تاریخِ خلفاء سے متعلق نزاعات.. اور
مدرسہ اہل الأثر
حامد
کمال الدین
"تاریخِ خلفاء" کے تعلق سے ہماری کچھ اچٹتی پوسٹیں([i]) جو پچھلے دنوں ہوئیں، اس سے مقصد چند گزری شخصیات کی بابت کسی بحث میں پڑنا
نہیں تھا (نہ ان ’یزید‘ وغیرہ موضوعات سے ہمیں کچھ علاقہ، سلباً یا ایجاباً)۔ بس یہ
انتباہ مقصود تھا کہ "أهل الأثر" کی مین سٹریم کا اس باب میں کیا موقف
چلا آیا ہے (کہ ابن تیمیہؒ ایسی اقوال کا استقصاء کر رکھنے والی شخصیت بالجزم جہاں
ایک بات کو پورے مدرسہ کا نمائندہ قول قرار دے، یہاں تک کہ رافضہ کے ساتھ اُسے اہل
سنت کے مناظرہ کی ایک باقاعدہ بنیاد بنائے، تو اس کا کوئی مطلب ضرور ہے)۔
ہم یہ بھی نہ کرتے، کیونکہ یہ مسئلہ فی نفسہٖ
کوئی ایسا اہم نہیں ہے خصوصاً فی زمانہ کہ جب ہم پر معاصر مسائل و بحرانات کا پورا
ایک انبار ہے۔ لیکن اس کی ضرورت کچھ اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ کچھ طبقوں کی حالیہ
تحقیق نگاری سے مدرسہ ’’أھل الأثر‘‘ کا تاثر شدید طور پر خراب ہونے لگا ہے۔ جس سے
ہم سب شاید ’یزید‘ کے کھاتے میں ڈالے جائیں (اگر
’آل ریڈی‘ بعض کرم فرماؤں کی طرف سے ڈال نہ رکھے گئے ہوں!)۔
حق بھی ویسے بنتا ہے! ایک عرصہ سے یہاں اس مدرسہ کی ایک خاصی
غلط ترجمانی میسر آ رہی ہے (متعدد
ابواب کے اندر)، جس سے یہ کچھ اس طرح پینٹ ہونے لگا کہ
’’اثریہ‘‘ گویا دلیل و مستدلات کی ’’ری ڈسکوری‘‘ "rediscovery" کا نام ہے، جو ویسے ایک نہایت دلچسپ اور مسلسل ’جاری‘ رہنے والا عمل ہے...
اور بالآخر ’ارتقاء‘ جس کے اسٹیشن نامعلوم رہتے ہیں! (یہ وجہ ہے، ایک طبقہ کی
’’نماز‘‘ تک برصغیر میں ابھی فائنل نہیں ہوئی۔ ’’دلیل‘‘ کا تعاقب کچھ اس انداز سے
جاری ہے کہ ہر تھوڑی دیر بعد ’’مسائلِ نماز‘‘ تک میں کوئی ’’انکشاف‘‘ ہوا پڑا ہوتا
ہے یہاں تک کہ پبلک کی سطح پر ہر سال دو سال بعد کچھ ’’تصحیحات‘‘ ہو رہی ہوتی ہیں۔
عرصہ پیشتر ایقاظ کے کسی مضمون نگار بھائی کا ایک جملہ آیا تھا: ’’کس قدر عجیب ہے،
جیسے جیسے عہدِ نبوی سے ہم دُور ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے ’’نمازِ نبوی‘‘ ہماری
مستند تر ہوتی جا رہی ہے!‘‘)۔ حالانکہ ’’اثریہ‘‘ کا مطلب ہی اس ’’ری ڈسکوری‘‘ کا
ابطال ہے۔ نہ معلوم کیوں اس حیران کن طرزِ فکر کو اہل الاثر کے ساتھ جوڑا جا رہا
ہے۔
(شاید اسی مستحدَث ’’بحث و انکشاف‘‘ سے وابستہ ہمارے بھائیوں کی نیک نامی ہے کہ
دوسری جانب ’’روایت‘‘ کے حق میں دادِ تحقیق دینے چلے بعض مخلصین ’’اھل الأثر‘‘
ایسے ایک اصیل مدرسہ کو عالم اسلام میں ’مارٹن لوتھر‘ کا ایک عکسِ جلی قرار
دینے لگے! جس کے بعد، مسئلہ کی تنقیح کیے بغیر پل پڑنے والے ہر دو طرف کے اہلِ حمیت کے مابین جو ایک ’جواب در
جواب‘ چلنے والا تھا، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں)۔
قصہ کوتاہ، تاریخ، خلافتِ راشدہ (جو
دورِ نبوت کے بعد تیس سال رہی) اور مجرد
خلافت (جو صدیاں باقی رہی)...
جماعت اور امامت سے متعلق ان سب اصولی و اضطراری مباحث میں تمام مدارس اہل سنت (سمیت
مدرسہ اھل الأثر) ایک خاصا معلوم و یکساں موقف رکھتے آ رہے ہیں۔ (جو
اَب جا کر ’کسی حدیث کے صحیح ضعیف‘ ہونے
کی بحث اٹھا دینے سے خاصی اوپر کی ایک چیز ہے، بشرطیکہ مدارس اور ان کی مین سٹریم
آپ کے یہاں کوئی لائقِ اعتناء بات ہو)۔ ’’سیاسۃ
شرعیۃ‘‘ یا ’’احکام سلطانیۃ‘‘ پر مختلف فقہی مدارس کے ہاں لکھی جانے والی کتب میں
باعتبارِ مضمون یہاں جو ایک حیرت انگیز یکسانیت ملتی ہے [خصوصاً
ولایتِ متغلب کو عملاً قبول اور اصولاً رد کر رکھنے کے موضوع پر، (باوجودیکہ
خود اُن ائمہ کو اپنے دور میں ولایتِ متغلب کا سامنا رہا تھا جبکہ وقت کی استبدادی
اسٹبلشمنٹ کو غلط ٹھہرانا کوئی آسان کام نہیں، در حالیکہ اُس کی ساری رِٹ ہی دین
کے نام پر قائم ہو اور اس دین ہی کی بنیاد پر اسے غلط کہا جا رہا ہو۔ آپ کو معلوم
ہے، ’’دین کی بنیاد پر غلط ہونا‘‘ ایک ایسی پریشان کن بات ہے جو دین سے بےاعتنائی
پر قائم ایک ’ماڈرن سٹیٹ‘ تک کو آج قبول نہیں؛ وہ بھی اس پر اچھی خاصی بھڑک اٹھتی
ہے!)]... غرض کتبِ احکامِ سلطانیہ کا وہ پورا ظاہرہ phenomena آج بھی
یہ بتانے کےلیے کافی ہے کہ شریعت کے ہر باب اور تاریخ کے ہر موڑ پر یہ (مدارس
اہل سنت) ایک ہی انداز سے سوچتی چلی آنے والی کیسی ایک ہم
آہنگ علمی جماعت ہے۔ کیوں نہ ہو، زمین پر صحابۂ رسول اللہؐ کا تسلسل ہے۔ یہاں تک
کہ اسلامی تاریخ میں یزید اور حجاج وغیرہ ایسے ظلم و زیادتی کےلیے بطورِ مثال ذکر
ہونے والے کرداروں کی بابت بھی ان سب مدارس کی مین سٹریم قریباً ایک سا قول رکھتی
آئی ہے۔
سرِ دست یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ مذکورۃ الصدر ’’انکشافات‘‘
کا ٹکراؤ encounter یہاں
’سوشل میڈیا‘ کے کسی زید بکر کے ساتھ نہیں اھل الاثر کی مین اسٹریم کے ساتھ ہے۔’دلیل‘
کی بنیاد پر یہ حضرات اپنے تئیں اُس کا بھی ابطال کریں، بصد شوق۔ بس یہ معلوم رہنا
چاہیے کہ کیا کر رہے ہیں۔
صرف اِس ایک مقصد کےلیے ہماری وہ چند پوسٹیں
ہوئیں۔