5
ہمارا تحریکی
عمل.. در حکمِ معدوم
دو واقعات یہاں
بیک وقت پیش آئے ہیں:
پہلا
واقعہ:
’’گلوبلائزیشن‘‘ کا اپنے اِس تیز ترین مرحلہ میں داخل ہونا، جہاں وہ ایک منہ
زور ثقافتی ریلے کی صورت دھار لے اور ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ کے رہے سہے سب اثاثے بہا لے
جائے اور جس کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ یہاں کا ہر ’’نقش کہن‘‘ جو سر اٹھا کر
کھڑا ہو، یہاں کی مقامی لیبر کی مدد سے مٹا کر رکھ دیا جائے۔
اِس جہان کو ایک
ہی ’’عالمی بستی‘‘ بنانے کےلیے ضروری ہے کہ معاشی طور پر خواہ یہاں کتنی بھی تفریق
باقی ہو (اور یہ ’’معاشی‘‘ تفریق باقی رکھنا ضروری بھی ہے، ورنہ دنیا ’چودھریوں‘
اور ’کمیوں‘ میں تقسیم نہیں رکھی جا سکتی!)، البتہ ’’ثقافتی‘‘ طور پر اِس کے سارے
ہی محلے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو اِس دنیا کا ایک ہونا
اُن کے حق میں فائدہ مند ہونے سے بڑھ کر نقصان دہ ہو سکتا ہے؛ یہ ہمیشہ ضروری رہا
ہے کہ ’’کمّی‘‘ ’’چودھریوں‘‘ کے ہی دین پر پائے جائیں۔ اور اگر اُن
کو ’’چودھریوں‘‘ کی نسبت کوئی برتر دین حاصل ہو تو خواہ وہ کتنی بھی پسماندہ اور
ناگفتہ بہ حالت میں کیوں نہ رکھے گئے ہوں، کسی بھی وقت کوئی بھی ’’موسیٰ‘‘ اِن
مستضعفین فی الأرض کو صف آرا کر کے اِس فرعونی نظام کا قائم کردہ ’’توازن‘‘ خراب
کر سکتا ہے جس کو بچاتے بچاتے فرعون اپنے پندار سمیت غرق ہو جاتا ہے تو
’’مستضعفین‘‘ زمین کے وارث ہو جاتے ہیں اور ’’تہذیب‘‘ کو ایک بار پھر دین فطرت کی
آغوش میں پرورش پانے کا موقعہ ملتا ہے!
پس اِس ’’گلوبل
ولیج‘‘ کے ماسٹر پلان کی رو سے یہاں پر ’ڈویلپمنٹ‘‘ کا پہلا کام ہی یہ ہونا تھا کہ
یہاں کے ’مذہبی تجاوزات‘ ہٹا دیے جائیں اور ’تہذیبی‘ سطح پر زمین بالکل ’ہموار‘ کر
کے رکھ دی جائے؛ باقی ’تعمیرات‘ جتنی ہوں اس کے بعد ہوں! (اور ویسے ان ’تعمیرات‘
کا تو جو اس سے ’’اگلے مرحلے‘‘ کےلیے یہاں پر زیر غور ہیں آپ ذرا تصور ہی کر لیں
تو آپ کو ہول آنے لگے)۔ چنانچہ اب ہر طرف یہاں آپ کو ’’بلڈوزر‘‘ مستعدی کے ساتھ
کام کرتے ہوئے دکھائی دیں گے! آپ سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں؛ یہاں کا ہر شعبہ اور ہر
ڈیپارٹمنٹ سویا پڑا ہے سوائے ایک شعبے کے؛ یعنی: یہاں کا ابلاغیاتی شعبہ! اِس ملک
کا واحد چاک چوبند شعبہ جس نے ’’پروفیشنلزم‘‘ کی انتہا کر دی ہے! یہاں کا واحد
شعبہ جس کی پھرتیاں یہاں ہر باشعور دردمند کے کان کھڑے کر دینے کو کافی ہیں کہ
خدایا کیا یہ یہیں کا ایک فنامنا ہے؛ وہ دیگر سب شعبے بھی تو اِسی ملک کے ہیں جن
کے خراٹے یہاں کے ہر حساس شخص کو جگا رہے ہیں، ان سب شعبوں کو چھوڑ کر اسی ایک
شعبے میں یہ حیرت انگیر مستعدی اور یہ ’فرض شناسی‘، آخر ماجرا کیا ہے اور یہ کن 'steroids' کا کمال ہے؟! ’ضمیر‘ کی یہ سب
بیداری یہاں کے سارے شعبوں کو چھوڑ کر صرف ایک شعبے کے حصے میں کیوں آ گئی ہے؟ اِس
’شہد‘ میں کیا کوئی ’’زہر‘‘ تو نہیں گھول دیا گیا (اور ویسے ذرا اسلامی نظر حاصل
ہو تو ’’زہر‘‘ کے پھن بھرے ہوئے یہ ناگ آخر کس کو نظر نہیں آتے؟)۔
بات دراصل وہی
ہے؛ یعنی سب ’تعمیراتی‘ کام فی الحال یہاں معطل رکھے جانے ہیں جب تک یہ ’’بلڈوزر‘‘
اپنے ابتدائی کام سے فارغ نہ ہو لیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں ہر طرف آپ کو اِن ہی
کی اڑائی ہوئی گرد دکھائی دے گی اور اس کے علاوہ کوئی ’پیشرفت‘ نظر نہیں آئے گی۔
حضرات! ایک ’نئی طرز‘ کی بستی بھی یہاں پوری طرح زیر غور ہے مگر ذرا یہ 'levelling' ہو جانے کے بعد؛ ایک ایسے ملک
میں جو ’مذہبی تجاوزات‘ سے اٹا پڑا ہے اور جس کے اندر چودہ سو سال پرانے نقشے کی
باقیات جگہ جگہ اس کا راستہ روک کر کھڑی ہیں!
سب جانتے ہیں
’مذہب‘ اِس مجوزہ نئی بستی کے نقشے سے خارج نہیں ہے، بشرطیکہ یہ ’روحانیات‘ کی
دنیا میں رہے اور ’اخلاقیات‘ میں محصور ہو کر اپنے کام سے کام رکھے اور طاغوتوں کا
کام طاغوتوں پر چھوڑ دے، عالمی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی۔
چنانچہ اِسی ایک
مقصد کےلیے یہاں ہر طرف ہم پر ’دانش وروں‘ کے غول چھوڑ دیے گئے ہیں جو ہمارے اِس
بچے کھچے نظریاتی وجود کو بڑی بے رحمی کے ساتھ بھنبھوڑ رہے ہیں۔ دینی طور پر کمزور
طبقوں کی تو بات ہی چھوڑ دیں، ’نماز روزہ‘ کرنے والا ایک اچھا خاصا طبقہ بھی یہاں
پر ’’توحید‘‘ کے بنیادی مسلمات سے اِس قدر ناواقف ہے، کہ ہمارا دشمن جانتا ہے کہ
یہ سارا طبقہ اِس سیلاب کے آگے زیادہ دیر نہیں ٹک سکے گا اور تھوڑی دیر میں یہ اُس
کے دوش پر بہنے لگے گا اور اُسی رفتار سے بہے گا جس رفتار سے وہ اِس کو بہا لے
جانا چاہتا ہے۔ حق یہ ہے کہ میڈیا اور این جی اوز کی چند سالوں کی محنت سے یہ ہدف
اچھی خاصی کامیابی کے ساتھ حاصل کر بھی لیا گیا ہے۔ وہ جانتا ہے، اِسی فریق سے وہ
خوبصورت بلا بھی تشکیل پاتی ہے جس کو ’’رائے عامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی ظالم چیز ہے کہ کسی بڑی سطح پر تو خیر
بات ہی چھوڑ دیں، کبھی آپ یہی ملاحظہ فرما لیجئے گا، کہ کسی پڑھی لکھی سوسائٹی میں
(جہاں ’’رائے عامہ‘‘ نام کی یہ مخلوق فی الحال زیادہ بستی ہے) ایک مولوی صاحب کو
خطیب مسجد رہنے کےلیے کس قدر ’سمجھدار‘ ہو کر دکھانا پڑتا ہے اور کیسے ’’سافٹ‘‘
قسم کے موضوعات چلا کر رکھنا ہوتا ہے! چنانچہ اِس پہلے فیز میں یہاں کے عام نماز
روزہ کرنے والے بابو ہی زیادہ ہدف ہیں۔ ’’رائے عامہ‘‘ کی اِس زمین پر جیسے جیسے
قبضہ ہوتا جائے گا ویسے ویسے اور اُن اُن علاقوں کے اندر اُس کا خیال ہے ’’مساجد‘‘
خود بخو اس کے زیر آب آتی چلی جائیں گی۔ چنانچہ اگلے فیز میں خدانخواستہ آپ دیکھیں
گے یہ آواز سکرینوں سے محرابوں کی جانب منتقل ہونے لگی ہے یا کم از کم اِس کے دیے
ہوئے لہجے تو ضرور ہی منتقل ہونے لگے ہیں۔
چنانچہ محض ایک
’احترامِ مذہب‘ کی قید رکھ کر، جو کہ ’’سیکولرزم‘‘ کا اپنا ہی ایک شعار ہے اور
جوکہ خاص ہمارا لحاظ کر کے اُس کی جانب سے کوئی ’سپیشل چھوٹ‘ نہیں ہے، کفر پوری
طرح دندناتا ہوا ایک نئی ’عالمی بستی‘ کے ابلیسی نقشے بغل میں دبائے ہمارے شہروں
اور محلوں میں وارد ہو رہا ہے اور اپنی اِن تعمیراتی سکیموں پر فی الفور عملدرآمد کےلیے
یہاں کا سب کچھ اکھاڑنے گرانے اور تہ و بالا کرنے میں لگا ہے۔ البتہ اِس بار اُس
کو یہاں اِس قدر ’کلمہ گو‘ لیبر حاصل ہے کہ الامان والحفیظ۔
دوسرا
واقعہ:
اِدھر، ہماری
جانب، عین اِسی وقت یہ ہوا ہے کہ ہمارا اسلامی تحریکی عمل معاشروں کے فرنٹ پر
چاروں شانے چت ہو چکا تھا۔ یہ ہم ’’سیاست‘‘ کے فرنٹ کی بات نہیں کر رہے جہاں ہمارے
تحریکی عمل کی کارکردگی کبھی بھی اچھی نہیں رہی اور نہ اسلام کے تحریکی عمل کا
مزاج اِس شاطرانہ سیاست کے محاذ پر کوئی اچھی کارکردگی دے سکتا تھا۔ یہ اُنہی کی
چیز تھی اور اُنہی کو مبارک۔ ہم بات کر رہے ہیں معاشرتی عمل کے فرنٹ کی، جہاں پر
ہماری تحریکی قوت بہت کچھ کر سکتی تھی بلکہ ہم پورے یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ
معاشرتی فرنٹ پر اگر ہماری تحریکیں زندہ ہوتیں تو گلوبلائزیشن کی مسلط کردہ یہ جنگ
معاشرتی محاذ پر ہمارے لئے وہ زبردست موقعہ لے کر آئی تھی کہ یہاں کفر کی سب
تنصیبات ایک ایک کر کے دھڑام سے گرتیں اور یہ نظریاتی و تہذیبی جنگ لڑنا ہماری
کھوئی ہوئی ’’دولت‘‘ تک ہمیں واپس لا کر دیتا، اور بخدا اب بھی اگر ہم یہ کر لیتے
ہیں تو یہ خوبصورت واقعہ رونما ہو جانا اللہ کے فضل سے بالکل بعید نہیں۔
بہرحال ہم تجزیہ
کر رہے ہیں اِس موجودہ صورتحال کا۔ یہ دو واقعے ایک ساتھ رو نما ہوئے، یعنی co-incidence ۔ اُدھر کافر ملحد گلوبلائزیشن کے یہ جھکڑ چلنے کا وقت تھا، اِدھر
ہماری گلیوں کے، اسلامی نظریاتی تحریکی عمل سے خالی ہو کر، سائیں سائیں کرنے کا
وقت تھا۔ وہ آئے، اُنہوں نے میدان کو مکمل خالی پایا، اور وہ چھا گئے۔ اب یہ
یونیورسٹیاں ہیں تو اُن کی۔ کالج ہیں تو اُن کے۔ ذہن سازی کے سب فورم ہیں تو اُن
کے۔ اور میڈیا کا تو خیر نام ہی مت لیں... اور ہم میدان سے باہر!
یہ تجزیہ بھی
نہایت غیر حقیقی ہو گا کہ ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے جنود کی یہ ناگہانی پیش قدمی اِس بات
کا باعث بنی کہ ہمارا اسلامی تحریکی عمل دیکھتے ہی دیکھتے میدان سے باہر ہو گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے یہ نئے جھکڑ کتنے بھی زوردار ہوں، ہمارے تحریکی
عمل کے بے جان ہونے کو ان سے کوئی علاقہ نہیں۔ ہمارے تحریکی عمل کا ضعف خالصتاً
اندرونی ہے۔ یہ کسی نظریاتی جنگ کا علم اٹھا ہی نہیں سکتا تھا؛ اِس کے اپنے ہی
درون کو ایک بے حد بڑا نظریاتی بحران لاحق تھا۔ اور اگر آپ اِس بات کے قائل ہیں کہ
حالات کی اپنی بھی ایک زبان ہوتی ہے اور وہی سب سے بڑھ کر سنی بھی جاتی ہے، تو ’’حالات
کی زبان‘‘ تو یہی کہتی ہے کہ بیشک یہاں نوجوانوں میں اسلام کےلیے حمیت اور فدائیت
کی نہایت اعلیٰ سطح پائی جاتی ہے اور جوکہ کفر کے ساتھ میدان سجانے کےلیے ہمارا
ایک بہت بڑا رأس المال ہو سکتا تھا، نیز بیرون میں جہاد کے محاذوں پر بھی اُن کی
کارکردگی اللہ کے فضل سے دیدنی ہے.. مگر ایک باقاعدہ تحریکی عمل جو نظریاتی اور
سماجی میدانوں کے اندر یہاں کفر کے ساتھ دو دو ہاتھ کر رہا ہوتا اور تاریخ کے اِس
برہنہ ترین باطل کے خلاف قوم کی صفیں بنوا رہا ہوتا، ایک ایسا باقاعدہ تحریکی عمل
ملکِ پاکستان میں اِس وقت پایا ہی نہیں جاتا... محض کمزور نہیں سرے سے نہیں پایا
جاتا۔
وہ بڑے بڑے سوال
جو گلوبلائزیشن کی اِس حالیہ ہوش ربا پیش قدمی نے کھڑے کر دیے ہیں، اور جن کا کچھ
جائزہ ہم پچھلی فصل کے اندر بھی لے آئے ہیں، ہمارا یہ تحریکی عمل اِن چیختے دھاڑتے
سوالات کو سلجھانے میں آخری حد تک ناکام ہے تو اس کی وجہ خالصتاً اِس کا اپنا
نظریاتی اِفلاس ہے۔ صدیوں سے ہمارے یہاں جڑیں بنا رکھنے والا اِرجائی فکر، جس کی
کچھ ہی برف ہمارے برصغیر میں سید مودودیؒ کی حرارتِ فکر نے پگھلائی تھی اور جس کو
مزید ڈائنامائیٹ کی ابھی اچھی خاصی ضرورت تھی.. وہ ارجائی فکر اب پھر سے ہماری
تحریکی دنیا کے ایک بڑے طبقے کو لوریاں دے دے کر سلا رہا ہے۔ چنانچہ یہاں جو فکر
دستیاب ہے، اور جو کہ بڑی حد تک ’’ارجاء‘‘ پر استوار ہے، نیند اور بے ہوشی کا پورا
ایک نسخہ خود اس کے اندر شامل ہے۔ ایسے نازک وقت میں جب زمانہ ’’چال قیامت کی‘‘ چل
گیا ہے، ضرور ہمارے اِن سب اصحاب کا بھی جی چاہتا ہو گا کہ جاگیں اور جگائیں، بلکہ
کس کا جی یہ نہ چاہتا ہوگا کہ وہ امت کو اٹھائے اور اس کو لاحق اِن سب خطرات کا
قلع قمع کر دے.. مگر وہ بڑی بڑی خوراکیں جو کئی صدیوں سے ’’مرجۂ‘‘ کے پنسار سے لے
لے کر امت کو دی جاتی رہی ہیں اور برابر دی جا رہی ہیں اور جن کی بے تحاشا کھپت
خود ہمارے تحریکی حلقوں کے اندر ہو رہی ہے بلکہ آج بھی اِن تحریکی حلقوں کے زیر
اہتمام ’’اِرجاء‘‘ کی کچھ بڑی بڑی پڑیاں اکسیر صحت کے طور پر قوم کو دی جا رہی ہیں...
’’ارجاء‘‘ کی یہ خوراکیں ہی یہاں پر ’’تحریک‘‘ اور ’’بیداری‘‘ کا ایک حقیقی زوردار
عمل کھڑا کر دینے کے اندر مانع ہیں۔
چنانچہ یہ کچھ
دیرینہ فکری عارضے ہیں جنہوں نے آج ہمارے تحریکی عمل کے پیر باندھ رکھے ہیں۔ چلنا
سب چاہتے ہیں مگر پیر ہیں کہ ساتھ نہیں دیتے۔ اِس کے اسباب بیرون میں تلاش کرنا
فضول ہے، بلکہ گمراہ کن ہے اور ہمارے اِس قافلے کے جادہ پیما ہونے کو مزید موخر کر
دینے کا باعث ہے؛ یہ مردنی اور ضعیفی جس نے ہمارا یہ حشر کر رکھا ہے دراصل ہمارے
اِس نظریاتی اِفلاس سے ہی پھوٹ رہی ہے اور اس کی جڑیں عقیدہ کے عدم فہم تک جاتی
ہیں ... اور اِس کے باعث آج یہ صورتحال ہے کہ موت کے ساتھ ’’مصالحت‘‘ اور ’’ری
کونسائل‘‘ کر لینے سے بہتر کوئی منہج ہمیں سجھائی نہیں دے رہا!
یہ نظریاتی
اِفلاس نہ ہوتا تو گلوبلائزیشن کے اِن تیز طوفانی جھکڑوں کے مدمقابل کیا ہمیں آج
یہاں پر ’’کومپرومائز‘‘ اور ’’ری کونسائل‘‘ کے یہ لہجے سننے کو ملتے جو ہماری اِن
دینی جماعتوں کے ہاں سے مسلسل نشر ہو رہے ہیں؟؟؟اِس فکری اپروچ کو آخر آپ کیا نام
دیں گے جو اس موت کے ساتھ جس کا پیغام ’’سیکولرزم‘‘ کا یہ فنامنا بڑی دیر سے ہمیں
دے رہا ہے ’’مصالحت‘‘ میں امت کا بے حد و حساب بھلا دیکھے.. اور اِس موت کے ساتھ
’’جنگ‘‘ چھیڑ لینے میں امت کا نقصان؟؟؟
*****
چنانچہ یہ صورتحا
ل ہرگز اتنی مایوس کن نہیں جتنی کہ نظر آتی ہے۔ یہ محض اِن دو واقعات کا (
تَزَامُن) co-incidence ہے جو ایک دم
ہمیں اِس قدر مایوس کن صورتحال میں لے گیا ہے، یہاں تک کہ اندھیرا ہی اندھیرا
دکھائی دینے لگ گیا ہے۔ ورنہ ہمارا مستقبل، اللہ کے فضل سے، جتنا پہلے روشن تھا آج
اس سے کہیں بڑھ کر روشن ہے۔
معاملہ نہایت
واضح ہے۔ ملحد گلوبلائزیشن کے یہ سب نقارے اپنے اِس پورے ثقافتی طائفے choire سمیت جو یہاں اودھم مچا رہا
ہے، امت اسلام کےلیے صاف صاف موت کا پیغام ہیں۔ اِس پیغام کو اِسی صراحت کے ساتھ
پڑھنا اور امت کو پڑھانا ضروری ہے۔ محض یہ پیغام ہی پڑھ لیا جائے اور امت کو پڑھا
دینے پر کمربستہ ہو لیا جائے تو خاصا بڑا کام ہو جاتا ہے (اور ظاہر ہے اِس کےلیے
بھی اصولِ عقیدہ کا صحیح فہم ضروری ہے، ورنہ یہ ممکن نہیں)۔ اور صاف ظاہر ہے یہ
امت مرنے کےلیے نہیں ہے، اور جبکہ موت سے لڑنا دنیا میں ہر کسی کا حق۔ لڑے بغیر
چارہ نہیں۔ ہاں یہ ایک بات واضح ہے: وہ طبقے جو اِس موت کے ساتھ ’’مصالحت‘‘ اور
’’ریکونسائل‘‘ کے لہجوں کو فروغ دینے میں لگے ہیں اِس کارزار میں امت کو راستہ
دکھانا یا اِس کو لے کر چلنا اُن کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ یہاں وہ قیادتیں درکار
ہیں جو ’’موت‘‘ کے ساتھ صلح نہیں بلکہ جنگ کا چیلنج قبول کرنے والی ہوں۔
محض یہ دیکھ کر
کہ باطل کے داعی اِس بار ’کلمہ گوئی‘ کا لبادہ اوڑھ کر آئے ہیں یا وہ ’احترامِ
مذہب‘ ایسے چند الفاظ بول دینے لگے ہیں، ہم باطل کے ساتھ جنگ کا اپنا پورا منہج
بدل دیں اور قوم کے ہاتھ سے بھی ہتھیار لے کر رکھوا دیں.. یہ کسی بات کی دلیل ہے
تو وہ یہ کہ قوم سے پہلے خود ہمیں ’’توحید‘‘ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ’’عقیدہ‘‘ کے کچھ بنیادی اسباق پڑھ لئے جائیں، تو اِس باطل کے
خلاف اور ’’عبادتِ طاغوت‘‘ کے اِس پورے عمل کے خلاف دنیا ہمیں ہتھیار
سونتتا اور پوری قوم کو ہتھیار اٹھواتا ہوا دیکھے گی۔ اِس باطل سے ہم مریں گے تو
صرف غفلت کے ہاتھوں۔ ہاں میدان برپا کر لیں گے تو نہ ہم مرنے کےلیے ہیں اور نہ
ہمارا دین اور ہمارا عقیدہ ایسا ہے جو ہمیں مرنے دے۔ مرے وہ جس کے پاس دین نہیں۔
یہاں ایک بار پھر یہ واضح کر
دینا ضروری ہے کہ مغرب کا ’’دین‘‘ جسے وہ اِس وقت پوری قوت کے ساتھ ہم پر تھوپنا
چاہتا ہے، ’عیسائیت‘ نہیں بلکہ ’’سیکولرزم‘‘ ہے۔ ’’عیسائیت‘‘ اُس کے ایک طبقے کا
’مذہب‘ ضرور ہے، البتہ اُس کا ’’دینِ عام‘‘ سیکولرزم ہی ہے جس کو وہ پوری دنیا پر
غالب کرنے کے درپے ہے، اور جس کو وہ اِس گلوبل ولیج کے ہر شخص کا ’’دین‘‘ بنا دینے
پر بضد ہے۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل کےلیے دیکھئے گزشتہ فصل بہ عنوان ’’مسلمانوں کو
اپنا دین چھوڑنا ہو گا‘‘، نیز ہمارے اس پمفلٹ کی فصل 3 (اس بار اندھیرا میرے اندر سے
اٹھا ہے) کا حاشیہ 2 اور فصل 4 (طے نہیں ہو پا رہا ان بدیسی اشیاء کو کہیں کیا) کا
حاشیہ 6۔
رائے عامہ‘‘ کے
ذریعہ سے دشمن کس طرح ہماری اسلامی تحریکوں تک کو نکیل ڈالتا ہے اور اپنے دیے ہوئے
دھارے کے ساتھ ہی ان کو طوعاً وکرہاً چلنے کی پوزیشن میں لا کر رکھتا ہے، اِس پر
دیکھئے ایقاظ کا اداریہ ’’اِس سے پہلے کہ گھیرا تنگ ہو جائے‘‘ صفحہ ۴۰ تا ۴۶۔ علاوہ ازیں اداریہ ’’تیز حرکت،
بند راستہ‘‘، نیز اداریہ ’’نظام نہیں عقیدہ ہی تبدیل ہونے والا ہے‘‘۔