ابن عباس:
تفسیر قرآن چار پہلوؤں سے
’’عام آدمی کا قرآن کو سمجھنا‘‘ برصغیر کے اُن
مسائل میں گِنا جاتا ہے جن میں افراط اور تفریط ہے۔ دو انتہائیں یہاں کھل کر بولتی
ہیں: ایک انتہا یہ کہ بھائی جب تک اتنے درجن علوم پر دسترس نہیں رکھتے تب تک قرآن
مجید کو تلاوت کے علاوہ ہاتھ ہی مت لگاؤ، مبادا کسی گمراہی میں جا پڑو۔ دوسری جانب
یہ انتہا کہ: ہر آدمی خود قرآن پڑھے اور
ہر ہر چیز کا فیصلہ کرتا چلا جائے؛ نیز یہ کہ کسی سے بھی پڑھے قرآن تو قرآن
ہے لازماً وہ صحیح نتائج پر پہنچے گا!
پہلی انتہا کے نتیجے میں:
قرآنِ مجید متروک اور مہجور ہوگیا۔ ہدایت اور ایمان کی روزمرہ غذا کےلیے قرآن کے
’متبادل‘ چشمے دریافت ہونے اور ’نصابوں‘
کی حیثیت اختیار کرنے لگے۔
دوسری انتہا کے نتیجے میں:
قرآن سے اپنے اپنے ’اخذکردہ‘ نتائج کو
اپنانے اور پھیلانے کی ریت پڑی جو ایک بڑے انتشار کا موجب بنی۔ صرف اتنا ہی نہیں، کئی ذہین طبقے ’قرآن عام
کرنے‘ کے نام پر اپنی اپنی فکری مصنوعات بیچنے لگے۔
تو پھر نقطۂ اعتدال کہاں
ہے؟ عام آدمی قرآن نہ پڑھے؟ اور اگر پڑھے تو اس کےلیے کیا ضوابط اور حدود ہوں؟
ایقاظ وقتاً فوقتاً اِن موضوعات پر اصولِ سنت و سلف
سے خوشہ چینی کرتا ہے۔ آئیے ائمۂ متقدمین سے اِس موضوع پر ایک سبق پڑھیں۔
امام
ابن جریر طبری اپنی تفسیر کے مقدمہ میں اصولِ تفسیر کا بیان کرتے ہوئے حضرت
عبداللہ بن عباس کا قول مع سند روایت کرتے ہیں:
عن أبي الزناد، قال: قال ابن عباس: التفسيرُ على أربعةِ أوجهٍ: وجهٌ تعرفه العربُ من كلامها،
وتفسير لاَ يُعذر أحدٌ بجهالته، وتفسير يعلمه العلماء، وتفسير لاَ يعلمه إلا الله
تعالى (تفسیر ابن جریر ج 1 ص 75)
ابو الزنادؒ راوی ہیں، کہا: فرمایا عبداللہ بن عباس نے:
تفسیر چار پہلو رکھتی ہے:
1.
تفسیر کا ایک وہ پہلو ہے جسے عرب اپنی زبان (کی مدد) سے
سمجھتے ہیں۔
2.
دوسرا وہ پہلو جس سے ناواقف رہنا کسی آدمی کےلیے عذر ہو ہی
نہیں سکتا۔
3.
تیسرا وہ پہلو جس کو صرف علماء جانتے ہیں۔
4.
چوتھا وہ پہلو جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔
1۔ عربی زبان سے سمجھ آنے والا
پہلو:
ظاہر ہے
قرآن کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جسے ایک فصیح عرب سنے تو نہ صرف وہ اُس کو سمجھے گا بلکہ اُس کو سراہتا
اور اس سے معانی واسالیب کے خزانے سمیٹتا چلا جائے گا۔ یہ قرآن کا وہ پہلو ہے جس
کےلیے گہرے تفسیری نکات درکار نہیں ہوں گے؛ صرف لغت کا علم کفایت کرے گا۔ خود قرآن
نے اپنا یہ تعارف کروایا کہ یہ عربی کلام ہے۔
ہاں یہ
ضرور ہے کہ قرآن مجید ادب کا شہکار ہے۔ زبان کے جتنے علوم ہیں وہ بہرحال تفسیر کی
اِس جہت کے اندر درکار رہیں گے۔طبریؒ کہتے ہیں: اس میں لغت اور اِعراب دونوں آتے
ہیں۔ اعراب وغیرہ کے حوالے سے زرکشیؒ کہتے
ہیں: کہ اگر اس میں فرق آنے سے معنیٰ کے
اندر فرق آنے والا ہو تو تفسیر کرنے والے کے حق میں لازم ہوگا کہ وہ وہاں پر اعراب
کا علم رکھتا ہو۔ اگر معنیٰ میں فرق آنے کا اندیشہ نہ ہو تو اِعراب کا علم رکھنا ضروری نہ ہوگا۔
عام
آدمی کو جہاں اِعراب سے متعلقہ اختلافات یا دیگر لغوی بحثیں پیش آئیں وہاں وہ خود کوئی رائے اختیار کرنے سے
اجتناب کرے گا۔ ہاں جہاں ایسا کوئی اختلاف نہیں (اور جوکہ قرآنِ مجید کا ایک بہت
بڑا حصہ ہے) وہاں وہ معانی ومفہومات سے بہرہ مند ہوگا۔
2۔ قرآنِ مجید کے متواتر
مفہومات:
ابن
عباسؓ دوسری قسم یہ بیان کرتے ہیں۔ یعنی قرآن کے وہ بیانات جن میں کسی بھی قسم کا
اختلاف یا اشکال نہیں ہے اور ان کے جاننے میں کسی آدمی کو کوئی مانع یا عذر نہیں ہے۔ یہ قرآنی الفاظ کے وہ متواتر معانی
ہیں جو شروع دن سے معلوم چلے آتے ہیں اور اہل اسلام کے ہاں من وعن نقل ہوتے ہیں۔ یہ وہ مفہومات ہیں جو محض لغت کی مدد سے نہیں
بلکہ اہل اسلام کی اصطلاحات کی روشنی میں سمجھے جائیں گے، مگر اہل اسلام کی یہ
اصطلاحات اس قدر معلوم اور معروف ہیں کہ یہ مسلم معاشرے میں کسی بھی ہوشمند سے
اوجھل نہیں ہیں۔
اس کی
مثال دیتے ہوئے زرکشیؒ کہتے ہیں: جیسے توحید سے متعلقہ مقاماتِ قرآنی۔ اب مثلاً ہر شخص فاعلم أنہ لا الٰہ الا اللہ والی آیت سے
سمجھ سکتا ہے کہ یہ الاہیت میں اللہ تعالیٰ کا واحد اور یکتا ہونا ہے، اگرچہ وہ یہ نہ بھی جانتا ہو کہ لغت میں
’’لا‘‘ نفی کےلیے وضع کیا گیا ہے اور ’’إلا‘‘ اثبات کیلئے اور یہ ترکیب
حصر کا فائدہ دینے کےلیے (یعنی یہ قواعد نہ بھی جانتا ہو تو وہ اس سے توحید کا مفہوم ضرور لے لے گا، جوکہ اصل مقصود ہے)۔ نیز
کہتے ہیں: اسکی مثال شرائعِ احکام ہیں۔ یعنی
قرآن کے وہ موٹے موٹے احکام اور حلال و حرام سے متعلقہ ہدایات جن کی بابت کسی نکتہ
رسی کی ضرورت نہیں۔ مثلاً قرآن
میں ’’صلوٰۃ‘‘ کا لفظ آئے تو وہ جان لے گا کہ یہ وہ نماز ہے جو امت کو اپنے نبیؐ سے ملی ہے۔ ’’زکوٰۃ‘‘ کا لفظ آئے
تو، ’’حج‘‘ کا لفظ آئے تو اور ’’صیام‘‘ کا لفظ آئے تو، علیٰ ھٰذا
القیاس۔ نیز کہتے ہیں: أقیموا
الصلوٰۃ وآتوا الزکوٰۃَ سے اگر کوئی آدمی یہ نہ بھی سمجھے کہ امر کا
صیغہ وجوب کا فائدہ دیتا ہے یا استحباب کا، تو بھی ’’نماز‘‘ اور ’’زکات‘‘ نام کی کوئی چیز ضرور
اسکی سمجھ میں آتی ہے جو مالک کی طرف سے اس مقام پر اُس سے طلب کی جا رہی ہے۔
شیخ عمر
بازمول (استاذ علوم القرآن جامعۃ ام القریٰ مکہ مکرمہ) کہتے ہیں: یہ احکامات جو
دورِ اول سے معلوم و متواتر چلے آتے ہیں، ان کا تذکرہ جب آدمی قرآن میں پڑھتا ہے
تو اگر ان کی کوئی تفصیل وہ نہیں جانتا، درحالیکہ اُن پر عمل کرنے کی صورت اُس کو
پیش آچکی ہو (مثلاً حج وغیرہ کی استطاعت ہے)، تو چونکہ ایک چیز کے فرض ہوجانے کے
بعد اس کی عملی تفصیلات سےجاہل رہنا آدمی کے حق میں عذر نہیں رہتا، لہٰذا اس کو
لامحالہ ان تفصیلات کا علم کہیں سے لینا پڑے گا۔ گویا قرآن پڑھنے سے اُس
کو ان فرائض کی یاددہانی ہوگئی، رہی ان فرائض کی فقہی تفصیلات تو جب وہ انہیں جاننے نکلے گا تو اہل علم سے ان کا علم
لینے میں اُس کو کوئی دیر نہ لگے گی۔ نیز کہتے ہیں: خدا کی ربوبیت، الوہیت، اسماء وصفات، نبیﷺ کی
رسالت، دعوت، انسانیت سے آپؐ کا خطاب... سب اِسی صنف میں آتا ہے، یعنی قرآنِ مجید
کے معلوم و متواتر و زبان زدِ عام مفہومات جن کو نہ جاننے کے معاملے میں آدمی کا
کوئی عذر نہیں۔ ارکانِ اسلام اور ارکانِ ایمان کے علاوہ معاملاتِ بین العباد بھی
اس میں آجاتے ہیں۔
زرکشیؒ اس کی ایک اور مثال
بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ ایک عام آدمی جب خدا کا یہ کلام سنے گا: }وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا
فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ. أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ
الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ
لَا يشعرون ’’اور جب ان سے
کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار ہو! یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں، لیکن
شعور (سمجھ)
نہیں رکھتے‘‘{۔ تو اُس
پر کم از کم یہ اوجھل نہیں رہے گا کہ کسی خراب کاری اور مضرت رسانی سے روکنے کی
بات ہورہی ہےاور یہ کہ اصلاح کوئی نفع رسانی ہے جو خدا کے کلام میں سراہی جا رہی ہے، اگرچہ اُس پر وہ خصوصی معانی
نہ بھی واضح ہوں جو کلامِ خداوندی میں
’’فساد‘‘ یا ’’اصلاح‘‘ کے تحت مقصود ہیں اور جوکہ علماء کو ہی معلوم ہوں گے۔
شیخ
مساعد طیار (استاذ تفسیر جامعۃ الملک سعود، ریاض) کہتے ہیں: قرآن کی اِس قسم میں
فرائض، محرمات، اصولِ عقائد اور اصولِ
اخلاق سب آجاتے ہیں۔ نیز کہتے ہیں: ہو نہیں سکتا کہ قرآن پڑھتے ہوئے امانت، سچائی،
انصاف، عفت، پاکدامنی ایسے اعلیٰ اسباق آدمی کو نہ ملیں اور رذائل، بےحیائی،
گھٹیاپن، ظلم اور جھوٹ وغیرہ سے آدمی کے دل میں دوری پیدا نہ ہو۔ یہ سب اشیاء آدمی کو تفسیرِ قرآن سے سیکھنی
چاہئیں۔
یعنی اپنے
فرائض کا تذکرہ براہِ راست اللہ کے کلام میں پڑھنے کا نفس پر جو اثر ہوتا ہے وہ ان
احکامات کو بالواسطہ (کسی ’لٹریچر‘ یا ’نصاب‘ سے) سننے اور پڑھنے میں نہیں۔
ابن
تیمیہؒ کہتے ہیں: امت کا عام طبقہ شروع دن سے قرآن مجید کے ظاہر ومتواتر معانی سے واقف چلا آتاہے اور اس میں امت کے عوام کو (قرآنِ مجید سمجھنے کےلیے) ان
’مقدمات‘ کی ضرورت نہیں جو بدعتی فرقے لوگوں کو دیتے ہیں (بیان تلبیس الجھمیۃ ج 8 ص 474)۔
چنانچہ
آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایک کلامی وبدعتی فرقے اپنے پاس قرآنِ مجید کے خصوصی ’گائڈ و ٹیسٹ پیپر‘ رکھتے
ہیں جن کی مدد سے لوگوں کو قرآنِ مجید ’سمجھنے‘ کی ترغیب دی جاتی ہے؛ جس کے بعد قرآنِ مجید سے لوگوں پر ایسے ایسے معانی اور
ایسےایسے مسائل منکشف ہوتے ہیں نیز قرآن کے ایسے ایسے معروف established ، زبان زدِ عام recognized اور متواتر successive
مفہومات
’فرسودہ‘ قرار پاتے ہیں گویا اِن گائڈوں کے آنے سے پہلے قرآنِ مجید سمجھا ہی نہیں گیا تھا (بلکہ
غلط سمجھا جاتا رہا تھا)! یعنی دعویٰ ’’قرآن‘‘ پر محنت کرانے کا، مگر گائڈیں اور
فارمولے جماعتوں کے اپنےاپنے! یوں قرآن
کے اندر بھی یہ اپنی ہی اشیاء پڑھا رہے ہوتے ہیں! ادھر ابن عباس سے لے کر آج تک کے علمائے سنت بتا رہے ہیں کہ قرآن مجید کا یہ وہ
حصہ ہے جو صرف اپنے الفاظ و کلمات میں نہیں اپنے مفہوم اور معانی میں بھی امت کے
ہاں معلوم و متواتر چلا آیا ہے اور کسی ’نکتہ رسی‘ کے بغیر ایک عامی کو سمجھ آنے والا ہے۔ (قرآنِ
مجید کا ’’مبین‘‘ ہونا بھی اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کو یہ گائڈیں اور
فارمولے لگانے کی ضرورت نہ ہو، خصوصاً اِن آخری صدیوں میں جاکر تیار ہونے والے
فارمولے!)۔
3۔ تفسیر کا وہ پہلو جو علماء
کے ساتھ خاص ہے:
یہ قرآن
کے وہ مقامات ہیں جو استنباط اور استدلال سے متعلق ہیں۔ غیر عالم یہاں پر کوئی رائے اختیار نہیں کرے گا
بلکہ علماء سے رجوع رکھے گا۔ زرکشیؒ کہتے ہیں: مثلاً قرآن کے مجمل حصوں کا بیان۔
یا عموم کی تخصیص۔ یا محتمل معانی میں سے
متعلقہ معانی کا تعین۔ یا مطلق کو مقید پر محمول کرنا، یا مُحکم اورمتشابہ کا فرق کرنا
(اور متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانا) وغیرہ۔ ابن عثیمین کہتے ہیں: نیز قرآن کے ناسخ
و منسوخ۔
علوم القرآن کی تقریباً سبھی
کتب بیان کرتی ہیں کہ حضرت علی نے ایک قصہ گو کو مجمع لگائے دیکھا تو پوچھا: کیا تم ناسخ
اور منسوخ کا علم رکھتے ہو؟ اُس کا جواب نفی میں تھا۔ تب حضرت علیؓ نے فرمایا: تم خود بھی ہلاکت میں پڑے اور
دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔
حضرت
علی کے اس قول کے حوالے سے بعض اہل علم نے نقطہ اٹھایا کہ ایک واعظ یا قصہ گو کے
حق میں معاملہ اگر اس قدر سنجیدہ ہے تو قرآنِ مجید کی تفسیر کرنے والے کے حق میں
تو معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہوگا۔
’’ناسخ
اور منسوخ‘‘ کے حوالے سے البتہ واضح رہے... کہ اس سے حضرت علیؓ کی مراد شریعت کے
صرف وہ احکام نہیں جو بعد میں نازل ہونے والے احکامات کے ہاتھوں کلیتاً ختم کر دیے
گئے، جیسے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا نسخ۔ کیونکہ اِس انداز کے نسخ تو دین میں واقعتاً
گنے چنے ہیں اور ایک عامی بھی شاید یہ دعویٰ کرلے کہ ناسخ و منسوخ کا علم تو میں بھی رکھتا ہوں! پچھلے حکم کو کلیتاً ختم کرکے اس کی
جگہ نیا حکم لانا ’’ناسخ و منسوخ‘‘ کے حوالے سے دراصل متاخرین کی اصطلاح ہے۔ متقدمین کے ہاں ’’نسخ‘‘ ہر اُس پیشرفت development پر بولا جاتا رہا ہے جو بعد
کی وحی پچھلی وحی کے اندر کردیتی رہی اور جوکہ قرآن اور سنت میں بہت زیادہ ہے۔
چنانچہ متقدمین کے ہاں ایک عام کی تخصیص، ایک مطلق کی تقیید اور ایک مجمل کا بیان
وغیرہ سب ’’نسخ‘‘ کے تحت ذکر ہوتا ہے اور اِس لحاظ سے حضرت علی کا یہ قول قرآن کا
عالم ہونے کے حوالے سے بےحد جامع ہے۔
زرکشیؒ
کہتے ہیں: ابن عباسؓ کی بیان کردہ پہلی اور تیسری قسم ہی تفسیر کا وہ میدان ہے جس
پر اس وعید کا اطلاق ہوگا کہ مَنْ تَكَلَّمَ فِي
الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ’’جو شخص بغیر
علم کے قرآن کی تفسیر میں رائے زنی کرے
گا، تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘۔
ابن
تیمیہؒ کہتے ہیں: یہ قرآنِ مجید کے وہ بیانات ہیں جن کے معانی کےلیے خالی لغت سے
رجوع نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ شرعی کلمات ہیں؛ ان کے معانی علمائے شریعت سے لیے
جائیں گے(الرد
على المنطقیین ص 54)۔
شیخ
مساعد کہتے ہیں: تفسیر کی اِس قسم میں بنیادی طور پر دو اشیاء آتی ہیں:
1.
ایک: قرآن مجید کے وہ حصے جو عام آدمی کےلیے اشکال رکھتے
ہیں۔ اسی میں متشابہ
نِسبی relatively
obscureبھی آجاتا ہے۔ متشابہ نِسبی سے مراد
ہے قرآن کے وہ مقامات جو کسی ایک عالم
کےلیے غیرواضح ہوں تو کسی دوسرے عالم کےلیے واضح۔ یعنی جن میں ایک چھوٹا عالم تک
ضرورتمند ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑے عالم سے رجوع کرے نہ کہ اپنے اندازے سے ہی اشکالات
رفع کرتا پھرے۔
2.
دوسرا: فروعِ احکام۔ یعنی نماز، روزہ، حج، جہاد، نکاح، طلاق، تجارت
وغیرہ ایسے احکام سے متعلق وہ تفصیلات جو علماء ہی قرآن سے استنباط کرکے دے سکتے
ہیں۔ اور جن کو جاننا فرضِ کفایہ ہے نہ کہ فرضِ عین؛ یعنی علماء ان مسائل میں تخصص
حاصل کرلیں تو پوری امت کے سر سے یہ فرض اتر جاتا ہے اور عامۃ الناس ان مسائل میں
بوقت ضرورت علماء سے ہی رجوع کریں گے۔
تفسیرِ
قرآن کا یہ پہلو اگر واضح ہوگیا ہے؛ خصوصاً یہ بات کہ عامی کو اس باب میں علمائے
شریعت سے ہی رجوع کرنا ہے نہ کہ خود کوئی آراء
اختیار کرنی ہیں... تو پھر یہ واضح رہنا بھی نہایت ضروری ہے کہ: وہ علماء جن سے وہ
اِس باب میں رجوع کرے گا علمائے سنت ہونے چاہئیں نہ کہ اصحابِ بدعت۔ یہ خیال کہ
قرآن تو قرآن ہے خواہ وہ جس سے بھی سمجھ لیا جائے، اور یہ کہ قرآن حدیث کی روشنی
میں عامی ہر کسی کی بات کو چیک کرسکتا ہے؛ پھر جس کی دلیل اس کو قوی نظر آئے ’قرآن وحدیث‘
کی مدد سے جانچ کر وہ اس کو اختیار کرسکتا ہے... خاصا گمراہ کن ہے۔ جو چیز صرف
علماء ہی کے سمجھنے کی ہے اُس میں ایک عامی
صحیح اور غلط کے فیصلے بھلا کیسے کرسکتا ہے؟ اِس باب میں تو عامی پیروکار ہوگا؛
خواہ اہل بدعت کا پیروکار بن جائے یا اہلِ سنت کا؛ تیسری کوئی صورت نہیں۔ لہٰذا
یہاں اگر اہلِ اھواء کا دامن تھاما جائے گا تو قرآن فہمی کے نام پر آپ کے ہاں اھواء
اور انحرافات ہی پلیں گے۔ اور اگر قرآن سمجھنے کےلیے ٹھیٹ علمائے سنت کا دامن پکڑا
جائے گا تو قرآنِ مجید کے وہ معانی ملیں گے جو متبعینِ صحابہ کے ہاں مسلّم مانے جاتے
ہیں۔
4۔ تفسیر جو صرف خدا کو معلوم
ہے:
اسکی مثال دیتے ہوئے ابن تیمیہؒ کہتے ہیں: جیسے قیامت
کی گھڑی کا علم۔ صفاتِ خداوندی کی کیفیت۔
جنت اور دوزخ کا حال۔ وغیرہ۔ یہاں
ابن تیمیہ ایک نہایت اہم مبحث بیان کرتے ہیں:
قرآن کے
اِن حقائق کا صرف خدا کو معلوم ہونا یہ مطلب بہرحال نہیں رکھتا کہ ان میں ہمارے
سمجھنے کےلیے کچھ نہیں۔ جب قرآن کے یہ مقامات ہماری ہدایت کےلیے اترے ہیں تو اس کے بعض پہلو لازماً ایسے ہیں جو ہماری سمجھ
میں آنے کے ہیں۔ مثلاً جنت ودوزخ کا ذکر، یا قیامت کی گھڑی کا ذکر وہ اشیاء ہیں جو ہمارے رونگٹے کھڑے
کردیں، باوجود اس کے کہ ان کی اصل حقیقت خدا کو معلوم ہے۔ پس ان مقامات سے جو
چیزیں ہمارے سمجھنے کی ہیں ان پر ہمیں تدبر
کرنا ہے اور جو چیزیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں ان کو خدا کے علم کی طرف پھیرنا
ہے۔ چنانچہ یہاں پر ابن تیمیہؒ دو
آیات’ {أَفَلَا
يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ’’کیا یہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا دلوں پر ان کے قفل
چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘} اور {أَفَلَمْ
يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ ’’تو کیا انہوں
نے ہمارے اس کلام پر غور نہیں کیا‘‘} ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: تدبر اور غور کرنے کے حوالے سے یہاں پورے قرآن کا ذکر ہے نہ کہ قرآن کے
بعض حصے کا۔ (یعنی قرآن کی بیان کردہ حقیقتیں بعض پہلوؤں سے صرف خدا کے علم
میں ہیں تو بھی ان میں ہمارے غور کرنے کےلیے بہت کچھ ہے)۔ اس کے بعد ابن تیمیہ وہ مبحث بیان کرتے ہیں کہ
قرآن کا کوئی مقام ایسا نہیں جس سے علم اور عمل برآمد نہ ہوتا ہو۔ (اعضاء و جوارح کا عمل نہ ہو تو بھی قلوب کا
عمل ضرور ہوگا)۔ اور اِس حوالہ سے سلف میں معروف منہج بیان کرتے ہیں: وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِي: حَدَّثَنَا الَّذِينَ
كَانُوا يُقْرَءُونَنَا الْقُرْآنَ عُثْمَانُ بْنُ عفان وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ
مَسْعُودٍ وَغَيْرُهُمَا أَنَّهُمْ كَانُوا إذَا تَعَلَّمُوا مِنْ النَّبِيِّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ آيَاتٍ لَمْ يَتَجَاوَزُوهَا حَتَّى
يَتَعَلَّمُوا مَا فِيهَا مِنْ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ. قَالُوا: فَتَعَلَّمْنَا
الْقُرْآنَ وَالْعِلْمَ وَالْعَمَلَ جَمِيعًا ’’ابو عبد الرحمٰن سُلَمی کہتے ہیں: بیان کیا ہم سے
اُن لوگوں نے جو ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے، یعنی عثمان بن عفانؓ اور عبداللہ بن
مسعودؓ ودیگر اصحابؓ نے کہ: وہ جب بھی نبیﷺ سے قرآن کا سبق لیتے دس آیتوں سے آگے
نہ بڑھتے جب تک ان دس آیات میں جو جو علم اور عمل ہے وہ سیکھ نہ لیں۔ اصحابؓ نے کہا:
یوں ہم نے قرآن سیکھتے ہوئے علم اور عمل ایک ساتھ سیکھا‘‘۔ (مجموع
فتاویٰ ابن تیمیہ ج 5 ص 37)
علماء
کہتے ہیں: سب غیبیات اسی قسم میں آجاتی ہیں، خواہ وہ فرشتوں کی حقیقت ہو، یا روح
کی، یا نزولِ عیسیٰؑ یا خروجِ دابہ کی، یا
خدا کے عرش پر استواء فرمانے کی (بلحاظِ کیفیت)۔ وغیرہ۔ اِس حوالہ سے عبداللہ بن عباس کا قول مشہور ہے کہ دنیا اور
آخرت کی چیزیں اس قدر مختلف ہیں کہ
ان میں صرف لفظی اشتراک ہے (یعنی آخرت کی اشیاء کےلیے الفاظ دنیا والے استعمال
ہوگئے ہیں ورنہ ان کے تحت بیان ہونے والی حقیقتیں بےحد مختلف ہیں) قرآن کی یہ آیت
اس تفسیری صنف پر چسپاں ہوتی ہے: فَأَمَّا الَّذِينَ فِي
قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ
وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ (آل عمران: 7)
’’رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے تو وہ قرآن کے متشابہات کے پیچھے جاتے ہیں
تاکہ فتنہ برپا کریں اور مرادِ اصلی کا پتہ کریں۔ اور نہیں جانتا اس کے مرادِ اصلی
کو کوئی سوائے اللہ کے‘‘۔
خلاصۂ کلام:
1.
قرآن کے کچھ مطالب ایسے ہیں جو عربی زبان سے متعلق ہیں۔
قرآن کے یہ مطالب کسی حد تک غیر عرب لوگوں کےلیے بھی ترجمہ وغیرہ کی صورت بیان
ہوسکتے ہیں۔ یہاں پر لغت سے متعلق کوئی ایسی بحثیں ہوں جن کےلیے آدمی کا عالمِ لغت
وماہرِ بلاغت ہونا ضروری ہو تو عامی کا کام ہے کہ یہاں سے وہ خاموشی کے ساتھ گزر
جائے اور ’اظہارِ رائے‘ یا ’اختلافات کا فیصلہ‘ کرنے کا زعم نہ رکھے۔ علمائے تفسیر ہی بالعموم علمائے لغت بھی ہوتے
ہیں، نیز متقدمین کی تفاسیر نے لغوی پہلوؤں سے بھی خوب عقدہ کشائی کی ہے۔ حسبِ
ضرورت آدمی انہی سے رجوع کرے۔ البتہ غیر علماء کی ایک بڑی تعداد تفاسیر میں بیان
ہونے والے ان لغوی مباحث کو پوری طرح سمجھنے اور ان سے نتائج اخذ کرتے ہوئے کسی
’فیصلہ‘ پر پہنچنے کی صلاحیت سے قاصر ہوتی ہے۔ لہٰذا لغت کی اِن باریکیوں میں پڑنا
عامۃ الناس کا کام نہیں۔ بلکہ لغت کے حوالے سے وہ موٹا مفہوم جو کچھ صحیح العقیدہ
علمائے لغت یا علمائے عقیدہ نے بیان کردیا ہو، یا اردو دان آدمی کےلیے کسی صحیح العقیدہ شخص کے کیے ہوئے
ترجمۂ قرآن ہی سے اگر رجوع کرلیا جائے تو عامی کےلیے کافی ہے۔ اس کا کام ہے کہ بس
وہ اسی پر خوب غور وفکر کرے اور یہاں سے اپنے علم و عمل کےلیے غذا فراہم کرے۔ خود ترجمہ کرنا سیکھے تو نہایت خوب ہے تاکہ نماز
میں وہ کلامِ خداوندی سے بہرہ مند ہو۔
عامی کے حق میں البتہ یہ سخت نقصان دہ ہے کہ وہ عربی کے
حوالے سے کسی ایسے ماہر لغت سے رجوع کر بیٹھے جو کسی بدعت کو پھیلانے کے مشن پر
ہو۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ لغت کے حوالے سے بھی اہل بدعت کے بڑےبڑے دماغوں نے کچھ نہایت
عظیم تاریخی وارداتیں کر رکھی ہیں؛ لہٰذا عامی کو چاہئے کہ وہ کبھی ان کی ’لغت
دانی‘ کے چکمہ میں نہ آئے۔ یہ یقین رکھے کہ صحابۂ کرام افصح العرب تھے اور ان کے مدرسہ کے پابند علمائے
تفسیر بھی کوئی لغت سے نابلد نہیں بلکہ لغت کے شہسوار تھے۔ علماء تو ان (بدعت کے
داعی مدعیانِ علم لغت) کے کھوٹے اور کھرے کی تفریق کرسکتے ہیں لیکن عامی اگر یہ
سمجھے کہ میں تو ان (داعیانِ بدعت) سے صرف لغوی امور میں رجوع کر رہا ہوں تو
احتمال ہے کہ وہ اُنہی کے ساتھ کسی گڑھے میں جا گرے۔
2.
قرآنِ مجید کا بہت بڑا حصہ وہ ہے جو معانی اور مفہومات کے
حوالے سے نہایت سادہ اور واضح ہے۔ اس
میں جو کوئی دقیق باتیں ہیں وہ امت کے علماء اور فقہاء پر چھوڑ دی جائیں گی البتہ
قرآن کے وہ سادہ مطالب جو ہر سننے اور پڑھنے والے کو سمجھ آتے ہیں وہ تمام انسانیت
کو خطاب کرنے والے ہیں۔ ان سے
ایمان اور ہدایت کی خوراک لینا ہر شخص پر فرض ہوگا۔ عامی یہاں ’’علمی و
فقہی و عقائدی استنباطات‘‘ نہیں کرے گا، اور نہ ان موضوعات پر اپنی ’تحقیق‘ کو درخورِ اعتناء جانے گا، نہ اس بنیاد
پر علماء، فقہا اور ائمۂ سنت کی غلطیاں درست کرتا پھرے گا، البتہ وہ اپنی اس قرآنی محنت کو ’’خدا کو
پانے‘‘، ’’توحید کو سمجھنے‘‘،
’’زندگی کا مقصد جاننے اور اس کو ہردم قلب و ذہن کے اندر تازہ رکھنے‘‘، ’’کتابوں اور رسولوں کی غرض و غایت جاننے‘‘، ’’آخرت سے جڑنے‘‘،
’’حرام کاموں کی شناعت محسوس کرنے‘‘
اور ’’نیکی و راستبازی‘‘ ایسے اسباق کو ذہن نشین کرنے کا ذریعہ بنائے گا۔
3.
قرآنِ مجید کا وہ بیان جس کی توضیح پر اہل سنت و اہل بدعت
کے مابین تنازعہ پایا جائے، لازماً علمائے اہل سنت سے ہی سمجھا جائے گا کیونکہ یہی
نبیﷺ اور صحابہ کے وارث ہیں۔ یعنی ’’راسخون فی العلم‘‘ ہیں۔ جبکہ اہل بدعت متشابہات کا پیچھا کرنے
والےاور مدرسۂ نبوت سے انحراف کرنے والے۔
4.
قرآنِ مجید کا وہ بیان جس کو سمجھنے اور استنباط کرنے میں
خود ائمۂ سنت کے ہاں تعددِ آراء پایا گیا، اسکا وہ حصہ جو آدمی کے علم وعمل کی
ضرورت ہے عامی کو وہ لینا تو ہے، مگر
اس کیلئے
وہ ائمۂ سنت میں سے کسی بھی عالم یا مدرسہ کی راہنمائی لے گا، بغیر اسکے کہ اس سے
مختلف رائے رکھنے والے ایک اہل سنت عالم یا مدرسہ کو منحرف یا گمراہ سمجھے۔
قصہ کوتاہ:
ý
قرآنِ مجید میں یا تو کچھ لغوی دقائق ہوں گے، یہ عامی کے
سلجھانے کے نہیں؛ اِن میں وہ علمائے لغت (جو کسی بدعت کے
علمبردار نہ ہوں) یا پھر تراجم سے رجوع کرے گا۔
ý
یا کچھ ایسے دقائق ہوں گے جو علمی استدلالات اورفقہی استنباطات سے متعلق ہوں،
عامی ان کو علمائے شریعت کی طرف لوٹائے گا۔
ý
یا کچھ ایسے امور جن کا
علم صرف خدا کے پاس ہے، یہ خدا پر چھوڑنا ہوں گے۔
ý
اِن تین اصناف کے علاوہ باقی سب کچھ عامی کے سمجھنے کا ہے؛
اسے چاہئے وہ اسے اپنا صبح شام کا
دسترخوان بنائے۔ یہ قرآن کے معلوم و متواتر مفہومات ہیں؛ انکے اندر کسی قسم کا
اشکال فرض کرنا، یہاں قرآنی
الفاظ کو کوئی ’خصوصی‘ مفہوم پہنانا اور پھر اسکے حلِ رموز کیلئے ’گائڈیں اور
فارمولے‘ رائج کرنا اہل بدعت کا کام ہے۔ قرآنی کلمات و تعبیرات شروع دن سے چلے آنے والے
اپنے سادہ مفہوم پر ہی باقی رکھے جائیں گے۔