حدیثِ
نبوی
’’غصہ مت کرو‘‘
اردو استفادہ: مریم عزیز
Maryam.aziz@eeqaz.org
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ
لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي، قَالَ: «لاَ تَغْضَبْ»
فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: «لاَ تَغْضَبْ»
(صحیح البخاری
کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب)
صحیح البخاری؛ ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے
رسول اللہ ﷺ سےعرض کیا :"مجھے نصیحت فرمائیے"۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا
:"غصّہ مت کرو"۔اس شخص نے جتنی بار پوچھا آپﷺ نے ہر باریہی نصیحت کی۔
[حتی کہ اس شخص کو سمجھ آگئی]
اس حدیث
کی اہمیت:
گو یہ نصیحت بہت مختصر ہے
مگراسکی اہمیت کا راز اس کے انتہائی جامع ہونے میں مضمر ہے۔النووی کے مطابق ابو
محمدعبداللہ بن ابی زید کہتے ہیں کہ"عمدہ اخلاق کے تمام اوصاف چار احادیث میں
بیان ہوئے ہیں..."اور ان چار احادیث میں اس حدیث کا تذکرہ کیا جس میں رسول
اللہﷺ نے پوچھنے والے ایک شخص کو مسلسل یہی ہدایت کی کہ غصّہ مت کیا کرو۔
یہ نصیحت کہنے کو بہت سادہ مگر
بہت گہرے معنی رکھتی ہے۔ اولا اپنی تاکید کو محض غصّےکو قابومیں رکھنے تک محدود
کرکے رسول اللہ ﷺ نے انسان کی وسیع تر دنیاوی اور اُخروی فلاح کی ہدایت کردی۔
ابن حجراس حدیث کے بارے میں
لکھتے ہیں: "سوال پوچھنے والے شخص نے اس امید کے ساتھ اپنا سوال بار بار
دہرایا کہ کوئی تفصیلی اور عمومی طرز کا کوئی اور مفید ترجواب حاصل ہو جائے مگر آپ
ﷺ اسےمسلسل یہی نصیحت کرتے رہے۔" {فتح الباری}
دوسرا،اس نصیحت میں غصّے کی
صریح اور قطعی ممانعت سےبےشماراسباق اخذ کیےجاسکتے ہیں۔ مثلا یہ کہ ہم اپنے آپ کو
غصّے میں آنے سے ہی روکا کریں،اور یہ کہ دوسرے صورت میں غصّے کو خود پر حاوی ہونے
سے روکیں۔
غصّےکا
جذبہ:
غصّہ ایک انتہائی طاقتور جذبہ
ہے۔یہ اس جذبے سے مغلوب انسان کی رگوں میں ایک بپھرے ہوئے شیر کی طرح دوڑتا پھرتا
ہے جو کہ سامنے والے شخص کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جوکچھ
کر گزرنے کے جوش میں ہوتا ہے،اور جوکچھ یہ کروانا چاہتا ہےوہ ہمیشہ ہلاکت وبربادی کا
نسخہ ہوتا ہے۔غیظ وغضب ایک انسان کے اندر سےضبط نفس، رحم، شفقت اور محبت جیسے نفیس
جذبات کوختم کرڈالتا ہے۔
اسی وجہ سے غصّہ انتہائی خطرناک
جذبہ ہے، جواگر قابومیں نہ رکھا جائےتو انسان سے بدترین اعمال سرزد کرواتاہےجن کے
نتائج نہایت گھمبیر ہوتے ہیں۔
غصّے سے
بچاؤ کی تدابیر:
دیکھا جائے تو ایک طرح سے نبی
اکرم ﷺ کی یہ نصیحت ہمیں صریح طور پر غصّے جیسا کوئی جذبہ محسوس کرنے سے ہی بالکل
منع کررہی ہے۔تاہم یہ اس کا مقصود نہیں کیونکہ غصّہ محسوس ہی نہ کرنا ایک ناممکن
سی بات ہے۔ غصّہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس سے قطعی اجتناب کسی انسان کے بس کی بات
نہیں۔
اگرچہ اس حدیث کا حکم غصّے کو
محسوس نہ کرنے کا نہیں ہے مگر اس میں حتی الامکان غصّے سے بچنے کی پرزور تاکید
ضرور ہے۔ بلاشبہ کئی ایسے اقدامات موجود ہیں جن کی بدولت انسان غصّے میں آنے سے
بچا رہ سکتا ہے؛
اول تووہ اپنےآپ کو ٹھنڈا مزاج
رکھنے کی عادت ڈال سکتاہے۔ جب انسان اپنے مزاج کو پُرسکون اور ٹھنڈا رکھنے کا عادی
ہوجائے تو کسی ناگوار صورتحال پیش آنے پر یاتواسےغصّہ نہیں آئے گا،اگر بالفرض آبھی
گیا تواپنا آپ کنٹرول میں رکھنا آسان ہوگا۔
ایک اور طریقہ کار یہ ہے کہ
آدمی معلوم کرے کن کن وجوہات کی بنا پر اس کو غصّہ آتا ہے اور ان تمام وجوہات کا
تدارک کرکے اپنی روزمرہ زندگی سے نکال باہر کرے۔
غصّے کی چند بڑی وجوہات میں
غروراورتکبر شامل ہیں۔ کیونکہ ایک مغرور انسان بہت جلد مشتعل ہوجاتا ہےاور کسی قسم
کی تنقید کو برداشت نہیں کرپاتا۔
غصّے کی ایک اور وجہ بحث کرنے
کی عادت ہے۔ جودوسروں سے جنتا بحث وتکرار کا عادی ہوگا، اتنا ہی کسی سچائی کوقبول
کرنے سے عاری۔ ایسے شخص کے تمام تر دلائل صرف اور صرف اپنے نظریات کو انتہائی
جذباتیت کے ساتھ ثابت کرنے پر صرف ہوں گے۔ چنانچہ ایک مسلمان کیلئےان تمام بدعادات
سے مکمل طور پر بچ کر رہنا انتہائی ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے ہی وہ غصّے میں آنے سے
بچا رہے گا۔
غصّے میں
ضبطِ نفس:
اس حدیث میں ایک اور ہدایت بھی
واضح ہے کہ غصّے میں آجانے کے باوجود بھی اس پرعمل نہ کیا جائے۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ یہاں رسول اللہ ﷺ کی کم از کم ھدایت یہی ہے کہ غصّے میں اپنا ضبطِ نفس
قائم رکھا جائے۔ اتنا ہم پر فرض ضروربنتا ہے۔
یہی مفہوم دوسرے کئی احکامات
میں بھی ملتا ہے۔ جن میں کچھ آیات ایسے لوگوں کی تعریف پر مبنی ہیں جو غصّے کی
حالت میں خود پر قابو رکھتے ہیں۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غصّہ
محسوس کرنا بجائے خود گناہ یا ملامت کا مستحق عمل نہیں ہے۔ بلکہ غصّے کی حالت میں
ہونے کے باوجود جو شخص مناسب برتاو جاری رکھتا ہے تو وہ خدا کی تحسین وتعریف کا
مستحق بن جاتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے متقین کو
غصّے کو دبانے والوں کے طور پربیان فرمایا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ
عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ
يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ
وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل
عمران۱۳۳،۱۳۴)
" اپنے
پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے اور
جو (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال
خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں
اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے۔"
فَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ
الدُّنْيَا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى
رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ
وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوری
۳۶،۳۷)
اور جو
کچھ خدا کے ہاں ہے وہ بہتر اور قائم رہنے والا ہے (یعنی) ان لوگوں کے لئے جو ایمان
لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی
کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں"۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے۔ بلکہ طاقتور وہ شخص ہےجو غصّے کی حالت
میں خود پر قابو رکھ سکے۔" (صحيحين)
ہمیں غصّہ آجانے کی صورت میں
اللہ کی پناہ مانگنی چاہیئے۔ ایک مرتبہ دو آدمی رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں جھگڑنے
لگے۔ دونوں اس قدرغصّے میں آگئے کہ ان کے چہرے لال ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"مجھے وہ لفظ معلوم ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک اس کو کہے تو اس کا غیظ
وغضب چلا جائے۔ اگر وہ کہہ دے اعوذباللہ من الشیطان الرجیم۔" (صحیحين)
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ بھی
نصیحت فرمائی کہ اگر ہم غصّے کی حالت میں ہوں تو کچھ کہنے سے اجتناب کریں۔ فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی غصّے میں آجائے تو اسے چاہیئے کہ وہ خاموش رہے۔" (مسند
احمد)
اللہ کے نبی ﷺ نے ہمیں ایک اور
پریکٹیکل بات بھی بتائی، فرمایا: "اگر تم میں سے کوئی غصّےمیں آجائے اور وہ
کھڑا ہوا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بیٹھ جائے حتی کہ اس کا غصّہ اُتر جائے۔اگر اِس
سے بھی اس کا غصّہ نہ اُترے تو اُسے چاہیئے کہ وہ لیٹ جائے۔" (سنن
ابی داود)
آپ ﷺ نےیہ بھی فرمایا:
"غصّہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا تھا۔ پانی آگ کو
بجھاتا ہے چنانچہ تم میں سے کوئی غصّہ میں آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ وضو کرے۔" (سنن ابی داود، مسند احمد)
غصّہ جوحق پر ہے:
یہاں پر یہ بتانا ضروری ہےکہ
غصّےکی ہر قسم گناہ شمارنہیں ہوتی۔ وہ غصّہ جوانسان کی ذاتی تسکین کےلیے ہوتا ہے
بلاشبہ قابل ملامت ہے۔ تاہم غصّہ اللہ سبحانہ وتعالی اوراُس کے دین کےلئےبھی
ہوسکتا ہے۔مسلمان کو تب غصّہ ضرور محسوس کرنا چاہیئےجب وہ دیکھے کہ اس کے دین پر
حملہ کیا جارہا ہے یا اس کے عقائد کی توہین کی جارہی ہویا پھر لوگوں کی جان ومال
پر ظلم ڈھایا جارہا ہو۔ ایسا غصّہ جو کہ واقعی میں صرف اللہ تعالی کے واسطے ہوگا،
ہم سے نیک کام ہی انجام دلوائے گا۔ ہم سے ہر طرح کی قربانی دلوائے گا اور کبھی بھی
ناانصافی اور ظلم نہیں کروائے گا۔
صحابہ کرام اجمعین بیان کرتے
ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کسی بھی چیز پر غصّے کا اظہارنہیں کیا کرتے تھے۔ ہاں
اگراللہ کے حدود کو پامال کیا جاتا تو پھر کوئی چیزآپ ﷺ کے غصّے کو نہیں روک سکتی
تھی۔ (صحيحين)
رسول اللہ ﷺ نے کبھی ذاتی بدلے
کی خاطرغصّے کا اظہار نہیں کیا۔ حتی کہ اپنے خدمتگار اور اپنے اہل خانہ سےکبھی
اونچی آواز میں بھی بات نہیں کی۔ انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی دس سال خدمت کے
دوران آپﷺ نےکبھی "اُف" تک نہیں کہا۔ نہ کبھی یہ کہا کہ "ایسا کیوں
کیا" اور نہ ہی کبھی کسی بھول پر یہ جتایا کہ "ایسا کیوں نہیں
کیا"۔ (صحيحين)
صحابہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ تنہائی
میں رہنے والی کنواری دوشیزہ سے بھی ذیادہ حیادار تھے۔ اگر کبھی ان کو کچھ پسند نہ
آتاتو ان کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہوجاتا۔ (صحیح البخاری)
اللہ ہم سب کو کاظمین الغیظ
والعافین عن الناس میں سے بنا دےکہ جب جہلاءان سےمخاطب ہوں، تو وه پروقار خاموشی
سے جھگڑےکو ٹال دیا کریں۔ اللہ تعالی ہمارے تمام اعمال کو اپنے لئے خالص فرمادے
آمین۔
http://en.islamtoday.net/artshow-427-3220.htm