عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, May 3,2024 | 1445, شَوّال 23
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mohid_Tahreek آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
تاثرات کی مار
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

تاثرات کی مار

 

ایک قوم کی پسماندگی، اوپر سے تاثرات اور رجحانات کی مار، اور پھر رواداری کی تاکید۔ آخر ہمارے دانشور کہاں ہیں؟؟؟

تاثرات کا مسئلہ قوموں اورمعاشروں میں، اور ان کا رخ متعین کرنے میں، بے انتہا اہمیت رکھتا ہے۔ الفاظ، اصطلاحات اور رجحانات بظاہر ایک غیر محسوس چیز ہیں مگر یہ قوموں اور تہذیبوں کے معاملات میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ معاشرے کے اندر اور خصوصاً معاشرے کی ثقافتی قیادت کے ہاں کسی چیز کو کس طرح لیا جاتا ہے اور کسی بات کا کیا مفہوم ہے، اس پر اس کی نسلوں کا دارومدار ہوتا ہے۔ کسی قوم کی زندگی میں اس مسئلے کو حل کئے بغیر آگے بڑھا ہی نہیں جا سکتا۔

دعوت کسی بھی اور بات سے پہلے دراصل تو اسی مسئلے کا حل ہوتی ہے۔

کسی خاص فکر یا عقیدے یا روش کی بابت معاشرے میں ایک خاص تاثر بنا دیجئے میکانکی انداز میں لوگوں کے اندر خود بخود وہ ردعمل پیدا ہو جائے گا جو اس تاثر کا تقاضا ہو۔ کسی انداز فکر کی بابت معاشرے میں کیا فیشن پایا جاتا ہے اور کسی روش کی بابت معاشرے میں کس قسم کے الفاظ اور پیرائے عام ہیں، اس معاشرے کی فکری اور تہذیبی اہلیت کا تعین کرنے کیلئے یہ بے انتہا اہم ہے۔ اگر آپ معاشرے کی سطح پر کوئی تبدیلی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں تب تو اس مسئلے کو آپ کی شدید توجہ چاہیے ہوگی۔

تاثرات کا اسیر بن جانا اور وہ بھی ان تاثرات کا جو معاشرے میں جاہلی ابلاغ اور تعلیم کے ہاتھوں پھیلے ہوں، معاشرے کی شدید بدقسمتی ہے۔ یہ صرف ہمارے دانشوروں کا کام تھا کہ وہ لوگوں کو رجحانات اور تاثرات سے بلند ہو کر سوچنے پر تیار اور حقائق کو ان کی روح کے ساتھ لینے اور سمجھنے پر آمادہ کریں۔

اس بات کو نہ سمجھنے کی ہمیں جتنی قیمت دینا پڑی ہے شاید کسی اور چیز کی اتنی قیمت کبھی نہیں دینا پڑی۔ آپ ایک چیز سے محبت کرتے ہیں مگر اس کے بارے میں معاشرے میں پھیلے تاثر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ آپ ایک چیز کو برا سمجھتے ہیں یا برا سمجھنا چاہتے ہیں مگر معاشرے میں اس کیلئے پایا جانے والا ایک اچھا اور خوبصورت تاثر آپ کی راہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ تب کسی چیز کو اچھا یا برا کہنا بڑی حد تک آپ کے اختیار میں نہیں رہتا بلکہ معاشرے کے رجحان سازوں کے پاس چلا جاتا ہے اور اگر آپ کو اپنی عقل پہ سہارا کرنے پر ایسا ہی اصرار ہو تو معاشرے کی ڈگر سے ہٹ کر کسی چیز کو اچھا یا برا کہنا اور حق کا فی نفسہ وزن کرنا آپ سے ایک قیمت کا تقاضا کرتا ہے۔ وقت کے ایک فیشن کو غلط کہہ کر آپ خود بخود معاشرے کی نظر میں غلط ہو جاتے ہیں۔ اپنی عقل سے سوچنے کی یہ ایک بڑی قیمت ہے اور ہر کوئی اس کا متحمل نہیں۔ کہاں ایک شخص کی بات اور کہاں اس کے مقابلے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کا اعتقاد۔ یہ الگ بات کہ ان ہزاروں لاکھوں کی زبان میں معاشرے کے چند رجحان ساز ہی بول رہے ہوتے ہیں پھر بھی معاشرے میں رائج تاثرات و رحجانات سے بغاوت ایک بڑی جراَت چاہتی ہے۔ عام لوگوں کی یہ دشواری تبھی دور ہو سکتی ہے اگر کچھ باہمت لوگ تاثرات و رحجانات کی دنیا میں حق اور باطل کی یہ جنگ پہلے لڑلیں۔ لہٰذا ایسے دانشور اور اہل علم جو اپنے معاشرے کو یہ جنگ لڑدیں، معاشرے کی خوش بختی کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں۔

یہ ایک باقاعدہ محاذ جنگ ہے۔ اس کو نظر انداز کر دینے کی ہمیں کس قدر بڑی قیمت دینا پڑتی ہے، سب کے سامنے ہے۔ اسلام پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی دعوت کا خود ہمارے اس دور میں بنیاد پرستی کے عنوان کے تحت جو حشر ہو رہا ہے وہ کسی سے اوجھل نہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے پردے میں ہر گھناؤنی واردات جائز ہو جاتی ہے بلکہ مہذب انسانیت کی اعلیٰ ترین خدمت بھی قرار پاتی ہے۔ اسلام سے تمسک رکھنے پر آپ اس وقت تک گردن زدنی نہیں ہوتے جب تک آپ کو مذہبی جنونیت پسند قرار نہ دے لیا جائے۔ اس کے بعد پھر آپ کے ساتھ جو کیا جائے، حلال ہو جاتا ہے!

توحید کی دعوت کو فرقہ واریت کے کھاتے میں ڈال دینا بھی جاہلیت کی ویسی ہی ایک چال ہے۔ یہ ایک ایسا مہیب اور غیر مہذب عنوان ہے جسے آپ ہر اُس بات پر چسپاں کر سکتے ہیں جو آپ کے رجحان سازوں کو پسند نہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بنیاد پرستی کا الزام لگا کر آپ اچھی سے اچھی بات کو ملیامیٹ کرسکتے ہیں۔

طریقۂ واردات ایک ہے۔ ایک عوامی فیشن اور ٹرینڈ ہونا چاہیے۔ ایک عبارت کا وِرد میڈیا میں کچھ دیر تک ہونا چاہیے۔ پھر اس کے پردے میں جن حقائق کا گھونٹ بھرنا چاہیں آپ بڑے آرام سے بھر جائیے کوئی آپ سے پوچھے گا تک نہیں۔ بلکہ آپ کی زمانہ شناسی کی داد بھی دے گا!

لوگوں کیلئے ’دلیل‘ یہ ہے کہ ایک بات کو بکثرت سنیں اور بار بار پڑھیں۔ ایک بات کا زبان زدِ عام ہو جانا ناقابل تردید حجت ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کی تعلیم اور ترقی لوگوں کی ذہنیت میں کچھ بھی فرق نہ لا سکی۔ پرانے دور کے معاشروں کا جو طرز استدلال تھا وہ آج بھی قائم ہے۔

ہم سب جانتے ہیں استعمار کے کوئی سو ڈیڑھ سو سال کا عرصہ.. اس استعمار کو چیلنج کرنے والا ایک دلیر مسلمان جو گالی کھایا کرتا تھا وہ کیا تھی؟ وہابی....!! کچھ شک نہیں کہ یہ گالی بے انتہا موثر رہی تھی۔ بڑے آرام سے اس بات کا الزام اب ہم انگریز کو دے لیتے ہیں مگر وہابیت کی یہ گالی دراصل وہ ہماری ہی اقوام کو برانگیختہ کرنے اور یوں ہمارے ہی مابین اپنے مفادات کا راستہ بنانے کی غرض سے تو دیا کرتا تھا! اس میں کیا شک ہے کہ وہ ہمیں بے وقوف بنانے کا گُر جان گیا تھا۔ ہم یہ کیوں نہیں مانتے کہ اس نے ہماری اقوام کی ذہنیت اور ان کی شعوری سطح کو جانچ لیا تھا چنانچہ دیکھ لیجئے وہابیت کی گالی سے سو سال تک اس کا کام چلتا رہا۔ یہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ اس کی یہ تدبیر اگر ہماری قوم پر بے اثر ہوتی تو وہ اس کا سہارا ہرگز نہ لے پاتا۔ کیا اس کا گلہ صرف انگریز سے کیا جائے؟ حقائق کو حقائق کی صورت میں لینے کی بجائے معاشرے میں پھیلا دیے گئے ”تاثرات“ اور ”رجحانات“ کی رو میں بہنے کا مسلک خود ہماری ہی اقوام نے تو اختیار کیا تھا۔ کیوں نہ اس کا الزام پھر انگریز کے بجائے اپنے اُس وقت کے اصحابِ علم اور اربابِ دانش کو بھی دیا جائے جن کو یہ مسئلہ اس وقت حل کرنا تھا جب یہ پیدا ہوا تھا بلکہ اگر وہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوتے تو یہ مسئلہ وہ پیدا ہی نہ ہونے دیتے۔ ”تاثرات“ اور ”رجحانات“ کا ہتھیار دشمن کسی قوم کے خلاف اسی وقت تو استعمال کرتا ہے جب اس کے دانشور سوئے ہوئے ہوں۔ جاگتی قوم کو مارا جا سکتا ہے گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔

آج ہمارے محققین اور تاریخ نویس ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ استعمار نے صرف برصغیر میں نہیں بلکہ روس کے زیر قبضہ وسط ایشیائی ریاستوں سے لے کر فرانس کے زیر تسلط شمال افریقی ممالک تک میں کس طرح ’وہابیت‘ کو مسلم اقوام کے بڑے طبقے کیلئے ایک ہوّا بنایا اور کس طرح اس عنوان کے تحت ہر جگہ جہاد کرنے والے مسلمانوں کا استحصال ہوا۔ ہمارے سمجھداروں پر کوئی بات آخر تب ہی کیوں واضح ہوتی ہے جب اس کا وقت گزر جائے!؟ وہ یہ کیوں نہیں لکھتے کہ خود آج ان کے دور میں حق کی صدا بلند کرنے والوں کا استحصال کیونکر ہوتا ہے اور اس کا سدباب خود ان کو کیونکر کرنا ہے؟؟

کیا خیال ہے انگریز کو یہاں کی اقوام کا عقیدہ خراب ہو جانے کی فکر دامن گیر رہی ہے جو اس اخلاص کے ساتھ’ فتنۂ وہابیت‘ سے یہاں کے لوگوں کو ایک صدی بھر خبردار کیا جاتا رہا!؟ اور کیا آج کے استعمار کو یہاں کی اقوام کے گمراہ ہو جانے کا اندیشہ ہے اور انکے دین کی سلامتی کی فکر ہے جو ہر طرف بنیاد پرستی اور انتہا پسندی اور سلفیت کے خلاف مہم زوروں پر ہے اور جس کے پردے میں دراصل اصول پسندی اور حق پرستی کا گلا گھونٹنا مقصود ہے؟ ’یہ تمہارا دین بدل دیں گے‘.. یہ وہ نعرہ ہے جو طاغوت ہمیشہ ہر دور میں موحدین کے خلاف لگانا احتیاطی تدابیر pre-emptive measures کے طور پر ضروری سمجھتے ہیں۔ دین بدلنے سے دراصل ان کی مراد لوگوں کو حق کی سمجھ آجانا ہے اور یوں ان کے اقتدار کا خطرہ میں پڑ جانا۔ ان کا اقتدار نہ رہا تو گویا دنیا تباہ ہو جائے گی اور ہر طرف فساد پھیل جائے گا!

 

فرعون نے کہا: چھوڑو مجھے، میں اس موسیٰ کو قتل کئے دیتا ہوں اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔

موسٰی ؑنے کہا:میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے

تب آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا:

کیا تم ایک شخص کو صرف اس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے کر آیا ہے۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ(26) وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُم مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ (27)وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ- مؤمن

 

رجحانات اور تاثرات کی مار، کسی معاشرے کے حق میں بے انتہا کاری اور بہت ہی بری ثابت ہوتی ہے۔ ویسے یہ ہرگز نقصان دہ نہیں ہوتی اگرمعاشرے کے سمجھدار ذہن بروقت اس کے آڑے آجائیں۔ اور اگر سمجھدار ذہن ہی اس کی رو میں چل پڑیں پھر تو وہ معاشرہ اپنے تشخص ہی نہیں اپنے وجود کیلئے بھی حالات کے رحم وکرم پرہو جاتا ہے۔ ایسی قوم اپنے لئے اہداف پھر خود متعین نہیں کرتی اس کی یہ خدمت پھر دوسروں کو کرنا پڑتی ہے!

 

**********

 

اصولوں پر شدت بس اسلام کے حق میں بری ہے؟؟؟!

 

ایسا بھی نہیں کہ اصولوں پر شدت اختیار کرنے کا زمانہ بالکل ہی لد گیا ہے اور ایسا کرنے والوں پر تعجب کیا جانا کچھ آج اس دور میں لازم ہو گیا ہے! اصولوں پر کوئی سمجھوتہ اور کوئی لچک پیدا نہ کرنا اور اصولوں سے کسی کو کوئی چھوٹ نہ دینا آج بھی ویسے قدر کی نگاہ سے دیکھا ضرور جاتا ہے۔ مغرب میں تو خیر اس کا نسبتاً خاصا زیادہ رواج ہے مگر ہمارے یہاں بھی مغرب کے سچے پیروکار اصولوں پر ڈٹ جانا اور قواعد وضوابط کے معاملے میں دو ٹوک ہونا اپنے تشخص کا جزو لاینفک بنا لینے میں عموماً سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ حتی کہ مغربی اصولوں کا دم بھرنے والی ایک خاص بڑی تعداد ایسی ہے جو اگر اس اصول پسندی کا خود کو متحمل نہیں بھی جانتی تو بھی اصولوں پر ڈٹ جانے اور اصولوں کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ضرور ہے۔ بلکہ انہیں قوم کے محسن بھی قرار دیتی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ یہ اسلام کے اصول نہ ہوں کہیں اور سے درآمد کئے گئے ہوں!

پیچھے ہم ابھی کہہ چکے ہیں کہ سارا معاملہ تاثرات کا ہے۔ ورنہ اصول پسندی آج بھی بری نہیں۔ کوئی اس پر عمل پیرا نہ ہو اس کو فضیلت کی بات ضرور مانتا ہے۔ فرق صرف تب پڑتا ہے اور معیار بدل جانے کی نوبت تب آتی ہے جب مسئلہ اسلام کے اصولوں کا اور عقیدہ و شریعت کے ضابطوں کا ہو۔ یہ البتہ خوامخواہ کی شدت ہے! رجعیت اور قدامت پسندی ہے اور اختلاف کو ہوا دینا!!!

جس چیز پر قوم (دراصل قوم کا ایک خاص طبقہ!) متفق نہیں بس وہ اختلافی مسئلہ ہے خواہ وہ شریعت کا اصل الاصول کیوں نہ ہو اور فقہائے اسلام کے ہاں صدیوں متفق علیہ کیوں نہ چلا آیا ہو۔ اس پر لوگوں سے جھگڑنا اور اس کو منوانے پر ضد کرنا جمود اور پسماندگی ہے جس کا طعنہ بس کوئی ہی سہہ سکتا ہے۔ اگر آپ روشن خیال کہلانے میں کچھ بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو اس سے ڈر کر بھاگنا آپ پر ہر حال میں لازم ہو جائے گا۔ قرآن میں اس پر کتنا زور ہے اور نبیوں کی زندگی اس پر زور دیتے کس طرح گزری، سب غیر متعلقہ ہوجاتا ہے۔ جو بھی ہے یہ زمانے کا تقاضا بہرحال نہیں ہے!

البتہ جس معاملے میں قوم کو متفق سمجھ لیا گیا ہو، یعنی قوم کے ترجمانوں نے اس پر صاد کردیا ہو، خواہ وہ شریعت میں حرام کیوں نہ ہو، شرک کیوں نہ ہو، جاہلیت کیوں نہ ہو، مغرب کی صاف تقلید کیوں نہ ہو، وہ آئین ہے۔ زمانے کا دستور ہے۔ اس پر زور دینا، اس پر جھگڑا کرنا، اس کے توڑے جانے پر زمین آسمان ایک کر دینا اور اس کی خلاف ورزی پر ہر کسی کے منہ آنا جدید ہونے کی علامت ہے۔ روشن خیالی ہے۔ زمانہ فہمی ہے اور نہ جانے اس کی کیا کیا فضیلت ہے!

معاملہ بس تاثرات کا ہی تو ہے! ذرا کچھ سالوں یا کچھ عشروں کی محنت کرکے آپ معاملے کو الٹ دیجئے آپ دیکھیں گے عبادت میں اور حکم و قانون میں اللہ کے ہمسر ٹھہرائے جانے پر اور رسول کی شریعت پہ کسی اور قانون کو ترجیح دیے جانے پر چیخ پڑنا اور اس کو ناقابل برداشت جاننا روشن خیالی کہلائے گا اور مہذب ہونے کی علامت مانا جائے گا اور اسلام میں جاہلیت کا چلن کرنے والے دقیانوسی سمجھے جائیں گے۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کسی معاملے کو دیکھنے کیلئے کھڑے کہاں ہیں۔ نیچے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں یا اوپر سے۔ مسئلہ پوزیشن بدلنے کا ہے اور اصل زور اسی پر صرف ہونا ہے۔ دعوت دراصل معاشرے کو اسی تبدیلی سے گزارنے کا نام ہے۔

 

**********

 

ہمارا وہ جدید طبقہ یا اس طبقے کا بڑا حصہ جو کہ اسلام میں دلچسپی بھی لیتا ہے اور اسلام سے محبت بھی کرتا ہے، عام دیکھا گیا ہے کہ وہ اسلام کے ان پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ضروری سمجھتا ہے جن کو عرف عام میں پرانا قرار دے دیا گیا ہے چاہے وہ توحید کے بنیادی مسائل اور ایمان کے بنیادی تقاضے کیوں نہ ہوں۔ چاہے یہ وہ مسائل کیوں نہ ہوں جن پر پیغمبرِ اسلام ﷺ نے زندگی بھر زور دیا بلکہ ان کے باعث دنیا کو، جو کہ ویسے آپ کی بے انتہا قدر کرتی تھی، اپنی جان کا دشمن کر لیا اور یہاں تک کہ خود ہجرت کر جانے پر مجبور ہوئے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

اسلام کے ان ٹھیٹ حقائق کو اپنے دور سے منوانے کے سوال پر ہمارے یہ قابل احترام حضرات کیوں ایک ناگواری سی کا اظہار کرتے ہیں؟

اسلام کی وہ بنیادیں جو رسول اللہ ﷺ نے وحی کی مدد سے مکہ میں اٹھائیں اور ان کی طرف کھل کھلا کر دعوت دی اور پھر ان پر ہی مدینہ جا کر اسلام کی باقی عمارت کھڑی کی حتی کہ آپ کے قتال کی بنیاد بھی یہی رہی.. ہماری توجہ کا محور بننے سے کیوں محروم ہیں؟

اسلام کی وہ اساس جس پر صدیوں تک جملہ اہل اسلام کا اتفاق رہا ہے اور جس نے ہمارے قرن اول کی نہایت عمدہ تعمیر کی تھی اور جس کے بغیر اسلام کا تصور بھی ناممکن ہے.. یعنی بندگی کی سب اشکال پر تنہا خدا کا حق تسلیم کیا جانا اور اس کے سوا ہر کسی کے پوجا جانے اور پکارا جانے کو معاشرے کیلئے ناقابلِ قبول بلکہ ناقابلِ برداشت بلکہ ناقابلِ تصور بنا دیا جانا اور اللہ وحدہ لاشریک کی اتاری ہوئی شریعت کے سوا ہر قانون اور ہر تہذیب کو صاف ٹھکرا دینا، معبود برحق کی ہمسری ہو جانے کے معاملے میں کسی سے کوئی رو رعایت نہ کرنا.. اور یوں بندگی میں اللہ کی یکتائی اور اتباع میں محمد ﷺ کی رسالت پر حرف آنے(1) کو ہر آئین کی پامالی سے بڑا مسئلہ سمجھنا.. یہ سب ہمارے اسلام پسند جدید طبقے کو آخر اوپرا کیوں لگتا ہے؟

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھ لیجئے۔ ہمارے معاشرے کے بعض اصول پسند دانشور اور مہذب لکھاری جمہوریت پر ایمان کا یہ کم از کم حق جانتے ہیں کہ جمہوری اصولوں کو توڑا جانے پر یہ کسی بڑے سے بڑے کے ساتھ بھی کسی رُو رعایت کے روادار نہ ہوں اور آئین کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ کر لینا یہ موت سے بدتر جانیں!
ہمارے وہ دانشور آخر یہیں تو رہتے ہیں جو جمہوریت پر یا آئین کی روح پر کبھی حرف آئے تو بے ساختہ چیخ پڑتے ہیں اور جمہوری اصولوں کے معاملے میں کسی کا لحاظ کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ خونی رشتوں اور جماعتی دھڑے بندیوں کو بھی خاطر میں لانا اپنے اس دین سے انحراف تصور کرتے ہیں۔

ہمارے وہ ’اصول پسند‘ یہیں اسی معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور اپنے بے لاگ ہونے کی شہرت اور اصولوں کے معاملے میں ہر کسی سے ٹکرا جانے کا اعزاز رکھنے پر بہت قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.. بلکہ ان کی رِیس میں اس انداز کے کالم لکھنا باعث شرف جانا جاتا ہے جو اصولوں کا خون ہو جانے پر اور پاکستان کی آئینی روایات کی تاریخ میں نظریۂ ضرورت کی بنا ڈالنے کا جرم ہونے پر پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس کا نام قریب قریب ایک گالی کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔ ان آمریت دشمنوں کو کبھی کسی نے انتہا پسند کہا اور نہ شدت پسندی کا طعنہ دیا بلکہ اصولوں کے احترام اور تحفظ کے صلے میں ہمارے یہاں ان کو ہمیشہ ہدیۂ تبریک ہی پیش کیا گیا اور ملک کے حق میں ایسے معدودے چند اصحاب کے وجود کو بسا غنیمت جانا گیا!

اخبارات پڑھ کر دیکھیے جمہوری روایات کے حق میں واویلا کرنا کتنا باعث شرف پیشہ ہے اور کتنا بڑا اعزاز!

کیا آدمی سر پھرا اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اسلام اور توحید اور شریعت کے اصولوں پر اس طرح اصرار کرے جس طرح کہ ہمارے بعض سیاسی رہنما جمہوری اصولوں پر اڑ جانا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنی ایسی خدمات کے اعتراف میں پوری قوم سے داد پانے کی توقع رکھتے ہیں!؟

اصولوں پہ اڑنا اگر شرف کی بات ہے تو کیوں نہ یہ وہ اصول ہوں جو اللہ کے ہاں سے اس کے رسول پرنازل ہوئے؟ اصول پسندی قابل تحسین ہے تو لوگوں کیلئے اصول پسندی کا معیار کیوں نہ اللہ کا دین ہو اور اس کا بلا شرکت غیرے پوجا جانے کا حق؟ کیا ایک اچھی چیز تب ہی بری ہوتی ہے جب وہ خدا کے حق کے ساتھ جڑے!؟
اصولوں پر سمجھوتہ جمہوریت پر ایمان رکھنے والوں کے حق میں معیوب ہو اور ایک گراوٹ باور کی جائے مگر توحید پر ایمان رکھنے والوں کے حق میں یہ زمانہ فہمی کہلائے اور روشن خیالی!!!

 

تمہارے اپنے لئے بیٹے اور خدا کیلئے بیٹیاں!؟ (ایک یہ) تقسیم اور پھر اس قدر غیر منصفانہ!

أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَى (21) تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى (22) - النجم

 

بندگی میں اللہ کی وحدانیت اور قانون میں رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی اتباع.. اس کو ہر آئین سے بڑا آئین ماننا اور اس آئین کی پامالی کو کسی بھی مارشل لا کسی بھی بالائے پارلیمان کارروائی، کسی بھی غیر جمہوری رویے اور کسی بھی آئینی خلاف ورزی سے بڑی خلاف ورزی قرار دینا.. یہ آج ہمارے پڑھے لکھے دینداروں کو عجیب وغریب کیوں لگتا ہے؟

کیا یہ مسئلہ دین میں نیا ہے جو ان کو بدعت ہو جانے کا ڈر ہے یا یہ اتنا پرانا ہو گیا ہے کہ اب یہ اس دور کیلئے نہیں رہا!؟ بلاشبہ یہ مسئلہ اہل اسلام میں صدیوں تک متفق علیہ چلا آیا ہے اور اسلامی تہذیب کا تمام دور اسی مسئلے کو ہر آئین سے بالاتر آئین کی حیثیت حاصل رہی ہے.. یعنی نہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت اور نہ محمد ﷺ کے سوا کسی کی شریعت۔ پھر وہ کونسے اسباب ہو گئے ہیں کہ اسلام کے اس آئین پر اسی شدت سے اصرار کرنا جس شدت سے صحابہ اور تابعین اور بعد کی نسلوں نے اس پر اصرار کیا تھا، ایک معیوب اور متروک بات قرار دے دی جائے اور اس پر آخری حد تک ڈٹ جانے کو خوامخواہ کی شدت!؟

کیا اب بھی آپ تسلیم نہ کریں گے کہ اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے دنیا کیلئے نہیں خود مسلم معاشروں کیلئے بلکہ بہت سے اسلام پسندوں کیلئے بلکہ بہت اسلام کے ماہرین کیلئے اجنبی ہو چکا ہے!؟

 

اسلام کا آغاز تھا تو یہ اجنبی تھا۔ عنقریب یہ ویسے ہی اجنبی ہو رہے گا جیسے یہ آغاز میں تھا۔ پس خوشخبری ہو (اُس دور کے) اجنبیوں کو!

عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَدَأ الْاِسْلَامُ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأ غَرِیبًا فَطُوبَی لِلْغُرَبَاء(2)

 

*********

 

سبب کیا ہے؟

 

ہم اس معاملے پر بغور سوچنا چاہیں گے کہ توحید پر محنت اور شرک کے خاتمہ کی دعوت پر ہمارا اسلام پسند جدید طبقہ کیوں متعجب سا ہونے لگتا ہے۔ متقدمین اور متاخرین علماءو فقاءکی کتب جن عقائد اور جن اصولوں کی تکرار سے بھری ہوئی ہیں ان کو پھر سے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ بنا دینا اور لوگوں پر کفر اور اسلام کا فرق ازسرنو واضح کرنا آج ہمارے ایک بڑے طبقے کو عجیب اور انہونا کیوں لگتا ہے؟

کوئی شک نہیں کہ یہ کام اسلام کا اولین تقاضا ہے اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کا منہجِ تحریک اس پر واضح شہادت ہے۔ ہمارا یہ پڑھا لکھا طبقہ یہ کام اگر خود کرتا یا کر رہا ہوتا تو بلاشبہ یہ کام آج اس دور میں باحسن انداز انجام پاتا۔ مگر جب ایسا نہیں ہو رہا تو پھر ایک خلا کا پایا جانا یقینی تھا۔

دراصل یہ عین وہ وقت تھا جب مسلم ذہن کی ایک تشکیل نو ہونا تھی اور ایک بڑے دھچکے کے بعد اُمت کو پھر سے انہی بنیادوں پر اٹھنا تھا جس پر پہلے پہل اس کی اٹھان ہوئی تھی۔ ہمارا پڑھا لکھا دینی طبقہ جب دین کے اس بنیادی کام کو اپنی توجہ کا محور نہیں بنا پایا.. دین کے کچھ اورکام کرنے میں تو مصروف رہا.. اسلام کی کچھ جزئیات کو تو اپنی تحقیقات کا موضوع ضرور بنایا اور اسلام کے بعض سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کو بھی ضرور توجہ دی مگر اسلام کے وہ ٹھیٹ حقائق جو ہر دور کے باطل کو بہت چبھتے ہیں کیونکہ وہ کفر اور اسلام کے مابین اصل حد فاصل ہیں.. اسلام کا وہ اصل تنازعہ جو ہر دو رمیں جاہلیت کے ساتھ رہا ہے اور قیامت تک رہے گا.. اسلام کی وہ اصل بنیاد جس سے خار کھا کر دنیا رسول اللہ ﷺ کی دشمن ہوئی تھی اور بالآخر آپ کو ہجرت پر مجبور کرکے رہی۔ دو ملتوں میں اصل باعث نزاع مسئلہ، اسلام کی وہ اصل اساس جو نجات کی کنجی ہے ___ یعنی شرک سے شدید ترین مخاصمت، توحید سے آخری درجے کا تمسک اور نبی ﷺ کی شریعت کی اتباع کرنے اور کروانے پر شدید ترین اصرار اور جاہلیت کی حقیقت کا آشکار کیا جانا ___ یہ بہرحال ہمارے پڑھے لکھے اور اسلام پسند جدید طبقے کا بنیادی اور ہمہ وقتی موضوع نہ بن پایا۔

اصل بات تو یہ ہے کہ معاشرہ اگر اسلام کی حقیقت پر قائم ہوتا تو بھی معاشرے کا یہی بنیادی موضوع رہنا چاہیے تھا کجا یہ کہ معاشرے میں اسلامی فکر وتصور کی بنیادیں دو صدی پہلے ہل گئی ہوں اور شرک کی ان گنت جدید اور قدیم شکلوں نے معاشرے کا اس بری طرح گھیرا کر رکھا ہو پھر بھی یہ معاشرے کا اصل موضوع نہ بنایا گیا ہو.. تب تو اس کو ایک بہت بڑا خلا ماننا چاہیے۔ ایسے میں صرف فقہی مسائل کی تحقیقات کرنا یا صرف معاشی ترقی کے منصوبے بنانا، یا صرف اخلاقی امور ہی کی ضرورت پر زور دینا، یا صرف سیاسی بحرانوں کو ہی اُمت کا موضوع بنا دینا ہرگز وہ کام نہ تھا جس کا ہمارا یہ جدید دینی طبقہ معاشرے میں بیڑا اٹھاتا۔

سب سے پہلے معاشرے کو اسلام کی ٹھیٹ بنیادوں پر ہی قائم کیا جانا تھا پھر ان باقی محاذوں پر جت جانے کی بھی ضرور نوبت آتی جن پر یہ اصل محاذ پر توجہ دیے بغیر سرگرم ہو گئے تھے۔ مگر یہ خلا ہمارے اس طبقے نے جب چھوڑ دیا تو دراصل اس نے یہ کام کسی اور طبقے کیلئے چھوڑ دیا ..

اسلام پسند جدید طبقے نے جس خلا کو پُر کئے بغیر چھوڑا، اسے پر کرنے کو پھر وہ طبقے رہ گئے جسے یہ ’پرانی وضع‘ کے لوگ سمجھتے تھے۔ ٹھیٹ اصولوں کو دراصل ’نئی وضع‘ کے لوگ چاہئیں تھے تاکہ یہ اپنے دور اور معاشرے کی آواز بن سکیں۔ یہ ایک بڑا رخنہ تھا جو اس خلا کو پر کرنے کے معاملے میں رہ گیا۔ بلکہ یوں کہیے یہ خلا اپنے حجم وجسامت میں اس وجہ سے اور بھی بڑھ گیا۔ یعنی وہ طبقے جومعاشرے سے معاشرے کی زبان میں بات کرنے کی قدرت رکھتے ان طبقوں کا اسلامی عقیدہ کو معاشرے کا اصل موضوع بنا دینے میں ناکام رہنا ایک خلا تھا تو اس خلا کو پر کرنے کو ان لوگوں کا آگے بڑھنا، یا یوں کہیے اس خلا کو پر کرنے کو اس طبقے کا آپ سے آپ باقی رہ جانا، جو معاشرے کو پوری طرح سمجھ سکتے تھے اور نہ سمجھا سکتے تھے.. اس خلا کا اور بھی وسیع ہونا تھا۔

یہ دونوں باتیں دعوت توحید کے مفاد میں نہ تھیں۔ پھر اس میں جو تیسری بات شامل ہوئی وہ ان دونوں سے خطرناک تھی۔

معاشرے میں صرف ’پرانی وضع‘ کے لوگوں کا ہی عقیدہ کی دعوت دینے کو موجود ہونا اور بسا اوقات عقیدہ کی صحیح ترجمانی کرنے میں ناکام رہنا آگے چل کر اس بات کا سبب بنا کہ خود عقیدہ ہی کی بابت ذہنوں میں ایک خاص قسم کا ’تاثر‘ قائم ہو جائے۔ یوں عقیدہ کی بابت ذہنوں میں ایک ایسا تاثر بنا کہ یہ آج کے دور کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ خود اس عقیدہ پر بھی ’پرانی وضع‘ کا گمان ہونے لگا اور اس کی طرف شد ومد سے دعوت دی جانا ایک انہونا کام!

پھر عقیدہ چونکہ ہے ہی اصولوں کا نام اور اصولوں پر شدت اختیار نہ کی جائے تو اصولوں کا کوئی معنی اور کوئی حقیقت ہی نہیں رہ جاتی، جو کہ ایک آفاقی قاعدہ ہے خواہ جمہوریت کے اصول ہوں یا کمیونزم کے یا اسلام کے، جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں، لہٰذا جن لوگوں کو معاشرے میں اسلامی عقیدہ کی دعوت دینا تھی ان کو عقیدہ پر شدت بھی اختیار کرنا تھی۔ ہمارا یہ نیا طبقہ عقیدہ کو ابھی معاشرے کا ایک مسئلہ بھی نہیں مان پایا تھا کہ اس پر یہ شدت دیکھ کر اور بھی متعجب ہوا۔ یوں وہ لوگ جو معاشرے کو اپنے انداز میں سہی مگر توحید کی دعوت دینے پر جان کھپاتے تھے اور معاشرے میں لوگوں سے اس پر بہت کچھ برا بھلا سنتے تھے ان مسائل پر شدت اپنانے کے باعث اب اور بھی اوپرے اور پرانی طرز کے لگنے لگے۔ خصوصاً جبکہ بعض اوقات توحید کے نام پر وہ بعض ایسے امور تک پر شدت اپنا لیتے رہے جن پر شدت اپنائی جانا شرعاً بھی درست نہ تھا۔ لوگوں کو دین سے خارج کر دینا اتنا آسان نہیں تھا جتنا کہ ہمارے ان بعض قابل احترام طبقوں نے باور کرلیا تھا جو اپنے تئیں توحید کی دعوت دیتے تھے۔ یہ بات آخرکار پھر اس بات کا سبب بنی کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ سرے سے اس وادی کا رخ نہ کرے اور معاشرے کو توحید پہ لے آنے پر اصرار کرنے کو اور معاشرے میں شرک کا راستہ ہر قیمت پر روک دینے کو انبیاءکا طریقہ ماننے کی بجائے فرقہ واریت جانے!

بنیادی طور پر یہ ایک ردعمل تھا جس کے پیچھے عقیدہ کو سمجھانے اور پیش کرنے میں کچھ بے قاعدگیوں اور زیادتیوں کو بھی ضرور دخل تھا مگر اس کی ایک بڑی وجہ ایک ایسے طبقے کا دعوتِ توحید کی پہچان بن جانا تھا جو ہمارے جدید دیندار طبقے کو زیادہ متاثر نہ کر سکتا تھا۔ یہ صورتحال بنیادی طور پر ہمارے اسی جدید طبقے کی اپنی کوتاہیوں کی پیدا کردہ تھی مگر اب اس نوبت کو پہنچ جانے کے بعد اس طبقے کے ہاں یہ ایک اور بھی بڑے ردعمل کا سبب بنی۔ چنانچہ اس معاملے میں ہمارے اس دیندار جدید طبقے نے دو غلطیاں کیں۔ ایک، توحید کی طرف دعوت دینے کے کام کو اپنے سوا کسی اور کیلئے چھوڑ دینا اور دوسرے، اس ’اور‘ کے انداز اور اسلوب سے، جس میں ضرور کچھ غلطیاں بھی ہوں گی، ردعمل کا شکار ہو کر دعوتِ عقیدہ ہی کی بابت اپنا تاثر خراب کرلینا۔

انجام کار اب صورتحال یہ ہے کہ اسلام کے کچھ اہم ترین مسلّمات جن پر ہر نبی نے اپنے معاشرے کی بنیاد اٹھائی اور جو کہ ہر دور میں مسلم معاشروں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے رہے اور جو کہ دارالاسلام اور دارالکفر کے مابین ہمیشہ ایک امتیازی وصف رہا.. یعنی شرک وجاہلیت کے خاتمہ کی دعوت اور اللہ کی بلا شرکت غیرے بندگی پر آخری درجے کا اصرار ___ اورجن کے باعث انبیاءکو اور ہر دور میں حقیقی تجدیدی مساعی کرنے والوں کو لوگوں سے بہت کچھ سننا اور برداشت ضرور کرنا پڑا مگر ان کی بدولت مسلم معاشرے ایک خاص انفرادیت اور یکسوئی پا کر قابل رشک اور نصرت خداوندی کے مستحق ہو جاتے رہے ___ اسلام کے ان مسلمات پر زور دینا اور لوگوں کو ان پر مجتمع اور یک آواز کرنے پر مصر ہونا پرانے زمانے کا کام سمجھا جانے لگا!

لوگوں کو یہ بتانا کہ جس قدر اسلام کے یہ مسلّمات متاثر ہوں اسی قدر انسان کا اسلام متاثر ہوتا ہے اور یہ کہ توحید یا رسالت یا آخرت ایسے مسلمات جاتے رہنے سے اسلام کا کچھ باقی ہی نہیں رہتا چاہے سماجی طور پر آدمی مسلمان یا حتی کہ مسلمانوں کا لیڈر کیوں نہ مانا جاتا ہو اور یہ کہ شرک کا ارتکاب کر لینے یا رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر کسی اور قانون کو ترجیح دے لینے کے بعد انسان کے اسلام کا ___ اصولاً ___ کوئی اعتبار باقی نہیں رہتا سوائے یہ کہ وہ کسی بات سے لاعلم ہو اور جس کا تقاضا ہے کہ اس کی لاعلمی دور کرنے پر تمام تر محنت صرف کر دی جائے اور شرک کی شناعت لوگوں پر بار بار واضح کی جاتی رہے.. یہ بات کرنا لوگوں کو اسلام میں نئی بات نظر آنے لگی!

اس تاثر کے مضبوط ہونے میں کچھ اور اضافی اسباب نے بھی بڑی بے رحمی سے کام کیا۔ توحید کے داعی طبقوں کا معاملہ تو اور تھا، ان میں منہجی طور پر کتنی بھی بے اعتدالی پائی گئی مگر خدا کا فضل ہے یہ سیاسی مفادات کی پیروی سے عموماً محفوظ رہے۔ البتہ ہمارے یہاں کچھ کٹر مذہبی طبقے بھی پائے گئے جن میں فتویٰ ایک ہتھیار کے طور پر چلایا گیا اور بڑی بے دردی سے برتا گیا ہے۔ بہت سے مذہبی گروہ اپنے بعض سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے اور بسا اوقات اپنے آپس کے قرض بے باق کرنے کیلئے آج تک فتویٰ کا سہارا لیتے رہے ہیں.. اس سے وہ تاثر اور وہ ردعمل اور بھی پختہ ہوا جو ہمارے پڑھے لکھے ذہنوں میں بعض روایتی دینی طبقوں اور بعض روایتی دینی موضوعات کی بابت وجود پا چکا تھا.. خصوصاً شرک کے بارے میں اسلام کے اندر پائی جانے والی سختی کی بابت بلکہ دین کے ہر’ سخت مسئلہ‘ کی بابت!

 

*********

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز