هَلْ
يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّـهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ
وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ
الْأُمُور (البقرۃ: 210)
کیا لوگوں
کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ ابر کے سائبانوں میں آجائے
اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے، اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے
جاتے ہیں۔
(ترجمہ
جوناگڑھی)
******
سعدی: دل دہلا دینے والی ایک وعید۔ ہوش اڑا دینے
والی ایک تنبیہ۔ یعنی کیا یہ لوگ جو زمین میں خرابی کرنے، دستورِخداوندی کو پس پشت
ڈالنے اور شیطان کی چلائی ہوئی راہوں پر چلنے میں لگے ہیں اُس روزِ جزاء ہی کے
منتظر ہیں جسے دیکھ کر ظالموں کے دل نکل جائیں گے اور جس دن ظالموں کے کیے کا بدلہ
ہی ان کے سامنے آ رہے گا؟
بغوی: کیا یہ لوگ جو اسلام میں پورے داخل ہونے پر
آمادہ نہیں اور شیطان کے راستوں کو اپنے یہاں برقرار رکھنے پر ہی مُصر ہیں، منتظر
ہیں کہ خدائے مالک الملک ابر کے سائبانوں میں فرشتوں کے ہمراہ ان کے پاس آ جائے
اور پھر ان کا اور پوری کائنات کا معاملہ ہی نمٹا دیا جائے؟
ابن کثیر: یہی منظر اس آیت میں مذکور ہوا: كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا ﴿٢١﴾ وَجَاءَ رَبُّكَ
وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا (الفجر 21،22) ’’ خبردار ہو
جاؤ کہ جب زمین کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔ اور تیرا رب تشریف لے آئے گا اور
فرشتے صفوں کی صفیں‘‘۔ نیز یہ آیت: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ أَوْ
يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ
آيَاتِ رَبِّكَ لا یَنفَعُ نَفسًا إیمَانُھا لَم تَکُن آمَنَت مِن قَبلُ أو
کَسَبَت فِی إیمَانِھا خَیرًا (الانعام: 158) ’’کیا اب
یہ اس کے علاوہ بھی کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آجا ئیں، یا تمہارا
پروردگار خود آجائے، یا تمہارے پروردگار کی بعض نشانیاں۔ جس دن تمہارے پروردگار کی
بعض نشانیاں ہی آجائیں اس دن تو کسی ایسے نفس کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا
جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان میں کوئی خیر نہ کما پایا ہو‘‘۔ نیز
یہ آیت: وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ
بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِيلًا الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا (الفرقان: 25) ’’اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان
بادلوں سے اور فرشتے اتارے جائیں گے پرے کے پرے۔ اس دن سچی بادشاہی رحمن کی ہے،
اور وہ دن کافروں پر سخت ہے‘‘۔ اسی پر ابن جریر طبری حدیث لاتے ہیں کہ (مختصر
مفہوم): حشر کے میدان میں کھڑے لوگ اس اندوہ کی تاب نہ لائیں گے تو ایک ایک نبی کے
پاس سفارش کےلیے پھریں گے۔ آخر ہمارے نبیﷺ ان کےلیے شفاعت کرنا قبول کریں گے اور
عرش کے نیچے جا سجدہ ریز ہوں گے۔ طویل حمد و تسبیح کے بعد، اذن باریابی ہوگا۔ آپﷺ
سفارش کریں گے کہ مخلوق کا حساب کردیا جائے۔
آپﷺ کی سفارش قبول ہو گی۔ یکایک آسمانِ دنیا پھٹے گا اور اس میں موجود
ملائکہ ابر کے سایوں میں قطاریں ہی قطاریں اترتے چلے آئیں گے۔ پھر دوسرا آسمان اور اس کے فرشتے۔ پھر
تیسرا۔ یہاں تک کہ ساتواں۔ اور پھر عرش بردار فرشتے اور کروبیون۔ یہ سب جبار
تعالیٰ کی یوں تسبیح کیے جاتے ہوں گے کہ فضائیں لرز رہی ہوں گی۔ اور یوں جبار جل
شانہٗ ابر کے سائبانوں اور ملائکہ کے جلو
میں نزول فرمائے گا اور ہر جانب اس کی تسبیح ہو رہی ہو گی۔
قیامت کا سب سے ہولناک اور
پُررعب منظر۔ مالکِ کائنات کا ملائکہ کے جلو میں اہل زمین کے فیصلے نمٹانے کےلیے
جاہ و جلال کے ساتھ تشریف لانا؛ جوکہ ہمارے حق میں تو صرف ایک تصور کر لینے اور
کانپ جانے کی بات ہے۔ رہی مالک کائنات کے اپنے ظہور فرمانے کی صورت و کیفیت تو وہ
جو اُس کی شان کے لائق ہے، اور جس کا احاطہ تو کیا تخیل کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔
بغوی کہتے ہیں: یہ اور اس اسلوب کی دیگر آیات سے
متعلق درست تر طریق یہ ہے کہ اس کے ظاہر پر، یعنی یہ جیسے ہیں ویسے، ان پر ایمان
رکھیں اور ان کی کیفیت و حقیقت کا علم خدا
پر چھوڑ دیں کہ وہی جانے اس کی حقیقی صورت کیا ہو گی۔ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ
جل شانہٗ پر حوادث کا گزر نہیں۔ ایسی آیات سے متعلق ائمۂ سلف و علمائے سنت کا یہی
دستور رہا ہے۔ کلبی کہتے ہیں: یہ ہے وہ علمِ پوشیدہ جس کی تفسیر (اپنے پاس سے)
نہیں کی جائے گی بلکہ کہا جائے گا: اللہ أعلمُ بِمُرادِہ مِنہ، یعنی اللہ ہی بہتر جانے کہ اُس کی مراد اِس سے کیا ہے۔
مکحول، زہری، اوزاعی، مالک، ابن المبارک، سفیان ثوری، لیث بن سعد، احمد اور اسحاق
وغیرہ سلف اس طرح کی نصوص کی بابت کہا کرتے تھے: ان کو، یہ جیسے آئیں، ویسے گزار
دو او ران کی کیفیت میں مت جاؤ۔ سفیان بن
عیینہ کہتے ہیں: جہاں جہاں اللہ نے اپنا وصف بیان فرمایا، اس کی تفسیر بس یہی
ہے کہ اسے پڑھا جائے مگر اس کی بابت اپنے پاس سے کچھ نہ کہا جائے۔کسی کو حق
نہیں کہ اس کی تفسیر کرے سوائے خود اللہ
یا اس کا رسول ؐ۔
سعدی: جو شخص اس مقام پر کہے کہ ’کیسے‘؟ اس سے
پوچھا جائے گا: کیا اُس کی ذات کا احاطہ کر چکے ہو جو اس کی صفات کی بابت پوچھنے
لگے ہو کہ کیسے؟ تم جس کی ذات کی کُنہ نہیں جان سکے، اور بس اُسے مانا ہے، اُس کی
صفات کو بھی وہ جیسے اُس کی کتاب میں یا اُس کے نبیؐ کی زبان پر آئیں، ویسے کی
ویسے مان لو، اور مت پوچھو کہ ’کیسے‘؟
وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ ’’سب
معاملہ نمٹا دیا جائے‘‘
بغوی: یعنی عذاب واقع ہو جائے اور حساب چکا دیا
جائے۔
سید قطب: وَقُضِيَ الْأَمْرُ یعنی تمام معاملہ ختم۔ زمانہ لپیٹ دیا گیا۔ موقع ہاتھ
سے چلا گیا۔ اور نجات کی دُہائی پڑ گئی۔ آج یہ بالکل آمنےسامنے ہیں اُس اللہ کے،
جس کی طرف سب امور درحقیقت لوٹائے جاتے ہیں۔
وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ
الْأُمُور
’’اور
اللہ ہی کی طرف لوٹائے جانے والے ہیں سب امور‘‘۔
قرطبی: معاملات پہلے بھی اور بعد بھی اللہ ہی کی
طرف لوٹائے جانے والے ہیں۔ مگر قیامت کے ذکر سے یہ تنبیہ ہوئی۔ اس لیے کہ دنیا کے
سب بادشاہوں اور طاقتوروں کے ہاتھ اس دن خالی نظر آئیں گےاور کسی کے ہاتھ میں
دیکھنے تک کو کچھ نہ ہو گا۔ ہر کسی کے اقتدار اور اختیار پر حتمی زوال ہوگا اور ایک اللہ لاشریک کا قبضہ و اختیار ہی
اپنا کامل ظہور کرے گا۔
تو پھر اُن خوش قسمتوں کے
کیا کہنے جو دنیا کی تمام زندگی غیراللہ کے اسی قبضۂ قدرت و اختیار کی نفی کرتے
رہے تھے... اور جو سب معاملات کو
پہلے ہی ایک اُس ذات کی طرف لوٹایا جاتا دیکھ رہے تھے!
یہ نظارہ بعضوں کےلیے کیسا بھیانک ہو گا اور
بعضوں کےلیے کیسا منظرآفریں!
(نوٹ:
ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور
پر شامل ہوتے ہیں)