مسلکی "دیواروں" کی اونچائی کم کرنے والے عوامل
|
:عنوان |
|
 |
|
|
|
مسلکی "دیواروں" کی اونچائی کم کرنے والے عوامل === مسلکی لڑائیوں سے نکل آنے اور امت پر فوکس کرنے کا جو ایک امید افزا رجحان میری پچھلی پوسٹ میں ذکر ہوا، اس پر ایک سوال آیا ہے: س: کہیں اس میں کچھ تھوڑا بہت ہاتھ "مرزا صاحب" کا تو نہیں کہ نوجوانوں کو فرقوں سے نکالا ؟ رانا شعیب الرحمن Rana Shoaib Ur Rahman __ ج: آپ نے پوچھ ہی لیا ہے، ویسے شخصیات کو موضوع بنانے سے از حد گریز کرتا ہوں، تو عرض ہے: جس امید افزا رجحان کا میں نے اپنی تحریر میں ذکر کیا ہے یعنی مسلکی لڑائیوں سے نکل آنے اور اپنی ساری توجہ "امت" اور اس کے مسائل پر فوکس کرنے کا رجحان… تو آپ کی مذکورہ شخصیت نے نوجوانوں کو اس صالح راستے سے ڈی ٹریک کرنے میں تو ضرور ایک کردار ادا کیا ہو گا، البتہ امت کی فکر دینے میں وہ کہیں کھڑے ہوئے نہیں ہیں۔ "امت" کا ھمّ و غمّ آج بھی مجھے "مسالک" والوں کے ہاں زیادہ نظر آتا ہے، جس کی ایک حالیہ مثال غزہ کا مسئلہ ہے۔ آپ کی مذکورہ شخصیت نے - میری نظر میں - اگر کچھ کیا ہے تو وہ کچھ نئی فروعی لڑائیوں بھڑائیوں کا اضافہ ہے۔ گویا ایک نیا فروعی گروہ۔ اور جنگ کا رخ: اِس نئے گروہ اور اُن پرانےگروہوں کے مابین کچھ ایسی بحثیں اور منہ ماری جو کسی بھی لحاظ سے امت کی ضرورت نہیں۔ اخلاقیات بھی ویسی ہی، یا شاید اس سے بھی گری ہوئی، جو اُن پرانوں کے مابین جاری اکھاڑوں کے اندر دیکھی جاتی تھیں۔ ___ ہاں اگر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس صالح امید افزا رجحان کے پیچھے کون کونسے عوامل کارفرما رہے ہیں، تو میں عرض کروں گا: 1۔ سب سے پہلے نمبر پر: جہاد، کافر کے ساتھ ہماری جا بجا مڈ بھیڑ۔ عالم اسلام پر گرنے والے بم جو ہمیں جگانے میں کسی حد تک کامیاب رہے: جس نے خود مسالک کے نوجوانوں کی بڑی بڑی تعداد کو "امت" کےلیے جینے مرنے اور سوچنے کی ایک جہت دی ہے، اور وہ ان خانوں سے باہر نکل آئے، جو دورِ زوال نے ہمیں اپنی "پلٹ جھپٹ" اور اپنی "فتوحات" کےلیے دے رکھے ہوئے تھے۔ 2۔ دوسرا: یہاں پر پایا جانے والا سو سال پر محیط ایک تحریکی عمل۔ اس نے بھی آہستہ آہستہ نئے لہجے دینے میں کچھ نہ کچھ کامیابی پائی ہے۔ 3۔ تیسرا: عالم عرب سے آنے والے تحریکی اثرات۔ عرب کی "صحوۃ" کی بازگشت۔ حالیہ عشروں میں یہ اس قدر شدید ہوا ہے کہ شاید یہ دوسرے نمبر پر فوقیت اختیار کر گیا ہو۔ 4۔ چوتھا: مغرب میں بیٹھے ہوئے داعیوں کو ہمارے انگریزی سمجھنے (بلکہ پسند کرنے) والے نوجوانوں کے یہاں کثرت کے ساتھ سنا اور پڑھا جانا۔ اس نے بھی ہمارے دینی سیکٹر کو پسماندگی سے نکالنے میں ایک غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے اور عشروں کا سفر برسوں میں کروا دیا ہے۔ (مسلکی دیواریں پسماندگی کی ہی ایک صورت تھی) 5۔ پانچواں: پڑھے لکھے نوجوانوں میں دینی علوم کو خود پڑھنے کا رجحان۔ یہاں تک کہ اب کثرت کے ساتھ ایسے کورسز آفر ہونے لگے جن سے ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے شرعی تعلیم لینے میں مدد پا رہے ہیں۔ اس کا بھی ایک بہت بڑا کردار ہے۔ 6، 7۔ چھٹا اور ساتواں: دو ایسے عوامل ہیں جو ہیں اپنی اصل میں تباہ کن، لیکن ان کا بھی کچھ کردار "مسلکی دعوتوں" کو آؤٹ آف فیشن کرنے میں ہے ضرور۔ ایک سیکولرزم کا فروغ جس نے "مذہب" کی یہ حیثیت ہی نہیں رہنے دی کہ وہ لوگوں میں لڑائی بھڑائی کروا سکے اور جو کہ زیادہ تر ’مسلکوں‘ کی صورت میں ہو رہی تھی۔ جس کے نتیجے میں، مسلکی جنگجوؤں کو ناچار بیک فُٹ پر جانا پڑ گیا ہے۔ دوسرا سوشل میڈیا جو بوجوہ دنیا کو قریب قریب کر رہا ہے، جس سے مسالک کی اٹھائی ہوئی دیواریں بھی بہرحال متاثر ہو رہی ہیں۔
|
|
|
|
|
|