جو گناہ بھی کرتے اور اس پر معافی بھی مانگتے

11

مریم عزیز

اللہ کے رسول محمد﷑ نے فرمایا:

«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ»   (صحیح مسلم، عن أبی ھریرۃ، رقم 2749)

اُس ذات کی قسم جس کےقبضے میں میری جان ہے،اگر تم گناہ کرنے والے نہ ہوتےتواللہ تم لوگوں کو ہٹا دیتا اور تم لوگوں کی جگہ ایسے لوگوں کو لےآتا جن سے گناہ سرزد ہوا کرتےاور پھروہ اللہ سے معافی مانگا کرتے، تو اللہ ان کو معاف فرماتا۔

اللہ سبحانہ وتعالی کے پاس گناہ سے معصوم ایک مخلوق پہلے ہی موجود ہے۔ اس کے پاس فرشتے موجود ہیں “جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا ﻻتے ہیں” [التحریم:آیت۶] وہ اللہ کی کبرائی بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ کچھ قیام کی حالت میں ہیں، کچھ رکوع کی حالت میں، اور کچھ سجود میں محوتسبیح ہیں: سبحان ذی الملکوت، والجبرو، سبحان الحی القیوم۔ “تعریف اور تکبیر ہواس سلطنت کے مالک کی اور [جومالک ہےتمام اس کا] جوکچھ اس میں ہے۔ تعظیم اور کبریائی ہو زبردست قدرت والےکی، جس کی محتاجی میں سب ہیں۔ حمد ہو اس کی جو ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔”

نبی اکرم﷑ نے فرمایا:” میں وہ دیکھتا اورسُنتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ آسمان چرچراتا ہے اور حق ہے کہ وہ چرچرائے۔ وہاں بالشت بھر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اللہ کی بارگاہ میں سربسجود نہ ہو۔”      [سنن الترمذی ۲۳۱۲،سنن ابن ماجہ۴۱۹۰]

ان سب کے باوجود اللہ سبحانہ وتعالی اپنی حکمت کے مطابق فرشتوں کےکسی علاوہ مخلوق کو وجود میں لانا چاہتا تھا ؛ بنی نوع انسان جن کو ہدایت کا راستہ دکھایا جاتا اور جو گمراہی کےراستوں پر جانے کے قابل بھی ہوتے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ” ہم نے اسے راه دکھائی اب خواه وه شکر گزار بنے خواه ناشکرا۔” [الانسان:۳]

یہ ہے وہ فطرت جس پراللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا۔ کوتاہی سے بچے رہنا لوگوں کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نےہمیں یہ اجازت عنایت کی کہ ہم اس کی مغفرت ومعافی کے طلبگار ہوں۔ وہ ہمیں اس کی نصیحت فرماتاہے اور معاف کردینے کا وعدہ بھی کرتا ہے۔

ہمیں اللہ سےباربارعفوومغفرت مانگنے کی عادت بنا لینی چاہیے۔ معافی طلب کرنے میں تسلسل ہوتو دل کی بیماریوں کا علاج بھی ہوتا ہے اور گناہ بھی مٹتے جاتے ہیں۔

اللہ کو معاف کردینا کتنا پسند ہے، اس کا اندازہ اس حدیث سے لگائیں جو صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہوئی ہے:

کسی نے گناہ کیا پھر کہنے لگا: “یا اللہ، مجھے میرا گناہ معاف کردے۔”

اللہ نے فرمایا: “میرے بندے نے گناہ کیا مگر وہ جانتا ہے کہ اُس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور سزا بھی دیتا ہے۔”

اس شخص سےپھر گناہ کا کام ہوا اور وہ پھر کہنےلگا: “میرے رب، مجھے میرا گناہ معاف فرمادے۔”

اللہ تعالی نے فرمایا: “میرے بندے نے گناہ کیا مگر وہ جانتا ہے کہ اُس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور سزا بھی دیتا ہے۔”

پھر اس شخص نے دوبارہ گناہ کردیا اور کہنے لگا: “میرے رب، مجھے میرا گناہ معاف فرمادے۔”

اللہ نے فرمایا: “میرے بندے نے گناہ کیا مگر وہ جانتا ہے کہ اُس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور سزا بھی دیتا ہے۔ جب تک تم یہ کرتے رہومیں تمہیں معاف کرتا ہی رہوں گا۔”                                       [صحیح البخاری۷۵۰۷،صحیح مسلم ۲۷۵۸]

اس حدیث سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جب اللہ کوئی گناہ معاف کردیتا ہے،تو وہ واقعتا معاف ہوجاتا ہے۔ اگر وہ شخص وہی گناہ دوبارہ کرتا ہے تو اللہ اس کے پچھلے گناہ کی معافی کو منسوخ نہیں کرےگا، بلکہ وہ صرف موجودہ گناہ پرہی گرفت کرےگا۔ معافی اللہ سبحانہ وتعالی کی ایک عنایت ہے اور وہ اپنی یہ عنایت واپس نہیں لیتا۔ ایک بار جو گناہ ہمارے اعمال نامہ سے معاف ہوکر مٹ جائے، وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹ جاتا ہے۔

کسی نے مجھ سے ایک حدیث کے بارے میں دریافت کیا: “توبہ کے بعد دوبارہ وہی گناہ کردینا ایسا ہے جیسے توبہ سے پہلے ستّر بار وہ گناہ کیا ہو”۔

میں نے اس کو بتایا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کی اسناد میں رسول﷑ تک اتصال نہیں ہے۔ اور قرآن و حدیث اس بارے میں قطعا واضح ہیں کہ ایک بندہ جتنی بھی بار گناہ کرے اور توبہ کرلے، اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جب بھی کوئی بیتابی سے معافی مانگتا ہو، اللہ اس کوبلا تردد معاف کردے گا۔

اللہ تعالی ہم کو توابین اور متطہّرین میں سے بنا دے، آمین۔

(استفادہ از شیخ سلمان العودۃ﷿)