❝ اس ہنگامی موقعہ پر: دشمن کے مقابلے
میں پرانے جھگڑوں کو برطرف رکھیے❞
عرفان کرم
گزشتہ دنوں جو منظرنامہ مشرق وسطیٰ
میں ابھرا ہے، وہ نہایت حیران کن بھی ہے اور ہوشربا بھی۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف
وہ کچھ کر دکھایا جو اسلامی دنیا کے کئی ممالک بلكہ خود
ايران دہائیوں سے صرف قراردادوں اور بیانات میں کرتے رہے۔ ایران کی جانب سے اسرائیلی وزراتِ
دفاع، تحقیقی مراکز، حائفہ آئل ریفائنری، ائیرپورٹس، پاور پلانٹس اور یہاں تک کہ
فوجی طیاروں کو تباہ کرنا، نہ صرف ایک بڑی عسکری پیش رفت تھی بلکہ ایک
سیاسی زلزلہ بھی۔
لیکن۔۔۔ امت مسلمہ کے کئی طبقات کا ردِعمل؟
کچھ لوگ
صرف اس وجہ سے خوشی منانے سے رک گئے کہ "یہ کام ایران نے کیا ہے۔"
کچھ نے
فوراً شام میں ایران کے مظالم یاد دلائے۔
کسی نے
یمن کے حوثیوں کے ظلم کو دہرانا شروع کر دیا۔
اور کچھ
نے کہا کہ نہ گريٹر ايران، نہ گريٹر اسرائيل بلکہ تيسرا آپشن! — گویا ہر
دشمن کے خلاف مزاحمت بھی اب مشکوک ہو گئی۔
---
📌سوال یہ ہے: اگر ایران اور اسرائیل "آپس میں
ملے ہوئے" تھے تو…؟
تو پھر:
کیا تل ابیب میں ایمرجنسی
سائرن بجتے؟
کیا
اسرائیل کی وزارت دفاع پر حملہ ہوتا؟
کیا باقاعدہ
اسرائیلی ہلاکتوں کی تصدیق اسرائیلی میڈیا سے ہوتی؟
کیا
اقوام متحدہ کو بیچ میں پڑ کر مزید حملوں کو روکنے کی اپیل
کرنی پڑتی؟
📌 حقیقت یہ ہے کہ:
جو لوگ
ایران کو صرف "تقیہ باز" سمجھتے رہے، انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایران نے
اسرائیل کو وہ نقصان پہنچایا جو صرف حماس یا حزب اللہ جیسی تحریکیں میدان میں کر
سکتی تھیں ۔
---
🕌 ایران پر تنقید اپنی جگہ، لیکن۔۔۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ایران نے کبھی
کوئی ظلم نہیں کیا۔ مشرق وسطیٰ میں بعض اقدامات قابلِ
مذمت رہے ہیں، لیکن:
کیا ماضی کے
مظالم کو یاد کر کے آج کے دشمن کے خلاف مزاحمت سے ہاتھ کھینچ لینا دانشمندی ہے؟
کیا ماضی
کا کوئی سیاسی ظلم، موجودہ صہیونی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے
سے باز رکھ سکتا ہے؟
کیا آج غزہ کے
مظلوم بچوں کی لاشیں یہ پکار نہیں رہیں کہ ہم مسلمانوں کا
ہر وہ ہاتھ تھامیں جو اسرائیل کو روکے؟
---
📖 رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی روشنی میں
"إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ
الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ"
(صحیح
مسلم، حدیث: 2812)
ترجمہ:
"شیطان اس
بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ جزیرۂ عرب کے نمازی اس کی عبادت کریں، مگر وہ ان کے
درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش میں لگا رہے گا۔"
📌 آج اگر ہم ایران کو صہیونیت سے زیادہ دشمن
سمجھیں، یا پرانے فرقہ وارانہ زخم چھیڑ کر اسرائیل جیسے دشمن کو ثانوی بنا دیں —
تو کیا ہم دشمن کا کام آسان نہیں کر رہے؟
---
🧩 کیا ایران کے ساتھ اتحاد ممکن ہے؟
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایرانی
صدر کو فون کر کے اسرائیل کے خلاف حمایت کا اعلان کیا — کیا
یہ ایک مثالی موقع نہیں کہ ہم بھی سیاسی اختلافات کو وقتی طور پر دفن
کر کے مشترکہ دشمن کے
خلاف باہمی تعاون کی راہ نکالیں؟
اسی طرح:
پاکستانی
پارلیمان میں اسرائیل کے خلاف اور ایران کی حمایت میں
قرارداد منظور ہوئی۔
اقوام
متحدہ میں بھی ایران کی اسرائیل مخالف موقف کى پاكستان
اور الجزائر نے تائید كى۔
پاکستانی
فوج نے ماضی میں بھارت کے خلاف آپریشن 'بنیان مرصوص' میں تمام اختلافات کے باوجود
سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کا مقابلہ کیا —
یہ ایک زندہ مثال ہے کہ جب قرآن کی
تعلیمات "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا" پر عمل کیا جائے تو
امت کامیابی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔
---
🤝 ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟
دشمن کا
ہاتھ کاٹنے والا، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اس کی مزاحمت کو سراہا جائے ۔
اگر
ایران صہیونیت کے خلاف عملی اقدام کرتا ہے،
تو ماضی میں
غلطیاں ہوئى
بھی، موجودہ خیر کی تائید کی جا
سکتی ہے۔
فرقہ
واریت کی بنیاد پر کسی مزاحمتی اقدام کو رد کر دینا، نہایت نقصان دہ رویہ ہے۔
---
🧠 نتیجہ:
ہر وہ
زبان جو آج کے معرکے میں اتحاد امت کو توڑنے
پر تلی ہے، وہ دراصل دشمن
كا كام آسان كررہى ہے، چاہے وہ "علمی" ہو یا
"تاریخی حوالوں" سے بھری ہو۔
جس نے
بھی اسرائیل پر کاری ضرب لگائی ہے، وہ قابلِ قدر ہے — حتیٰ کہ وہ ایران ہی کیوں نہ ہو۔
اور اگر
ہم اس وقت بھی ایرانی نفرت کے نام پر اسرائیلی دفاع کریں، تو
ہم صرف صہیونی خواب کی تکمیل میں شریک ہوں گے۔
---
✅ یہی وقت ہے:
*"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"*
(سورۃ آل
عمران: 103)
ترجمہ:
"اللہ کی
رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو!"
🤲 ہم سب کو مل کر دشمن کے خلاف ایک صف میں کھڑا
ہونا ہے۔
📣 فرقوں، قوموں، سیاست اور ماضی کے جھگڑوں کو عقل،
ایمان اور اخلاص کی تلوار
سے کاٹنا ہوگا۔
🌍 کیونکہ آج اگر ہم نہ جاگے، تو کل امت کا
بکھرا وجود اسرائیل
کے ٹینکوں کے نیچے کچلا جائے گا — اور تب صرف ندامت رہ جائے گی۔