سن ستّر کا لاہور اور "حجابن" کی پیش قدمی!
فیس بک کی ایک پروموشن پوسٹ پر اتفاقاً میری نظر پڑ گئی۔ کسی خاتون نے 1970 کے لاہور کی یہ ایک تصویر شیئر کر رکھی تھی، اور ساتھ "نوٹ" کروانے کی بات جو اس نے کہنا ضروری جانی: ٹانگے کی سواریوں میں "ایک بھی حجابن نہیں"!
دلچسپ!!!
بات تھوڑی نوٹ کرنے کی ہے بھی… اور اس کے ساتھ جاننے کا بہت کچھ!
عالم اسلام کی ہماری حالیہ تاریخ میں سن ستر کی دہائی کا "آواخر" دراصل ہماری دینی صحوۃ (بیداری) کے نئے قوی تر دور کا آغاز مانا جاتا ہے:
سن 1973 کی عرب اسرائیل جنگ، جس میں کم از کم میدان کے اندر انور السادت کے مصر نے، 1967 والی جمال عبد الناصر والی شکست کے برعکس، بہت اچھی کارکردگی دکھا لی تھی، جس سے عرب سٹریٹ کو ولولہٴ تازہ عطا ہو گیا تھا، اگرچہ وہ "ولولہ" انور السادات کو پیچھے چھوڑ گیا ہو اور "اسلامیوں" کو اپنا غلغلہ کرنے کا ایک زبردست موقع دے گیا ہو۔
سن 1977 پاکستان میں تحریکِ نظامِ مصطفی۔
سن 1978، ایرانی انقلاب۔
1979 جــــــہـــاد افغانستان کا آغاز (جس میں ملتِ مغرب نے اپنی تاریخ کی ایک بڑی غلطی کی: سوویت خطرے سے بچنے کےلیے مغربی بلاک کے زیراثر مانے جانے والے ملکوں میں جذبہٴ جـــــــــہـــــــــــاد کو "اپنے" کام میں لانے کی ایک ماکرانہ کوشش، جو خود اسی کے گلے پڑ گئی)۔ افغانستان میں شروع ہونے والا یہ "مقامی" عمل چند سالوں میں ایک "گلوبل فنامنا" بن گیا۔ اس کے تحت؛ اسّی دہائی کے شروع سالوں میں مصر، الجزائر، تیونس، مراکش، شمالي یمن، سعودی عرب، پاکستان اور دیگر "مغربی" بلاک کے اسلامی ممالک میں تو حکومتی وسرکاری سطح پر اس جذبہٴ جـــــــــہــــــاد کو جگایا گیا۔ جبکہ لیبیا، جنوبی یمن، شام، عراق وغیرہ ایسے "مشرقی" بلاک کے اسلامی ملکوں میں "اپوزیشن" کے اسلامی دھڑوں کو اس نیک مشن کی راہ دکھائی گئی۔ یہاں تک کہ روس کے زیر قبضہ وسط ایشیائی ریاستوں میں موجود اسلامی عنصر کو اٹھایا جگایا گیا۔ سمجھدار اسلامی قیادتوں نے اس تاریخی "موقع" کو بڑے زیرک انداز میں استعمال کیا؛ اور "مواقع" کا اچھا استعمال تہذیبوں کا حق ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ "صحوۃ اسلامیۃ" اسّی کی دَہائی سے شروع ہونے والا ایک بڑا عالمی فنامنا مانا گیا۔ کئی عرب ممالک میں تو یونیورسٹیوں سے بسیں بھر کر جــــــہــــــاد کے قافلے روانہ ہوئے۔
1982 شام میں اخوان سے پھوٹنے والی "الطلیعۃ" کی غیر معمولی اٹھان، جس کو کچلنے کےلیے حافظ الاسد نے حماۃ شہر پر ٹینک چڑھا دیے اور درجنوں ہزار لوگوں کو یکبارگی شہید کر دیا۔ مگر یہ اس پورے خطے کے اندر اسلامی بیداری کے حق میں ایک نہایت گہرا اور دوررس واقعہ ثابت ہوا۔ "شہادتیں" عالم اسلام کی مٹی میں بویا گیا ایسا بیج ہیں جو عرصے بعد سہی اپنا ثمر ضرور دیتی ہیں۔
اِسی اَسِّی کی دَہائی میں جیسا کیسا، پاکستان اور سوڈان میں اسلامی تجربہ ہوا۔ ان دونوں تجربوں کی بابت آپ جو بھی کہیں، حتىٰ کہ اسے حکمرانوں کی جانب سے کھیلا گیا ایک سیاسی کارڈ کہہ لیں، اس سے یہ بہرحال ثابت ہوتا ہے کہ لوگ اب یہاں اسلام کا مطالبہ کرنے لگے تھے، اور وہ بھی اس درجے میں کہ اسلام کا نعرہ لگا کر، اور کچھ اسلامی اقدامات کر کے، ان کے دل جیتے جا سکتے تھے۔ یہ اسلام کے مقبول اور طاقتور ہو جانے کی ایک دلیل تو ہوئی نا۔
اسّی کی دَہائی کے اواخر تک ہم دیکھتے ہیں، کشمیر میں نیشنلسٹ لہجوں نے اپنا زور کھو دیا، اور کشمیری مزاحمت میں ایک واضح اسلامی ٹون نے اُس نیشنلسٹ لہجے کی جگہ لے لی، جو دن بدن اپنے اسلامی تشخص میں مضبوط ہوتی چلی گئی۔
عین اُسی عشرے کے اواخر میں فلسطین میں عرب نیشنلسٹ سوشلسٹ تحریک پی ایل او دم توڑ گئی، اور اس کی جگہ پوری فلسطینی مزاحمت پر "اسلامیوں" کا قبضہ ہو گیا۔ سن اٹھاسی میں سامنے آنے والی "انتفاضہ" خالصتاً ایک اسلامی پیش رفت تھی، اور فلسطینی مزاحمتی تاریخ کا ایک باکل نیا موڑ۔
1990 الجزائر میں جبہۃ الاِنقاذ الاسلامیۃ (اسلامک سالویشن فرنٹ) کی بلدیات کے انتخابات میں بھاری کامیابی، اور کم از کم بلدیاتی سطح پر پورا ملک "اسلامیوں" کے قبضے میں آ جانا۔ اور پھر اس سے اگلے سال 1991 میں اسی اسلامک سالویشن فرنٹ کی ملکی انتخاب میں بھاری جیت، جو عالم اسلام میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا، اور بہتوں کےلیے ایک چشم کشا امر۔ اسلامی سیکٹر کے توانا ہونے پر اس کی دلالت غیر معمولی تھی۔
اسی نوے دَہائی کے شروع میں سوویت یونین کے دھڑام ہو جانے کے نتیجے میں، اور اس کے زیر قبضہ رہنے والی چھ مسلم ریاستوں میں اذان بحال ہو جانے کے بعد، "اسلامیوں" کے جذبے اس سے آگے کے کچھ ستاروں پر کمند ڈالنے کےلیے بےچین ہونے لگے۔
نوے دہائی کے وسط تک افغانستان یہاں کے کٹر "بنیاد پرستوں" کے قبضے میں آ جانا۔ جس کے بعد وہی "ممولا" جس کو اَسّی کی دَہائی میں مغربی بلاک کا دست نگر ہونے کے طعنے ملتے تھے، حالیہ صدی کے شروع سالوں میں – پوری دنیا کو حیران کرتے ہوئے – اُسی مغربی "شہباز" سے جا بھڑا تھا اور دو عشروں کی ایک خون آشام جنگ کے بعد آخر اسے افغانستان میں شکستِ فاش سے دوچار کر کے دنیا کو حیران کر گیا۔
"اسلامیوں" کی اپیل اس کے بعد بھلا کیوں نہ بڑھتی!
یہ تمام واقعے ایک طرف۔ – اس سے بالکل ہٹ کر ایک دوسری سطح پر – ایک اور بڑا واقعہ ہوا۔ اور وہ یہ کہ مغرب کسی "برین ڈرین" کے تحت ہمارے عالم اسلام کے ذہین ترین طالبعلموں کو بڑی تعداد میں اپنی یونیورسٹیوں کے اندر پڑھانے سکھانے کا جو عمل چالیس اور پچاس کی دہائیوں سے شروع کر چکا تھا، وہ اب ستّر کی دہائی کے اواخر تک آتے آتے ایک ایسا تناور درخت بن چکا تھا کہ اس "برین ڈرین" کا ایک بڑا حصہ یورپ و امریکہ میں "سیٹل" ہونے کے بعد اپنی "نماز روزے" کی ضرورت کے تحت وہاں جگہ جگہ "اسلامک سینٹرز" بنا چکا تھا۔ جو یورپ اور امریکہ کے مادہ پرستی کے بھنبھوڑے ہوئے انسانوں کےلیے اسلام سے تعارف پانے کا ایک ایسا ذریعہ بنا جو مغرب کے انسان کو شاید تاریخ میں – اس بڑی سطح پر – کبھی دستیاب نہیں ہوا تھا۔ دینا یکایک کیا دیکھتی ہے "گورے" اور "گوریاں" دھڑا دھڑ اسلام قبول کرنے لگے ہیں!!! اور وہ بھی اس بڑی سطح پر کہ اس سے کسی قدر یورپ و امریکہ کی ڈیموگرافی تبدیل ہونے لگی ہے۔ یہاں تک کہ کئی مغربی ملکوں میں عیسائیت کے بعد "دوسرا بڑا مذہب" اب یہودیت نہیں بلکہ اسلام ہو گیا ہے اور "پہلے بڑے مذہب" کو اچھا خاصا ٹف ٹائم دینے لگا ہے۔ الناس على دین ملوکھم۔ "گوریاں" اور وہ بھی بہت پڑھی لکھی "گوریاں" اور گورے جب "اسلامی شعائر" پر فخر کرتے دیکھے جائیں تو ہمارے اس "تھڑڈ ورلڈ" کی نظر بھی اسلام کے متعلق کچھ تو بدلے گی! "حجاب" جب یورپ اور امریکہ ایسے "فرسٹ ورلڈ" پر کامیاب یلغار کرنے لگے تو اپنے احساسِ کمتری میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں کو بھی کچھ تو فرق پڑے گا! "انگریزی" بولنے والے اسلامی داعی جو اتنی بڑی تعداد میں آ گئے، تو وہ ایک "انگریزی سے مرعوب" قوم کو کچھ تو مرعوب کریں گے! یہ نیا فنامنا بھی ستّر کی دہائی تک اچھا خاصا طاقتور ہو چکا تھا، اور اس کے بعد مسلسل رو بترقی ہے۔ چنانچہ یہ بھی ایک ایسی چیز ہوئی جس سے دنیا میں "اوور آل" اسلامی پانیوں کی سطح بلند ہوئی تو سبھی اسلامی کشتیاں اوپر اٹھ گئیں۔
اس صدی کے شروع عشرے سے کمال اتاترک کے سیکولر ترکی
پر "حجابیوں" کا ہاتھ پڑ جانا، اور وہ بھی پاپولر ووٹ کے ذریعے سے!
اِس صدی کے شروع عشرے میں افغانستان اور پھر عراق میں بیرونی قبضہ کاروں کے خلاف مسلم جوانوں کی مزاحمت، جس نے بہادری اور للّٰہیت کی نئی داستانیں رقم کر دیں۔ "مسلم سٹریٹ" کو اتنے بڑے اسلامی وقائع سے کچھ تو اثر لینا تھا۔
دس کے عشرے میں "عرب بہار" تیونس، لیبیا، مصر اور شام میں اپنے اسی تسلسل کا کچھ بڑی سطح پر اظہار تھا جو اپنی مختلف صورتوں میں ابھی تک اپنا ظہور کیے جا رہی ہے؛ اور ابھی بھی کہہ نہیں سکتے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
2022 ملائشیا میں "اسلامی پارٹی" کا پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن جانا۔ اور اس سے پہلے بھی اسلامائزیشن کے بہت سے اقدامات۔
اور اب حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش اور شام میں اسلام اور اسلامیوں کی پیش رفت۔
وأما بنعمۃِ ربک فحدث۔ عالم اسلام کی سڑکوں چوراہوں پر "حجاب" کا یہ بڑھتا ہوا راج… اس کے پیچھے کارفرما بہت سی محنتوں اور حقیقتوں کا عکاس ہے۔ دین کے کچھ مشعل بردار جو نجانے کیوں آج مایوسیوں کی زبان بولنے لگے ہیں، اگر وہ "آئیڈیلسٹ" نہیں، اور معلوم رہے "آئیڈیلزم" اسلامی عمل کو لگنے والا ایک مہلک ترین وائرس ہے، تو یہ مایوسیوں کی زبان بالکل بےجا ہے۔ ہمارے رب کی مہربانیاں جو ہم ان عشروں میں بچشمِ سر دیکھ چکے، ہماری توقع سے بڑھ کر رہی ہیں۔
اور کیا بعید آئندہ سالوں اور عشروں میں آپ یکخلت ایسی ایسی پیش رفت دیکھیں جس کا اندازہ بھی نہیں تھا۔ اللہ پر بھروسہ مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے…
اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں، یورپ میں بھوک پڑنا شروع ہو گئی ہے۔ امریکہ کو حریفوں سے نمٹنا روز بروز مشکل ہو رہا ہے۔ اس کا امکان بہرحال ہے کہ مغربی بلاک کے بھی کسی دن مشرقی بلاک کی طرح ہاٹھ کھڑے ہو جائیں۔ اور وہ دن تصور کرنے کا ہے!!! آپ کو اندازہ نہیں ہے، ایسے کسی بدلتے سیناریو میں عالم اسلام پر "حجاب" کا کیسا راج ہو سکتا ہے۔
بات پچاس، ساٹھ اور ستر کی دَہائیوں کی ایک معمولی سی تصویر سے شروع ہوئی تھی! واقعتاً اُس دور کے بہت سے مناظر اب بڑے ہی اوپرے اور انہونے لگتے ہیں! خاصے یقین سے کہا جا سکتا ہے، دیکھنے والے کی حیرانی آتے برسوں عشروں میں اِس حوالہ سے اور بھی بڑھ سکتی ہے، میرے رب کے حکم سے۔
ابھی تو خاتون نے "لاہور" کے ایک ٹانگے کی تصویر شیئر کی ہے۔ اُسی ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں کی کوئی "کابل" کی تصویر شیئر کی ہوتی اور اس کا "آج کے کابل" سے تقابل کیا ہوتا… تو ہمیں اندازہ ہوتا کہ زمانہ اسلام کی سمت میں بہت آگے بڑھ چکا ہے!
واللہ غالب علىٰ أمرہ، ولکن أکثر الناس لا یعلمون۔