ہر گروہ کے خود مرکزیت زدہ طبقے
|
:عنوان |
|
 |
مرنے والوں کا حق جنازے سے بھی بڑھ کر شاید اب یہ ہو گیا ہے کہ آدمی کے گناہوں کی جس قدر طویل لسٹ ہو سکے، اس کے کفن دفن کے ساتھ ہی جاری کی جائے! ہر فوت شدہ کے سرہانے اب یہی ہونے لگا ہے۔ |
|
|
ہر گروہ کے خود مرکزیت زدہ طبقے
کسی ایک کا ہیرو، دوسرے کا ولن۔ اُس کا ولن، اِس کا ہیرو۔ دنیا اسی طرح بنائی گئی ہے۔
كذلك زيَّنَّا لِكُلِ أمةٍ عَمَلَهم
یہ سب کچھ سمجھ سے بالا تر نہیں۔ ایسے ہی ہوتا ہے دنیا میں۔ اور "آپ" دنیا سے باہر نہیں… اگرچہ کسی وقت آپ کو یہ زعم ہو گیا کہ آپ دنیا میں نہیں بلکہ دنیا آپ میں ہے۔
لہٰذا؛ دھیرج!!! دنیا اتنی لڑائی کی متحمل نہیں۔ "اسلام" اور "اہل سنت" کا دائرہ "آپ" کے ماپ اور سائز کا نہیں ہو سکتا۔ آپ اور آپ کے چند نامزد اصحاب کی مرضی اور سرٹیکفیٹ کا پابند نہیں ہو سکتا۔ اسلام یا اہل سنت سے بےدخلی کے سب فیصلے "آپ" والے کی-بورڈ سے صادر ہوں، یہ خواب کسی چھوٹے سے حجرے میں رہ کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔ دنیا بدستور اس سے بڑی رہے گی۔ جس کے بعد لڑائی آپ کے اس "حجرے" اور "دنیا" کے مابین ہو جائے گی، جو آپ کےلیے بےشک "جذباتی" ہوتے چلے جانے کی چیز ہو مگر دنیا کی بلا سے۔ یقین کیجیے، بہت سے لوگ، ایسے خود مرکزیت زدہ اصحاب کے "کلپ" تفریحِ طبع کےلیے سنتے ہیں! بےشک دیکھ لیجیے گا، ہر "مسلک" کے کچھ زہر اگلتے اور فتوے برساتے جیالوں کو نہ صرف دنیا بلکہ خود اُس مسلک ہی کے معتدل لوگ ایک انتہائی غیر ضروری اور غیر سنجیدہ چیز سمجھتے ہیں، سوائے یہ کہ اپنا کُل وقت علم و تحقیق میں صرف کرنے والی کوئی شخصیت اپنے کسی نام لیوا کی اکثر حرکات سے بےخبر ہو۔ یہ تو طے ہے، ہر مسلک کی دھاک اور آبرو اس کے وسیع الظرف لوگوں کے دم سے قائم رہتی ہے۔ اس کو اگر دوام اور پزیرائی ملنی ہو تو وہ صرف اس کے عالی ظرفوں کی بدولت ہوتی ہے۔
یہاں سے ایک اور سانحہ سامنے آتا ہے [أتُهْلِكُنا بِمَا فعل السفهاءُ مِنّا]: کسی مسلک کے بہت بہت اچھے کنٹری بیوشن اور اس کی بہت بہت مفید اور نفیس شخصیات کے متعلق، آپ کا تاثر محض اس کے کچھ غیر ذمہ دار نام لیواؤں کی وجہ سے خراب ہو جانا۔ اور اگر خود آپ نے جیالا صفت پائی ہے، تو ایسے "کچھ" جیالوں کی وجہ سے اُس "پورے" مسلک کی بابت آپ کا ایک بری رائے قائم کر لینا!
کیا آپ یقین کریں گے، ہر گروہ کے جیالے اکثر اپنے مسلک کے معتبر ترین اور معتدل ترین اہل علم کے اقوال کو اپنی مرضی کی کانٹ چھانٹ کر کے، اُن کے نام سے "اپنا" بیانیہ چلاتے ہیں؟ خصوصاً لوگوں کو فارغ خطی دینے اور ان کی پگڑیاں اچھالنے کے عمل میں۔ اُسی مسلک کی اُن معتبر ترین اور معتدل ترین شخصیات سے اگر آپ ان ’فارغ خطیوں‘ کی توثیق کرنا چاہیں تو شاید ہی کبھی کر سکیں گے۔ مطلب، یہ جیالے دین سے نقل و اخذ کرنے میں تو کیا موثوق ہوں گے، خود "اپنے" بڑوں سے نقل و اخذ کرنے میں موثوق نہیں ہوتے۔ حق تو یہ کہ جیالا ذہنیت کبھی صحیح اخذ و استدلال کر ہی نہیں سکتی۔ دوسروں سے تو کیا، اپنوں سے نہیں کر سکتی۔ اکثر، نہ یہ دوسروں کے حوالے – اُن کے بیانیے کی کُلیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے – دینے میں صحیح ہوتے ہیں اور نہ اپنوں کے۔ لوگوں کو دین یا سنت سے فارغ کرنے کی "تڑپ" اِن کو ایک ہی رخ پر سرپٹ چلاتی ہے اور اِن کے مطلب کی بات تک بہت "جلد" پہنچا دیتی ہے۔ اور حق تو یہ کہ یہ ہمیشہ اُس پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں صرف اس کےلیے ’حوالوں‘ کا کچھ بندوبست کرنا باقی ہوتا ہے؛ اور اتنا سا کام کیا مشکل ہے! اور اس پر توقع یہ کہ دنیا کے سب علم و آگہی سے سروکار رکھنے والے لوگوں کو بھی اس قسم کے سطحی و جذباتی ’بیانِ حق‘ سے لازماً متاثر ہو جانا چاہیے! یہ لوگ اگر کبھی دیکھنا چاہیں تو ان کا اثر لینے والے صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو پہلے سے اِس راہ پر ہوتے ہیں۔ "دوسروں" کو مطمئن کر سکنا اِس رُوٹ میں شامل ہی نہیں ہے۔ نتیجتاً؛ یہ صرف دین کو منہدم نہیں کرتے، اپنے جس گروہ کی نصرت یہ دین کے نام پر کر رہے ہوتے ہیں اس کا بھی دُوررَس طور پر نقصان ہی کر رہے ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی گرمجوشی نے اس نقصان پر ایک ٹھیک ٹھاک پردہ تان رکھا ہو۔
المختصر… اس دنیا کو "اپنے" سائز کی کرنے والوں کو دنیا ضرور ان کے "سائز" کا کر دیتی ہے، اگرچہ انہیں کچھ دیر کےلیے کسی طاقت اور اقتدار کی پشت پناہی کیوں نہ حاصل ہو۔
اسلام جس کا نیوکلئیس "السنۃ والجماعۃ" ہے… آپ اس کے دائرے میں سمائیں، بالکل یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن یہ "آپ" میں سمائے، ایں خیال است و محال است و جنوں۔
اب چونکہ "السنۃ والجماعۃ" ایک بہت بڑی چیز ہے لہٰذا اس میں تو حرج نہیں کہ یہاں خاص "آپ" کے اپنے علماء ہوں اور آپ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات پر انہی کی تعریف میں رطب اللسان رہیں۔ کچھ مخصوص علماء آپ کےلیے علمائے حق ہوں اور باقی علماء اس قابل نہ ہوں کہ علم و اِفتاء کےلیے ان کا رخ کیا جائے، یہ بھی - اندریں حالات - چلے گا۔ بس وہی "آپ" کے ہیرو ہوں اور دوسروں کے ہاں مقبول شخصیات آپ کےلیے ولن ہوں، یہ بھی قابلِ سمجھ ہے۔ دورِ آخر میں بہت وجوہات ایسی ہیں کہ اتنا سا اضطراب بہرحال برداشت کیا جائے۔ اصل پریشان کن چیز صرف ایک ہے: بولنے والے کی خود مرکزیت۔ یعنی دنیا "اس" پر ختم ہو جاتی ہے اور آخری فیصلہ بس اسی کا اور اس کی پسند کی چند علمی شخصیات کا ہے اور دوسرے تو گویا کالمعدوم ہیں۔ یہ رویہ البتہ لطائف کا باعث بنتا ہے۔
اس حوالہ سے چند غیر منطقی رویے پچھلے دنوں دیکھنے میں آئے۔ یوں تو سبھی گروہوں کے کچھ کچھ لوگ "دوسروں" کی پسندیدہ شخصیات کے فوت ہونے پر اظہارِ خوشی کر جاتے ہیں۔ پر بات اس طبقے کی ہے جو یہ عمل بحقِ "منہج" انجام دیتا ہے۔ کرتے بہرحال بہت سے طبقے یہی کام ہیں۔ چلیں یہ بات بھی ہم ہضم کر لیتے ہیں کہ جن لوگوں کو "آپ" سنت سے ہٹے ہوئے اور بدعت پر جمے ہوئے سمجھتے ہیں ان کی موت پر آپ شادیانے بجاتے دیکھے جائیں۔ نوٹ کر لیا جائے، ہم اس مسئلہ پر آپ کے ساتھ نہیں الجھ رہے۔ پھر بھی حیرت ہوتی ہے جب آپ اپنی کسی فوت شدہ شخصیت کا کسی دوسرے کی فوت شدہ شخصیت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے بڑے ہی ’منطقی‘ اور ’فیصلہ کن‘ سے انداز میں یہ سوال اٹھاتے ہیں: ارے کہاں "وہ" اور کہاں "یہ"؟! گویا یہ کوئی ایسی بات ہے جس پر فریقین کا فیصلہ ہو جانے والا ہے؛ اور ایسی فیصلہ کن بات پر تو فریقِ دیگر کا چپ ہو جانا ہی بنتا ہے!!! بھلے آدمی! یہی تو وہ دوسرا شخص سوچ رہا ہوتا ہے کہ کہاں" یہ" اور کہاں "وہ"! یہاں اصل سوال نہ اُس کے "فوت ہونے والے" سے متعلق ہے اور نہ آپ کے "فوت ہونے والے" سے۔ اللہ دونوں پر رحم فرمائے۔ یہاں مسئلہ آپ دونوں کی خود مرکزیت کا ہے۔ یعنی یہ تعجب کہ میں تو یہ کام کروں گا ہی کیا وہ بھی!؟ آخر کیسے؟ میرے بھائی! ویسے ہی جیسے آپ کرتے ہیں! وہ بھی آپ سے متعلق اتنا ہی حیران ہے جتنا اس کے متعلق آپ! ایک ایسا کام جو اصولاً دونوں کے ہاں تقاضائے دین ہے، اس پر دونوں حیران!!! اور معترض!!!
حیرانی اور اعتراض دونوں کا اس عمل پر نہیں، کیونکہ وہ تو دین کا مطلوب ہے، بلکہ حیرانی اور اعتراض اس پر کہ ’ارے وہ دوسرا بھی‘!!!
یہ ہے مسئلہ "اہل سنت" کو اپنے اپنے سائز کا کرنے والوں کا! کسی کی دنیا جس قدر چھوٹی دوسروں پر اُس کا اعتراض اتنا ہی بڑا۔
مرنے والوں کا حق جنازے سے بھی بڑھ کر شاید اب یہ ہو گیا ہے کہ آدمی کے گناہوں کی جس قدر طویل لسٹ ہو سکے، اس کے کفن دفن کے ساتھ ہی جاری کی جائے! ہر فوت شدہ کے سرہانے اب یہی ہونے لگا ہے۔ افسوس تو اس پر کرنے کا حق ہے نا ہم کو!
|
|
|
|
|
|