عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
weekly آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
قدروں کا نوحہ
:عنوان

یہ وہ دور تھا جب کسی لڑکےاور لڑکی میں محبت کا معاملہ اگر کبھی ہو جاتا __ اور وہ بھی ایسی محبت جسےآج کےادب میں ’معصوم‘ کہا جاتا ہے __ تو وہ حیا سے مر جانےکی بات ہوتی۔ اپنےتعلق کو آخری حد تک چھپانے کی ضرورت محسوس نہ کرنے والی لڑکی حد درجہ نیچ جانی جاتی تھی!

. ثقافتمعاشرہ . متفرق :کیٹیگری
محمد قطب :مصنف

محمد قطبؒ



اخلاق باختگی کا ایک طوفان کچھ زخموں کو ہرا کر جاتا ہے، گو یہ سال بھر مندمل نہیں ہوتے۔

خود فلمی دنیا کے ایک سوانح نگار جن کے مضامین روزنامہ جنگ میں قسط وار چھپتے رہے، چند عشرے پرانے معاشرے کی ایک تصویر دکھاتے ہوئے لکھ گئے ہیں: ہندوستان میں جب نیا نیا تھیٹر اور سٹیج آیا تو عورت کا کردار ادا کرنے کےلیے یہاں کوئی دخترِ حوا آمادہ نہ ہوتی تھی۔ مسلمان تو مسلمان ہندو عورتوں نے اس پر تیار ہو کر نہ دیا کہ پبلک میں مردوں کے سامنے لہک لہک کر کوئی حرکت کریں گی۔ یہاں تک کہ بازارِ حسن سے رجوع کیا گیا۔ وہ بھی نہ مانیں۔ (جی ہاں بازارِ حسن کی عورتیں)۔ کہنے لگیں بند کوٹھے میں جو ہوتا ہے وہ اور بات ہے، کھلے عام مردوں کے سامنے؟ یہ ہم سے نہ ہو گا۔ کہنے لگے، آخر ایک عرصے تک عورت کا کردار ادا کرنے کےلیے بعض زنانی شکل کے مردوں سے کام لیا جاتا جو عورتوں کا بھیس بھر کر سٹیج پر آتے اور کہانی میں ذرا رنگ بھرتے! ’سماج‘ جس چیز کا نام ہے حضرات وہ چند عشرے پیشتر خود ہمارے ہندوستان میں ’حیاء‘ کے اس درجے پر کھڑی تھی، اور جبکہ یہ ہمارے تاریخی اسلامی معاشرے کے محض کچھ کھنڈرات تھے۔ جبکہ آج شریف زادیوں سے پوچھ کر دیکھئے گا کون اس ’رتبۂ بلند‘ سے پیچھے رہنا چاہتی ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔

عالم اسلام میں قدروں کا ایک نوحہ آئیے استاذ محمد قطب سے بھی سنتے ہیں۔ گو یہ محض ایک اقتباس ہے اور اصل تحریر کا سیاق کچھ اور ہے۔                

                                                (ادارہ ایقاظ)

******

زیادہ نہیں، آج سے صرف آٹھ نو عشرے پہلے کی ایک تصویر جب مغرب زدگی کے اس عمل نے عوامی اور معاشرتی سطح پر ابھی یہ سب گل نہیں کھلائے تھے جو بعد میں دیکھنے میں آئے...

یہ وہ دور تھا جب برہنہ ہونا ابھی صرف بڑے خاندانوں کی بیگمات تک محدود تھا۔ متوسط طبقے کی خواتین اس برہنگی سے ابھی بڑی شرم محسوس کرتی تھیں۔ گو اخبارات وجرائد میں تصویروں اور خبروں اور افسانوں کی صورت میں یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر اور پڑھ پڑھ کر ان میں بھی بڑی خاموشی سے اس چیز کی خواہش کروٹ ضرور لینے لگی تھی۔ یہ تو تھی متوسط اور خاصی حد تک پڑھے لکھے طبقے کی بات۔ پھر جہاں تک عام گلی محلے کی بیٹیوں کا معاملہ تھا وہ تو اس برہنگی سے ہول کھاتی تھیں اور اس بات کو انتہائی لچر جانتی تھیں۔

یہ وہ دور تھا جب کسی لڑکے اور لڑکی میں محبت کا معاملہ اگر کبھی ہو جاتا تھا ___اور وہ بھی ایسی محبت جسے آج کے ادب میں ’معصوم‘ کہا جاتا ہے___ تو وہ حیا سے مر جانے کی بات ہوتی تھی۔ اپنے تعلق کو آخری حد تک چھپانے کی ضرورت محسوس نہ کرنے والی لڑکی حد درجہ نیچ جانی جاتی تھی! یہ وہ دور تھا جب کتب اور جرائد میں مغربی فکر مغربی شخصیات کے نام سے ہی پھیلایا اور شائع کیا جاتا تھا اور فحش ادب لکھنے والے اگر مقامی ہوتے بھی تھے تو وہ اسے اپنے فرضی نام سے شائع کرنا مناسب سمجھتے تھے۔ تھیٹر، سینما، ریڈیو سب کچھ تھا، یہ سب کچھ اس فکری یلغار کو آگے بڑھانے میں مدد بھی دیتا تھا مگر اس صنعت نے مقامی سطح پر ابھی بہت زیادہ وہ ترقی نہیں کی تھی اور اس کی تاثیر بھی ابھی بالکل ابتدائی قسم کی تھی۔

مختصر یہ کہ معاشرے کے ظاہری بگاڑ میں ابھی وہ شدید تیزی نہیں آئی تھی جو اس سے کچھ دیر بعد دیکھنے میں آئی۔ پھر خاص طور پر اس نے جو آخری زقند بھری وہ تو سب کچھ ہوا ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد۔

یہ تو تھا اس بگاڑ کے بیرونی مظاہر کا معاملہ۔ دوسری جانب ہماری ’مشرقی روایات‘ ___کم از کم ظاہری حد تک___ ہنوز قائم تھیں اور دیکھنے والے کو یہ فریب دینے کیلئے کافی تھیں کہ ہماری یہ روایات اس فکری یلغار کے سامنے جس طرح اس سے نصف صدی پہلے کھڑی تھیں ویسے ہی نصف صدی بعد بھی کھڑی رہ جائیں گی۔ یہ فریب ہوتا بھی کیوں نہ لوگوں کی بڑی تعداد ابھی نمازی تھی۔ حتی کہ بڑے دارالحکومتوں میں بھی جو کہ اس فکری یلغار کا گڑھ ہوا کرتے تھے لوگ مسجدوں میں بڑی تعداد میں آتے تھے۔ رمضان میں چھوٹے بڑے سب روزے رکھتے۔ بے روزہ بھی کسی کے سامنے کھانے پینے کی جرات نہ کرتا۔ شادی ہمیشہ والدین کی جان پہچان سے بلکہ انہی کے ہاتھوں انجام پاتی۔ خاندانی روابط قابل رشک تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خاندان کے سربراہ کی سنی جاتی اور گھر کے بڑوں کی مانی جاتی تھی۔ بچے بچیاں جوان ہو کر بھی روایات سے نہیں نکلتے تھے۔ اگر کوئی اپنی خاندانی اور معاشرتی روایات سے پیر باہر رکھتا تو لوگ کم از کم بھی اس سے منہ پھیر لینے اور اس کو شدید برا جاننے کی ضرورت محسوس کرتے۔ ابھی یہ شہروں کا حال تھا۔ دیہات میں تو جیسے ابھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ نسلوں سے جو طرز زندگی چلا آتا رہا دیہات میں ابھی وہ من وعن باقی تھا۔ دیہات کے لوگ ’شہروں کی بے راہ روی‘ سے گھن کھاتے تھے اور ’پرانا زمانہ‘ گزر جانے پر حسرت سے آہ بھرتے تھے۔

ایسے مظاہر کو بادی النظر دیکھنے والے سے بہت سے حقائق روپوش رہ سکتے تھے!

کوئی تھوڑی دیر سے نہیں، عرصہ دراز سے اسلام واقعی روایات کا ایک مجموعہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ روایات اسلام کی حقیقی روح سے خالی تھیں۔ یوں بھی قوموں کی زندگی میں ایک خاص مرحلے میں جا کر روایات سے وابستگی اس نوبت کو پہنچ جاتی ہے کہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں یہ لگتا ہے کہ لوگ واقعی دین کی حقیقت پر قائم ہیں۔ لیکن روایات اگر کسی شعوری بنیاد پر قائم نہیں تو کچھ عرصے بعد یہ ایک ایسے درخت کی طرح سوکھنا اور سکڑنا شروع ہو جاتی ہیں جسے جڑوں سے غذا ملنا بند ہو گیا ہو۔ روایات اور مظاہر بھی ایک ایسا ہی درخت ہے جسے فکر اور شعور کی غذا کافی مقدار میں نہ ملے تو ایک طرف یہ سوکھنا اور سخت لکڑی بننا شروع ہو جاتا ہے تو دوسری طرف اسے اپنا پورا پھیلاؤ برقرار رکھنے میں بھی شدید دشواری پیش آتی ہے۔ پھر بھی روایات کے اس درخت کا بھرم صدیوں تک رہ سکتا ہے اگر معاشرے میں نیچے کی سطح پر کوئی زوردار بھونچال یا فضا میں کوئی طوفان نہ آجائے۔ اب ایک ایسے درخت کا کھڑا رہنا یا کھڑا نہ رہنا بہت اہم سوال نہیں رہ جاتا جس کا ڈھ جانا بہرحال ٹھہر گیا ہو۔ اس درخت کو تو آخرکار مٹی خود کھا جاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی اور فکر کی یلغار کی شدت اسے ’وقت‘ سے پہلے گرا دیتی ہے۔

عالم اسلام کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عالم اسلام پر مغرب کی فکری یلغار کے جو ہتھوڑے برسے اور جو کہ بڑی شدت اور بڑی بے رحمی سے برسائے گئے، ان کا ہدف ہماری یہاں کی روایات نہیں بلکہ ان کا اصل ہدف درحقیقت اسلام تھا۔ روایات کے پیچھے وہ دراصل اسلام کو ملیامیٹ کر دینا چاہتے تھے۔ ان کے پیچھے واقعی اسلام اپنی روح کے ساتھ ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی مگر خالی روایات ان ضربوں کا بھلا کہاں تک مقابلہ کرتیں جو بڑی منصوبہ بندی سے اور ایک لگاتار انداز میں اور بہت ہی بے دردی کے ساتھ سو سال تک برسائی جاتی رہیں۔

ساٹھ ستر سال میں یہ منظر نامہ حیران کن حد تک تبدیل ہو گیا۔ یہاں تک کہ وہ قوم جو ان شہروں اور ان دیہات میں ساٹھ ستر سال پہلے بستی تھی، گویا وہ سب کی سب کہیں کو سدھار گئی اور اس کی جگہ گویا یہاں کوئی اور قوم آبسی ہے جن کے آپس میں صرف نام ملتے ہیں۔ پرانے جسے ’بے راہ روی‘ کہتے تھے وہ یہاں ’ترقی پسندی‘ اور ’روشن خیالی‘ بن کر ہر طرف پھیل گئی۔ زہریلے سانپ کا زہر جس طرح جسم میں پھیلتا ہے اسی تیزی سے یہ زہر معاشرے میں ہر طرف پھیل گیا۔ اب وہ وقت نہیں جب برہنگی بڑے خاندانوں کی بیگمات کا خاصہ سمجھا جائے۔ متوسط طبقے کی بیٹیاں بھی اب کسی سے پیچھے نہیں۔ حتی کہ رفتہ رفتہ یہ آفت اب دیہات کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی ہے!

لڑکوں اور لڑکیوں میں ’معصوم‘ ہی نہیں ’غیر معصوم‘ تعلقات بھی معمول کی چیز ہو چکے بلکہ کسی نوجوان کا اس ’معمول‘ سے بچ رہنا آج حیرانی کا باعث جانا جاتا ہے! خاندان ٹوٹ پھوٹ چکا۔ خاندان کے سربراہ کا دورِ اقتدار ختم ہوا۔ بڑوں کی ماننا ماضی کا قصہ کہلایا۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنے معاملات اب خود بہتر جاننے لگے ہیں اور والدین کو ’دخل در معقولات‘ کی بہت کم اجازت ہے۔ ’دین‘ اور ’مذہب‘ عموماً جمود اور بند ذہنیت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ دیندار ہونا پسماندگی کا نشان اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا سبب جانا گیا۔ نقش کہن پہ اَڑنا آدمی کے ان پڑھ ہونے کی دلیل بنا اور کسی بھی اعلیٰ قدر پر جم جانا جمود اور کم عقلی جانا گیا اور کہا یہ گیا کہ یہ زمانہ جمود کا نہیں ارتقاءکا ہے۔

ساٹھ ستر سال میں یہ سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ قدروں کے حوالے سے قوم کی اس اجتماعی خودکشی بھلا کیا نام دیا گیا؟ معاملے کی یہ جہت بھی نہایت دلچسپ ہے۔ قوم کی اس اجتماعی تنزلی کو علم اور ارتقاء کا نام دیا گیا۔ یعنی ’’تعلیم‘‘ اور ’’ترقی‘‘۔ جو شخص اس پیکیج کا خریدار نہیں یا اس کی رَو میں سرپٹ بھاگنے پر آمادہ نہیں وہ دراصل یہاں ’’تعلیم‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کا دشمن ہے۔ بعینہٖ انہی الفاظ کے ساتھ سو سال تک یہ چورن بیچا گیا۔

 اصل کام اس تعلیمی اور ابلاغی نظام نے کیا جو اس یلغار کو دلوں اور دماغوں میں گہرا گھر کر گیا اور جس کے نتیجے میں بڑی تدریج کے ساتھ ہر نئی نسل فکری اور عملی طور پر اسلام سے دور ہونے اور مغرب کے نئے ’دین‘ کو اپنانے میں پہلی نسل سے دو ہاتھ آگے ہوجاتی رہی۔

(محمد قطب کی ایک طویل تحریر سے اقتباس۔ ماخوذ از ’’دعوت کا منہج کیا ہو‘‘)

۔۔۔

ایقاظ کا خصوصی ضمیمہ ’’ویلنٹائن.. مردار تہذیب کی دستک‘‘ اس لنک سے

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
کافروں سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند
تنقیحات-
ثقافت- معاشرہ
حامد كمال الدين
کافروں سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند حامد کمال الدین دا۔۔۔
"دردِ وفا".. ناول سے اقداری مسائل تک
ثقافت- خواتين
حامد كمال الدين
"دردِ وفا".. ناول سے اقداری مسائل تک حامد کمال الدین کوئی پچیس تیس سال بعد ناول نام کی چیز ہاتھ لگی۔ وہ۔۔۔
فیمینسٹ جاہلیت کو جھٹلاتی ایک نسوانی تحریر
ثقافت- خواتين
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
ادارہ
فیمینسٹ جاہلیت کو جھٹلاتی ایک نسوانی تحریر اجالا عثمان انٹرنیٹ سے لی گئی ایک تحریر جو ہمیں ا۔۔۔
پطرس کے "کتے" کے بعد!
متفرق-
ادارہ
پطرس کے ’’کتے‘‘ کے بعد! تحریر: ابو بکر قدوسی مصنف کی اجازت کے بغیر شائع کی جانے والی ای۔۔۔
ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کیوں؟
ثقافت- رواج و رجحانات
ذيشان وڑائچ
میرے ایک معزز دوست نے ویلینٹائن ڈے کے حوالے سے ایک پوسٹ پیش کی ہے۔ پوسٹ شروع ہوتی ہے اس جملے سے"ویلنٹائن ۔۔۔
انٹرویو ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس
متفرق-
عائشہ جاوید
انٹرویو ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس ترجمہ: سلیمان واثق نظرثانی: عائشہ جاوید سوڈانی نژاد ایک عالم ج۔۔۔
السلام علیکم اپریل 2014
متفرق-
عائشہ جاوید
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ قارئین کرام !مسلم دنیا اس وقت مصائب وآلام کی جن تند و تیز لہروں۔۔۔
بليو ويل گيم۔۔۔۔۔۔۔۔ ايك مرتى تہذيب
ثقافت- معاشرہ
عرفان شكور
بليو ويل گيم۔۔۔۔۔۔۔۔ ايك مرتى تہذيب   بليو ويل كو ايك قاتل گيم كے طور پر جانا جارہا ہے جس نے 150 سے زا۔۔۔
حُنَفَاء کا حج و قربانی.. اور ’انتھروپالوجسٹوں‘ کا شرک
بازيافت- تُراث
ثقافت- علوم طبعى وسماجى
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
حُنَفَاء کا حج و قربانی.. اور ’انتھروپالوجسٹوں‘ کا شرک ’کھنڈر پرستی‘ کی ایک عالمی تحریک جس کا ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز