عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Wednesday, April 24,2024 | 1445, شَوّال 14
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2011-01 BherionKeNarghey آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
پس چہ باید کرد؟
:عنوان

. باطلكشمكش . باطلفكرى وسماجى مذاہب :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

صورتحال کی یہ تصویر ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے اور اِس سلسلہ میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے متعدد جوانب ہیں، جن پر تفصیل کے ساتھ گفتگو تو ہم اپنی اِس نشست میں نہیں کر سکیں گے، تاہم یہاں جس چیز کی فوری ترین ضرورت کی ہم نشان دہی کریں گے وہ ہے:

موحد اہل علم و دانش پر مشتمل مضبوط و مربوط قسم کے ایک نظریاتی محاذ کا سامنے آنا۔

ایسے ایک نظریاتی و ثقافتی محاذ کا میدان میں آ جانا جس قدر جلد ممکن ہو، ضروری ہے۔ کہ اِسی پر معاملہ کے آگے بڑھنے کا انحصار ہے۔ صدیاں اِس وقت لمحے بن کر گزرنے لگی ہیں۔ ایسے کسی محاذ کا وجود میں آنا اور میدان میں اتر کر معاملات کو لائن اَپ کرنا ہرگز کسی تاخیر کا متحمل نہیں۔ یہ کوئی ’چھوٹی موٹی‘ ضرورت نہیں جس کے بغیر بھی گزارا ہو سکے۔ 

نہایت ضروری ہے کہ: 

 موحد دانشوروں کا ایک مضبوط جتھا میدان میں اترے اور نہایت تھوڑی مدت میں کچھ نہایت فوری ضرورت کا فکری انفرا سٹرکچر کھڑا کر کے یہاں جذبۂ عمل سے کھولتے ہوئے اِس آتش فشاں کو مہیا کر کے دے، 

 جس کے ساتھ ہی امت کا پڑھا لکھا نوجوان یہاں پر ایک نظریاتی جنگ کا علم اٹھا لے،

 اور اِس سے متصل، ایک عوامی رو اٹھانے کا بندوبست ہونے لگے۔ یہ کام جس قدر مختصر مدت میں ہو سکے، کر لیا جائے۔

*****

یوں تو ہم بھی امام مودودیؒ کی تجویز کردہ ایک مثالی جماعت کے قیام ایسی کوئی تجویز ضرور دیتے __ اور یقیناًایسے کسی پراجیکٹ کو لے کر آج اگر کوئی اٹھتا ہے، یا کوئی پہلے سے چلتا آنے والا تنظیمی پراجیکٹ ہی آج اِس چیلنج کو لینے کےلیے آگے بڑھتا ہے تو وہ زمانے کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اور ہم بھی ہر حیثیت میں اس کےلیے باعث تقویت بننا اپنے لئے سعادت جانیں گے، بلکہ ایک لانگ ٹرم پروگرام کے طور پر تو ایسا ضرور ہی ہونا چاہیے __ تاہم یہ جنگ اِس وقت جن طوفانی مراحل میں داخل ہو چکی ہے، اپنے اِن فوری ترین تقاضوں کے حوالے سے وہ ایسی کسی چیز کی متحمل نہیں رہی ہے (کہ کسی لانگ ٹرم پراجیکٹ کے ثمرات کا انتظار کرے)۔ وقت کے اِس فوری ترین چیلنج کا ادراک نہ کیا گیا تو ڈر ہے کہ ’ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘۔ بخدا ہم یہ بات نہ تو مبالغتاً کر رہے ہیں اور نہ کوئی سنسنی پیدا کرنے کےلیے۔ واقعتا معاملہ اِسی قدر خوفناک اور بھیانک ہے اور کسی فوری اقدام کا ضرورت مند۔ ’’لانگ ٹرم پروگرام‘‘ ضرور چلتے رہیں اور یقیناًکئی ایک لانگ ٹرم پروگراموں پر حسب توفیق خود ہم بھی عمل پیرا ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے، مگر یہاں مسئلہ ایک فوری اقدامِ عمل کا ہے، گو اس کےلیے بھی ایک ضروری ترین ہوم ورک کر لینا ناگزیر ہوگا اور اس کے بغیر کوئی میدان برپا کرنے کی کوشش ایک فاش غلطی۔

پس بے شک یہ بات درست ہے کہ امت کی ضرورت کے کچھ لانگ ٹرم پروگراموں کا جاری رہنا بجائے خود ضروری ہے اور از حد مطلوب ہے... پھر بھی وقت کے اِس فتنہ سے نمٹنے کےلیے، کہ جس کی نشان دہی ہمارے اِس پورے مضمون میں ہوتی رہی ہے، یہاں پر ایک فوری اسٹرٹیجی ہی درکار ہے۔
جو شخص موجودہ صورت حال پر کچھ بھی نظر رکھتا ہے اُس پر تو نہایت واضح ہے کہ اِس چیلنج پر پورا اترنے کےلیے جو اسٹرٹیجی درکار ہے وہ ایسے کسی بھی ’’لانگ ٹرم پراجیکٹ‘‘ کے نتائج پر موقوف نہیں رکھی جا سکتی جس کو ابھی وجود میں لایا تک نہیں گیا ہے، خواہ ایسا کوئی لانگ ٹرم پراجیکٹ جماعت سازی سے متعلقہ ہو یا ادارہ سازی سے۔ ایسے منصوبے ضرور آنے چاہئیں اور یقیناًجاری رہنے چاہئیں، ہمیں ان کی ضرورت یا افادیت سے انکار بھی ہرگز نہیں ہے۔ البتہ ہم جو بات کر رہے ہیں اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں:

ایک وہ جو اوپر بیان ہوئی، اور جو کہ اہم ترین ہے۔ یعنی یہ کہ: اِس فتنہ کے ساتھ پورا اترنا کسی طویل المیعاد منصوبے کے ثمرات کے انتظار کا متحمل ہی نہیں۔ ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ ائمۂ سنت اپنے طویل المیعاد منصوبوں پر بھی جتے رہے ہیں یعنی اپنے ان دور رس منصوبوں کو بھی انہوں نے ’’ہنگامی حالات‘‘ کے پیش نظر کبھی معطل کر کے نہیں رکھ دیا، تاہم وقت کے فتنوں کے ساتھ نبردآزما ہونے اور قوم کو اس محاذ پر صف آرا کر دینے میں بھی انہوں نے کبھی سستی نہیں دکھائی۔ جس کےلیے وہ موقع پر دستیاب امکانات resources at hand ہی کو کام میں لاکر صورتحال کے ساتھ پورا اترنا ضروری سمجھتے رہے تھے۔ یہ توازن ہی آج اس وقت مفقود ہے، ذرا اس کا بندوبست ہو جائے تو ہمارا معاملہ اچھا خاصا سیدھا ہو جاتا ہے۔
اور دوسری یہ کہ: یوں بھی امت آج وہاں پر نہیں کھڑی ہوئی جہاں پون صدی پہلے اِس کو حسن البناؒ اور سید مودودیؒ نے پایا تھا۔ یقیناًمعاملہ بہت آگے بڑھا ہے، فکری سطح پر بھی، تحقیقی سطح پر بھی، تربیتی سطح پر بھی، تعلیمی سطح پر بھی، عوامی بیداری کی سطح پر بھی، اور بیرون میں پائے جانے والے ہمارے قتال کے محاذوں پر بھی۔ بے شک آپ کو ایک باقاعدہ منظم عمل اپنے اِن معاشروں کے اندر برسرزمین نظر نہیں آ رہا مگر اِس ’’مشین‘‘ کے بہت سے ’’پرزے‘‘ بہرحال وجود پا چکے ہیں، محض ان کی ’’ریفائننگ‘‘ اور ’’اسمبلنگ‘‘ ہو جانا باقی ہے۔ اور اب کے اللہ کے فضل سے جو صورتحال وجود پانے جا رہی ہے وہ کسی ایک عدد ’’تنظیم‘‘ کے سامنے آنے سے بہت بڑھ کر ہے۔ یہاں اِس وقت اللہ کی مدد سے جو دھارا بننے جا رہا ہے وہ امت کی سطح کا ہے اور ملکوں کے ملک اِس کے اندر ڈوب جانے والے ہیں۔ چنانچہ یہ وہ دوسری وجہ ہے جو ہم یہاں پر ’’جماعت‘‘ یا ’’تنظیم‘‘ سے بلند تر کسی سطح کی ڈویلپمنٹ کی ضرورت و امکان دیکھ رہے ہیں۔ یہ بہرحال واضح ہے کہ یہ 1920ء یا 1930ء کا عشرہ نہیں ہے۔ بہت سے شعبوں میں ہماری صدی بھر کی محنت کچھ ایسی بری بھی نہیں رہی ہے (بات کسی تنظیم کے حوالے سے نہیں ہو رہی، بلکہ امت کے عمومی اداروں و شعبوں کے حوالے سے ہو رہی ہے)۔ امکانی طور پر potentially ہم پون صدی پہلے کی نسبت آج ایک بہت بہتر پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ مسئلہ اِن امکانات potentials کو ایک ترتیب اور ایک دھارے میں لانے کا ہے۔ یقیناًاِن potentials کو اِس سے کہیں اعلیٰ سطح پر پیدا کرنے کی ضرورت بھی باقی ہے، اور کچھ لوگوں کو ضرور اِس محاذ پر بھی جت جانا اور جتے رہنا چاہیے، مگر جتنے پوٹینشلز ابھی اِس وقت ہیں وہ بھی اگر کسی دھارے میں لے آئے جائیں تو وہ دنیا کو حیران کر کے رکھ دیں۔ یہی وہ وجہ ہے جو ہم یہاں پر حقیقتِ توحید پر قائم و ثابت قدم اصحابِ دانش intellectuals کے ایک موثر effective ، فعال dynamic ، متحرک vibrant ، اور فدائیت کی حد تک مخلص اور وقف devoted فورم کی ضرورت دیکھ رہے ہیں، جس کا پہلا کام ہی یہ ہو گا کہ وہ یہاں پر پائے جانے والے سب potentials کو نگاہ میں لے کر آئے اور امت کے اِس فوری ترین معرکے کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو بروئے کار لے آنے کی ایک پالیسی اور ایک اسٹرٹیجی وضع کرے اور پھر اس کو عملی جامہ پہنانے کےلیے بھی سرگرم ہو جائے۔ بلکہ ایک نظریاتی جنگ کا علم اٹھا کر میدان اترے۔

یہ ایک ایسا عمل ہونا چاہیے جس کا فارمیٹ کسی ’’تنظیمی‘‘ سانچے کی نسبت کہیں آسان تر اور وسیع تر اور موثر تر ہو اور بیک وقت امت کے متعدد گروپوں اور یونٹوں کو ان کی حالیہ ساخت باقی رکھتے ہوئے ہی، اور ان کی اس اندرونی ساخت کو چھیڑے بغیر ہی، ایک دھارے میں لے آنے کی عملی بنیاد مہیا کرے۔ 
(ویسے اگر اصولِ سنت کا پورا ایضاح ہو جائے جو ائتلافِ امت کےلیے ائمۂ سنت نے بیان کر کے دیے ہیں، تو ہمارا یہ مطلوبہ فارمیٹ خود سے خود سامنے آجاتا ہے)۔

*****

اور جب ان اصحابِ دانش intellectuals کا ایک وصف ہم نے ’’حقیقتِ توحید پر قائم و ثابت قدم‘‘ بیان کیا ہے، اور جو کہ یہاں پر مطلوب دھارے کو وجود میں لانے کےلیے مطلوب ہے، تو ظاہر ہے اس سے مراد ایسے اصحاب نہیں جو:

 اور نہ وہ لوگ جن کی نظر میں ’اسلام اور ڈیموکریسی‘ کا ٹانکہ کوئی مضحکہ خیز چیز ہی نہیں ہے،

 اور نہ وہ اصحاب جن کو ’قومیت‘ کے سروں سے کبھی کوئی تنگی اور بوریت تک محسوس نہیں ہوئی ہے بلکہ جو پورے شرح صدر کے ساتھ انہی قومیت کے سروں کے اندر اپنے اسلامی بول ڈلوا دینے میں ایک ’بہت بڑی خیر‘ دیکھتے ہیں اور اسی کو یہاں پر مطلوب ’’اصلاح‘‘ کی بہترین صورت باور کراتے ہیں،

v مغرب سے مستعار شدہ اِس پورے فنامنا کے ساتھ ’’کومپرومائز‘‘ اور ’’ریکونسائل‘‘ کے لہجوں کو فروغ دینے میں لگے ہیں اور اسی کے پیراڈائم میں رہ کر اسلام کے فکری یا سیاسی یا معاشی یا سماجی جوانب کو بیان کرنے یا ان کا عملی قیام کروانے میں ہمارے اِس پورے بحران کا حل دیکھتے ہیں،

vاور نہ وہ حضرات جو ہمیں ’’عالمی اصطلاحات‘‘ کی پھسلن پر لے چلنے میں امت کے دین وعقیدہ کی سلامتی کےلیے کوئی خطرہ تک محسوس نہیں کرتے...

vاور نہ ظاہر ہے اس میں وہ اصحاب آئیں گے جو صرف کچھ مردہ خداؤں کی عبادت کا قلع قمع کروا دینے کو ہی وہ ’’توحید‘‘ قرار دیں گے کہ جس کے ساتھ انبیاء اور رسول دنیا کے اندر مبعوث ہوتے رہے ہیں ...

vاور نہ ظاہر ہے وہ اصحاب آئیں گے جو یہاں کے فقہی ومسلکی دنگلوں کو ’’کفر و اسلام‘‘ کے معرکے بنا کر بیٹھے ہیں اور ’’تحقیقِ توحید‘‘ کو ایسے ہی کچھ فروعی مسائل کے اندر محصور جانتے ہیں۔

(حق یہ ہے کہ وہ سب نیک حضرات ہی، جن کو ایک ایسی بنیادی اور سامنے کی بات سمجھانے کےلیے آپ کو نوری سالوں کے حساب سے وقت درکار ہو __ اُس ’’مرکزی و بنیادی عمل‘‘ کو کھڑا کرنے کے حوالے سے جو یہاں مفقود ہے اور جس کو کھڑا کرنے کےلیے دردمندوں کی جانب سے دُہائیاں پڑ رہی ہیں اور جس کے نہ پائے جانے کے باعث کفر ہمیں آخری حد تک دیوار کے ساتھ لگا چکا ہے __ یقینی طور پر غیر متعلقہ ہوں گے۔ اور یہ بات اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہاں تبدیلی کا علم اٹھانے والوں کے سامنے رہنی چاہیے۔ ایسے سب نیک حضرات یقیناًکچھ دیگر صالح مقاصد کےلیے کام آسکتے ہیں اور ان شاء اللہ کام آئیں گے، مگر اُس ’’بنیادی عمل‘‘ کو کھڑا کرنے کےلیے جو یہاں پر اسلام کے جاں نثاروں کو ایک شاہراہ بنا کر دے گا، غیر متعلقہ رہیں گے۔ تاریخ کی اِس برہنہ ترین جاہلیت کے ساتھ ہمارے ذہین با صلاحیت حامل عقیدہ نوجوانوں کا ایک ایسا گھمسان برپا کروا لینا جو جاہلیت کو یہاں پسپائی پر مجبور کر کے رکھ دے،خاصی ڈائنامک اپروچ چاہتا ہے۔ اس کےلیے ہمارا یہ سارا نیک طبقہ جس کا پچھلے کچھ پیراگرافوں میں ذکر ہوا غیر متعلقہ رہے گا)۔

اِس مبارک عمل کی ضرورت یقیناًکچھ ایسے لوگ ہیں جو لا الٰہ الا اللہ کو اس کے کچھ موٹے موٹے حقائق کے ساتھ اپنے زمانے کی آواز بنا دینے پر آخری درجے کی دلجمعی و یکسوئی پا چکے ہوں اور اِس ایک مسئلہ کو بڑا کرنے کےلیے باقی ہر مسئلے کو چھوٹا کر دینے کی ہمت اور جراُت پاتے ہوں، خواہ وہ چھوٹا مسئلہ یہاں کی قومی لغت نے بڑا کر رکھا ہو، یا ابلاغ کی پھیلائی ہوئی خرافات نے، یا عالمی سیانوں کے صادر کردہ لہجوں نے.. یا حتیٰ کہ یہاں کے منحرف مذہبی عمل نے۔ لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت پر اِس حد تک اصرار اور ترکیز یہاں پر ایک ’’حقیقی تبدیلی‘‘ کا علم اٹھانے والوں میں بہرحال مطلوب ہو گی۔

*****

اِس ’’حقیقتِ توحید‘‘ پر جینے اور مرنے پر آمادہ علماء، دُعاۃ، پروفیسرز، ریسرچرز، سوشل سائنٹسٹس، مختلف میدانوں کے اندر اعلیٰ علمی و فکری استعداد کے حامل اصحاب[1]، دانشور، صحافی، قانون دان، ڈاکٹرز، بیوروکریٹس، کامیاب پروفیشنلز، بزنس مین، مزدور لیڈر، شاعر، ادیب، سماجی اصلاح کار ... سب درکار ہیں۔ ایسے لوگ کسی بہت بڑی تعداد میں درکار نہیں، چند سو بہت ہیں۔ ’’توحید‘‘ کو واشگاف انداز میں سامنے لے آنے اور ’’شرک‘‘ کو اس کی تمام اصناف سمیت چیلنج کر نے اور اس کے ساتھ دشمنی نبھانے پر دلجمعی پا چکنے والے ایسے چند سو لوگ بھی یہاں پر ایک دھارا تشکیل دینے پر آمادہ ہو جائیں تو اس سے اگلے ہی لمحے ’’تبدیلی‘‘ کے اُس عمل کا آغاز ہو جاتا ہے جو اللہ کے فضل سے یہاں جاہلیت کی چولیں ہلا کر رکھ دے گا۔ ’’خیر‘‘ کے وہ ہزاروں پوٹینشلز جوکہ اِس امت کے وجود میں بے چینی کے ساتھ کروٹیں لے رہے ہیں، خصوصاً جوکہ نوجوانوں کے اندر متلاطم ہیں، ایسے کسی دھارے کے وجود میں آنے کے ہی منتظر ہیں۔ 

کیا ایسے چند سو اصحاب بھی یہاں پر کھڑے نہیں ہو سکتے؟!

ایسے اصحابِ علم و دانش کو گوشۂ گم نامی و عزلت سے نکال لانے کےلیے اور کسی ایک جگہ پر ان کو لا بٹھانے کےلیے، اور ایک مشترکہ زمین پر ان کو لا کھڑا کرنے کےلیے، کچھ لوگ اگر صبح شام ایک کر دیں، ان کے لہجوں میں ایک قربت و ہم آہنگی لے آنے پر پورا زور صرف کر دیں، تا آنکہ ان میں ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی ’’کمیونیکیشن‘‘ اور ’’یگانگت‘‘ وجود پا لے، تو بہت امکا ن ہے کہ اِس عمل کی شروعات ہو جائیں۔ آپ بھی اگر اِس وژن سے متفق ہوں تو اِس صورت کو ممکن بنانے کےلیے اپنی توانائیاں صرف کر دیں۔ آپ کے شہر میں، آپ کے حلقۂ معارف میں ضرور ایسے کچھ لوگ ہو سکتے ہیں، یا پھر کچھ کوشش کے نتیجے میں ایسے ہیرے تلاش کئے جا سکتے ہیں، اور ان کو کھڑا کرنے پر محنت کی جا سکتی ہے، جن کے باہم مل جانے سے وہ تصویر وجود پا سکے جس کے خود آپ بھی شاید بہت دیر سے منتظر ہوں۔

مختصر یہ کہ اِس عمل کا سرا بننے کےلیے یہاں ایک نہایت خاص صنف درکار ہے، اور معاشرے پر اثر انداز ہونے کےلیے اس کو سامنے لائے بغیر چارہ نہیں۔

*****

ایک فوری ہدف کے طور پر اصل ترجیح تو اِسی ہدف کو حاصل ہو گی جو کہ اوپر بیان ہوا، اور سب سے بڑھ کر اِسی پر جان کھپانا ہو گی۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر دو اصناف پر فی الحال کوئی محنت نہیں کی جائے گی۔ دیگر دو اصناف سے مراد ہے: (۱) یہاں کے تعلیمی و سماجی عمل سے منسلک ہمارا وہ ماڈرن یوتھ جس نے غیرت و حمیت دینی سے ایک حظ وافر پا رکھا ہے، اور (۲) عوام الناس کے اندر پایا جانے والا ایک مخلص و سنجیدہ طبقہ۔

اِس پہلی ترجیح (اصحابِ علم و دانش پر مشتمل ایک محاذ کھڑا کر دینے) پر محنت کے ساتھ ساتھ... جہاں جہاں آپ کا بس چلے، اِن ہر دو طبقہ پر بھی محنت کا آغاز کر دیا جائے۔ جس کی بنیاد تعلیم وتعلم اور تلقین و تربیت ہو (اور جو کہ یوں بھی سنت کے قریب ترین ہے) نہ کہ کوئی جامد ڈسپلنری فارمیٹ۔
تعلیمیافتہ نوجوانوں اور سنجیدہ عوام، ہر دو کو اکٹھ اور جتھہ بندی کی جو بنیاد دی جائے وہ صرف ایک ہو: الولاء للمومنین والبراء من الکافرین والمنافقین، نہ کوئی تنظیم، نہ مسلک اور نہ کوئی اور چھوٹا دائرہ۔
البتہ اِس ہر دو طبقہ میں لوگوں کا جو جو تنظیمی یا مسلکی پس منظر ہو، اس کو وجود سے ختم کروانے کی ہرگز کوئی کوشش نہ کی جائے، ظاہری طور پر اور نہ کسی ’خفیہ‘ و ’دورمار‘ ایجنڈا کے طور پر۔ لا الٰہ الا اللہ کے موٹے موٹے تقاضے ہی سیدھا سیدھا ان کے سامنے رکھے جائیں اور اس کے علاوہ کسی چیز پر اصرار نہ کیا جائے، بلکہ باقی کی ان سب چیزوں میں لوگوں کے تنظیمی ومسلکی تنوع کو نہایت کھلے دل سے تسلیم کیا جائے۔ کسی کی کوئی بات لا الٰہ الا اللہ کے جلی تقاضوں سے ہی ٹکرائے تو اس کو زیر نقد لایا جائے، بصورت دیگر لوگوں کو ان کے تنظیمی، جماعتی اور مسلکی پس منظر پر باقی رہنے دیا جائے۔ اور اس حوالے سے یہاں جو چھوٹے بڑے بے شمار دائرے پائے جاتے ہیں اُن کی اندرونی ساخت کو چھیڑے بغیر ہی، اور لوگوں کو اُن دائروں سے کاٹے اور نکالے بغیر ہی، یہاں پر ایمان اور توحید کے ایک وسیع تر کیمپ کے وجود میں آنے کی راہ ہموار کی جائے۔

پس یہ بھی ضروری اور اہم ہو گا کہ لوگوں کو، جہاں تک ہو سکے، ان کے جماعتی و مسلکی پس منظر سے ہی وابستہ رہنے دیا جائے، الا یہ کہ کسی کا پس منظر رافضی یا قبرپرست وغیرہ ہو۔[2] لوگوں کو ہم ان کی دنیاؤں سے نکالنا نہیں چاہیں گے بلکہ اپنے اِس تحریکی عمل کو ہی ان کی دنیاؤں کے اندر لے جانا چاہیں گے۔ اِس کےلیے یہ نہایت اہم ہو گا کہ معاشرہ میں ہر آدمی جہاں جہاں پر ہے وہاں وہاں وہ اپنی جگہ نہ چھوڑے۔ کیونکہ وہ اپنی اُس جگہ پر رہ کر ہی امت کو مطلوب تحریکی وسماجی عمل کےلیے مفید اور موثر ہو سکتا ہے۔ اور یہ تو واضح ہے کہ ایک مختصر مدت کے اندر وہ معاشرے میں اپنے لئے کوئی ایسی ’نئی جگہ‘ پیدا کر ہی نہیں سکتا جہاں سے وہ معاشرے پر یا معاشرے کے ایک طبقے پر اثر انداز ہو سکتا ہو... اور جبکہ چیلنج ایک ’’فوری عمل‘‘ کا ہے نہ کہ کسی ’’طویل المیعاد مہم‘‘ کا۔

نہایت ضروری ہو گا کہ اِس مہم کو کامیابی کے ساتھ سر کرنے کے خواہشمند لوگ اپنا کل فوکس ’’عقیدہ‘‘ کے ایک ایسے بیان اور ایضاح پر رکھیں جو اپنے زمانے سے بحث کرتا ہو اور اپنا کل زور یہاں پر ایمان اور توحید کے ایک وسیع تر کیمپ کو وجود میں لے آنے پر صرف کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ دین سے منسلک ہمارا ماڈرن یوتھ، اور دین سے وابستہ ہماری سنجیدہ عوام، دونوں ہی اپنے تمام تر مسلکی و تنظیمی پس منظر کے علی الرغم ایک ایسا وسیع تر دائرہ تشکیل دینے میں، جو صرف اور صرف دین کے بنیادی مسلمات سے ہی وجود پاتا ہو، اچھے خاصے سنجیدہ دیکھے گئے ہیں۔ کمی ہے تو صرف ایسے داعیوں کی جو اِن چھوٹے چھوٹے دائروں سے بلند ہو کر کسی بڑے دائرے کی تشکیل کا ایک کنکریٹ تصور اپنے اِس نوجوان اور اپنی اِس عوام کو دے سکیں، اور جوکہ ایک بڑی سطح پر فی الحال یہاں مفقود پائے گئے ہیں۔

پس بات اِس نقطہ پر بھی چلی جائے گی کہ دعوت کی بنیادوں سے آپ خود کہاں تک واقف ہیں۔ آپ کتنی ہی کم درجہ کی علمی استعداد کیوں نہ رکھیں، داعی ضرور بن سکتے ہیں، اور داعی تو یہاں ہر آدمی کو ہی ہونا چاہیے، مگر دعوت کی اُن بنیادوں پر آپ کو بہرحال اپنی گرفت مضبوط کرنا ہو گی جو یہاں پر مطلوب ’’وحدت‘‘ اور ’’تنوع‘‘ کا ایک حقیقی، متوازن اور مستند نقشہ پیش کر سکیں۔ داعی بننے کےلیے آپ کو سالوں کے سال صرف نہیں کرنا ہوں گے۔ البتہ کچھ مستند بنیادوں کو ضرور ہاتھ میں کرنا ہو گا، اور ایسا انتظام ہو جانا کوئی نا ممکنات میں نہیں جہاں سے آپ چند دن صرف کر کے دین کے وہ موٹے موٹے امور اور لا لٰہ الا اللہ کے وہ جلی ترین تقاضے سیکھ آئیں کہ جس سے آپ ’’وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون‘‘ (التوبہ: ۱۲۲)[3] کا مصداق ہونے کی ایک کم سے کم سطح کو تو ضرور ہی چھو سکیں۔ پس داعیوں کی ایک ایسی کھیپ لے آنے کا بھی اگر ایک عمل اس کے ساتھ ہی شروع کر دیا جاتا ہے، تو یہ واضح ہے کہ اِس عمل کو سامنے لانے کےلیے سالوں کے سال درکار نہیں۔ کچھ محنتی لوگ میدان میں آ جائیں تو ایک نہایت مختصر مدت میں آپ یہاں کے دین پسند عوام کے اندر ایک بہت بڑا انقلاب بھی لے کر آ سکتے ہیں۔

*****

چنانچہ جس دوران یہاں پر مسلم انٹلکچولز کا ایک ڈائنامک فورَم تشکیل پاتا ہے، اور جو کہ اِس پورے عمل کی قیادت کرے گا، (اور جس کو وجود میں لانے کےلیے اِس وقت اُن لوگوں کو بھی سرگرم ہونا ہو گا جو خود بیشک اِس صنف میں نہ آتے ہوں)، اُس دوران یہ دو کام بھی جاری رہ سکتے ہیں: 
ایک یہ کہ: آپ اپنی ہمت اور استعداد کے بقدر یہاں ایک داعی بنیں۔ یعنی خود اپنی صورت میں تو اِس عمل کو ایک داعی دے ہی دیں۔ 

دوسرا یہ کہ: اپنے ماحول میں بھی کچھ داعی کھڑے کرنے پر سرگرم ہو جائیں۔ آس پاس، اپنے دست وبازو پیدا کریں۔ ایک، اکیلا اور دو، گیارہ۔ زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ اگر ایک علاقہ میں داعیوں کی ایک معتد بہٖ تعداد میسر آ جاتی ہے تو کچھ چھوٹے چھوٹے علاقوں کو ٹارگٹ کر کے دعوتی عمل کے چند کامیاب ماڈل بھی وجود میں لے آئے جائیں۔ پھر جیسے ہی اوپر کی سطح پر ایک بڑا دھارا تشکیل پانے کی نوبت آتی ہے، یہ ماڈل بڑے آرام سے ایک بڑے پیمانے پر اور دھڑا دھڑ ریپلیکیٹ ہو سکیں گے۔

بایں طور...، جس جگہ پر چند داعی میسر آ جاتے ہیں وہاں کسی بھی فکری و علمی استعداد کا حامل طبقہ فارغ نہیں رہتا، خواہ کوئی بڑے سے بڑا صاحب علم و دانش ہو یا بے علم سے بے علم عامی۔ ہر کسی کو ’’حقیقتِ توحید‘‘ پر کھڑے ہونے اور معاشرے پر اثرانداز ہونے کے اِس مشن کے حوالے سے ایک کام ملتا ہے، بغیر اس کے کہ اس کی وابستگی اپنے جماعتی یا مسلکی پس منظر کے ساتھ کسی بہت بڑی سطح پر متاثر ہوتی ہو۔

*****

یہ عمل اگر یہ کہیں پر شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہو گا، بلکہ اس کو جانچنے اور اس کی عمدگی کو پرکھنے کا ایک پیمانہ بھی یہی ہو گا، کہ: آپ کا یہ کام مسلم عقل اور مسلم جذبہ کو __ ایک فکری وسماجی میدان میں __ جاہلیت کے خلاف کہاں تک recruit کرتا ہے اور جاہلیت کے خلاف کچھ تیز ترین لہجوں کو تشکیل دے لینے میں کہاں تک کامیابی پاتا ہے۔ نیز یہ کہ مسلم طبقوں اور جماعتوں کے مابین تالیف اور یگانگت کے لہجوں کو فروغ دینے میں کہاں تک کامیابی پاتا ہے اور خاص اِس محاذ پر دل جیتنے اور ’’ادفع بالتی ہی أحسن‘‘ کا مصداق بننے کے ایک نہایت حقیقی چیلنج پر کہاں تک پورا اتر کر دکھاتا ہے۔
یہ دو ہی محاذ ہیں: جاہلیت کے ساتھ جنگ، اور مسلم طبقوں کے ساتھ شیرازہ بندی۔ ان میں سے کسی ایک پر کامیاب ہو لینا دوسرے پر ناکام ہوجانے سے کفایت نہیں کرے گا۔ ہر دو میں سے کسی ایک بھی محاذ پر اگر آپ ناکام ہو جاتے ہیں تو امت کو اِس بحران سے نہیں نکال سکیں گے۔ جس کو اپنے نفس کی تسکین کرنی ہو، نہایت بھلا ہو گا کہ وہ اِس مبارک عمل کا رخ نہ کرے۔ البتہ جو شخص اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں پھنسی ہوئی امت کو اِس پر خار گھاٹی سے نکالنا چاہتا ہے وہ ضرور آگے بڑھے اور ادراک رکھے کہ اِس کام کے اندر ’’مشکلات‘‘ ہی نہیں، ’’نزاکتیں‘‘ بھی بے حد وحساب ہیں، اور یہاں ’’عزیمت‘‘ ہی نہیں ’’دانشمندی‘‘ کا بھی پیر پیر پر امتحان ہے!

واللہ غالب علیٰ امرہ

 

دو عملی تجاویز

کمیونسٹوں میں پھر ابھی دم خم تھا، اسلام کی نظریاتی قوت کو میدان میں لے آئیے؛ یہ سیکولرزم کے داعی ان شاء اللہ میدان میں کھڑے نہیں رہ سکیں گے۔

وقت ہے، یہاں کے باشعور، درد مند، موحد طبقے مسلکوں اور تنظیموں سے بلند تر سطح پہ آکر، اور امت کے عقیدہ و نظریاتی دستور ہی کو بنیاد بنا کر، کفر کی یلغار کے سامنے ایک نظریاتی بند باندھیں اور امت کو اس کی ثقافتی فصیلیں مستحکم کر کے دیں۔ 

’’حقیقتِ توحید‘‘ پر جینے اور مرنے پر آمادہ علماء، دُعاۃ، پروفیسرز، ریسرچرز، سوشل سائنٹسٹس، مختلف میدانوں کے اندر اعلیٰ علمی و فکری استعداد کے حامل اصحاب، دانشور، صحافی، قانون دان، ڈاکٹرز، بیوروکریٹس، کامیاب پروفیشنلز، بزنس مین، مزدور لیڈر، شاعر، ادیب، سماجی اصلاح کار، طلبہ ... سبھی کو یہاں ایک کردار ادا کرنا ہے۔

اِس کتابچہ میں پیش کی جانے والی گزارشات کو بنیاد بناتے ہوئے، یہاں ہم دو پروگراموں کی تجویز دینے جا رہے ہیں:

1۔ اسلام کی نظریاتی جنگ لڑنے پر آمادہ رائٹرز فورم

* اگر آپ خود ایک لکھاری ہیں تو اِس فورم کے ساتھ رابطہ میں آئیے

* اگر آپ کسی لکھاری کو آمادہ کرسکتے ہیں، تو اس کو اِس فورم کا سرگرم حصہ بنانے میں کردار ادا کیجئے

2۔ موحد علماء اور دانشوروں پر مشتمل ایک نظریاتی فورم

* جو یہاں پر مطلوب نظریاتی گھمسان کو فکری غذا فراہم کرنے کے معاملہ میں ایک ریسورس کا کام دے۔ اور جس کے کچھ خدوخال ہمارے اِس کتابچہ میں بیان کئے گئے ہیں۔

رابطہ میں آنا، اِس باب میں تعاون علی البر والتقویٰ کا پہلا زینہ ہو سکتا ہے۔ ہر فورم کے شرکاء اپنے عمل کےلیے دستیاب امکانات اور مطلوبہ طریق عمل خود ہی طے کریں۔



[1] یعنی اِس صنف میں یہ صلاحیت باقاعدہ ایک شرط کے طور پر مطلوب ہوگی کہ وہ سوسائٹی پر اثرانداز ہونے کی ایک اعلیٰ صلاحیت رکھیں۔ کم از کم بھی یہ ہو کہ آدمی عالم دین ہو تو وہ علماء پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھے۔ دانشور ہو تو دانشوروں پر۔ صحافی ہو تو صحافیوں پر۔ علیٰ ہٰذا القیاس۔ یہ وہ فریق ہے جو followers پر مشتمل نہیں ہو گا، بلکہ ان کو leaders ہونا ہو گا۔

[2] نہایت حیرت ہوتی ہے کہ یہاں پر پائے جانے کچھ داعی جو لوگوں کو دینے کےلیے کوئی تنظیمی سیٹ اَپ اپنے پاس نہیں رکھتے، وہ لوگوں کو ان کی تنظیمیں چھڑوانے کےلیے بھی شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہیں! کیا یہ حضرات اپنی اِس دعوت کے عواقب سے خبردار بھی ہیں؟ ادھر کہیں پر ’کوئی مسلک نہ رکھنے‘ کا دعویٰ رکھنے والے داعی لوگوں سے ان کے مسلک چھڑواتے پھر رہے ہیں!

ہماری نظر میں ایسے داعی اگر کامیاب ہوتے ہیں تو وہ اسی بات میں کامیاب ہوں گے کہ یہاں کے دینی عمل کے اندر ایک بڑا تعطل لے آئیں اور اغلب یہ ہے کہ موجودہ بحران سے بھی بڑا ایک بحران پیدا کر کے دے دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خواص کے ساتھ معاملہ کرنا ذرا اور انداز رکھتا ہے البتہ عوام کے ساتھ معاملہ کرنے کے کچھ اور dinamics ہیں اور اگر آدمی کو ان کا ادراک نہیں ہے تو لوگوں کو خراب کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی ان کو ’راہ دکھانے‘ سے احتراز کرے۔

[3] تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ نکلتے ہر قوم سے کچھ لوگ، تاکہ گہری سمجھ پاتے وہ دین کے اندر، اور تاکہ جب واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں، تاکہ قوم خبردار ہو جائے‘‘۔


 پمفلٹ کے بقیہ مضامین کا لنک

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز