- شرح دعائے قنوت
تحریر: حامد کمال الدین
22
لَا
أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
"میری طاقت نہیں کہ
تیری ثناء کا احاطہ کروں۔ بس تیری شان وہ جو تو خود اپنی صفت کرے"۔
ابن
عبدالبرؒ شرحِ حدیث کے تحت امام مالک کا قول لاتے
ہیں: میں نہ تیری نعمتوں کا شمار کر پاؤں۔ نہ تیرے کرم کی وسعت کا اندازہ اور نہ
ان اشیاء کے بیان سے کبھی تیری تعریف کا حق ہی
ادا کر پاؤں، چاہے تیری ثناء کرنے میں اپنا پورا زور کیوں نہ صرف کر لوں۔ نیز کہتے ہیں: { أَنْتَ كَمَا
أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ ’’تو جیسے اپنی تعریف خود کرے‘‘} دلیل ہوئی اس
بات پر کہ کوئی تعریف کرنے والا اُس تعریف
کو نہیں پہنچ سکتا جو خدا اپنی بابت خود فرمائے۔ پس جو شخص خدا کا ایسا وصف کرے
جو خدا نے اپنی بابت خود نہیں بولا تو وہ خدا کی بابت
بغیر علم بولا، جس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ جبکہ اُس ذاتِ کبریاء کی
بابت ہمیں معلوم ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ’’کوئی اس کی مثل نہیں‘‘۔ یہاں اندازے کیا کریں گے؛ اُس کا وصف کرنے کےلیے تو خود اُسی کے پاس
سے آیا ہوا علم درکار ہے۔ (الاستذکار مؤلفہ ابن عبدالبر ج 2 ص
531)
نووی
شرحِ حدیث میں کہتے ہیں: یعنی میں اپنی بےبسی کا اعتراف کرتا ہوں کہ تیری
تعریف کا حق ادا کروں۔ ہو بھی کیسے جب صفاتِ خداوندی کی کوئی انتہاء نہیں۔ ثناء تو
اُس کی صفت کو جاننے کے تابع ہوئی۔ جب ایک ہی صفت کا احاطہ نہ ہو، پھر اُس کی صفات
کا بھی کوئی شمار نہ ہو، تو ثناء کیسے ہو۔
(شرح مسلم ج 4 ص 204)
سیوطیؒ فضیل بن عیاض کا
قول لاتے ہیں: یہاں خدا کے عارف کی بس ہو گئی۔ جیسے ہی اِس کی نظر اُس کی صفاتِ
جلال، اُس کے کمالِ ذات، اُس کی صمدیت، قدوسیت، عظمت، کبریاء اور جبروت پر پڑی،
خیرہ ہو کر رہ گئی، اور یہ لگا بےبسی میں کہنے: میں تیری تعریف کیا کروں تو خود ہی
اپنی جو تعریف فرما دے۔ دراصل یہ وہ مقام ہے جہاں اِس کی عقل، فکر، ادراک، دانائی
سب جواب دے گئی اور اِس نے اُس کی تعریف سے اپنے عاجز ہونے کو ہی اُس کی تعریف کا
پیرایہ بنا لیا۔ انسان کے حق میں درحقیقت یہ علم کی انتہا ہے۔ صدیقِ اکبر کا ایک
قول ہے: ادراک سے عاجز ہونے کا ادراک ہی اصل ادراک ہے۔ سیوطیؒ یہاں ابن اثیر کا
کلام بھی نقل کرتے ہیں: پہلے اِس کی نظر
افعال و صفاتِ خداوندی پر گئی یعنی اُس کا عقوبت دینا، اُس کا درگزر فرمانا، اُس
کا قہر اور اُس کی رضا۔ ذرا اور قریب ہوا تو صفات سے ذات پر چلا گیا، تب بولا: أَعُوذُ
بِكَ مِنْكَ۔ اس قرب میں سوائے ثناء کے کچھ
نہ سوجھا مگر خیال آیا کہ میرا تو دامن خالی ہے کہاں میں اور کہاں تیری ثناء، تب
بولا لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ ۔ لیکن پھر دیکھا
کہ اُس کی ثناء میں کچھ تو کہنا ہے، تو بولا: أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ۔ یوں کچھ بھی نہ کہا اور سب کچھ کہہ گیا!
(حاشیۃ السیوطی علىٰ سنن النسائی ج 1
ص 103)
ملا علی قاری کہتے ہیں:
یہاں چند افعال یا صفات جمالِ خداوندی کی بیان ہوئیں جیسے رضا اور معافاۃ۔ اور چند
افعال یا صفات جلالِ خداوندی کی، جیسے قہر اور عقوبت۔ اور آخر ذاتِ خداوندی ہی کی
پناہ لے لی۔ یہ دراصل وہی مضمون ہے جو قرآن
میں اِن الفاظ کے تحت بیان ہوا: فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ’’تو بھاگ پڑو اللہ
کی طرف‘‘۔ نیز وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ’’اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے‘‘۔ نیز وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ
تَبْتِيلًا ’’سب سے کٹ
کر اُسی کے ہو رہو‘‘۔ یعنی تمہاری نظر سے اُس کے سوا سب کچھ روپوش ہو گیا ہو اور
بس تم اُس کے سہارے جینے لگو۔ غالباً یہ وہ راز ہے کہ توحید کا یہ مضمون (مقامِ فردیت) صلاۃِ وتر (جس میں یکتائی کا ایک معنىٰ
ہے) کے آخر میں لایا گیا۔ اِس دعاء میں
توحیدِ افعال بھی ہے، توحیدِ صفات بھی اور توحید ذات بھی۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ
المصابیح ج 3 ص 952)
پورا کتابچہ ایک پی ڈی ایف فائل میں خطِ نستعلیق کے ساتھ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
قنوتِ وتر کی تینوں دعاؤں کے متن یکجا یہاں سے حاصل کریں۔
شرح دعائے قنوت مین پیج کےلیے یہاں کلک کریں۔