شریعت، طریقت اور سیاست!؟
|
:عنوان |
|
 |
|
|
|
شریعت، طریقت اور سیاست!؟ === ایک بھلی سی تحریر نظر سے گزری جس کا لب لباب تھا: شریعت، طریقت اور سیاست کو بیک وقت لے کر چلنا ضروری ہے کہنے والے کا جو مقصد ہے، نفسِ مضمون کے لحاظ سے مجھے اس سے پورا اتفاق ہے۔ ویسے بھی اصطلاحات میں کوئی تنگی سختی نہیں۔ لا مشاحة في الاصطلاح۔ البتہ ہمارے مدرسہ "اھل الأثر" کے یہاں: "شریعت" کا اپنا ہی دائرہ ان تینوں کو محیط ہے۔ منجملہ اور بہت سے امور، اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ "شریعت" جب بھی ہمارے یہاں زیر بحث آئے گی وہ "سیاست" کے بغیر ہو گی ہی نہیں، اور یہ ہمارے نزدیک بہت ضروری ہے۔ اسی طرح "طریقت" کے تحت جو جائز و مسنون امور کسی کے زیر بحث آتے ہوں گے وہ "شریعت" کا لفظ بولتے وقت شریعت کا اپنا ہی حصہ ہوں گے۔ بایں طور؛ شریعت کا تقابل (mentioning two things in relation to each other) ہم کریں گے "ناشریعت" سے۔ شرع کا تقابل ہم کریں گے "غیر شرعی" امور سے۔ "شرع" کا تقابل "کچھ" شرعی امور سے البتہ کبھی نہیں کریں گے۔ مطلب، شرع کے کسی ایک جزء کو شرع کے "متوازی" نہیں چلائیں گے بلکہ شرع کے "منجملہ" چلائیں گے۔ "شرع" کا تقابل اگر مستقل طور پر ہم شرع کے "کچھ" اجزاء سے کرنے لگیں… تو شریعت سکڑنے لگے گی اگرچہ شریعت کا یہ سکڑاؤ اصطلاحات کی دنیا میں ہی کیوں نہ ہو اور نفسِ مضمون کو ہم ادھر ادھر کے کچھ الفاظ اور ’اضافی‘ وضاحتوں سے پورا بھی کیوں نہ کر لیتے ہوں۔ مطلب، شریعت کے کچھ اجزاء کا ذکر اگر ہم شریعت کے "علاوہ" کے طور پر کرنے لگیں گے تو شریعت بہت چھوٹی ہو جائے گی، اگرچہ فریقِ دیگر کا کیس سمجھنے میں ہم "لا مشاحة فی الاصطلاح" کا اصول ہمیشہ لاگو رکھیں۔ شرع کا ایک نقصان پھر بھی ہو جائے گا۔ اور جہاں تک اجزاء کو الگ نام دینے کا تعلق ہے تو یہ حق ہے۔ جیسے شریعت کے اجزاء کے طور پر آپ مثلاً کہیں: عبادات، معاملات، اخلاق، زہد، خشوع، جہاد، امارت، سیاست، وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے ایک کل کو جب پڑھا جائے گا، اس کے اجزاء کو الگ الگ نام دے کر ہی پڑھا جائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو کئی ایک نام آپ کے پاس شریعت کے "علاوہ" بھی آ گئے جیسے عبادات، معاملات، اخلاق، زہد، خشوع، جہاد، امارت، سیاست، وغیرہ۔ مگر آپ نے نوٹ کیا: "عبادات" کو کبھی ہم نے شریعت کے "علاوہ" کے طور پر ذکر نہیں کیا ہو گا۔ یعنی ہم نے کبھی یہ نہیں کہا ہو گا کہ: بھئی "شریعت" بھی ضروری ہے اور "عبادات" بھی ضروری ہیں۔ لا مشاحۃ فی الاصطلاح والا قاعدہ بھی بےشک یہاں لے آئیں پھر بھی یہ جملہ نہیں جچے گا کہ: "شریعت اور عبادات کو بیک وقت لے کر چلنا ضروری ہے"۔ مسئلے کا یہی پہلو بس مجھے سمجھانا ہے۔ لفظی بحثوں میں پڑنا مقصود نہیں۔ اجزاء کا تقابل اجزاء سے ہو گا، اپنے کل سے نہیں ہو گا۔ اور اگر کسی جزء کا ایک دائمی اور پکا پکا تقابل اپنے کل سے ہونے لگے تو اس کل اور جزء میں ایک دوئی آ جائے گی۔ اور وقت کی کچھ آندھیاں ایسی کسی دوئی کا فائدہ اٹھا کر آپ کا بہت کچھ تہہ و بالا کر سکتی ہیں۔ چنانچہ "لا مشاحۃ فی الاصطلاح" ایک مخصوص علم و تعلم کے دائرے میں ہے۔ البتہ جس وقت آپ کسی اصطلاح کو مصکوک coin کر کے عامۃالمسلمین کےلیے جاری فرما دیتے ہیں، تب بہت بہت بھگتتے ہیں۔ چنانچہ جہاں ایک دائرہ میں اصطلاحات ایک بےضرر معاملہ ہے، وہاں ایک دوسرے دائرے میں یہ ایک تباہ کن چیز ہے۔ کسی شے کو کتابوں سے اٹھا کر سڑکوں پر لا دھرتے وقت آپ کو بہت بہت سوچنا ہوتا ہے۔ کیا آپ نے یہاں کی روزمرہ زبان میں ایک جملہ نوٹ کیا: "یہ ایک مذہبی جماعت ہے"۔ اور پھر دوسرا جملہ: "یہ ایک سیاسی جماعت ہے"۔ صاف مطلب یہ ہوا کہ "مذہب" اپنا یہ معنىٰ کھو چکا کہ "سیاست" خودبخود اس کا ایک حصہ ہو۔ اس مجبوری کے تحت ہمیں ایک اور جملہ coin کرنا پڑا: "یہ ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے"۔ میری نظر میں یہ تیسرا جملہ پہلے دونوں جملوں سے زیادہ پریشان کن ہے، اگرچہ خود مجھے بھی کسی وقت - حالیہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث - یہ بولنا پڑ جاتا ہو، کیونکہ اس کے بغیر میری بات کسی کو سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ یہ نوبت آ چکی ہے اصطلاحات کو غیر مؤثر جاننے کے اس عمل میں!!! غرض یہ تینوں لفظ آپ کے یہاں برابر سیکولرزم کا پانی بھریں گے۔ آپ "مذہب" بول لیں تو، "سیاست" بول لیں تو، اور دونوں کو "اکٹھا" بول لیں تو، سب راستے "روم" ہی کو جا رہے ہوں گے۔ شریعت کی کُلیّت ہمارے اصول میں سے ایک بہت اہم اصل ہے، صرف مضمون میں نہیں بلکہ تعبیرات تک میں۔
|
|
|
|
|
|