عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, May 2,2024 | 1445, شَوّال 22
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ابن تیمیہؒ کی تقریر... ’’سوشل کونٹریکٹ‘‘ کا ابطال
:عنوان

یہ بندگی فرض ہوئی کہاں سے؟عہدِ سوشل کونٹریکٹ سے؛جسپر چاہےآپ نےکبھی صاد نہ کیا ہو مگرروسو اور کانٹ کی آنکھ نےآپکی وہ کارروائی ہمیشہ کےلیےمحفوظ کرلی،لہذا وہ سند ہےاور تاقیامت کارآمد!یہ واحد عقد ہےجو ناقابل فسخ ہے

. اصولمنہج :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

Text Box: 100(خلافت و ملوکیت) تعلیق 18[1]

ابن تیمیہؒ     کی تقریر... ’’سوشل کونٹریکٹ‘‘ کا ابطال

ابن تیمیہ﷫  کا یہ بیان نہایت اہم اور لائقِ توجہ ہے۔ ’’جماعۃ المسلمین‘‘  کا لزوم اور ’’امارۃ المؤمنین‘‘ کی اطاعت آدمی پر اُسی طرح فرض ہے جس طرح پنجوقتہ نماز، روزہ اور حج۔ یہ خدا کی طرف سے فرض ہے آدمی کے اپنے ووٹ، یا دستخط، یا اتفاق نامے سے فرض ہونے والی چیز نہیں۔ ’’اطاعت‘‘ کا مصدر ہمارے ہاں ’’خدائی شریعت‘‘ ہے۔ خدا، جو انسان میں روح ڈالتا، اس کو کھلاتا، پلاتا اور کائنات کی سب قوتوں کو اس کے کام میں لگاتا ہے، اور آخر میں وہی اِس کی جان لیتا اور اس کو اپنی عدالت میں کھڑا کرتا... وہ خدا جو چاہے انسان پر فرض کرے؛ صرف اُس کے فرض کرنے سے چیزیں فرض ہوں گی ورنہ ہرگز نہ ہوں گی۔ البتہ وہ مہربان، دانا اور غنی ہے؛ انسان پر وہی چیز فرض کرتا ہے جو اِس کی فطرت کے موافق، اِس کے فائدے کی موجب اور اِس کے مقدور کے اندر ہو۔

یہاں سے ’’شہریت‘‘ کا جدید تصور نہ صرف باطل ہوجاتا ہے بلکہ مسلمانوں کی ضرورت ہی نہیں رہتا:’’فرد‘‘ پر ’’جماعت‘‘ کا لزوم اور ’’اطاعت‘‘ خدا کے فرض ٹھہرانے سے فرض ٹھہرتی ہے، عین اُسی طرح جس طرح ’’نماز‘‘ اور ’’روزہ‘‘ اُس کے فرض ٹھہرانے سے فرض ٹھہرتا ہے۔ اُس کے سوا کوئی ہستی ہے ہی نہیں جو انسان پر کچھ فرض کرے۔ تصور کرلیجئے، اسلام میں انسان ’’عبد‘‘ ہوتے ہوئے اتنا معزز ہے کہ کوئی اسے حکم نہیں دے سکتا سوائے اُس ایک ہستی کے جس کا یہ عبد ہے اور جو اِس کی خالق ہے۔ ’’عبد‘‘ ہوتے ہوئے یہ اِدھر اتنا معزز ہے جتنا اُدھر ’’خدا‘‘ ہوتے ہوئے معزز نہیں ہے... کیونکہ اُدھر  کچھ انسانوں (درحقیقت بھیڑیوں) کو اس کے جان و مال میں مطلق تصرف کرنا اور اِس کو اپنے ’قوانین‘ کا پابند کرنا ہے!

یہ واردات ’’ریاست‘‘ کے نام پر ہوتی ہے۔ کسی ’دلیل‘ سے ایک بار ’’ریاست‘‘ کو انسان کا مطاع ٹھہرا لیا جائے تو پھر اگلے سب مراحل آسان ہوجاتے ہیں۔ ایک خاص ذہین اور طاقتور طبقہ وسائل اور ساہوکاری کا جادو جگا کر ’’ریاست‘‘ کے روپ میں عام انسان کا مطاع ہوجائے گا[2]   اور پھر اپنے ’قوانین‘ وغیرہ کی صورت میں مسلسل اس سے اپنی ’’عبادت‘‘ کروائے گا۔

تو پھر ’’ریاست‘‘ کی اطاعت کس دلیل سے فرض ٹھہرائی جائے؟

ہر ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کام سے کام رکھتی اور وہاں کے سیاسی عمل سے کسی بھی انداز کا سروکار نہیں رکھتی؛ اسکی مجبوری صرف اتنی ہے کہ وہ یہاں پر ’پیدا‘ ہوئی ہوتی ہے! اتنے لوگوں نے یہاں کے سیاسی عمل سے کوئی سروکار نہیں رکھا، آخر کیسے کہا جائے کہ انہوں نے ریاست کو اپنی مطلق اطاعت کا راضی نامہ  consent  دے دیا ہے؟ انکے جان، مال، آبرو[3]  میں ریاست کس دلیل سے تصرف کرے... جبکہ مطلق مطاع بنے بغیر اسکا گزارہ ہی نہیں؟!

  اس کےلیے کچھ مغربی مفکرین مانند  روسو نے ’’سوشل کونٹریکٹ‘‘ کا نظریہ گھڑا؛ جس کی رو سے ایک شہری کی بابت یہ فرض کر لیا جائے گا کہ وہ  وہاں کے نظام کا مطیع ہونے کی حامی بھر چکا ہے۔ انسان جوکہ عقیدہ ہیومنزم کی رو سے ویسے تو ’’آزاد‘‘ اور ’’اپنی مرضی کی مالک‘‘ ہستی ہے جو کسی چیز کی پابند نہیں کی جاسکتی۔ مگر ’’ریاست‘‘ بھی ایک خدا ہے جس کا مطاعِ مطلق ہوئے بغیر گزارہ نہیں۔ اس تناقض کو ختم کرنے کیلئے روسو یہ ’فرض‘ کرلیتا ہےکہ ایک ’شہری‘ اپنے گرد پائی جانے والی انسانی جماعت اور اسکے نظم کی اطاعت کی حامی بھر چکا ہے اور وہ ایسی حامی ہے کہ آدمی اس نظم کی اطاعت سے اگر صراحت کے ساتھ ’ناں‘ کرے تو بھی اُس کی ’ہاں‘ ہی ہوگی! المختصر جیسے ہی آپ ’شہری‘ ہوئے آپ ’آزاد‘ نہیں رہے؛ آپکی وہ آزادی آپ سے سلب ہوکر ریاست کے پاس چلی گئی ہے؛ اب آپ صرف وہاں پر آزاد ہیں جہاں ریاست آپکو آزادی دے۔ ہاں مگر یہ اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ آزادی آپ نے خود ہی اپنے حق میں ختم کرلی کسی نے آپ پر فرض نہیں کی! یعنی آپکو پتہ تک نہیں چلا، اِس ریاست میں آنکھ کھولتے ہی آپ نے ایک ایسا ایگری منٹ سائن کرلیا جس کو آپ زور بھی لگا لیں تو منسوخ نہیں کر سکتے!!! آپکو کوئی چناؤ نہیں دیا گیا مگر آپ نے ان میں سے ایک بات کا چناؤ کرلیا!

یہ ہے ہابس، لاک، روسو اور کانٹ کا پیش کردہ نظریۂ سوشل کونٹریکٹ!

یہاں سے جماعت (ریاست) کی خدائی بھی قائم ہوگئی  اور جماعت آدمی کے جان اور مال میں متصرف بھی ہوگئی، یہاں تک کہ شہری کو  subject  کا نام دینے لگی (اس کے بغیر کاروبارِ ریاست چل بھی نہیں سکتا!) یعنی صاف اطاعت... لیکن کوئی ایسی بالاتر ہستی بھی ’فرض‘ کرنا نہیں پڑی جو انسان کو جماعت کا پابند کرتی ہو!

اِس فوجداری کا حال یہ ہے کہ آپ یہ تک نہیں کہہ سکتے کہ چلئے میں ریاست کے ’عطاکردہ‘ وسائل اور مواقع ہی نہیں لیتا جس کے عوض ریاست مجھے اپنا بندہ  subject     بناتی ہے؛ میں کسی جنگل یا صحرا میں جا کر رہ لیتا ہوں تاکہ مجھے ریاست کی بندگی نہ کرنی پڑے۔  یہاں ریاست آپ کو کہتی ہے، یہ جنگل اور صحرا بھی میرے ہیں؛ میری عبادت سے نکل کر تم جا کہاں سکتے ہو؟ پس یہ پوری زمین کسی نہ کسی ’ریاست‘ کی جاگیر ہے، لہٰذا کسی نہ کسی ’ریاست‘ کی بندگی آپ پر فرض ہے۔ یہ بندگی فرض ہوئی کہاں سے؟  عہدِ سوشل کونٹریکٹ سے؛ جس پر چاہے آپ نے کبھی صاد نہ کیا ہو مگر روسو اور کانٹ کی آنکھ نے آپ کی وہ کارروائی ہمیشہ کےلیے محفوظ کرلی ہے، لہٰذا اب وہ سند ہے اور تاقیامت کارآمد! یہ واحد عقد ہے جو ناقابلِ فسخ ہے!

یہ ہے ریاست کی اطاعت، جس کو آپ کی زندگی میں مطلق تصرف کا حق مل جاتا ہے۔ ریاست آپ کے مال میں جتنا حصہ مقرر کرے اس کی مرضی؛ آپ اس کو ’مقدس حق‘ جان کر اُس کا وہ حصہ ادا کریں گے۔ ریاست آپ کے لیے ذرائعِ آمدن و صرف میں جائز و ناجائز کا تقرر کرے گی۔ دولت کی تقسیم کے پیمانے وضع کرے گی۔ تعلقاتِ مردو زن کا تعین کرے گی۔  سزاؤں کا ضابطہ وضع کرے گی؛ جس کی رو سے وہ انسانوں کی جان تک لینے کی مجاز ہے۔ کس چیز کو وہ جرم سمجھے گی اور کس چیز کو جرم نہ سمجھے گی، آپ کی زندگی میں ان سب قدروں کا تعین کرنا ریاست کا اختیار ہےجس کو یہاں کا ’شہری‘ ہونے کے ناطے ریاست میں ’پایا جانے‘ والا ہر ابن آدم اپنے گلے کی زینت بنا چکا ہے۔

جبکہ اِدھر...  ’’جماعت‘‘ کے لزوم اور ’’اولی الامر‘‘ کی اطاعت کا حکم خدائے علیم و حکیم کے دربار سے آتا ہے۔  اس صراحت کے ساتھ کہ یہ ’’جماعت‘‘ یا اِس کے ’’اولی الامر‘‘ اُس کے بندوں کے جان و مال میں صرف اُس حد تک تصرف کرسکتے ہیں جتنی وہ اجازت دے۔ خود ’’جماعت‘‘ اُس کی شریعت کی پابند ہےاور اُس کے بندوں کے جان، مال اور آبرو میں اُس کی اجازت کے بغیر ایک ذرہ تصرف کرنے کی مجاز نہیں۔ (اس کے ساتھ وہ ایک ایسی مفصل شریعت دیتا ہے جس میں اموال، ارواح اور اَعراض وغیرہ کے معاملہ میں سب اہم اہم فیصلے وہ خود ہی کردیتا ہے، یعنی اس معاملہ میں وہ اشرافیہ کا تشریعی کردار ہی ختم کردیتا ہے۔ پھر وہ ایسے اعلیٰ فیصلے ہیں کہ جس دانا نے بھی اُن کا مطالعہ کیا، اُس کی حکمت اور دانائی پر اَش اَش کر اٹھا کہ کس طرح ایک محکم شریعت کے ذریعے اُس نے انسانی زندگی سے ظلم، استحصال، بےحیائی، غلاظت، سفلہ پن اور تذلیلِ انسانیت کی راہیں مسدود کرکے رکھ دیں... ایک حرمتِ سود کا مسئلہ ہی پوری زمین کو سکھ کا سانس دلانے اور ساہوکاری کا ناطقہ بند کردینے کےلیے قیامت تک کافی ہے!) خود  ’’فرد‘‘ کو اُس کی واضح ہدایت ہے کہ جہاں خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو وہاں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ ’’جماعت‘‘ اور اس پر قائم ’’امارت‘‘ کی اطاعت بھی اُس کی اپنی اطاعت کے تابع ہے۔ اُس کی خدائی پر ایمان لانا زمین پر سکھ کی ضمانت ہے۔

یہ ہوا اسلامی پیراڈائم میں ’’ لزومِ جماعت‘‘ بمقابلہ مغربی پیراڈائم میں ’’سوشل کونٹریکٹ‘‘۔

(مزید مطالعہ کےلیے دیکھئے تعلیق 12 ’’آسمانی شریعت نہ سوشل کونٹریکٹ‘‘، گزشتہ شمارہ صفحہ101 )



[1]   ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل اول، حاشیہ  18 (گزشتہ شمارہ ص 50)

[2]  یہ خاص ذہین، طاقتور، گھاگ طبقہ یا تو ’’ریاست‘‘ میں براہِ راست تصرف کرے گا یا ریاست کے ’نمائندوں‘ کو اپنا نوکر کرلے گا جو اس کے مفاد کا تحفظ کریں اور اس کے عوض اقتدار میں کچھ دیر مزے کریں۔ اسی گھاگ خرانٹ طبقے کو جدید زبان میں ’اشرافیہ‘ کہا جاتا ہے (آپ یہاں کسی جمہوری سے جمہوری ملک کی نشاندہی نہ کرسکیں گے جس کی الیکشن کیمپین وہاں کی ساہوکار برادری سے نظرِ کرم پائے بغیر انجام پا جاتی ہو؛ ’نوکروں‘ کی بھرتی اور سرپرستی سمجھو یہیں سے شروع ہوجاتی ہے)۔ اسی ساہوکار ایلیٹ کی اھواء پھر مختلف پہلوؤں سے ’’ریاست‘‘ کی زبان میں بولتی ہیں جس کے تقدس پر انسانیت کا ’اجماع‘ باور کرا لیا گیا ہے۔ یہ ’’اشرافیہ‘‘ ہر حال اور ہر صورتحال میں پائی جائے گی۔ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى۔  بسا اوقات آپ مڈل کلاس کیا، پسے ہوئے طبقوں کو اوپر آیا ہوا دیکھتے ہیں، مگر اِن طبقوں کے ہی کچھ آدمی دنوں میں ’اشرافیہ‘ ہوں گے (یہ اُس صورت میں اگر وہ کسی مقامی یا عالمی اشرافیہ کا ظاہری روپ نہیں) اور ایسے ایسے کام انجام دیں گے جو کسی ’خاندانی‘ اشرافیہ کے بس میں نہ ہوں!

[3]  ’’ریاست‘‘ یہ تک قانون بنا سکتی ہے کہ آپ کی بیوی یا بہن گھر سے نکلتے ہوئے سر نہیں ڈھانپ سکتی اور اگر ڈھانپے تو سزا کی مستوجب ہے۔  ریاست آپ کی جوان بیٹی پر سیکس ایجوکیشن فرض کرسکتی ہے۔  ’کنواری ماؤں کے حقوق‘ کا قانون پاس کرسکتی ہے۔ رحمِ مادر میں پڑے بچے کے اسقاط کو جائز اور ناجائز ٹھہرا سکتی ہے۔ ہم جنسی پرستی (بدفعلی) کو ’تقدس‘ دے سکتی ہے۔ وغیرہ

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز