عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, May 3,2024 | 1445, شَوّال 23
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Mohid_Tahreek آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دعوتِ توحید اور فرقہ واریت!
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

دعوتِ توحید اور فرقہ واریت!

 

تاثرات کا مسئلہ ایک نہایت پیچیدہ اور گھمبیر مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت کا نفسیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ قبل اس کے کہ دعوت کے مخاطبین کو ان کے پیشگی تاثرات سے رہا کروانے کی ضرورت واضح کی جائے خود داعیوں کو اس مسئلے کی جانب متوجہ کرنے پر زور دیا جانا ہمارے خیال میں کہیں ضروری ہے۔ 
تاثرات ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے حواس خمسہ تک کو متاثر کر دیا کرتی ہے۔ تاثرات perceptions کے زیر اثر انسان پر خود اپنے دیکھے یا اپنے چکھے یا اپنے چھوئے پر یقین کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انسان کے بہت سے خیالات میں دراصل اس کے تاثرات بول رہے ہوتے ہیں۔ حقائق اور شواہد پر تاثرات بھاری پڑتے لوگوں کے ہاں اکثر دیکھے گئے ہیں۔

تاثرات میں ایک بڑا دخل ماحول کو حاصل ہوتا ہے۔ انسانی ذہن وشعور کیلئے سب سے بڑی قید اگر کوئی ہے تو وہ ماحول اور حالات کے قائم کردہ اثرات ہیں خصوصاً اگر وہ ایک منظم جاہلی ماحول ہو۔ بسا اوقات آپ دیکھتے ہیں جتنا کوئی شخص اپنے ماحول سے تعلیم پا کر علم یا آگہی کے کسی میدان میں آگے بڑھتا ہے اتنا ہی وہ ماحول اس کے اندر زیادہ بولنے لگتا ہے تا آنکہ کسی ماحول کی اعلیٰ تعلیم یافتہ کلاس اس ماحول کی ایک قدرتی زبان بن جاتی ہے۔ علم کو تاثرات سے آزاد کرانا یقین کیجئے ایک دشوار کام ہے۔ طبعی علوم میں یہ بہت آسان ہے مگر عمرانی اور سماجی علوم میں بہت مشکل۔

تاثرات اور رجحانات کی بابت ہم ایک علیحدہ مضمون میں بات کریں گے کہ ان پر اگر توجہ نہ دی جائے تو کیونکر یہ ایک ماحول میں دعوت کے پاؤں کی زنجیر بنتے ہیں۔ یہاں اس فصل میں البتہ ہم ایک مقبول عام تاثر پر بات کریں گے جو کہ دعوتِ رسل کو معاشرے کا موضوع بنا دیا جانے میں ایک بڑی رکاوٹ کا درجہ رکھتا ہے اور جس کے تشکیل پانے میں حقیقت یہ ہے کہ مخالفوں کا ہی نہیں دوستوں کا بھی حصہ ہے!

آج کی اس جدید دنیا میں.. اکیسویں صدی کے کسی بھی ملک کے اندر اس کی کسی خاص قومی شخصیت یا شخصیات کی کچھ ایسی حرمت قائم کر دی جاتی ہے کہ انسان کو اس کی بابت کوئی غلط بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑے۔ قومی زندگی کا یہ ایک باقاعدہ حصہ بلکہ ضرورت ہے۔ کوئی شخصیت یا کوئی چیز یا کوئی نعرہ ضرور ایسا ہونا چاہیے کہ اس پر حرف آنا قوم کی اجتماعی زندگی میں ناقابل برداشت ہو۔ یہ بات تہذیب کے منافی نہیں! کچھ باتیں ضرور ایسی ہونی چاہییں جن میں غیر جانبدار یا لاتعلق رہنا قوم کے بس سے باہر ہو جائے۔ اس کے بغیر انسان نامکمل ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ کونسی چیز ہونی چاہیے جو انسان کو اس پہلو سے مکمل کرے؟

چنانچہ کچھ چیزوں کی حرمت کا باربار اور بے انتہا تذکرہ ہونا اور ان کی مسلَّمہ حیثیت پہ حرف آنے کو خارج از سوال کردیا جانا اور کسی غافل کو اس سے خبردار کیا جاتا رہنا کہ کبھی وہ اس کی جرات کر نہ لے، ایک قوم کی زندگی میں بہرحال ضروری ہوتا ہے۔ قوم ہونے کیلئے یہ واقعتا اس کی ضرورت ہے۔ ایک قوم کا وجود ہی تب تک مکمل نہیں جب تک کچھ چیزیں اس کو یا اس کے ایک بڑے طبقے کو حرکت میں لے آنے حتی کہ بسا اوقات آپے سے باہر کر دینے والی نہ پائی جانے لگیں۔ کوئی خاص شخصیت یا کوئی خاص چیز ضرور ایک قوم کی زندگی میں اتنی بڑی ہونی چاہیے کہ اس کی بابت کوئی ناروا رویہ قوم کی برداشت سے باہر ہو۔ قوم بڑی ہی روادار ہو لے اور کسی غیر کو اس کی تعظیم کے فرض سے چھوٹ دینے پر بھی کبھی تیار ہوجائے _ جو کہ عام طور پر نہیں ہوتا!_ تو بھی اس کا برسرعام مظاہرہ بہرحال گوارا نہ کرے۔ حرمت کے اس مرتبے پر کوئی مُورت فائز کر دی جائے یا کوئی تُربت یا کچھ فوت شُدگان یا کچھ قومی شعارات.... اصل بات یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہونی چاہیے جس کے دم سے اجتماعی زندگی میں کسی قوم کا شیرازہ قائم رہے۔ دُنیا میں جب تک قومیں اور معاشرے بستے ہیں اس کی ضرورت کبھی ختم نہ ہوگی۔

اسلامی اجتماعیت کے اندر __ جس کو کہ اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے __ عین یہ حیثیت اﷲ وحدہ لاشریک کو حاصل ہوتی ہے کہ اس کی بابت کوئی ناروا رویہ پوری قوم کی برداشت سے باہر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے جس معاشرے کی بنا ڈالی اس کو سب سے پہلے شرک کے خلاف یک آواز کیا گیا تھا اور خدا کے حق پر بات کرنا اور خدا کے حق کے تحفظ میں مرنے کی خواہش رکھنا قوم کی گھٹی میں ڈال دیا گیا تھا۔ مسلم معاشرے کو سب سے زیادہ چیلنج کرنے والی کوئی بات ہو سکتی تھی تو وہ یہ کہ خدا کی توحید پہ کبھی کوئی حرف آئے یا رسول کی رسالت پر۔ اسلامی معاشرے میں اس پر کوئی خاموش نہ رہ پائے گا اور اس بات کو کوئی براشت نہ کرے گا۔ خدا کے ساتھ شرک کرنا یا رسول پر ایمان نہ رکھنا اگر کسی کا مذہب ہے تو اسلام کے تصورِ رواداری کی رو سے چونکہ اس کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے مگر یہ کام وہ مسلم معاشرے میں برسرعام اور دندنا کر نہ کرے گا بلکہ اپنے گرجا کے اندر کرے گا.. یہی وہ بات ہے جو بیت المقدس لیتے وقت امیر المومنین عمر بن خطابؓ اور نصارائے شام کے مابین ایک عہد کی صورت میں طے پائی تھی۔

اسلامی عقیدہ وفکر کے بنیادی مسلمات جو کہ مسلم معاشرے کی شیرازہ بندی کی اصل بنیاد ہونے چاہییں.. معاشرے کے اکٹھ کا اصل راز ہونے چاہییں.. معاشرے کی جہت بنے رہنا چاہییں.. قوم کو متحرک کرنے کا اصل باعث ہونا چاہییں.. لوگوں کو ان کا رنگ، نسل، زبان اور ملک بھلا دینے والی قوت ہونا چاہییں.. اور جن کے ماسوا چیزوں، شکلوں اور شخصیتوں کو قوم کی اجتماعیت کے اندر ممکنہ حد تک پس منظر میں لے جایا جانا اور ان کی نسبت ناقابل ذکر بنا کر رکھ دیا جانا چاہیے تاکہ دنیا میں مسلم معاشرہ اپنی اصل صورت اور اپنی اصل قامت کے ساتھ منصۂ شہود پہ آئے اور تاکہ دنیا بھر کے انسان اس کی تعظیم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور سا پائیں.. اسلامی فکر وعقیدہ کے یہ بنیادی مسلمات ہی اگر کسی مسلم معاشرے کی قومی زندگی کے اندر اختلافی اور نزاعی بن جائیں یا حاشیائی ہو کر رہ جائیں تو یوں سمجھیے اس کی فکری بنیادیں درہم برہم ہو چکی ہیں اور اس کی اجتماعیت کی وہ ترکیب جس کی بدولت یہ مسلم معاشرہ کہلاتا ہے بدل کر رہ گئی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلم معاشرے میں فکر وعمل کے انحرافات کا کبھی گزر نہیں ہوتا۔ دنیا کا صحت مند سے صحت مند معاشرہ بھی امراض سے یکسر پاک نہیں ہوتا۔ ایک ترقی یافتہ ترین ملک میں بھی ہسپتالوں کی ضرورت ختم نہیں ہو جاتی۔ بلکہ کسی ملک کے ترقی یافتہ اور صحت مند ہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہاں ہسپتالوں اورمعالجوں کی کارکردگی بہت اعلیٰ درجے کی ہو۔ جہاں معاشرے ہیں وہاں امراض ضرور ہوں گے مگر ایک مستعد معاشرہ امراض کے علاج میں بہت ہی سبک ثابت ہوتا ہے۔ وہ مرض جو دوسری جگہوں پر ہرگز کسی توجہ کے لائق نہیں جانے جاتے ایک فرض شناس معاشرے میں ان کو بھی خطرناک جانا جاتا ہے۔ بلکہ علاج کی اصل خوبی تو یہ ہے کہ ممکنہ حد تک مرض کا پیشگی سدباب کیا جائے۔

اسلامی معاشرے میں فکری اور سماجی انحرافات کے ساتھ دراصل یہی معاملہ کیاجاتا ہے۔ معاشروں پر انحرافات کا حملہ ہونے سے کبھی نہیں رکتا۔ مگر دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ علاج کا انتظام کس پائے کا ہے، صحت مند افراد کی نشوونما کا کیا بندوبست ہے اور قوم کے علماءاور دانشور اس فرض میں کیونکر پورا اترتے ہیں۔ اصولاً تو ان کو تباہی کے اسباب سے قوم کو پیشگی متنبہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے پائے جانے کی نوبت ہی سرے سے نہ آئے اور اگر آئے تو کم سے کم آئے۔ کسی قوم کی علمی اور تہذیبی قیادت کی استعداد جانچنے کی اصل کسوٹی گو یہی ہے مگر تباہی کے اسباب اگر سر چڑھ کر قوم میں بول رہے ہوں تو پھر تو یہ دیکھنا کہیں ضروری ہوتا ہے کہ قوم کے دانشور وقت کے انحرافات کے ساتھ کیونکر آہنی ہاتھ برتتے ہیں۔

کیا آپ یقین کریں گے کہ کسی قوم کے دانشور اس کے اندر پائے جانے والے انحرافات کو ختم کرنے کی بجائے ان پر ترس کھانے کا مسلک اپنانا ضرری سمجھتے ہوں اور ان انحرافات کی بیخ کنی کی دعوت کو رواداری کے خلاف جانتے ہوں؟!!

سورہ نور (آیت 55) میں اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان سے جہاں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں تمکین عطا کرے گا اوران کو سکھ اور چین کی زندگی نصیب کرے گا "لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا " وہاں ساتھ اپنی یہ شرط بھی بتا دی کہ ایسا ہونے کیلئے یہ مسلم معاشرے تنہا اسی کی بندگی کریں گے اور اس کے ساتھ کوئی ذرہ بھر شرک نہ کریں گے "يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا" یہ دراصل مسلم معاشرے کی اس بنیاد کا ذکر ہے جس پر حرف آنا مسلم معاشرے کو کبھی گوارا نہیں کرنا۔ شرک پر مسلم معاشرہ کسی بھی صورت میں چپ نہیں رہے گا۔ یہ کسی بھی قومی شخصیت یا قومی ترجیح پر حرف آنے سے بڑا مسئلہ ہے۔ کسی اور چیز پر خاموش رہا جا سکتا ہے مگر اس پر نہیں۔ یہ چیز.. توحید کی اس حرمت کا قائم رہنا مسلم معاشروں کیلئے اس بات کی ضمانت ہوگی کہ یہ زمین میں تمکین پائیں۔ اپنی کرکے کھا سکیں۔ ان کی بگڑی بن جایا کرے اور یہ سُکھ اور چین سے دن گزاریں۔ سُکھ چین جس سے بڑی قوموں کی زندگی میں کوئی نعمت نہیں!

پس جو چیز مسلم ترقی بلکہ مسلم وجود کا اصل راز تھا، ہونا تو چاہیے تھا کہ اس بات کی صبح شام آوازیں پڑتیں اور ہر وقت اور قوم کے ہر طبقے کو اس کی تاکید ہوتی.. کجا یہ کہ نہ صرف اس کی تاکید اور یاد دہانی سے اپنے پڑھے لکھے ناک بھوں چڑھائیں اور ایسا کرنے کو اپنے مرتبے سے فروتر جانیں بلکہ اسے ایک اختلافی مسئلہ جانیں اور اس کے ترک پر غافل لوگوں کو یا حتی کہ معاندین کو تباہی سے خبردار کرنا رواداری کے خلاف سمجھیں!

دعوتِ توحید کا فرقہ واریت کے ساتھ گڈمڈ ہو جانا اس قوم کے حق میں ایک بڑا سانحہ ہے یہاں ہم اس کے اسباب پر کچھ غور کرنا چاہیں گے۔ تاہم یہاں ہم اس کے تاریخی پس منظر میں نہ جائیں گے بلکہ کچھ فکری اور گروہی الجھنوں کا ہی جائزہ لیں گے۔

 

**********

 

ہمارے دانشوروں اور ہمارے معتدل طبقوں کو ترکِ توحید کو کفر اور ہلاکت کہا جانے پر تعجب کیوں ہونے لگتا ہے؟ دین کے مسلمات سے انحراف کا سدباب کیا جانا ان کو رواداری کے منافی کیوں نظر آتا ہے؟

شاید اس کی وجہ ہمارے ان قابل احترام حضرات کا وہ ردِ عمل ہے جو گروہی طرز عمل اور فرقہ وارانہ رحجانات کے خلاف ان کے ہاں ایک قدرتی سے انداز میں وجود پاگیا ہے۔ گروہی طرز عمل اور فرقہ وارانہ رحجانات واقعتا بُرے ہیں۔ ہم خود مانتے ہیں۔ ہمارے پڑھے لکھے اصحاب اور دانشور حضرات اسے بُرا نہ سمجھیں ہم تب بھی اسے بُرا سمجھیں گے۔ ان جدید تعلیم یافتہ حضرات کی تو چلیں پھر اٹھان ایک خاص انداز سے ہوئی ہے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے بعض مذہبی طبقے فرقہ واریت کو بُرا کہنے میں ہمارے اس جدید طبقے کی ہاں میں ہاں ملانا کیوں ضروری جانتے ہیں۔ ہر دور کا کوئی فیشن ہوتا ہے جس کی نقل کر لینا جدید بن جانے کا سستا اور آسان طریقہ ہے۔ فرقہ وارانہ رحجانات کو بُرا کہنا وقت کا کچھ ایسا ہی تقاضا ہے! کاش کہ فرقہ واریت کا بُرا ہونا ہمارے ان مذہبی طبقوں کو قرآن پڑھنے سے معلوم ہوتا جو کہ وہ ہمیشہ ہی پڑھتے ہیں مگر اکثر کو اس کے بُرا ہونے کا علم اخبارات پڑھنے سے ہوا!! فرقہ واریت کے خلاف ان بعض مذہبی طبقوں کا ذہن سیاست میں آنے کے بعد بنا!! بلکہ ان میں سے کئی ایک کیلئے فرقہ وارایت کے خلاف باتیں کرنا تاحال ایک سیاسی عمل ہے..

البتہ ہم فرقہ واریت کو برا کہتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ پسماندگی کا الزام سننے سے ہمیں کوئی خوف لاحق ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرقہ واریت ہمارے دین کی رو سے واقعتا بری ہے اور یہ _ شرک کے بعد _ اسلام میں سب سے بڑا جرم ہے۔

 

اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکرے ٹکڑے کردیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گئے۔ ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔

وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ  (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (32) - الروم

 

یہ بھی درست ہے کہ توحید کے مسئلے کو فرقہ وارانہ بنا دینے کی امت میں واقعی بہت سی دانستہ یا نادانستہ کوششیں ہوئی ہیں۔ توحید پر فرقہ واریت کا لیبل لگ جانے میں ہمارے ان نادان طبقوں کا واقعی بڑا کردار رہا ہے جو لوگوں کو مشرک کہنے کے معاملہ میں غلو سے کام لیتے ہیں۔ توحید کے مسئلے کو معاشرے کے عام لوگوں کی نظر میں اختلافی بنا دینے میں ان انتہا پسند موحد طبقوں کا واقعی بڑا دخل ہے جو خود توحید کو پوری طرح سمجھتے ہیں اور نہ شرک کی حقیقت کو.. اور جو لوگوں پر موقعہ بے موقعہ اور سبب بے سبب فتوے لگاتے ہیں اور جو اپنی ساری لاعلمی اور پسماندگی کو توحید کے کھاتے میں ڈال آتے ہیں۔ واقعتا ہمارے ان بعض طبقوں نے توحید کو فرقہ وارانہ مسئلہ بنا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔

ہمارے وہ طبقے جو عام فقہی اختلافات کو بھی اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا چڑھا دیتے ہیں جتنا کہ معاشرے میں توحید کا حق ہے.. یوں یہ حضرات عام فقہی مسائل اور توحید میں کوئی فرق اور امتیاز کئے بغیر دین کے اصول اور فروع پر یکساں شدت سے مناظرہ کرتے ہیں بلکہ فروع پر ہی مناظرہ کرتے ہیں.. (1)

پھر ہمارے وہ مذہبی طبقے جو عقیدہ کے ان مسائل کو بھی بسا اوقات شرک کہہ دیتے ہیں جو کہ دراصل شرک نہیں بنتے..

پھر یہ ہر اس شخص کو بھی مشرک کہہ دیتے ہیں جو اِن کی نظر میں موحد نہیں یا جو کسی ایسے فرقے سے تعلق رکھتا ہے جو اِن کا فرقہ نہیں!

جو ہر اس آدمی کو مشرک کہہ دینے پر تیار ہو جاتے ہیں جس کے عقیدے اور عمل کی حقیقت سے یہ ابھی واقف تک نہیں ہوتے اور جسے مشرک کہہ دینے کی ان کے ہاں اتنی وجہ بھی بہت کافی ہے کہ وہ ایک ایسے ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ہے جو کسی خاص مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں یا جو ان کے خیال میں کسی خاص فرقے سے تعلق رکھتے ہیں!

حتی کہ موحد ہونے کیلئے بھی ان کے ہاں یہ بات کافی ہے کہ کوئی شخص یا حتی کہ اس کے بڑے ان کی اپنی مسجد یا اپنے فرقہ سے تعلق رکھتے رہے ہوں..

ضرور ان چیزوں نے ہمارے دانشوروں کو متنفر کیا ہوگا جس کا نتیجہ، ہم سمجھتے ہیں، یہ ہوا ہے کہ توحید ایسا مسئلہ بھی فرقہ وارانہ بن گیا اور اس وجہ سے وقت کے اور اہم مسائل کی بہ نسبت توحید کا مسئلہ ان کے ہاں پس منظر میں چلا گیا (اگرچہ اس کے اور اسباب بھی ہیں مگر وہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں) نہ صرف یہ ہوا ہے بلکہ اس بات کا امکان بھی بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے کہ توحید کو اپنے پڑھے لکھے حلقوں میں ایک اہم مسئلے کے طور پر منوایا اور تسلیم کروایا جائے اور وقت کے مسائل میں اس مسئلے کو سرفہرست لایا جائے۔ ہمارے کچھ پسماندہ طبقوں کی ان حرکات کے سبب بالفعل صورتحال کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ ردِ شرک کے عنوان سے اب بہت سوں کو فرقہ واریت کی بو آنے لگی ہے۔ توحید کی دعوت کا نادانستہ طور پر استحصال ہوا ہے اور اس موضوع پر وہ لوگ بڑی حد تک قابض مان لئے گئے ہیں جو کسی پر فتوی لگانے کے معاملے میں اہلسنت کے منہج سے واقف تک نہیں۔(2)

(اہلسنت کے اس منہج کا کچھ ذکر ہم آگے چل کر کریں گے)

اپنے جدید پڑھے لکھے اور دانشور طبقے کا یہ عذر ہم تسلیم کریں گے۔ توحید پر بات کرنے سے اب ان کو واقعتا شک پڑ سکتی ہے کہ فرقہ واریت پھیل جائے گی۔ تارکِ توحید کا دین میں حکم واضح کرنے سے واقعتا ان کو خدشہ لاحق ہو سکتا ہے کہ لوگوں پر اب دھڑا دھڑ فتوے لگیں گے۔ شرک کی سنگینی بیان کرنے پر ان کو گروہی طرز عمل کا گمان گزر سکتا ہے.. کہ معاشرے میں بڑی حد تک ہو جو یہی رہا ہے۔

یہ سب درست ہے مگر جو چیز درست نہیں وہ یہ کہ ہمارے پڑھے لکھے اور دانشور طبقے بھی، اپنے کسی موقف کے اپنانے میں، کسی ردعمل کا شکار ہوں اور دین کے ان اہم مسائل کو ایک علمی اور اصولی انداز میں لینے سے محض اپنے کسی تاثر کی بنا پر رکے رہیں۔ اُن اَن پڑھوں اور اِن پڑھے لکھوں میں کوئی فرق بھی تو ہونا چاہیے! وہ پسماندہ طبقے جو ایک غیر علمی طرز عمل اپناتے ہوئے آپ کو اس قدر غلط لگتے ہیں کیا ان کے خلاف آپ کا ردعمل اس قدر شدید ہو جانا چاہیے کہ اس موضوع پر خود آپ کا طریق عمل بھی اتنا ہی غیر علمی اور غیر حقیقی ہو!!؟ کیا آپ کے اس طرز عمل کا کسی اور جانب سے، بلکہ اسی پسماندہ فریق کی جانب سے، کوئی ردعمل نہ ہونا چاہیے!؟ یہ سب پڑھے لکھے اور ان پڑھ مل کر دین کی اساسیات کو آخر لے جا کہاں رہے ہیں؟؟؟

معاشرے میں جو شرک پھیلا ہے اس کے آڑے آنے میں کسی کے طرز عمل سے اگر آپ کو اختلاف ہے تو خود آپ اس شرک کے آڑے آنے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ایک برائی کو مٹانے کا کسی دوسرے کا طریقہ غلط ہے تو آپ نے اس کیلئے کیا طریقہ اختیار کیا ہے؟؟

شرک کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی ایک اسلوب غلط ہے تو آپ اس کو نہ اپنائیے مگر کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ شرک کے خلاف آواز اٹھانا اور شرک کو ایمان کے منافی قرار دینا ہی غلط ہے؟ آپ کو محض اسلوب سے اختلاف ہے تو اس میں حرج کی کیا بات ہے۔ شرک کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے آپ اپنا اسلوب بھی تو پھر متعارف کرائیے۔ تارک توحید کا جو حکم دوسرے بیان کرتے ہیں وہ اگر غلط ہے تو آپ خود بھی تو واضح فرمائیے کہ تارک توحید کا اﷲ کے دین میں کیا حکم ہے؟

جس غیر علمی انداز اور جس ردعمل پر مبنی طرز استدلال سے ہمارے دانشوروں کو پوری قوم کو متنبہ کرنا چاہیے تھا وہ خود اسی انداز اور اسی طرز استدلال کا شکار ہوں، پھر معاملہ درست کیونکر ہو؟

یہ مان لینے میں واقعی کیا حرج ہے کہ معاشرے میں بڑی حد تک توحید کی صحیح ترجمانی نہیں ہو رہی۔ لوگ ان مسائل کو بھی شرک اور توحید کا مسئلہ بنا دیتے ہیں جو کہ اس خانے میں دراصل فٹ نہیں ہوتے اور عقیدہ کے ان بہت سے مسائل کو _ جو معاشرے کو تباہی کے دہانے کی طرف لئے جا رہے ہیں _ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عقیدہ کے ان بہت سے مسائل کو شرک اور توحید کی ذیل میں درج کرنا ان کو محض اس وجہ سے اوپرا لگتا ہے کہ پہلوں نے ان کو عقیدہ کی کتابوں میں درج نہیں کیا! یہ الگ بات کہ پہلوں کو جس معاشرہ میں رہنا پڑا وہ اﷲ اور اس کے رسول کے دین پر قائم تھا۔ ہمارے یہ دیندار اصحاب جدید طرز ہائے معاشرت کو بھی اسی اپنائیت کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں جس نظر سے پہلے ائمہ وفقہاءاپنے دور کے اسلام پر قائم معاشرے کو دیکھتے رہے تھے! یہ آج کے حکمران نظاموں کو عین اسی نظر سے دیکھنے پر مصر ہیں جس نظر سے پہلوں نے اپنے دور کے نظام ہائے حکومت کو دیکھا تھا جبکہ اسلام محلات میں نہ سہی "معاشرے" میں قائم تھا! حاکمیت کا مسئلہ، تہذیب اور ثقافت کا مسئلہ، سماجی علوم کا مسئلہ ہمارے ہاں کے بہت سے موحدین کو کبھی توحید کا مسئلہ نظر نہیں آیا! نوربشراور حاضر ناظر کے سوا ان کو توحید کا وجود کہیں کسی مسئلے میں نظر آتا ہی نہیں۔ جدید معاشروں کی بنیاد جس شرک پر کھڑی کی گئی ہے اس کو عقیدہ کا مسئلہ بنانے کی طرف شاید ان کا کبھی خیال بھی نہ جا سکا ہو۔ پھر ان میں سے کچھ لوگ نماز میں ہاتھ سینے کے اوپر یا نیچے باندھنے کا تعلق تو شرک وتوحید سے کسی نہ کسی طرح جوڑ لیتے ہیں البتہ جدید طرز معاشرت کے پیچھے جو شرک بول رہا ہے اس کو مسائل عقیدہ کے احاطہ میں داخلہ کی اجازت دینے کو بھی شاید تیار نہیں۔

مگر یہ صرف کسی ایک طبقے کا تو قصور نہیں۔ اس میں تو سب شریک ہیں۔ شرک کے جدید پہلوؤں کو معاشرے کے سامنے لانا اور اس پر لوگوں کو اﷲ کی پکڑ سے ڈرانا اپنی جگہ فرض ہے تو بھی شرک کے پرانے اور روایتی مسائل جو بہرحال معاشرے کے ایک طبقے میں پائے جاتے ہیں نظر اندازنہیں کئے جا سکتے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ شرک کے ان جدید پہلوؤں سے بھی لوگوں کو خبردار کرنےکا کام کون کرتا ہے، کیا ہمارے دانشور یہ کام کرتے ہیں؟ شرک کے پرانے مسائل _ غلط ترجمانی کے ساتھ ہی سہی _ ذکر توہوتے ہیں۔ شرک کے جدید مسائل کا تو ذکر ہی کون کرتا ہے؟ کون ہے جو آج حاکمیت کے معاملہ میں، تہذیب اور معاشرت کے معاملہ میں، سماجی علوم کے مسئلہ میں اور جدید افکار کے معاملہ میں _ انبیاءکے طریقے اور انداز میں _ لوگوں کو شرک سے خبردا رکرتا ہو؟ لوگوں کو اﷲ کی پکڑ سے ڈراتا ہو؟ شرک کے ساتھ نظریاتی طور پر مسلسل ایک حالت جنگ میں ہو اور طاغوتوں کے بالمقابل انبیا کی وراثت کا حق ادا کرتا ہو؟

شرک تو شرک ہے۔ نیا ہو یا پرانا، سب جہنم کا سامان ہے۔ یہ دہکتی آگ ہے۔ بربادی اور تباہی ہے۔ پھر اس پر چیخ چیخ کر اپنوں اور پرایوں کو خبردار کرتے ہوئے ہم کیوں نظر نہیں آرہے؟ کیوں یہ ہمارا موضوع تک نہیں؟ دنیا جہنم کا سامان بن رہی ہو اور ہم بڑے آرام سے اسلامی علوم وفنون اور تحقیقات و مطالعہ میں مگن ہوں!؟ 
فرقہ واریت سے کیا ایسا پرہیز کہ اﷲ کے ساتھ شرک ہو رہا ہو اور ہم کبھی ایک دن بھی اس پر غضب ناک نہ ہوئے ہوں!!! گروہ بندی سے ایسا خوف کہ کبھی ایک بار بھی اپنے دور میں اور اپنے معاشرے میں اﷲ کے ساتھ ہونے والے اس شرک پر ہمارے چہرے کا رنگ نہ بدلا ہو۔ کسی کو اس پر جہنم کے عذاب سے ڈرانے کی ہمیں کبھی ایک بار بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی ہو۔ انبیا جس مسئلے پر پوری دنیا کی دشمنی مول لے آتے رہے ہوں اس پر ہم کسی ایک شخص کو ناراض کر لینے کے کبھی روادار نہ ہوئے ہوں! لوگ کیا کہیں گے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص آج اس دور میں شرک ایسے قدیم مسئلے پر جذباتی ہو رہا ہے؟ آدمی بات کرے تو کسی جدید مسئلے پر! ملک کو درپیش مسائل پر! آدمی قوم کیلئے پریشان ہو تو ملکی بجٹ پر! بیرونی قرضوں کے نقصانات پر! حکومت کو یا عوام کو آدمی خبردار کرے تو قوم کے’ حقیقی مسائل‘ سے! شرک کے نقصانات علمی مذاکروں اور سماجی مباحثوں کا موضوع بھلا کیسے بن سکتے ہیں! دین پر کام ہو تو کسی نایاب مخطوطے پر یا کسی ضخیم کتاب پر جو کسی لائبریری میں پڑی اچھی بھی لگے! یقین کیجئے یہ محض تنقید نہیں حقیقتاً ہمارے بہت سے محققین اور اساتذہ دین کو انسائیکلو پیڈیا قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ دین کا تعلق ان کے نزدیک لائبریری سے ہو سکتا ہے یا کلاس روم سے۔

معاشرے میں کہیں شرک ہو رہا ہو اور آدمی کو غیر جانبدار رہنے کی فکر ہو!!!

رواداری کا یہ تصور آخر کہاں سے آیا ہے؟ کیا یہ کسی علمی objective طریق بحث کا پیش کردہ نتیجہ ہے۔

اسلام جسے انبیاءنے دنیا میں پیش کیا ویسے وہ ہے کیا؟ فقہی مسائل؟

انبیاءدنیا میں کیا موسوعاتی اور معارفی encylopediatic تحقیقات کروانے کو مبعوث ہوئے تھے؟

دنیا انبیاءکی جان کی دشمن ہو جاتی رہی، ان کو دیس نکالا دے دینے پر تیار ہو جاتی رہی تو کیا اس لئے کہ انبیاءدنیا میں بس خوش اخلاقی کا درس دیتے تھے اور دنیا محض یہ خوش اخلاقی کا درس سن کر ہی ان پر برہم ہو جایا کرتی تھی، جیسا کہ ہمارے بعض دیندار طبقوں کا خیال ہے کہ اسلام نہ صرف بس" حسن اخلاق" کا نام ہے بلکہ انبیا بھی بس اسی معنی میں ایک اخلاقی انقلاب برپا کرنے کو مبعوث ہوئے تھے، اور دینا ’بلا وجہ‘ ہی ان کی جان کی پیاسی ہو جاتی تھی!؟

اسلام یقینا حسن اخلاق کا درس دیتا ہے اور رسول اﷲ ﷺ مبعوث ہوئے ہیں تو اس کا "ایک" مقصد یقینا "مکارم اخلاق کی تکمیل" ہے مگر وہ "سبب" کیا تھا جس کے باعث لوگ آپ کی جان کے درپے ہو گئے تھے؟ وہ لوگ جو آپ کو صادق اور امین کہتے نہ تھکتے تھے، جو آپ کی شرافت اور نیک نامی کی ہمیشہ داد دیتے رہے تھے اور جو آپ کے حسن اخلاق سے بے حد متاثر تھے اور آپ کے حسن اخلاق پر آپ کو بے حد سراہتے تھے آخر ایک دم کیوں آپ سے بیر رکھنے لگے؟ آپ کی موت کے منصوبے بنانے تک میں لگے رہے اور بالآخر آپ کو مکہ سے نکال کر رہے؟ کیا اس کی وجہ آپ کا محض مکارم اخلاق کی دعوت دینا تھا!؟ یا پھر اس کی وجہ آپ کا وقت کے جھوٹے خداؤں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا تھا اور لوگوں کو _ معاشرے میں ہونے والے شرک کی بنا پر _ جہنم کے عذاب سے خبردار کرنا تھا؟؟؟

کیا ابراہیمؑ کو اپنا وطن کسی سیاسی یا معاشی مسئلے کی وجہ سے چھوڑنا پڑا تھا کہ رہتی دنیا تک کیلئے وہ ایک اسوہ اور نمونہ بنا دیا جائے اور جو بھی اﷲ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو وہ ابراہیم کے قدموں کے نشان ڈھونڈنے کا ازروئے قرآن پابند ہو!؟؟ کیا ابراہیم کو دیس نکالا اس لئے ملا تھا کہ قوم حسن اخلاق کی دعوت دی جانا برداشت نہ کر پائی تھی!؟؟؟

حسن اخلاق تو، جو کہ اسلام کو بے حد مطلوب ہے، بنیادی طور پر ہے ہی دعوتِ توحید کی خدمت کیلئے۔ خوش خلقی تو ہے ہی اس لئے کہ سماجی زندگی میں یہ اﷲ وحدہ لاشریک کی بندگی کرنے اور کرانے کے کام آئے اور تاکہ معلوم ہو موحدین کس پائے کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک حسن اخلاق ہی کی کیا بات توحید سے دین کے کسی بھی بڑے سے بڑے مسئلے کا رشتہ ختم کر دیجئے وہ ایک بے جان اور بے نفع چیز بن کر رہ جائے گی اور بندگی کے زمرے میں شمار تک نہ ہو سکے گی۔ کسی عمل میں جان تب ہی تو آتی ہے جب وہ توحید سے صحیح معنی میں جڑ جائے۔ کسی عمل کی قیمت تب ہی تو پڑتی ہے جب وہ توحید سے منسلک ہو اور کسی نیک کام کا پورا اجر تب ملتا ہے جب وہ توحید سے پھوٹ رہا ہو۔ ابراہیمؑ کا طریقہ ہی تو عبادت کی اصل جان ہے۔

 

کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے منہ موڑے، سوائے ایک ایسے شخص کے جو خود ہی اپنے آپ کو بے وقوف بنانے (پر آمادہ) ہو۔ ابراہیم تو وہ ہے جسے ہم نے دنیا میں اپنے (مشن کیلئے) چن لیا تھا اور یقینا آخرت میں اُس کا شمار صالحین میں ہوگا۔

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ(130) - البقرۃ

پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ (حنیف) یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے پر چلو۔ اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (123 ) النحل

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ: تم جن کی بندگی کرتے ہو میری ان سے صاف بیزاری ہے۔ مجھے ناطہ ہے تو صرف اس سے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی میری راہنمائی کرے گا۔ اور ابراہیم یہی کلمہ اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاء مِّمَّا تَعْبُدُونَ (26) إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ(27) وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ.. (28) - الزخرف

ابراہیم نے کہا: کچھ خبر بھی ہے جنہیں تم پوج رہے ہو تم اور تمہارے اگلے باپ دادا، وہ سب میرے دشمن ہیں، بجز ایک رب العالمین کے۔

قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ  (75) أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ(76) فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ (77) - الشعراء

 

*********

 

اسلام کی سب سے اہم بنیادیں دو ہیں اور دخولِ اسلام کے وقت ان دونوں کا اقرار کرنا پڑتا ہے.. توحید اور رسالت۔

بغور دیکھا جائے تو رسالت کا موضوع بھی توحید ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے کسی بات کو سمجھانے اور منوانے پر سب سے زیادہ زور لگایا تھا تو وہ غیر اﷲ کی خدائی اور باطل معبودوں کی پرستش کا خاتمہ تھا اور تنہا ایک اﷲ ہی کی بندگی کا عزم واقرار۔ رسول اﷲ ﷺ دنیا میں آئے ہی اس لئے ہیں کہ غیر اﷲ کی بندگی کا خاتمہ کردیں اور حق کا احقاق اور عبادت میں اﷲ کی یکتائی تسلیم کروائیں اور پھر جب وہ یہ اعتراف کرلیں تو عملاً لوگوں کو اﷲ کی بندگی کا طریقہ سکھائیں۔ چنانچہ توحید کے جاتے رہنے سے رسالت پر ایمان بھی بے معنی ہو جاتا ہے۔

انبیاءکی دعوت کا اصل الاصول یہی ہے۔ خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں کے پوجا جانے کو بلند ترین آہنگ میں غلط کہنا اور پھر اﷲ کی بندگی میں زیادہ سے زیادہ حسن پیدا کرنا۔ لہٰذا شرک سے براءت اور طاغوتوں سے عداوت انبیاءکا دین ہے اِنَّنِی بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ اور فَ اِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِی اِلَّا رَبَّ الْعَالَمِینَ یہ الفاظ قرآن مجید میں خدا کے اس نبی کی زبان سے کہلوائے گئے ہیں جس کی پیروی ان امور میں آج تک اور قیامت تک فرض ہے اور اسی کو ملت ابراہیم کہا گیا ہے۔

باطل کو اس کے عقیدے میں، اس کے نظریے میں، اس کی حقیقت اور اس کے مظہر میں چیلنج کرنا.. باطل سے ہر سطح پر الجھنا.. غیر اﷲ کی خدائی کو برسر عام للکارنا، اللہ کے ساتھ اوروں کے پوجے جانے پر، اللہ کے ساتھ کسی اور کی تعظیم وتقدیس ہونے پر، اس کے سوا کسی اور سے دُعا والتجا ہونے پر اور اللہ کے سوا کسی اور کا قانون چلے تو اس پر برہم ہونا، خاموش نہ رہ سکنا، آواز جس حد تک ہو سکے بلند کرنا، اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنا، اس کو ختم کرنے کے درپے ہونا، اس پر صبح شام بات کرنا، اس کی مخالفت کو اپنی پہچان بنا لینا.. انبیا کا طریقہ ہے۔ ابراہیمؑ کی ملت ہے۔ محمد ﷺ کا راستہ ہے۔ فرقہ واریت نہیں!

لوگوں پر واضح کر دینا کہ اسلام کی بنیاد توحید ہے اور توحید کو کالعدم کر دینے کے بعد اپنے آپ کو اسلام پر سمجھنا ایک مغالطہ ہے.. لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنا کہ رب العالمین کے ساتھ کوئی شرک کر لے تو وہ اسلام کی بنیاد منہدم کر دیتا ہے اور خدائے برحق کے ساتھ کسی اور کو پوج کر، کسی اور کو سجدہ کرکے، کسی اور کا قانون تسلیم کرکے اور کسی اور کو مدد اور حاجت روائی کیلئے پکار کر آدمی مسلمان نہیں رہتا بلکہ یہ رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کے سب سے بڑے مقصد ہی کو فوت کر دیتا ہے اور اس لحاظ سے، شرک کا ارتکاب کر لینے سے، صرف اﷲ کی وحدانیت پر ہی آدمی کا ایمان مثاتر نہیں ہوتا بلکہ شرک کا ارتکاب دراصل رسالت کا بھی انکار ہے.. کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے اگر شرک کی حرمت نہیں بتائی تو پھر _ معاذ اﷲ _ اُمت کو رسول اللہ ﷺ نے کچھ بتایا ہی نہیں۔ چنانچہ لوگوں کو شرک کی اس خطرناکی سے خبردار کرنا اور کرتے رہنا اور کرتے چلے جانا، جب تک کہ وہ ختم نہیں ہو جاتا.. گر وہ بندی نہیں۔ یہ کوئی جاہلانہ کام نہیں۔ یہ کوئی غیر علمی رویہ نہیں۔ یہ انبیاءکی بعثت کا اصل مقصد ہے۔ دین کے باقی جتنے فرائض ہیں اور جتنے عقائد ہیں وہ کسی نہ کسی انداز میں اسی ایک عقیدے اور اسی ایک فرض سے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ اسی سے نہیں پھوٹتے تو وہ اپنے اصل سے پیوستہ نہیں۔

اسلام کے جتنے عقائد ہیں اور جتنے فرائض ہیں ان میں سے کسی بھی عقیدے اور کسی بھی فرض کی اپنی مستقل بالذات حیثیت نہیں، سوائے ایک توحید کے عقیدے اور توحید کے فرض کے۔ اﷲ وحدہ لاشریک پر ایسا ایمان کہ جس سے پہلے غیر اﷲ کا کفر کردیا گیا ہو، وہ فرض ہے جو باقی سب فرائض کی جان ہے اور وہ عقیدہ ہے، جو باقی سب عقائد کی بنیاد ہے۔ یہ نہیں تو پھر رسالت نہ آخرت، تقدیر اور نہ فرشتے کسی چیز پر ایمان کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا۔ یہ نہیں تو پھر نماز نہ روزہ، حج اور نہ زکوٰت، کسی فرض کا کوئی معنی ہی نہیں رہ جاتا۔ توحید ہے تو سب کچھ ہے توحید نہیں تو کچھ نہیں۔ توحید ہر بات سے پہلے اﷲ کے ساتھ وفاداری کا اعلان ہے۔ توحید خدا کی مملکت میں رہنے کا دستور ہے۔ توحید خدا کا رزق کھانے کا جواز ہے۔ توحید انسان پر ایک ایک سانس کا حق ہے۔ توحید جہنم سے چھٹکارا ہے۔ توحید بہشت پانے کی اُمید ہے۔ توحید دُنیا میں سرفرازی ہے اور آخرت میں نجات اور سرخروئی۔ اس کے بغیر اسلام کیسا اور ایمان کیسا؟

فرائض میں توحید ہی وہ مستقل بالذات فرض ہے اور عقائد میں توحید ہی وہ مستقل بالذات عقیدہ ہے جو اسلام کے باقی سب فرائض اور سب عقائد کو معتبر یا کالعدم قرار دلوانے کی بنیاد ہے۔ (3) اﷲ پر ایمان، کہ جب غیر اﷲ کی عبادت کا انکار کردیا گیا ہو، ارکانِ ایمان کی ابتدا ہے۔ باقی سب ارکانِ ایمان اﷲ پر ایمان کی نسبت سے ہی بیان ہوتے ہیں:

 

سب ایمان لائے اﷲ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔

آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ (البقرۃ: 285)

 

اُس کے فرشتے، اُس کی کتابیں، اُس کے رسول.... سب کو اُسی کی نسبت چاہیے اور وہ عظیم وبرتر، صمد اور احد ہر نسبت سے بے نیاز!

ارکان ایمان (یعنی عقائد) میں پہلا رکنِ ایمان اور ارکان اسلام (یعنی فرائض) میں پہلا رکنِ اسلام توحید ہے۔ سو اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا عقیدہ بھی یہی ہے اور اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا فرض بھی یہی ہے۔

توحید کو معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دینا پس انتہا پسندی ہے اور نہ گروہ بندی۔ توحید جانے سے ایمان چلا جانے کی بات کرنا فرقہ واریت ہے اور نہ غیر علمی رویہ۔ ہاں البتہ یہ سمجھنا کہ توحید چلی جائے تو بھی ایمان رہ جاتا ہے، ضرور ایک غیر علمی رویہ ہے بے شک یہ رویہ بہت سے پڑھے لکھوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقوں کے ہاں کیوں نہ پایا جاتا ہو۔ غیر مہذب کہلانے کے ڈر سے اب کیا ہم دین کے حقائق کو بدل دیں؟ یہ اگر غیر شائستگی ہے تو اس کا طعنہ سننا ہمیں اس بات سے کہیں عزیز تر ہوگا کہ خدا کے ساتھ ہونے والے شرک پر ہم اس رواداری کا مظاہرہ کریں جس کا ہم سے ملکی میڈیا تقاضا کرے یا جس کا یہاں جاہلی ماحول ہم سے مطالبہ کرے۔ کسی سے کچھ بھی سن لینا ہمیں گوارا ہونا چاہیے البتہ اﷲ کے حق پر حرف آئے ___ اور شرک سے بڑھ کر اﷲ کو چیلنج کرنے والی بات کیا ہو سکتی ہے؟ ___ تو اس پر وسیع الظرفی اور روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہنا اور جدید نظر آنے کے شوق میں اس ظلمِ عظیم کو سہہ جانا ہمیں کسی طرح گوارا نہیں ہو سکتا۔ کسی عام گناہ کی صورت میں اﷲ کی نافرمانی کو اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر اس پر کڑھنا اگر ایمان کا کم ترین درجہ ہے تو اپنے سامنے شرک ہوتا دیکھ کر تکلیف تک محسوس نہ کرنا کیا کہلائے گا؟؟؟

 

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اﷲ کیلئے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟

مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا (13) - نوح

 

مسئلہ اﷲ کے حق کا ہو،معاملہ غیر اﷲ کی خدائی کا ہو، قضیہ خدائے برحق کے سوا اوروں کے پوجے جانے کا ہو تو کیا اس وجہ سے خاموشی اختیار کر لی جائے کہ آج اس بات پر بولنے کا رواج نہیں!؟ کیا اس باطل کے خلاف آواز اٹھانے کا خیال اس ڈر سے چھوڑ دیا جائے کہ کوئی آپ کو انتہا پسند کہہ دے گا!؟ غیر اﷲ کی عبادت اور تعظیم پر لوگوں کو جہنم کے عذاب سے خبردار کرنا اس خدشہ سے ترک کر دیا جائے کہ شدت پسندی کا الزام آجائے گا!؟ اور کیا انبیاءکو تو، ان کے اپنے دور میں جنونی نہیں کہا گیا؟؟؟ انبیاءکو _ معاذ اﷲ _ معاشرے میں پھوٹ ڈالنے والا نہیں کہا گیا؟؟ انبیاءکو صابی (بے دین اور منحرف) نہیں کہا گیا؟ تو پھر کیا ہے اگر آج ہم پر ہمارے اپنے دور کی جاہلیت اپنے من پسند الزام لگائے! شرک اگر ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور ہم اگر اس شرک کے آڑے آنے میں نبیوں اور رسولوں کے راستے کی پیروی کرتے ہیں تو ہمارے دور کے مَلأ (elite) بھی _ جو کہ معاشرے کو رحجانات (trends) دیتے ہیں _ ہمارے بارے میں بھی ضرور پھر ایسے القاب نشر کریں گے جن سے ہول کھا کر ہم شرک کے خلاف اور طاغوت کے نظام کے خاتمہ کیلئے آواز اٹھانے میں شرم محسوس کریں اور جن سے شرما کر معاشرے میں اچھا اور معقول نظر آنے کیلئے ہم اس باطل سے خاموشی اختیار کرلیں جس کا چلن ہو جانا جاہلیت کو ہر قیمت پر مطلوب ہے۔

مگر یہ سبق بھی تو آخر اسی توحید کا ہے کہ خوف ایک اﷲ کا اور ڈر صرف اس بات سے کہ آدمی اس کی نگاہ سے گر جائے۔ دنیا کسی کو عزت دے سکتی ہے اور نہ ذلت۔ رسوا وہ ہے جو خدا کی نگاہ میں نہ جچ پائے۔ کمتر وہ ہے جو خدا کے حق میں بولنے سے عاجز ہے نہ کہ وہ جو خدا کے حق کی خاطر دُنیا کے کسی بااثر طبقے کی پسندیدگی وستائش کو ٹھکرا دے۔ معاشرہ کبھی اسلامی ہو بھی تو ماحول کو خوش کرنا ایک مسلمان کا اصل مطمع نظر نہیں ہو سکتا کجا یہ کہ معاشرہ شرک پرخاموش رہنا قبول کئے بیٹھا ہو اور تب _ اس حالت میں _ آدمی ان طعنوں سے ڈرے جو یہ معاشرہ یا معاشرے کی فکری وثقافتی قیادت اس کو حق بات سے روکنے کیلئے دے گی!؟

خدائے وحدہ لاشریک کو تنہا لائق بندگی جاننے پر اور طاغوت کی بندگی کے خلاف آواز اٹھانے پر خدا کے بندوں کو بہت بہت بلیغ پیرایوں میں اور نئے سے نئے القاب کی صورت کمتری کے طعنے دینا.. یہ ہر دور کی جاہلیت کی رسم رہی ہے۔ اس نے اپنا نقصان ہوتا بھانپ کر ہمیشہ ہی موحدین کر کوسنے دیے ہیں۔ جاہلیت کو اپنی یہ رسومات ہر دور میں عزیز رہی ہیں۔ اس کے ڈر سے اہل توحید پھر اپنی سنت کیوں چھوڑیں!؟

طعنے اورکوسنے، چاہے کتنے بھی عصری انداز میں ہوں، ایک مسلمان کو اداءِ فرض سے کیونکر روک سکتے ہیں۔ شرک اگر شرک ہے تو پھر اس کے خلاف آواز اٹھانا ایک شرف ہی کی بات ہے۔ اس شرف کو پانے سے آدمی ڈرے اور وہ بھی جاہلیت کے طعنوں سے؟ شدت پسندی یا گروہ بندی یا پسماندگی یا قدامت پسندی کا الزام آجانے سے آدمی مرعوب ہو اور ویسے دنیا کو بدل دینے کا داعی بھی ہو! ایسے کتنے بھی القاب جاہلیت کی جانب سے ایک داعی توحید کیلئے نشر کر دیئے جائیں، اسے اس کی کیا پرواہ؟ خدا کو خوش کرنے کی یہ کوئی قیمت نہیں۔ ظلم یہ ہوگا کہ آدمی خدا کے دین کیلئے اتنی سی قیمت دینے پر بھی تیار نہ ہو اور اﷲ کی بجائے لوگوں سے ڈرے۔

 

پس تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا سے معاوضے کیلئے مت بیچو۔ جو لوگ اﷲ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔

فَلاَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلاً وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44 - المائدۃ

 

*********

 

سبحان اﷲ! دعوتِ توحید پر فرقہ واریت کا گمان!!! یہ تاثرات ہی کی تو بات ہے! مگر جیسا کہ ہم نے کہا اس کا الزام صرف اغیار کو نہیں جاتا۔ ہم خود بھی ان تاثرات کے تشکیل پا جانے کے ذمہ دار ہیں۔

دعوت دراصل جس چیز کا نام ہے وہ ہے تاثرات کی جنگ لڑنا اور رحجانات پر غالب آنے کی سرتوڑ کوشش کرنا۔ یہ جنگ موحدین کو ہمیشہ لڑنا پڑی ہے۔ اس سے کبھی کسی دور میں مفر نہیں۔

طعنوں اور کوسنوں سے بے نیاز ہو جانے کا بہرحال مطلب یہ نہیں کہ آپ معاشرتی رحجانات کی جانب سے آنکھیں بند کرلیں اور حق کی دعوت کے گرد جو جو تاثرات بُنے جا رہے ہوں اور معاشرے میں دعوت کا راستہ روکنے کو آگے بڑھ رہے ہوں ان سب سے بڑے آرام کے ساتھ صرف نظر کئے رکھیں اور سمجھیں کہ ایک موحد کو تو بس اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور ہر طعنے اورکوسنے سے بے نیاز ہو جانا ہے! دعوت توحید آدمی کے ثبات واستقامت کی آزمائش ہے تو آدمی کے زیرک پن اور معاشرے پہ اس کے موثر ہونے کی صلاحیت کا امتحان بھی ہے۔ بے نیاز نہ اِس سے ہوا جا سکتا ہے اور نہ اُس سے۔ یہ واقعتاً ایک چومکھی جنگ ہے۔

پس یہ لازم ہے کہ وہ سب تاثرات جو اسلامِ خالص کی راہ میں حائل ہیں داعیانِ اسلام ان میں سے ایک ایک تاثر کا جائزہ لیں۔ ان کے پیچھے کارفرما اسباب کا تجزیہ کریں اور ان کا ممکنہ حد تک ازالہ کر دینے کی سرتوڑ کوشش۔ نہ صرف ان اسباب کا قلع قمع کریں جو خود ان کی جانب سے یا ان کے اصحاب کی جانب سے ناسمجھی کے باعث پیدا کر دیے گئے ہوں بلکہ ان اسباب کا بھی ممکنہ حد تک ازالہ ضروری ہے جو دوسری طرف سے بڑی سمجھداری کے ساتھ پیدا کئے جاتے ہیں۔ جنگ کے اس پہلو سے صرف نظر بھی ہرگز ممکن نہیں۔

یہ معاملہ خود ہمارے لئے کچھ کم فکرمندی کا نہ ہونا چاہیے اور اس پر بے حد سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ دعوت توحید کا معاشرے میں ایک فرقہ وارانہ تاثر کیوں بننے دیا گیا اور اس تاثر کے ازالہ کی کیا صورت ہے۔

موحدین کو اس سوال پر بہت زیادہ سوچ بچار کرنا ہے۔

 

********

 

رہی فرقہ واریت تو وہ اسلام میں بے انتہا مذموم ہے..

ایک چیز جو اہل اسلام کے ہاں بھی مبغوض ہے مگر کسی وجہ سے جاہلیت بھی صبح شام اس کی مذمت کرتی ہے تو سب سے اہم بات دیکھنے کی وہاں یہ ہوگی، بلکہ اسی کو واضح کرنے پر جان کھپانے کی ضرورت ہوگی، کہ ہم اس کی کیا تعریف کرتے ہیں اور جاہلیت اس کا کیا مطلب لیتی ہے۔ عین ممکن ہے الفاظ کے پردے میں لوگ اس فریق کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوں جس کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت ہے۔

کیا یہ معاملہ نظر انداز کر دینے کا ہے؟

ایک ایسی اصطلاح کا معاملہ نازک ترین ہو جاتا ہے جس کے مفہوم پر طرفین میں ایک بڑا تنازعہ ہو۔ اس معاملے کی نزاکت کو نظر انداز کردینے سے آپ فریق مخالف کے مقاصد کی برآری کا خود بخود ذریعہ بن جاتے ہیں خصوصاً ایک ایسے فریق کے مقاصد کی جو صورتحال پر قابض ہو اور status quo کو بحال رکھنا چاہتا ہو۔ البتہ اپنی قوم پر، حتی کہ دنیا کے سمجھداروں پر، ایک ایسی اصطلاح کا مفہوم درست کرکے ___ جس پر کہ آپ کی بہت محنت ہوگی ___ آپ معاملے کو اپنے حق میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ مفہومات اور اصطلاحات کی جنگ ہی سب سے کاری ہے اور دعوت کا یہ ایک بڑا محاذ۔

فرقہ واریت کی اصطلاح کا بھی کچھ یہی معاملہ ہے۔ سب اس کو بُرا جانتے ہیں۔ مگر پھر بھی اس کی بابت بہت کچھ کہا جانا باقی ہے۔

فرقہ واریت بے انتہا بُری ہے۔ مگر اس بات کا تعین کہ وہ ہے کیا بلا، ہمیں جاہلیت نہیں کر کے دے سکتی۔ جاہلی میڈیا یا سرکاری تقریبات یا لوگوں کے سیاسی بیانات کو اس موضوع پر سند نہیں مانا جا سکتا۔ یہ بات ہمیں اپنے ہی دین کے مصادر سے سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ جاہلی تعریفات کو حَکَم arbiter مان لیا جانا ایک ایسی پسپائی کا آغاز ہوگا جو پھر کہیں ختم نہ ہو۔ نہ ہی ان جاہلی تعریفات کو سنا جاتا رہنے کیلئے میدان خالی چھوڑا جا سکتا ہے۔

اب آئندہ صفحات میں ہم اسی پر کچھ بات کریں گے۔

 

*********

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز