عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-01 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
"کتاب".. "اختلاف" کو ختم اور "جماعت" کو قائم کرنے والی
:عنوان

وأنزل معهم الكتاب بالحق ليحكم بين الناس فيمااختلفوا فيه۔اختلاف کا خاتمہ یعنی جماعت(آسمانی)کا قیام،جو اختلاف اور نزاع کرےگی ان ٹولوں سےجو کتاب کافیصلہ قبول نہ کریں۔ہاں یہ نزاع برحق ہےجو کتاب اللہ زمین میں کروائے

. اصولمنہج :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

تعلیق 11   [1]   (بسلسلہ: خلافت و ملوکیت، از ابن تیمیہ)

’’کتاب‘‘

’’اختلاف‘‘ کو ختم  اور ’’جماعت‘‘ کو قائم کرنے والی

’’کتاب‘‘ سے ’’جماعت‘‘:

’’جماعت‘‘ یعنی: انسانوں کا اجتماع اُس حق پر جو ان کی ہدایت کےلیے آسمان سے نازل ہوا۔

فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ                                                        (البقرۃ: 213)

اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔

’’کتابِ آسمانی‘‘ کے نزول کا واضح مقصد یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ یہ انسانوں کے نزاعات کا فیصلہ کرے۔

اور اس کا تعلق سب معاملات سے ہے جن میں انسانی جماعتوں کا اختلاف ہوتا ہے۔

سورۃ ہود (آیت 118، 119) میں ہے وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ  إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ مراد یہ کہ انسان لازماً اختلاف کرتے رہیں گےسوائے ان خاص مستحقینِ رحمت کے جو آسمانی رسالت پر ایمان لا کر ’اختلاف کرنے والوں‘ کی صنف سے نکل آتے ہیں۔ البتہ باقی لوگ اپنے اس اختلاف کے باعث جو وہ آسمانی ہدایت پر نہ آنے کے باعث آپس میں رکھتے ہیں جہنم میں جا پہنچتے ہیں۔ کیونکہ خدا کا فیصلہ نہ چلے تو  اُس کی ربوبیت کیا ہوئی؟ خدا کا کام یعنی ’’فیصلے کرنا‘‘ تو ساری زندگی انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیے رکھا یا کسی اور کے ہاتھ میں دیے رکھا؛ نیز خدا کے آگے جو ’’ذلت‘‘ اور ’’تعبد‘‘ اختیار کرنا تھا وہ تو اور ہستیوں کے آگے اختیار کیے رکھا؛ یوں اُس کی پادشاہی کو کم از کم اپنی دنیا میں معطل ٹھہرائے رکھا۔ ’’خدائی‘‘ صرف روٹی کھلانا تو نہیں! ’’فرماں روائی‘‘ کے بغیر کیسی خدائی؟! اُس کی ’’عبادت‘‘ اور ’’اطاعت‘‘ نہ ہو تو کیسی ربوبیت؟! اس لیے فرمایا کہ (اس ’’اختلاف‘‘ کے نتیجے میں): وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ’’اور تیرے رب کی بات پوری ٹھہری کہ میں بھر کے رہوں گا دورخ کو (ایسے) سب جنوں اور انسانوں سے‘‘۔

پس سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت جو ابن تیمیہؒ کے متن میں درج ہوئی، سورۃ ہود کا یہ مقام جو ابھی ذکر ہوا، سورۃ آل عمران کا گیارھواں رکوع پورا، اور رسول اللہﷺ کی تہجد کی دعائے استفتاح[2]  جو ابن تیمیہؒ  اپنے متن میں آیت البقرۃ کے بعد ذکر کرتے ہیں، نیز قرآن کا عمومی بیان، اور اس موضوع پر سلف کی تقریرات سامنے رہیں... تو یہاں کچھ بنیادی ترین مقدمات ہیں:

1.  انسان لازماً اختلاف کریں گے، جبکہ یہ اختلاف جان لیوا ہے؛ دوزخ  کا جنوں اور انسانوں سے بھرا جانا اِسی’’اختلاف‘‘ کے ساتھ متعلق ہے؛ کیونکہ یہ کتاب اللہ پر ایمان نہ لانے کا نتیجہ ہے؛ کتاب اللہ پر ’’ایمان‘‘ لے آتے تو اِس ’’اختلاف‘‘ کا فیصلہ ہوجاتا۔ یعنی یہ ’’اختلاف‘‘ نہ ہوتا۔ پس ’’ایمان‘‘ لانا اُس ’’اختلاف‘‘ سے نکلنا ہے جو دوزخ کا موجب ہے۔ یہاں سے؛ ’’اختلاف‘‘: ’’کفر‘‘ اور ’’ابتداع‘‘ سے ملحق ہوجاتا ہے جبکہ ’’جماعت‘‘: ’’ایمان‘‘ اور ’’اتباع‘‘ سے۔ یہ وجہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے: الۡجَمَاعَةُ رَحۡمَةٌ والۡفُرۡقَةُ عَذَابٌ یعنی ’’جماعت‘‘ رحمت ہے اور ’’تفرقہ‘‘ عذاب۔[‌أ]

2.  ’’اختلاف‘‘ سے نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ خدا کی اتھارٹی تسلیم ہو۔ ’’خدا کی اتھارٹی‘‘ تسلیم کرنے کا کوئی معنیٰ نہیں جب تک اُس کی کتاب اور اُس کے رسول کو تسلیم نہ کیا جائے؛ کیونکہ خدا اِس جہانِ فانی میں ایک ایک انسان سے کلام فرماتا ہی نہیں ہے؛ اُس کی منشا لامحالہ اُس کی کتاب اور اُس کے رسول کے ذریعے ہی معلوم کی جائے گی۔ (یہ وجہ ہے کہ صوفیہ کے بعض طبقوں پر تنقید کرتے ہوئے ابن القیمؒ   کہتے ہیں: خدا کی محبت اور تعظیم سے خواہ تمہارا دل پھٹا کیوں نہ پڑتا ہو، اس کا ذرہ مول پڑنے والا نہیں جب تک تم ’’رسول‘‘ کے پیچھے چل کر ہی خدا کے در تک نہ پہنچو؛ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ)۔ پس ’’خدا کی اتھارٹی‘‘اِس جہانِ دنیا میں اُس کی ’’تنزیل‘‘ اور ’’رسالت‘‘سے متعلق ہوجاتی ہے۔ اِس ذریعہ سے حاصل ہونے والا ایک ایک لفظ اور ایک ایک اشارہ آپ اپنی ذات میں اتھارٹی ہے۔ اتھارٹی یعنی ’’سلطان‘‘۔ پس انسانوں کے اختلاف کا فیصلہ صرف خدا کی جانب سے اتری ہوئی کتاب ہی کرسکتی ہے؛ ’’کتاب‘‘ کے بغیر اس اختلاف کو ختم کرنے کی ہر صورت ’’اختلاف‘‘ ہی ہے اور وہ جہنم کو بھرنے ہی کا موجب ہے۔[‌ب]

3.  اس کتاب پر بھی سب لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ لہٰذا ایک اختلاف اس کتاب کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے مابین ہوگا۔  یہ اختلاف برحق ہے۔  اصل ’’آزمائش‘‘ ہے جس کےلیے انسانوں کی تخلیق ہوئی: }وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ  إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ (ہود: 118، 119) ’’یہ اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے جن پر تیرا رب رحم فرمائے۔ ان کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے‘‘{۔ یہ ’’اختلاف‘‘ ہرگز گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ ہونا ہی ہے۔ پوری ’’انسانیت‘‘ کو (جی ہاں، اسلام میں ’ہیومن ازم‘ کی گنجائش تلاش کرنے والے حضرات نوٹ فرمائیں: پوری ’’انسانیت‘‘ کو) اس کی بنیاد پر تقسیم ہونا ہے؛ یہاں دنیا کے اندر بھی ’’مومن‘‘ اور ’’کافر‘‘ کی صورت میں... اور آخرت کے اندر بھی ’’جنتیوں‘‘ اور ’’دوزخیوں‘‘ کی صورت میں: }وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ  إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ’’تیرا رب چاہتا تو وہ سب انسانوں کو ایک ہی گروہ بنا دیتا، مگر وہ اختلاف کرتے رہیں گے، ہاں مگر وہ (خوش قسمت) جن پر تیرا رب رحم فرمادے، اُس نے انہیں پیدا ہی اس لیے کیا ہے۔ بس پوری ہوچکی تیرے رب کی بات کہ: میں بھر کر رہوں گا دوزخ کو (ایسے) سب جنوں اور انسانوں سے‘‘{۔ یہ ہے ’’کتاب‘‘ (رسالت) کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم۔ یہ ناگزیر ہے۔ اٹل ہے۔ قیامت تک یہ ہونا ہے کہ یہ سب خلط ملط انسانیت ’’کتاب و رسول‘‘ کی بنیاد پر بٹے۔ یہاں ’’ایمان‘‘ اور ’’کفر‘‘ کی بنیاد پر انسانوں کے مابین خط کھینچا جائے اور اس کے علاوہ اور کسی بنیاد کو انسانوں کے مابین ’’تقسیم‘‘ کی بنیاد نہ مانا جائے۔ پس یہ جھگڑا روئے زمین کا اصل حقیقی جھگڑا ہے (هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ)؛ اور اس کو قیامت تک چلنا ہے۔ خدا چاہتا تو پلک جھپکتے میں وہ پردہ اٹھا دیتا جس سے یہ ’’اختلاف‘‘ ختم ہوجاتا اوریہ  ’طاقت‘ اور ’اختیارات‘ کو سجدہ کرنے والی مخلوق فوراً اُس کے آگے جھک جاتی۔ (کیونکہ ’حواسِ خمسہ‘ کے دیکھے کو قبول کرنے پر انسانوں کے مابین کوئی ’’اختلاف‘‘ نہیں!) یا وہ اِن کی تخلیق ہی اس طرح فرما دیتا کہ یہ خدا کی عبادت سے سرتابی کر ہی نہ سکیں۔ مگر اُس حکیم و علیم کی مرضی؛ کہ وہ کائنات کو اپنی نشانیوں سے بھر دینے کے بعد، اپنی کتابیں اور رسول بھیج کر، اِن کی ’نظر‘ کا بھی امتحان کرے اور اِن کے ’صبر‘ کا بھی۔ کوئی اُس سے پوچھنے والا نہیں اور وہ سب سے پوچھنے والا ہے۔ پس جہاں یہ کتاب ایک اختلاف ختم کرنے آئی ہے وہاں یہ ایک اختلاف کھڑا بھی کرنے آئی ہے؛ نبی کے آنے سے پہلے ایک باہم ’شیروشکر‘ قوم ’’خدا کے حق‘‘ کے موضوع پر دو ملتوں میں بٹ جاتی ہے؛ اور ان کے مابین پڑجانے والی یہ لکیر پھر تاقیامت انمٹ ہوتی ہے۔

4.  پس یہاں دو باتیں ہوجاتی ہیں:

‌أ)          خدا کی کتاب انسانوں کے جملہ نزاعات  کا فیصلہ کرنے آتی ہے؛ کتاب کی یہی شان اور یہی سٹیٹس ہے؛ یعنی ایک واضح آئین اور ایک فیصلہ ساز دستاویز ہر تصفیہ طلب دنیوی و اخروی معاملہ میں وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ (النحل: 89)۔جس کے ایک ایک لفظ سے انسانوں کو (’الٰہیات‘ و ’انسانیات‘ ہردو معاملہ میں) اپنے لیے فیصلہ اور راہنمائی لینی ہے۔

‌ب)    مگر  خدا کی جانب سے ’’فیصلہ‘‘ کرنے کےلیے آئی ہوئی کتاب کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملہ میں انسان دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں اور ان کے مابین خود اس ’’کتاب‘‘ ہی کے متعلق ایک زبردست ’’اختلاف‘‘ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ’’کتاب‘‘ کا اپنا اٹھایا ہوا اختلاف ہے۔ یہ زمین پر ’’رسالت‘‘ کے ظہور کا لازمی نتیجہ ہے۔ بلکہ ’’کتاب‘‘ اور ’’رسالت‘‘ کا حق ہی یہ ہے کہ اہلِ زمین کو اسے ’’قبول کرنے‘‘ اور ’’قبول نہ کرنے‘‘ والوں کے مابین تقسیم کرکے رکھا جائے اور اسکے علاوہ ان کو کسی اور بنیاد پر نہ جانچا جائے۔ ہاں یہ جو ’’اختلاف‘‘ ہے ، یہ ’’اہلِ رحمت‘‘ اور ’’اہلِ عذاب‘‘ کا اختلاف ہے۔[‌ج]  اس کو جس قدر اٹھایا جا سکے اٹھانا ہے۔ یہ نبوتوں کا مقصود ہے  اور یومِ آخرت ایسی عظیم الشان حقیقت کے برپا ہونے کی بنیاد۔[3]

خدا کا ایک رسول کو بھیج کر انسانوں کے آگے اپنا مطالبہ رکھنا اور ان کو واضح واضح یہ بتانا کہ اُس نے ان کو کیوں پیدا کیا ہے اور اِس جہان میں وہ ایک ایک سانس ان کو کس مقصد کےلیے دیتا ہے اور زمین آسمان کی سب قوتوں کو ان کی خدمت میں اُس نے کیوں لگا رکھا ہے... خدا کا ان کے آگے یوں واضح واضح اپنا مطالبہ رکھنا وہ بات ہونی ہی چاہئے کہ کرۂ ارض کے سب انسان اس پر ردعمل respond کرنے کے لحاظ سے تقسیم ہوں۔ اِس پر ’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ سے بڑی بات دنیا میں آخر ہو کیا سکتی ہے جس کی بنیاد پر انسان دو جماعتوں میں بٹیں؟ جو آدمی اِس کو ’’اتنی بڑی بات‘‘ ماننے کا روادار نہ ہو؛ اِس ’’ملتوں کے فرق‘‘ کو انسانوں کے مابین پڑنے والی سب سے بڑی لکیر نہ مانتا ہو؛ اور جو اِس لکیر ہی کو معمولی اور برائے نام کردینے کے چکر میں ہو وہ اِس عظیم الشان واقعے (خدا کا انسانوں کے ساتھ رابطہ فرمانااور ان کے آگے اپنا مطالبہ رکھنا) کو ایک حاشیائی چیز ٹھہرانے کا مرتکب ہے؛ جوکہ فی ذاتہٖ کفر ہے (یہاں سے؛ علمائے عقیدہ نے یہ تقریر دی کہ جو شخص محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والے کو ’’کافر‘‘ کہنے کا روادار نہیں وہ خود کفر کا مرتکب ہے؛ کیونکہ یہ واقعتاً اتنا ہی سنگین مسئلہ ہے)۔

5.  پس مسئلۂ کفر و ایمان ہی انسانوں کو دو کیمپوں (دو ملتوں) میں بانٹنے والی وہ عظیم الشان حقیقت ہوئی جو آسمانی شرائع میں متعین ہے۔[‌د]  یہاں سے وہ دائرہ تشکیل پاتا ہے جو ہمارے شرعی مصادرمیں ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کے نام سے تعبیر ہوتا ہے؛ جس کے انتظام و تدبیر کو بعدازاں آپ ’’خلافت‘‘ یا ’’امارت‘‘ سے موسوم کرتے ہیں اور اسی کو ’’اولی الامر‘‘ (تیسری اطاعت) بھی کہتے ہیں۔ ’’دو کیمپوں‘‘  کا یہ فرق ہی جو یہاں ذکر ہوا، کسی وقت ’’دارالاسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ کی صورت بیان ہوتا ہے۔ یہی چیز مسلمان کی ’’ولاء اور براء‘‘ کی بنیاد بنتی ہے۔

6.  بنابریں؛ جملہ بنی آدم اِس ’’کتاب‘‘ اور ’’رسول‘‘ (پہلی دو اطاعتوں) پر لازماً یا ایمان لانے والے ہیں یا کفر کرنے والے (بیچ کی کوئی راہ نہیں)؛ اور روئے زمین پر ان کو عین اس بنیاد پر تقسیم ہونا ہے۔ گو اِس دنیا میں ہم اُن کے ظاہر کو دیکھیں گے اور ان کی حقیقتِ حال کو خدا پر چھوڑ دیں گے۔ یعنی کسی کا ظاہر ’’اسلام‘‘ ہو تو ہم اس کو ’’جماعت المسلمین‘‘ کا فرد مانیں گے۔ کسی کا ظاہر ’’کفر‘‘ (قرآن اور محمدﷺ کو نہ ماننا) ہو تو اُس پر کافر کے احکام لاگو کریں گے(اخروی تعیّن کو البتہ خدا پر چھوڑ دیں گے؛ نہ اول الذکر میں سے کسی کو معیّن کرکے ’’جنتی‘‘ کہیں گے اِلا یہ کہ کسی شخص کا نام لے کر رسول نے ہی اُس کو جنتی کہہ دیا ہو، اور نہ ثانی الذکر میں سے کسی کو معیّن کرکے دوزخی کہیں گے الا یہ کہ کسی کا نام لے کر رسول نے ہی اُس کو دوزخی کہہ دیا ہو۔ اس مسئلہ کو علماء یوں بیان کرتے ہیں کہ دنیوی احکام ہمارے لاگو کرنے کے ہیں، البتہ اخروی احکام جوکہ خدا ہی کے لاگو کرنے کے ہیں ضروری نہیں سب انسانوں کے حق میں ہوبہو یہی نکلیں۔  اس کی مثال ابن القیم﷫ یوں دیتے ہیں (مفہوم): کہ اہل اسلام کی صفوں میں منافقین ہمارے دنیوی حکم میں مسلم ہیں جبکہ آخرت میں ان کا یہ حکم نہ ہوگا۔ اسی طرح کفار کی صفوں میں جو کوئی مسلمان ہماری نظر سے چھپا ہوا ہے، یا جس کو حجت نہیں پہنچی، یا ان میں جو پاگل یا نابالغ ہیں؛ تو دنیوی احکام میں تو ہم ان کو کفار ہی میں گنیں گے البتہ اخروی حکم میں ممکن ہے نہ وہ کافر ہوں اور نہ دوزخی)۔ اخروی حوالے سے؛ ہم صرف ایک عمومی معنیٰ میں یہ کہیں گے کہ جو شخص فی الحقیقت اول الذکر ملت (اسلام) پر مرا وہ جنت میں جائے گا، اور جو شخص فی الحقیقت ثانی الذکر ملت (کفر) پر مرا وہ دوزخ میں جائے گا۔ قرآن اور محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والوں کو ہمارا ’’دوزخی ملتیں‘‘ (اصحاب الجحیم) کہنا درحقیقت  اِس معنیٰ میں ہوتا ہے۔[‌ه]   البتہ دنیا میں کیمپوں کی تفریق ہوجائے گی۔

7.  فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ۔ جتنا عظیم الشان یہ ’’فیصلہ‘‘ ہے جو خدا اپنی نازل کردہ کتاب کے ذریعے انسانوں کے مابین فرماتا ہے، اتنا ہی غیرمعمولی وہ ’’اختلاف‘‘ ہے جو اِس ’’کتاب کے فیصلہ‘‘ کو ماننے اور نہ ماننے والوں کے مابین کھڑا ہوتا ہے؛ اور جس کا اوپر ذکر ہوا۔ چنانچہ ’’کتاب‘‘ آجانے کے بعد یہ جو ’’اختلاف‘‘ سامنے آیا اور جوکہ اصل آزمائش ہے اور قیامت تک باقی ہے، اور جس کی بابت ہم نے کہا کہ اس کو قدر اٹھایا جا سکے اٹھانا ہے... خود اس ’’اختلاف‘‘  کا بھی تو ’’فیصلہ‘‘ ہونا چاہئے جس کے بعد یہ ’’اختلاف‘‘ نہ رہے!!! اِس  کےلیے  البتہ خدا نے ایک نہایت عظیم دن مقرر کر رکھا ہے: ’’یوم الفصل‘‘؛ فیصلے کا دن؛ قیامت کی گھڑی۔[‌و]   پس:

‌أ)        ایک ’’فیصلہ‘‘ خدا کا وہ ہے جو اُس نے ’’کتاب‘‘ کے ذریعے آج کردیا ہے؛ جو اِسے قبول کرے وہ پار ہے، جو ناقبول کرے اُس کو مہلت ہے؛ کوئی زبردستی نہیں؛ کیونکہ یہ ایک صاحبِ عقل مخلوق ہے...

‌ب)    اور ایک ’’فیصلہ‘‘ خدا کا وہ ہے جو ’’قیامت‘‘ کی صورت وہ کل کرے گا؛ اور جس کو ’’ماننے‘‘ یا ’’نہ ماننے‘‘ کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہے گا؛ مگر وہ رونگٹے کھڑے کردینے والا مقام ہے جہاں یہ ’’عقل‘‘ رکھنے والی مخلوق جسے پڑھنے کےلیے ’’کتاب‘‘ دی گئی تھی یا تو ابدی بہشت میں داخل کردی جائے گی یا ابدی دوزخ میں۔ ’’کتاب‘‘ کا یہ فیصلہ؛ جو یہاں ہوا تھا اور جس کی یہ حیثیت نہ مانی جارہی تھی کہ اہل زمین اِس فیصلہ کے ’’قبول کرنے والوں‘‘ اور ’’نہ قبول کرنے والوں‘‘ (فَرِیۡقٌ ھَدیٰ وَفَرِیقٌ حَقَّ عَلَیۡھِمُ الضَّلَالَۃ الاعراف: 30) کے مابین تقسیم کردیے جائیں؛ درحقیقت اتنا ہی بڑا فیصلہ تھا جو روزِقیامت اپنی اِس شان کے ساتھ سامنے آیا کہ پوری انسانیت جنتیوں اور دوزخیوں میں بٹ گئی: (فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ الشوریٰ: 6)

8.  ’’ایمان‘‘ والے کیمپ میں شامل ہونے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ دل کے کسی ٹیڑھ کے باعث آدمی ہدایت سے محروم رہے اور ’’کتاب‘‘ سے ایسے ایسے مفہوم نکالے جو نبی سے ’’کتاب‘‘ پڑھ رکھنے والوں اور ان کے سندیافتہ شاگردوں کے فہم سے ہٹ کر ہوں؛ اور نتیجتاً ’’کتاب‘‘ جوکہ انسانوں کے نزاع ختم کرنے آئی تھی خود ’’نزاع‘‘ کا محل بنا دی جائے۔ ہدایت سے یہ محرومی جزوی بھی ہوسکتی ہے اور کلی بھی۔ ’’کتاب مل جانے کے بعد اختلاف کرنے والے‘‘ قرآن مجید میں جابجا مذموم ہوئے ہیں۔ سورۃ آل عمران کا رکوع 11 اس موضوع پر خصوصی روشنی ڈالتا ہے۔ یہاں سے؛ ازروئے تفسیر ابن عباسؓ ’’الجماعۃ‘‘ کا ایک خصوصی مفہوم سامنے آتا ہے۔ آلِ عمران (آیات 105، 106، 107) کے تحت ابن عباس صراحت کے ساتھ أھل السنۃ والجماعۃ اور اس کے مقابلے پر أھل البدعۃ والفرقۃ کا ذکر کرتے ہیں۔[‌ز]    شرعی نصوص سے ثابت ہے کہ نبی جو انسانوں کا اختلاف ختم کرنے آتا ہے، اُس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد خود اس کی امت کئی کئی فرقوں میں بٹ جاتی ہے۔ احادیث کی رو سے؛  اِس اختلاف کو دور کرنے کےلیے اُس علمی تسلسل کی پابندی ضروری ہے جو نبیؓ اور اُس کے صحابہؓ سے کسی انقطاع کے بغیر چلا آتا ہے۔ غرض ضروری نہیں ہر وہ آدمی جو قرآن سے ’دلیلیں‘ دے رہا ہو وہ ’’کتاب کے اندر اختلاف اور تنازع‘‘ نہ کر رہا ہو۔ خوارج جوکہ اسلام کی تاریخ میں پہلا بدعتی ٹولہ ہوا ہے، سب سے زیادہ قرآن سے دلیلیں دینے والا تھا؛ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے صحابہ﷡ کو فرمایا تھا کہ تم ان کے قرآن پڑھنے کے آگے اپنے قرآن پڑھنے کو کمتر جانو گے پھر بھی وہ اسلام سے ایسے نکل گئے ہوں گے جیسے تیر اپنے ہدف سے۔ ان بدعتی ٹولوں سے بچنے کےلیے؛ لازم ہے کہ تفسیرِ کتاب کے معاملہ میں آدمی اُس ’’الجماعۃ‘‘ کا التزام کرے جو شروع دن سے چلی آتی ہے اور جس کی شناخت نبیﷺ نے ’’مَا أنَا عَلَیۡہِ وَأصۡحَابِی‘‘ کے الفاظ سے کروائی ہے اور اسی کی نشاندہی عبداللہ بن عباس﷛ کی  تفسیر میں اھل السنۃ والجماعۃ کے عنوان سے ہوئی ہے۔ یہ وہ علمی تسلسل ہے جو صحابہؓ سے بلاانقطاع چلا آتا ہے۔ فہمِ نصوص میں اسی کی پابندی ضروری ہے؛ اس کے مقابلےپر قرآن کی نئی نئی تفاسیر کرنا دین میں نئی اپج ہوگی؛ یہ پہلوں کے ساتھ نزاع ہے نہ کہ پہلوں کی اتباع۔  اسی تسلسل کا حصہ بن کر رہئے؛ کتاب اللہ کے معانی نبیؐ اور صحابہؓ سے چلے آنے والے تاریخی تسلسل سے ہٹ کر نہ لیجئے؛ کیونکہ یہ خوارج کا منہج ہےجوکہ کتاب اللہ سے سب سے زیادہ دلیلیں دینے کے باوجود ’’تنازع فی الکتاب‘‘ کے اصل بانی ہیں۔ ہر ’’نئی بات‘‘ پر فوراً   کان کھڑے ہوجانا، صرف پہلوں سے ملنے والی چیز پر ہی آدمی کا اطمینان اور شرح صدر ہونا... تفسیرقرآن کے باب میں؛ فتنوں اور اھواء سے بچنے کےلیے، یہ روش ایک حفاظتی تدبیر کا درجہ رکھتی ہے۔  خدا سے قلب کی سلامتی اور ہدایت کی دعاء کرتے رہنا اور پیچھے سے چلے آنے والی علمی تسلسل کا پابند رہنا... ’’تنازع فی الکتاب‘‘ سے بچنے کی واحد صورت ہے۔ }یہاں سے ’’بدعت‘‘ اور ’’بدعتی ٹولوں‘‘ کے ساتھ معاملہ کرنا بھی ’’الجماعۃ‘‘ کے موضوعات میں سے ایک اہم موضوع ہوگیا؛ کیونکہ ’’کتاب‘‘ نزاع ختم کرنے آئی ہے{۔

یہ سب وضاحتیں ’’پہلی دو اطاعتوں‘‘ کی بابت ہوئیں جوکہ اصل اسلام ہے۔ یہ نہ صرف ’’جماعتِ اسلام‘‘  کا وہ بنیادی ترین آئین ہے جس کو ہماری شرعی زبان میں ’’ایمان‘‘ کہا جاتا ہے... بلکہ  ’’جماعت‘‘ کو وجود دینے اور وجود میں رکھنے والی چیز بھی یہی ہے۔ ’’تیسری اطاعت‘‘ کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔



[1]   ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل اول، حاشیہ 11

[2]  اللَّهُمَّ رَبَّ جبرائيل وميكائيل وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِك فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ: اهْدِنِي لِمَا اُخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِك؛ إنَّك تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم                                                 (صحیح مسلم رقم 770)

اے اللہ! جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! اے وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو وجود بخشا! اے وہ ذات جو غیب اور شہادت کی خبر رکھتی ہے! تو ہی فیصلہ فرمانے والا ہے اپنے بندوں کے مابین اُن امور کا جن میں وہ اختلاف کرلیتے رہے۔ ہدایت دے مجھے اس حق کی جس کی بابت یہاں اختلاف ہوتا رہا۔ بےشک تو ہی ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی۔

[3]  ’’دعوت‘‘ دراصل اِسی ’’اختلاف‘‘ کو اٹھانے (نہ کہ دبانے) کا نام ہے۔ ’’اِنذار‘‘ بھی یہی ہے۔  مضمونِ دعوت کو بہرحال اِسی قدر صریح اور برہنہ ہونا ہے۔ ہاں اسلوبِ دعوت میں ’’حکمت‘‘، ’’موعظہ حسنہ‘‘ اور ’’جدال بالتی ھی أحسن‘‘ فرض ہیں۔  مگر اکثر لوگ اِس ’’حکمت‘‘ اور ’’موعظہ حسنہ‘‘ وغیرہ کا تعلق مضمونِ دعوت سے سمجھ بیٹھتے ہیں جوکہ انبیاء کی بعثت کے مقصد کو فوت کردینے کے مترادف ہے۔یہ ’’اختلاف‘‘ تو شرائع کا مقصود ہے۔ وَإِنِّي  أَنَا النَّذِيرُ العُرْيَانُ، فَالنَّجَاء النَّجَاءَ (صحیح البخاری، 6482) ’’بے شک میں ہوں برہنہ انداز میں ڈرانے والا، پس ہوشیار! ہوشیار!‘‘۔



[‌أ]  حسَّنَه الألبانی فی السلسة الصحيحة رقم 667: رواہ ابن ابی عاصم فی کتاب السنة، وابن بطۃ فی الإبانۃ الکبریٰ، وعبد اللہ بن أحمد فی زوائد المسند، عن النعمان بن بشیر  رضی اللہ عنه، قال: قال النبی:   ’’الۡجَمَاعَةُ رَحۡمَةٌ وَالۡفُرۡقَةُ عَذَابٌ‘‘۔

’’جماعۃ‘‘ سے مراد، جیساکہ ابن تیمیہ نے صراحت کی: اجتماع، اکٹھ۔ یعنی انسانوں کا اکٹھا ہونا اُس کتاب (رسالت) پر جو خالقِ کائنات کی جانب سے اُن کی طرف بھیجی گئی۔ یہ عمل رحمت ہے۔ اسکے مقابلے پر اس کتاب (رسالت) پر اختلاف کرنا ، خواہ یہ وہ اختلاف ہو جو ’’کتاب‘‘ کو رد کرنے کی صورت میں ہوتا ہے (اور جوکہ سنگین تر ہے) یا وہ اختلاف جو اِس کتاب پر آنے کے بعد کیا جاتا ہے (جوکہ اہل ملت کا اختلاف ہے)، عذاب ہے۔ اول الذکر صورت میں یہ عذابِ ابدی ہوگا اور ثانی الذکر صورت میں یہ عذاب ابدی بھی ہوسکتا ہے اور وقتی بھی اور کسی فرد کے حق میں معاف بھی۔

یہ بات کہ اس ’’کتاب‘‘ کے گرد انسانوں کا اجتماع (’’الجماعۃ‘‘) ’’رحمت‘‘ ہے اور ا سکے گرد ان کا ’’اختلاف‘‘ عذاب ہے... قرآن میں بھی متعدد مقامات پر مذکور ہے:

1.        ایک تو سورۃ ہود کا وہی مقام جو اوپر تعلیق کے شروع میں گزرا (آیت 118، 119)۔ جس میں ذکر ہوا کہ لوگ اختلاف کرتے رہیں گے، اس اختلاف سے وہی بچیں گے جن پر خدا کی رحمت ہوئی(اور وہ خدا کی بھیجی ہوئی کتاب اور رسالت پر ایمان لے آئیں گے اور اُس کو الٰہِ واحد برحق مان لیں گے)، جبکہ باقی سب کے سب جنوں اور انسانوں پر خدا کی بات پوری ہوجائے گی اور ان سے جہنم بھر دی جائے گی۔ پس یہاں رحمت کا بھی ذکر آگیا اور عذاب کا بھی۔ اس عذاب کی بنیاد (ازروئے آیت) انسانوں کا ’’اختلاف‘‘ تھا۔ اختلاف کا الٹ ’’اجتماع‘‘ ہے، جوکہ ’’کتاب‘‘ (رسالت)  کے گرد ہی ہوسکتا ہے۔ یہی ہے اہل ایمان کا ’’جماعت‘‘ ہونا۔  ’’جماعت‘‘ کا دائرہ نہ اس سے وسیع تر ہوگا اور نہ اس سے تنگ تر۔

2.        دوسرا، سورۃ البقرۃ کا مقام (رکوع 11): آیت 105 میں افتراق و اختلاف کی ممانعت ہوئی اور اس پر عذابِ عظیم کی وعید سنائی گئی۔ پھر اس سے اگلی آیت (106) میں  قیامت کے روز کچھ چہروں کے روشن اور کچھ چہروں کے سیاہ ہونے کا ذکر ہوا، اور سیاہ ہوجانے والے چہروں کی فردِ جرم ذکر ہوئی۔ پھر اس سے اگلی آیت (107) میں بیان آیا: وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ ’’اور سفید چہرے والے اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے‘‘۔  یعنی اِن لوگوں کا ’’کتاب‘‘ پر ’’مجتمع‘‘ رہنا اِس انعام کا موجب ہوا اور دوسروں کا اس پر ’’افتراق اور اختلاف‘‘ کرنا عذاب کا موجب۔ سورۃ البقرۃ کے اِس مقام کا زیادہ سیاق چونکہ وہ اختلاف ہے جو ’’بینات‘‘ آجانے کے بعد ہوتا ہے؛ چنانچہ یہاں پر  مفسرِ قرآن حبر الامۃ حضرت عبداللہ بن عباس﷠ کی یہ تفسیر یوں آتی ہے:  ]وَقَوْلُهُ تَعَالَى: }يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ{ يَعْنِي: يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حِينَ تَبْيَضُّ وُجُوهُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَتَسْوَدُّ وُجُوهُ أَهْلِ البِدْعَة وَالْفُرْقَةِ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا. ’’اللہ کا فرمانا کہ }يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ’’وہ دن جب کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ‘‘{، مراد ہے قیامت کا روز۔ جب اہل السنۃ والجماعۃ کے چہرے روشن ہوں گے اور اہل البدعۃ والفرقہ کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ یہ تفسیر کی ہے عبد اللہ بن عباس﷠ نے‘‘(دیکھئے تفسیر بن کثیر بابت آیت 106 آل عمران)[

[‌ب]  }’’کتاب‘‘ کے بغیر اس اختلاف کو ختم کرنے کی ہر صورت ’’اختلاف‘‘ ہی ہے اور وہ جہنم کو بھرنے ہی کا موجب ہے{۔ یہ ایک نہایت اہم مبحث ہے۔ اگلی فصل کی دوسری تعلیق میں اس مبحث کو قدرے کھولا گیا ہے (آئندہ شمارہ)۔

[‌ج]    دیکھئے اِس تعلیق کا حاشیہ (أ)

[‌د]   یہ ’’اختلاف‘‘ جو تاقیامت ہے، اور جس کی بنیاد پر ’’انسانیت‘‘ دنیا میں بھی تقسیم ہوتی ہے اور آخرت میں بھی، اور جوکہ شرائع کا ایک مرکزی ترین نقطہ ہے، یہ ’’اختلاف‘‘ ہی دنیا میں ’’دیار‘‘ اور ’’مقابر‘‘ کی تفریق تک جاتا ہے۔ اِس ’’اختلاف‘‘ کی بعض آئینی جہتوں پر ہم اگلی فصل کی تعلیقات میں روشنی ڈالیں گے۔ دلائلِ شرعیہ اس مسئلہ پر البتہ بےحد واضح ہیں کہ اِس تمام تر مسئلہ کی بنیاد ’’ایمان بالغیب‘‘ ہے؛ یعنی ’’رسول‘‘ کا اعتبار اور اس کے لائے ہوئے آئین (’’کتاب‘‘) کا قبول کرنا۔ یہ تقسیم ہمارے سامنے کچھ اس طرح آتی ہے:

’’کتاب‘‘ جوکہ آئینِ خداوندی ہے، پر ایمان:

1.          اخروی طور پر باعثِ نجات ہے:

‌أ)           کامل ہو تو قطعی طور پر باعثِ نجات

‌ب)        ہرگز نہ ہو تو قطعی طور پر موجبِ ہلاکت، اِسی عدمِ ایمان کا نام ’’کفر‘‘ ہے۔

‌ج)       ناقص ہو تو خدا کی مشیئت سے معلق، چاہے تو معاف فرما دے اور چاہے تو وقتی سزا دے کر خلاصی کردے؛ البتہ آخرکار نجات یقینی ہے (’’ایمان‘‘ ایسی ہی ایک عظیم چیز ہے)۔ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِين ’’بہت آرزوئیں کریں گے کافر کاش مسلمان ہوتے‘‘۔

2.          دنیوی طور پر ’’اہلِ جماعت‘‘ میں شامل ٹھہرانے کا موجب ہے:

‌د)          زندگی زندگی؛ ’’مسلمین‘‘ والے حقوق اور ’’مسلمین‘‘ والے فرائض۔ باطن میں وہ منافق ہے یا نہیں، اس کا حساب خدا کے ذمے۔ اگر اُسکا ظاہر ’’ایمان‘‘ ہے تو ہمارے اُس پر ’’مسلم‘‘ کا حکم لگانے کےلیے یہ بہت کافی ہے۔

‌ه)          فوت ہونے پر ’’مسلمین‘‘ کے قبرستان میں دفن ہوگا؛ جس پر قیامت تک گزرنے والے مومن سلام بھیجتے اور ان کےلیے استغفار کرتے ہیں۔

اِس ’’ایمان‘‘ کی ضد ایک تو ’’کفر‘‘ ہے۔ پس جس آدمی کا ظاہر ’’کفر‘‘ ہو:

3.          اخروی طور پر:

‌و)         اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے

‌ز)         ہاں خدا کے علم میں وہ کافر نہ ہو، تو وہ جہنمی نہ ہوگا (جس طرح ہم ’’جماعۃِ مسلمین‘‘ میں موجود غیر مسلم کے باطن کا کھوج نہیں لگاتے، کیونکہ ہمیں صرف دنیوی حکم لگانا ہے، اور اس کا معاملہ خدا کے علم پر چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح ’’کافر ٹولوں‘‘ میں موجود غیرکافر کے باطن کا کھوج نہیں لگاتے۔  مگر اس کی ملت بہرحال جہنم کا راستہ ہے۔

4.        دنیوی طور پر :

‌ح)       وہ کافر ہے۔ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ میں نہیں بلکہ ’’اہل اختلاف‘‘ (مِنَ الْمُشْرِكِينَ  مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا) میں ہے۔ فوت ہونے پر کفار کے قبرستان میں دفن ہوگا، چاہے دنیا میں وہ نابالغ یا پاگل کیوں نہ تھا (جس کی ایک واضح دلالت ہے اور وہ یہ کہ دنیوی احکام میں ان کا معاملہ کفار جیسا ہوگا۔ دنیا میں جو شخص ’’کتاب‘‘ اور ’’رسول‘‘ پر ایمان نہیں لایا وہ بہرحال ’’ہم میں سے‘‘  شمار نہ ہوگا۔ یہیں سے علماء کے ہاں یہ قاعدہ مقرر ٹھہرا کہ ضروری نہیں دنیا میں ہم جس پر ’’مسلم‘‘ کا حکم لگانے کے پابند ہیں وہ آخرت میں بھی ’’مسلم‘‘ نکلے، اسی طرح دنیا میں ہم جس پر ’’کافر‘‘ کا حکم لگانے کے پابند ہیں وہ آخرت میں بھی ’’کافر‘‘ نکلے)۔

کافر غیر حربی کے ساتھ حسنِ سلوک ہمارا دین ہے

‌ط)      البتہ ’’کفار‘‘ آگے دو قسم کے ہیں:

                      i.      غیر حربی: یعنی وہ کفار جو ’’جماعتِ مسلمہ‘‘ کے ساتھ جنگ نہیں کرتے۔ (ذمی، معاہد، مستأمن وغیرہ اسی ’’غیر حربی‘‘ قسم میں آتے ہیں)۔  ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا۔ (ان کے ’’کافر‘‘ ہونے پر ان کا حساب ہم نے نہیں خدا نے کرنا ہے)۔ انصاف کا برتاؤ کیا جائے گا۔  لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ: 8) ’’ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ سورۃ النساء میں (غیر حربی) کافروں کے ساتھ میل جول اور رہن سہن رکھنے کی اجازت ملتی ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ہماری کتاب اور نبیؐ کی حرمت قائم رہے: وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا (النساء: 140) ’’اللہ اِس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ا ن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے‘‘۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر وہ ہماری شریعت کی سماجی حرمتوں کو پامال کرنے والے نہ ہوں، تو ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا، میل جول رکھنا شریعت میں منع نہیں۔ یعنی بہت سے سماجی تعلقات (غیرحربی) کافروں کے ساتھ مسلمانوں کے برقرار رہیں گے۔ بلکہ( سورۃ المائدۃ:5 میں) مسلمان مردوں کےلیے کفار کی ایک خاص قسم ’’اہل کتاب‘‘ کی عورتوں کو اپنے نکاح میں لانا جائز کیا گیا ہے۔ غیر حربی کفار کے ساتھ زیادتی اور بدسلوکی (جس کا تعین ہماری شریعت کی روشنی میں ہی کیا جائے گا) ہمارے دین میں نہیں۔اُن میں سے وہ خاص لوگ جو ’’جماعتِ مسلمہ‘‘ کی پناہ میں آجائیں اور مسلمان ان کو امان دے چکے ہوں ان کے جان و مال کو نقصان پہنچانا ’’جماعت‘‘ اور اسکے ’’آئین‘‘ کے حق میں سنگین گناہ تصور ہوتا ہے:  عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا» (البخاری: 6914)  ’’جو شخص کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا اور جنت وہ جگہ ہے جس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے آجاتی ہے‘‘۔ جبکہ ترمذی (رقم 1403) میں الفاظ آتے ہیں:  «أَلَا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلَا يُرَحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ» ’’خبردار! جس نے کسی معاہد نفس کا خون کیا جس کو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل تھا، اس نے خدا کا ذمہ پامال کرڈالا، پس وہ جنت کی خوشبو پانے والا نہیں‘‘۔

                     ii.      حربی: یعنی وہ کافر جو ہمارے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری جنگ ہے۔ ان کے ساتھ ہر قسم کا ناطہ توڑ لینے کا حکم ہے اور ان کے ساتھ دوستی رکھنا حرام اور درحقیقت اللہ اور رسول کے ساتھ غداری۔ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ: 8) ’’ خدا ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں‘‘۔

ایمان کی ایک اور ضد ’’فسق‘‘ ہے۔ فسق کی آگے دو قسمیں ہیں:

5.          فسقِ عملی: یعنی فرائض کا ترک اور محرمات کا ارتکاب۔ یہ اگر ’’کفر‘‘ تک نہ پہنچے (جس کا پیچھے ذکر ہوچکا) تو ایمان کو بالکلیہ زائل نہیں کرتا؛ ایمان کو ناقص اور داغدار کرتا ہے۔ ایسا شخص:

‌ي)        اخروی طور پر: ’’تحت المشیئۃ‘‘ ہے، یعنی خدا چاہے تو اُس کے گناہ پر پکڑلے اور چاہے تو بغیر عذاب جنت میں داخل کردے؛ کیونکہ ’’ایمان بالغیب‘‘ موجود بہرحال تھا، زائل نہ ہوا تھا۔

‌ك)        دنیوی طور پر:  ’’جماعۃ المسلمین‘‘ میں  بدستور شامل ہے۔ ہاں کچھ سزا یا سرزنش کا مستوجب ہوسکتا ہے۔

6.        فسقِ اعتقادی: یعنی اعتقادات کے اندر انحراف، تاویل یا ٹیڑھ اختیار کرنا۔ فسقِ اعتقادی کا مشہور تر نام ’’بدعت‘‘ یا ’’ابتداع‘‘ ہے اور اس کا مرتکب ’’بدعتی‘‘ یا ’’مبتدع‘‘۔’’فسقِ اعتقادی‘‘ یا ’’بدعت‘‘ اگر ’’کفر‘‘ تک نہ پہنچے (جس کا پیچھے ذکر ہوچکا) تو وہ ایمان کو بالکلیہ زائل نہیں کرتی۔ ایسا شخص (فسقِ عملی ہی کی طرح):

‌ل)       اخروی طور پر: ’’تحت المشیئۃ‘‘ ہے، اور

‌م)                  دنیوی طور پر:  ’’جماعۃ المسلمین‘‘ میں شامل ہے۔ ہاں کچھ سزا یا سرزنش کا مستوجب ہوسکتا ہے۔

[‌ه]  اہل سنت کے ہاں اس موضوع پر جو راجح مسلک ہے یہاں پر وہ بیان ہوا ہے، اس معاملہ میں جو اختلاف ہے، نیز راجح رائے کے جو دلائل ہیں، ان کا بیان اس مختصر مقام پر ممکن نہیں۔

[‌و]  یہ مہلت ’’جنسِ انسان‘‘ کےلیے تو واقعی قیامت تک ہے البتہ ’’فرد‘‘ کےلیے موت تک ہے۔ شرعی دلائل اس پر واضح ہیں کہ جان قبض کرنے کےلیے آنے والے فرشتے ہی جس طرح انسان سے خطاب کرتے ہیں اس سے انسان کو سب پتہ چل جاتا ہے کہ یہ سب معاملہ کیا تھا۔  تاہم تفصیلی فیصلہ کا دن قیامت ہی ہے۔ اس کے علاوہ اِسی دنیا میں منکرین پر اترنے والے عذاب بھی خاتمۂ مہلت کا موجب بنتے ہیں؛ تاہم مکذبین پر اترنے والے یہ عذاب، جوکہ اُن مکذبین کو تو کچھ فائدہ نہیں دیتے، بعد والوں کےلیے تاقیامت حجت ٹھہرتے ہیں۔ یعنی وہ ’’آسمانی عذاب‘‘  کتاب اور رسول کے ’’من عند اللہ‘‘ ہونے کا ایک ایسا واضح بین ثبوت ہوتا ہے جسے جھٹلانے والا قیامت تک کافر ٹھہرایا جاسکے؛ کیونکہ تاریخ اس واقعہ کو اس تواتر اور شک سے بالاتر انداز میں نقل کرتی ہے کہ ہر توجہ کرنے والا اس میں حجت پڑھ لیتا ہے۔ پس یہ اتمامِ حجت تباہ ہونے والوں کے حق میں جس طرح کا فائدہ دیتا ہے بعد والوں کے حق میں اُس کی نسبت بہت بڑے درجے کا فائدہ دیتا ہے۔

[‌ز]   تفسیر ابن عباس کے حوالے سے دیکھئے اوپر کا حاشیہ (أ)

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز