عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, May 17,2024 | 1445, ذوالقعدة 8
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
شریعت میں ’ابہام‘ اور ’اختلافات‘!
:عنوان

سٹرکچر (قطعیات) پر اہل اسلام کےمابین کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ اس حد تک آپ شریعت کے گھیرےمیں خودبخود آجاتےہیں۔ آگےاس “سٹرکچر” کی فِلنگ آپ فقہائےاسلام کی اس رائےسےکریں یا اس رائےسے، اس سےکوئی بنیادی فرق نہیں آئےگا

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

ذیلی مبحث 2: تعلیق 19[1]

شریعت میں ’ابہام‘ اور ’اختلافات‘!!!

جب ہم کہتے ہیں کہ شریعت بذاتِ خود آئین ہے.... تو اشکال پیش کیا جاتا ہے:

جناب شریعت سر آنکھوں پر، لیکن آپ تو جانتے ہیں شریعت کی تعبیر اور تفسیر میں علماء کے مابین کتنا اختلاف ہے۔ حدیث کی تو نصوص ہی کے معاملہ میں صحیح اور ضعیف کی اچھی خاصی بحث نکل آتی ہے۔ جبکہ آیات کی تفسیر میں بھی بےشمار مقامات پر اہل علم کی آراء مختلف ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا شریعت کی اپنی تعبیر اور تفسیر میں ہی جب بہت سے احتمالات موجود رہتے ہیں تو شریعت ’’آپ سے آپ‘‘ آئین کیسے؟ شریعت کو ہم آئین کی جگہ ضرور رکھ دیتے لیکن آئین تو کچھ ایسی واضح، غیر مبہم عبارتوں کا متقاضی ہوتا ہے جن میں تعددِ مفہومات کا کوئی احتمال نہ ہو اور روایتوں کے ثبوت و عدمِ ثبوت کی کوئی بحث نہ ہو، جبکہ نصوصِ شریعت میں یہ دونوں مسئلے موجود ہیں۔ لہٰذا شریعت کو ’’بذاتِ خود آئین‘‘ کیسے کہا جائے؟

ہمارا جواب: 

دورِ حاضر میں ’’آئین‘‘ کے نام پر دنیا جس چیز سے واقف ہے، آسانیِ مبحث کی خاطر اُسے ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

1.        مملکت کا انتظامی ڈھانچہ administrative structure  ، تقسیمِ کار  division of jobs and offices اور اس سے متعلقہ تفصیلات اور جداول schedules ۔ آئین کے اِس پہلو کےلیے  شرط صرف اتنی ہے کہ وہ شریعت کے تابع  subject to the Shairah  رہے۔ باقی اِس حصے کو آپ جیسے مرضی بنائیں، بدلیں، چلائیں؛ شریعت کی جانب سے اس پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ امور جب شریعت نے امت کے اہل و عقد پر ہی چھوڑ دیے ہیں تو پھر وہ ان کے اندر تصرف کرنے میں بھی آزاد ہیں۔ دستور کے اِس حصے پر پچھلے اشکال[2]   کے ازالہ میں ہم کچھ وضاحت کر آئے ہیں۔

2.        آئین کا دوسرا پہلو اجتماعی زندگی کے اصول و مبادی سے متعلق ہوتا ہے۔ اس میں ’’اجتماع‘‘ کی بنیادیں اور حدود متعین کی گئی ہوتی ہیں (جس کا نتیجہ خود وہ مملکت ہوتی ہے)۔ ’’اختیارات‘‘ کا وہ پورا نقشہ ہوتا ہے جس سے مالکِ کائنات کےلیے مانا گیا ’’مقام‘‘ بھی خودبخود سامنے آجاتا ہے اور اُس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور اُس کے نازل کردہ شرائع کےلیے تسلیم کی گئی ’’حیثیت‘‘ بھی متعین ہوجاتی ہے۔ خدا اور رسول کے تشریعی اختصاصات legislative powers   واضح ہوجانے کے بعد انسانوں کے عقل و فیصلہ کےلیے جو گنجائش بچتی ہے اُس کا بھی آپ سے آپ تعین ہوتا ہے۔ ’’بنیادی حقوق‘‘ basic rights   کا تقرر ہوتا ہے۔  ’’فرائض‘‘ اور ’’پابندیوں‘‘ کا نہ صرف ایک تصور بلکہ ایک فریم ورک بھی سامنے آتا ہے۔ اَدیان، اَرواح (دِماء)، اَموال، اَعراض (آبروؤں) اور فروج (شرمگاہوں) ایسے مسائل پر اثرانداز ہونے والے کئی ایک راہنما اصول اسی ’کانسٹی ٹیوشن‘ میں سموئے گئے ہوتے ہیں۔ احکام کو اخذ یا وضع کرنے کا طریقہ اور حدود و قیود مقرر کی جاتی ہیں۔ غرض اِن تمام جوانب سے کسی ملک کا آئین وہاں کی اعلیٰ ترین سند ہوتی ہے۔ ’’دستور‘‘ سے اوپر ’’دستوری طور پر‘‘ کچھ نہیں ہوتا۔ ہر چیز دستور کے تابع subject to the constitution  ہوتی ہے اور دستور کسی چیز کے تابع subject  نہیں ہوتا۔ ہر وہ چیز جو دستور سے متصادم ہو اپنے حکم اور اپنے لاگو ہونے کے معاملہ میں کالعدم ٹھہرتی ہے اور دستور اس پر غالب و حاوی superior   (العیاذ باللہ ’’مھیمناً علیہ‘‘) ہوتا ہے۔

ہمارا سارا اعتراض دستور کے اِس دوسرے پہلو کے حوالے سے ہوتا ہے۔

’’آئین‘‘ کے اِس اصل قابل اعتراض پہلو کو سامنے رکھ کر براہِ کرم اب ہماری گزارشات ملاحظہ فرمائیے:

مذکورہ بالااشکال کا مفصل جواب ہمارے محترم استاد شیخ صلاح الصاوی نے اپنی کتاب ’’تحکیم الشریعۃ ودعاوی الخصوم‘‘ فصل ’’دعویٰ اختلاف الفقھاء وتعدد تجارب التطبیق‘‘ میں دے رکھا ہے۔ ہم یہاں اسے اپنے اسلوب میں اختصار کے ساتھ بیان کریں گے:

شریعت خواہ قرآن میں بیان ہوئی ہو یا حدیث میں... دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے:

1.        ایک ہے: شریعت کا وہ حصہ جسے ہم قطعیات کہتے ہیں۔ جیسے:

                         i.            توحید۔

                      ii.             رسالت۔

                    iii.            نماز کی فرضیت۔

                     iv.             زکات، روزہ اور حج وغیرہ کی فرضیت۔

                       v.            نیز اِن اشیاء کی فرضیت: مانند

                                                       i.      دعوت (اللہ تعالیٰ کی خدائی اور محمدﷺ کی رسالت پر کافروں کے ساتھ اپنا اختلاف سامنے لانا اور اُنہیں اپنا دین چھوڑ کر محمدﷺ کا حلقہ بگوش ہونے کی جانب بلانا)،

                                                    ii.       جہاد (اعلائے کلمۃ اللہ کےلیے کافروں کے ساتھ جنگ)،

                                                  iii.      قصاص (خون کے بدلے خون یا اعضاء کے بدلے اعضاء) اور دیت (خون بہا معاوضہ)،

                                                   iv.       حدود: مانند زانی یا چور یا شرابی کی سزا وغیرہ

                     vi.             نیز اِن اشیاء کی تقریر: جیسے نکاح، طلاق، میراث، بیوع وغیرہ۔

                   vii.            نیز اِن اشیاء کی حرمت: جیسے

                                                       i.      سودی لین دین

                                                    ii.       جوئے پر مشتمل مالی عقود

                                                  iii.      فحاشی اور بےحیائی پر مبنی سرگرمیاں

                viii.             مملکتِ اسلام پر خدا کی جانب سے یہ فرض عائد ہونا کہ وہ:

                                                       i.      ملک میں نماز قائم کروائے

                                                    ii.       زکات کا ادارہ چلائے

                                                  iii.      امر بالمعروف کرے )یعنی نیکی کو معاشرے میں پزیرائی دلوانے اور مضبوط کرنے کیلئے سب ممکنہ تدابیر اختیار کرے)

                                                   iv.       نھی عن المنکر کرے (یعنی برائی کے خاتمہ کےلیے ممکنہ ذرائع اور وسائل اختیار کرے)۔

                     ix.             وغیرہ۔ یہ ہوا ’’قطعیات‘‘۔

2.        شریعت کا دوسرا حصہ وہ ہے جسے ہم ’’ظنیات‘‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ اشیاء ہیں جن میں یا تو ثبوت کے لحاظ سے اہلِ شریعت کا اختلاف ہوا ہے یا دلالت (تعبیر و تفسیر) کے لحاظ سے، یا  پھر ثبوت اور دلالت دونوں لحاظ سے۔ جیسے:

                         i.            نماز کے بعض  جزئی مسائل جن پر امت کا اختلاف ہوا ہے،

                      ii.             زکات، روزہ یا حج کے بعض ایسے مسائل جن میں فقہائے اسلام کے ہاں تعددِ آراء پایا جاتا ہے،

                    iii.            قصاص اور حدود کے بعض ایسے جزئی مسائل جو فقہائے اسلام کے ہاں مختلف فیہ ہیں۔ یا نکاح، طلاق اور میراث وغیرہ سے متعلق ایسے امور جن میں فقہائے سنت کے ہاں ایک سے زیادہ رائے پائی جاتی ہیں۔

                     iv.             یا سود اور جوئے سے متعلقہ کچھ ایسے مسائل جن میں کسی ایک فقہی مذہب کی رائے کچھ ہے تو کسی دوسرے فقہی مذہب کی رائے کچھ اور۔

                       v.            وغیرہ

قطعیات اور ظنیات کا یہ فرق نہایت بامعنیٰ ہے اور اس سے شریعت کی لاتعداد حکمتیں وابستہ ہیں۔ اب اگر شریعت کے قطعیات اور ظنیات کی یہ تقسیم واضح ہوگئی تو...:

‌أ)       جہاں تک شریعت کے ’’قطعیات‘‘  کا تعلق ہے تو وہ تو خودبخود آئین ہیں۔ اِن پر نہ بحث ہوگی، نہ ووٹنگ، نہ کوئی مفاہمت، نہ اجتہاد اور نہ کبھی بھی کوئی تبدیلی۔ یہ آئینِ شریعت کا اصل ڈھانچہ main structure   ہے۔ اس پر آجانے سے آپ خودبخود شریعت کی شاہراہ پر چڑھ آتے ہیں۔

‌ب)   البتہ ’’ظنیات‘‘ کے معاملہ میں:

‌أ)         اگر معاملہ انفرادی ہے تو لوگوں کو ان کے اختیار کردہ تحقیق یا مسلک پر چھوڑ دیا جائے گا۔

‌ب)     اور اگر معاملہ اجتماعی ہے تو وقت کے اہلِ علم اپنے اجتہاد سے کسی ایک رائے کو دستور ٹھہرا دیں گے۔ کل کو وہ اس پر کوئی اور اجتہاد کر لیں اور اس سے مختلف کوئی رائے اپنا لیں، اس کی بھی پوری گنجائش ہے۔

’’قطعیات‘‘ اور ’’ظنیات‘‘ کی یہ تقسیم شریعت کو درحقیقت ایک حسن دیتی ہے۔ یہاں خدا کی مقررکردہ حدود اور انسانی اجتہاد کا ایک حسین امتزاج سامنے آتا ہے:

1.        اب مثال کے طور پر... ’’سود کی حرمت‘‘ شریعت کے قطعیات میں آتی ہے۔ لہٰذا:

                    i.            ’’سود کی حرمت‘‘ خودبخود آئین ہے۔ ’’سود کی حرمت‘‘ کے ’’آئین‘‘ ہونے کو کسی ’دوتہائی‘ یا کسی ’اکثریت‘ سے پاس ہونے پر موقوف ٹھہرانا ایک نہایت عظیم الحاد ہوگا۔ جو آدمی ’’سود کی حرمت‘‘ کو آئین نہیں مانتا مسلم معاشرے میں اس کے مسلمان ہونے پر ہی سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہو گا۔

                  ii.            وہ سب امور جن کے ’’سود‘‘ ہونے پر فقہائے اسلام کے مابین کوئی اختلاف نہیں خودبخود اس کے ساتھ ملحق ہوں گے۔ یعنی ان سودی عقود کی ممانعت خودبخود ’’آئین‘‘ ٹھہرے گی۔ کسی کا ان امور سے لاعلم ہونا اگر فرض کر بھی لیا جائے تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے ’ماڈرن سٹیٹ‘ میں کوئی شخص اپنے ملک کے آئین کی کسی بات سے ناواقف ہو۔ ’’ماہرینِ آئین‘‘ (فقہائے شریعت) جوں ہی اُسے بتائیں گے کہ اِس مسئلہ کے سود ہونے پر فقہائے اسلام کا کوئی نزاع نہیں، توں ہی اُس کو ’’آئین‘‘ کے اِس مسئلہ کا علم ہو جائے گا۔

               iii.            ہاں لین دین کے وہ معاملات جن کو فقہائے شریعت (شریعت کو سمجھنے والے مستند علماء) میں سے کسی ایک فریق نے سودی شمار کیا ہے تو کسی دوسرے فریق نے غیرسودی شمار کیا ہے... تو ایسے نزاعی امور میں فقہاء کے کسی ایک فریق کی رائے دوسرے فریق کی رائے کے مقابلے پر ’’خودبخود‘‘ آئین نہیں ہوگی؛ بلکہ وقت کے علماء اور فقہاء بحیثیت اہل الحل والعقد اِس بات کے مجاز ہوں گے کہ وہ اپنی تحقیقی و اجتہادی نظر سے کام لیتے ہوئے ان میں سے کسی ایک رائے کو دستور ٹھہرا دیں۔ کل کو وہ اپنے اِس اجتہاد میں کوئی ترمیم کرلیں، اس کی بھی پوری گنجائش ہے۔ یعنی دستور کا یہ حصہ اور اس میں ردوبدل علمائےشریعت کے اجتہاد پر منحصر رہے گا اور قابل تبدیل ہے۔

یہ ہوئی ایک ’اجتماعی معاملہ‘ کی مثال۔

اب ہم ’انفرادی معاملہ‘ کی ایک مثال لیتے ہیں:

2.        مملکتِ اسلام پر یہ فریضہ عائد ہونا کہ وہ ملک کے طول و عرض میں نماز قائم کروائے، قطعیات میں آتا ہے۔ نماز کے حوالے سے وضوء، اذان، اقامت، جماعت، استقبالِ قبلہ، تکبیرِ تحریمہ، قیام، رکوع، سجود اور تشہد وغیرہ سب فقہاء کے نزدیک متفق علیہ ہیں۔  یہاں؛ نہ نصوص کا اختلاف ہے اور نہ تعبیر کا۔ یعنی قطعیات۔ ’’ریاست‘‘ ہر کسی کو نماز کے اِس معلوم عمل کا پابند کرے گی اور اِس پر عملدرآمد کو اپنا فرضِ منصبی جانے گی۔ چنانچہ ’’نماز قائم کروانے‘‘ کی فرضیت خودبخود ’’آئین‘‘ ہے۔ اِس کے ’’آئین‘‘ ہونے کو کسی ’دو تہائی‘ یا کسی ’اکثریت‘ کے ہاں سے ’پاس‘ ہونے پر موقوف ٹھہرانا بہت بڑا الحاد ہوگا۔ ہاں یہ مسائل کہ اقامت مثلاً اکہری ہو یا دوہری، قیام میں ہاتھ باندھے جائیں یا چھوڑے جائیں، اور اگر باندھے جائیں تو کہاں باندھے جائیں، مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے یا نہ، آمین اونچی کہے یا نیچی، رکوع میں یہ دعاء پڑھی جائے یا وہ، سجدے میں جاتے وقت ہاتھ پہلے دھرے جائیں یا گھٹنے، وغیرہ وغیرہ... تو اِن مسائل میں آپ لوگوں کو اُن کی تحقیق اور اُن کے اختیار کردہ مسالک پر چھوڑ دیں گے۔ یعنی ’’نماز‘‘ پڑھوانا تو ریاست کا فرض ہوگا اور یہ تو مملکتِ اسلام کا دائمی اور طےشدہ آئین ہے اور یہ کسی کے ’پاس‘ کرنے پر موقوف نہیں، البتہ نماز کے بعض فروعی مسائل میں ریاست لوگوں کو اپنے اپنے طریقے پر چلنے دے گی۔

چنانچہ ہر ہر معاملے میں ’’قطعیات‘‘ کا آئین ہونا... آپ سے آپ لوگوں کو شریعت کے عمومی سٹرکچر structure  پر لا کھڑا کرے گا؛ کیونکہ ’’سٹرکچر‘‘ (قطعیات) پر اہل اسلام کے مابین کوئی اختلاف ہی نہیں ہے؛ لہٰذا قطعیات کا ’’آئین‘‘ ہونا  نہ تو موخر ہوگا اور نہ کسی انسانی ہستی کے ’پاس‘ کرنے پر موقوف۔ اِس حد تک آپ شریعت کے گھیرے میں خودبخود آجاتے ہیں۔ یوں ہر ہر باب میں ’’سٹرکچر‘‘ خودبخود کھڑا ہو جاتا ہے؛ آگے اس ’’سٹرکچر‘‘ کی فِلنگ filling   آپ فقہائے اسلام کی اِس رائے سے کریں یا اُس رائے سے، اِس سے کوئی بنیادی فرق نہیں آئے گا؛ بلکہ ’’اختلاف‘‘ اور ’’ردوبدل‘‘ کی اِس حد تک گنجائش اِس پورے معاملہ کو اور بھی حسن دیتی ہے۔ نیز ایک توازن دیتی ہے (یعنی یہاں کچھ چیزیں ثوابت  constants   ہیں تو کچھ چیزیں آراء کے ردوبدل کو قبول کرنے والی variables ) اور ’’شریعت‘‘ کو کوئی ایسا جامد قالب نہیں رہنے دیتی جو بدلتے حالات کی رعایت سے ہی قاصر ہو۔

یہ ہے نقطۂ اعتدال... جو اِفراط اور تفریط کے درمیان ہے:

»       ایک جانب وہ لوگ ہیں جو قطعیات کو ظنیات کے درجے تک نیچے لے آتے ہیں؛ ان کے نزدیک قطعیاتِ شریعت کو بھی جب تک ’پاس‘ نہ کیا جائے تب تک وہ آئین نہیں؛ یہ الحاد کی راہ ہے۔

»       دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو ظنیات کو بھی قطعیات کے درجہ پر فائز کراتے ہیں؛ یہ تفرقہ اور جہالت کی راہ ہے۔

جبکہ شریعت اِن دو انتہاؤں کے بیچ کٹ پھٹ رہی ہے۔

 

 

 



[1]   بسلسلہ تعلیق 19 ’’شریعت بذاتِ خود دستور ہے‘‘۔ حاشیہ 5

[2]   دیکھئے تعلیق  19کا  ذیلی مبحث 1 ’’آج کا آئین محض انتظامی شیڈولز رکھنے کا نام نہیں ہے‘‘۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز