جب اسلام پر حملے کرنے والے ملحدوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور صیہونیوں کی طرف نظر کریں تو ان کا بنیادی اعتراض یہ ہوتا ہے کہ : اسلام اتنا لبرل کیوں نہیں؟ اسلام آزادیاں کیوں نہیں دیتا؟ اسلام عورتوں کو شاباشی دینے والا دین نہیں، اسلام اتنا پرامن اور برداشت والا دین نہیں ہے۔
کیا آپ کو اس میں ٹریپ نظر آ رہا ہے؟
یہ ایک بنیادی غلطی ہو گی اگر ہم ان اعتراضات کے جواب میں کہیں کہ “نہیں، اسلام تو بہت ہی لبرل اور برداشت والا دین ہے” وغیرہ ۔۔
یہ ایک شکست خوردہ حکمت عملی ہے، اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ کہ لبرل ازم کے سٹینڈرڈز (پیمانے) مستقل تغیر پذیر ہیں ، یعنی مستقل بدلتے رہتے ہیں جیسے جیسے نئی نئی قسم کی آزادیاں اور برابری کی نئی نئی قسمیں دریافت ہوتی جا رہی ہیں ۔ چنانچہ اگر اسلام کو لبرل ازم کے موافق (متفق) رہنا ہو گا تو پھر اسلام کو (لبرل ازم سے )مستقل مطابقت اختیار کرتے رہنا ہو گا۔۔۔ اور یہ چیز ناممکن ہے جب تک کہ قرآن و سنہ اور علمی روایت کو ترک نہ کر دیا جائے۔
اسلام پر اعتراضات کا صحیح جواب یہ ہو گا کہ : لبرل ازم ہمارا سٹینڈرڈ (پیمانہ) نہیں ہے، اسلام کو ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ لبرل ازم کے مطالبات پر پورا اترے۔
لیکن ہمیں یہاں پر ہی گفتگو ختم نہیں کر دینی چاہیئے، ہمیں یہ بھی بتانا چاہیئے کہ لبرل ازم ایک تباہ کن اور انسان کُش آئیڈیالوجی ( نظریہ) ہے، اس آئیڈیالوجی کو کسی بھی باشعور بندے، چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو ، یہودی ہو یا ملحد ہو، کو قبول نہیں کرنا چاہیئے۔
اس کے بعد ہم آخری مرحلے پر آتے ہیں۔ ہم ان کو باور کراتے ہیں کہ جو لبرل جدیدیت نے نوع انسانی کو جو نقصان پہنجائے ہیں ، اسلام ہی واحد حل ہے ان نقصانات کے مداوے اور مسائل کے حل کے لئے۔
اگر ہم یوں جواب دینے پر مہارت حاصل کر لیں، تو ہم (اسلام کی طرف) دعوت کو کمزور اور ردعملی پوزیشن کی بجائے مضبوط اور باوقار پوزیشن سے بدل سکتے ہیں ، جہاں باوثوق طریقہ سے اسلام کو ایک منفرد، یکتا اور برتر طرزِ زندگی کے طور پر لوگوں سے روشناس کر سکتے ہیں۔
مترجم: عثمان ايم