عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, April 23,2024 | 1445, شَوّال 13
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
weekly آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
امارتِ حضرت معاویہؓ، مابین خلافت و ملوکیت
:عنوان

علماء کا اتفاق ہے کہ معاویہؓ اس امت کے بادشاہوں میں افضل ترین ہیں۔ کیونکہ ان کے پہلے کے چاروں خلفائے نبوت تھے۔ اور وہ بادشاہوں میں سے پہلے۔ ان کی بادشاہت: بادشاہت اور رحمت تھی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے

. بازيافتسلف و مشاہير :کیٹیگری
شيخ الاسلام امام ابن تيمية :مصنف

امارتِ حضرت معاویہؓ، مابین خلافت و ملوکیت

نوٹ: تحریر کا عنوان ہمارا دیا ہوا ہے۔

از کلام ابن تیمیہ (مجموع الفتاوىٰ سے دو فصول، بتعلق حضرت معاویہؓ)

اردو استفادہ:  حامد کمال الدین

شیخ (ابن تیمیہؒ) سے معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کے اسلام کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ واقعہ کب پیش آیا؟اور یہ کہ ان کا ایمان لانا کیا باقی لوگوں کے ایمان لانے کی طرح ہی تھا؟ اور جو اس بارے میں اور باتیں کی جاتی ہیں وہ؟

ابن تیمیہؒ نے جواب میں فرمایا:

معاویہؓ بن ابی سفیان کا ایمان ثابت ہے نقل متواترسے۔ نیز اس پر اہل علم کے اجماع سے۔ بالکل ویسا ہی ایمان لانا جس طرح فتح مکہ کے سال دیگر لوگوں کا ایمان لانا۔ جیسے ان کے بھائی یزیدؓ بن ابی سفیانؓ، اور جیسے سہیلؓ بن عمرو، صفوانؓ بن امیہ، عکرمہؓ بن ابی جہل، حارثؓ بن ہشام، ابی اسدؓ بن ابی العاص بن امیہ۔ اور اسی طرح کے دیگر بزرگ۔ چنانچہ ان کو ’’طُلَقاء‘‘ (چھوڑ دیے جانے والے) بولا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ نبیﷺ کے مکہ کو فتح کرنے کے سال مفتوح ہو کر ایمان لائے تھے اور آپﷺ نے از راہِ احسان ان کو آزاد چھوڑ دیا تھا۔ ان کو انعامات دیے اور ان کی تالیفِ قلب فرمائی تھی۔ یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ معاویہؓ بن ابی سفیانؓ اس سے پہلے ہی ایمان لا چکے تھے اور ہجرت بھی کر لی تھی، جیسا کہ خالد ؓبن الولید، عمروؓ بن العاص، عثمانؓ بن طلحہ الحجبی کے فتح مکہ سے قبل اسلام لانے اور مدینہ ہجرت کر آنے کے متعلق آتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو معاویہؓ مہاجرین میں سے بنیں گے۔ جہاں تک ان کا مع دیگر حضرات فتح مکہ کے سال ایمان لانے کا معاملہ ہے، تو علماء کے مابین اسی پر اتفاق ہے، خواہ اس سے پہلے وہ اسلام لائے ہوں یا فتح مکہ کے سال ہی ایمان لائے ہوں۔ تاہم بعض کذابوں نے یہ بات کہی کہ معاویہؓ نے اپنے والد کو ان کے اسلام لانے پر عار دلائی تھی۔ یہ بات اہلِ علمِ حدیث  کے ہاں بالاتفاق جھوٹ ہے۔  یہ (طلقاء) جن کا ذکر ہوا بہترین اسلام لانے والوں اور نہایت قابل ستائش سیرت رکھنے والوں میں سے ہوئے۔ بلکہ ان سے حسنِ اسلام، اطاعتِ خدا و رسولؓ، محبتِ خدا و رسولؓ، جہاد فی سبیل اللہ اور حفاظتِ حدود اللہ کے ایسے ایسے رویے ظاہر ہوئے جو ان کے باطنی حسنِ ایمان اور حسنِ اسلام کی دلیل ٹھہرتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں نبیؐ نے امیر بنایا اور اپنی مہمات پر بطور نائب مقرر فرمایا۔ جیسا کہ عتّاب بن اسید کو مکہ کا امیر اور وہاں پر اپنا نائب ٹھہرایا اور وہ برگزیدہ مسلمانوں میں سے ہوئے۔ فرمایا کرتے تھے: اے اہل مکہ! اللہ کی قسم مجھے تم میں سے جس بھی شخص کے متعلق پتہ چلا کہ نماز سے پیچھے رہنے لگا ہے، میں اس کی گردن اتاروں گا۔ پھر نبیﷺ نے معاویہؓ کے والد ابو سفیانؓ بن حرب کو نجران پر اپنی نیابت کرنے کےلیے افسر مقرر فرمایا۔ نبیﷺ کے وفات پانے کے وقت ابو سفیانؓ نجران پر آپﷺ کے عامل ہی تھے۔ جبکہ اہل علم کا اتفاق ہے، معاویہؓ اپنے والد کی نسبت اسلام میں بڑھ کر تھے۔ جیسا کہ معاویہؓ کے بھائی یزیدؓ بن ابی سفیانؓ معاویہؓ اور ان کے والد دونوں سے بڑھ کر ہیں۔ یہ وجہ ہے ابو بکر صدیقؓ نے فتحِ شام کے وقت نصاریٰ کے خلاف جنگ پر انہیں اپنا عامل بنایا تھا۔ یہ ان خاص امراء میں سے ہیں جو ابوبکر صدیقؓ کے عامل رہے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ کی وہ معروف نصیحت بھی انہی کو ہوئی تھی جو اہل علم نے نقل کر رکھی ہے اور (بہت سے احکام کے حوالہ سے) اس کو بنیاد بنایا ہے۔ جیسا کہ امام مالکؒ نے موطأ میں اور دیگر اہل علم نے اپنی مؤلفات میں روایت کیا کہ حضرت ابوبکرؓ یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کی رکاب میں ان کو رخصت کرنے کےلیے پیدل چلتے جا رہے تھے۔ جس پر یزیدؓ بولے: اے رسول اللہﷺ کے خلیفہ! یا تو آپ سوار ہوں یا میں پیدل چلوں۔ تو آپؓ نے فرمایا: نہ تم اترو گے نہ میں چڑھوں گا۔ میں اللہ کے راستے کے اس ایک ایک قدم کا اجر لے رہا ہوں۔ اسی طرح عمروؓ بن العاص امراء میں سے ایک تھے۔ ابو عبیدہؓ بن الجراح ان میں سے ایک تھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان تمام (امرائے شام) پر خالدؓ بن الولید کو کمانڈر مقرر کر دیا تھا ان کی شجاعت اور جہادی فائدہ کے پیش نظر۔ پھر ابو بکرؓ کی وفات کے بعد عمر ؓبن خطاب نے ابوعبیدہؓ کو ان سب پر کمانڈر مقرر کر دیا۔ اس لیے کہ عمرؓ بن خطاب خدا کے معاملہ میں شدید تھے تو ابوعبیدہؓ کو مقرر کردیا اس لیے کہ ابوعبیدہؓ نرم تھے۔ اُدھر ابوبکرؓ نرم تھے اورخالدؓ کفار پر شدید تھے۔ لہٰذا خلیفہ نرم تھا تو کمانڈر شدید۔ پھر جب خلیفہ شدید ہوا تو کمانڈر نرم۔ تاکہ معاملہ اعتدال پر رہے۔ ہر دو نے وہی وہی کیا جو اس کے اپنے حق میں اللہ کو زیادہ پسند ہو۔ جبکہ ہمارے نبیﷺ مخلوق میں کامل ترین تھے اور کفار و منافقین پر شدید تھے۔ اس پوری جماعت کی اللہ نے یہ صفت فرمائی تھی جوکہ اکمل الشرائع ہے: أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ’’کافروں پر سخت اور آپس میں نرم‘‘۔ نیز یہ کہ : أَذِلَّةً عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةً عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِم ’’مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت۔ جہاد کرتے ہیں اللہ کے راستے میں اور نہیں خوف کھاتے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا‘‘۔ جبکہ صحیح حدیث میں ثابت ہےکہ نبیﷺ نے جب اپنے اصحابؓ سے بدر کے قیدیوں سے متعلق مشورہ فرمایا تو ابوبکرؓ کی رائے تھی کہ تاوان لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ جبکہ عمرؓ کی رائے تھی ان کی گردنیں ہی ماری جائیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ بعض آدمیوں کے دل نرم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ریشم سے نرم ہوتے ہیں۔ اور بعض آدمیوں کے دل شدید کرتا ہے یہاں تک کہ وہ چٹان سے زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ اور تیری مثال اے ابوبکر ابراہیم خلیلؑ کی سی ہے جب انہوں نے دعاء فرمائی: فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ’’پس جو میرا پیروکار ہو وہ مجھ سے ہوا۔ اور جو میرا نافرمان ہوا تو اے اللہ تو غفورٌ رحیم ہے‘‘۔  نیز تیری مثال عیسیٰ بن مریمؑ کی سی ہے جو کہیں گے:  إنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ’’اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو عزت طاقت والا حکمت والا ہے‘‘۔ جبکہ تیری مثال اے عمر نوحؑ کی سی ہے جب وہ بولے: رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ’’پروردگار! زمین پر کافروں میں سے کوئی ایک بھی بستا نہ چھوڑیو‘‘۔ نیز تیری مثال موسی بن عمرانؑ کی سی ہے جب انہوں نے کہا تھا:   رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ’’پروردگار ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں‘‘۔ یہ دونوں بزگ (ابو بکرؓ و عمرؓ) نبیﷺ کی زندگی میں اسی طرح تھے جس طرح آپﷺ نے ان کی بابت فرمایا۔ اہل زمین میں سے یہی دو ہستیاں آپﷺ کی وزیر تھیں۔ صحیح حدیث میں عبد اللہؓ بن عباسؓ سے آتا ہے کہ جس وقت حضرت عمر بن خطابؓ کی چارپائی لا کر دھری گئی اور لوگ آپؓ کا جنازہ پڑھنے کےلیے آئے تو میری توجہ علیؓ بن ابی طالب کی طرف گئی جو کہہ رہے تھے: روئے زمین پر اس میت سےبڑھ کر کوئی شخص ایسا نہیں جس کے عمل ایسا عمل لے کر میں اللہ کے پاس جانے کی تمنا کروں۔ پھر (حضرت عمر ؓ کی میت کو مخاطب کر کے) کہنے لگے: واللہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اکٹھا کرے گا اس لیے کہ میں بکثرت نبیﷺ کو فرماتے سنتا: ’’میں اور ابو بکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں اور ابوبکر اور عمر نکلے۔ میں اور ابو بکر اور عمر گئے‘‘۔ پھر صحیح حدیث سے ثابت ہے: جنگ احد کے دن جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو ابو سفیان اُدھر سے بولا: کیا تم لوگوں میں محمد ابھی ہے؟ کیا تم لوگوں میں محمد ابھی ہے؟ تب نبیﷺ نے فرمایا: اس کو جواب مت دو۔ پھر ابو سفیان بولا: کیا تم لوگوں میں ابن ابی قحافہ ہے؟ کیا تم لوگوں میں ابن ابو قحافہ ہے؟  نبیﷺ نے فرمایا: اس کو جواب مت دو۔ پھر وہ بولا: کیا تم لوگوں میں ابن الخطاب ہے؟ کیا تم لوگوں میں ابن الخطاب ہے؟ نبیﷺ نے فرمایا: اس کو جواب مت دو۔ حدیث طویل ہے۔ مطلب یہ کہ ابو سفیان دشمن لشکر کا سردار ہوتے ہوئے صرف ان تین ہستیوں کے بارے میں پوچھتا ہے: نبیﷺ، ابو بکرؓ اور عمرؓ۔ اس لیے کہ جانتا تھا مسلمانوں کے لشکر کے سردار یہی ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک بن انسؒ سے ایک بار فرمائش کی کہ انہیں بتائیں کہ ابو بکرؓ و عمرؓ کو نبیﷺ سے کیا قربت ہے؟ امام مالکؒ نے جواب دیا: ابو بکرؓ و عمرؓ کو نبیﷺ سے آپﷺ کی زندگی میں وہی قربت ہے جو آپﷺ کی وفات کے بعد۔ ہارون الرشید بولا: آپ نے میری تشفی کر دی۔ پھر جب رسول اللہﷺ رخصت ہوئے اور ابوبکرؓ کی جانشینی ہوئی تو اللہ نے ابو بکرؓ میں وہ سختی پیدا فرما دی جو اس سے پہلے آپؓ میں نہیں تھی یہاں تک کہ وہ اس میں عمرؓ سے بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ جیشِ اسامہؓ تیار فرما کر اہلِ رِدّہ کے ساتھ جنگ کی۔ یہ دراصل اللہ کی طرف سے ان کو کمال ملنا تھا اس لیے کہ وہ ایک کامل ہستیﷺ کے جانشین بنائے گئے تھے۔ پھر جب عمرؓ ابوبکرؓ کے جانشین ہوئے تو اللہ نے ان میں وہ نرمی اور مہربانی پیدا فرما دی جو اس سے پہلے آپؓ میں نہیں تھی، آپؓ کو کامل کرنے کےلیے، تاکہ آپ امیر المؤمنین ہوں۔ یہ وجہ ہے کہ ابو بکرؓ نے خالدؓ کو مقرر فرمایا اور عمرؓ نے ابوعبیدہؓ کو۔ اور یزیدؓ بن ابی سفیانؓ شام پر مقرر تھے۔ تا آنکہ عمرؓ خلیفہ ہوئے۔ پھر یزیدؓ بن ابی سفیانؓ فوت ہوئے تو عمرؓ نے ان کے بھائی معاویہؓ کو ان کی جگہ مقرر فرما دیا۔ معاویہؓ اس ولایت پر خلافتِ عمرؓ کا تمام عرصہ فائز رہے درحالیکہ ان کی رعایا ان سے اور ان کی سیرت سے بےحد خوش تھی۔ ان کے حلم اور عدل کے باعث ان سےوابستہ اور ان کی محب رہی۔ یہاں تک کہ کسی شکایت کرنے والے نے کبھی ان کی شکایت نہیں کی۔ نہ کسی نے مظلوم ہو کر ان کے خلاف دارد رسی چاہی۔ جبکہ یزید بن معاویہ اصحابِؓ رسول اللہ میں نہیں آتا، بلکہ وہ خلافتِ عثمان میں پیدا ہوا۔ اس کا نام یزید اس کے چچا یزیدؓ کے نام پر رکھا گیا جو صحابی تھے۔ معاویہؓ، ان کے بھائی یزیدؓ، سہیلؓ بن عمرو، حارثؓ بن ہشام اور    فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والے دیگر کئی بزرگوں نے نبیﷺ کے ہمرکاب ہو کر غزوۂ حنین میں حصہ لیا تھا اور اللہ رب العزت کے اس فرمان کے مصداق میں شامل ہوئے تھے: ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ’’پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسولؐ پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کو سزا دی۔ اور یہی ہے کافروں کا بدلہ‘‘۔ چنانچہ یہ ان مومنین میں سے ہوئے جن پر اللہ نے اپنی وہ سکینت اتاری جو نبیﷺ پر اتری تھی۔ نیز یہ غزوۂ طائف میں شریک ہوئے، جب صحابہؓ نے طائف کا محاصرہ کیا اور نبیﷺ نے اس کے خلاف منجنیق استعمال فرمائی۔ نیز یہ نصاریٰ کے خلاف جہاد کرنے شام گئے (غزوۂ تبوک) جس پر اللہ نے سورۃ براءۃ نازل فرمائی۔ یہی غزوۃ العسرۃ (تنگی کے وقت لڑا جانے والا غزوہ) کہلایا جس جیش العسرۃ کی تیاری کےلیے حضرت عثمان ؓ بن عفان نے ہزار اونٹ الله کے راستے میں دیے تھے۔ پھر تنگی رہی تو پچاس اونٹ اور دیے۔ تب نبیﷺ نے فرمایا تھا مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا فَعَلَ بَعْدَ الْيَوْمِ ’’آج کے بعد عثمان جو کر لے اسے نقصان نہ دے گا‘‘۔ یہ نبیﷺ کا آخری غزوہ ہے، اس میں قتال کی نوبت نہ آئی تھی۔ نبیﷺ نے بیس سے زائد غزوات بنفسِ نفیس لڑے تھے، ان میں قتال صرف نو غزوات میں ہوا تھا: بدر، احد، بنی المصطلق، خندق، ذی قرد، غزوۂ طائف۔ ان میں سب سے بڑا لشکر جو نبیﷺ نے جمع کیا تھا وہ حنین اور طائف کے موقع پر تھا، یہ بارہ ہزار کا جیش تھا۔ اور وہ سب سے بڑا لشکر جو نبیﷺ کے ہمرکاب ہوا وہ جیشِ تبوک تھا، یہ بہت بڑا شمار سے باہر تھا، تاہم اس میں قتال پیش نہ آیا تھا۔  یہ جن اصحابؓ کا ذکر ہوا، اللہ کے اس فرمان کے تحت مندرج ہوتے ہیں: لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ’’تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہےاگرچہ اللہ نے دونوں سے ہی اچھے وعدے فرمائے ہیں‘‘۔  غرض یہ طُلَقاء ہیں جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خرچ اور جہاد کیا، جبکہ اللہ کے اچھے وعدے ان کے ساتھ بھی ہوئے؛ کیونکہ انہوں نے حنین اور طائف کے موقع پر خرچ اور جہاد کیا، رضی اللہ عنہم۔ پھر یہ ان لوگوں میں داخل ہیں جن سے اللہ راضی ہوا اور جو اس آیت میں مذکور ہیں: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ’’مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین اور وہ جو نیکوکاری کے ساتھ ان کے پیچھے آئےاللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی‘‘۔ اس آیت میں سابقین اولین وہ صحابہؓ ہیں جو حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہوئے، جیسے وہ صحابہؓ جن کا درخت کے نیچے کھڑے رسول اللہﷺ کا بیعت کرنا آیت میں ذکر ہوا: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ’’یقینا اللہ راضی ہوا ان مومنوں سے جب وہ تیری بیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے‘‘۔  یہ چودہ سو سے زائد تھے اور سبھی کے سبھی جنتی ہیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا: لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ’’درخت تلے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی دوزخ میں داخل نہ ہو گا‘‘۔ انہی میں حاطبؓ بن ابی بلتعہ آتے ہیں جن سے کچھ معروف گناہ سرزد ہوئے مانندمشرکین کے ساتھ مکتوب رسانی جس میں نبیﷺ سے متعلق کچھ خبریں مشرکوں تک پہنچائی گئی تھی۔ نیز ان کا اپنے مملوکوں کے ساتھ زیادتی کر بیٹھنا، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا: حاطبؓ کا مملوک نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور بولا: اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول۔ لازم ہے کہ حاطبؓ دوزخ میں جائے۔ جس پر آپﷺ نے فرمایا: جھوٹے ہو، وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہو چکا ہے۔ نیز حدیث میں ہے کہ: جب حاطبؓ نے مشرکوں کو لکھا کہ نبیﷺ عنقریب ان پر لشکر کشی فرمانے والے ہیں، تو نبیﷺ نے علیؓ بن ابی طالب اور زبیرؓ کو اس عورت کے پیچھے دوڑایا جو حاطب کا وہ خط لے کر جا رہی تھی۔ یہ دونوں وہ خط برآمد کر لائے تو نبیﷺ نے پوچھا: حاطب یہ کیا؟ تو انہوں نے عرض کی: اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول میں نے یہ نہ تو ارتداد کے طور پر کیا اور نہ اسلام لانے کے بعد کفر پہ راضی ہوا ہوں۔ مگر میں قریش کے ساتھ بس جڑا ہوا ہی تھا، خود ان میں سے نہیں تھا۔ جبکہ آپ کے ساتھ جو اصحاب ہیں ان کی وہاں رشتہ داریاں ہیں جن کے بل پر وہ اپنے گھر والوں کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ تو میں نے سوچا جب میری وہاں کوئی ایسی رشتہ داری نہیں تو ان پر ایک احسان کر لوں جس کے عوض وہ میرے گھر والوں کو وہاں تحفظ دے دیں۔ اس پر عمرؓ بولے: اللہ کے رسول مجھے اس منافق کی گردن مارنے دیجیے۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ بدر میں شریک ہو چکا ہے، تو کیا جانے اللہ نے فرما رکھا ہے تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخشا‘‘۔ اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ ان سابقین کی، جو کہ اہل بدر و اہل حدیبیہ ہیں، اللہ کے ہاں بڑے گناہوں تک کی بخشش ہے اس وجہ سے کہ انہوں نے ایمان اور جہاد میں سبقت کر رکھی ہے۔ جس کی بنیاد پر کسی کےلیے جائز نہیں کہ وہ اس پر ان کو قابل سزا ٹھہرائے جس طرح کہ حاطبؓ کو کوئی سزا نہ دینا لازم ٹھہرا۔ یہ ہے وہ دلیل جس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ علیؓ اور طلحہؓ و زبیرؓ وغیرہ کے مابین جو کچھ ہوا  وہ یا تو اجتہاد ہو جس میں سرے سے گناہ نہیں، سو اس پر کچھ کہنا ہی نہیں بنتا۔ جبکہ نبیﷺ سے صحیح حدیث میں ثابت ہے: إذَا اجْتَهَدَ الْحَاكِمُ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا اجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ ’’فیصلہ کرنے والا جب اجتہاد کرے اور درست کرے تو اس کےلیے دہرا اجر۔ اور اگر اجتہاد کرے اور غلط کر لے تو اس کےلیے اکہرا اجر‘‘۔ اور اگر یہ گناہ بھی بنتا ہو تو یہ ثابت ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو چکا اور یہ جو کچھ کر لیں وہ ان کو معاف فرما چکا۔ لہٰذا ان سے جو قصور سرزد ہوا، اس صورت میں کہ اگر اسے گناہ باور کیا جائے، تو وہ ان بزرگوں کے حق میں ضرر رساں نہیں۔ بلکہ اگر ان میں سے کسی سے گناہ ہوا تو اللہ نے گناہوں کو مٹانے والے کسی نہ کسی سبب سے وہ مٹا دیا۔ مثلاً یہ کہ اس نے توبہ کر لی اور اللہ نے اس کی توبہ قبول فرما لی ہو۔ یا یہ کہ اس کی حسنات اتنی ہوں کہ سیئات کو مٹا ڈالیں۔ یا اس پر کوئی آزمائش ڈال دی ہو جو اس کے قصور کا کفارہ بن گئی ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے: مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا غَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا أَذًى إلَّا كَفَّرَ اللَّهُ مِنْ خَطَايَاه ’’مومن کو جو بھی مشکل یا تنگی یا پریشانی یا گھبراہٹ یا دکھ یا ایذاء پہنچے، اس کے بدلے اللہ اس کی خطاؤں کا کفارہ فرماتا ہے‘‘۔

رہ گئے ان سابقین اولین صحابہؓ کے بعد کے صحابہؓ، جوکہ حدیبیہ کے بعد اسلام لانے والے ہیں تو یہ اللہ کے اس فرمان میں داخل ہیں: وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ’’ اگرچہ اللہ نے دونوں سے ہی اچھے وعدے فرمائے ہیں‘‘۔ نیز اس فرمان میں: وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ’’اور وہ جو نیکوکاری کے ساتھ ان کے پیچھے آئےاللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی‘‘۔ جبکہ خالدؓ بن الولید، عمروؓ بن العاص اور عثمانؓ بن طلحہ حجبی وغیرہ صحابہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ جبکہ اہل طائف ’’طُلَقاء‘‘ کے بعد اسلام لائے۔ یہ سب سے آخر میں اسلام لانے والے ہوئے۔ ان میں عثمانؓ بن ابی العاص ثقفی آتے ہیں جن کو نبیﷺ نے اہل طائف پر امیر بنایا اور جو کہ برگزیدہ صحابہؓ میں آتے ہیں، باوجود اس کے کہ بہت بعد میں اسلام لائے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص تاخیر سے اسلام لائے لیکن بعض اپنے سے پہلے والوں پر فضیلت پا لے۔ جیسے عمرؓ بن الخطاب جن کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ چالیسویں اسلام لانے والے ہیں جبکہ اپنے سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے بہت سوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ جبکہ عمرؓ سے پہلے اسلام لانے والوں میں عثمانؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ اور عبد الرحمنؓ بن عوف آتے ہیں۔ یہ سب ابوبکرؓ کے ہاتھ پر اسلام لائے تھے۔ لیکن عمرؓ نے بعد میں اسلام لا کر ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سب سے پہلے اسلام لانے والے بالغ آزاد مردوں میں ابو بکرؓ آتے ہیں۔ بالغ آزاد بچوں میں علیؓ۔ غلاموں میں زیدؓ بن حارثہ۔ عورتوں میں ام المؤمنین خدیجہؓ۔ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔

اللہ کا فرمان ہوا: إنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْض ’’بےشک جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کےلیے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑی، اور وہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے ولی ہیں‘‘۔  اور اس کے ساتھ ہی یہ فرمان: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ’’اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی ہیں سچے ایمان والے۔ ان کےلیے ہے بخش اور عزت کی روزی‘‘۔ اور پھر اس کے بعد یہ فرمان ہوا: وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ ’’اور جو بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا وہ بھی تمہی میں سے ہیں‘‘۔  چنانچہ یہ سب کےلیے عام ہوا۔ پھر سورۃ الحشر میں فرمایا: لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ} {وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} {وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ’’ان فقیر ہجرت کرنے والوں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے اور اللہ و رسول کی مدد کرتے وہی سچے ہیں۔ اور جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے گئے اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کو جو دیے گئے اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔ اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے‘‘۔ چنانچہ یہ آیت اور اس سے پچھلی آیت ان تمام لوگوں کو محیط ہے جو سابقین اولین کے بعد قیامت تک اس میں داخل ہونے والے ہوں۔ تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ اصحابِ رسول اللہؐ اس میں نہ آئیں جو آپﷺ پر ایمان لائے اور آپﷺ کے ہمرکاب جہاد کرتے رہے؟ پھر آپﷺ نے فرمایا: الْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ ’’مہاجر وہ ہے جو ہجر (دوری) اختیار کرے اللہ کے روکے ہوئے سے‘‘۔ لہٰذا طُلَقاء میں سے جو اسلام لائے اور اللہ کے روکے ہوئے سے ہجر اختیار کیے رہے، ان کے حق میں ہجرت کا معنیٰ ثابت ہے۔ سو یہ اس آیت کے مصداق میں داخل ہوئے: ’ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ ’’اور جو بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا وہ بھی تمہی میں سے ہیں‘‘۔ اسی طرح یہ اس آیت کے مصداق میں آئے: َكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ’’ اگرچہ اللہ نے دونوں سے ہی اچھے وعدے فرمائے ہیں‘‘۔ نیز اللہ کا یہ فرمان: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ’’محمد اللہ کے رسول ہیں، اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے، ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے، اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں، اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا‘‘۔ چنانچہ اس آیت میں وہ سب صحابہؓ آئے جو اللہ کے رسولﷺ پر ایمان لائے۔ صحیح حدیثوں سے مشہور حد تک یہ بات معلوم ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: خَيْرُ الْقُرُونِ الْقَرْنُ الَّذِي بُعِثْت فِيهِمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ’’سب سے برگزیدہ قرن وہ جن کے مابین میں مبعوث ہوا۔ پھر جو ان کے بعد والے۔ پھر جو ان کے بعد والے‘‘۔ صحیح حدیث میں آتا ہے: ایک بار عبد الرحمنؓ بن عوف اور خالدؓ بن الولید کے مابین تلخ کلامی ہو گئی تو نبیﷺ نے فرمایا: يَا خَالِدُ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي. فَوَاَلَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ خالد میرے صحابہؓ کو گالی مت دینا۔ کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا بھی راہِ خدا میں خرچ کر ڈالے تو ان میں سے کسی ایک کے دو مٹھی برابر  کو بھی نہ پہنچے بلکہ اس کے آدھے کو نہ پہنچے‘‘۔  پھر یہ حدیبیہ کے بعد اسلام لانے والے اس آیت کے مصداق میں داخل ہوئے: لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ’’تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہےاگرچہ اللہ نے دونوں سے ہی اچھے وعدے فرمائے ہیں‘‘۔

صحابہ صحبت سے ہے۔ صحبت ایک اسمِ جنس ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جسے نبیﷺ کی کم یا زیادہ صحبت میسر آئی۔ ہاں ہر کسی کی صحابیت نبیﷺ سے اپنی صحبت کے بقدر۔ لہٰذا جس کو نبیﷺ کی صحبت ایک سال میسر آئی، یا ایک ماہ، یا ایک دن یا ایک گھڑی، یا بحالتِ ایمان اس کو نبیﷺ کا دیدار ہی ہو گیا تو اس کے بقدر اس کی صحابیت ہوئی۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں آتا ہے: يَغْزُوا فِئَامٌ مِنْ النَّاسِ فَيَقُولُونَ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَفِي لَفْظٍ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ؛ فَيُفْتَحُ لَهُمْ؛ ثُمَّ يَغْزُوا فِئَامٌ مِنْ النَّاسِ فَيَقُولُونَ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ - وَفِي لَفْظٍ - هَلْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ يَغْزُوا فِئَامٌ مِنْ النَّاسِ فَيَقُولُونَ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَأَى مَنْ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ - وَفِي لَفْظٍ - مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ؛ فَيُفْتَحُ لَهُمْ ’’مسلمانوں میں سے کچھ گروہ کافروں پر یلغار کریں گے۔ لوگ پوچھیں گے: کیا تم میں  کوئی ایسے ہیں جن کی نبیﷺ سے صحبت ہوئی؟ جبکہ ایک روایت میں: کیا تم میں کوئی ایسے ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا؟ تو وہ بولیں گے: ہاں۔ تب انہیں فتح ملے گی۔ پھر مسلمانوں میں سے کچھ گروہ کافروں پر یلغار کریں گے۔ لوگ پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسے ہیں جنہیں ایسے کسی شخص کی صحبت ملی جسے رسول اللہﷺ کی صحبت ملی تھی؟ ایک روایت میں: کیا تم میں کوئی ایسے ہیں جنہوں نے ایسے شخص کو دیکھا جس نے رسول اللہﷺ کو دیکھا تھا؟ وہ بولیں گے: ہاں۔ تب انہیں فتح ملے گی۔ پھر مسلمانوں میں سے کچھ گروہ کافروں پر یلغار کریں گے۔ تو پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسے ہیں جنہوں نے کسی ایسے شخص کو دیکھا جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا جس نے رسول اللہﷺ کو دیکھا؟ ایک دوسری روایت میں: جسے کسی ایسے شخص کی صحبت ملی جسے کسی ایسے شخص کی صحبت ملی جسے رسول اللہﷺ کی صحبت ملی؟ تو وہ کہیں گے: ہاں۔ تب ان کو فتح ملے گی‘‘۔ حدیث کے بعض طرق میں چوتھے درجے پر بھی (پوچھنے اور فتح ملنے) کا ذکر ہے۔ چنانچہ حدیث میں نبیﷺ نے حکم کی بنیاد صحبت کو بنایا یا نبیﷺ کا دیدار حاصل ہونے کو۔ اور اللہ کے مسلمانوں کو فتح دینے کا سبب کوئی ایسا شخص ٹھہرایا جس نے بحالتِ ایمان نبیﷺ کو دیکھا ہو۔ یہ خصوصیت صحابہؓ کے علاوہ کسی کےلیے ثابت نہیں ٹھہرتی، اگرچہ کوئی دوسرا اپنے اعمال میں صحابہؓ میں سے کسی شخص سے بڑھا ہوا کیوں نہ ہو؟

فصل:

یہ واضح ہوا، تو یہ ایک معلوم بات ہے کہ جس طریق سے صحابہؓ میں سے کسی ایک شخص کا ایمان معلوم ہو گا اسی طریق سے اس جیسے دیگر صحابہؓ کا ایمان معلوم کیا جائے گا۔ جس طریق سے کسی ایک صحابیؓ کی صحبت معلوم ہو گی اسی طریق سے اس جیسے دیگر صحابہؓ کی صحبت معلوم کی جائے گی۔ چنانچہ طُلَقاء جو عام الفتح کو اسلام لائے مانند معاویہؓ ان کے بھائی یزیدؓ، عکرمہؓ بن ابی جہل، صفوانؓ بن امیہ، حارثؓ بن ہشام، سہیلؓ بن عمرو وغیرہ، تو اہل علم کے ہاں تواتر سے ان کا اسلام لانا اور تاحیات اسلام پر رہنا ثابت ہے۔ پھر معاویہؓ کا اسلام دوسروں سے اور بھی ظاہر تر ہے۔ کیونکہ چالس سال وہ والی رہے: بیس سال عمرؓ اور عثمانؓ کی نیابت میں (شام کے) والی رہے، مع وہ عرصہ جو خلافتِ علیؓ کے دوران گزرا۔ اور بیس سال جب وہ خود والیوں کو مقرر کرنے والے رہے۔ سن ساٹھ تک مسلمانوں کے حکمران رہے۔ حسنؓ بن علیؓ نے سن چالیس میں خلافت ان کے سپرد کی۔ اسی سال کو عام الجماعۃ کہا جاتا ہے، اس لیے کہ مسلمانوں کا اجتماعِ کلمہ ہوا تھا اور مسلمانوں کے مابین چلا آنے والا فتنہ ختم ہوا تھا۔ حسنؓ کا یہ فعل، جس کی رسول اللہﷺ نے تعریف فرمائی تھی۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا تھا: إنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَسَيُصْلِحُ اللَّهُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے مابین صلح کروانے والا ہے‘‘۔ چنانچہ نبیﷺ نے اپنے فرزند حسنؓ کے اس فعل کو قابل تعریف و ستائش ٹھہرایا جو ان کے ہاتھ پر اللہ نے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے مابین سمجھوتہ کروایا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب حسنؓ نے اقتدار معاویہؓ کے سپرد فرما دیا۔ پیش ازیں یہ دونوں اپنے اپنے  عظیم الشان لشکر لے کر ایک دوسرے کی طرف نکلے تھے۔ چنانچہ نبیﷺ نے حضرت حسنؓ کے اس فعل کی جو ستائش فرمائی جو انہوں نے صلح اور ترکِ قتال کی صورت میں انجام دیا، تو یہ دلیل ہوئی کہ ان دو گروہوں کے مابین صلح کروا دینا ایک ایسا فعل تھا جو اللہ کو محبوب تھا۔ اور یہ دلیل ہوئی کہ ان کا آپس میں لڑنا شریعت کا مامور بہٖ نہ تھا۔ بھلا اگر معاویہؓ کافر ہوتے تو ایک کافر کو مسلمانوں کی باگ سونپنا اور اقتدار اس کے سپرد کرنا کیونکر ایسا کام ہوتا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو محبوب ہو؟ بلکہ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہوئی کہ معاویہؓ اور ان کے ساتھی مومن تھے، جس طرح حسنؓ اور ان کے ساتھی مومن تھے۔ اور یہ کہ حسنؓ نے جو کیا وہ اللہ کے ہاں لا ئقِ تعریف، محبوب، اور اس کو اس کے رسولؐ کو خوش کرنے والا تھا۔ یہ ویسا ہی ہے جیسی حدیث سے ثابت ایک اور بات: تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنْ النَّاسِ فَتَقْتُلُهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ وَفِي لَفْظٍ فَتَقْتُلُهُمْ أَدْنَاهُمْ إلَى الْحَقِّ ’’مسلمانوں میں کسی پھوٹ کے وقت خروج کرنے والا ایک ٹولہ خروج کرے گا۔ تب اس کو (پھوٹ کے) ان دو فریقوں میں سے وہ فریق قتل کرے گا جو حق سے قریب تر ہو گا۔ ایک روایت کے الفاظ میں: ان کو حق سے قریب تر فریق قتل کرے گا‘‘۔ چنانچہ یہ صحیح حدیث دلیل ہوئی اس بات پر کہ صحابہؓ کے وہ دونوں فریق جن کے آپس میں لڑائی ہوئی تھی یعنی علیؓ اور ان کے ساتھی اور معاویہؓ اور ان کے ساتھی، ہر دو حق پر تھے اور یہ کہ علیؓ اور ان کے ساتھی معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کی نسبت حق سے قریب تر تھے۔ چنانچہ علیؓ ہی ہیں جنہوں نے مارقہ خوارج حروریہ کے خلاف قتال فر مایا۔ یہ (خوارج) وہ لوگ تھے جو پیش ازیں علیؓ کا گروہ تھے۔ پھر یہ علیؓ کے خلاف خروج کر گئے۔ آپؓ کی تکفیر کرنے لگے۔ جو آپؓ سے وابستگی رکھے اسے کافر کہنے لگے۔ آپؓ کی عداوت پر تل گئے اور آپؓ کے خلاف اور جو آپؓ کے ساتھ ہوا اس کے خلاف قتال کرنے لگے۔ یہی ہیں جن کے بارے میں نبیﷺ نے صحیح مشہور زبان زدِ عام بلکہ متواتر احادیث میں خبر دی تھی: يُحَقِّرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ وَقِرَاءَتَهُ مَعَ قِرَاءَتِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ أَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ آيَتُهُمْ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا مُخْدَجَ الْيَدَيْنِ لَهُ عَضَلٌ عَلَيْهَا شَعَرَاتٌ تَدَرْدُرُ ’’تم (صحابہؓ) میں کا ایک آدمی اپنی نماز کو ان (خوارج) کی نماز کے آگے ہیچ جانے گا، اپنے روزے کو ان کے روزے کے آگے، اور اپنے قرآن پڑھنے کو ان کے قرآن پڑھنے کے آگے۔ یہ لوگ قرآن پڑھتے ہوں گے مگر وہ ان کے حلقوں سے آگے نہ جاتا ہو گا۔ اسلام سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر اپنے ہدف سے گزرتا ہے۔ جہاں وہ تمہیں ملیں ان کو قتل کرو کیونکہ ان کو قتل کرنے میں اللہ کے ہاں قیامت کے روز اجر ہے۔ ان کی نشانی یہ کہ ان میں ایک آدمی ہو گا نامکمل ہاتھوں والا، جن پر دائیں بائیں ہلتا ایک لوتھڑا ہو گا جس پر چند بال ہوں گے‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علیؓ اور ان کے وابستگان کے ساتھ عداوت کرنے پر تل گئے تھے۔ انہوں نے ہی آپؓ کا قتل کرنا جائز کیا تھا اور آپؓ کو کافر کہہ دیا تھا۔ ان کے ایک سرغنے عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے آپؓ کو قتل کیا۔ یہ ہیں مارقہ نواصب خوارج جنہوں نے کہا: عثمانؓ اور علیؓ اور جو جو ان کے ساتھی ہوئے سب کافر مرتد ہوئے۔ مسلمانوں کی ان کے خلاف دلیل وہ متواتر اخبار ہیں جو صحابہؓ کے مومن ہونے سے متعلق ہیں۔ نیز کتاب اور سنتِ صحیحہ میں اللہ کا صحابہؓ کی مدح اور ستائش کرنا اور ان سے راضی ہوا ہونا، اور یہ خبر دینا کہ وہ جنتی ہیں۔ اور اسی طرح کی نصوص۔ اب جس شخص کو یہ نصوص قبول نہیں وہ علیؓ بن ابی طالب اور ان جیسے دیگر بزرگوں کا مومن ہونا بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اگر یہ ناصبی اُس رافضی پر یہ سوال یوں کر دے (معاذاللہ) کہ: علیؓ کافر یا ظالم یا فاسق ہے اور یہ کہ وہ بھی اقتدار اور ریاست کےلیے لڑا نہ کہ دین کےلیے۔ اور یہ کہ اس نے جمل، صفین اور حروراء میں امتِ محمدﷺ کے ہزارہا اہل ملت قتل کر ڈالے۔ اور یہ کہ نبیﷺ کی وفات کے بعد وہ کسی کافر سے نہیں لڑا۔ اور نہ کوئی شہر فتح کیا۔ بلکہ جتنی لڑائی کی اہل قبلہ کے ساتھ کی۔ اور اسی طرح کی باتیں جو بغضِ علیؓ سے بھرے ہوئے نواصب بکا کرتے ہیں۔ تو یہاں ان (نواصب) کو صرف اہل سنت ہی جواب دے سکتے ہیں جو سب کے سب سابقین اولین سے محبت اور موالات رکھتے ہیں اور جن کا مذہب ہے کہ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، طلحہؓ، زبیرؓ وغیرہ کا مومن ہونا، ہجرت کرنا اور جہاد کرنا متواتر اخبار سے ثابت ہے۔ قرآن میں اللہ کا ان کی تعریف کرنا اور ان سے راضی ہونا ثابت ہے۔ صحیح احادیث میں نبیﷺ کا ان کی عمومی و خصوصی ہر لحاظ سے تعریف کرنا ثابت ہے۔ مثال کے طور پر یہ مشہور زبان زدِ عام حدیث: لَوْ كُنْت مُتَّخِذًا مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ خَلِيلًا لَاِتَّخَذْت أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا  ’’اہل زمین میں سے اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا‘‘۔ پھر یہ حدیث: إنَّهُ قَدْ كَانَ فِي الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ مُحَدّثُونَ فَإِنْ يَكُنْ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَعُمَرُ ’’یقیناً تم سے پہلی امتوں کے اندر محدث لوگ رہے ہیں (جن کو الہام ہو جاتا ہے ) میری امت ایسا کوئی ہوا تو وہ عمرؓ ہے‘‘۔ پھر عثمانؓ سے متعلق یہ حدیث:  أَلَا أَسْتَحِي مِمَّنْ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ ’’کیا میں اس شخص کا حیاء نہ کروں جس کا ملائکہ حیاء کرتے ہیں؟‘‘۔  پھر علیؓ سے متعلق حدیث: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ ’’کل ضرور میں عَلَم اس شخص کو تھماؤں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔  پھر یہ حدیث: لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيُّونَ وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ ’’ہر نبی کے کچھ حواری ہوئے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے‘‘۔ اسی طرح کی دیگر احادیث۔ رہ گیا رافضی تو اس کےلیے ممکن ہی نہیں کہ وہ علیؓ کے ساتھ بغض رکھنے والے نواصب پر اس طرح حجت قائم کر سکے جس طرح اہل سنت سب پر حجت قائم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جس وقت وہ (رافضی) کہے گا کہ علیؓ کا ایمان تو تواتر سے ثابت ہے، تو اسے کہا جائے گا: تو پھر ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، معاویہؓ اور دیگر کا ایمان بھی تو اسی طرح تواتر سے ثابت ہے جبکہ تم یا تو ان کے مسلمان ہونے میں یا ان کی عدالت (ان کے معتبر ہونے) میں طعن کرتے ہو۔ پھر اگر وہ (رافضی) کہے کہ علیؓ کے ایمان کا ثبوت تو یہ ہے کہ نبیﷺ نے ان کی تعریف کی ہے۔ تو ہم کہیں گے: یہ احادیث جن میں علیؓ کی تعریف ہوئی صحابہؓ نے ہی روایت کی ہیں جن پر تم طعن کرتے ہو۔ ان احادیث کے راوی ہیں سعد بن ابی وقاصؓ، عائشہؓ، سہل بن سعد ساعدیؓ اور اسی طرح کے دیگر صحابہؓ جن کی تم قدح کرتے ہیں۔ ان جیسوں کی روایات اگر ضعیف ہیں تو علیؓ کے سب کے سب فضائل پھر خودبخود غیر ثابت ٹھہرے۔ اور اگر ان کی روایت صحیح ہے تو علیؓ کے بھی فضائل ٹھہرے اور دوسروں کے بھی۔ جبکہ انہوں نے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور دیگر صحابہؓ کے فضائل کی احادیث بھی بیان کی ہیں۔ پھر اگر رافضی کہے: علیؓ کے فضائل شیعہ کے ہاں متواتر ہیں، جیسا کہ ان کا کہنا کہ علیؓ کی امامت سے متعلق نص متواتر ہے: جہاں تک ان شیعہ کا تعلق ہے جو صحابہؓ میں نہیں آتے، تو انہوں نے تو نبیﷺ کو دیکھا اور نہ آپﷺ کا کلام سنا۔ یہ اگر نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں تو وہ مرسل منقطع کہلائے گی۔ یہ جب تک اس میں صحابہؓ کا حوالہ نہ دیں تب تک وہ صحیح حدیث نہ بنے گی۔ رہ گئے وہ صحابہؓ جن سے رافضہ موالات رکھتے ہیں تو وہ ایک بہت چھوٹی تعداد ہیں۔ کوئی بارہ چودہ کے لگ بھگ۔ اتنی تعداد کے نقل کرنے سے تواتر ثابت نہ ہو گا۔ اس لیے کہ اتنی سی تعداد  کے متعلق عقلی طور پر یہ محال نہیں کہ وہ مل کر ایک بات کر لیں۔ رہ گئے صحابہؓ کے وہ جمہورِ اعظم جنہوں نے علیؓ و دیگر بزرگوں کے فضائل روایت کیے، تو ان پر رافضہ قدح کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں رافضہ کے نزدیک اگر صحابہؓ کے اتنے بڑے جمہورِ اعظم کا (معاذاللہ) جھوٹا ہونا اس دھڑلے سے ممکن کر لیا جاتا ہے تو کسی دوسرے کا صحابہؓ کی اُس چھوٹی سی تعداد کو جو علیؓ کی ساتھی باور کی جاتی ہے  (معاذاللہ) جھوٹا ٹھہرانا تو اولیٰ اور جائز تر ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر رافضی یہ کہنے پر آ جاتا ہے کہ ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کا مقصد ریاست و اقتدار تھا اور اس لیے انہوں نے کسی دوسرے کا اقتدار غصب کر لیا۔ تو اسے جواب دیا جا سکتا ہے: انہوں نے ’اقتدار‘ کےلیے کسی مسلمان سے جنگ نہیں کی۔ جتنا قتال کیا وہ مرتدین اور کفار سے کیا۔ انہوں نے ہی کسریٰ اور قیصر کو توڑا۔ بلادِ فارس کو فتح کیا۔ اسلام کو قائم کیا۔ ایمان اور اہل ایمان کو غالب کیا اور کفر اور اہل کفر کو پست کیا۔ عثمانؓ جو کہ مرتبے میں ابوبکرؓ اور عمرؓ سے نیچے ہیں، اس کے باوجود ان کے اقتدار میں ہوتے ہوئے جس وقت ان کو قتل کرنے کی کوشش ہوئی تو وہ اس بات کے روادار نہ ہوئے کہ مسلمانوں کے بیچ قتال ہو۔ اپنے اقتدار کی خاطر کسی ایک مسلمان پر تلوار نہ چلائی۔ تو پھر ایسی ہستیوں کی بابت اگر تم (رافضی) نےممکن کر دیا کہ وہ اقتدار کی خاطر ظلم کرنے والے اور رسول کے دشمن تھے، تو پھر ناصبی کو تمہارے خلاف جو حجت حاصل ہے وہ تو کہیں زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ اگر تم (رافضی) ان ہستیوں کے حق میں بدزبانی کرنے اور انہیں ظلم اور رسولﷺ اور آپﷺ کی جماعت کے ساتھ عداوت سے منسوب کر دینے لگے: تو یہاں سے تو خارجی مارق نواصب کو خود تمہارے مذہب کے خلاف ایک بہت بڑی حجت ہاتھ آ جاتی ہے۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے: ہوسِ اقتدار کے ساتھ منسوب کیا جانے کے زیادہ لائق کون ہے: وہ جس نے اپنے عہدہ کےلیے مسلمانوں سے قتال کیا اور کافروں سے قتال نہ کیا۔ اور اپنی اطاعت کروانے کےلیے ان سے قتال میں پہل کی  جبکہ وہ اس کی اطاعت میں نہ تھے۔ اور اہل قبلہ میں سے ایسے ہزارہا لوگوں کا خون کرنے کا روادار ہوا جو نماز قائم کرنے، زکات دینے، بیتِ عتیق کا حج کرنے، ماہِ رمضان کے روزے رکھنے اور قرآن پڑھنے والے تھے؟... یا وہ جنہوں نے کسی مسلمان سے جنگ نہیں کی بلکہ اہلِ نماز و زکات کی سلطنت قائم کی اور ان کی نصرت اور تمکین کی؟ یا وہ جس نے اقتدار میں ہوتے ہوئے قتل ہونا گوارا کر لیا لیکن اپنے دفاع تک میں جنگ کرنے کا روادار نہ ہوا یہاں تک کہ اپنے گھر میں اور اپنے اہلِ خانہ کے مابین قتل کر دیا گیا، رضی اللہ عنہ؟ ایسی ہستیوں کی بابت جب تم نے یہ کہنا جائز ٹھہرا دیا کہ انہوں نے اقتدار کےلیے ظلم کیا، مسلمانوں کا حق غصب کیا... تو پھر ایسی بات اس ہستی کی بابت کہنا تو تم نے بالاولیٰ جائز ٹھہرا دیا جسے اپنی امارت کےلیے جنگ کرنا پڑی تھی اور اس عمل میں مسلمانوں کا کچھ خون بھی ہو گیا تھا۔ اس سے اور دیگر دلائل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رافضہ ایک ایسی جماعت ہیں جو نہ عقلِ صریح کے مالک، نہ نقلِ صحیح کے حامل، نہ ان کے ہاں خدا کے ہاں قبول ہونے والا دین اور نہ نصرت ملنے کے قابل دنیا۔ بلکہ یہ گروہوں میں سب سے بڑھ کر جھوٹ اور جہل کے خوگر ہیں۔ ان کے عقیدہ کے باعث ہی اس بات کی گنجائش ہوئی ہے کہ ہر زندیق اور مرتد مسلمانوں میں چلا آیا کرے، جیسا کہ ان میں نصیریہ اور اسماعیلیہ وغیرہ طوائف در آئے۔  چنانچہ اپنی عداوت کےلیے انہوں نے امت کی سب سے برگزیدہ ہستیاں چنیں جبکہ اپنی دوستیوں کےلیے اللہ کے دشمن یہود، نصاریٰ اور مشرکین۔ رد کرنے کےلیے ایک ظاہر باہر متواتر سچائی کو چنا۔ اور جس چیز کی اقامت کرنے لگے وہ ایک نرا گھڑا ہوا جھوٹ جس کا فاسد ہونا ایک معلوم حقیقت ہے۔ شعبیؒ نے، جوکہ ان سے متعلق سب سے زیادہ باعلم تھے، ان کے متعلق کہا تھا: یہ اگر چرند ہوتے تو گدھے ہوتے اور اگر پرند ہوتے تو کرگس ہوتے۔ چنانچہ معاویہؓ سے متعلق بھی یہ سب سے زیادہ بہتان تراش اور سب سے بڑے دروغ گو واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ معاویہؓ سے متعلق تواتر سے ثابت ہے کہ دیگر صحابہؓ کی طرح معاویہؓ کو بھی آپﷺ نے مامور کیا۔ معاویہؓ نے آپﷺ کے ہم رکاب جہاد کیا۔ یہ آپﷺ کے ہاں امین تھے۔ آپﷺ کےلیے وحی کی کتابت کرتے۔  کتابتِ وحی کے معاملہ میں نبیﷺ نے معاویہؓ پر کوئی الزام نہیں رکھا۔ عمرؓ نے جو کہ کمال مردم شناس ہستی تھے اور اللہ نے آپؓ کی زبان اور قلب پر حق جاری فرمایا تھا، معاویہؓ کو والی بنایا۔ عمر نے ان کے والی ہونے کے معاملہ میں کبھی ان پر الزام نہیں رکھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے والد ابو سفیانؓ کو والی بنایا تھا جو اپنے منصب پر آپﷺ کے دنیا سے رخصت ہوتے تک فائز رہے۔ جبکہ معاویہؓ اپنے والد سے بھی افضل ہوئے۔  اپنے اسلام میں والد سے بھی خوب تر ہوئے، جس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اگر نبیﷺ نے ان کے والد کو والی بنایا تھا تو ان کی ولایت تو بالأولیٰ جائز ہوئی۔ یہ اہل رِدّۃ میں سے بھی کبھی نہیں ہوئے۔ نہ اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی کبھی رِدَّۃ سے ان کی نسبت کی۔ معاویہؓ وغیرہ کی رِدّۃ سے نسبت کرنے والے اگر کوئی ہیں تو وہ وہی ہیں جو ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور مہاجرین و انصار کے سابقین اولین میں سے عام اہل بدر و اہل بیعتِ رضوان کی نسبت ایسی ایسی اشیاء سے کرتے ہیں جو ان ہستیوں کی بابت زبان پر لانے کے لائق نہیں۔ ان کو مرتد کہنے والوں میں سے بعض کا کہنا ہے (معاذاللہ) کہ: مرتے دم معاویہؓ کا رخ مشرق جانب تھا۔ چہرے پر صلیب تھی۔ جوکہ ہر عاقل کو معلوم ہے کہ معاویہؓ پر ایک عظیم جھوٹ اور بہتان ہے۔ اگر کسی کہنے والے نے ایسی بات بالفرض معاویہؓ سے کم حیثیت کے کسی اموی یا عباسی بادشاہ  کے متعلق کر دی ہوتی، مثلاً عبدالملک بن مروان اور اس کے بیٹوں یا ابو جعفر منصور اور اس کے دو بیٹوں مہدی اور ہادی یا ہارون الرشید وغیرہ سے متعلق ایسی بات کر دی ہوتی کہ جو مسلمانوں میں خلیفہ اور امیرالمومنین ہو گزرے ہیں، یعنی ان میں سے کسی کے متعلق  یہ کہہ دیا ہوتا کہ وہ مرتے وقت نصاریٰ کے دین پر تھا، تو ہر عاقل کو معلوم ہو گا کہ یہ ایک بیہودہ جھوٹ ہے... تو پھر معاویہؓ اور ان جیسے صحابہؓ کے متعلق یہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ بلکہ معاویہؓ کے بیٹے یزید کے متعلق تک، باوجود ان خرابیوں کے جو اس نے کیں ، جو شخص یہ کہے کہ وہ کافر مرتد تھا، تو وہ اس پر جھوٹ گھڑنے والا ہو گا۔ بلکہ وہ مسلمانوں کے عام بادشاہوں کی طرح مسلمانوں کا ایک بادشاہ تھا۔ اکثر بادشاہ ایسے ہوئے جن کے دامن میں حسنات بھی ہوئیں اور سیئات بھی۔ ان کی حسنات بھی عظیم اور سیئات بھی عظیم۔ اب جو شخص حضرت معاویہؒ جیسے دیگر صحابہ کو چھوڑ کر  صرف معاویہؓ پر ایسا طعن کرے تو وہ یا تو جاہل ہو گا یا ظالم۔ جو گنجائشیں سب مسلمانوں کےلیے ہیں وہی ان کےلیے ہوں گی۔ ان میں ایسے بھی ہوں گے جن کی نیکیاں ان کی برائیوں سے بڑھ جائیں۔ ایسے بھی ہوں گے جو اپنی سیئات سے تائب ہوئے۔ ایسے بھی جن کی سیئات  اللہ نے کفارہ کر دیں۔ ایسے بھی جنہیں اللہ جنت میں داخل کرے گا۔ ایسے بھی جنہیں ہو سکتا ہے اللہ ان کی سیئات پر سزا دے لے۔ ایسے بھی جن سے متعلق کسی نبی یا کسی اور شافع کی شفاعت قبول فرما لے۔ غرض ان میں سے کسی کو دوزخی قر ار دینا اہل بدعت و ضلال ہی کا قول ہو سکتا ہے۔ یہی حکم ان میں سے کسی کو معین کر کے لعنت کرنے کا ہے۔ یہ بھی صالحین اَبرار کے اعمال میں سے نہیں ہے۔ باوجودیکہ حدیث میں ثابت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ لعنت کرے شراب پر، اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے بنانے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اور اس کا مول کھانے والے پر۔ دوسری جانب یہ بھی آپﷺ سے ثابت ہے کہ: رسول اللہﷺ کے عہد میں ایک شخص تھا جو شراب بہت پیتا تھا اور اسے حمار پکارا جاتا تھا۔ جب بھی اسے جرم میں پکڑ کر نبیﷺ کے پاس لایا جاتا آپﷺ اسے کوڑے لگواتے۔ تب ایک شخص بولا: اللہ اس پر لعنت کرے یہ کتنا بار بار پکڑ کر نبیﷺ کے پاس لایا جاتا ہے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا: اسے لعنت مت کرو اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے‘‘۔  غرض نبیﷺ نے شرابی پر عموم کے صیغہ میں لعنت فرمائی جبکہ معین کرکے اس پر لعنت کرنے سے ممانعت فرمائی۔  جیسا کہ ہم ویسا ہی بولیں گے جیسا اللہ نے بولا: إنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ’’جو اللہ لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں‘‘۔ اب اگر کوئی یتیم کا مال ناحق کھانے والا ہو تو ہم معین کر کے اس کی بابت یہ دعویٰ نہیں کریں گے کہ وہ دوزخی ہے۔  اس لیے کہ امکان بہرحال ہے کہ وہ توبہ کر لے یا اس کے یہاں ایسی نیکیاں ہونے کے باعث جو برائیوں کو مٹا دیں اللہ اس کی بخشش کر دے۔ یا اسے کچھ ایسے مصائب آ گئے ہوں جو اس گناہ کا کفارہ بن جائیں۔ یا کوئی قابل قبول شفاعت۔ یا اللہ کا اپنی جانب سے معاف کر دینا۔ وغیرہ۔ یہی قاعدہ ایک بادشاہ پر لاگو ہو گا اور یہی ایک غیر بادشاہ پر۔ اس سے سرزد ہونے والا اگر ظلم ہے تو بھی یہ اس بات کا موجب نہیں کہ ہم اسے لعنت کریں اور اس کے دوزخی ہونے کا دعویٰ کر دیں۔ جو شخص ایسا کرے گا وہ اہلِ بدعت و ضلال میں سے ہو گا۔ کجا یہ کہ آدمی کے دامن میں عظیم حسنات ہوں جن کی بنا پر اس کے ظلم کے باوجود اس کےلیے مغفرت کی امید بنتی ہو ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: أَوَّلُ جَيْشٍ يَغْزُو قُسْطَنْطِينِيَّةَ مَغْفُورٌ لَهُ ’’وہ پہلا لشکر جو قسطنطنیہ پر چڑھائی کرے گا، بخشا جائے گا‘‘۔ جبکہ وہ پہلا لشکر جس نے قسطنطنیہ پر چڑھائی کی اس کا امیر یزید بن معاویہ تھا۔ اس کے ساتھ مہم میں ابو ایوب انصاریؓ تھے جو وہیں فوت ہوئے اور ان کی قبر آج تک وہاں ہے۔ یہ وجہ ہے ائمۂ سلف میں اہل اعتدال کا یزید اور اس جیسوں کے متعلق قول ہوا: نہ ہم انہیں گالی دیں اور نہ ان سے محبت کریں۔ مراد یہ کہ ان سے جو ظلم سرزد ہوا ہم اسے پسند کرنے والے نہیں۔ ایک ہی شخص کے اندر حسنات اور سیئات ہر دو جمع ہو سکتی ہیں۔ اطاعت کے کام اور معصیت کے کام بیک وقت پائے جا سکتے ہیں۔ نیکوکاری اور بدکاری دونوں اس میں موجود ہو سکتے ہیں۔  جس پر اللہ اس کی نیکیوں کا اس کو ثواب دے گا اور اس کی برائیوں کی اس کو سزا دے گا اگر چاہے یا معاف کر دے گا۔ جس قدر خیر کا کام اس نے کیا اس قدر وہ محبت کے قابل ہو گا اور جتنی برائی اس نے کی اس کے بقدر وہ بغض کے لائق ہو گا۔ رہا وہ شخص جس کی سیئات صغائر ہوں تو معتزلہ تک اس پر متفق ہیں کہ اللہ انہیں معاف فرمانے والا ہے۔ رہ گیا صاحبِ کبیرہ، تو امت کے سلف اور ائمہ اور تمام اہل السنۃ والجماعۃ معین کر کے اس کو دوزخی نہ کہنے کے قائل ہیں اور اس بات کی گنجائش ماننے کے کہ اللہ اس کو معاف کر سکتا ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا: إنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ’’اللہ بس ایک شرک کو معاف فرمانے والا نہیں، اس سے کم جسے چاہے معاف کر دے‘‘۔  چنانچہ یہ اس شخص کے حق میں جس سے شرک نہ ہوا ہو اور اس بات کو اس نے اپنی مشیئت (مرضی) سے قید کر دیا۔ رہ گئی ایک دوسری آیت:  قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے‘‘ تو یہ اس شخص کے حق میں جو توبہ کر آیا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اس میں معافی کو مطلق اور عام رکھا، یعنی ہر قسم کے گناہ۔ خوارج اور معتزلہ کا مذہب یہ ہوا ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب دوزخ میں مخلد کیا جاتا ہے۔ اس ایک غلط مقدمہ کے بعد اگلا غلط مقدمہ وہ یوں اٹھاتے ہیں کہ بعض نیکوکاروں کے متعلق وہم کر لیتے ہیں کہ وہ اہل الکبائر ہیں، جیسا کہ خوارج نے عثمانؓ و علیؓ اور ان کے پیروکاروں کے متعلق سمجھا اور انہیں (معاذاللہ) مخلد فی النار ٹھہرایا۔ اسی طرح جیسا کہ بعض لوگ معاویہؓ، عمروؓ بن العاص اور ان جیسے دیگر بزرگوں کے متعلق وہم کر لیتے ہیں۔ یہ اپنا مذہب دو باطل مقدموں پر رکھتے ہیں: پہلا: فلاں شخص اہل کبائر میں سے ہے۔ دوسرا: ہر صاحبِ کبیرہ مخلد فی النار ہے۔ حالانکہ ہر دو قول باطل ہے۔ دوسرا تو علی الاطلاق باطل ہے۔ رہ گیا پہلا تو کسی وقت اس کا باطل ہونا معلوم ہوتا اور کسی وقت توقف کرنے کا متقاضی۔ اور جو شخص معاویہؓ او ردیگر  بزرگوں کے متعلق جن کا اسلام لانا، نمازی و روزہ دار ہونا اور حج کرنا معروف اور ظاہر ہے، یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہی نہ ہوئے تھے، اور یہ کہ وہ اپنے کفر پر ہی باقی چلے آئے تھے، تو وہ اسی شخص جیسا ہو گا جو اس طرح کا کوئی دعویٰ کسی دیگر صحابیؓ سے متعلق کر دے۔ مثلاً کوئی عباسؓ یا جعفرؓ یا عقیلؓ یا ابوبکرؓ و عمرؓ و عثممانؓ سے متعلق یہی دعویٰ کر دے۔ یا مثلاً دوسرا کوئی بدبخت حسنؓ و حسینؓ کے متعلق یہ دعویٰ کر دے کہ وہ آلِ علیؓ نہیں بلکہ آلِ سلمان فارسیؓ ہیں۔ یا مثلاً کوئی شخص یہ دعویٰ کر دے کہ نبیﷺ نے نہ ہی ابوبکرؓ و عمرؓ کی صاحبزادیوں سے شادی کی  اور نہ عثمانؓ سے اپنی دو بیٹیوں کی شادی کی۔ حق یہ ہے کہ معاویہؓ کے مسلمان ہونے سے انکار کرنا اس طرح کی کئی باتوں کے انکار سے زیادہ بیہودہ ہے۔ کیونکہ ان امور میں سے کئی ایسے ہیں جو صرف علماء کو معلوم ہیں۔ رہ گیا معاویہؓ کا مسلمان ہونا، اور مسلمانوں کا والی ہونا، پھر ان کا امیر اور خلیفہ ہونا تو وہ مخلوق میں سے جماہیر کو معلوم ہے۔ کوئی شخص اگر علیؓ کے مسلمان ہونے کا انکار کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ وہ کفر پر ہی چلے آئے تھے، تو اس کے مقابلے پر ویسی ہی ایک حجت کی ضرورت پڑے گی جیسی حجت کی ضرورت اس شخص کے مقابلے پر جو ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ وغیرہ کے مسلمان ہونے کا انکار کرے۔ بےشک ایسا ہے کہ ان میں بعض، بعض کے مقابلے پر افضل ہیں، لیکن ان کا ایک دوسرے سے افضل ہونا اس بات میں مانع نہیں کہ ’’مسلمان‘‘ مانے جانے میں یہ سب مشترک ہوں۔

رہ گیا کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ معاویہؓ کا ایمان لانا نفاق تھا، تو یہ بھی نرا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔ کیونکہ علمائے اسلام میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے معاویہؓ پر منافق ہونے کا الزام دھرا ہو۔ بلکہ علماء ان کے حسنِ اسلام پر متفق ہیں۔ ان میں سے بعض نے ابھی ان کے والد ابو سفیانؓ کے حسنِ اسلام کی بابت تو کچھ توقف کیا، البتہ معاویہؓ اور ان کے بھائی یزیدؓ کے حسنِ اسلام سے متعلق کوئی بھی نزاع نہیں۔ عین جس طرح عکرمہؓ بن ابی جہل، سہیلؓ بن عمرو، صفوانؓ بن امیہ اور فتح کے موقع پر ایمان لانے والے کچھ دیگر بزرگوں کے حسنِ اسلام سے متعلق کوئی نزاع نہیں۔ بھلا یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ ایک آدمی مسلمانوں پر چالیس سال والی رہا ہو، خلیفہ کے نائب کی صورت میں بھی اور خلیفہ کی صورت میں بھی، اتنا عرصہ ان کو پنجوقتہ نماز پڑھاتا رہا ہو، ان کو وعظ کرتا رہا ہو، انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہا ہو، ان کے مابین حدوداللہ قائم کرتا رہا ہو، ان میں غنائم اور فےء تقسیم کرتا رہا ہو، صدقات کا انتظام کرتا رہا ہو، ان کو حج کرواتا رہا ہو... اور ان تمام باتوں کے باوجود اتنا عرصہ ان سب سے اپنا نفاق چھپانے میں کامیاب رہا ہو؟!! جبکہ ان میں جلیل القدر صحابہؓ کی ایک پوری جماعت موجود ہو۔ اس سے کہیں بڑھ کر یہ بات ہے، خلفائے بنی امیہ وبنی عباس میں معروف ولایت رکھنے واالا کوئی ایک بھی خلیفہ ایسا نہیں جس پر کبھی زندقہ اور نفاق کا الزام دھرا گیا ہو۔ بنو امیہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے زندقہ اور نفاق سے منسوب تک کیا گیا ہو، اگرچہ ان میں سے کسی کو ایک گونہ بدعت یا ایک نوع ظلم سے منسوب کیا گیا ہو۔ لیکن اہل علم میں سے کسی نے ان میں سے کسی ایک کو بھی زندقہ اور نفاق سے منسوب نہیں کیا۔

ہاں زندقہ اور نفاق کے حوالہ سے جو لوگ معروف رہے وہ ہیں بنی عبید القداح (المعروف فاطمی ’خلفاء‘) جو مصر اور مراکش میں تھے اور جن کا دعویٰ تھا کہ وہ علوی ہیں، جبکہ حقیقت میں کفار کی ذریت تھے۔ان پر  زندقہ اور نفاق کا الزام ہونے پر اہل کا علم کا اتفاق ہے۔ اسی طرح کچھ ایسے بادشاہوں پر زندقہ اور نفاق کا الزام مانا گیا ہے جو علاقائی بادشاہتوں  کے لوگ تھے مانند بویہی اور غیر بویہی سلاطین۔ رہ گیا اسلام میں ایک عمومی ولایت رکھنے والا خلیفہ، تو اللہ نے مسلمانوں کو اس سے پاک رکھا کہ ان کا ایک ولی الامر خلیفۂ عام زندیق منافق ہو۔ یہ بات جان رکھنا، اور اس کا معروف ہونا ضروری ہے، کیونکہ یہ اس بابت میں بہت نافع ہے۔

اور علماء کا اتفاق ہے کہ معاویہؓ اس امت کے بادشاہوں میں افضل ترین ہیں۔ کیونکہ ان کے پہلے کے چاروں خلفائے نبوت تھے۔ اور وہ بادشاہوں میں سے پہلے۔ ان کی بادشاہت: بادشاہت اور رحمت تھی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: يَكُونُ الْمُلْكُ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ ثُمَّ يَكُونُ مُلْكٌ وَرَحْمَةٌ ثُمَّ مُلْكٌ وَجَبْرِيَّةٌ ثُمَّ مُلْكٌ عَضُوضٌ ’’اقتدار ہو گا: نبوت اور رحمت۔ پھر ہو گی خلافت اور رحمت۔ پھر  ہو گی بادشاہت اور رحمت۔ پھر بادشاہت اور جبر۔ پھر حقوق دبانے والی بادشاہت۔ معاویہؓ کی بادشاہت میں جو رحمت، حلم، اور مسلمانوں کےلیے نفع مندی تھی اس سے معلوم ہے کہ وہ دوسروں کی بادشاہت سے افضل تھی۔  ہاں جو معاویہؓ کے پیش رَو تھے تو وہ خلفائے نبوت تھے۔ چنانچہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: تَكُونُ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثِينَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا ’’خلافتِ نبوت تیس سال ہو گی۔ پھر وہ بادشاہت ہو رہے گی‘‘۔  چنانچہ ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ خلفائے راشدون اور ائمۂ مہدیوں تھے جن کی بابت نبیﷺ کا ارشاد ہوا: عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنْ بَعْدِي تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ’’لازم پکڑنا میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو۔ اس سے چمٹ جانا۔ اس کو ڈاڑھوں سے دبا لینا۔ اور خبردار رہنا نئے گھڑ لیے گئے امور سے، کیونکہ ہر گھڑ لی گئی بات بدعت ہے‘‘۔  بہت سے لوگوں نے خلافتِ علیؓ سے متعلق نزاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: علیؓ کا دور ایک فتنے کا دور ہوا، آپؓ کے زمانے میں جماعت نہ تھی۔ اور ایک طبقہ نے تو یہ کہا کہ دو خلیفہ مقرر کر دیے جانا جائز ہے، سو ایک خلیفہ علیؓ اور ایک خلیفہ معاویہؓ۔ جبکہ صحیح بات جس پر ائمہ ہیں وہ یہ کہ: علیؓ خلفائے راشدین میں سے ہیں، جس کا ثبوت اس حدیث سے ہوتا ہے۔ علیؓ اپنے زمانے میں امیر المومنین ہی کہلاتے تھے اور صحابہؓ بھی آپ کو امیر المومنین کہتے۔ امام احمدؒ کا قول ہے: جو شخص علیؓ کا خلافت میں چوتھا نمبر نہیں مانتا  وہ اپنے گھر کے گدھے سے زیادہ گم گشتہ ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود ہر خلیفہ کا ایک مرتبہ ہے۔ چنانچہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ کسی کا موازنہ نہیں، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے: اقْتَدُوا بِاَللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي: أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرُ ’’میرے بعد والے دو کی اقتداء کرو: ابو بکرؓ اور عمرؓ‘‘۔ شیعانِ علیؓ کے مابین، جو علیؓ کے ساتھی رہے، ابوبکرؓ اور عمرؓ کو مقدم جاننے پر کوئی اختلاف نہ تھا۔ خود علیؓ سے متعدد طرق کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ فرماتے: میرے پاس جو بھی آدمی ایسا لایا گیا جو مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت دیتا ہو، میں اس کو جھوٹ گھڑنے والے جرم کے کوڑے لگواؤں گا۔ ان کا تنازعہ تھا عثمانؓ اور علیؓ سے متعلق۔ لیکن عثمانؓ کا علیؓ پر مقدم ہونا سابقین کے اتفاق سے ثابت ہے، جب عثمانؓ کی بیعت بغیر کسی زبردستی کے ہوئی، جب عمرؓ نے اپنے پیچھے چھ اشخاص کی شوریٰ چھوڑی تھی: عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ اور عبدالرحمنؓ بن عوف۔ جن میں سے تین دستبردار ہو گئے اور جوکہ طلحہؓ، زبیرؓ اور سعدؓ ہیں۔ جس کے بعد وہ تین میں رہ گئی: عثمانؓ، علیؓ اور عبدالرحمنؓ۔ جس پر عبدالرحمنؓ تین دن مہاجرین و انصار اور ان کے تابعین باحسان سے مشورے کرتے رہے۔ آخر یہ خبر لائے کہ وہ عثمانؓ کا متبادل کسی کو نہیں دیکھتے۔ ان کی وفات اور ولایت ایک طویل گفتگو ہے، جسے خواہش ہو وہ ثقات کی احادیث سے رجوع کر لے۔ واللہ اعلم۔ وصلی اللہ على نبیہٖ

مجموع فتاوى ابن تیمیہ جلد 4  صفحہ 453 تا صفحہ  480

*****


فتاویٰ ابن تیمیہ کی اگلی فصل بھی اتفاقاً ہمارے ہاں ترجمہ ہوئی ہے۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات پڑھ سکتے ہیں:

فَصْلٌافْتَرَقَ النَّاسُ فِي " يَزِيدَبْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ثَلَاثُ فِرَقٍ: طَرَفَانِ وَوَسَطٌ.

Print Article
  ملوکیت
  خلافت
  حضرت معاویہؓ
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
"حُسینٌ منی & الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنة" صحیح احادیث ہیں؛ ان پر ہمارا ایمان ہے
بازيافت- سلف و مشاہير
Featured-
حامد كمال الدين
"حُسینٌ منی & الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنة" صحیح احادیث ہیں؛ ان پر ہمارا ایمان ہے حامد۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
روک رکھنا زبان کو صحابہؓ کے آپس کے نزاعات سے
بازيافت- سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
روک رکھنا زبان کو صحابہؓ کے آپس کے نزاعات سے حامد کمال الدین کیا جب بھی مشاجرات صحابہؓ ایسے ایک نازک۔۔۔
خلافتِ راشدہ کے بعد کے اسلامی ادوار، متوازن سوچ کی ضرورت
تنقیحات-
بازيافت- تاريخ
حامد كمال الدين
خلافتِ راشدہ کے بعد کے اسلامی ادوار، متوازن سوچ کی ضرورت حامد کمال الدین مثالی صرف خلافت۔۔۔
تاریخِ خلفاء سے متعلق نزاعات.. اور مدرسہ اہل الأثر
بازيافت-
حامد كمال الدين
تاریخِ خلفاء سے متعلق نزاعات.. اور مدرسہ اہل الأثر حامد کمال الدین "تاریخِ خلفاء" کے تعلق س۔۔۔
سن ہجری کے آغاز پر لکھی گئی ایک خوبصورت تحریر
بازيافت-
ادارہ
ہجرت کے پندرہ سو سال بعد! حافظ یوسف سراج کون مانے؟ کسے یقیں آئے؟ وہ چار قدم تاریخِ ا۔۔۔
علاء الدین خلجی اور رانی پدماوتی
بازيافت- تاريخ
ادارہ
علاء الدین خلجی اور رانی پدماوتی تحریر: محمد فہد  حارث دوست نے بتایا کہ بھارت نے ہندو۔۔۔
وہ کتنا سایہ دار شجر تھا
بازيافت- سلف و مشاہير
مہتاب عزيز
وہ کتنا سایہ دار شجر تھا   مہتاب عزیز   کیا ہی زندہ انسان تھا جو آج ہم میں نہ رہا۔ اس سفید ریش بوڑھ۔۔۔
سنگم
بازيافت- سلف و مشاہير
عبد اللہ منصور
سنگم   عبداللہ منصور کوٹ مٹھن سے ذرا پرے پانچ دریاؤں کا سنگم ،پنج ند واقع ہے۔ وادیوں، گلزاروں، میدانوں ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز