بعد از شکست
جمال عرفۃ
تلخیص واضافہ: محمد
زکریا
تحسبہم جمیعاً وقلوبہم شتی
تم (یہودیوں) کو اجتماعی شعور کا حامل سمجھتے ہو،
جبکہ ان کے دلوں میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔
لبنان اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل شکست سے زیادہ رائے
عامہ کی تنقید سے پریشان ہے۔ شکست کے نتیجے میں اسرائیل کے اندرونی اختلافات کھل
کر سامنے آئے ہیں۔ اپنی خفت مٹانے کیلے اسرائیل اب تک فلسطینی پارلیمنٹ کے ایک
چوتھائی مندوبین گرفتار کر چکا ہے، فلسطینی اراضی پر تجاوزات بھی جاری ہیں، خوف
وہراس کے اس عالم میں نوجوانان فلسطین ’قسام‘ کے میزائل ہر روز اسرائیلی فوج کے
سروں پر تابڑ توڑ گرتے ہیں، دوسری طرف آئے روز سیاسی اور عسکری سطح پر اختلافات
منظر عام پر آرہے ہیں۔ ہر بڑی قیادت دوسری قیادت پر ناکامی کا الزام دھرتی ہے۔ یہ
اختلافات صرف سویلین اور فوج کے درمیان ہی نہیں ہیں، خود فوج آپس میں اختلافات کا
شکار ہے۔ فوج میں بااثر طبقہ اس مطالبے پر مصر ہے کہ ڈان ہلٹز کو نااہلی کی
بنیاد پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔
سیاسی قیادت وزیر اعظم ایہود اولمرٹ (Ehud Olmert) کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے۔
مالی اسکینڈل کے علاوہ اُن پر اسرائیل کی قیادت سنبھالنے کی اہلیت نہ ہونے کا بھی
الزام ہے۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کا کہنا ہے کہ انہیں جو احکام دیئے جاتے تھے وہ غیر
مربوط اور تاخیر سے پہنچے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے قائدین کسی نفسیاتی خوف میں
مبتلا ہیں۔
جامعہ عبریۃ Hebrew University of Jerusalam کے ممتاز پروفیسر شلومو افینزی نے حکومت کے
فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے
کہا کہ لبنان کی جنگ کیلئے تحقیقاتی کمیٹی کا تشکیل پانا خوش آئند نہیں ہے، لیکن
لگتا یہی ہے کہ لبنان کی پہلی جنگ کی طرح، جس میں وزیر اعظم بیگین نے جنگی
تحقیقاتی کمیٹی کی مخالفت کی تھی، مگر انہیں پھر بھی مستعفی ہونا پڑا تھا، ایہود
اولمرٹ کو بھی اُسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پروفیسر نے مزید کہا کہ دو
نااہل سربراہان پر ملک کی قسمت کا فیصلہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔
ایہود اولمرٹ اور ان کی سیاسی تنظیم ’کاڈمیا‘ (Kadmia) کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑ
رہا ہے۔ عسکری قیادت بھی مشکلات میں گھری ہے کیونکہ پہلی مرتبہ اسرائیل کے عوام کو
غیر متوقع نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ جس عوام کو اپنی ناقابل تسخیر فوج اور جمہوری
اقدار پر فخر تھا، اب وہ شدید مایوسی کا شکار ہیں، اور اسرائیل کے مستقبل پر
سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ مغربی سفارت خانوں میں ان دنوں بیرون ملک جانے والے
اسرائیلی شہریوں کی قطاریں صہیونی ریاست کے نظریے کو چڑانے کیلئے کافی ہیں۔
مضبوط دفاعی ساز وسامان کے ساتھ اسرائیل کے عوام کو امن
وسلامتی کی جو نوید سنائی جاتی تھی، اُس پر اب پہلے والا اعتماد نہیں رہا ہے۔
فلسطینیوں کی استشہادی کارروائیوں کے علاوہ میزائل کی صنعت کاری میں مہارت بھی
نفسیاتی شکست میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اسرائیل
لبنان میں اپنی ہزیمت کا بدلہ فلسطین کے نہتے عوام سے لے، یا پھر امریکہ کی تائید
میں متوقع کمی آنے کی وجہ سے اسرائیل کو اپنے استعماری مطالبات سے کسی حد تک دست
بردار ہونا پڑے۔ اِن دنوں صدر بش کو دائیں بازو کی جماعت سے شدید مخالفت کا سامنا
ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی صدر بش سے نفرت کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی
میں وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے
امریکی صدر کیلئے ’شیطان‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اسرائیل کے اخبارات حکومت پر تنقید سے بھرے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے کثیر الاشاعت روزنامہ ’یدیعوت احرنوت‘ لکھتا ہے کہ فوج اس بات کی شکایت
کرتی ہے کہ اسے دو ٹوک اوامر نہیں دئیے جاتے تھے۔ روزنامہ ’ہاارٹس‘ نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم اور
چیف آف دی آرمی سٹاف میں جنگ کے دوارن میں اختلافات رہے ہیں۔ دوسری طرف اخبار
یدیعوت اور اخبار معاریو نے وزیراعظم اور خاتون وزیر خارجہ زیپی لوینی
کے اختلافات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان اختلافات کی شدت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا
ہے کہ زیپی لوینی کو نیو یارک کے سفر پر روانہ ہونے سے حکام نے منع کر دیا تھا اور
اسے لبنان جنگ کشی کے فیصلے پر صاد کرنا پڑا تھا۔ اخبارات نے یہ بھی الزام لگایا
ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کی دلچسپی اسرائیل سے زیادہ تھی۔
اولمرٹ کے ساتھ لیکوڈ پارٹی کے قائد ’نیتن یاہو‘ نے اس
بات پر شدید احتجاج کیا ہے کہ جنگ کے مقاصد حاصل کئے بغیر جنگ بندی کا معاہدہ
ناقابل فہم فیصلہ ہے۔ علاوہ ازیں لیکوڈ پارٹی کے سابق وزیر خارجہ سیلفان شالوم نے
جنگ بندی کے معاہدے کو اسرائیل کا بدترین معاہدہ قرار دیا ہے۔ شالوم نے اپنے بیان
میں کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے سے پہلے حزب اللہ کو غیر مسلح نہ کرنا نہ صرف دہشت
گردی کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا بلکہ ایسا معاہدہ عرب معتدل قیادت کے اعتماد کو
بھی ٹھیس پہنچائے گا۔ جنگ کے دوران ہم نے حکومت کو اپنے بھرپور تعاو ن کا یقین
دلایا تھا،اگر حکومت جنگ بندی کا معاہدہ کر لیتی ہے تو پھر ان کی جماعت
لیکوڈ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
لبنان کی شہری آبادی کو شدید نقصان پہنچانے کے باوجود
اسرائیل کی ائیر فورس جو اب تک دنیا کی کامیاب ترین ائیر فورس میں شمار ہوتی تھی،
عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہے، اسرائیلی ائیر فورس کا بھرم ٹوٹنے کے بعد یقینا
فلسطینی مزاحمت میں اضافہ ہوگا۔
روزنامہ ہار ارٹس کے سروے کے مطابق صرف %20 اسرائیلی جنگ لبنان کو کا میاب سمجھتے ہیں۔ شمالی
اسرائیل، جو حزب اللہ کے میزائلوں کا ہدف رہا تھا، کے %73 شہری،
حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے دوران حکومت شہریوں کی
پوریطرح حفاظت میں تقصیر کی مرتکب ہوئی ہے۔
اخبار یدیعوت کے سروے کے مطابق%90 شہری جنگ کو بلاوجہ قرار نہیں دیتے اور %48 ’حماس‘
کے ساتھ اسرائیلی فوجی کی رہائی کیلئے مذاکرات کرنے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ حزب
اللہ سے اسرائیلی قیدی چھڑانے کیلئے مذاکرات کے حامیوں کا تناسب صرف %38 ہے۔
اخبار ہاارٹس کے اداریے میں ممتاز صحافی اری شاویت کے
مقالے کا عنوان تھا: ’اولمرٹ جلد مستعفی ہوں‘ شاویت نے الزام لگایا کہ اولمرٹ نے
جنگ کا آغاز بھی نتائج سے بے پرواہ ہو کر کیا تھا اور جنگ سے پسپائی اختیار کرتے
ہوئے بھی وہ پرعزم دکھائی نہیں دیتے تھے۔
یدیعوت احرنوت نے نام نہ ظاہر کرنے کے وعدے پر عسکری
حوالے سے لکھا ہے کہ فوج کے سامنے کوئی واضح ہدف نہیں تھا، فوج غیر یقینی کا شکار
تھی اور متضاد احکامات نے فوج کی سراسیمگی میں اضافہ بھی کیا تھا۔ مزید براں ہوائی
حملے کے ساتھ بری فوج کا حملے میں تاخیر کرنا بھی ناقابل فہم تھا۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل اب تک عرب ممالک سے
جس طرح اپنے ناجائز مطالبات منواتا رہا ہے، شکست کے بعد اپنا وقار کھو کر اب اُسے
عربوں کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔ دوسری طرف فلسطین میں جہادی
تنظیموں کو ایک مرتبہ پھر یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ اسرائیل مذاکرات کی زبان
نہیں سمجھتا اور مجاہدین حزب اللہ کی طرح اسرائیل سے جہاد کرکے ہی فتح پا سکتے ہیں
او راپنے مطالبات منوا سکتے ہیں۔
اسرائیلی قیادت کے اسکینڈل بھی سامنے آرہے ہیں۔ اسرائیل
کے صدر موشے کتسوف (Moshe Katsav) پر ایک سابق سرکاری ملازم نے الزام
لگایا ہے کہ صدر نے اُسے جنسی تعلقات استوار کرنے پر مجبور کیا تھا۔
وزیر انصاف ہائم ایمن پر سرکاری ملازم خاتون نے زبردستی
کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے اس الزام کی تحقیقات کرانے کے
فیصلے کے بعد ہائم ایمن نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے وزیر اعظم
اولمرٹ کے تجارتی سودے کا جائزہ لے رہی ہیں۔ وزیراعظم نے 2004ءمیں یروشلم میں واقع ایک اپارٹمنٹ
کا سودا 102 ملین ڈالر میں کیا تھا۔
چیف آف آرمی سٹاف ڈان ہلٹز پر الزام ہے کہ حزب اللہ نے
جب اسرائیل کے دو فوجی اغوا کر لئے تھے تو ممکنہ جنگ کے پیش نظر قیمتیں گرنے کے
خطرے کو بھانپتے ہوئے چیف آف دی آرمی اسٹاف نے اپنے شئیرز فروخت کر دیئے تھے۔
اخبارات نے الزام لگایا ہے کہ انہیں جنگ میں اپنی ناکامی کا اس قدر یقین کیوں تھا؟
اسرائیلی گدھ مردار خور ہیں۔ نہتے شہریوں کو بھنبھوڑنا
تو وہ خوب جانتے ہیں لیکن جب تک لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کر
لیا جاتا، اسرائیلی چینل پر صبح کی نشریات میں سنوایا جانے والا یہ ترانہ صرف
شہریوں کی خواہشات کا عکاس تو رہے گا لیکن فوج کو اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے
کیلئے بہادری کے جوہر دکھانے پڑیں گے۔ گیت کے بول ہیں:
Yalla, ya Nasrallah,
We'll screw you inshallah,
and send you back to Allah,
with all you Hezballah
اگر دنیا بھر کے حکمران طبقے کی اپنے عوام سے بے اعتنائی
ایسے ہی رہی اور سیاسی قائدین سے لے کر عسکری قیادت تک میں رشوت ستانی اسی طرح عام
ہوتی رہی تو حزب اللہ کی کامیابی سے مظلوم عوام کو اس نتیجے تک پہنچنے میں زیادہ
دیر نہیں لگے گی کہ فوجیں ملک کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک کی پیداوار کا ایک
بڑا تناسب ایک ناکارہ ادارے کی نذر کرنا فائدے کا سودا نہیں ہے۔
کیا اکیسیوں صدی آزاد ملیشیا کی صدی تو نہیں کہلائے گی؟!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭