یہاں
کی سیاسی ہاؤ ہو میں ’حصہ لینے‘ سے متعلق ہماری پوزیشن
حامد
کمال الدین
ہماری ایک پوسٹ
پر آنے والا اعتراض۔
اعتراض:
محترم کچھ تنبیہ ان کو بھی کریں جو ایسے مبہم
الفاظ بھرے مجمع میں استعمال کر رہے ہیں تاکہ ایسے الفاظ اور تعبیرات کے استعمال
سے پرہیز کیا جا سکے۔ جمشید اسلم، ٹوٹر
جواب:
محترم! لوگوں کا اپنا
اپنا انداز فکر ہے یہاں کے سیاسی شور میں ’شریک‘ ہونے کے متعلق؛ اور میں بھی اس معاملہ
میں ایک اپروچ رکھتا ہوں۔
پہلے اپنی اُس پوسٹ کے
متعلق ایک وضاحت کر دوں جس پر یہ اعتراض آیا، پھر اس کے جواب میں کچھ عرض کرتا
ہوں۔
اس بارے میں ہمارے دیگر کرم
فرما بھی نوٹ فرما لیں… دینداروں کا ایک چھوٹا سا طبقہ جو ہمیں سن لیتا ہے، ہمارے
لکھنے بولنے کا اصل مخاطب فی الحال یہی لوگ ہوتے ہیں۔ جہاں ہمیں لگا، یا اندیشہ
ہوا، کہ اسلامیوں پر حملہ آور افراط یا تفریط کا کوئی رجحان ہمارے اِن اصحاب کو متاثر کر
سکتا ہے، وہاں ہم تصحیح کی کچھ کوشش کر لیتے ہیں، بس۔ دینداروں کی اپنی صف بندی کے
سوا – فی الوقت – ہمارا کوئی فوکس نہیں۔ پوسٹ زیر بحث کا پس منظر بھی اسی قدر ہے
کہ: ہمیں محسوس ہوا، سیاست میں مذہب کا بےرحم استعمال کرنے والا ایک طبقہ یہاں ایک
ایسا نیا شوشہ کھڑا کر سکتا ہے جس کا تعلق کسی کے مزعومہ ’دعوائے نبوت‘ سے ہو اور
جس پر دینداروں کے یہاں ایک نیا سلسلہٴ قیل و قال اپنے تمام خطرناک مضمرات کے ساتھ
شروع ہو سکے، تو ہم نے بروقت اس پر ایک انتباہ کر دیا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ
اسلامی سیکٹر یہاں کسی کی سیاست کی خاطر اتنی زیادہ قیمت دینے کا متحمل نہیں؛ اور
اس کے اپنے مسئلے اس کو بہت ہیں۔ چنانچہ مقصد اپنے اس مخاطب طبقہ کو ایک نئے ممکنہ
مسئلے یا پراپیگنڈے کا شکار ہونے سے خبردار کرنا تھا۔
اور اب وہ مسئلہ جو آپ نے
اعتراض کے اندر اٹھایا ہے۔
برادرم! یہاں سیاست کی "ہیوی
ویٹ" جماعتوں کی بابت جس دن میں اس بات کا ذرا بھی امکان محسوس کروں گا کہ میرے
بولنے کو کم از کم وہ کسی اعتراض یا تنقید ہی کی حیثیت میں توجہ دینے پر آمادہ ہیں،
اُس دن میں ان کی غلطیوں پر "تنبیہ" کی ڈھیروں صورتیں اختیار کروں گا،
ان شاء اللہ۔ لیکن تاوقتیکہ میرے بولنے کو اُن کے یہاں "تنقید" اور
"اعتراض" تک کی حیثیت حاصل نہیں، یعنی میرا بولنا نہ بولنا سرے سے ان
کےلیے کوئی واقعہ نہیں، تو اپنے الفاظ کا ضیاع مجھے ہرگز عزیز نہ ہو گا۔ بولنے
لکھنے کی کچھ توانائی اگر ہے تو اِس سے کسی بہتر مرحلے یا کسی بہتر مصرف کےلیے اُس
کو بچا رکھنا میری نظر میں مفیدتر ہو گا۔ (اس میں استثناء صرف وہی مواقع ہوں گے جب
اسلامی سیکٹر کو یہاں کوئی ذہن سازی کا ہدف درپیش ہو، جیسے عرصہ پیشتر ایک قادیانی
مشیر کے حوالے سے قومی سطح پر ایک رائےسازی درکار تھی، یا جس طرح انتخابی امیدوار
کے فارم سے ختم نبوت والا خانہ ختم کرنے (والی شرارت) کے وقت یہاں آواز اٹھانے کی
ایک مہم درپیش تھی، وغیرہ۔ ایسے میں ضرور ہم بھی باقیوں کی آواز میں آواز ملانے،
اور جس قدر ہم سے ہو سکے اس کے حق میں پوائنٹ لانے کی کوشش کرتے… اور اس ناطے یہاں
کے سیاسی ہنگامے میں ایک طرح سے "شریک" ہوتے ہیں۔ تاہم جہاں ایسا مسئلہ
نہیں… وہاں ہم سڑک کنارے بیٹھ، "ٹریفک" کو نوٹ کرنے، اور اس کے متعلق اپنے
آپس کی بحث و تکرار میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے)۔ اس طرز عمل کو میں کوئی شرعی مسئلہ بھی نہیں
بناتا؛ دوسرے لوگ اپنے اختیار کردہ طریق میں آزاد ہیں۔ تاہم مجھے ان "بیٹھے
ہوؤں" میں شمار ہونا کبھی اچھا نہیں لگا جن کے جذبات و گرمجوشی کا مصرف ایسے "راہ
چلتے" تیزگام قافلوں پر کامنٹ کرنا ہوتا ہے جو انہیں سُن تک نہیں رہے!
اس وضاحت کو براہ کرم
ایسے بہت سارے سوالات کا جواب سمجھیں جو ہم پر آئے روز اٹھائے جاتے ہیں: فلاں شخص
یا فلاں پارٹی کے فلاں موقع اور فلاں بات پر آپ کیوں نہیں بولے؟ اور فلاں کی فلاں
بات کا آپ نے کیوں نوٹس نہیں لیا؟ بھائی ہم اپنے الفاظ کا مصرف وہیں کرتے ہیں جہاں
سے ہمیں ان کا کوئی ادنیٰ ترین مثبت یا منفی ردعمل متوقع ہو۔ ابلاغیات کے باب میں،
میرے لیے یہ ایک راہ نما اصول ہے۔
واضح
رہے، میں نے یہ جواب اپنی پوزیشن سے دیا ہے۔ کوئی اور شخص اگر یہاں کے سیاسی
سیناریو میں اس سے مختلف اور بااثر پوزیشن رکھتا ہے، تو یہ جواب ظاہر ہے اس سے متعلقہ
نہیں ہے۔