لنڈے کا مال!
’درآمد شدہ ریاست‘!
جمال سلطان
اُردو استفادہ
یہ ایک نئی کتاب آئی
ہے۔ اچھوتی، دلچسپ اور بیک وقت تکلیف دہ۔ اس کا مولف مشہور فرانسیسی تحقیق نگار
اور ماہر عمرانیات سیاسی برٹرینڈ باڈی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے: ”درآمد شدہ ریاست....
سیاسی نظام کا مغربیایا جانا“۔
کچھ دیر پہلے اس کا
عربی ترجمہ ہوا تو یہ ہمیں پڑھنے کو دستیاب ہوئی۔ اس میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ
مولف اس کے اندر وہ انداز اختیار نہیں کرتا جس کیلئے عام طور پر مغرب کے مفکرین
مشہور ہیں یعنی یہاں عالم اسلام کے مغرب پسند ثقافتی وسیاسی دانشوروں کے ساتھ ’من
ترا حاجی بگویم‘ والا انداز، جس کی رو سے ہمارے یہاں کے دانشور روشن خیالی اور
ترقی و پیش قدمی کی رمز بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت یہ ہمارے وہ
’شگاف‘ ہیں جس میں سے مغرب پرستی گزار کر ہم تک پہنچائی جاتی ہیں اور خودی
فراموشی، سطحیت اور دوسروں کے دماغ سے سوچنے کے سب رجحانات ہماری اقوام میں لائے
جاتے ہیں۔ یہ دراصل وہ پل ہیں جو خاص اس انتظام کیلئے تعمیر ہوئے ہیں کہ بدیش کی
’ثقافتی یلغار‘ یہاں اپنی کھلی آمدورفت کیلئے راستہ پائے۔
برٹرینڈ باڈی البتہ
ہمارے ’انٹلکچولز‘ کے ساتھ بالکل ہی بے لحاظ ہو جاتا ہے۔ کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ
وہ سب سیاسی اور ثقافتی تجربات جو ہمارے یہاں کی اقوام نے بدیشی استعمار کو ’دیس
نکالا‘ دے دینے کے بعد اور ’آزادی‘ پا کر اپنے ان ملکوں کے اندر کئے.... یہ سب
سیاسی اور سماجی وثقافتی تجربات اپنی حقیقت اور جوہر میں ’استعمار‘ ہی کا تسلسل
ہیں۔ اور یہ کہ وہ ’آزاد خود مختار قومی ریاست‘ جس کے قیام میں تیسری دنیا کی ان
اقوام نے اپنے یہاں بڑے جتن کر لینے کے بعد ’کامیابی‘ پائی اور جو کہ مغرب کے دیے
ہوئے افکار، مناہج اور نظاموں پر ہی کھڑی گئی چاہے وہ ’اشتراکی اسٹائل‘ کی ہو یا
’قوم پرست‘ یا ’لبرل‘، وہ اپنی حقیقت میں ایک ’درآمد شدہ ریاست‘ تھی! اور یہ کہ
ہمارے یہاں کے انٹلکچول سورماؤں نے وہی کے وہی اصول وضوابط اٹھا کر جو تہذیبی سلوک
کیلئے مغرب میں رائج رہے اور وہی کے وہی کے قوانین اور دساتیر نقل کرکے ’قومیا‘ لئے۔
’ترقی‘ اور ’پیداوار‘ کے بھی وہی ’فرمے‘ جو مغرب میں برت برت کر پرانے ہو چکے تھے
’نئے‘ کرکے استعمال کئے گئے۔ چنانچہ تیسری دنیا کے اندر پائی جانی والی ’جدید
ریاست‘ اپنے پورے وجود میں ہی دراصل ’امپورٹ‘ کا مال تھی۔ یہ ’باہر‘ سے منگوائی
گئی تھی جبکہ یہ ’باہر‘ وہی سابقہ استعمار تھا:
اردو کے اندر اگر ہم
بے تکلف ہونا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں ’لنڈے کا مال‘!
کتاب میں مزید کہا
گیا ہے کہ ’ریاست‘ درآمد کرنے کا یہ آئیڈیا جو کہ یہاں کی مغرب پرست ایلیٹ کیلئے
اس لئے باعث کشش ہوا کہ اس مشین کے سپیئر پارٹس دنیا کی منڈیوں میں بڑی آسانی سے
دستیاب ہیں.... اس میں ’مشین‘ کچھ اس طرح اسمبل کی گئی کہ پرزوں میں کوئی ہم آہنگی
تک نہ آسکی۔ اس نے نہ صرف یہاں کی پرجوش اقوام کی امیدوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا
اور یہاں ایک شدید عجز وناکامی اور مایوسی کی ذہنیت کو جنم دیا بلکہ یہ تجربہ اپنے
ہمراہ بہت سے سماجی مصائب وامراض لے کر ان ملکوں کے اندر وارد ہوا جس سے کہ یہاں
کا سیاسی وثقافتی منظر نامہ پیچیدگی کی ایک خاص صورت اختیار کرگیا اور اقدار کی
دنیا میں ایک شدید اضطراب برپا ہوا.... یہاں تک کہ آئندہ اب یہاں اصلاح وترقی کی
جو کوششیں ہونگی خود وہ بھی اب اس کے باعث کہیں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہو گئیں۔
مولف نے عالم اسلام
اور عالم عرب سمیت تیسری دنیا کے ان متعدد ملکوں کے تجربات کا مطالعہ پیش کیا ہے
جن میں ’مشرق‘ یا ’مغرب‘ سے یہ ’درآمدات‘ ہوتی رہی ہیں۔ اس مطالعہ میں مولف نے اس
خلل اور اس نقصان کا گہرا اندازہ کروانے کی کوشش کی ہے جو ان ملکوں کی سماجی،
سیاسی اور تہذیبی زندگی کے اندر یہاں کی اقوام کو لاحق ہوا۔
ہاں البتہ وہ بات جو
اس کتاب میں مذکور نہیں وہ یہ کہ ’درآمد کنندگان‘ یہ بات فراموش کئے رہے یا پھر
تجاہل عارفہ سے کام لیتے رہے کہ کم از کم یہ ضرور ذکر کر دیا جاتا کہ اس درآمد شدہ
مال کی تاریخ میعاد (Expiry date) بڑی دیر سے گزر چکی تھی اور یہ کہ مصنوعات ’انسانی‘ استعمال
کے اب مزید قابل نہیں! جس سے ہوا یہ کہ بعض
’مصنوعات ‘ جو بنانے والے ملکوں نے بڑی دیر سے متروک ٹھہرا دی ہیں اپنے
یہاں وہ بھی بڑے جوش وخروش سے چلتی ہیں!