عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2013-04 apniJamhuriat آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
جمہوری عفریت سے نجات؟
:عنوان

سماجی طور پر اپنی جڑیں گہری کرنا اور نظریاتی میدانوں میں یہاں ایک جنگ برپا کردینا، نیز عوام کو اپنی پشت پر لےآنے کی صلاحیت سامنے لانا، یہاں مطلوبہ پیش قدمی کے عمل میں نہایت موثر ہوں گے۔

. باطلنظام :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

فصل 10 کتابچہ: ’’اپنی جمہوریت یہ تو دنیا نہ آخرت‘‘

یہ مختصر کتابچہ: ہمارے یہاں قائم ’ڈیموکریسی‘ نامی ایک بدیشی نظام کے خاتمے اور شرعِ خداوندی کی مطلق رِٹ بحال کرانے کی دعوت ہے۔ ملک میں اِس ہدف کو عملاً ممکن بنانے کےلیے؛ قوم میں اس پر انتہا درجہ یکسوئی پیدا کرانا ضروری ہے۔ قوم کو یکسوئی کی اس مطلوبہ سطح پر لانے کےلیے؛ کسی باصلاحیت مسلم جمعیت کو یہاں ڈھیروں محنت کرنا ہوگی۔ ہمارے خیال میں اس عمل کا آغاز بھی تاحال کسی قابل ذکر حد تک نہیں ہوا ہے؛ کجا یہ کہ ہم ابھی سے توقع رکھیں کہ اس کے لیے کوئی بڑا قافلہ ترتیب پاجانے والا ہے یا قوم اس نظام کے خاتمہ کےلیے اٹھ کھڑی ہونے والی ہے۔ یہ البتہ واضح ہے کہ کوئی بڑا قافلہ ترتیب پائے بغیر اور قوم کے ایک معتدبہٖ حصے کو اس کے لیے تیار کئے بغیر یہ ہدف حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اِس ہدف کی جانب پیش قدمی کا تمام تر انحصار اس بات پر ہوگا کہ:

1.     ہم داعیوں کے  ہاں اِس نظام کو رد کرنے پر کس درجہ کی یکسوئی پیدا ہوچکی ہے۔ (’اسلامی نظام‘ کی صدائیں بلند ہونا، جوکہ بڑی دیر سے ہورہی ہیں، ہماری نظر میں ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔ پہلے اُس ’غیراسلامی نظام‘ کی بابت اپنی پوزیشن واضح کریں جس کو ہٹائے بغیر آپ کا یہ ’اسلامی نظام‘ کہیں فٹ ہونے والا نہیں ہے)۔

2.     قوم کو اس پہ تیار کرنے پر کس قدر محنت کرلی گئی ہے؟ عوامی ذہن سازی کے محاذ پر آپ کی  کیا  پیش رفت ہے؟

3.     اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے سرگرم افراد، اداروں، جماعتوں اور پروگراموں کے مابین کس درجہ کا اشتراک اور تعاون پایا جانے لگا ہے۔ جمہوریت کو رد کرنے کے معاملہ میں ایک عمومی اتفاق رکھنے کے باوجود، حالیہ مرحلوں کے دوران اس جمہوری نظام کے ساتھ ڈیل کرنے کے موضوع پر اگر اِن اسلامی جمعیتوں کے مابین راستوں اور طریقوں کا اختلاف پایا جاتا ہے  تو اس اختلاف کو قبول کرتے ہوئے، اور اس میں ایک دوسرے کو عذر دیتے ہوئے، ایک وسیع تر دائرہ میں مل کر قافلہ بننے کی، ان جماعتوں کے ہاں کیا کیا صورتیں اختیار کی گئی ہیں؟ باہمی شیرازہ بندی کی کیا تدبیر ہوئی ہے؟ ہر گروپ کے یہاں اپنے جیالوں کو حدود میں رکھنے کا کیا انتظام ہے اور ایک دوسرے کی قیادت کو قبول کرنے پر کس درجہ آمادگی پائی جاتی ہے؟

4.     باطل کو مسترد کرانے کی اِس دعوت کو آگے بڑھانے میں... آپ معاشرے کے باشعور تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کرلینے کی کیسی استعداد سامنے لائے ہیں؟ یہاں کے ادبی وثقافتی عمل کو متاثر کرنے کیلئے آپکے اسلوب اور خطاب میں کس قدر پختگی ہے۔  فکری وسماجی رجحانات کو رخ دینے پر آپکو کیسی دسترس ہے۔ کیونکہ سماجی صلاحیتیوں سے محروم افراد خواہ وہ کتنے ہی نیک، عبادت گزار، مخلص اور جذبے والے کیوں نہ ہوں کسی حقیقی تبدیلی کا علم اٹھاکر چلنے سے بہرحال قاصر ہوتے ہیں۔

5.     قربانی کے جذبے سے کس قدر سرشار ہیں۔ استقامت کس درجہ کی نصیب ہوئی ہے۔

ایک باصلاحیت جمعیت یہاں بہرحال مطلوب ہے۔ تبدیلی اگر ’آرڈر‘ پر تیار کرنےکی چیز ہوتی ، یا ایک دوسرے کو طعنے اور کوسنے دینے سے برپا ہوجایا کرتی، یا خواہش اور آرزو پر منحصر ہوتی تو بڑی دیر سے رونما ہوچکی ہوتی۔ صلاحیت، محنت، دین کی حقیقت کا صحیح ادراک، باطل کی حقیقت سے آشنائی، مومنوں کےلیے نرمی اور کافروں کےلیے سختی کا مظہر بننا... اِس مطلوبہ عمل کی ناگزیر ضرورتیں ہیں۔

صاف سی بات ہے قوم کو ظلم کے اِس نظام سے نجات دلانے کےلیے کسی کے پاس بھی طلسمی حل نہیں ہے۔ قوم کے ایک معتدبہٖ حصے کو اس کام کے لیے ہلائے جلائے اور اٹھائے بغیر یہاں کوئی راستہ نہیں ہے۔ نہ بندوق اس مسئلے کا حل ہے اور نہ لاٹھی۔ محض تقریروں ، درسوں، وعظوں اور خطبوں سے یہ ہدف حاصل ہونے والا ہے اور نہ بیلٹ بکسوں کی راہ سے۔ اس کےلیے آپ کو سماج میں اترنا ہوگا اور اس کےلیے ایک خالص ایمانی بنیاد اختیار کرنا ہوگی۔ نہ کسی تنظیم کی دعوت اور نہ کسی لیڈر کی پروجیکشن اور نہ کوئی سیاسی لہجے۔ خالص ایمانی اسلوب۔ اللہ اور یوم آخرت کی تذکیر، نجات کی دُہائی اور باطل سے دامن کش ہوجانے اور شرک سے بیزاری اختیار کرلینے ایسے بےساختہ قرآنی نبوی موضوعات۔

تبدیلی کے داعیوں کو یہ گھاٹی بہرحال چڑھنا ہوگی۔ اِس گھاٹی کے چند ابتدائی مراحل بظاہر اس قدر تنگ ہیں گویا گزرنے کا راستہ نہیں ہے۔ البتہ تھوڑا آگے جاکر یہ راستہ حیران کن حدتک کھلا ہوجاتا ہے۔ قوم کا ایک بڑا حصہ ایسی کسی نجات دہندہ جمعیت کا بڑی دیر سے منتظر ہے۔ قوم کی حالت اُس بچے کی طرح ہے جو اپنی بھوک اور پیاس نہ بتاسکتا ہویا جو اپنی بھوک اور پیاس کا مداوا کرنے سے قاصر ہو اور اس کیلئے کسی ’بڑے‘ کی راہ تک رہا ہو۔ یہ زخموں سے چُور اور جذبوں سے لبریز قوم بھی یہاں صرف کسی ’بڑے‘ کی راہ تک رہی ہے۔ اسکا ’’بڑا‘‘ وہ ہوگا جو اسکی بات سمجھے اور اسکو اپنی بات سمجھائے (کمیونی کیشن گیپ فِل کرلے)، اسکو نصیحتیں کرنے کی بجائے اسکی ضرورتوں اور مجبوریوں کا ادراک کرے، اسکی خاطر فرعونِ وقت سے الجھے، اسکو ’ہدایات‘ دینے کی بجائے اسکا ہاتھ پکڑ کر چلائے،  اسکا استحصال کرنے والے طبقوں کے ساتھ اسکی خاطر ٹکرائے، اسکا بوجھ ہلکا کرنے کی آج ہی کچھ تدبیریں کرکے اپنے قائدانہ جوہر اور اپنی مدبرانہ صلاحیتوں کا ثبوت دے اور اسکی غم گساری میں اپنے سچا ہونے کا عملاً یقین دلائے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں پیچھے رہنے کی بجائے اس قوم کے آگے لگے، اور اسکو دنیا وآخرت کی جتنی خیر لاکر دے سکتا ہو (کسی ’انقلاب‘ یا ’اقتدار‘ ملنے پر موقوف رکھے بغیر) اُتنی سی خیر اور تعاون کا اس کو آج ہی بندوبست کرکے دے۔ ایسا کوئی ’’بڑا‘‘ میدان میں آجاتا ہے تو ہمیں یقین ہے اسکی سرکردگی میں یہ قوم سمندروں کو پارکرجانے، صحراؤں کو پاٹ جانے اور دریاؤں کے رخ بدلنے کی استعداد رکھتی ہے۔

 عمرانی طور پر سب عوامل اِسی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ یہاں ایک نہایت پکی ہوئی صورتحال کسی اسلامی تحریک کو میدان میں اترنے کی دعوت دےرہی ہے۔ ان دستیاب حالات اور عوامل کا صحیح استعمال کرلیا جائے تو یہ معاملہ شاید ہماری توقع سے بھی بڑھ کر آسان نکلے۔

اس میں اضافی طور پر یہ بات نہایت شاداب کن اور حوصلہ افزا ہے کہ ہمیں بیڑیاں ڈال رکھنے والا عالمی طاغوت افغانستان کی چٹانوں پر ہمارے مسلم نوجوان کی ضربوں سے پاش پاش ہو رہا ہےاور روئے زمین پر اسکا قبضہ اور اقتدار تیزی کے ساتھ سمٹنے والا ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے یہ تھرڈ ورلڈ ممالک ایک بڑے خلا کا سامنا کررہے ہیں۔ کسی تحریک نے اگر اس صورتحال کیلئے تیاری کررکھی ہے تو اسکو یہاں ایک حیران کن پیش قدمی کے مواقع لازماً ملنے والے ہیں۔

سب سے اہم سماجی صلاحیت ہے اور اس سے اہم، تفقہ فی الدین۔ نعرے، شورشرابہ اور زندہ باد مردہ باد ہمارے کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ البتہ سماجی طور پر اپنی جڑیں گہری کرنا اور نظریاتی میدانوں میں یہاں ایک جنگ برپا کردینا، نیز عوام کو اپنی پشت پر لےآنے کی صلاحیت سامنے لانا، یہاں مطلوبہ پیش قدمی کے عمل میں نہایت موثر ہوں گے۔ البتہ اللہ کی مرضی ہر چیز پر غالب ہے اور اُس کے فیصلے سب سے برحق۔

مصر کا تحریر سکوائر ہمارے سامنے عملاً تبدیلی کا ایک خط کھینچ چکا ہے۔ اُس تبدیلی کے مضمون سے بےشک آپ اختلاف کرلیجئے، اور یقیناً اس پر بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے، مگر اسے ایک عملی مثال ہم اس لیے شمار کرتے ہیں کہ جب ایک قوم، یا قوم کا ایک معتدبہٖ حصہ کسی چیز کو مسترد کرنے کےلیے دیوانہ وار اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جس وقت جذبوں کا کوئی بےقابو  طوفان ایوانوں کا رخ کرتا ہے اور بھانپنے والے اُس طوفان کی بلاخیزی بھانپ لیتے ہیں تو ہواؤں کے رخ بھی بدل جاتے ہیں۔  تحریر سکوائر نے اس لحاظ سے عالم اسلام کی ہر تحریک کو آگے بڑھنے کا ایک راستہ دکھا دیا ہے۔ البتہ لوگوں کو اٹھانے اور گرمانے کی استعداد ہمیں ہی لےکر آنی ہوگی۔

یہ نظامِ کہنہ اپنے طبعی انجام کی طرف بڑھنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ اس کا وہ طلسم کدہ اب چراغِ سحری ہے۔  ’جمہوری مشقت‘ کی صورت میں ہم اس کی بہت سیوا کرچکے۔ بڑی دیر تک اُس کو یہاں ایک مفت کی سواری ہاتھ آئی رہی ہے۔ اپنے لئے خواہ اس نے کتنے ہی جدید ذرائع نقل و حمل ایجاد کیے رکھے ہیں مگر انسان پر سواری کا ایک اپنا نشہ ہے۔ اس کی عادتیں خراب کرنے میں سب سے زیادہ دخل ہماری ہی مجرمانہ غفلت کو رہا ہے۔ اور اب یہ دنیا بدلنے میں بھی ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہے۔

مغرب ڈرتا ہے تواس دن سے جب ان ملکوں کی باشندہ مسلم اقوام مغرب کا سب کچھ مغرب کو واپس کرنے پر ضد کرنے لگیں۔ جس دن مغرب کو یہاں سے یہ پیغام ملاکہ اس کی تہذیب ، اس کی فکر ، اس کے نظریے اور فلسفے ،اس کے قانون، اُس کے نظام تعلیم ، غرض اس کے کسی فیشن کےلئے یہاں کوئی مارکیٹ نہیں۔ اس  کےاصل مال کی یہاں کسی کوطلب ہے اور نہ اس کے دونمبر مال کی کوئی کھپت ۔ اس کے نظریہ و تہذیب اور اس کے قانون کی یہ سب کتابیں ہماری قوم کے بچے اب نہیں پڑھنے کے۔ اس کا یہ نظام یہاں کسی کو قبول ہے نہ اس نظام کے کار پرداز اور نہ اس کے فاضل پرزہ جات۔ یہ سب کچھ چاہے تو مغرب اٹھالے جائے؛ ہمارے ہاں کباڑ میں بھی کوئی اس کا خریدار نہیں اور ہمارے عجائب گھروں میں اپنے تاریک دور کی یہ یادگاریں رکھنے کی بہت کم جگہ ہے۔

اپنی قوم کو یا قوم کے ایک موثر طبقے کو اگر آپ اس بات پر تیار کرلیتے ہیں –  اورظاہر ہے کہ یہ ایک طویل دعوتی اور تربیتی عمل ہی کے نتیجے میں ممکن ہے –  تو وه دن مغرب کی ہم پربرتری کا آخری دن ہوگا۔ غلامی کے طوق اور سلاسل اس دن ٹوٹیں گے جس دن ہم مغرب کی چیزیں مغرب کو واپس کرنے کی ٹھان لیں گے۔ ہمارا یہ فیصلہ یقین کیجئے ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے ان ملکوں میں ہمیں اپنا ہی انتظار ہے ۔یہاں، اور اِس پورے عالمی منظر نامے پر، اب اس کے سوا اور کچھ باقی نہیں!


اقتباس از ’’مزاحمتی عمل جو مفقود ہے‘‘

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز