عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Monday, October 7,2024 | 1446, رَبيع الثاني 3
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-01 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
تصورِ دین کی سلامتی آج کا سب سے بڑا چیلنج
:عنوان

یہاں سماجی عمل ہی "قیادت" کی اصل کسوٹی ہے جو اس میں فیل ہےوہ فیل ہےاور جو اس میں پاس ہوتا ہےمیدان اسکا ہےخواہ اسکی’حکومت‘آئےیا نہ آئےیا اسپر ’انقلاب‘ کا ٹھپہ لگےیا نہ لگے۔ "تبدیلي"لانےکا یہی ایک فطری راستہ ہے

. تنقیحات . اصولمنہج . اداریہ :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

                   بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ

  أمَّا بَعۡد

تصورِ دین کی سلامتی آج کا سب سے بڑا چیلنج


یہ جہانِ کہنہ جسے ہم مغربی نقشے پر بنی ہوئی ایک دنیا کے طور پر دیکھتے ہیں... کچھ عظیم الشان تبدیلیوں کے دھانے پر کھڑا ہے۔ کچھ صبر اور حوصلہ سے کام لے کر، جو قوم آج اپنی بنیادوں پر کھڑی رہی وہ آنے والے سالوں اور عشروں میں تعمیر ہونے والی دنیا کی ایک اہم ترین کھلاڑی ہوگی۔ البتہ جو قوم اِس ہڑبونگ میں، جو فی الوقت جاری ہے،  اپنا آپ کھو بیٹھی اور اپنی بنیادوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، وہ آنے والے عشروں میں تعمیر ہونے والی دنیا کے اندر صرف ملبے کے طور پر کام آنے والی ہے۔

 یہ گرد، جس کے فی الحال اور بھی اٹھنے کا امکان ہے، یہاں تک کہ خدشہ ہے اس میں سانس لینا دشوار ہوجائے، بلکہ سانس بحال رکھنا دوبھر ہوجائے... اس گرد کے دبنے کے ساتھ ہمیں ایک بےحد مختلف دنیا دیکھنے کو ملنے والی ہے، اتنی مختلف جو ہمار ےتصور سے بالاتر ہو۔ اس دنیا کا ’مختلف‘ ہونا سب سے بڑھ کر اسی پہلو سے ہے کہ یہاں ’’عالمِ اسلام‘‘ کا کیا مستقبل ٹھہرتا ہے؛ کیونکہ اِسی کا مستقبل آنے والے دنوں کا اصل سوال ہے۔

ہم اس سے پہلے متعدد بار کہہ چکے کہ ’’عالمِ اسلام‘‘ سے نمٹنا مغرب کے تعمیرکردہ اِس جہانِ کہنہ کو ’دائمی‘بنانے کےلیے’’کمیونزم‘‘ سے بڑھ کر اہم ہے۔  عالم اسلام کا معاملہ ’سرے‘ لگانے کا یہ ہدف اُن کے یہاں پچھلے ڈیڑھ سو سال سے موخر چلا آرہا ہے تو اس کی وجہ یہ کہ کچھ دوسرے اہداف زیادہ فوری نوعیت کے یکے بعد دیگرے سامنے آتے چلے گئے تھے۔ مسلم ہند میں 1857 کے ’غدر‘ پر قابو پانے اور دیگر مسلم براعظموں پر تسلط مضبوط کرلینے کے بعد، انیسویں صدی کا نصفِ دوم ابھی ابتدائی تیاریوں ہی میں گزرا تھا، اُس کے کالج اور یونیورسٹیاں ابھی پوری طرح تعمیر بھی نہ ہوئی تھیں، کہ اتنے میں ’عالمی جنگوں‘ کی گھٹائیں امڈ آئیں۔ ان سے نمٹنے میں بیسویں صدی کا نصف اول پورا گزرا، اور جس کے نتیجے میں ’تیسری دنیا‘ بھی ہاتھ سے پھسل گئی، کہ اتنے میں کمیونزم کا عفریت ’سپر پاور‘ بن کر سامنے تھا جو آدھا گلوب نگل چکا تھا اور باقی کےلیے اپنے جبڑے کھولے کھڑا تھا، جس نے بیسویں صدی کا نصف دوم بھی لے لیا۔ اب البتہ... قبل اس کے کہ کوئی اور بڑی رکاوٹ آکھڑی ہو، میدان میں صرف عالم اسلام ہے اور اس سے نمٹنے کےلیے پوری یکسوئی!

اُس ڈیڑھ صدی کی کسر نکالنے کا وقت اگر آج ہےتو یہ توقع نہ رکھنی چاہئے کہ یہ گرد جو کمیونزم کو دفن کرنے بعد سے اٹھی ہےاور جس کا میدان عالم اسلام ہے، اتنی آسانی سے بیٹھ جانے والی ہے!

توقع یہی ہے کہ مغرب عالم اسلام کو مستقل طور پر ’تیسری دنیا‘ بنا رکھنے کے بڑے محکم اور جاندار انتظامات کرے گا، جس میں کچھ علاقائی شکاری بھی اِس بار اُس کے شانہ بشانہ ہیں۔ بلاشبہ اِس وقت عالم اسلام پر جو ضربیں لگ رہی ہیں، خصوصاً اذہان اور عقول کی دنیا پر، وہ غیرمعمولی ہیں۔ اس پر مغرب کی جتنی لاگت آ رہی ہے (فی الحال کسی ’لمبی چوڑی آمدن‘ کے بغیر جو فوجی خرچے کیے جا رہے ہیں، نیز دانشوروں کے جتنے بڑے بڑے غول ہم پر چھوڑے جارہے ہیں) وہ حیران کن ہے... خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب مغرب کی اپنی زندگی اور توانائی اختتام کے قریب ہے۔ شاید آخری ترین ’ریزرو‘ کام میں آرہے ہیں! بلکہ ’قرض کی مے‘ چل رہی ہے! یہ کہنے میں شاید کوئی مبالغہ نہ ہو کہ مغرب عالم اسلام میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا جوا کھیل رہا ہے! کچھ فوری اقدامات سے عالم اسلام اگر گھائل نہیں ہوتا اور اِس کے ’’اٹھ کھڑے ہونے‘‘ کے امکانات، جوکہ بےتحاشا ہیں، اگر ختم نہیں ہوجاتے، تو البتہ یہ مغرب کےلیے بےحد فکرمندی کی بات ہےاور مغرب کے ساتھ ساتھ اُس کے ’ریجنل‘ حواریوں کے پریشان ہوجانے کی بھی۔  لہٰذا یہ جنگ نہایت شدید اور بے رحم ضرور ہے، خصوصاً اس لیے کہ فریقِ مخالف کے پاس اِس بار وقت بہت کم ہے اور اس جنگ کو جلد از جلد اختتام کو پہنچانا اُس کےلیے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ البتہ ہم اگر اِس جنگ میں ’’اپنا آپ‘‘ بچا لینے میں کامیاب رہتے ہیں، خصوصاً اپنے اُن فکری ثوابت کے معاملہ میں جو یہاں ایک جہانِ نو تعمیر کرنے کی پوری قدرت اور استعداد رکھتے ہیں اور انسانیت کو عدل و انصاف سے ہمکنار اور ایک ’’حقیقی‘‘ دنیا سے آشنا کروا نے کی امکانی طاقت رکھتے ہیں...  تو اِس جنگ کی گرد بیٹھنے کے ساتھ ہی دنیا کو اتنی غیرمتوقع حقیقتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں جو شاید اس کے سان  گمان میں نہ ہوں!

اِس سیناریو میں... وقت کے ائمۂ علم بڑی دیر سے امت کو اس کی ترجیحات وضع کر کے دے چکے ہیں جوکہ بنیادی طور پر دو ہیں:

1.       خارجی سطح پر؛ عالم اسلام پر حملہ آور صلیب، صیہون اور ہندوس وغیرہ لشکروں کے خلاف امت کی مزاحمت کو میدان میں لانا؛ جوکہ نہ صرف حملہ آور ہاتھیوں کو ڈھانے (ان کو ’روس‘ کے انجام سے دوچار کرنے)  کا ایک طویل المیعادی پراجیکٹ ہے بلکہ خود عالم اسلام کو جگانے اور داخلی استحکام سے ہمکنار کروانے کا ایک موثر و کامیاب ذریعہ ہے، اگرچہ وقتی طور پر اس کےلیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں دینا پڑیں... اور

2.       داخلی سطح پر؛ امت کے فکری ثوابت اور مسلّمات پر ڈٹ کر دکھانا؛ جوکہ مغرب کے تخلیق کردہ اِس مصنوعی ’جہانِ نو‘ میں گم ہوجانے سے ہمارا اصل تحفظ ہے اور مستقبل قریب میں (بفضلِ خدا) ایک حقیقی ’’جہانِ نو‘‘ تعمیر کرنے کےلیے ہمارا اصل سرمایہ، اگرچہ وقتی طور پر ہمارے یہ فکری ثوابت اور ہمارے یہ عقائدی مسلّمات تطبیق اور تنفیذ سے کتنے ہی محروم کیوں نہ ہوں۔ محض اِن کا زندہ رہنا اِس جہانِ یو۔این کا ایک بہت بڑا واقعہ ہوگا  اور حالیہ طوفانوں کو دیکھیں تو شاید ہماری تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج۔ ہمارے یہ فکری ثوابت اور مسلّمات شاید آج مصرِ قدیم کے اُس ’’شیرخوار بچے‘‘  کا نقشہ پیش کرتے ہیں جو کچھ دیر ایک نازک تابوت میں پڑا طوفانی موجوں کے ہچکولے کھاتا رہا مگر وہ ’’شیرخوار‘‘ اپنی نہاد میں فرعون کے محلات خاکستر کرنے کی استعداد رکھتا تھا اور جس کے لیے اپنا ’’وقت‘‘ آنے تک ’’محفوظ‘‘ رہنا وقت کا سب سے بڑا چیلنج بن چکا تھا!

یہ دو محاذ اتنے بڑے ہیں کہ امت کی توانائیوں کو ان کے علاوہ کسی اور محاذ کی راہ دکھانا خود ان محاذوں کے ساتھ نیز اِس تھکی ہاری امت کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ یہ بات جو اہل علم بڑی دیر سے کہہ چکے، اس کی صداقت ’تجربات‘ سے خودبخود سامنے آتی جا رہی ہے، گو اِن ’تجربات‘ کی قیمت نے ہماری کمر دہری کروا دی ہے۔  اب بھی اگر اپنی رہی سہی توانائیوں کو اِنہی دو محاذوں پر مرکوز کردیا جائے تو دشمن کے خلاف اپنی تاریخ کی اِس بدترین جنگ میں امت کو پیشرفت کرانا ہمارےلیے ممکن ہوجاتا ہے۔

*****

تاریخ کی اِس بدترین ہڑبونگ میں... چین، بھارت اور لاطینی امریکہ وغیرہ ممالک کے برعکس؛ عالمِ اسلام وہ خطہ ہے جو استحکام سے ابھی کوسوں دور ہے۔ باقی سب خطے ایک ایک کرکے استحکام پاتے گئے اور بھیڑیوں کی چیرپھاڑ سے نسبتاً محفوظ ہوتے چلے گئے (بلکہ خود بھیڑیے بنتے گئے؛ کہ اِس یو۔این جنگل کا یہی دستور ہے جو عربوں نے اپنے زمانۂ جاہلیت میں دریافت کرلیا تھا: إن لم تکن ذئباً أكلتك الذئاب![1])۔ آج اگر عالم اسلام بھی اپنا آپ سنبھال لیتا ہے تو ’تیسری دنیا‘ کا فنامنا تقریباً ختم ہوجاتا ہے، (محض افریقہ کے چند غیر مسلم ممالک ’عالمی طاقتوں‘ کا پیٹ بھرنے کےلیے ناکافی ہیں، خصوصاً جبکہ ’کھانے‘ والے بہت زیادہ ہوگئے ہوں!)۔ پس آج اگر عالم اسلام اپنے پیروں پر کھڑا ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ کا دور ختم؛ اب وسائل کی چوری ممکن نہ رہے گی اور ہر کسی کو اپنی اپنی کر کے کھانا ہوگی؛ جوکہ نہ ماننے والی بات ہے! جبکہ اس وقت حال یہ ہے کہ جس جس نے داخلی استحکام پاکر اپنا آپ سنبھالا ہے وہ بھی عالمِ اسلام کے وسائل میں’حصہ‘ بٹانے کےلیے پر تولنے لگا ہے! یعنی آج ہمارے ’طلبگار‘ پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ ہمارا سنبھلنا جن جن کےلیے پریشان کن ہے وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئے ہیں۔ ہماری زمینیں، ہماری قدرتی دولت، ہماری منڈیاں، ہمارے مزدوروں کے عضلات آج حقیر سے حقیر ’ریجنل پاور‘ کی رال ٹپکانے لگے۔ اور تو اور صدیوں مسلمانوں کا محکوم رہنے والا ہندو آج ہمیں اپنی منڈی کے طور پر دیکھنے لگا...! جس کا مطلب یہ ہے کہ استحکام پانے کی راہ میں آج ہمارے سامنے  پہلے سے کہیں بڑھ کر رکاوٹیں اور کہیں زیادہ حریف ہیں۔ ہمیں ’کھانے‘ کےلیے منہ سنوارنے والے آج پہلے کسی بھی دور سے بڑھ کر ہیں؛ اور اپنا آپ کھڑا کر لینا ہمارے حق میں پہلے کسی بھی دور سے بڑھ کر چیلنج۔ یہ بھی اُس صورت میں جب اس مسئلے کی صرف ’معاشی‘ تفسیر کی جائے اور اِس پورے ہنگامے کو محض ’وسائل کی دوڑ‘ کی نظر سے دیکھا جائے۔ البتہ اگر آپ عالم اسلام کو ’’مومنینِ بنی اسرائیل‘‘ کے اُن پسماندہ محلوں کے طور پر بھی دیکھتے ہیں  جہاں پلتے ’خطرات‘ سے فرعون اور ہامان کی نگاہ کبھی ایک لمحے کےلیے نہیں ہٹتی، تو پھر ’’یُذَبِّحُونَ أبۡنَاءَھُمۡ وَیَسۡتَحۡیُونَ نِسَاءَھُمۡ‘‘ کے سوا یہاں اُن کے پاس کوئی ’چارہ‘ ہی نہیں رہ جاتا، جس کی فی زمانہ ہزارہا صورتیں ہیں!

پس اِس وجہ سے آج آپ ایک ایسے چیلنج میں گھر گئے ہیں جہاں خدا کے سوا کوئی آپ کی مدد کو نہیں آسکتا... اور خدا کی مدد کو آواز دینا اپنا ایک طریقہ اور دستور رکھتا ہے (حق یہ ہے کہ ہر کسی کی مدد کو آواز دینا ایک خاص طریقہ اور دستور رکھتا ہے؛ اور آدمی کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کس کی ’’شرائط‘‘ کو اپنے حق میں آسان اور قابلِ عمل پاتا اور کس کی مدد کو اپنے ’’شاملِ حال‘‘ دیکھنا چاہتا ہے)۔ یہ البتہ طے ہے کہ آپ اپنی تاریخ کے بدترین محاصرے میں ہیں۔ یہاں محض ذہانت اور پلاننگ کچھ کرنے والی نہیں جب تک خدا کی نصرت کا بھی ساتھ بندوبست نہ کرلیا جائے اور جوکہ کبھی بھی ہماری پہنچ سے دور نہیں رہی، صرف اُسے آواز دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’ذہانت اور منصوبہ بندی‘  کا انتظام تو شاید ہمارے حریف کے پاس ہم سے بڑھ کر ہو! آج ہمیں عمر﷛ کی وہ نصیحت یاد کرنے کی ضرورت ہے جو وہ اپنے کمانڈروں کو فرمایا کرتے تھے: کہ خیال رکھو تم اپنے دشمن پر تعداد اور تیاری کے بل پر فتح نہیں پاتے بلکہ فتح اس بنیاد پر پاتے ہو کہ تمہارا دشمن خدا کا نافرمان اور تم خدا کے فرماں بردار ہو؛ پس اگر تم بھی خدا کے نافرمان ہوئے اور تمہاری یہ برتری جاتی رہی تو پھر یاد رکھو تعداد اور تیاری کے میدان میں تو تمہارے دشمن کا ہی پلڑا بھاری ہے۔ آج جو بحران ہمیں درپیش ہے، اگر ہم صرف اس کی سنگینی کا ہی درست اندازہ کرلیں... تو یہ ہمارے حق میں کسی اہم پیش رفت سے کم نہ ہو؛ لیکن شاید اس کےلیے ایمان کی نظر ضروری ہے ورنہ پسرِ نوح کی نظر سے دیکھیں تو مسئلہ محض ایک ’پہاڑ چڑھ لینے‘ کی مار ہے! محض کچھ ’منصوبہ بندی‘، کچھ ’پڑھےلکھے‘ رویے اور ’پڑوسیوں‘ سے اچھے تعلقات؛ اور ہمارا بیڑا پار ہے!

(گو ہماری اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ ’’ذہانت اور منصوبہ بندی‘‘ کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں؛ ’’عملی منصوبہ بندی‘‘ اور ’’نصرتِ خداوندی کو آواز دینا‘‘ دو متعارض چیزیں نہیں کہ ان میں سے ایک کا سوال دوسرے کی نفی کی قیمت پر ہو!)

البتہ وہ نسخے جن کو ہم نے استحکام کا راز سمجھاہمارا سب کچھ اجاڑ گئے اور آج ہماری بےبسی اور کس مپرسی دیدنی ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! عالم اسلام مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک آج ایک کھلی منڈی ہے جس پر طرح طرح کی مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ واضح رہے، یہاں پچھلے ڈیڑھ سو سال سے ’مولوی‘ نے حکومت نہیں کی جو اِس خاک اڑتی صورتحال کی ذمہ داری اس پر ڈالی جائے، جیساکہ اس وقت ہو رہا ہے۔ سب زمامِ کار یہاں کی ’پرو۔ویسٹ‘ قیادتوں کے پاس تھی اور انہی کے نسخے انہی کے ہاتھوں آزمائے جاتے رہے... جس کے نتیجے میں ’انجامِ گلستاں‘ آج تقریباً سامنے ہے؛ یہاں تک کہ اس کی بابت کچھ بہت زیادہ قیافہ آرائیوں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی!

یہ سب کچھ ’پرو۔ویسٹ‘ قیادتوں کے زیرانتظام ہوا... تو بھی البتہ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اب یہاں کا سب کچھ ’مولویوں‘ کے سپرد ہوجائے؛ اور نہ ہمارے کہنے سے ایسا ہونے والا ہے! نہ ہمارے نزدیک یہ فی الواقع اس مسئلہ کا کوئی حل ہے۔ بلکہ ہمارا دوسرا مقدمہ ہی یہ ہے[2]   کہ اِس مسئلہ کا فوری حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ نہ کسی ایک الیکشن لڑ لینے سے یہ پانسہ پلٹ جانے والا ہے۔  نہ امت اس حالت میں ہے کہ فوری طور پر اس کےلیے ایک عدد خلافت کا بندوبست کر لایا جائے اور اِسی چیز کو وقت کا سب سے اہم پراجیکٹ قرار دے کر امت کے باقی منصوبوں کو اِس پر موقوف ٹھہرایا جائے۔  نہ لڑ کر یہاں کوئی میدان جیتنے کا ہے۔[3]  اور نہ رفاہِ عامہ کے منصوبے یہاں کا نقشہ بدل دینے والے ہیں۔ نہ کوئی سائنسی انقلاب اور نہ کوئی معاشی پروگرام ایسی چیز ہے جس سے امت کی امیدیں وابستہ کرا لی جائیں اور اسی سے امت کے دن پھرنے کی آس رکھی جائے۔ یہاں اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ صالحین جو امت کے دردمند  اور حقیقتِ دین کے امین ہیں[4]، زندگی کے ہنگاموں میں شریک ہوں اور یہاں پر ہی اپنی ’’قیادت‘‘ کی اہلیت ثابت کریں۔[5] یہاں کے معاشرتی عمل میں حصہ لیں اور  اپنی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے سماجی شعبوں میں اوپر تک پہنچیں جس سے خودبخود یہ معاشرے پر اثرانداز ہوں اور معاشرہ ان کی راہنمائی میں اپنی سمت پاتا چلا جائے... اور یہاں سے عالم اسلام کی سالمیت و استحکام کی جانب ہمارا حقیقی سفر شروع ہو۔ یوں بھی جس طرح ہمارا دیندار نوجوان جذبہ، صلاحیت اور فدائیت سے لبریز ہے، اللہ کے فضل سے وہ دنوں کے اندر یہاں پر پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ اِس عمل کو قیادت کی ایک اعلیٰ کھیپ میسر آجائے۔

ہم اِس جسارت پر معذرت خواہ ہیں، ’’معاشرے میں اترنے‘‘ کا یہ عمل جس قسم کے لوگ چاہتا ہے، دو طبقے اس کی ضرورت پر پورا نہیں اترتے:

1.       ایک وہ طبقہ جو مغرب سے درآمد شدہ نظاموں کو ’اسلامی‘ ٹانکے لگانے کے فکری منہج پر کھڑا ہے۔ اسی کو ہمارے پچھلے اداریے میں ’’ٹھیٹ عقائدی لہجوں سے محروم تحریکی عمل‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا۔ یہ صورتِ قائمہ status quo سے کوئی بنیادی واصولی اختلاف ہی نہیں رکھتا؛ نہ عالمی طور پر اور نہ مقامی طور پر؛ صورتِ قائمہ سے اس کی سارا شکوہ شکایت ’’بدنیتی‘‘ اور ’’عملی عدمِ نفاذ‘‘ کے حوالے سے ہے؛ اس کی شرکیہ بنیادیں تقریباً نظر سے روپوش ہوتی ہیں۔  بلکہ مسئلہ کو ’’شرک و توحید‘‘ کی نظر سے دیکھنا ہی اس کے ہاں متروک ہے۔ بلکہ معیوب ہے! ’’ٹھیٹ عقائدی لہجوں‘‘ سے محروم یہ طبقہ چاہے جتنے بھی اخلاص کے ساتھ میدان میں اترے (بلکہ اترا ہوا ہے) یہ نہ صرف یہاں کوئی حقیقی تبدیلی برپا نہ کرپائے گا بلکہ یہ صورتِ قائمہ  کے ہاتھوں خود تبدیل ہوتا چلا جائے گا اور بعید نہیں ایک دن یہ اس کا دفاع کنندہ بن کر ہمیں قائل کرے کہ سب مل کر اِس (غلط بنیاد پر قائم کی گئی) چیز کو ’عملاً‘ درست کر ڈالنے کا معجزہ کریں؛ کیونکہ اس میں مسئلہ ہے ہی ’عملی خرابی‘ کا! صاف بات ہے، یہاں میدان میں اترنے کےلیے ایک بےحد ٹھیٹ فکری پیراڈائم درکار ہے؛ اس کے بغیر میدان کے اندر قدم دھرنا نمک کی کان میں نمک بننے والی بات ہے اور آخر میں صرف مشقت اور تھکن ہاتھ آنے کی ہے۔

2.       دوسرا وہ طبقہ جو میدان میں اترنے کےلیے میدان پر اپنی ’’شروط‘‘ عائد کرے گا۔ ظاہر ہے میدان تو اِس کا ضرورتمند نہیں یہ میدان کا ضرورتمند ہے؛ وہ اِس کی شروط کیوں قبول کرے؟! کبھی یہ میدان ہمارا ہی تھا اور اس کے سب کھیل ہماری شروط پر کھیلے جاتے تھے، لیکن ہمارے ایک طویل خوابِ خرگوش میں چلے جانے کے بعد، جب میدان کسی دوسرے کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، فی الحال تو یہاں ہماری شروط مانی جانے والی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کو ’’درمیانی مرحلہ‘‘ کا نام دیا ہے۔[6]  ہماری خلافت وغیرہ کے بہت سے احکام جو ہمارے فقہاء نے بیان کیے ہیں وہ اُس سیناریو کو سامنے رکھ کر ہوئے ہیں[7]  جب میدان ہمارے پاس تھا[8] اور یہاں کے سب ندی نالے ہمارے ہی دیے ہوئے رخ پر بہتے تھے۔   لہٰذا اُن اسباق کو بیان تو من وعن کیا جائے گا اور سعی تو میدان کو اُسی نقشے پر بحال کروانے کےلیے کی جائے گی، اس معاملہ میں کوئی ’’ری کونسائل‘‘ بھی قبول نہ کیا جائے گا جو سرے سے ہماری خلافت کو اِس یو۔این پیراڈائم میں فٹ کرا لائے اور ہماری ’’سمع وطاعت‘‘ کو اِس ’ووٹ، جلسے، جلوس‘ کی ملت سے ’ہم آہنگ‘ کروا دے (اور یوں ہمارا کیس ہی سرے سے ختم کروادے؛ جوکہ اوپر کے نقطے میں بیان ہوا)... لہٰذا صورتِ قائمہ کو ’’ما انزل اللہ‘‘ کے مطابق ہونے کی سند تو ہرگز نہ دی جائے گی۔ البتہ یہاں کے سماجی عمل میں جن بھی شروط پر ممکن ہو، فی الحال حصہ لیا جائے گا۔  اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ یہاں ایک امت پہلے سے وجود رکھتی ہےجس کی نسلوں کو ضائع اور جس کے مصالح کو معطل ہونے کےلیے چھوڑا ہی نہیں جاسکتا۔ جتنا تحفظ ہوسکے اتنا ضرور کیا جائے گا۔ اور آج کی تاریخ میں ہی کیا جائے گا۔ اِس عمل کے نتیجے میں معاشرے کی جتنی زمین ہاتھ آ سکے اتنی ضرور قابو کی جائے گی۔ اگر حالتِ اسیری  میں بھی مسلمانوں کے معاملات کو ممکنہ حد تک صالحین کے زیر ہدایت چلایا جانا ضروری ہے[9]   تو پھر حالتِ محکومی  میں کیسے آپ مسلمانوں کو اُن کے حال پر چھوڑ سکتے ہیں کہ جب تک خلافت نہیں آجاتی اور معاملات شریعت کے مطابق ’’چلنا‘‘ شروع نہیں ہوجاتے ہم تو یہاں کے سماجی شعبوں میں نہیں حصہ لینے کے؛ تب تلک ہم تو اپنا ایمان بچائیں گے اور تمہارا اللہ حافظ! پھر جبکہ ابن تیمیہؒ ایسے ائمۂ علم اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ ایک صالح باصلاحیت آدمی اگر کہیں پر اعلیٰ عہدیدار ہوتے ہوئے ظلم ختم نہیں بھی کرسکتا مگر ایک فاسد آدمی کے مقابلے پر یہ عہدہ قبول کرنے کی صورت میں وہ یہاں پر ظلم کم ضرور کر سکتا ہےتو اس کےلیے وہ عہدہ قبول کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ خاص حالات میں واجب تک ہوسکتا ہے۔ جس پر وہ یوسف﷣ کے عمل سے دلیل بھی لے کر آتے ہیں  جو اپنی اعلیٰ تدبیری صلاحیتوں سے کام لے کر مصر میں حسبِ امکان بہتری لاتے چلے گئےیہاں تک کہ پورا معاملہ آپؑ کے ہاتھ میں آرہا۔ یہی معاملہ اسی مصر کے اندر یوسف (صلاح الدین) ایوبی کے ہاتھوں دہرایا گیا (جسے ابن تیمیہ ’’ملوک السنۃ‘‘ میں شمار کرتے ہیں) جس نے کچھ عرصہ تک فاطمی (رافضی) خلیفہ العاضد کی وزارت قبول کیے رکھی (اس سے پہلے صلاح الدین کے چچا اسدالدین شیرکوہ نے، جوکہ ایک نہایت صالح انسان تھا، وہ وزارت قبول کر رکھی تھی) البتہ اپنی صلاحیت،  تدبیر اور دانائی سے کام لیتے ہوئے صلاح الدین اور اس کے ساتھیوں نے تھوڑے عرصے میں پورا پانسہ پلٹ ڈالا اور آخر مصر پر فاطمیوں کا خطبہ ختم کرکے  عباسی خلافت کا خطبہ بحال کردیا، یوں عالم اسلام کے اِن خطوں کو بڑی صدیوں بعد بقیہ عالم اسلام کے ساتھ وحدت اور استحکام کی لڑی میں پرویا؛ جس سے معرکۂ حطین کےلیے راہ ہموار ہوئی اور آخر بیت المقدس مسلمانوں کو واپس ملا۔ غرض ہمارا یہ طبقہ بھی جو یہاں چلنے والے معاملات کو شریعت کے مطابق نہ پاتے ہوئے  یہاں کے سماجی شعبوں سے کنارہ کشی کر رکھنے کے سوا کوئی شرعی راہنمائی نہیں پاتا... فی الوقت معاشرے کی سرزمین پر کوئی موثر کردار ادا کرنے والا نہیں۔

المختصر یہاں صالح کردار اور صالح عقیدہ کے لوگ چاہئیں مگر میدان کے اندر نہ کہ میدان کے باہر۔  میدان میں پائے جانے والے لوگ بغیر ایک ٹھیٹ عقیدہ کے، اور ٹھیٹ عقیدہ کے لوگ بغیر میدان کے؛ دونوں یہاں کام دینے کے نہیں۔ جبکہ اِس وقت یہ دو ہی طبقے پائے جاتے ہیں۔ الا ما شاء اللہ۔

ایقاظ یہاں پر جعفر شیخ ادریس، سفر الحوالی اور صلاح الصاوی وغیرہ ایسے مفکرین کے دیے ہوئے خطوط پر نوجوانوں کو وہ راہ دکھانے کےلیے کوشاں ہے جو اِن دونوں ’ماڈلز‘ سے ہٹ کر ہے، }یا جہاں یہ دونوں دھارے ایک ذہنی تبدیلی سے گزر کر یکجا ہوجاتے ہیں (گو، ہمارے خیال میں، ان کے ’’یکجا‘‘ ہونے پر وقت لگے گا... جوکہ ان شاء اللہ العزیز ایک کمال پیش رفت ہوگی){:

یہ وہ راستہ ہے جہاں صالح عقیدہ حجروں اور بند کمروں میں محصور رہنے کی بجائے سماجی عمل میں اترتا ہے۔ کسی ’’خلافت‘‘ یا ’’انقلاب‘‘ سے ذہنی طور پر وابستہ کرکے لوگوں کو ایک وہمی دنیا کا باشندہ بنانے یا ’’عقیدہ‘‘ کے نام پر یہاں کی اکثر سیاسی و انتظامی سرگرمی کو ’’حرام‘‘ ٹھہرانے کی بجائے... لوگوں کو صالح علم، صالح عقیدہ اور صالح تربیت سے آراستہ کرتا اور پھر ایسے تیارشدہ نفوس کا ’ذخیرہ‘ کرنے اور کسی موہوم ’واقعہ‘[10]  سے ان کی امیدیں بندھوا رکھنے کی بجائے، ساتھ ساتھ ان کو سماجی عمل میں اتارتا چلا جاتا ہے بلکہ اِن سماجی شعبوں کے اندر اوپر تک پہنچنے کی تلقین کرتا ہے۔ یا پھر پہلے سے سماجی شعبوں میں پائے جانے والے کامیاب باصلاحیت نفوس کو، ان کے متعلقہ شعبے سے نکالے یا بددِل کیے بغیر، صالح علم، صالح عقیدہ اور صالح تربیت سے آراستہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک  معاشرے کی ’’سمت‘‘ پر اثرانداز ہونے نیز حق کےلیے ’’سماجی قوت‘‘ اور ’’سیاسی تائید‘‘ پیدا کرانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے۔ نہ ’’ٹھیٹ تصورات‘‘ کی قربانی اس وقت (یا کسی بھی وقت) ہمارے وارے کی ہے (کیونکہ اس کے بغیر ہماری سیاسی و انتظامی محنت نری مشقت ہے) اور نہ  ’’میدان‘‘ کی قربانی  (کیونکہ اس کے بغیر ہمارے ’ٹھیٹ‘ اور ’مستند‘ تصورات بھی ایک طرح کا یوٹوپیا ہی بنتے ہیں)۔

یہ ہے وہ وِژن جو ایقاظ یہاں کے عمل پسند نوجوان کو حالیہ صورتحال کے اندر دینا چاہتا ہے، گو اس سے پہلے یہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ دو نکاتی ترجیح اس پر واضح ہوجائے جو ابتداء میں بیان ہوئی۔

*****

پس اگر یہ طے ہوجاتا ہے کہ معاشرے کے ایک ایک فورم پر ہمارا سرگرم ہوجانا ضروری ہے اور یہاں کے ہر ہر شعبے میں ہمارا جا اترنا ناگزیر... اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ اِس وقت  ہمارے دین کی ایک اہم ضرورت اور تقاضا ہے... تو پھر ہماری کل توجہ اور پریشانی یہ ہوجاتی ہے کہ وہ نفوس  جن کو معاشرے کے اِن سب فورَمز پر جانا ہے ان کی نظریاتی خوراک کا بندوبست کیونکر کیا جائے؟

آپ کا یہ فرد جسے معاشرے میں اترنا ہے اور بظاہر معاشرے میں ’تحلیل‘ ہوجانا ہے... اِس کا معاشرے میں اترنا اُس وقت تک بےفائدہ ہے جب تک یہ ’’صورتِ قائمہ‘‘ کو بدل دینے کا پورا ایک سافٹ ویئر نہ بنا لیا جائے: اعمال، اخلاق، اطوار اور سب سے بڑھ کر ’’عقیدہ‘‘ میں۔ حق یہ ہے کہ  اِس کے اعمال، اخلاق اور اطوار اگر اِس کو ماحول میں ایک محبوب شخصیت بنانے والی چیز ہیں تو اس کا عقیدہ وہ چیز جو اس کو وہاں گم ہونے سے بچائے گی، یعنی جو اِس کو نمک کی کان میں نمک ہونے سے روکے گی اور اپنے ’’مقاصد‘‘ کے لحاظ سے اِس کو وہاں پر ’’اثرانداز‘‘ ہونے کی پوزیشن میں لے کر آئے گی۔ پس وہ چیز جو  اِس ’’تبدیلی‘‘ کی اساس بنے گی وہ ’’اعتقاد‘‘ پر اِس کی محنت ہے۔ یہ اِس کے وہ ٹھیٹ نظریات ہیں جو قدم قدم پر اِس کو صورتِ قائمہ status quo  سے ایک بالکل مختلف چیز بنا کر رکھتے ہیں اور اس کو مسلسل یہاں پر اس کا مشن یاد دلاتے ہیں۔ بلکہ یوں کہئے اس کی زندگی یہاں پر اس بات کے دم سے ہے کہ ’’توحید‘‘ اس کی رگ رگ میں سرایت کر جائے اور ’’رسالتِ محمدﷺ‘‘ پر ایمان رکھنے کی وہ دلالتیں جو صورتِ قائمہ سے اس کا اختلاف کرواتی ہیں اِس کے تصور میں کوٹ کوٹ کر بھر دی جائیں۔ درست ہے کہ صورتِ قائمہ status quo  سے منسلک اس وقت کے مسلمانوں کو لاعلمی یا انسانی کمزوریوں کے باعث یہ ڈھیروں عذر دے گا اور ان کے ساتھ اپنے ایمانی رشتے کے باعث ان سے اپنی محبت اور وابستگی بھی برقرار رکھے گا بلکہ اپنی اِس محبت سے ان کے دل بھی جیتے گا اور ان کےلیے اپنی ہمدردی اور خیرخواہی بھی ثابت کرے گا، لیکن خود یہ صورتِ قائمہ جس کو بدلنے کےلیے یہ میدان میں اترا ہے، کہاں سے پھوٹتی ہے اور اِس کے ڈانڈے کہاں کہاں جاتے اور وہ اِس کے ’’دین‘‘ کے ساتھ کہاں کہاں متصادم ہیں، یہ البتہ اس پر بےحد واضح ہونا ہے اور اس سے اِس کے ذہنی فاصلے پوری طرح برقرار رہنے ہیں۔  یہ فاصلے اگر سمٹنے لگتے ہیں، یعنی صورتِ قائمہ کے ساتھ ہی اِس کا ذہنی ’ری کونسائل‘ ہونے لگتا ہے تو پھر البتہ یہ سب محنت فضول ہے اور تب ’’مسجد اور ڈرائنگ روم‘‘ میں بیٹھ کر خالص دین کی باتیں کرنا اِس ’معاشرے میں اترنے‘ والے جھنجھٹ سے کہیں زیادہ سلامتی والا عمل ہے۔ لہٰذا اِس عمل کی کل جان ’’اعتقاد‘‘ پر محنت میں ہے۔ اِس کا سارا مومنٹم ’’توحید، رسالت اور آخرت‘‘ کے اُن معانی اور دلالتوں کو اذہان کے اندر گہرا اتارنے میں ہے جو آج کی اِس صورتِ قائمہ سے قدم قدم پر الجھتی ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے وہ شخص جس کو سماجی شعبوں میں اتر کر معاشرے میں اپنا کوئی دینی کردار ادا کرنا ہے وہ ’’عقیدہ‘‘ پر مبنی تعلیم اور تربیت پانے کا اُس شخص کی نسبت کہیں بڑھ کر ضرورتمند ہے جسے ’’عقیدہ‘‘ کے یہ اسباق صرف مسجد اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر دہرانے ہیں۔ اِس نوجوان کےلیے تو یہ کہیں زیادہ ضروری ہے کہ یہ اپنے آپ کو ایسے اساتذہ اور ایسے ماحول سے وابستہ کرے جہاں اِس کو ’’ایمان‘‘ کے خالص ترین اور قوی ترین معانی تازہ بہ تازہ ملتے رہیں؛ خصوصاً یہ بات کہ ’’تعلیم‘‘ کا عمل اگر ایک بار کےلیے ہے تو ’’تذکیر‘‘ کی کوئی صورت ہر دم برقرار رہنی چاہئے جس کی سب سے اعلیٰ صورت قرآنی مجالس ہیں۔ المختصر، معاشرے میں آپ کی تمام تر پیش قدمی اس بات سے وابستہ ہے کہ آپ کا تصورِ دین کس قدر صحیح، کس قدر کھرا اور کس قدر واضح ہے۔ یہاں تھوڑی سی آلائش بھی ہوئی تو وہ معاملے کی سب ترتیب الٹ کر رکھ دینے کا موجب ہوسکتی ہے۔ یہاں؛ ’’تصوراتِ دین‘‘ میں البتہ اگر کوئی جھول یا کوئی غموض ہے تو اغلب امکان یہی ہے کہ آپ کی ’’پیش قدمی‘‘ یہاں پر کچھ نہ کچھ اگر ہو بھی جائے تو آپ کے ’’دین‘‘ اور آپ کے ’’مقاصد‘‘ کےلیے اس میں خوش ہونے کی پھر بھی کوئی بات نہ ہو!

ہمارا دشمن بلاشبہ ’رائے عامہ‘ کی معتقد ہماری تحریکوں کےلیے کسی کسی وقت ایسی صورت پیدا کراتا ہے جہاں یہ ’’بظاہر کامیابی‘‘ کی راہ سے ’’ناکامی‘‘ تک پہنچیں۔ اس واقعے کے پیچھے دراصل یہی کہانی ہوتی ہے: ’راستہ‘ چلتے چلتے، ’’محرکات‘‘ اتنے بےجان ہوچکے ہوتے ہیں کہ ’’منزل‘‘ کی ہزاروں تفسیریں ممکن ہوجاتی ہیں! ان تحریکوں کی مثال ویسی ہوجاتی ہے جیسے آدمی اپنے کسی عزیز کو ٹرین پر سوار کروانے جائے اور وہاں کی گہماگہمی میں ہوش کھو کر خود سوار ہوجائے اور اصل مسافر پیچھے رہ جائے! ان تحریکوں کے اصل مقاصد ’’سوار‘‘ ہوئے بغیر رہ جاتے ہیں یہ خود البتہ بڑی دور دور تک کا ’’سفر‘‘ کر آتی اور کسی کسی وقت تو ’’آخری سٹیشن‘‘ تک کو ہاتھ لگا آتی ہیں، جبکہ ’’مقاصد‘‘ پیچھے کتابوں کی ’انتظارگاہ‘ میں پڑے گردآلود ہوتے رہتے ہیں! البتہ وقت ایسی بےرحم چیز ہے کہ اس دوران ان کے بوڑھے دنیا سے رخصت، جوان بوڑھے اور بچے جوان ہوچکے ہوتے ہیں ؛ یعنی بالکل ایک نئی نسل جس نے ہوش ہی اِس ’’سفر‘‘ کے دوران سنبھالی ہوتی ہے اور وہ کسی کے ’’پیچھے‘‘ رہ جانے کا سن کر اچھی خاصی الجھن کا شکار ہوتی ہے؛ کہ دنیا ’’آگے‘‘ جاتی ہے اور آپ بار بار ’’پیچھے‘‘ کی بات کرتے ہیں! اب کون اِس نئی پود کو سمجھائے کہ وہ چیز جو اِس پورے سفر کا محرک اور باعث بنی تھی  پیچھے کہیں گم ہوگئی ہے اور وہ ایک اچھی خاصی اہم چیز ہے!

بلاشبہ آپ کو یہاں ’’رائے عامہ‘‘ سے بھی سروکار رکھنا ہے۔ ’’حالات‘‘ کی نبض پر بھی ہاتھ رکھنا ہے۔ ’’دستیاب مواقع‘‘ سے بھی فائدہ اٹھانا ہے۔ ’’گنجائشیں‘‘ بھی تلاش کرنی ہیں۔ ’’مصالح‘‘ بھی دیکھنے ہیں۔ ’’مفاسد‘‘ کو بھی دفع کرنا ہے۔ ’’کمتر برائی‘‘ کا فقہی قاعدہ بھی بہت سے مقامات پر لاگو کرنا ہے اور جوکہ بلاشبہ ایک معتبر قاعدہ ہے۔ ایسی ایسی صورتحال میں پورا اترنا ہوتا ہے کہ جہاں سب کچھ زبان پر لایا ہی نہیں جاسکتا... یہ سب درست ہے اور بلاشبہ اِس راستے میں آپ کو یہ سب امور اختیار کرنا ہوتے ہیں۔ تو پھر یہاں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آپ کے نوجوان میں ’’عقیدہ‘‘ کہیں زیادہ راسخ ہو۔  دین کی برہنہ حقیقتوں کو جاننے اور ذہن نشین کرنے پر آپ کے نوجوان کی محنت اُس نوجوان سے کہیں بڑھ کر ہونی چاہئے جس کو میدان سے باہر بیٹھ کر آپ کے اِس نوجوان پر ’بحقِ عقیدہ‘ تنقید کرنی ہے۔ پس ’’تصورِ دین‘‘ پر شدیدترین محنت یہاں معاملے کا پانسہ پلٹنے کےلیے بنیادی ترین چیز ہے۔ اِس میں آپ کو آخری درجے کا ٹھیٹ اور بےلحاظ ہونا ہے۔ یہاں پر جتنی پختگی پیدا کرالی جائے گی اتنا ہی راستے کے گڑھوں سے بچ کر گزرنا آپ کے حق میں اللہ کے فضل سے یقینی ہوتا چلا جائے گا اور صرف اسی صورت میں ’’آپ کی پیش قدمی‘‘ فی الحقیقت ’’آپ کے مقاصد کی پیش قدمی‘‘ ہو گی۔ تبھی یہ ممکن ہوگا کہ ’’آپ کی کامیابی‘‘ یہاں ’’آپ کے عقیدہ کی کامیابی‘‘ بنتی چلی جائے۔ بصورتِ دیگر صرف ’’مشقت‘‘ ہے جو ایک لمبا فاصلہ طے کرنے کے بعد آپ کے ہاتھ آتی ہے... اور جوکہ ایک تحریکی عمل کے حق میں بدترین ’آؤٹ کم‘ ہے۔

پس اگر آپ چاہتے ہیں کہ  دین کی خاطر ہونے والی آپ کی سیاسی وسماجی سرگرمی آپ کے وقت اور توانائیوں کا ضیاع نہ ہو تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ  ’’شرک اور توحید‘‘ کے مسئلہ پر آپ کے نوجوان کو بہت زیادہ محنت کرالی گئی ہو۔ اِس میں اہل سنت کے تاریخی ڈسکورس کو حرف بہ حرف بنیاد بنایا گیا ہو اور پھر اپنے زمانے کی شرکیات کو اسی کے تسلسل میں لاکر سمجھا اور سمجھایا گیا ہو۔

*****

آپ کے تحریکی نوجوان کے نظریاتی رختِ سفر کے حوالے سے سب سے اہم بات... یہ کہ:

’اسلام کا نفاذ‘، ’شریعت کی حکمرانی‘، ’اسلامی ریاست‘ اور ’اسلامی نظام‘ وغیرہ ایسی عبارتوں کو فی زمانہ کچھ مہمل الفاظ جانئے... تاوقتیکہ آپ کے نوجوان کو اِن سب حوالوں سے ’’جاہلیت‘‘ کی صحیح پہچان نہیں ہوجاتی۔ یہاں کے ایک ایک اہم موضوع پر جب تک اس نوجوان پر یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’جاہلیت‘‘ کے کانٹے کہاں کہاں الگ ہوتے ہیں اُس وقت تک آپ کے ’’اسلامی مقاصد‘‘ کچھ ’نیک تمناؤں‘ سے بڑھ کر کوئی عملی دلالت نہیں رکھتے۔

امام ابن قیم﷫ جابجا حضرت عمر﷜ کا یہ قول نقل کرتے ہیں:

إنَّما تُنقَضُ عُرى الإسْلامِ عُروَةً عُروَةً، إذا نَشَأ فِي الإسلامِ مَن لَم يعرِفِ الجَاهِليَّةَ.

اسلام کی زنجیر اُسی وقت کڑی کڑی کر کے ٹوٹنے لگے گی جب یہاں ایسی نسلیں پروان چڑھنے لگیں  جو جاہلیت سے ناواقف تھیں۔

پس ہر ہر باب میں یہاں آپ کو اُن مقامات کا تعین کرنا اور اُنہیں خوب ذہن نشین کرنا ہے جہاں اسلام اور جاہلیت کے کانٹے الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہ مقامات آپ کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں تو آپ کا تصورِ اسلام سراسر بےجہت ہے۔ ایسے میں آپ جتنے مرضی ’اسلامی علوم‘ پر عبور پائیں اور جتنے مرضی ’نیکی‘ کے اسباق پڑھیں اور پڑھائیں بلکہ جتنے مرضی ’نفاذِ اسلام‘ کے مطالبے کریں اور ’قرآنی دروس‘ کے ملک گیر یا عالم گیر جال پھیلا لیں... اول تو آپ کی جدوجہد کا کوئی رخ ہی نہیں بنے گا اور آپ کی اٹھان میں وہ زور ہی نہیں آئے گا جو اِس عمل کو معاشرے کے اندر مطلوب ہے۔ اور اگر کوئی جوش اور ولولہ کسی تدبیر سے پیدا کر ہی لیا جائے تو بھی جاہلیت بڑی آسانی سے آپ کے ساتھ ہاتھ کر جائے گی۔ ہاں جس دن آپ پر شرک و توحید اور اسلام و جاہلیت کے ’’مَفارِق‘‘ (وہ مقامات جہاں اسلام اور جاہلیت کے کانٹے الگ ہوتے ہیں)  بہت واضح ہوئے اُس دن آپ کے فکری استحصال کے راستے یقینی طور پر مسدود ہو جائیں گے؛ یعنی جاہلیت آپ کو بھٹکانے میں آخری حد تک بےبس ہوجائے گی۔ ’’پیش قدمی‘‘ کی استعداد آپ کے اندر کتنی ہے، یہ تو آپ کے جذبے اور صلاحیت پر ہے، اور اس کا خاصا تعلق دستیاب مواقع سے بھی، خصوصاً یہ کہ آپ کو اِس سفر میں کس معیار کے لوگوں کی رفاقت میسر رہی... تاہم ’’نظریاتی پختگی‘‘ کی یہ شرط پوری کرلینے کے نتیجے میں آپ اس خطرے سے باہر آجاتے ہیں کہ آپ  کی منزل کسی سمت میں ہو اور آپ کا جوش و ولولہ اور آپ کی پیش قدمی کسی اور سمت۔ یہاں آپ تیز چلتے ہیں یا آہستہ، یہ تو آپ پر ہے یا پھر حالات پر ہے، البتہ آپ اپنے راستے پر ضرور رہتے ہیں اور کسی دوسرے کو اُس کا راستہ چل کر دینے کی مشقت سے محفوظ ضرور رہتے ہیں۔

یہ ہے ’’اعتقاد کی پختگی‘‘۔ ایک ایسی عظیم چیز  جس کا ادراک کرنے سے بھی عموماً ہم قاصر ہیں۔ اِس کے ساتھ چیونٹی کی چال چلنے والا آدمی اُس شخص سے بہت آگے ہے جو اِس کے بغیر سرپٹ بھاگ رہا ہے۔

*****

قارئین! ہمارا یہ اداریہ تو ’’نظریاتی پختگی‘‘ کی عمومی جہتوں سے ہی متعلق ہے۔ البتہ حالیہ شمارہ میں سامنے لائے جانے والے ایک موضوع کی جانب ہم یہیں پر آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہیں گے۔

گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران... مسلم ’’شناخت‘‘ اور ’’وابستگی‘‘ کے حوالے سے ایک موضوع متعدد زاویوں سے ابھر کر سامنے آیا ہے، جوکہ یوں بھی ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھتا ہی رہتا ہے۔  چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر کوئی آج اس سوال کا جواب چاہتا ہے کہ ’’ہم‘‘ کون ہیں اور اِس بھرے جہان میں ’’ہماری‘‘ اصل شناخت کیا ہے۔ یہ کوئی چھوٹا سوال نہیں۔ اِس ’’ہم‘‘ کے تعین پر بےشمار موضوعات کا انحصار ہے؛ اور اس کے مختلف جوابات سے مختلف راستے پھوٹتے ہیں اور ایسے ایسے مختلف قافلے بنتے ہیں جیسے مشرق اور مغرب کا فاصلہ یا جیسے رات اور دن کا فرق۔ اِس ’’ہم‘‘ کے سوال پر آپ لاکھوں سے کروڑوں میں اور کروڑوں سے اربوں میں چلے جاتے ہیں یا پھر اربوں سے لاکھوں اور ہزاروں پر آجاتے ہیں۔  عین اِسی مقام سے ہی آپ یہ تعین کرتے ہیں کہ اسلام میں ’’سوسائٹی‘‘ کا کیا تصور ہے اور وہ اِس وقت پڑھائے جانے والے جاہلی تصور سے کس قدر مختلف ہے؟ ’’ریاست‘‘ کیا ہے؟ ’’اجتماع‘‘ کیا ہے؟ ’’افتراق‘‘ کیا ہے؟ اور اس کے بیان کردہ ’’اجتماع‘‘ سے متعلقہ مباحث کی اصل حقیقت کیا ہے؟ ’’رشتے‘‘ اور ان کی ’’حیثیت‘‘ کیونکر متعین ہوتی ہے؟ اور پھر یہیں سے کتابوں کے نزول اور ابنیاء کی بعثت تک ایسے موضوع اس کے ساتھ جڑتے چلے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں پیش آنے والے حالیہ افسوسناک واقعات نے جہاں بہت سے  بظاہر ’مندمل‘ زخموں کو ہرا کیا ہے وہاں بہت سی ’متروک‘ بحثوں کو جنم دیا ہے جن میں سے بعض آپ نے ذرائع ابلاغ پر بھی ملاحظہ فرمائی ہوں گی۔ ’’سندھ‘‘ کا مسئلہ اٹھایا گیا اور اس پر ’’حمیت‘‘ کے کچھ بھرپور مظاہرے سامنے آئے، تو یہ بحثیں بھی ہوتے ہوتے اُسی ایک بڑے مسئلے پر پہنچا گئیں کہ ’’اجتماع‘‘ کی اصل بنیادیں ہیں کیا؟ ملت کیا ہے اور ملت کے ’’ثانوی فَرقوں‘‘ secondary divisions  کی حدود اور قیود اصولاً ہیں کیا؟ یہاں ’بلوچستان‘ کا مسئلہ ہر چند دن بعد اٹھا لایا جاتا ہے جس کے اندر سے یہ سوال پھر ابھر آتا ہے کہ ان مختلف رنگوں اور نسلوں کو جوڑنے والی اصل حقیقی چیز کیا ہے اور وہ ’’چیز‘‘ اگر کوئی اصول ہے تو قدم قدم پر تضادات کا شکار کیوں ہے؟ امریکی طاغوت کے خطے سے نکلنے کی صورت میں جو ایک اسلامی وحدت ہمیں ایٹمی پاکستان سے لے کر وسطِ ایشیا تک جاتی دکھائی دیتی ہے (جلد یا بدیر) اُس سے ’’امت‘‘ کی توقعات وابستہ کرنے میں کہاں تک جایا جاسکتا ہے اور ’’امت‘‘ کی نفی کرنے والے عوامل کی خدا کی میزان میں کیا حیثیت ہے؟ نیز اِس متوقع (باذن اللہ)  وسطِ ایشیا تا لاہور و کراچی ’’اسلامی وحدت‘‘ کی دلالتیں سری نگر، دہلی اور دکن کے لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کے حق میں کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر اہم سوال...: یو۔این کے عائد کردہ اعتقادات اور فرائض و شرائع کی حیثیت مسلمان کی نظر میں کیا ہونی چاہئے؟

(یہاں ہم صرف مسلمان کی نظر سے ’’دیکھنے‘‘ کی بات کررہے ہیں، عملاً ہم اِس وقت جہاں ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہے؛ اور اس کی بابت ہمیں کوئی جلدی نہیں؛ تاہم ہمارا یقین ہے کہ ’’مسلمان‘‘ کی صرف ایک ’’نظر‘‘ ہی درست کر دی جائے تو اِس کے گرد و پیش کا نقشہ تبدیل ہونے میں کوئی بہت زمانے درکار نہیں۔ البتہ خدشہ ہے کہ ’’نظر‘‘ کی بیڑیاں توڑنے میں زمانے گزر جائیں کیونکہ اِن بیڑیوں پر آیات و احادیث کے حوالے بھی جابجا دے لیے گئے ہیں؛ اور ہمارا اصل المیہ بھی شاید یہی ہے)۔

 اُدھر تھوڑی تھوڑی دیر بعد بھارت آپ کی ’عالمی برادری‘ میں ویٹو پاور کے ’’استحقاق‘‘ کا اعادہ کرنے لگا ہے جس کی بڑی وجہ وہ اپنی ’ایک ارب سے زائد آبادی‘ اور ’وسیع وعریض رقبہ‘ بتاتا ہے؛ جس کا مطلب ہے کہ خود آپ کی اِس شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے والی ’عالمی برادری‘ کے ہاں ’ایک ارب سے زائد آبادی‘ اور ’وسیع وعریض رقبہ‘ فضیلت اور برتری کی کوئی بنیاد ضرور ہے جبھی تو بھارت اس کا حوالہ دے کر سلامتی کونسل میں ’’ویٹو پاور‘‘ مانگتا ہے! یہاں پھر آپ کے سامنے اِس ’’ہم‘‘ کا سوال آکھڑا ہوتا ہے جس کا کوئی جواب ’لاکھوں‘ میں آئے گا تو کوئی جواب ’کروڑوں‘ میں تو کوئی جواب ’’ڈیڑھ ارب سے زائد‘‘ میں۔ یہاں پھر...، ہمیں ’’واقعات‘‘ کے میدان میں کسی چیز کی کوئی جلدی نہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں ہم اپنے اس ہدف سے بہت دور ہیں... کیونکہ ہم تو ابھی تک اُس پہلے سوال کا ہی جواب نہیں دے پائے جو ہمیں اپنی درست ’’شناخت‘‘ میں مدد دے سکے اور ہم پر واضح کر سکے کہ اِس دنیا میں ’’ہم‘‘ ہیں کون!

ادھر آپ کی اِسی ’عالمی برادری‘ میں جہاں بھارت کسی قرض خواہ بنیے کی طرح پل پل بعد’’ویٹوپاور‘‘ کے تقاضے کرنے لگا ہے، کچھ نسبتاً ’’بڑے رقبے‘‘ اور ’’بڑی آبادی‘‘ کے مسلمان ملکوں کے سائز کُترنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہاں تک کہ مستقبل قریب کے عالم اسلام کے کچھ ’نقشے‘ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز ایسے مقتدرہ ذراائع ابلاغ میں چھپتے ہیں!

یہاں ضروری ہوجاتا ہے کہ ’’اجتماع‘‘ کے مباحث کچھ اصولی بنیادوں پر مسلمان کےلیے واضح ہوجائیں اور یہاں کے نام نہاد ’اسلامی‘ ہیومن اسٹوں کے کیس کو دریابرد کروا دیا جائے جو ظلم اور شرک کے اِس عالمی راج گھاٹ کو ’کتاب و سنت‘ کی دلیلوں سے مزین کرنے میں لگے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ فی الوقت جو تعامل interaction ہے وہ تو ہمیں  دی گئی حقیقتوں given realities  کے ساتھ ہی کرنا ہے۔ یعنی ایک عرصہ تک اِس ’یو۔این کمیونٹی‘ کے ساتھ ہی نباہ کرنا ہے کیونکہ صدیوں کی غفلت کے خمیازے سے دنوں میں جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ لیکن کیا یہ بھی ضروری ہے کہ  ہم مسئلہ کو دیکھیں تک اُن کی نظر سے؟ اور کب تک؟

یہ موضوعات جو بنیادی طور پر ’’الجماعۃ‘‘ سے متعلق ہیں (اور جوکہ ہم پر خدا کی جانب سے عائد فرض ہے بلکہ ’’مسلمان‘‘ ہونے کی ہی ایک جہت ہے)، مسلم زندگی میں روزبروز اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ یوں بھی ہم ان موضوعات کو کھولنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر  اِسی دوران ابن تیمیہ کی تصنیف ’’خلافت و ملوکیت‘‘ پر کام کرنے کے دوران ہم پر کھلا کہ اس امام نے اپنی تصنیف کی ابتدائی فصول میں بہت اختصار کے ساتھ سہی ہماری آج کی ضرورت کے کچھ نہایت بنیادی مباحث سمو دیے ہیں۔ یہاں سے؛ ضروری معلوم ہوا کہ دورِ حاضر کے ہیومن اسٹ پیراڈائم کو مسلسل زیرِ موازنہ رکھتے ہوئے ابن تیمیہ کے بیان کردہ اِن ایمانی مباحث کو اس حد تک کھول دیا جائے کہ اُن نقاط کا تعین ہوجائے جہاں ’’شناخت‘‘، ’’اجتماع‘‘ اور ’’تقسیمِ آدمیت‘‘ ایسے موضوعات میں فی زمانہ اسلام اور جاہلیت کے کانٹے الگ ہوتے ہیں تاکہ کچھ اشیاء کو ہم عین بنیاد سے اور اپنے دور کی گمراہیوں کی نسبت سے سمجھ سکیں... اور توحید کی کچھ اساسی دلالتیں فی زمانہ ہم پر واضح ہوجائیں۔ ’’خلافت‘‘ اور ’’امارت‘‘ وغیرہ ایسی اشیاء جو ابن تیمیہ کی تصنیف میں بعد کی فصول میں بیان ہوئیں، دراصل ان بنیادی مسائل کو طے کرنے کے بعد سمجھ آنے والی باتیں ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ، ان طبقوں کی پھیلائی ہوئی الجھنوں کو سلجھانا بھی ضروری تھا جن کو ہم نے اپنے اِس بیان میں ’اسلامی ہیومن اسٹ‘ یا ’جدید اعتزالی رجحانات‘ کا نام دیا ہے، کیونکہ ان کے دیے ہوئے ڈسکورس کے نتیجے میں ہمارے دین کے اکثر مفہومات  مغرب کے دیے ہوئے ماڈرنسٹ پیراڈائم میں فٹ ہوتے چلے جاتے ہیں اور ’’اسلام‘‘ ایسی برگزیدہ حقیقت اُسی کے فریم میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ پہلی دو فصول پر ہماری تعلیقات کچھ طویل ہوگئی ہیں کیونکہ یہی اِس تصنیف کی اصل بنیاد foundation  ہیں۔ حالیہ شمارہ میں صرف اس کی پہلی فصل مع تعلیقات ہیں۔ اس کی باقی فصول آئندہ شمارہ میں آئیں گی، ان شاء اللہ۔  قارئین سے درخواست ہے کہ اس پر ہمیں اپنی آراء یا استفسارات سے آگاہ فرمائیں تاکہ کتابی صورت میں اس کی اشاعت سے پہلے ان مباحث کو مزید فائدہ مند بنایا جا سکے۔ اِن تحریروں کو اگر آپ مفید پائیں تو اپنے حلقۂ احباب سے براہِ کرم اِن کو توجہ لے کر دیجئے۔



[1]   عربی ضرب المثال، ترجمہ:  ’’اگر تم خود بھیڑیا نہیں تو پھر بھیڑیوں کی خوراک ہو‘‘۔

[2]   ہمارا پہلا مقدمہ امت کی اِس وقت کی ترجیحات کا بیان ہے جوکہ اوپر دو نقاط میں ذکر ہوا۔

[3]   تحریکوں میں عجلت پسندی کے رجحانات پر ہم محمد قطب کے افکار متعدد مقامات پر پیش کرچکے ہیں۔ خصوصاً دیکھئے ہماری ترجمہ کردہ محمد قطب کی تالیف ’’دعوت کا منہج کیا ہو‘‘؟

[4]   اِس حاملِ دین طبقہ سے ہماری مراد ظاہر ہے نرے دیندار نہیں۔ ’’حاملِ دین‘‘ سے یہاں ہماری مراد وہ طبقہ ہے جو اپنے دور کے شرک کی نفی کرنا جانتا ہو اور اپنے زمانے کے انسان  کو ’’توحید‘‘ کے مطالب ذہن نشین کراسکتا ہو۔ البتہ جہاں توحید کے بنیادی اسباق روپوش ہوں وہاں محض ’دینی مظاہر‘ سے دھوکہ کھانا گمراہ کن ہے۔حق تو یہ ہے کہ آج کی اِس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے، کہ جہاں اسلام معاشرے کے ثقافتی رجحانات cultural trends and fashions   پر فی الحال چھایا ہوا نہیں ہے وہاں ’مظاہر‘ سے بالکل بھی دھوکہ نہ کھانا چاہئے بلکہ اصل جانچنے کی چیز یہاں تین باتیں ہونی چاہئیں:

1.        تصورات کی پختگی  clarity in concepts (عقیدہ)،

2.        اسلام کے بنیادی فرائض basic obligations  کی ادائیگی، اور

3.        اسلام میں مقرر اخلاقی قدروں moral values کی پابندی۔

یہی تین چیزیں فی الوقت محنت کا اصل میدان ہونا چاہئے، خواہ تعلیم کا چیلنج ہو یا تربیت کا... اور خواہ دعوت کا یا کوئی تحریکی قافلہ تشکیل دینے کا۔ صرف یہ ایک نکتہ واضح ہوجائے تو یہاں مطلوب تحریکی عمل کی ایک بہت بڑی گتھی سلجھ جاتی ہے۔ ’’معاشرے میں اترنے‘‘ کا جو عمل ہمارا منتظر ہے، اس میں بھی یہی حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے۔ (مزید دیکھئے ہمارا ایک اداریہ ’’پس چہ باید کرد‘‘)

[5]  یہاں اگر ہمارا ’’حاملِ دین‘‘ طبقہ اپنی اہلیت ثابت کرلیتا ہے تو معاملہ خودبخود ایک رخ پا لیتا ہے۔ اور اگر یہاں پر ہی یہ اپنی اہلیت ثابت نہیں کرتا تو بھی فیصلہ ہوجاتا ہے، جیساکہ اس وقت ہے! البتہ اگر ہماری دینی قیادتوں کا خیال ہو کہ تقریریں اور وعظ کرنے سے معاشرے کی قیادت ہماری جھولی میں آ گرے گی تو شاید قیامت تک ایسا نہ ہو! یا اگر ہمارا خیال ہو کہ معاملہ یونہی چلتا رہے مگر کسی الیکشن کے نتائج یکبارگی یہ ’ثابت‘ کردیں گے کہ اس قوم کی قیادت درحقیقت ہمارا ہی حق تھا  تو اِس کو خام خیالی کہنا چاہئے۔ یا کسی کا خیال ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر وہ اس قوم کی قیادت کر دکھائے گا تو ہمارے نزدیک یہ خوش امیدی ہے۔

یہاں سماجی عمل ہی ’’قیادت‘‘ کی اصل کسوٹی ہے؛ جو اِس میں فیل ہے وہ فیل ہے اور جو اس میں پاس ہوتا ہے ان شاء اللہ میدان اُس کا ہے خواہ اُس کی ’حکومت‘ آئے یا نہ آئے یا اس پر ’انقلاب‘ کا ٹھپہ لگے یا نہ لگے۔ ’’تبدیلی‘‘ لانے کا یہی ایک فطری راستہ ہے؛ اس سے ہٹ کر اگر کسی کو ہتھیلی پر سرسوں جمانی ہے تو وہ اپنے اِن ’عالیشان‘ قلعوں میں جتنی دیر چاہے سکونت رکھے۔ وہ چیز جس کو ہم رسول اللہﷺ کا برپاکردہ ’’انقلاب‘‘ کہتے ہیں، اِس امت کی تاسیس اور تشکیل کے وقت کا ایک خاص نبوی عمل تھا جو ’’صفر‘‘ سے شروع ہوا اور چند سالوں کے اندر پوری کامیابی کے ساتھ اپنے کمال کو پہنچا اور زمین کا دھارا تبدیل کرجانے کی بنیاد رکھ گیا۔ البتہ بعد کی صدیوں میں صالحین نے صرف ’’دی ہوئی صورتحال‘‘ given situation  میں ہی اپنا بہترین ادا کیا (نہ ’صفر‘ سے آغاز کا فلسفہ پیش کیا اور نہ ’سو‘ تک پہنچانے والا کوئی ’انقلابی‘ تصور؛ جبکہ ’’خلافت‘‘ کے بھی احکام بیان کیے اور ’’دین‘‘ کو زمانے میں ’’غالب‘‘ کرنے سے بھی سروکار رکھا)البتہ عملی میدان میں صورتحال کو ’’مجموعی طور پر‘‘ ہی بہتری کی جانب بڑھایا جس سے بڑی بڑی اعلیٰ صورتحال بھی کسی وقت پیدا ہوجاتی رہی۔ ایسا ہی کردار آج بھی ہمیں ’’دی ہوئی صورتحال‘‘ given situation کے اندر ادا کرنا ہے جو اگر باحسن صورت ادا ہوتا ہے تو یہاں بہت سی تبدیلیاں آپ سے آپ وقوع پزیر ہوجاتی ہیں اور کچھ بعید نہیں معاملہ کسی دن ’’خلافت‘‘ تک بھی جا پہنچے۔البتہ سب کام ’’خلافت‘‘ یا ’’انقلاب‘‘ کے اندر محصور جاننا اور خاص اِسی کےلیے تحریک چلانا وہ اندازِ فکر ہے جو آپ کے بڑے بڑے صالح اور قابل نوجوان کو ’دروس‘ اور ’ڈرائنگ روم‘ کا اسیر اور معاشرے کے عملی محاذوں کے لحاظ سے عضوِ معطل بنا رکھنے کا سبب بنتا ہے؛ یعنی ایک طرح کا یوٹوپیا۔

[6]   دیکھئے اس سلسلہ میں ہمارا مضمون ’’درمیانی مرحلہ کے بعض احکام‘‘ (شمارہ اپریل تا جون 2013)

نیز واقعۂ یوسف کے حوالے سے ابن تیمیہ کی تقریر (شمارہ جولائی تا ستمبر 2013)

[7]   یہاں پر ہمارے کچھ اصحاب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’خلافت کی غیرموجودگی‘‘ کے حوالے سے آپ کی نظر ’’مکی مرحلے‘‘ کی طرف کیوں نہیں جاتی جب رسول اللہﷺ اور آپؐ کے مٹھی بھر ساتھی کسی طاقت اور اقتدار کے بغیر تھے؛ جو اعمال اُنہوں نے اُس وقت انجام دیے اُنہی کو مستقل طور پر ’’خلافت کی غیرموجودگی کےاحکام‘‘ قرار دے لیجئے، معاملہ ختم۔ اس کےلیے آپ ’’فقہ الموازنات‘‘ وغیرہ ایسی اشیاء کی پریشانی کیوں اٹھاتے ہیں ؟ ہمارا جواب بہت سادہ ہے: ’’مکی مرحلہ‘‘ میں وہ  ڈیڑھ ارب کی امت کہیں نہیں پائی جاتی تھی جس کے مصالح کی ہم بات کر رہے ہیں! رسول اللہﷺ کے اپنے مٹھی بھر ساتھی فدائیت کی اعلیٰ ترین سطح پر پائے جاتے تھے۔ جبکہ اِدھر زوال کی کھائی ہوئی، شعور سے تہی، جہالت میں ڈوبی، بداعمالیوں میں پھنسی، دشمن کی چیرہ دستیوں سے لہولہان، اپنے بکاؤ مال سیاستدان کی ڈسی ہوئی، بیرون سے مسلط شدہ نصابوں، بھاڑے کے دانشوروں، کرائے کے میڈیا، این جی اوز کے غولوں اور ملٹی نیشنلز کے لشکروں کی یلغار تلے آئی ہوئی شرق تا غرب پھیلی ایک ’’امت‘‘ ہے جو قریب ہے کہ اپنی نسلیں کھو دے اور اپنی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھے... اور یہ تن داغ داغ امت ضرورتمند ہے کہ کوئی  مہربان اس کو ہاتھ پکڑ کر چلائے؛ ہر ہر جگہ اس کی مدد کو پہنچے اور ہر ہر سطح پر اس کی راہنمائی کو موجود ہو؛ اور ایسا کرتے ہوئے اس کی کمزوریوں اور خامیوں کا پورا پورا لحاظ کرے۔ یہ وجہ ہے کہ اِس صورتحال سے متعلقہ احکام لاگو کرنے کے حوالے سے ہماری نظر ’’مکی مرحلے‘‘ کی طرف نہیں جاتی جو آج یہاں کے کچھ طبقوں کےلیے فکری تعیش اور ’یوٹوپیا‘ کی بنیاد فراہم کرنے لگا ہے۔ اِس کےلیے ہماری نظر ’’فقہ الموازنات‘‘ اور ’’اَحوال تعارض الحسنات والسیئات‘‘ کی طرف جاتی ہے؛ جس کے مختلف پہلو ہم امت کے مستند فقہاء و مجتہدین کے حوالوں کے ساتھ ایقاظ میں وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہتے ہیں۔

[8]   حتیٰ کہ ’’غیر شرعی عدالتوں‘‘ کی جانب رخ کرنے سے ممانعت کے احکام قرآن میں اُس وقت اترے تھے جب ’’شرعی عدالتیں‘‘ اپنی قوتِ نافذہ کے ساتھ معاشرے میں دستیاب کرا دی گئی تھیں؛ اس سے پہلے ان اشیاء کو صرف نظریاتی سطح پر بیان کیا جاتا رہا تھا۔ لہٰذا تطبیقی پہلوؤں سے اِن عزلت پسند حضرات کا ’’بیانِ توحید‘‘ جو ہماری آج کی صورتحال کے حوالے سے ہو رہا ہے کچھ نہایت سنگین الجھنیں پیدا کرکے دے رہا ہے۔ ہماری دانست میں کوئی ایک بھی منجھا ہوا عالم اِس پورے ڈسکورس کو، جو اندریں حالات ہم پر سماجی شعبوں میں جانے کے راستے بند کرتا ہے، اپنی تائید سے نہیں نوازتا۔  سوائے سودی بینکوں اور انشورنس کمپنیوں یا اس طرح کے کوئی اور ایک آدھ شعبے کے، شاید کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں جس کی ملازمت کو ’’حرام‘‘ کہنے کا فتویٰ کسی مقتدر  عالم کے ہاں سے صادر ہوا ہو۔

[9]   جیسے بابل کی اسیری میں بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا، جہاں دانیال وغیرہ ایسے صالحین نے اپنی امت کے معاملات کو حتی الامکان بہتری میں رکھنے کی کوشش کی۔ لہٰذا ایک بری سے بری صورتحال میں بھی صالحین کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کو ’’قیادت‘‘ فراہم کریں؛ جتنا ہوسکے اس کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اسے مفسدین فی الارض کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ یہ تصور کرلینا کوئی درست بات نہیں کہ یا تو ہمارے پاس خلافت ہوتی ہے یا پھر مسجد اور ڈرائنگ روم، بیچ میں کوئی حالت نہیں! حالانکہ ان دونوں کے بیچ ان گنت صورتیں ممکن ہیں۔ غرض صالحین کا کام اپنے ’’مسلم معاشرے‘‘ کے روزمرہ امور کے معاملہ میں کبھی بھی معطل نہیں ہوتا خواہ صورتِ قائمہ پر وہ خود حاوی ہوں یا ان کا حریف۔

[10]   ظاہر ہے اس دوران کوئی ’موہوم واقعہ‘ اگر رونما ہوجاتا ہے... مثلاً کسی ملک میں’’اہل قوت‘‘ کا کھل کھلا کر یا درپردہ اسلامی ایجنڈا کی پشت پر آجانا، اور جس کےلیے کوشش بھی ضرور کرنی چاہئے، یا مثلاً کسی الیکشن میں ہی مسلمان میدان مار لیتے ہیں، یا کوئی عوامی ’تحریر سکوائر‘ کوئی پیش رفت کر دکھاتا ہے... تو اس کا ہمارے بیان کردہ اِس منہج سے کوئی تعارض نہیں، کیونکہ خود ہمارے اس منہج میں یہاں کے سیاسی و انتظامی و عسکری و صفحافتی و عوامی شعبوں پر اسلام کے فی زمانہ تقاضے واضح کرنا اور ان کو اسلام کے لانگ ٹرم و شارٹ ٹرم اہداف پر آمادہ کرنا واضح طور پر شامل ہے۔ البتہ کسی مقتدر طبقے سے کچھ خاص امیدیں وابستہ کررکھنے کو ’’منہج‘‘ بلکہ اسلام کا ’واحد صحیح منہج‘ قرار دینا اور اس کے علاوہ سب مناہج کو ’خلافِ سنت‘ قرار دینا ضرور ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
فرد اور نظام کا ڈائلیکٹ، ایک اہم تنقیح
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل، ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز