السلام علیکم و رحمۃ اللہ و
برکاتہٗ
قارئین کرام !مسلم دنیا اس وقت
مصائب وآلام کی جن تند و تیز لہروں میں ہچکولے کھا رہی ہے، جو مٹھی بھر ناخدا ہیں
، زمینی خداؤں نے ان پر عرصۂ حیات تنگ کر کے اپنی بدبختی پر مہر تصدیق
ثبت کر دی ہے۔ ملتِ کفر بھوکے بھیڑیوں کی طرح
امت محمد کے لقمے کیے جا رہی ہے۔گزشتہ چند عشروں سے، خون مسلم کی ارزانی کا
یہ عالم ہے گویا راویِ تاریخ کو لہو کے انہی قطروں کا سہارا لینا پڑے گا جن کا تقدس
حرمت کعبہ سے کچھ کم نہیں، کہ بربریت و
سفاکی کی اس المناک داستان کاصحیح نقشہ کھینچنے کےلئےقلم کی
روشنائی تو شاید انصاف ہی نہ کر پائے۔ارض شام جس کی فضائیں کبھی یاسمین کی مہک سے
معطر ہوتی تھیں، آج بلاامتیاز کلمہ گو بچوں اور بڑوں کے لاشوں کے ڈھیر اور بارود
کی بو سے معفن ہو چکی ہے۔ وسطی افریقہ میں وہ وہ انسانیت سوزتعذیبی حربے کہ یہاں
صلیبی جھنڈے لہرانے والوں کے آگے درندے بھی شرما جائیں ۔اراکان میں اجتماعی قتل و
غارت، کریمیا میں روس کی داداگیری ، عراق میں اہل السنۃ کی پکڑ دھکڑ، یمن میں
زندانوں کو صالح العقیدہ نوجوانوں اور اصحاب علم سے 'آباد'کرنے کی ریت ، دور حاضر
کے فراعنۂ مصر جو نام نہاد انصاف کے نام پر دس منٹ 'کیس' کی سماعت کر کے ۵۲۹معصوم انسانوں کے نام موت کا
پروانہ جاری کر کے داد طلب نگاہوں سے امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں۔
ومانقموا منھم الا ان یومنوا
باللہ العزیز الحمید
ایک گلوبل وار ہے جس میں ایک
جانب تمامتر توجہ مسلم شناخت کو مسخ اور شعائر اسلام کی تضحیک کرنے میں صرف ہو رہی ہےتو دوسری جانب القردۃ
والخنازیر کی نسلیں اپنے ازلی
فطری مکر سے مجبور۔اقصی کو منہدم کر کے ہیکل سلیمانی کو کھڑا کرنے کا ناپاک منصوبہ
ایک لاوا کی مانند عرصۂ دراز سے انکے پلید ذہنوں میں پک
رہا ہے ۔آزمائش کے جس کٹھن دور سے امت اس
وقت گزر رہی ہے اور جہاں بیک وقت کئی محاذوں پر دشمن سے صف آرائی جاری ہے، وہاں لازم ہے کہ قبلۂ
اول کیخلاف سازشوں کا جو جال بنا جا رہا ہے، اس سے غافل نہ رہا جائے اور نہ ہی
اسکو نظرانداز کیا جائے۔ کنیسیٹ کے ایک اجلاس میں لیکود
پارٹی کے موشیہ فیجلین نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ' اقصی یہود کا
ہے لہذا عربوں کو چاہئے کہ وہ سعودی عرب کا رخ کریں کیونکہ انکاقبلہ حجاز میں ہے
۔قبہ الذھبیہ پر صرف یہود کا حق ہے، مسلمانوں کا نہیں اور ہم ایسا کہنے میں حق
بجانب ہیں کہ اقصی کا کنٹرول اردن کی بجائے
کلی طور پراسرائیل کے حوالے کر دیا جائے'۔ اس بیان کے بعد کشیدگی اس درجہ
تک پہنچی کہ اردن سے اسرائیلی سفیر کو واپس تل ابیب طلب کر لیا گیا۔ دوسری طرف
تحریک اسلامی کے نائب شیخ کمال الخطیب کا کہنا ہے کہ اہل فلسطین کو مسجد اقصی میں
جمعہ کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے جبکہ یہودی آبادکار اور ایجنسیوں کے اہل
کار جب جیسے چاہیں اپنی عبادات و رسومات
کی ادائیگی کیلئے جا سکتے ہیں۔اسرائیلی انتہا پسندوں، بیت المقدس پر تعینات پولیس فورس اورکنیسیٹ کے مابین جاری جھڑپیں دراصل
آئندہ ماہ میں آنے والے ایسٹر کے تہوار پر انہدام مسجد اقصی
کا آغاز کرنے کی راہ ہموار کرنے کی ایک کڑی ہے کیونکہ امت کو درپیش مسائل کے تناظر
میں ریاست صہیون کوبظاہر کسی خاص مزاحمت
کا اندیشہ نہیں۔
موشیہ کے اس شرمناک بیان پر کسی
عرب یا اسلامی ملک کی قیادت یا تحریک کی جانب سے نہ کوئی بیان
جاری کیا گیا نہ کوئی ہنگامی کانفرنس بلائی گئی گو کہ ایسا ہونے کی صورت میں بھی
آج تک خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آسکے ۔فرعون
مصر کی جانب سے رفح کا معبر تاحال مقفول ہے اور خوراک اور دوا کی وجہ سے دم توڑتے بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا
جا رہا ہے؛ عالم اسلام کی مکمل خاموشی افسوسناک حد تک گہری ہے۔ اس سکوت سے شہ پا کر اس کے کچھ دن بعد ہی غزہ
اور مغربی کنارے میں القسام بریگیڈز اور
القدس بریگیڈزکے ۲۹ مقامات پر تل ابیب سے ۱۵۰ میزائل داغے گئے۔انکی
طرف سے جوابی کارروائی ہوئی توکیونکہ اسرائیل 'اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے'
لہذا حماس کو مسلح جدوجہد پر نہ صرف امریکہ بلکہ عرب ممالک کی طرف
سےبھی تنبیہ کی گئی۔ مغرب کو ہمیشہ کی طرح میزائلوں کی بجائے نہتے فلسطینیوں کے
راکٹ لانچروں سے زیادہ خطرہ محسوس ہوا۔ تائید ایزدی شامل حال ہو تو یہی بے
سروسامان مجاہدین اپنی کارروائیوں سے جدید
ترین ٹیکنالوجی اور اسلحے سے لیس صہیونی طاقت کےمیزائل سسٹم کو
ایسے روکتے ہیں کہ انکے جرائد اپنی خفت مٹانے کیلئے یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ موسمی خرابی کی
بنا پر میزائل کے نشانے چوک گئے!
فی الحال مسائل و آلام میں گھرے
شباب عرب کی مضطربانہ کیفیت سے فائدہ اٹھانا اسرائیل کا مطمع
نظر معلوم ہوتا ہے۔ زمینی صورتحال واقعتا پیچیدہ ہے۔یہود ۲ سال پہلے کی ہزیمت سے
خائف بھی ہیں اور ساتھ ہی دوسرے محاذوں پرامت کے نوجوانوںکی توجہ
کا فائدہ اٹھا کر غزہ پر یلغار کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں
دینا چاہتے! دوسری طرف حماس کے
شیروں کے حوصلے بلند ہیں اور انہوں نے حال ہی میں غزہ میں ایک عظیم الشان جلسے میں
نہ صرف بیت المقدس کی فتح تک ہر طرح کی جدوجہد اور مزاحمت پرڈٹے
رہنے کے عزم نو کا اعلان کیا ہے بلکہ کھلے عام اخوان اور مجاہدین کو بھی اپنی حمایت کی یقین دہانی کرواکربکاؤ مال خلیجی
قیادتوں اور عالم غرب پر کاری ضرب لگائی ہے۔القدس کی فتح
کچھ زیادہ دور نہیں ان شاءاللہ ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نازک ساعات میں بھی یہود ی عزائم سے آگاہ رہا جائے اور اہلیان غزہ کے
شانہ بشانہ رہا جائےکہ مسجد اقصی کی پاسبانی کا ذمہ ہر مسلمان کی گردن پر بار عظیم
ہے اور وہاں سجدہ ریز ہونا ہر امتی کا خواب!
وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ
عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ