رمضان.. اور شعائرِ خداوندی کی تعظیم
|
:عنوان |
|
|
نماز کا چھوٹنا شاید کوئی ہلا دینےوالی چیز نہیں رہ گئی (جوکہ افسوسناک ہے اور لمحۂ فکریہ) بلکہ اکثر لوگوں کےلیےشاید کوئی واقعہ نہیں۔ تاہم کسی کو روزہ چھوڑےہوئے دیکھنا ابھی تک معاشرے میں اچھااصا ردعمل پیدا کرتاہے |
|
|
رمضان.. اور شعائرِ
خداوندی کی تعظیم
رمضان میں خودبخود ’’شعائرِ خداوندی‘‘ کی تعظیم کا
ایک رجحان جنم لیتا ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ چند اشیاء میں محدود رہنے کی بجائے
’’شعائرِ خداوندی‘‘ کے ایک وسیع تر مفہوم میں ڈھل جائے۔
رمضان خود اسلام کے شعائر میں سے ایک ہے۔ رمضان کا
روزہ چھوٹ جانا ایک عام سے عام مسلمان کے دل پر ایک خوف اور ہیبت طاری کرتا ہے۔ وہ
کسی کو رمضان میں کھاتا پیتا دیکھے تو اس
کے اندر ایک غیرت اور حمیت جاگ اٹھتی ہے اور وہ اس کو شرم دلانے کےلیے بےچین ہوتا
ہے۔ کم از کم بھی اُس کو معیوب اور نظر سے گرا ہوا جانے گا۔ یہ ہے شعائرِ خداوندی
کی تعظیم۔ جسے سورۃ الحج میں ’’قلوب کے تقویٰ‘‘ سے جوڑا گیا ہے (ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ
اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ)۔ یعنی
وہ نمایاں اشیاء جو خدا کے نام سے جڑی ہوئی
اور خدا کی شان اور مقام کی یاد دلاتی ہیں۔ جیسے خانہ کعبہ۔ صفا و مروہ۔
قربانی۔ مناسکِ حج۔ اذانوں اور تکبیروں کا بلند ہونا۔ مساجد۔ جلی فرائض اور ان سے
متعلقہ مظاہر۔ ناموسِ دین۔ ناموسِ رسالت۔ ناموسِ انبیاء۔ مصحفِ قرآنی۔ خدا کے حرام
ٹھہرائے ہوئے جلی امور۔ ابن جریر طبری کی اختیارکردہ وسیع تر تفسیر (آیت 2، سورۃ
المائدۃ) کی رُو سے یہ سب ’’شعائر‘‘ میں آتے ہیں۔ مختصراً آپ کہیں : خدا کی شان اور تعظیم کا پتہ
دینے والی اشیاء کو قلبی، وجدانی اور سماجی سطح پر ایک ہیبت اور ایک حرمت حاصل
ہونا۔ یہ ہے تعظیمِ شعائر اللہ۔ یہ ’’عبادت‘‘ کی جان ہے اور تدیُّن (دینداری) کی
اصل روح۔ ’’مسلمانی‘‘ اصل میں یہ ہے۔
پس ایک ایسے وقت میں جب ’’شریعت‘‘ معاذاللہ کوئی چیز
نہیں رہ گئی ہے، جب ’’خدا‘‘ کو اور اس کے ’’رسولوں‘‘ کو معاذاللہ معاشروں سے باہر
کردینے کی کچھ منظم ترین کوششیں ہونے لگی ہیں اور اِس ابلیسی ایجنڈا کو ہر سطح پر
آگے بڑھانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا ہے... یہ ایک نہایت غنیمت کی بات
ہے کہ ’’رمضان کی حرمت‘‘ دلوں پر پھر بھی ایک دھاک رکھتی ہے۔ ’’نماز‘‘ کا چھوٹنا
شاید کوئی ہلا دینے والی چیز نہیں رہ گئی (جوکہ افسوسناک ہے اور لمحۂ فکریہ بھی)،
بلکہ اکثر لوگوں کےلیے شاید کوئی واقعہ بھی نہیں۔ تاہم کسی کو روزہ چھوڑے ہوئے
دیکھنا ابھی تک معاشرے میں اچھاخاصا ردعمل پیدا کرتا ہے، گو یہ بھی تیزی سے نیچے جا رہا ہے اور معاشروں
کے حالیہ تشکیلی عمل میں یہ بھی بڑی رفتار کے ساتھ تہہ آب لایا جارہا ہے لیکن اس کے بہت سے نشانات ابھی باقی ہیں۔ ’’حرمتِ رمضان‘‘ کے
اِن جذبات اور اِن مظاہر کو ’’شعائراللہ‘‘ کی ایک وسیع تر تعظیم کی جانب
لےچلنا، نفس اور معاشرے کےاندر ’’خدا اور رسول‘‘ کےلیے شرم پیدا کرانا؛ کہ جہاں ان
ہستیوں کے آگے آدمی کی نگاہیں جھک جائیں، ان کی بولی ہوئی بات پہاڑ سے بھاری جانی
جائے، ان کا بولا ہوا ایک ایک لفظ ’’دستور‘‘ اور ’’پتھر پر لکیر‘‘ مانا جائے، اور
ان کے بولے ہوئے کے آگے کسی کی کوئی حیثیت نہ رہنے دی جائے... غرض ’’خدا اور
رسول‘‘ کی ایک دھاک دلوں پر بٹھانا؛ یہ بھی ’’تقوی القلوب‘‘ سے ہے۔ وہ تقویٰ جو
آیتِ صیام کے آخر میں ذکر ہوتا ہے: لعلکم تتقون۔
’’تقویٰ‘‘ کی یہ جہت... آج جب اِن معاشروں کی ایک
تشکیلِ نو ہورہی ہے، اور اس سے پہلے عقول کی تشکیلِ نو ہو رہی ہےاور قلوب کو ایک
نئی ساخت دی جا رہی ہے... ’’تقویٰ‘‘ کی یہ جہت آج پہلے کسی بھی دور سے زیادہ اہم
ہوگئی ہے۔
(الحج: 32) ’’یہ ہے بات، اور جو شخص اللہ کے نشانات کی تعظیم کرے تو یہ دلوں
کی پرہیزگاری سے ہے‘‘۔
|
|
|
|
|
|