود واضح ہو۔ چنانچہ یہ "اصلاح" اور اس سے جُڑی تمام تر امیدیں
اور توقعات – ایسی صورتحال میں، اور ایسی صورتحال سے نکلنے تک – بس ان دو امور کے
گرد ہونی چاہییں:
1.
دین کےلیے کھڑی ہونے والی ایک"بنیادی
جمعیت" کو وجود میں لانا یا کسی قدر اس کو توسیع دینا، جو اللہ کی توفیق سے
بالآخر اس پورے معاملے کا پانسہ پلٹ دے۔ ہاں اس کا ایک ایک فرد جس پائے کا آپ کو
تیار کرنا ہے عقیدہ سے لے کر اخلاق اور سماجی صلاحیت تک، وہ غیر معمولی ہے۔
"اصلاح" کا سب سے بنیادی اور سب سے بڑا یہی دائرہ ہے۔ [محمد قطبؒ کی
کتاب "کیف ندعو الناس" (اردو ترجمہ "دعوت کا منہج کیا ہو؟") میں "بنیادی
جمعیت" کی بابت ایک بہت اچھی رہنمائی میسر ہے، اس موضوع پر اسی سے رجوع کر
لینا مفید ہو گا]۔ ایسی ایک تربیت اور اصلاح کے عمل سے گزار رکھی گئی باصلاحیت
"بنیادی جمعیت" آپ معاشرے کا ایک فیصد نہیں آدھا فیصد بھی میدان میں لے
آئیں تو اللہ کی مدد اور توفیق سے تاریخ کے دھارے بدلے جانے کا امکان ہوتا ہے۔
2.
مقاصدِ حق کو خارج میں راستہ دلوانے کےلیے، یہاں پائے جانے
والے کچھ اہم اہم عوامل کو ممکنہ حد تک اپنے ڈھب پر لانے اور اس بابت ہر غیر ضروری
مزاحمت اور ہر قبل از وقت رکاوٹ کو طرح دے رکھنے، ہر غیرضروری دشمنی کو سُلا
رکھنے، ہر ممکنہ تعلق اور رشتے کو بچا رکھنے بلکہ اور سے اور تقویت دینے، سب ممکنہ
چینلز کو میسر رکھنے، اور یوں اپنے راستے کو زیادہ سے زیادہ کھلا اور سبک رَو بنانے
کےلیے جس دانائی، پیش بندی، اثرانگیزی اور سازگاری کی ضرورت ہو، اس تمام کا انتظام
بھی اس "اصلاح" میں ہی آتا ہے۔ اور ان امکانات کو ضائع یا تباہ کر لینا
شاید فساد… اور کھلنڈراپن۔
واجب العمل "اصلاح" کا
دائرہ ان دو اہداف سے زیادہ کھلا باور کر لینا – تا وقتیکہ ماحول حق کے قبضے میں نہ آ جائے – ایک غیرحقیقی ہدف ہو گا، جو اُس اصل
کام سے بھی آپ کو پھیر دینے کا موجب ہو گا جو آپ کی محنت اور توجہ کا ابھی اصل محل
ہے۔
یا پھر کسی "واقعی متبادل" کی کوشش؟؟
معاملہ یہ ہے کہ عہدِ زوال میں آپ
کے پاس بہت زیادہ اور بہت اچھے آپشن نہیں ہوتے۔ ’انہی پتھروں پہ چل کر‘ یہاں آپ کو
اس سے "نکلنے" کے راستے لینے پر توجہ رکھنا ہوتی۔ نہ "تعمیراتی
سکیموں" پر یہاں زیادہ مرکوز رہا جا سکتا ہے، اور نہ راہ گزر میں لوگوں کے
ساتھ الجھنے پر۔ یہاں؛ جو آپ کرسکتے ہیں
وہ بس رفقائے سفر کےلیے، یا پھر راستے کی ہمواری کےلیے۔
"واقعی متبادل" میں گو
یہ اکیلی رکاوٹ نہیں۔کم از کم بھی، اس کےلیے آپ کو کوئی بڑا "ندوۃ
العلماء" درکار ہے، اُس سے کسی ترقی یافتہ تر شکل میں، اور قرنِ اول کے ساتھ
جڑنے کے کسی زیادہ مستحکم انتظام کے ساتھ۔ گو وہ بھی – اگر واقعتاً آپ اُس میں
کامیاب ہو لیں – ایک "مسلک" ہو گا! جو میری نظر میں تو باعثِ حرج نہیں۔