رواداری کی رَو…
اہلسنت میں "علی مولا علی مولا"
کروانے کے رجحانات
حامد کمال
الدین
رواداری کی ایک مخصوص رَو کے سد باب، اہل سنت کے یہاں فروغ
دلوائے جانے والے کچھ نئے لہجوں کی روک تھام کی خاطر…… محرم سن ۱۴۴۴ھ میں دی جانے والی کچھ فیس بک
پوسٹیں، یہاں ہمارے ویب سائٹ پر یکجا دی جا رہی ہیں۔ "علی مولا" کے
موضوع پر امسال اگر کچھ مزید بھی پوسٹیں آئیں، تو وہ یہیں پر اضافہ کر دی جائیں
گی۔
پہلی
پوسٹ
نِعم المولىٰ
اپنے
اردو پنجابی وغیرہ بولنے والے معاشرے – تقدیس وتعظیم" کے سیاق میں – لفظ "مولیٰ" کے جس معنی و
استعمال سے مانوس ہیں وہ صرف اللہ رب العزت کےلیے سزاوار ہے؛ اور یہ بات ادنیٰ
مشاہدے سے ذہن میں آ سکتی ہے۔
یہاں
"علؓی مولا علؓی مولا" کرنے والے بعض سُنی اصحاب کے ساتھ – اللہ اعلم
– کچھ نہ کچھ مسائل ضرور ہیں۔
["جلوس" کا لفظ اردو میں اگر کسی مخصوص معنى میں مستعمل
ہے تو ضروری نہیں اس کا عربی استعمال "بحال" کروانے کےلیے عامۃالناس کو
ڈکشنریوں کی "مدد" سے کنفیوز کیا جائے۔ ایک لفظ دوسری زبان کے اندر جس
معنىٰ میں چل گیا سو چل گیا۔ عام لغت میں لوگوں کو کنفیوز کرنا اگر کوئی بہت اچھا
کام نہیں تو دین کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ حساس ہے]۔
ہر
زبان کے اھل السنۃ والجماعۃ اگر صدیوں سے اپنے زبان و بیان میں کچھ مخصوص دستور
اور پیرائے رکھتے ہیں… تو انہیں توڑنے اور تڑوانے کی بےچینی کچھ بہت مستحسن نہیں۔
اللہ اعلم
نوٹ1:
ایک
بات کسی مخصوص علمی سیاق میں ہو تو موحد مزاج کو وہ بالکل نہیں کھَلتی۔ یہاں بات
کسی مخصوص "لہجے" کی عوامی کھپت street consumption سے متعلق ہو رہی
ہے۔
نوٹ2:
"مولیٰ"
کا لفظ مضاف کے طور پر آنا مسئلہ نہیں، اور بلاشبہ وہ اردو میں بھی انسانوں کےلیے
مستعمل ہے۔ (خود عربی میں بھی، جس حدیث کا یہ حضرات حوالہ دیں گے، اس میں وہ بطور
مضاف آیا ہو گا؛ جو اپنے سیاق سے جُڑ کر اور بھی مخصوص ہو جاتا ہے)۔ طبیعت کو کھلنے
والی بات کسی کو مطلق "مولیٰ" بولنے سے متعلق ہے۔
دوسری
پوسٹ
فیس
بک پر کئی دن ایک عبارت تیرتی پھرتی رہی ہے: ["علیؓ مولا ہیں اور اس فضیلت
میں کوئی دوسرا ان کا شریک و سہیم نہیں ہے! محدث ابن شاہین رحمہ اللہ، شرح مذاھب
اھل السنۃص: 103)]۔ پھر یہی عبارت ٹویٹر پر چلی آئی۔ اس کے حوالہ سے ہماری یہ پوسٹ
آئی:
مجھے محدث ابن شاہینؒ
(متوفیٰ چوتھی صدی ہجری) کی یہ عبارت چاہیے، اگر کوئی صاحب مدد کر سکیں تو:
"علی
مولا ہیں"
کیونکہ "شرح
مذاهب أهل السنة" کے صفحہ 103، یا اس سے
اگلے یا پچھلے کسی صفحہ پر (یوں مطلق انداز میں) یہ عبارت مجھے نہیں ملی کہ
"علی مولا ہیں"۔ جبکہ فیس بک پر یہ عبارت باقاعده ابن شاہینؒ کے حوالہ
سے گردش کر رہي ہے اور لوگ مجھے بھی وہی فیس بک لنک فراہم کر رہے ہیں۔
عربی میں یہ عبارت ہوتی تو اغلباً ان لفظوں
کے ساتھ ہوتی: [عليٌ هو المولى]۔
اس سے پیشتر میں اپنی ایک پوسٹ میں کہہ چکا
ہوں: ["مولیٰ" مضاف کےطور پر مسئلہ نہیں (خود عربی میں، جس حدیث کا یہ
حضرات حوالہ دیں گے، اس میں وہ بطور مضاف آیا ہو گا؛ جو اپنے سیاق سے جُڑ کر اور
بھی مخصوص ہو جاتا ہے)۔ طبیعت کو کھَلنے والی بات کسی کو مطلق "مولا" بولنے
سے متعلق ہے]
اوپر جو بات "حدیث" کے متعلق کہی
گئی ہے عین وہی بات "ابن شاہین کی عبارت" کے متعلق کہی جائے گی، اِلا یہ
کہ کوئی صاحب مجھے ابن شاہین سے ایسی کسی مطلق عبارت کی نشان دہی کر دیں۔
"مضاف"
اور "مطلق" کا فرق یہاں ایک مثال سے واضح کر دوں:
* مضاف:
[فلانٌ ربُّ المنزل
"فلاں آدمی ربُ المنزل (یعنی صاحبِ خانہ) ہے"]
* مطلق:
[فلانٌ هو الربُّ
"فلاں آدمی ربّ ہے"]… اور وہ بھی اردو میں!
(اور سوال اٹھنے پر "عربی لغت" سے
(جبکہ ایک لفظ بولا اردو سمجھنے والوں کےلیے گیا تھا!!!) وضاحتیں شروع کی جائیں کہ
ارے بھائی رب کا لفظ غیر اللہ کےلیے بول لیا جا سکتا ہے جیسے "رب
المنزل" (صاحبِ خانہ) بلکہ یہ تو فقہ کی
عبارتوں میں آپ کو مل جائے گا جیسے (مضاربت کے ابواب میں بولا گیا) "رب
المال" (سرمایہ کار)
تیسری
پوسٹ
پوچھنے لگے: کیا علی رضی اللہ عنہ کو
"آقا" بھی نہیں کہہ سکتے؟
سبحان اللہ! کیوں نہیں کہہ سکتے۔ علؓی سے
محبت اور آپؓ کی تعظیم و اِجلال ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
بھائی مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ اردو کے اندر
خالی لفظ "مولا" (بلا اضافت) کثرت کے ساتھ اللہ ﷻ
ہمارے پروردگار کےلیے مستعمل ہے۔ ("وکیل" وغیرہ کی طرح یہ لفظ اردو
میں انسانوں کےلیے عام
مستعمل نہیں)۔ سو (علی مولا، علی مولا) کرنا، یہاں ایک موحد طبیعت پر گراں گزرتا
ہے۔ [ابھی اس لفظ کا ایک نہایت سنگین ’سیاہ پوش‘ ’کڑا بردار‘ اردو میں استعمال اس پر مستزاد؛ جبکہ یہ معلوم
ہے کہ (ان) کے ہاں علی رضی اللہ عنہ کی تأليه
(إلٰہ ٹھہرانے، آپؓ سے مشکل کشائی وغیرہ کروانے) کا عقیدہ خاصا عام ہے؛ جو لفظ
(علی مولا) کے تحت پُرکاری کے ساتھ ادا کر لیا جاتا ہے]۔
عرض بس یہ کیا ہے کہ عربی کے اوزاروں سے
ہمیں اردو میں کنفیوز براہ کرم نہ کیا جائے۔ حدیث کے باقی الفاظ جب اردو میں میں ترجمہ کرنے کی زحمت کر ہی لی گئی…
تو حدیث میں وارد اِس ایک مضاف لفظ کا بھی اردو ترجمہ ہی فرما دیا کریں تو یہ ایک
بڑی نیکی ہو گی (اور یقین کریں تب کوئی بھی آپ پر معترض نہیں ہو گا اور کوئی بحث
ہی سرے سے نہیں ہو گی)۔ اردو میں عربی بولنا کسی وقت باعثِ پیچیدگی ہو سکتا ہے۔
چوتھی
پوسٹ
میں نے عرض کیا نا، اردو لکھتے ہوئے (ہر دو
جگہ) اردو لکھی جاتی تو کوئی اشکال آتا اور نہ بحثوں کی کوئی ضرورت!
جناب حافظ شاہد رفیق
نے بجا طور پر یہ
بات نوٹ کروائی ہے:
[قارئین غور فرمائیں کہ جب وہی لفظ
"مولا" نبی علیہ السلام نے دوسرے صحابی (حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ
عنہ) کے لیے بولا تو وہاں نہ صرف اس کا پس منظر اور توجیہ بیان کی جا رہی ہے بلکہ
اس کا اردو میں کر کے قارئین کو
اس کا معنی سمجھایا جا رہا ہے۔۔۔۔ لیکن جب وہی لفظ "مولا"
سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) کے لیے وارد ہوا تو نہ اس کا اردو میں، نہ اس کی
توجیہ اور نہ پس منظر کا بیان، گویا وہ سیدنا علی کو ایک لقب دیا گیا ہے جس کو
بعینہ عربی زبان میں لکھنا بولنا طے ہے! جو بالکل غلط دعوی ہے۔]
پانچویں
پوسٹ
اعتراض:
حضرت زیدؓ کو جو انت
اخونا و مولانا فرمایا وہاں مولا کی وضاحت اس لئے بھی
ضروری ہے کہ وہاں آقا و سردار کا معنی لینا صریح کفر ہے لہذا لفظ مولا کی تشریح
ضروری ہوگی۔ چنانچہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں اس جملے کی تشریح میں لکھتے
ہیں "وقَال لِزَيْدٍ أَنْتَ أَخُونَا
أَيْ فِي الْإِيمَانِ وَمَوْلَانَا أَيْ مِنْ جِهَةِ أَنَّهُ أَعْتَقَهُ ۔
من كنت مولاه فهذا علي مولاه
میں مولا کے معنی کرنے میں ایسی کوئی ضرورت نہیں جس حیثیت میں رسول نے خود کو مولا
کہا اسی حیثیت میں علی کو مولا بنایا۔ اب یہاں دوست آقا و سردار کے معنی لیے جائیں
گے۔ (سید وجاہت)
ج:
جی وہاں بھی اس کا معنىٰ "آقا"
لینا ضروری نہیں۔ (اگرچہ ہمیں اس لفظ پر ویسے کوئی اعتراض نہیں، جیسا کہ ہم پیش
ازیں ایک پوسٹ میں کہہ آئے) اور حتمی و قطعی تو یہ معنى وہاں بالکل بھی نہیں۔ اصل
چیز ہے اس (علیؓ والی) حدیث کا بھی سیاق: اور وہ ہے "ولایت" کا وہی معنى
جو قرآن مجید میں جا بجا آیا: دوستی، محبت، یگانگت، نصرتِ باہمی۔ واضح رہے، اس
حدیث کی روایات میں "مولیٰ" اور "ولی" ہر دو لفظ آئے ہیں۔ (المؤمنون
والمؤمنات بعضھم أولیاء بعض)۔ جبکہ (حضرت علیؓ سے
متعلق) حدیث میں اس (لفظ مولىٰ بمعنىٰ ولی) کے ورود کا خصوصی مقصد: دلوں سے کدورت
کا خاتمہ، جو سفرِ یمن کے دوران کسی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی، اور اس کی جگہ محبت
اور مودت ان کے مابین قائم کروانا۔ اور جسے حافظ ابن حجر عسقلانی "ازالہٴ
بُغض" کہہ رہے ہیں۔ فتح الباری میں اس کا سیاق واضح کرتے ہوئے آپؒ فرماتے
ہیں: [قَالَ أَبُو ذَرٍّ الْهَرَوِيُّ إِنَّمَا
أَبْغَضَ الصَّحَابِيُّ عَلِيًّا لِأَنَّهُ رَآهُ أَخَذَ مِنَ الْمَغْنَمِ فَظَنَّ
أَنَّهُ غَلَّ فَلَمَّا أَعْلَمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَنَّهُ أَخَذَ أَقَلَّ مِنْ حَقِّهِ أَحَبَّهُ اه۔
وَهُوَ تَأْوِيلٌ حَسَنٌ لَكِنْ يُبْعِدُهُ صَدْرُ الْحَدِيثِ الَّذِي أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ
فَلَعَلَّ سَبَبَ الْبُغْضِ كَانَ لِمَعْنًى آخَرَ۔
وَزَالَ بِنَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ عَنْ
بُغْضِهِ>> (ہ
کی ضمیر ظاہر ہے حضرت علیؓ کی طرف)۔ "ابوذر ھرویؒ کہتے ہیں: وہ صحابی حضرت
علیؒ سے کچھ اس لیے کدورت رکھ بیٹھا تھا کیونکہ اس کے خیال میں حضرت علیؓ نے غنیمت
سے کچھ لے لیا تھا، تو اس نے گمان کر لیا کہ آپؓ نے (معاذ اللہ) خیانت کی ہے۔
چنانچہ جب نبیﷺ نے بتایا کہ علیؓ نے تو اپنے حق سے کم لیا ہے، تو اس کی علیؓ سے
محبت بحال ہو گئی۔ الىٰ آخرہ۔ یہ (ھرویؒ کی توجیہ) ایک اچھی تاویل ہے، لیکن حدیث
کے پہلے حصے کی رُو سے، جسے احمدؒ نے روایت کیا، یہ بعید قرار پاتی ہے۔ چنانچہ اس
کدورت کا سبب غالباً کچھ اور بات تھی، اور وہ (کدورت) زائل ہو گئی جب نبیﷺ نے
انہیں حضرت علیؓ کے ساتھ کدورت رکھنے سے منع فرما دیا" (فتح الباری 8: 67)]۔
علاوہ ازیں، فیض القدیر کی یہ عبارت: [(من
كنت مولاه فعلي مولاه) أي وليه وناصره ولاء الإسلام۔
"جس کا میں دوست ہوں اس کا علی دوست ہے" مولی بمعنی ولی (دوست) اور
ساتھی۔ مسلمان کی مسلمان سے جو موالات ہوتی ہے، وہ"۔ (فیض القدیر 6: 218)۔
پس "مولی" یا "ولی" کا
معنى اس حدیث میں اسی "ولاء" (دوستی، نصرت) سے متعلق ہے جو اہل ایمان کے
مابین اللہ نے فرض کر رکھی ہے اور جو صالحین کے ساتھ درجہ بدرجہ رکھی جاتی ہے (اب
نبیﷺ کسی کا نام لے کر اس کے ساتھ روٹھے ہوؤں کی محبت کروائیں تو یہ اس کی صالحیت
اور فضیلت کی واضح دلیل ہو گی، اور یہ ہے یہاں پر حضرت علیؓ کی منقبت)۔ حدیث کے سب
شارحین (محدثین) کے بیانات یہاں اُن رافضی لہجوں سے بہرحال اِباء کرتے ہیں جنہیں
ہمارے ذخیرہٴ حدیث میں ٹھونسنے کی اِس وقت کوشش ہو رہی ہے۔
چھٹی
پوسٹ
ایک
مزہ لینے والے دوست کے کامنٹ پر:
کامنٹ:
اگر یہ حضرت علی کے علاؤہ کسی اور کے بابت
ہوتا اتنا بحث نہیں ہوتا چلو خیر چھوڑو ہمیں کیا ناصبیوں اور رافضیوں کا لڑتے دیکھ
کر بہت مزہ آتا ہے ۔ (ضمیر سرور)
ج:
بےشک آپ نے ایک طنز کا تیر مارا ہے۔ لیکن
آپ کی ایک بات سے مجھے ایک درجے میں اتفاق بھی ہے۔ سیدنا ومولانا وأمیرنا أمیر
المؤمنین علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ "کے بابت" خاص اس لیے میرے دوست!
کہ خلفائے راشدین میں سے ایک علؓی ہی ہیں جن کی ہمارے اس ماحول میں تأليه ہوتی ہے
(آپ رضی اللہ عنہ کو الوہیت کے درجے پر فائز کیا جاتا اور مشکل کشائی اور حاجت
روائی کےلیے آپ کو پکارا جاتا ہے)۔ یعنی ایک طبقہ جن کی عبادت کرتا اور کرواتا ہے۔
پس آپ رضی اللہ عنہ کی نسبت ہماری حساسیت باقی خلفاء کی نسبت کچھ بڑھ جائے اور آپ
رضی اللہ عنہ کے مقامِ عبدیت کے تحفظ کےلیے ہمارے یہاں کچھ زیادہ انتظامات اور
"سدِّ ابواب" ہونے لگیں تو یہ ایک طبعی بات ہو گی۔ اس پر تعجب انہی
اصحابِ غلو کو ہونا چاہیے جو غزالیؒ و ابن تیمیہؒ تک کو نواصب میں شمار کرتے آئے
ہیں… بلکہ جن کے ہاں اہل سنت کے ناموں میں سے ایک نام ہے ہی "نواصب"
(نواصب: یعنی اہل بیت سے بُغض رکھنے والے، اللہ انہیں غارت کرے)۔ اور جو اُن
نصاریٰ کی طرح جو حضرت مسیح علیہ السلام کے مقام عبدیت کے تحفظ کو آپ علیہ السلام
کی گستاخی پر محمول کرتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقامِ عبدیت کے تحفظ کےلیے
عمل میں لائے جانے والے "سدِ ابواب" کو آپ رضی اللہ عنہ کے بُغض یعنی
ناصبیت پر محمول کرتے اور انہیں طرح طرح کے نام دیتے ہیں۔ دوسروں پر
"لیبل" لگانے کا یہ آسان و سبک مزہ آپ کا میں خراب نہیں کرنا چاہتا، بس
یہ عرض کر دوں "ناصبیت" خاص وہ طعنہ ہے جس کا لگانے والا خود اپنی بابت
(یا کم از کم اپنے مصدرِ تاثیر
source of inspiration کی بابت) بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ ہمارے
ائمہٴ سنت نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کروائی ہے۔