فص14
اقتضاء الصراط المستقيم تالیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ۔ اردو استفادہ و اختصار: حامد کمال الدین
کفر کے تہوار.. قرآنِ مجید کی نظر سے
وَالَّذِیْنَ لَا
یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً (الفرقان: 72)
اور وہ لوگ جو ’’زُور‘‘ پر حاضر
نہیں ہوتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو تو وقار اور متانت کے ساتھ گزرتے ہیں
آیت میں لفظ ’’زُور‘‘ پر سلف
کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے:
ابو بکر خلالؒ نے اپنی جامع
میں پورے اِسناد کے ساتھ:
ö
تابعی مفسر محمد بن سیرین سے
آيت کی تفسیر نقل کی، فرمایا: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ میں نصاریٰ کا تہوار ’’شعانین‘‘ آتا ہے۔
ö
پھر تابعی
مفسر مجاہد سے نقل کیا، فرمایا: اس سے مراد ہے مشرکین کے تہوار۔
ö
پھر
تابعی مفسر ربیع بن انس سے نقل کیا، فرمایا: مشرکین کے تہوار۔
اسی معنیٰ میں تابعی مفسر
عکرمہ سے روایت ہوئی، کہا: یہ ایک جشن تھا جو وہ زمانہ جاہلیت میں منایا کرتے
تھے۔ قاضی ابو یعلی نے اس کو مسئلۃ فی النہی عن حضور أعیاد المشرکین کے تحت بیان کیا۔
ابو الشیخ اصفہانی ’’شروط
أھل الذمۃ‘‘ میں اپنے باقاعدہ
اِسناد کے ساتھ، تابعی مفسر ضحاک سے روایت کرتے ہیں کہ وَالَّذِیْنَ لَا
یَشْہَدُونَ الزُّورَ والی آیت کی تفسیر
ہے: عِیۡدُ الۡمُشْرِکِیْنَ۔ نیز امام ضحاکؒ کا قول: اس
سے مراد ہے شرک کی بات۔ نیز ضحؒاک کا قول: مراد ہے اَعْیَادُ المُشْرِکِیْنَ۔ نیز تابعی امام عمرو بن
مرۃ کا قول: آیت سے مراد ہے: ’’نہیں
شامل ہوتے مشرکین کے ساتھ اُن کے شرک میں اور نہ اُن کے ساتھ گھلتےملتے ہیں‘‘۔ نیز
عطاء بن یسار کی روایت، کہا: فرمایا عمر
نے: ’’عجمیوں کے اسلوب اور لہجوں سے بچو اور خبردار رہو مشرکین کے ہاں جانے سے
اُن کے تہوار کے دن اُن کے گرجوں میں‘‘۔
اب یہاں ایک اصولی مسئلہ واضح
کرتے چلیں: تابعین کا اِس آیت کی تفسیر کے تحت یہ کہنا کہ یہ ’’مشرکوں کے تہوار
ہیں‘‘، تابعین ہی کی ایک دوسری تفسیر سے
معارض نہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے شرک یا جاہلیت کے بت، یا
ان کی ایک دوسری تفسیر کہ یہ ناچ اور مجرے کی جگہیں ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سلف کا یہ
معمول ہے (کہ تفسیر میں ایک ہی حقیقت کے انطباق میں جو تنوع ہو، وہ مثالوں کی صورت
بیان کردیں) ۔ سامع کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی وقت وہ پوری جنس کا ذکر کر
دیں گے اور کسی وقت اس کی محض ایک نوع کا۔
ہاں ایک جماعت نے اس آیت
میں "زُور" کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد ہے جھوٹی شہادت۔ اور یہ البتہ محل نظر ہے۔ کیونکہ قرآن نے لفظ بولے ہیں: لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ۔ یہ نہیں بولا: لَا یَشۡھَدُوۡنَ بِالزُّوۡرِ ۔ جبکہ ’’گواہی دینے‘‘ والا
معنیٰ "ب" کے صلے کے بغیر بنتا۔ "ب" کے صلے
کے بغیر عرب جب بھی بولیں گے مثلاً کہیں کہ شَھِدۡتُ کَذَا تو اس
سے مراد وہاں حاضر ہونا اور موجود ہونا ہوگا نہ کہ گواہی دینا۔ گواہی دینے کے
معنیٰ میں جب بھی بولیں گے تو کہیں گے: شَھِدۡتُ بِکَذَا۔ اب مثلاً ابن عباسؓ کا قول: شہدتُ العیدَ مع رسول اللہﷺ ’’میں رسول اللہﷺ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا‘‘۔ یا حضرت عمرؓ کا قول: الغنيمةُ لمن شَهِدَ الوقعةَ ’’غنیمت اس کے لیے جو معرکے میں حاضر ہوا‘‘۔
البتہ کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ تابعین کی یہ
تفسیر، لفظ "زُور" کے معنیٰ سے کیا مناسبت رکھتی ہے؟ دراصل "زُور" کا مطلب ہے کہ حقیقت کچھ ہو اور دکھایا کچھ
جائے۔ ملمع اور جعلسازی۔ باطن میں غلاظت ہو اور ظاہر میں اس کو حسن وجمال کا لبادہ
اوڑھایا جائے۔ اب ظاہر ہے یہ باطل کا خصوصی وصف ہے۔ باطل ہمیشہ اپنے آپ کو خوب سے
خوب لبادے میں پیش کرتا اور اِس ترکیب سے اپنی گندگی میں ایک کشش پیدا کرتا ہے ؛
کبھی ’’شبہات‘‘ سامنے لاکر تو کبھی ’’شہوات‘‘ کی چادر تان کر؛ جس سے ایک خلقت
اُس کے پیچھے ہو لیتی ہے اور کوئی صاحبِ نظر ہی ہو تو وہ اِس شبہات و شہوات کی
لیپاپوتی والے ’چہرہ روشن‘ سے گزر
اُس کے ’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ تک
پہنچتا ہے۔ لہٰذا باطل اور اس کے وہ مظاہر جو لوگوں کے لیے باعثِ کشش ہوں، اس پر "زُور" کا لفظ نہایت فٹ بیٹھتا ہے۔ تابعین کی تفسیر ان
سب معانی کو خوب واضح کر دیتی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کی تفسیر ’’شرک‘‘ سے ہوئی تو وہ اِس پہلو سے کہ یہ
باطل کے اٹھائے ہوئے "شبہات" میں آتا ہے اور اگر اِس کی تفسیر باطل کے "ناچ مجروں " سے ہوئی تو وہ اِس پہلو سے کہ یہ اس کو پرکشش
بنانے والی "شہوات" ہیں۔ اور جہاں تک یہ تفسیر ہے کہ اس سے مراد "مشرکوں کی عیدیں اور تہوار" ہیں تو اس عیدِ مشرکین میں "شبہات اور شہوات" ہر دو آتے ہیں، اور اس کو باطل ٹھہراتے ہیں۔ رب
العزت کے دین کے لیے اس میں کوئی منفعت نہیں۔ لذت فوری تو انجام دردِ دائمی۔ لہٰذا
یہ اِس پہلو سے بھی "الزُّوْر" ہوئی۔اور اس میں شریک ہونا "لَا یَشْہَدُون"۔ اب اگر اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں عباد الرحمٰن
کا یہ وصف بیان فرمایا ہے اور اس کو باقاعدہ سراہا ہے کہ یہ وہاں پیر دھرنے کے
روادار نہیں؛ یعنی نہ ان کی آنکھ اُسے دیکھنے کی اور نہ اِن کے کان اُسے سننے کے..
تو پھر اس بابت کیا خیال ہے کہ آدمی وہاں حاضر ہی نہیں بلکہ باقاعدہ شریک ہونے چل پڑے اور اس پر اپنی موافقت دکھائے؟ (کتاب کے صفحات 427 تا 432)