زیادہ حصہ "مدخلی" کا مگر کچھ "اخوان" کا بھی
___
انصاف ہمیں سب سے بڑھ کر عزیز ہے۔ یہ سننا کہ ہم نے پوری بات نقل کرنے سے گریز کیا، ہمیں سب سے زیادہ ناگوار ہے۔ ابھی چند ساعتیں پہلے، شیخ مدخلی مرحوم کے متعلق سی آئی اے کی ویب سائٹ سے ایک چیز، اس کے کچھ "متعلقہ" حصوں پر نظر ڈالنے کے بعد، ہم نے اپنے پیج پر شیئر کی۔ البتہ دیانتداری کا تقاضا ہے سی آئی اے کے سٹرٹیجی سازوں کی ان سفارشات میں اگر کوئی اور بھی بات ایسی ہے جو عین اسی ضمن میں باعثِ استشہادہ ہوئی یا ہو سکتی ہے، اس کا بھی ساتھ ذکر ضرور کر دیا جائے۔
اس حوالہ سے عالم اسلام میں امریکہ کے خلاف عروج کو پہنچے ہوئے جـــــہـــــادی جذبے کو قابو کرنے، یا سرد کروانے، کےلیے مختلف حوالوں سے جس رجحان کو ہمارے یہاں فروغ دلوانے کی سفارشات سی آئی کےلیے سوچ بچار کرنے والے ان اعلىٰ دماغوں کے یہاں سب سے بڑھ کر قابل تجویز ہیں وہ بےشک شیخ ربیع مدخلی مرحوم کی دی ہوئی فکر اور ان کی اٹھائی ہوئی لڑائیاں ہیں۔ لہٰذا اس دعوت کو مسلمانوں کے مابین خوب ایمپاور کرنے کی ترکیب سجھائی جا رہی ہے۔ بلاشبہ ڈاکومنٹ میں ایک نہیں کئی مقامات پر شیخ ربیع کو ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ یعنی ان کا مکرر ذکر ہے۔ اور آخر میں پیش کی گئی سفارشات کے اندر بھی ان کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس کی وجہ کچھ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ سی آئی اے کے یہ سٹرٹیجسٹ امریکہ کے خلاف اٹھنے والی اس جـــــہــــــادی تحریک کے ڈانڈے بار بار سلفیت میں ڈھونڈ رہے ہیں، جیسا کہ اسی رپورٹ میں دیے ہوئے ان کے مقالات سے واضح ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ سی آئی اے کی نظر میں مسئلہ اگر "سلفیوں" کا پیدا کیا ہوا ہے تو اس کا حل تو شیخ مدخلی مرحوم کے دیے ہوئے افکار ہی ہو سکتے ہیں۔
تاہم ان سفارشات میں ذرا آگے چل کر، وہ اس بات کا بھی ذکر کر رہے ہیں کہ عالم اسلام کے دیگر خطوں میں جہاں جہاں ان جــــــہـــــادیوں کا کچھ اور گروپوں کے ساتھ مقابلہ ہے، وہاں وہاں ان کے مقابلے پر پائے جانے والے گروپوں کو بھی مضبوط کیا جائے۔ اور اس حوالے سے، سفارشات مرتب کرنے والا کہتا ہے کہ مختلف ملکوں میں مختلف گروپ قابل غور آنے چاہییں: جیسے مصر میں الاخوان المسلمون اور سعودی عرب میں شیعہ۔
مغرب اپنی کسی ضرورت کے تحت ہمارے یہاں کسی فکر یا جماعت کو اپنے لیے زیادہ بڑا خطرہ نظر آنے والی کسی اور فکر یا جماعت کے خلاف مضبوط کروانا چاہ رہا ہے تو اس بات کو میں اس بات کا ہم معنىٰ بالکل نہیں جانتا کہ یہ فکر یا جماعت مغرب کی "ایجنٹ" ہے۔ اس "متبادل" کی ہمارے ہاں پزیرائی کروانا کسی وجہ مغرب کا ایک پراجیکٹ بےشک ہو سکتا ہے، لیکن میں اس بات کو اس چیز کا ہم معنىٰ نہیں جانتا کہ اِس شخص یا جماعت نے مغرب کا ایجنٹ ہونا قبول کر لیا ہے۔
یہ بات میں اپنی نجی مجلسوں میں المورد تک کے متعلق کہتا ہوں، باوجود اس کے کہ المورد کے متعلق مجھے اکثر سننے پڑھنے والے میری رائے سے واقف ہیں۔ اس کے متعلق بھی میں یہی کہتا آیا ہوں کہ المورد کا ہمارے یہاں مغربی مفادات کا کام آسان کرنا ایک معلوم حقیقت بےشک ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہونا ضروری نہیں کہ المورد یا اس کی کوئی راہنما شخصیت مغرب کی ایجنٹ ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ان نظریات پر فی الحقیقت ایسا ایمان رکھتا ہو کہ اس کا پرچار وہ ہرگز کسی کے کہنے پر یا کسی کے ایماء پر نہ کر رہا ہو۔ جبکہ "ایجنٹ" میں کسی کے ایماء پر کچھ کرنے کا معنیٰ بہرحال پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ "ایجنٹی" والی بات بغیر کسی ثبوت کے ہم نہیں کر سکتے، اور نہ کی ہے۔ مفادات کا بعض پہلوؤں سے مشترک ہو جانا اس صریح الزام کو مستلزم نہیں ہے، الا یہ کہ اس کے الگ سے کچھ شواہد سامنے آئے ہوں۔
یہ تو ایک وضاحت تھی کہ ہم سے صرف وہی بات منسوب کی جائے جو ہم نے کی ہے۔
البتہ تحریکات کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے، اس بات کو کچھ ایڈریس کر سکتا ہوں کہ "اخوان" جن کے متعلق عشروں پر محیط مغرب کے خونخوار رویے ایک معلوم حقیقت رہے ہیں، القا ء دہ کے مقابلے پر کیوں اس کو بھی وہ درخور اعتناء جاننے لگا تھا؟
اس سے ایک تو یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ مغرب اس ابھرتے ہوئے جــــــہــــــادی رجحان کو اپنے حق میں کس قدر خطرناک دیکھنے لگ گیا تھا (معلوم رہے سی آئی اے کی یہ رپورٹ سن 2006 کی ہے، افغانستان اور عراق میں مغرب کے خلاف اٹھنے والا یہ جــــــہـــــادی عمل اپنے عروج پر تھا)۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ایک روایتی حریف "الاخوان المسلمون" کو بھی اس کے مقابلے پر ’کم تر برائی‘ دیکھنے لگا تھا۔ یہاں ہم کہتے ہیں کاش عالم اسلام کے اس ابھرتے ہوئے جــــــہـــــــادی عمل کو فکرِ خوارج کا وائرس نہ لگتا، جس کا عروج ٹی ٹی پی اور داءش کی صورت میں سامنے آیا اور پورے عمل کو اچھا خاصا ٹریک سے اکھاڑ دینے میں کامیاب رہا۔ ورنہ آپ دیکھ سکتے ہیں، مغرب کس درجے میں اس سے خائف تھا۔ البتہ اس ٹریک کی خرابی کے بعد وہ اچھا خاصا سکھ کا سانس لے سکتا تھا۔
دوسرا، یہ بھی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخوان جو ایک عرصے سے ’ماڈریٹ‘ ہونے کی راہ پر قدم دھر چکے تھے، اور جس کی وجہ سے بہت سے سخت گیر طبقے ایک ایک کر کے اخوان کو چھوڑ چکے یا ان کے اندر غیر فعال ہو چکے تھے، اس ’اعتدال‘ کی راہ پر چلتے چلتے اب ان آخری عشروں میں وہ کہاں تک آ گئے ہوئے تھے۔ اس سے؛ بعض تجزیہ کاروں کے اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ "عرب بہار" کےلیے کچھ راستہ چھوڑنا - ابتداءً - مغرب کی ان کوششوں کا حصہ ہو سکتا ہے جو وہ افغانستان اور عراق سے اٹھنے والی ایک خوف ناک گھٹا کی راہ میں بند باندھنے کےلیے ضروری خیال کرنے لگ گیا تھا۔ ان میں بعض تجزیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغرب کا یہ (ممکنہ) کارڈ سامنے آتے ہی اُس "گھٹا" نے بھی اس نئے بال کو اپنے انداز سے کھیلنے کی کوشش کی۔اور وہ تھا شام کے تھیٹر پر بالکل ایک نئے انداز میں ایکٹ کرنا۔ یعنی ایک "سخت گیر" ٹولے کا شام کے میدان میں اترتے ہی ’سافٹ امیج‘ والا رخ اختیار کرتے چلے جانا اور اپنی roof کو زیادہ سے زیادہ شامی جماہیر کی سطح پر لاتے چلے جانا، جس کے کچھ "پختہ تر" مراحل ہم نے اس ٹولے کے یہاں اِن آخری برسوں میں دیکھے اور اس سے بھی آگے کے مراحل شام کے حالیہ انقلاب کے بعد۔ اس تجزیہ کی رُو سے، یہ دراصل "عرب بہار" والی پِچ ہے، جس پر ایک بار شام میں کھیلنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو واپسی کی پھر کوئی صورت چلنے والوں کے پاس باقی نہ رہی، اور بیچ میں چھوڑ کر جانے کی تو کوئی صورت تھی ہی نہیں (اب بھی نہیں ہے)۔ لہٰذا اس کا حتمی نتیجہ یہی ہو سکتا تھا جو اس وقت ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اس تجزیہ کو اگر کچھ دیر کےلیے وزن دے لیا جائے تو آخر کیا وجہ ہے کہ "عرب بہار" کے اس موقع سے اخوانِ مصر تو وہ فائدہ نہ لے سکے حالانکہ سردست وہ تھیٹر سافٹ امیج والی تحریکوں ہی کےلیے سامنے آیا تھا جن میں اس وقت کے اخوان سرفہرست ہو سکتے تھے، جبکہ ان کے مقابلے پر وہ "طائفۃ الشام" اس پر ہاتھ مار گیا جس کی گزشتہ اٹھان سے پریشان ہو کر ہی یہ "عرب بہار" والا پورا میدان سجایا گیا تھا؟ تو یہ گھنڈی کیسے حل کی جائے؟ ظاہر ہے اس کے بہت سارے عوامل ہو سکتے ہیں، جن میں سے ایک تو شام اور مصر کا جغرافیائی فرق، خصوصاً ترکی کے ساتھ سرحدیں ملنے کے حوالے سے۔ نیز سرد جنگ کے زمانے سے چلا آتا آل "الاسد" کا وہ بھاری بھر کم روسی بیگیج۔ نیز ایک انتہائی اچھوت قسم کی نُصیری اقلیت کی جانب سے اپنے سے درجنوں گنا بڑی اور عزت دار اکثریت کو گروہی بنیادوں پر عشروں تک ذلیل کرنا اور تختہٴ مشق بنانا۔ جس سے نجات پانے کی خواہش مند "شامی سٹریٹ" کے عشروں سے چلے آتے امریکی میلانات، جن کو شامی جنگجوؤں نے بھی خاصے زیرک پن کے ساتھ استعمال ہی کیا۔ مگر ان سب سے اہم: "طائفۃالشام" کا" گاجر اور سوٹا" ہر دو بیک وقت پاس رکھنا، اور ہر دو کو ساتھ ساتھ اور صحیح صحیح جگہ پر برتنا۔ جبکہ اخوانِ مصر کو صرف "گاجر" دستیاب ہونا۔
اس تجزیے کو اگر کسی درجے میں صحیح مانا جائے، تو ایک بہت بڑا سوال، بلکہ سب سے بڑا سوال، یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ "گھٹا" جس نے عرب بہار کو اپنے رخ پر لانے کےلیے - شام کے سیناریو میں - عوامی شاہراہوں کا نااختتام پزیر رُوٹ اختیار کیا، کیا یہ خود اس کے اپنے ہی خاتمے کا رُوٹ تو نہیں بنے گا؟ اور اس لحاظ سے یہ کہا جاسکے کہ مغرب نے "اخوانِ مصر" سے ایک طریقے سے اپنی جان چھڑائی تو "طائفۃ الشام" کی راہ دوسرے طریقے سے کھوٹی کرنے میں کامیاب رہا۔ صاف سی بات ہے، امکانات کی دنیا میں، ہر چیز کا امکان ہے۔ اور دور بیٹھے کوئی بھی دعوىٰ نہیں کیا جا سکتا۔ بطور ایک ادنىٰ طالب علم، میں اتنا البتہ کہہ سکتا ہوں، کہ اندر کے جـــــہـــــادی کو زندہ رکھنے کے انتظامات دانش مندی کے ساتھ اگر پورے رکھے جاتے ہیں، تو کسی اعلىٰ منزل پر پہنچنے کے امکانات ان شاء اللہ بدستور روشن ہیں۔ اور یہ اندازہ رکھتے ہوئے بھی کہ اس پر مجھے بہت کچھ سننا پڑ سکتا ہے، میں على وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ یہ راستہ جسے چلنے کا فیصلہ "طائفۃالشام" نے کسی وجہ سے ایک بار کر لیا تھا، اس میں اس وقت تک جو کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے، اس کے سوا اور کوئی راستہ اس کے پاس ہے ہی نہیں تھا۔ میں اور آپ بھی ہوتے تو عین یہی کرتے جو وہ کر رہا ہے۔ سب سے بےوقوفی کی بات یہ ہے کہ آدمی ایک راستہ چلتے ہوئے دو راستوں کی قیمت ادا کرے، اور دونوں سے جائے۔ ہمارے آئیڈیلسٹ معترضین دراصل یہی چاہتے کہ امیر شام ان کی فرمائش پر "پیاز اور پولے" دونوں کھائے، اور کسی ایک بھی معاملے میں منزل پر نہ پہنچے۔ ہاں دلوں کی حالت ہی اگر کل کو بدل جاتی ہے، یا بدل چکی ہے، اور آخرت کی بجائے دنیا مطلوب ہو جاتی ہے، تو پھر کہہ نہیں سکتے۔ اور دلوں کا حال سوائے اللہ کے کون جانتا ہے؟ البتہ راستے کی حد تک، جو کچھ ہو رہا ہے، اگر ارادے اور عزائم درست ہوں، تو بالکل صحیح ہے۔ بلکہ اس کے سوا، سوائے آئیڈیلسٹوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے، اور آخر ہاتھ جھاڑ آنے کے، کچھ ممکن ہی نہیں ہے۔