مجالسِ قرآنی
يَا أَيُّهَا
النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً
وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا
لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ
تَعْلَمُونَ (البقرۃ:
21، 22)
اے لوگو
پوجو اپنے رب کو۔ جس نے پیدا کیا تم کو، اور تم سے اگلوں کو۔ تاکہ تم اپنا آپ بچا
لو۔
جس نے تمہارے
لیے زمین کا فرش بچھایا اور آسمان کی چھت۔ اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اس سے طرح
طرح کے پھل اناج اگائے؛ تمہاری روزی کےلیے۔ تو پھر مت کھڑے کرو اللہ کے کوئی ہمسر،
درحالیکہ تم جانتے ہو۔
بغوی:
ابن عباس کہتے ہیں: قرآن میں جہاں کہیں عبادت (کا حکم) وارد
ہوا وہاں اس کا مطلب ہے توحید۔
تخلیق کا مطلب: ایجاد کرنا، بغیر اس کے کہ پہلے سے اس کی
کوئی نظیر ہو۔
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ:
یعنی عذاب (اور اس کے موجبات) سے تمہارا چھٹکارہ ہو سکے۔ یا یہ کہ:
(عبادت کرتے ہوئے) ساتھ میں تمہیں طمع ہونی چاہئے کہ اِس عمل سے تمہیں اللہ کے
عذاب سے پردہ یا اوٹ مل جانے والی ہے۔ کیونکہ لعلَّ ترجّی (امید) کےلیے آتا ہے۔
فِرَاشًا: یہ ہے زمین کا انسان کےلیے پست اور رام ہونا۔
ایسی ناہموار نہ ہونا کہ جس پر زندگی استقرار ہی نہ پکڑ سکے۔ بِنَاءً: آسمان کو اونچی چھت۔
مِنَ الثَّمَرَاتِ: ’’مِن‘‘ یہاں انواع و اقسام کا معنیٰ دینے کےلیے ہے۔
یعنی رنگارنگ کھیتیاں، اناج اور میوے۔
أَندَادًا: یعنی اُس جیسے، جن کی پوجا ہو جیسے اللہ کو پوجا
جاتا ہے۔
وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ: یعنی اس حال
میں کہ تم جانتے خوب ہو کہ یہ چیزیں اُس کی بنائی ہوئی ہیں۔
سعدی:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ
اعْبُدُوا رَبَّكُمُ: ایک
امرِ عام: جو تمام انسانوں کو دیا گیا۔
اور اس کا مضمون بھی عام: یعنی ایک
جامع عبادت اختیار کر لینا خدا تعالیٰ کی۔ پھر اِس امر کی توجیہ اور حوالہ یہ کہ: اُس نے تم سب کو بنایا ہے۔ اور پھر صرف
اتنا نہیں بلکہ وہ ہر دم تمہیں وجود دیتا، تمہاری پرورش کرتا اور تمہیں سنبھالتا
ہے۔ جس نے تمہارے بڑوں کو بھی بنایا جو یہاں تم سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ پھر، تم پر
اُس نے نعمتوں اور آسائشوں کی بارش کر رکھی ہے۔ اوپر سے تمہارے لیے رزق برستا ہے۔ نیچے دیکھو تو
تمہارے لیے رزق اگلتا ہے۔ زمین ہے تو وہ اِس زندگی کےلیے آغوش ہے؛ یہاں تمہاری
زراعت، صنعت ، حرفت، تجارت، تعمیرات اور تمہاری تمام چہل پہل ہے۔ آسمان ہے تو
روشنی پانی حرارت ہوا سب کچھ تمہاری زیست کو ممکن بنانے کےلیے۔ سورج، چاند، تارے۔
السَّمَاءِ: تمہارے اوپر جو بھی ہے اُسے عربی میں سماء کہیں گے۔ یہ
وجہ ہے کہ یہاں بادل کےلیے بھی ’’سماء‘‘ کا لفظ بولا۔
وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ: یعنی تم خوب جانتے ہو کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔
نہ اُس کا کوئی نظیر نہ اُس کا کوئی مثیل۔ نہ پیدا کرنے میں۔ نہ رزق دینے میں۔ نہ
کائنات کی تدبیر کرنے میں۔ اور نہ عبادت میں۔ تو پھر یہ ہو کیسے جاتا ہے کہ یہ سب
جانتے بوجھتے ہوئے تم اس کے سوا معبود پوجنے لگتے ہو۔ اس سے بڑھ کر عجیب اور
بیہودہ بات بھلا کیا ہو گی۔
ابن کثیر:
وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ: کے تحت مجاہد نے کہا: یعنی تم توارۃ و انجیل وغیرہ (پہلے صحیفوں) سے جان آئے ہو کہ اللہ
کے سوا کوئی ہستی نہیں جس کی عبادت ہو۔
غرض توحید کا فطری اور بدیہی اور تاریخی حوالہ؛ جس پر شرع
بھی باربار آتی رہی ہے۔ اور اب آخری آسمانی کتاب کا پہلا خطاب بھی اسی کی توثیق
ہے۔ اِس سے بڑی کوئی حقیقت عقول میں، یا فطرت میں، یا تاریخ میں، یا شرائع میں ہے
ہی نہیں۔ ایک ایسی بات جو خداپرستوں کے دل پر سب سے زیادہ ٹھنڈ ڈالتی ہے۔
اس کے علاوہ ابن کثیر اِس مقام پر اہل علم کے کثیر اقوال
لاتے ہیں کہ: خدا کی پہچان اس کی
نشانیوں سے کرنا؛ اور یہاں سے اُس کی تعظیم، پرستش اور عبادت کا وجوب جاننا کیسا
عظیم الشان فرض ہے۔
چند مزید فوائد:
اِس سے
پہلے سورۃ الفاتحہ کا تمام اسلوب دعائیہ ہے۔ سورۃ البقرۃ کے پہلے دونوں رکوعوں کا
اسلوب بیانیہ ہے۔ یعنی اِس کتابِ خداوندی کے ساتھ معاملہ کرنے میں انسانیت کا تین
جماعتیں ہونا اور ان میں سے ایک ایک کی مختصر تصویر۔ باقاعدہ خطاب البتہ یہاں تیسرے رکوع سے شروع ہوتا ہے۔ اور یہاں ہے قرآنِ
مجید کا پہلا امر اور پہلا نہی۔ اِس مقام پر یہ عظیم الشان مطالب آتے ہیں:
v
قرآن کا
پہلا خطاب: تمام بنی نوعِ انسان سے۔ (اسلامی گلوبلائزیشن)۔ رسالتِ محمدی کی وہ
خصوصیت جو اس سے پہلے کسی نبی یا رسول کو عطا نہیں ہوئی۔ (یہاں ’بنی
اسماعیل بنی اسماعیل‘ کی گردان جو اب
پچھلے چند عشروں سے غیرمعمولی طور پر ہونے لگی ہے، اور جو ’نئے‘ کے متوالوں کو بالکل ایک نیا روٹ دے رہی ہے، کچھ
پریشان کن ہے۔ فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں)۔ اس معنیٰ کی احادیث موجود ہیں کہ
روئےزمین کے ہر گھر میں دینِ محمدﷺ کا بول بالا ہو کر داخل ہونے والا ہے؛ عزت والوں کو دینِ اسلام سے مشرف کرکے، اور ذلت والوں کو
دولتِ اسلام کا زیرنگیں لا کر۔
v
قرآن کا
پہلا امر: توحید: اعْبُدُوا رَبَّكُمُ۔ اور پہلا
نہی: زمین پر خدا کے ہمسر کھڑے
کرنے سے: فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ
أَندَادًا۔ پس دعوت کی بنیاد اور قرآن کا اصل موضوع یہیں آ گیا۔ جس دعوت کا مرکزی مضمون یہ ہوگا: یعنی
شرک کا مسلسل ابطال اور توحید کا خوب خوب اِحقاق.. وہی دعوت درحقیقت قرآن
کی دعوت ہو گی۔
v
عبادت اپنی جزئیات میں تفصیل رکھتی ہے؛ اور اس کا
تعلق فقہ سے ہے۔ مگر اِس کا مجمل تصور اہم اور مقدم تر ہے؛ اور اس
کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ یعنی ملتِ شرک سے براءت۔ ناقبول عبادت سے بیزاری۔ اور
خدا کے ہاں قبول عبادت کا سرا تھامنا۔ ’’عبادت‘‘ اِس معنیٰ میں غیرمنقسم ہے۔ واعظ لوگوں کا زیادہ زور ’’عبادت‘‘ کے حوالے سے اعمال و جزئیات پر ہوتا ہے۔ جبکہ علماء کا زور: عبادت کی اُس اصل پر جہاں
سے اہل سعادت اور اہل شقاوت کے راستے جدا ہوتے ہیں۔ إيّاكَ
نَعْبُدُ کے تحت بھی
واعظ لوگ اعمال اور وظائف کی جہت کو نمایاں
کرتے ہیں۔ جبکہ علماء لوگ ’’عبادت‘‘ کے تحت ایک متعین شاہراہ پر چڑھ
آنے اور اس کے ماسوا راستوں سے مفارقت کر آنے کو۔ اِسی کو ابن عباس توحید کہتے ہیں۔ خدا کو باربار جس ’’عبادت‘‘ کا واسطہ دیا جاتا اور جس کے دم سے آدمی خدا کے عذاب
سے بچنے کی امید اور اُس کی رحمت کی آس پاتا ہے وہ اصل میں یہ ہے۔
v
خوب یاد
رکھو: ہر عبادت قبول نہیں ہوتی۔ صرف
ایک قبول کی بات نہیں، عبادت کی بہت سی صورتیں آدمی کےلیے وبالِ جان ہو سکتی ہیں (عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ)۔ اس
لیے؛ یہاں جو عبادت کا حکم آیا وہ ایک مخصوص عبادت ہے۔ حافظ حِکَمی کہتے ہیں: عبادت جو خداوند کریم کے ہاں مانی جاتی ہے، اس
میں تین باتیں دیکھی جاتی ہیں:
1.
اس میں
عبادت کا رنگ ہو۔ یعنی پوجا، عاجزی، ذلت، طمع، چاہت۔ اس کو اصطلاح میں صدقِ عزیمت
کہتے ہیں۔
2.
اس
عبادت کا محل اور مقصود واحد خدا کی ذات ہو۔ اس کا نام ہے اخلاص۔
3.
اور اس
کا حکم لازماً خدا کے ہاں سے صادر ہوا اور تاحال منسوخ نہ ہو۔ اس کا نام ہے شرع۔
v
بنابریں؛
’’عبادت‘‘ میں توحید اور رسالت کا مضمون آپ سے آپ آتا ہے۔ ’’اعمالِ
صالحہ‘‘ کے معنیٰ میں یہ بات خودبخود شامل ہے۔ الّا یہ
کہ اعمالِ صالحہ آپ کے نزدیک ’’عبادت‘‘ کے علاوہ کوئی چیز ہوں! یہ بات سورۃ البقرۃ کے آئندہ کئی مقامات پر کام
آنے والی ہے۔
v
قرآن کے
اِس سب سے پہلے خطاب میں جہاں مخاطب پورا جہان ہے: يَا أَيُّهَا
النَّاسُ۔ اور سب سے عظیم مطالبہ ہے: اعْبُدُوا رَبَّكُمُ۔ یعنی
توحید۔ وہيں پروردگار کا کمال تعارف کرایا گیا:
الَّذِي خَلَقَكُمْ... الَّذِي
جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً... نیز کائنات کی حقیقت پر سوچ بچار کی دعوت۔
ربوبیت کا بیان جو توحیدِ الوہیت تک پہنچائے۔ کائنات پر غور و فکر جوکہ انسان کے
عقلی قویٰ کو دعوت ہے۔
v
آیاتِ اَنفس
کی جانب راہنمائی ہوئی: تمہاری اپنی
اور تمہارے بڑوں کی تخلیق۔ آیاتِ آفاق کی جانب راہنمائی: آسمان زمین اور ان کے اندر مسخر کر رکھے گئے اسباب جو وجودِ
کائنات اور زندگی کو ایک نہایت اعلیٰ اور متنوع سطح پر ممکن بناتے ہیں۔
v
عبادت
کے مادہ کا زیادہ سے زیادہ اعلیٰ اور نفیس حالت میں انسان کے اندر سے برآمد ہونا
اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ خدائی افعال (ربوبیت) پر زیادہ سے زیادہ غور کیا جائے
اور اس کے احسانات کا زیادہ سے زیادہ مشاہدہ۔
v
عبادت
کی ڈالیوں پر جو پھل آنا ہے، اس کا بھی ذکر کر دیا گیا: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ تقویٰ
اِسی شجرِ عبادت کا حصہ ہےمگر یہ اِس شجر کا وہ خاص حصہ ہے جس کےلیے درحقیقت اس
شجر کی کاشت ہوتی ہے!
v
پس اس
عبادت کا منبع بھی بیان ہوا: خدا کا
زیادہ سے زیادہ تعارف۔ اس کی ربوبیت، اُس
کی آیات اور احسانات کا زیادہ سے زیادہ ادراک۔ اور اِس عبادت کا ثمرہ بھی ذکر ہوا: تقویٰ؛ جہاں ’’عبادت‘‘ انسان کے احساسات اور رویوں میں جا اترتی ہے۔
v
بغوی
کا بیان لَعَلَّكُمْ کے تحت نہایت قابل غور ہے۔ یہ لفظِ ترجّی ہے۔
یعنی امید۔ اس کا حوالہ یہاں مخاطَب کی جہت سے ہو گا۔ یعنی تم عبادت کرو اِس آس
اور امید میں کہ تم خدا کی خفگی اور پکڑ سے بچ جاؤ۔ پس عبادت ایک خاص طمع سے ہونی چاہئے۔ عبادت گویا ایک پردہ اور ایک اوٹ ہےجو
خدا کے عذاب سے بچنے کےلیے لی جاتی ہے۔ اور یہ اوٹ لینا: تقویٰ۔ یہاں؛ عبادت کی غایت بھی بیان ہو
گئی۔
v
’’عبادت‘‘ کے ایک ایسے جامع حکم کے مقام پر خدا کی وہ
نشانیاں دکھائیں جو کائنات میں سب سے جلی اور نمایاں ہیں۔ انہی کی تفصیل قرآن میں
زیادہ ہے۔
v
شرک سے
روکنے کا انداز بھی خاص طور پر یہاں لائقِ توجہ ہے۔ کہا:
خدا کے ہمسر کھڑے مت کرو۔ گویا یہ مقامِ غیرت ہے۔ شرک کی ممانعت ہی نہیں، شرک کی
قباحت بھی ذکر ہو گئی۔
v
وَأَنتُمْ
تَعْلَمُونَ۔ گویا توحید نہ
صرف شرع کا حکم بلکہ عقل و فطرت کی گواہی ہے۔