پراپیگنڈہ وار propaganda
war میں
سیگ منٹیشن
segmentation (جزء
کاری) ناگزیر ہوتی ہے۔ یعنی معاملے کو ایشو ٹو ایشو issue to issue رکھنا۔ ’’پوری شخصیت‘‘ یا ’’پوری جماعت‘‘ کا
پیکیج یہاں خال خال ہی کبھی بنایا جاتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب اپنے اسلامی
کاز کی پوائنٹ سکورنگ point
scoring for the Islamic cause کےلیے آپ یہاں ماشے ماشے کے ضرورت مند ہوں اور
واقعے کے کسی ایک بھی جزء کو پورا فائدہ لیے بغیر جانے دینے کے متحمل نہ ہوں۔ ہاں
جس زمانے میں آپ اس عیاشی کے متحمل ہوں، اُس وقت بڑا بڑا استغناء کر لیا جاتا ہے
اور کسی کی بڑی بڑی خدمتِ اسلام کو بھی وُقعت نہیں دی جاتی تا وقتیکہ وہ واقعتاً
کوئی بہت اعلیٰ چیز ہو۔ مگر آپ جانتے ہیں ابھی آپ اُس مقام سے بہت دور ہیں۔
لہٰذا میرے وہ دوست جو اس سے بلند تر ہوں کہ ان کا ہدفِ مخالفت اس ملک میں
کوئی ’عمران نیازی‘ یا اُس کی بیوی ہو، یا جن کا صبح شام برسنے کا محل کوئی
’پٹواریوں‘ کی جماعت یا اس کے مخصوص زید بکر ہوں... میرے وہ دوست جن کی کل پریشانی concern یہاں
اسلام و کفر کی جنگ ہے اور جن کا مد مقابل اس ملک میں اللہ کے حقیقی دشمن، اور جن
کا اصل معرکہ یہاں الحاد اور لبرلزم کی پیش قدمی کے ساتھ ہے... ان دوستوں کو میرا
مشورہ ہے کہ اپنی ہمہ وقت تنقید کےلیے کوئی درست ہدف چنیں۔ یعنی کچھ ایسے لوگ جو
واقعتاً یہاں کفر کا سمبل symbol ہوں۔ اور اگر ایسے ائمۂ
کفر آپ کی نظر میں نہیں، یا نام لے کر ان کو نشانۂ تنقید بنانا فائدہ مند نہیں
(مثلاً اس سے ان کے خوامخواہ مشہور ہونے کا اندیشہ ہے)، یا کسی وجہ سے خود آپ ان
کی مخالفت کے متحمل نہیں، تو بہتر ہو گا کہ اس ’’ہمہ وقت تنقیدی ہدف‘‘ کا خانہ
خالی رکھ لیں۔ البتہ اسے کسی ایسے شخص یا جماعت سے پُر نہ کریں جو اس کی ’اہل‘
نہیں۔ نیز اپنی ہمہ
وقت تحسین کےلیے بھی (اگر ہو) کوئی ایسا فِگر رکھیں جس کی پروجیکشن کرنا الحاد اور
لبرلزم کے ساتھ آپ کی اس جنگ میں واقعتاً لوگوں کو سمجھ آئے اور وہ کفر و اسلام کی
اس جنگ میں واقعتاً کوئی ایکویشن equation بھی
بناتا ہو۔
معاملے کی سیگ منٹیشن (جزء کاری) کی بنیاد بھی طے ہونی چاہئے۔ اور وہ ہے ہر
وہ پوائنٹ جہاں سے الحاد اور لبرلزم کو چوٹ لگے یا اس کی پشت پر بیٹھے آپ کے عالمی
دشمن کو زک پہنچے۔ مقابلتاً، آپ کا اسلامی کاز ان پوائنٹس پر تقویت پائے۔
یوں ہر دو پہلو سے؛ اپنے قد کاٹھ کو ذرا اوپر لے جائیے۔ غیر ضروری اشیاء کو
اپنی چڑھائی کےلیے ان فٹ unfit مانیے۔
تنقید ہو تو وہ بھی ایشو بیسڈ issue-base اور
تحسین ہو تو وہ بھی ایشو بیسڈ
issue-based ۔
پوری پوری ’’جماعت‘‘ یا ’’شخصیت‘‘ کی نہ مخالفت اور نہ تحسین، تاوقتیکہ کوئی
’’جماعت‘‘ یا ’’شخصیت‘‘ واقعتاً کسی باطل یا حق کا سمبل symbol ہو
گئی ہو۔
*****
شیخ سفر الحوالی اپنی حالیہ کتاب ’’المسلمون والحضارة الغربية‘‘ (مسلمان اور مغربی تہذیب) کے مقدمہ میں لکھتے
ہیں: عالمی ذرائع ابلاغ مجھ فقیر کی گیٹگرائزیشن ’’سعودی اپوزیشن شخصیات‘‘ میں
کرتے ہیں۔ یہ میرے ساتھ بہت زیادتی ہے۔ بھائی میں ’’اپوزیشن‘‘ کیوں ہوں گا۔ میں
ہوں ’’دین کا داعی‘‘ جس کی مطلق دشمنی باطل کے ساتھ ہے خواہ وہ جہاں پایا جائے۔
میں ہوں اپنی اِس حیثیت میں انبیاء کا وارث جو ’’اپوزیشن‘‘ سے بہت اونچی ایک چیز
ہے۔ تم کیا جانو انبیاء کی وراثت۔
*****
ہاں میرے وہ اسلامی دوست اِس مقام پر میرے مخاطب نہیں جو اپنی اعلی
صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کےلیے بڑی ٹکر کی کسی پارٹی کا انتخاب کر چکے ہیں۔ (ایسی
پارٹیوں کو میں اپنی تحریرات میں ’’مین سٹریم پارٹیاں‘‘ کہتا ہوں، اور ان
میں جانا سماجی صلاحیت کے کچھ اسلام پسندوں کے حق میں اندریں حالات نہایت ضروری)۔ ظاہر ہے، ان کو کسی قدر پارٹیوں کے ’آپسی حساب
کتاب‘ کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ جمہوری عمل میں اس سے مفر نہیں۔ ان کی پوزیشن کو میں
پوری طرح سمجھتا ہوں۔ اس کی، ان کےلیے یقیناً گنجائش بھی ہے۔ گو ان (مین اسٹریم
پارٹیوں میں موجود اسلام پسندوں) سے بھی توقع کرنی چاہیے کہ اپنی تنقید اور تحسین
وغیرہ میں یہ کچھ اعلیٰ رویے اور بلند معیارات قائم کریں۔
یہاں میرے مخاطب وہ اصحابِ دین ہیں جو بڑی ٹکر کی کسی سیاسی پارٹی میں نہیں
اور اس پہلو سے بالعموم آزاد independent ہیں۔ یہ
ہیں جن کو یہاں سب سے بڑا رخنہ پُر کرنا اور دین کے کچھ اعلیٰ سٹینڈرڈ دینا ہیں۔
اس ملک میں دین کی ایک کھلم کھلا نظریاتی جنگ دراصل انہوں نے ہی قوم کو لڑ کر دینی
ہے۔ ان کےلیے بہت ضروری ہے کہ یہ اپنے اِس محبِ اسلام معاشرے کو الحاد کے ساتھ ایک
جنگ لڑوائیں، پراپیگنڈہ کی ایک پوری سٹرٹیجی دیں اور اس میں دانائی، ہوشمندی اور
زیرک پن کا اعلیٰ ثبوت دیں۔
’’سیگ منٹیشن‘‘ (جزء کاری) اس سٹرٹیجی کا ایک اہم حصہ ہو گا۔ اس کی رُو سے
معاملے کو، جس قدر ممکن ہو، چھوٹے اجزاء میں تقسیم کیا جائے گا اور پھر ہر جزء کے
ساتھ اس کے حسبِ حال تعامل کیا جائے گا۔ یوں آپ اپنی عقیدہ بیسڈ aqeedah-based جنگ کو بہت نیچے اور آگے کی سطح تک لے جاتے
ہیں؛ اور اس کے نتیجہ میں آپ کا عقیدہ زیادہ سے زیادہ ایشوز میں بولنے لگتا ہے۔
سطح بین کچھ دیر اس پر تعجب کریں گے کہ ایک پل میں آپ نے کسی شخصیت یا پارٹی کی
تحسین کی تھی اور اگلے ہی پل اُس پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ لیکن تھوڑی دیر میں
اسے سمجھ آ جائے گی کہ اس کے پیچھے آپ کا وہ میزان ہے جو تحسین اور تنقید کےلیے آپ
مستقل consistent طور پر اپنے پاس رکھتے ہیں؛ اور ہر
دو صورت یہ ایک ہی عقیدہ بولتا ہے۔ یہ ہے اسلامیوں کی ضرورت۔ وہ نظرِ دقیق جو دو
مصرعوں کے ایک شعر کو بھی ’’پورا‘‘ لینے کی بجائے اس کے حق اور باطل حصے کو الگ الگ
کر لیتی اور اس میں قدر والی چیز کی قدر کیے بغیر نہیں رہتی اور رد ہونے والی چیز
کو رد کیے بغیر نہیں چھوڑتی۔ صحابیِ رسول عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی سوانح
میں آتا ہے کہ مکہ میں قریش کی مجلسِ سخن برپا تھی اور لبید شاعر اپنا کلام سنا
رہا تھا۔ شاعر نے ایک مصرع پڑھا: ألا
كُلُّ شيءٍ ما خلا اللهَ باطلٗ۔ (’’خبردار۔ خدا کے ماسوا ہر شےء بےحقیقت ہے‘‘)۔ اس پر عثمانؓ نے بھی
دوسروں کی طرح بڑھ کر داد دی: صدقت۔ (’’تم نے زبردست بات کہی‘‘)۔ لبید نے اگلا مصرع
پڑھا: وكُلُّ نعيمٍ لا
محالةَ زائلٗ۔ (’’اور
ہر نعمت کو، لا محالہ، زوال ہے‘‘)۔ عثمانؓ بولے: کذبت۔ (’’تم نے غلط کہا‘‘)۔ اور پھر فرمایا: جنت کی نعمت کو ہرگز
کوئی زوال نہیں۔ اس پر لبید بولا: قریش کے لوگو تمہارے یہاں شعراء کے ساتھ یہ سلوک
کب سے ہونے لگا!؟
دقیق ہونا آج ہماری بہت بڑی ضرورت ہے۔ اشیاء کی جزئیات کو یوں الگ الگ کرنا
کہ فائدے کے ساتھ نقصان نہ چلا آئے اور نقصان کو دفع کرتے وقت فائدہ بھی ساتھ ہی
نہ چلا جائے۔ اس کےلیے صبر بھی درکار ہے اور ذکاوت و بیداری بھی۔ اور سب سے بڑھ کر
خدا کی توفیق۔