عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, May 16,2024 | 1445, ذوالقعدة 7
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
بائیکاٹ کیوں؟!
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف
 
  بائیکاٹ کیوں؟!  
محمد بن مالک
 

 
   
گزشتہ شمارے میں ہمارا ایک مضمون ”کیا آپ اپنے نبی ﷺ کی نصرت کے لیے تیار ہیں؟“ شائع ہوا تھا جس میں توہینِ رسالت اور اس جیسے عالمی پیمانے پر تسلسل کے ساتھ ہونے والے دیگر گھناؤنے واقعات کے طویل المیعادی حل کے لیے مسلمانوں سے غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔ اور اس حکمت عملی کی افادیت پر زور دیا گیا تھا۔ اس پر کچھ احباب کو بعض شبہات لاحق ہوئے۔ در آنحالیکہ یہ وہ اپیل ہے جس کی آواز تمام عالمِ اسلام بالخصوص فلسطین، عراق اور دیگر جارحیت زدہ مسلم خطوں کے درد مند مسلمانوں اور سرکردہ رہنماؤں کی جانب سے برسوں سے اُٹھائی جارہی ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ علمائے اسلام جب دورِ جدید میں کفار سے جہاد کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو اُن کی مصنوعات کے بائیکاٹ پر خاص زور دیتے نظر آتے ہیں۔ یہاں کے مسلم عوام الناس کے لیے دیر ہے تو بس اس افادیت کو سمجھنے کی۔ زیر نظر مضمون اسی ضرورت کے پیش نظر سپردِ قرطاس کیا گیا ہے۔
 
خیر و شر کی ازلی کشمکش کارگہہِ ہستی کا اصل عنوان ہے۔ فریقِ مخالف کی راہیں مسدود کرنا اور امورِ دنیا پر غلبہ پانے کی سعی کرنا ہر زمانے میں دونوں کے پیروکاروں کی تگ و تاز کا محور رہا ہے۔ دنیا کی یہ امتحان گاہ باقی ہے تو اسی کشاکش اور تصادم کے دَم سے۔ کہ، سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں۔ اور، ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔دنیا میں نہ خیر کی برتری ہمیشگی رکھتی ہے اور نہ شر کی بالاتری کے لیے یہاں کوئی اندیشۂ دوام ہے۔ عاقبت جو کہ خدائے دانا و بزرگ و برتر کے ہی ہاتھ میں ہے البتہ ضرور خیر اور اُس کے پیروکاروں کے واسطے مقدر ہے۔
یہ جنگ کبھی نہیں رکنی۔ البتہ اس جنگ کے طور طریقوں کو حالات اور زمانے کے حساب سے ضرور بدلتے رہنا ہے۔ ویسے تو ”جنگ“ میں دھوکہ دینا بھی شرعاً جائز ہے، (بشرطیکہ وہ معروف معنوں میں جنگ ہی ہو، نہ کہ اُس سے ہٹ کر کوئی اور معاملہ) بلکہ جنگوں میں کامیابی کے زیادہ سے زیادہ امکانات فریقِ مخالف کو بے وقوف بنا کر ہی پیدا کیے جاتے ہیں تاہم جن جن طریقوں سے دشمن کی برتری کو متأثر کیا جا سکتا ہو اور وہ فی نفسہ ناجائز یا حرام نہ ہوں ، تو وہ بالاولیٰ درست ہیں۔ ایسے طریقوں کے درست ہونے کے لیے یہ قطعاً شرط نہیں ہے کہ وہ لازماً اللہ کے رسول ﷺ، صحابۂ کرام یا دیگر سلف سے ثابت ہوں۔ جن حکمت ہائے عملی کی اُس زمانے میں ضرورت ہی نہ تھی، یا وہ دشمن کے مقابلے میں مؤثر نہ ہو سکتی تھیں، یا ابھی معرضِ دریافت میں ہی نہ آئی تھیں، اُن کے استعمال کی تب نوبت بھی بھلا کیونکر آ سکتی تھی؟! کسی شئی کی اُس دور میں عدم موجودگی یا عدمِ استعمال اِس بات کو لازم نہیں ہے کہ وہ اَب اِس دور میں بھی استعمال نہیں ہو سکتی، جب تک اُس کا بذاتہ حرام ہونا ثابت نہ ہوجائے۔
ویسے بھی دشمن نے اپنی جنگ کا دائرہ اِس قدر پھیلا رکھا ہے _ جس کا عمل گزشتہ چند عشروں بلکہ صدیوں سے جاری ہے _ کہ زندگی کے کسی بھی شعبے کو اس سے الگ کر کے دیکھنا نہایت دشوار ہو گیا ہے۔ ہر قدم، ہر موڑ، ہر مرحلے اور ہر میدان میں ہی ہمیں دشمن کی چالوں، فریب کاریوں اور دسیسہ کاریوں کا سامنا ہے۔ وہ ہمارے عقیدہ سے لے کر اخلاق تک، تہذیب سے لے کر ثقافت تک، دستور سے لے کر ریاست تک، سیاست سے لے کر اقتصاد تک، افکار سے لے کر اطوار تک، زبان سے لے کر عادات تک، تعلیم سے لے کر سماج تک، صورت سے لے کر لباس تک، گفتار سے لے کر کردار تک، ٹی وی سے لے کر اخبار تک، گھر سے لے کر بازار تک، امیر سے لے کر نادار تک ہر ایک چیز میں زبردستی گھس آیا ہے۔ ہر ایک جگہ اُسی کا غلبہ، اُسی کا تسلط اور اُسی کا کنٹرول دکھائی دیتا ہے۔ امّتِ مسلمہ کو بھلا تاریخ میں کبھی ایسی بے بسی، رسوائی، لاچاری، ناداری اور درماندگی کا سامنا کرنے کی نوبت آئی ہے؟؟؟؟ ایسی ہولناک اور بھیانک صورتحال سے بارہ صدیاں دنیا کو لرزائے رکھنے والی قوم کو پہلے کبھی واسطہ بھی پڑا ہے؟؟؟؟ اور اس صورتحال کو تخلیق کرنے کے لیے کونسا طریقہ، کونسا راستہ اور کونسا ذریعہ ہے جو دشمن نے بَرملا، بے محابا اور بے دھڑک استعمال نہیں کیا؟؟ پھر ”میدانِ جنگ“ کی تحدید ہو تو کیونکر ہو؟!! پھروسائل و ذرائعِ جنگ اور حکمت ہائے عملی کا سوال اُٹھایا جائے تو کس اُصول کی روشنی میں؟؟! پھر نئے جنگی حربوں کا توڑ پرانے زمانوں میں تلاش کیا جائے تو کس حساب میں؟؟؟!!! پھر ایک بیچاری اور ظلم کی ماری قوم کو جنگ کے آداب اور شرائط بتائی جائیں تو کس دِل سے؟؟!! پھر شریعت اور اسلامی تاریخ سے ثبوت مانگے جائیں تو کس بنیاد پر؟؟؟؟
لیکن خیر پر چلنے والوں کا یہی تو وصف اور امتیاز ہے کہ وہ ہر ایک معالمے میں جائز و ناجائز کی واضح تقسیم رکھتے ہیں جس کی بنیاد کو وہ آسمان سے کم کسی جگہ سے لینے پر ہرگز راضی نہیں ہوتے۔ اور اِس کے علاوہ ان کا اہلِ شر سے جھگڑا ہی کیا ہے؟! یہی جائز و ناجائز اور صحیح غلط کی آسمانی تقسیم!!! چنانچہ اسی آسمانی تقسیم نے جو کچھ ان کے لیے جائز ٹھہرا دیا وہ اپنا بدلہ اور انتقام بھی اسی کی بنیاد پر لیا کرتے ہیں۔ بلکہ یہ کسی سے انتقام بھی لیتے ہیں تو نہایت احسان کے ساتھ کہ ان کے رب نے ان کے لیے یہ فرض ٹھہرا رکھا ہی:
عَن شَدَّاد بن اَوس قَالَ عَن رَسُولِ اللہ صَلَّ اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ ((اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الاِحسَانَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ۔ فَاِذَا قَتَلتُم فَاَحسِنُوا القِتلَة۔ وَاِذَا ذَبَحتُم فَاَحسِنُوا الذِّبحَ )) (مسلم، کتاب الصید والذبائح، باب الأمر بإحسان الذبح)
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: .... فرمایا رسول اللہ ﷺنے : ”بے شک اللہ نے ہر شئی پر احسان فرض کر رکھا ہے۔ پس جب تم قتل کرو تو احسان کے ساتھ، اور ذبح کرو تو احسان کے ساتھ“۔
چنانچہ احسان یہ نہیں ہے کہ کسی سے قتل و قتال ہی نہ کیا جائے، بلکہ نہایت حسن و خوبی کے ساتھ، تعدّی اور عدوان سے بچتے ہوئے، کسی حق کی بنیاد پر اس کام کو سر اَنجام دیا جانا ہی یہاں احسان کو شامل ہے۔
نظریات کی جنگ تو خیر ہر ایک محاذ پر ہی لڑی جانی ہے، مادّی جنگ کا دائرہ بھی اب کوئی فوجوں، طیاّروں اور آلاتِ حرب و ضرب تک ہر گز محدود نہیں رہ گیا ہے۔ میڈیا اور معیشت بھی اب مادی جنگ کے نہایت طاقتور ٹولزکے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایک محدود معنوں میں تو تقریباً ہر دور میں جنگوں کے اندر اِن دونوں کا کردار رہا ہے، تاہم تب یہ کردار عموماً مختصر المیعاد، خاص فوجی جنگوں کے اندر اندر ہی مقصود ہوا کرتا تھا۔ اب مادّی جنگیں محض فوجوں کی مدد سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اس کا موقع تو اب جنگ کے ایک خاص مرحلے میں داخل ہونے کے بعد ہی آتا ہے جو طویل مدت سے میڈیا اور معیشت کے میدانوں میں پہلے سے جاری و ساری ہوتی ہے۔ فوجی استعمال اب زیادہ تر میڈیا اور معیشت کی جنگ کا آخری اور حتمی مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم پہلے مراحل میں جب کسی ”آہوئے رِم خوردہ“ کی سب ”وحشت“ جاتی رہے اور وہ ویسے ہی ”رام“ ہو جائے تو عموماً آخری مرحلے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
چنانچہ جنگ تو ایک طویل عرصے سے جاری و ساری ہے، اگرچہ کسی کو اِس کا ادراک نہ بھی ہو پا رہا ہو، اور اگرچہ کسی کو آج کی دنیا محض فوجی طبع آزمائی کو الگ کردینے سے امن کا گہوارہ نظر آتی ہو، اور وہ دونوں فریقوں سے اُسی کو برقرار رکھنے کا تقاضا کرتا ہو!
میڈیا کو چلیں ابھی ایک طرف رکھتے ہیں کہ فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ معیشت کی بات کرتے ہیں۔ دنیا میں کتنے مسلم ممالک ہیں جو معاشی طور پر خود انحصاری اور استحکام سے شاد کام ہیں؟ جو تھے اُن کا کیا حشر ہوا؟؟ عراق کا کیا حال کیا گیا؟؟ سعودی عرب میں کیا امریکی فوجیں پنجے گاڑ کے نہیں بیٹھی ہوئیں؟؟ باقی ممالک کیا امریکہ اور مغرب کے کاسہ لیس اور حاشیہ بردار نہیں ہیں؟؟؟
دیگر مسلم ممالک کی معاشی حالت جس قدر نا گفتہ بہ ہے وہ کسی سے اوجھل نہیں ہے۔ اور اس صورتحال کا جس قدر تعلق ان ممالک کی اپنی اندرونی حالت سے ہے اُس سے کہیں زیادہ بیرونی منصوبہ سازوں کا اُس میں ملوّث ہونا قرین قیاس ہے۔ بلکہ اندرونی حالات بھی بڑی حد تک تو ہیں ہی اسی وجہ سے خراب کہ عالمی کارپردازوں کی چاہت اور مرضی یہی ہے۔ economic terrorism جس کا شکار بطور خاص تیسری دنیا کے ممالک ہیں کیا اب کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات رہ گئی ہے؟؟؟
ہر دور کے استعمار کے اپنے رُوپ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کا نو آبادیاتی ڈھانچہ بھی اپنا ہوتا ہے۔ آج کا استعمار اپنے بڑے بڑے بنکوں اور بڑی بڑی ملٹائی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں تیسری دنیا کے زرخیز ممالک کی شہہ رگوں پر دانت گاڑے اُن کے وسائل کا خون چوس چوس کر اپنے منحوس بدن کی افزائش کیے جارہا ہے۔ کسی ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اُس کو اپنا دست نگر و محتاج کر دینے کے لیے اب یہ قطعاً ضروری نہیں ہے کہ اُس پر فوجی چڑھائی کرنے کی درد سری مول لی جائے استعماری نظام کے قیام کے دورِ اول سے عالمِ استعمار نے یہی تو تجربہ حاصل کیا ہے!! اِلا یہ کہ کوئی ملک خود ہی اس بات کی ”اجازت“ نہ دے، اور خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے، وہاں البتہ فوجی استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انجام پھر یا تو شاہ فیصل کا سا ہوتا ہے جس نے امریکہ کو آنکھیں دکھائیں اور معدنی تیل کے دروازے اُس پر بند کر دینے کی دھمکی دی۔ چنانچہ کچھ ہی عرصہ بعد شاہ کے امریکہ پلٹ بھتیجے نے اُسے قتل کر دیا۔ واضح طور پر امریکہ نے اُس کے بھتیجے کی پیٹھ تھپتھپائی تھی اور شاہ کے قتل کے نتیجے میں اُس کی بادشاہت کے لیے امریکی پشت پناہی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ پھر اس پر بھی تسلّی نہ ہوئی تو عراق کویت جنگ کا حربہ استعمال کرتے ہوئے سعودیہ کو”د فاع فراہم کرنے کی غرض سے“ اپنے فوجی بیڑے وہاں اُتار دیے جو آج تک وہاں موجود ہیں۔ اب امریکی فوجوں کے حصار میں گھرے سعودیہ کے لیے کسی قسم کی ”گڑبڑ“ کرنے کا بظاہر کوئی اِمکان نظر نہیں آتا۔ یا پھر انجام صدام حسین اور اُس کے ملک عراق کا سا ہوتا ہے جو خطے میں فوجی اور اقتصادی طور پر ایک تشویشناک قوت بنتا جا رہا تھا۔ چنانچہ ”تباہ کن کیمیاوی ہتھیاروں“ کا بہانہ لیتے ہوئے عراق کا جو حال کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔بعد میں عراق کے اندر کیمیاوی ہتھیاروں کی غیر موجودگی سے متعلق امریکی اعتراف کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ عراق کا اصل قصور درحقیقت اُس کی فوجی اور اقتصادی خود انحصاری تھی جس کی وجہ سے اِس پر ہولناک جنگ مُسلّط کی گئی۔ اِس سے پہلے خلیج کی جنگ کے ذریعے عراق کی قوت اور ”شوریدہ سری“ کافی حد تک کم کر دی گئی تھی۔ اور اُس سے بھی پہلے آٹھ سالہ عراق ایران جنگ کے ذریعے دو پوٹینشل خطروں کو آپس میں بھڑا کر اُن کی قوت کو ”نار ملائز“ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔چنانچہ فوجی استعمال جدید استعمار کا آخری حربہ ہوتا ہے جس کے جھنجھٹ میں پڑنے سے بچنے کی وہ آخری حد تک کوشش کرتا ہے۔ اس سے ماقبل قریب ترین مرحلے میں وہ اپنے دشمنوں کو آپس میں بھڑا کر کام نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
باقی رہے دیگر مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک تو اُن کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ہے نہ راستہ کہ وہ بڑی عالمی طاقتوں اور اُن کے متحدہ فورموں (مانند اقوامِ متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف وغیرہ) کے باج گزار بن کے رہیں۔ اور اِس کے بدلے میں یہ عالمی طاقتیں انہیں ”آزادی کا حق“ دیے رکھیں بلکہ اِس میں ان کی ”مددگار“ بھی ہوں ، انہیں اِس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں چاہیے!! بلکہ یہ ممالک اِن طاقتوں کی امداد اور قرضوں پر اُلٹا ان کے احسان مند ہوتے ہیں جس کا وہ صرف سود بھی ادا کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ بلکہ اُنہیں اِس قابل چھوڑا ہی نہیں جاتا۔ باقاعدہ ایسی سچویشن تخلیق کی جاتی ہے کہ یہ ممالک بیرونی قرضوں اور اِمداد کے بغیر کاروبارِ مملکت چلا ہی نہ سکتے ہوں۔ ملک کی معیشت بد سے بد تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ اُسی حساب سے بیرونی قرضے بھی بڑھتے جاتے ہیں، اور اُس کے بقدر اُن پر واجب ہونے والا سود بھی۔اِس طرح معیشت قرضوں کی دلدل میں دھنستی جاتی ہے۔ اِن قرضوں کے صرف سود کی سالانہ ادائیگی کے لیے حکومت اپنی عوام پر مختلف مدات میں بھاری ٹیکس عائد کرتی ہے۔ اور ہر سال یہ ”جزیہ“ اپنے ”مشفق و مہربان“ آقاؤں کی خدمت میں پیش کرنے کی پابند ہوتی ہے! تأخیر پر یہ” مہربان“ آقا ہرگز تقاضا نہیں کرتے بلکہ اِس تأخیر کا نہایت خوش اخلاقی کے ساتھ خیر مقدم کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک تو اِس سے واجب الادا سود میں اِضافہ ہو جاتا ہے اور دوسرے اس طرح غریب ممالک کا اُن کے شکنجے سے باہر آنا پہلے سے کہیں مُشکل ہوتا جاتا ہے۔ اِن قرضوں، امداد اور دیگر مہربانیوں کے نتیجے میں عالمی طاقتیں اپنی جو شرائط چاہتی ہیں منواتی ہیں۔ ورنہ اگلی بار امداد سے محرومی کے نتیجے میں ریاستی امور کے معطل ہوجانے کا شدید خطرہ ہوتا ہے اور خاص مواقع پر ”پتھر کے دور“ میں چلے جانے کا! پھر زیادہ تر اس امداد اور قرضوں کے ذریعے قرض مہیا کرنے والے ممالک کی مصنوعات ہی کی خریداری مقصود ہوتی ہے، جیسے مثلاً اسلحہ، طیارے، مشینری، پُرزہ جات، پلانٹس، خام مال اور ان کے علاوہ تیکنیکی معاونت۔ یوں اُن کی مصنوعات کی (جو اُن کے ہاں قریب المتروک بھی ہو چکی ہوں) منافع بخش کھپت بھی جاری رہتی ہے، ”جزیہ“ بھی ملتا رہتا ہے ، اور تمام من مانی شرائط بھی پوری ہوتی رہتی ہیں، جو محض تجارتی لین دین تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ جملہ سیاسی و مملکتی امور اور تمام داخلی و خارجی معاملات کو محیط ہوتی ہیں۔ بتائیے ”استعمار“ اورکیا ہوتا ہے؟ اور اس کی تعریف پر پورا اُترنے کے لیے ہمارے ان چارہ گر و چارہ ساز ممالک کے لیے مزید کونسی چیز کا ہونا باقی ہے؟؟ وہ کیا خصوصیت ہے جو انہیں ”استعمار“ کے منصب پر براجمان دیکھنے کے لیے اِن میں پائے جانے سے رہ گئی ہے؟؟؟ وہ کونسی شرط ہے جو اس حیثیت پر فائز ہونے کے لیے مذکورہ بالا کے علاوہ بھی درکار ہوتی ہے؟؟؟
باقی رہا فوجی قبضہ تو وہ اِسی لیے تو ہوتا ہے کہ کسی ملک کے وسائل کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے اور وہاں کے بنیادی معاملات اپنی مرضی کے مطابق چلائے جائیں۔ جب یہ مقاصد ویسے ہی گھر بیٹھے حاصل ہو رہے ہوں تو کسی کو کیا پڑی کہ خواہ مخواہ اپنی افرادی قوت، محنت، وقت اور پیسہ داؤ پر لگانے کا جھنجھٹ اپنے سرلے؟! اور جب ایسے راستے اور طریقے دستیاب ہیں جن سے نیک نام رہتے ہوئے یہ سب امور کہیں بہتر طور سے چل سکتے ہیں تو کیوں بدنامی اور لوگوں کی دشمنی مول لی جائے؟؟ دنیا پر قبضے کے اپنے دورِ اوّل سے عالمِ استعمار نے اگر یہ بھی نہ سیکھاہو تو اتنا سطح بین وہ بہرحال واقع نہیں ہوا ہے۔
چنانچہ اپنے دورِ اوّل سے ہی استعمار کا بوریا بستر دنیا میں کبھی بھی کہیں سے بھی گول نہیں ہوا۔ صرف ”فوجی قبضہ“ ختم ہوا ہے جس کے اس دورِ پس استعمار یا استعمار کے دورِ ثانی (neo-colonialism) میں کوئی ضرورت بھی نہیں رہ گئی ہے، جو کہ پچھلے کی نسبت نہایت ترقی یافتہ اور پیچیدہ مرحلہ ہے۔ دنیائے جدید کی ایک نہایت اہم خاصیت یہ ہے کہ اِس سے وابستہ بہت سے مظاہر اور چیزیں ہوتی کچھ ہیں اور نظر کچھ آتی ہیں۔ اس خاصیت کی حامل اشیاءاور نظاموں کے ذریعے ہی استعمار نے دنیا پر اپنی حکمرانی اور گرفت مستحکم کر رکھی ہے، کیونکہ اِس کے ذریعے دنیا کو دھوکے میں رکھنا خاصا آسان ہوتا ہے۔ سو، یہی خاصیت موجودہ دورِ استعمار میں بھی بکمال پائی جاتی ہے۔ جب تک آپ اِس کے اجزاءکو فرداً فرداً ملاحظہ کرتے رہیں گے، آپ کو کوئی خاص قابل ِ اعتراض بات نظر نہ آسکے گی۔ وہ آپ کو تبھی محسوس ہوگی جب آپ اُس کو ایک کُل کی شکل میں دیکھتے ہوئے اُس پر غور فرمائیں گے۔
تیسری دنیا کے ممالک کی معاشی بدحالی اور قرضوں کے نہ ختم ہونے والے گرداب جس پر ابھی بات کی گئی، یہ امیر ممالک کے تشکیل کردہ نئے نو آبادیاتی نظام کے محض نتائج ہیں جو اِن غریب قوموں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ البتہ یہ نیا نو آبادیاتی نظام خود کن بنیادوں پر کھڑا ہے، اِس کا جائزہ لینا ابھی باقی ہے۔
یہ کہانی غیر ملکی کمپنیوں کی ان ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ کاری سے شروع ہوتی ہے۔ یہ کمپنیاں کسی خاص پیداواری شعبے مثلاًدواؤں یا کیمیکلز وغیرہ کی مصنوعات (finished products) کی تیاری کے لیے خام مال زیادہ تر وہاں کی چھوٹی لوکل کمپنیوں سے حاصل کرتی ہیں۔پھر وہاں کی افرادی قوت کی خدمات کو ارزاں معاوضوں پر بروئے کار لاتے ہوئے ان مصنوعات کی تیاری اور مارکیٹنگ سر انجام دیتی ہیں۔ مارکیٹنگ جو کہ لازمی طور پر مقامیوں کے لیے کی جاتی ہے کے نتیجے میں جو کثیر منافع حاصل ہوتا ہے وہ ان کمپنیوں کے اپنے اپنے ملکوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اِس طرح اگرچہ ملکی وسائل زیادہ تر استعمال تو اُسی ملک کے لوگ کرتے ہیں، لیکن اُن کی مالیت یہ غیر ملکی کمپنیاں لے اُڑتی ہیں اور اپنے ممالک میں ٹرانسفر کرتی رہتی ہیں۔اور غریب ملکوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا سوائے اِس کے کہ بعض اشیاءکے استعمال میں اُن کے افراد کا معیارِ زندگی بظاہر بلند ہو جاتا ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پر اِس کی اُنہیں بھاری قیمت دینی پڑتی ہے۔ یعنی آپ ذرا تصور تو کیجیے کہ ایک غریب ملک کی قوم اپنے ہی ملک کے وسائل کو خود ہی محنت کر کے معمولی سے معاوضے کے بدلے ایک قابل ِ استعمال شکل میں تبدیل کرتی ہے۔ کس لیے؟؟ تاکہ جو وسائل خام مال کی شکل میں انہوں نے ارزاں قیمتوں پر فروخت کیے تھے محض ”حالت کی تبدیلی“ کی وجہ سے انہی کو باہر سے اپنے ملک میں ڈیرہ جمانے والوں کو بھاری قیمت دے کر حاصل کریں او ر یہ سمجھیں کہ اُن کا معیارِ زندگی بلند ہو گیا ہے۔ اس طرح اُن کی سب دولت اُن کمپنیوں میں اور اُن کے ذریعے اُن کے ملکوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ یہ بڑی بڑی ملٹائی نیشنل کمپنیاں جن میں سے اکثر کے بجٹ کئی ایک ترقی پذیر ممالک کے بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہیں اس طرح ایک ملک کے وسائل اُسی ملک کے لوگوں سے پراسس کرواکے اور پھر اُنہی کے ہاتھوں کہیں زیادہ قیمت پر بیچ بیچ کر کسی خون آشام بدروح کی مانند اُن کی معیشت کا سارا خون نچوڑ جاتی ہیں۔تب اِن ملکوں کے پاس کاروبارِ مملکت چلائے رکھنے کے لیے عالمی ساہوکاروں کے آگے قرضوں اور امداد کے لیے ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔یوں نئے اور جدید استعماری نظام کے ”فوائد“ و ”ثمرات“ سامنے آنا شروع ہوتے ہیں۔پھر اِس نئی طرز کے نو آبادیاتی نظام کے نتائج مرتب ہونا شروع ہوتے ہیں۔
غریب ممالک کا خون نچوڑنے کے لیے یہ سرمایہ دار ممالک جس طرح اشیاءکی طلب پیدا کرتے ہیں اور جس طرح ایک مصنوعی اور غیر حقیقی طرزِ زندگی کی پُر فریب و خیرہ کُن انداز میں تشہیر و نمائش کرکے لوگوں میں اُس کی چاہت و رغبت اُبھارتے ہیں وہ ایک الگ طویل اور مستقل موضوع ہے جس کے ہم فی الحال متحمل نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اِن کمپنیوں کی تیار کردہ بہت سی مصنوعات اِسی مصنوعی طرزِ زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔
پھر صرف اسی پر بس نہیں، دنیا میں وہ ممالک جو خاص کفر کی سرپرستی اور اسلام و مسلم دشمنی میں باقاعدہ سرغنہ کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی کمپنیز کا خاص مسلم ممالک میں جال پھیلا ہوا ہے۔ یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر کی سربراہی اِن کی معاشی حالت سے مستحکم ہوتی ہے، جبکہ ان کا کثیر ریوینیو مسلم ممالک سے حاصل ہوتا ہے۔ بعض مشہورو معروف ملٹائی نیشنلز اسرائیل اور صہیونیوں کو بھاری طورپر فنڈ کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں، اور ہر دو کی اسلام دشمنی کوئی بتانے والی چیز نہیں۔
مسلم ممالک کے اندر یہ ملٹائی نیشنل کمپنیاں اتنی بڑی تعداد میں قائم ہیں کہ کسی کے لیے بھی اِن سے مکمل طور پر بچ کر چلنابظاہر بڑا ہی دشوار نظر آتا ہے۔ کونسی مصنوعات ہیں جن میں اِن کمپنیوں نے مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری قائم نہیں کر رکھی! جبکہ بہت سی اشیاءمیں تو بظاہر اِن کا مقامی متبادل ہی نظر نہیں آتا۔ایک ہی قسم کی پراڈکٹ بیسیوں ملٹائی نیشنل کمپنیوں کے درمیان کمپیٹشن کا باعث بنی ہوتی ہے۔ جو کہ دراصل اُن کے اپنے اپنے کیپٹلسٹ ممالک کے درمیان سرمایہ دارانہ مسابقت کا مظہر ہوتی ہے۔ آدمی ایک ملٹائی نیشنل کے دام سے نکلتا ہے تو دوسری میں جا پھنستا ہے۔اور یہی نہیں، ایک ہی کمپنی نے ایک پراڈکٹ کی چار چار اقسام مارکیٹ میں لانچ کر رکھی ہوتی ہیں، اور ہر قسم کے مزید چار چار برانڈز۔ لیجیے، یہاں تو ایک آدمی کے لیے ایک ہی کمپنی کے چنگل سے نکلنا آسان نہیں ہے۔باقیوں سے بچنے کا سوال تو تب پیدا ہو جب اُن میں پھنسنے کا موقع آئے!!
بیچارے غریب اور ترقی پذیر ممالک اِس طرح امیر ممالک کے باہمی سرمایہ دارانہ دنگل کا اکھاڑا بنے رہتے ہیں۔ سانڈوں کی لڑائی میں مینڈکوں نے تو کُچل ہی جانا ہوتا ہے!!
اُصولی طور پردنیا میں ہر ملک کو پوری آزادی کے ساتھ اپنے وسائل بروئے کار لانے کا اختیار ہونا چاہیے، جبکہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کو ایک حد سے زیادہ چھوٹ نہیں ملنی چاہیے، کہ وہ اس ملک کی معیشت کو ہی مفلوج کرکے اپنا مقروض، دست نگر اور غلام بنا ڈالیں۔یوں یہ ایک نہایت سنگین عالمی مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے غریب ممالک پہلے سے غریب تر اور امیر ممالک امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔دنیا کی ساری دولت کھنچ کھنچ کر چند مخصوص ممالک کے قدموں میں ڈھیر ہوئی جا رہی ہے اور اس طرح ساری دنیا پر بالفعل اُن کی بادشاہت اور سرداری گھر بیٹھے قائم ہے، جو اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تاجِ برطانیہ سے کہیں زیادہ وسیع، منظم، فعال اور بااختیار ہے۔
یوں اگر ”اسلامی نقطۂ نظر“ سے نہ بھی دیکھا جائے تو یہ تو ویسے ہی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس میں ہر غریب ملک کو اصولی طور پر ”جہاد“ اور مزاحمت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ وہ اگر اپنے اپنے ممالک میں ان غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور اپنے ملک کی مصنوعات کو فروغ دے کر مقامی کمپنیوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں اور اِس طرح اپنی قومی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس میں وہ قطعی طور پرحق بجانب ہوں گے۔ بلکہ یہ تو اُن کی بقا کے لیے، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہوگے، جس کی خاطر اُٹھ کھڑا ہونا اُن کے لیے آخری حد تک ناگزیر ہوگا۔ اور اگر اِس کا تعلق اِسلام سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو بلاشبہ یہ وقت کا انتہائی سنگین مسئلہ ہے جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے براہِ راست ”جہادِ اسلامی“ سے جا کر جُڑتا ہے۔ غریب ممالک کا سرمایہ دارانہ استحصال اگر ظلم ہے تو اُس ظلم سے نکلنے کی کوئی مناسب راہیں تلاش کرنا اور ظلم کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرنا جہاد کیوں نہ ہوگا؟؟! جبکہ اِن غریب ممالک میں سے اکثر مسلم ممالک ہیں۔ اب چونکہ یہ سرمایہ دارانہ تسلط و کنٹرول کوئی فوجی قبضہ قسم کی چیز تو ہے نہیں ، لہٰذا اِس سے نکلنے کی بھی کوئی ”غیر فوجی“ تدبیر ہی زیادہ کارگر ہوگی۔ بلکہ اندریں حالات کوئی ایسی ہی تدبیر ممکن ہوسکتی ہے۔ اور وہ یہی ہے کہ جس طرح اُنہوں نے بظاہر کسی بھی انسانی اُصول کی خلاف ورزی کیے بغیر اور ظاہراً کوئی بھی ناجائز مرحلہ اختیار کیے بغیر آہستہ آہستہ انسانیت کو ہی غلام بنا ڈالا، اُسی طرح کسی” قاعدہ قانون“ اور جنگ وجدل کے چکر میں پڑے بغیر اور اُن کے سامنے کسی ”انسانی اُصول“ کی آواز اُٹھائے بغیر اِن سرمایہ دار کمپنیوں کو ہوشیاری کے ساتھ ”طرح“ دے دی جائے۔ظاہر ہے، اگر کوئی اِن کمپنیوں کی مصنوعات سے متمتع نہیں ہونا چاہتا تو یہ چیز کسی ضابطہ یا قانون کے تحت تو نہیں لائی جا سکتی۔کسی کو اِن کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے پر زبردستی مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔ اِلا کہ کوئی ویسے ہی دِل، آسائشوں اور لذتوں کے ہاتھوں مجبور ہو، ایسے شخص کو پھر بائیکاٹ، اور مسلمانوں اور خدا کے دین کی نصرت کے لیے تیار بھی نہیں کیا جا سکتا!
چنانچہ عالمی استعمار کے خلاف جو کہ بلاشبہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے اور وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، آج کے حالات میں سب سے بہترین اسٹریٹجی یہ ہے کہ مسلم ممالک کے عوام اِ ن ممالک کی کمپنیوں کی مصنوعات خریدنا بند کر دیں اور انتہائی ناگزیر اور اشد ضرورت کے بغیر اِن کی طرف توجہ بھی نہ کریں۔ اِس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلم ممالک کے وسائل کی قیمت سے استعمار کی جیب گرم ہونے کا راستہ بند ہو جائے گا۔ جس سے کفر کے سرگرم ایجنڈوں کی معاشی سپورٹ واضح طور پر غیر مستحکم ہوگی۔ بغیر کسی خطیر بجٹ کے اہلِ کفر خواہ مخواہ کی سرگرمیا ں مول لینے کے روادار نہیں ہوتے خواہ وہ اُن کے دیرینہ دشمن _عالمِ اسلام_ کو پسپا کرنے کے لیے ضروری ہی کیوں نہ ہوں۔ ”قربانی“ کا جذبہ کفر کی دنیا میں بہرحال نہیں پایا جاتا۔ یہ وصف خاص اِس اُمّت میں پایا جاتا ہے۔ یہ ہمیشہ اپنے دین کی سلامتی اور سربلندی کے لیے قربانیاں دیتی آئی ہے۔ اور اس سلسلے میں اپنے رب سے ہی اُس کی مدد، خوشنودی اور اجر کی اُمید رکھتی ہے۔ اور آج بھی اِس پوری اُمّت سے ”تھوڑی سی“ قربانی مطلوب ہے۔ کفار کے سرغنہ ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی صورت میں!!
ویسے بھی جو تھوڑے بہت مسلمان کفار کے بالمقابل بالفعل صف آراءہیں اور جہاد و قتال کے میدانوں میں دادِ شجاعت و شہادت دے رہے ہیں، کفار سے نبرد آزمائی کوئی اکیلے انہی کی ذمہ داری تو نہیں ہے۔ باقی لوگ جو گھروں میں آرام سے ہیں، محض جہاد کی نصرت کی دعاؤں سے اُن کا فرض پورا نہیں ہو جاتا۔ اللہ نے جس کی جو نصرت کرنی ہے، سو کرنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسلمانوں نے اِس سلسلے میں عملاً خود کیا کرنا ہے؟؟ کسی کو اِس پر اگر سوچنے کی فکر ہو تو اُس کے لیے ” کفار کے سرغنہ ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ“ اِس کا ایک سیدھا سادہ اور آسان جواب ہے۔
ویسے تو اسلام دشمن کفار کا معاشی نقصان ہونا اسلام اور اہل ِ اسلام کے حق میں بجائے خود کم فائدہ نہیں ہے جس کے (اگر مسلمان مل کر اِس بائیکاٹ کا عزم کر لیتے ہیں تو) انشاءاللہ العزیز کئی ایک مفید نتائج نکلنے کی توقع ہے۔ تاہم اِس کے ساتھ ساتھ مزید یہ فائدہ ہوگا کہ مسلمانوں کی مقامی کمپنیاں جو تقریباً ہر ایک پیداواری شعبے میں قائم ہوچکی ہیں اور ملٹائی نیشنل کمپنیوں کی واضح بالادستی اور قبولیت کے باعث سست رفتاری سے ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں، ایک دَم فعال ہو جائیں گی۔ بائیکاٹ کی وجہ سے ضروری اشیاءکے حصول کے لیے مسلمان عامۃ الناس کی تلاش اِن کمپنیوں کی مصنوعات کی جانب اور اِن کمپنیوں کی توجہ لوگوں کی اُن کی مصنوعات کے لیے بڑھتی ہوئی طلب کی طرف مرکوز ہونا شروع ہوگی۔ نتیجتاً مقامی کمپنیاں زیادہ پیداوار دیں گی اور زیادہ منافع حاصل کریں گی۔ بلکہ لوگوں کی طلب پورا کرنے کے لیے ہر شعبے میں اور بھی نئی مقامی کمپنیاں کھلنا شروع ہو جائیں گی۔ یوں ملکی وسائل کی قیمت ملک کے باشندوں کو ہی حاصل ہوگی، جس کے نتیجے میں عوام الناس کا معیارِ زندگی حقیقی طور پر بلند ہوگا، اور دوسری طرف ملکی معیشت نمایاں طور پر مستحکم ہوگی اور ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات ملنے کا راستہ کھلے گا۔ اِس طرح خود انحصاری کی راہ پر گامزن مسلم ممالک سے اپنی تمام شرائط منوانا اور امت ِ مسلمہ سے متعلق معاملات میں اپنی من مانی کرتے رہنا بہرحال اتنا آسان کام نہ ہوگا۔
یہ بھی درست ہے کہ مقامی کمپنیاں اپنی مصنوعات کے معیار میں ملٹائی نیشنلز سے کافی پیچھے ہیں۔ لیکن اِس کی ایک بڑی وجہ اِن کمپنیوں کے پاس وسائل کی کمیابی ہے۔ ابتدا میں لوگوں کو یقیناً کچھ دقت اُٹھانی پڑے گی، لیکن جب لوگوں کے سرمائے کا رُخ اِن کمپنیز کی طرف ہوگا اور مختلف مقامی کمپنیوں کے درمیان صحتمندانہ مسابقت جنم لے گی تو لازماً اِن کی تیار کردہ مصنوعات کا معیار بھی بلند ہوگا۔ اِس کا اِنحصار صرف اِس امر پر ہے کہ یہاں کے لوگ خود اِن کمپنیوں کو اس کا کتنا موقع فراہم کرتے ہیں۔ عوام کی بڑھتی ہوئی طلب اور باہمی مسابقت کے سامنے معیار پر سمجھوتہ کیے رہنا کمپنیوں کی اپنی بقا اور ترقی کے لیے سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔ چنانچہ پھر وہی مقامی کمپنیاں سامنے آئیں گی جو لوگوں کو اُن کے مطلوبہ معیار کی بہتر سے بہتر اشیاءفراہم کرنے کی اہل ہوں۔
یہ بائیکاٹ کوئی ہوائی قلعہ یا محض یوٹوپیا قسم کی چیز ہرگز نہیں ہے۔ بیسویں صدی میں مقبوضہ ہند میں موہن داس کرم چندگاندھی اور مصر میں سعد زغلول پاشا اس ہتھیار کو برطانوی راج کے سامنے اپنے مطالبات تسلیم کروانے کے لیے مؤثر طور پر استعمال کرنے میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔ اگرچہ دونوں ہی اشخاص کا عمل ہم مسلمانوں کے لیے ہرگز مشعلِ راہ نہیں ہے، تاہم جہاں تک عملی میدان اور واقع کی دنیا کا تعلق ہے تو معاشی بائیکاٹ استعمار کے خلاف بلاشبہ ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوتا رہا ہے، اور آج بھی ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اِس کی افادیت کو سمجھنے کی کوشش کر لی جائے۔
گاندھی نے تو اِس طریقے کو اِس لیے استعمال کیا کہ وہ اہنسا کا علم بردار تھا اور کسی بھی مقصد کے لیے جنگ و جدال کا سرے سے قائل ہی نہیں تھا، خواہ کتنا ہی ضروری، اہم اور عظیم مقصد ہو! چنانچہ مذاکرات کے علاوہ اُس کے پاس استعمار کے خلاف ”جد و جہد“ کا، لے دے کر ایک ہی راستہ بچتا تھا: ”پُر اَمن بائیکاٹ“!! اُس کے نان وائیولینس کے نظریہ میں بس اِسی کی گنجائش بنتی تھی۔ یہ بھی نہ کرتا تو لیڈر کاہے کو کہلاتا!؟
رہ گئے مسلمان تو بلاشبہ باطل سے جہاد و قتال اور کفر سے تصادم اور ٹکراؤ اُن کے دِین کا جزوِ لاینفک ہے، جس کے بغیر اگر اِسلام کو دیکھنے کی کوشش کی جائے تو پھر تو وہ کوئی ”اِزم“ یا محض ایک تصور ہی رہ جاتا ہے، نہ کہ کوئی دِین۔ تاہم حالات اور ظروف کی رعایت سے کوئی بھی ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنا جس سے کفر کے پاسبانوں کو نقصان پہنچتا ہو اور اُن کے مقابلے میں مسلمانوں کو فائدہ، تو ایسے سب طریقہ ہائے کار بھی عین جہاد شمار ہوں گی، خواہ اُن میں کفار سے براہِ راست جنگی تصادم اور ٹکراؤ کی نوبت نہ بھی آتی ہو۔ کسی براہِ راست جنگ کے بغیر اگر دشمن کو زک پہنچائی جا سکتی ہے تو بھلا اس میں کیا بُرائی ہے؟ بلکہ یوں کہیے کہ پھر اِس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے؟؟ ہر میدان اور فیلڈ کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں۔ جب ایک جنگ معیشت کے میدان میں ہی زبردستی ہم پر مسلط کردی گئی ہے اور وہی آج ہماری کمزوری اور پستی کا باعث ہے تو اِس کے دفاع اور توڑ کے لیے معاشی حربے استعمال کرنا ہی قرین قیاس ہے۔ بلکہ ابھی اُمت مسلمہ کی ایسی حالت اور قوت ہی نہیں ہے کہ وہ دشمن کے ہر حربے کا توڑ اُس پر باقاعدہ چڑھائی اور فوجی اقدام کرکے کر سکے۔ ایسا اگر ممکن ہوتا، پھر تو کیا ہی خوب تھا، لیکن اگر ایسا واقعی ممکن ہوتا ، تب پھر اُمّت پر یہ ظلم و جبر اور استحصال کا طویل دور بھی نہ آیا ہوتا۔ اور اُمت اپنی کم و بیش دو صد سالہ غلامی کا طوق گلے میں ڈالے اپنی بارہ صد سالہ عظمت گم گشتہ و پارینہ کا ماتم نہ کر رہی ہوتی۔
چنانچہ اُمت مسلمہ کو اپنے پیروں پہ کھڑا دیکھنے کے لیے ہم جو مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں تو کوئی اِس لیے نہیں کہ ہم خدانخواستہ گاندھی اور وحید الدین خان وغیرہ کی طرح ”مطلق اَمن“ اور ”مطلق عدمِ جنگ“ کے قائل ہیں۔ اب اگر بائیکاٹ کے لیے کسی جنگ کی نوبت ہی نہیں آتی ہے تو بائیکاٹ کی اپنی نہاد ہی کچھ ایسی ہے۔ یعنی بائیکاٹ تو ہوتا ہی پُر اَمن ہے، نہ کہ یہ کہ ہم کوئی اِضافی طور پر اِس پر ”امن مُسلط کرنے“ کی کوشش کریں گے!! محض بائیکاٹ سے اگر کسی کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ ساتھ میں توڑ پھوڑ، مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ وغیرہ ایسی چیزیں دیکھنے کا خواہشمند ہے (کیونکہ اِسی صورت میں ہی بائیکاٹ سے ”پر اَمن“ ہونے کی ”تہمت“ ہٹ سکتی ہے!) تو یہ چیزیں البتہ ضرور بائیکاٹ سے اِضافی شمار ہوں گی۔ کیونکہ بائیکاٹ کا کوئی ضروری حصہ یہ بہرحال نہیں ہیں۔ بائیکاٹ اِس کے بغیر بھی ہوجایا کرتا ہے، اور ہوتا رہا ہے۔ لیکن ساتھ میں اِس پر بھی غور کر لیا جائے کہ یہ چیزیں ممکن العمل کیونکر ہوں گی، اور اِن سے کیا فوائد حاصل ہونے کی توقع ہو سکتی ہے۔
بائیکاٹ کے ساتھ ”پرامن“ کا سابقہ لگانے سے ہماری منشاءیہاں اِس کے سوا کچھ اور نہیں کہ اِس کی وجہ سے کسی بھی مسلمان پر کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ آپ اگر تھوڑا سا ضبط، یکجہتی، اتحاد اور ہوشمندی کا ثبوت دیں تو بہ آسانی اپنا کام نکال لے جا سکتے ہیں، جبکہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو موردِ الزام بھی ٍنہیں ٹھہرا سکتی۔ نہ آپ پر کوئی پابندی یا قدغن ہی لگائی جا سکتی ہے۔ ایک طریقۂ کار سے مسلمانوں کو ایک بڑے فائدے کے عوض کفار سے کسی تکلیف کے پہنچنے کا امکان نہ ہو تو اُس کے پُر امن ہونے سے ہماری مراد بس یہی ہے اور اس کی بھرپور تائید کرنے کی وجہ بھی۔
نہ ہی یہ تصور رکھنا درست ہے کہ بائیکاٹ کی حکمتِ عملی اپنانا دین میں ایک نئی چیز داخل کرنے کے مترادف ہے اور اِس لحاظ سے بدعت! کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین سے اِس طرح کا کوئی طریقہ ثابت نہیں ہے! ابتدا میں ہم اِس بات کو واضح کر آئے ہیں کہ بدلتی دنیا کے ساتھ ساتھ جنگی طور طریقے اور حکمت ہائے عملی بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ جب تک کسی معاملے میں شریعت نے واضح طور پر چند مخصوص طریقہ ہائے کار کا حصر نہ کر دیا ہو، آپ اپنے مقصد کے لیے کوئی بھی طریقہ یا ذریعہ استعمال کرنے میں شرعاً آزاد ہوتے ہیں، سوائے اُس طریقے کے جو فی نفسہ حرام ٹھہرا دیا گیا ہو۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو شرعی طور پر بھی سب سے بہترین اور پسندیدہ اسٹریٹجی وہی ہوتی ہے جو کسی مقصد شرعی کے حصول کا سب سے احسن، بہتر اور آسان ذریعہ ہو، خواہ بذاتِ خود وہ طریقہ منصوص اور ثابت شدہ نہ بھی ہو۔
البتہ چونکہ ہم اِس بات کے قطعاً قائل نہیں ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی بھی طبقہ کسی شرعی مجبوری کے بغیر کسی مالی یا معاشی تنزلی یا دشواری میں مبتلا ہو، لہٰذا ملٹائی نیشنلز کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی یہ تجویز اور اپیل صرف اُن کی ”خریداری برائے استعمال“ سے متعلق ہے، نہ کہ ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ میں اُن کی خرید و فروخت کی بابت۔ یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلم تاجر، بزنس مین اور دکاندار ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ میں اِن مصنوعات کی خرید و فروخت بند کر دیں، بلکہ صرف یہ گزارش کرتے ہیں کہ جہاں تجارتی منافع مقصود نہ ہو بلکہ استعمال اور تصرف کا معاملہ ہو تو اِن مصنوعات کو ہرگز نہ خریدا جائے۔ نہ ہی ہم فی الحال یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مسلمان اِن ملٹائی نیشنلز میں ملازمت اختیار نہ کریں۔
اِس تدبیر کو اختیار کرنے سے بائیکاٹ کی وجہ سے کسی مسلمان کی موجودہ معاشی حالت میں کسی خرابی کا احتمال پیدا نہیں ہوگا۔ اور جو بھی نقصان ہوگا وہ صرف اِن کمپنیوں کو اُٹھانا پڑے گا۔ ان کی مصنوعات کی سپلائی کے آخری مرحلے میں جب طلب بتدریج کم ہونا شروع ہوگی تو یہ کمی مرحلہ وار ریٹیلرز اور ہول سیلرز سے ہوتی ہوئی بالآخر کمپنیوں تک پہنچے گی، جس کے نتیجے میں کمپنیوں کو اگلی بار کے لیے کم مال کی تیاری پر مجبور ہونا پڑے گا۔ پھر ہر بار طلب جتنی کم ہوتی جائے گی، کمپنی سے رسد میں بھی اُسی درجہ کمی آئے گی۔
”سپلائی کے آخری مرحلے“ میں یعنی مثلاً عام دوکانوں میں خریداروں کے اندر جو طلب کی کمی واقع ہوگی، وہ ظاہر ہے کوئی مطلق کمی نہیں ہوگی، بلکہ طلب کا رُخ بدل کر ملٹائی نیشنلز سے مقامی کمپنیوں کی طرف بڑھ جانے سے واقع ہوگی جس سے دکانداروں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
کہنے میں تو بائیکاٹ بڑی آسان سی چیز لگتی ہے۔ لیکن ہمیں اندازہ ہے کہ لوگ جن برانڈز کی اشیائے روزمرہ کے استعمال کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں، اُن کو ترک کردینا اُن کے لیے نہایت دشوار ہوتا ہے۔ اور یہ ایک فطری امر بھی ہے۔مگر جب سامنے ایک عظیم مقصد ہو، نبی کی حرمت و ناموس کا احساس ہو، دین اسلام کی برتری اور بالاتری کا پاس ہو، دینی غیرت و حمیت کے تحت کچھ کرنے کی مجال ہو، اور باطل سے جہاد میں مقدور بھر اپنا حصہ ڈالنے کا خیال ہو، تو مشکل ترین چیزیں بھی آسان ہو جایا کرتی ہیں، بائیکاٹ تو پھر معمولی چیز ہے!
ہمیں اِس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ’افراد‘ اپنے اپنے طور پر بائیکاٹ کے بارے میں سوچ کر اور اس سے پیدا ہونے والے بتائے گئے یا متوقع اثرات کو سامنے نہ پا کر الجھن اور فرسٹریشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام فکری یکسُوئی اور دلجمعی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ سو، کوئی اگر اس سلسلے میں کچھ کرنے کا خواشمند ہو، لیکن کچھ الجھنوں کا بھی شکار ہو تو اُسے چاہیے کہ پہلے فکری یکسوئی پر توجہ کرے۔ یہ ہوگی تو دلجمعی آپ سے آپ آئے گی۔ پھر اِس کاز میں لوگوں کا آپ کے ساتھ ہونا یا نہ ہونا آپ کے لیے غیر متعلقہ ہوگا۔بلکہ آپ لوگوں کو بھی اِس بابت اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دِلا رہے ہوں گے۔
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز