یہ لوگ صلاح الدین کے دور میں ہوتے تو اسے بھی "ایجنٹ" کہتے!
|
:عنوان |
|
 |
یہ لوگ صلاح الدین کے دور میں ہوتے تو کچھ ان میں سے اس کی تــکـفـیـر کر رہے ہوتے، اور کچھ اس کو کــفــار یا رافــضــہ کا ایجنٹ!!! |
|
|
یہ لوگ صلاح الدین کے دور میں ہوتے تو کچھ ان میں سے اس کی تکفیر کر رہے ہوتے، اور کچھ اس کو کفار یا رافضہ کا ایجنٹ!!! === اس کیپشن کا ایک حصہ میں نے شیخ سلمان العودہ کے ایک جملے سے مستعار لیا ہے، اللہ انہیں جلد ظلم کی قید سے رہائی دلائے۔ کیا آپ کو معلوم ہے، صلاح الدین نے ایک وقت پر مصر کے باطنی اسماعیلی (رافضی) خلیفہ العاضد کا وزیر اعظم ہونا قبول کیا تھا، اور ایک ٹھیک ٹھاک عرصہ وہ اسی منصب پر رہا تھا؟ قرامطہ زنادقہ کا امتداد سمجھی جانے والی قاہرہ کی اس باطنی خلافت کو ائمہٴ سنت کے ہاں اسلام دشمنی کا استعارہ سمجھا جاتا تھا اور امام ابو بکر النابلسی رحمۃ اللہ علیہ ایسے علمائے سنت تو برملا اس کو یہود اور نصارىٰ سے بدتر قرار دیتے تھے، جس پر اِس امامِ سنت نے فاطمیوں کے ہاتھوں بےرحم ترین انداز میں سزائے موت بھی پائی تھی (فاطمیوں نے ایک یہودی قصاب کے ہاتھوں آپؒ کی زندہ کھال اتروائی تھی)۔ تاہم ایک موقع پر، اور وہ بھی جس وقت صلیبیوں کے ساتھ شام کی سنی افواج کا معرکہ بام عروج پر پہنچا ہوا تھا اور عالم اسلام کا ایک ایک چپہ ہر دو فریق کےلیے اہم ہو گیا ہوا تھا، کچھ راستہ بنانے کےلیے یہ کسی قدر ناگزیر ہو گیا تھا کہ ذرا سیاست کے ساتھ چلا جائے۔ کیونکہ مصر کی فاطمید خلافت پر ذرا ایک ڈھنگ سے، اور بغیر اس کے ساتھ کوئی ایسی لڑائی کیے جس سے فاطمی صلیبیوں کو اپنی مدد پر بلا لیتے… کچھ ایسی ہی زیرک کارروائی مناسب معلوم ہوتی تھی۔ اللہ کا کرنا، موقع بھی العاضد نے اس کےلیے خود فراہم کر دیا۔ چنانچہ دمشق کے سلطان نورالدین زنکی کے صلیبیوں کے خلاف فاطمیوں کی مدد کےلیے بھیجے گئے لشکر کے کمانڈر اسد الدین شیرکوہ نے فاطمی خلیفہ العاضد کی یہ فیاضانہ پیشکش قبول کی کہ یہ اُس کا وزیر اعظم بن جائے۔ العاضد اس ڈِیل میں در اصل اس مار پر تھا کہ اس طریقے سے وہ زنکی کا ایک بہترین شامی کمانڈر اس کی اتنی ساری فوج سمیت ہتھیا لے گا اور زنکی بیٹھے کا بیٹھا رہ جائے گا! یعنی العاضد اتنا بڑا ہاتھ مارنا چاہ رہا تھا؛ جس کےلیے وہ دنیا کی سب رنگینیاں شیرکوہ کے قدموں میں ڈھیر بھی کر رہا تھا؛ اور بلاشبہ مصر ایک سونے کی چڑیا تھی۔ یہاں؛ اسد الدین شیرکوہ کی زندگی نے وفا نہ کی، اور چند ہی ماہ بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ جس پر؛ یہی (وزارتِ عظمىٰ کا) منصب اسماعیلی خلیفہ العاضد کی جانب سے اب اسد الدین کے نوخیز باصلاحیت بھتیجے صلاح الدین کو پیش کر دیا گیا اور مفادات کی رنگینیاں اور بھی بڑھا دی گئیں اور "بچہ" سمجھ کر اس کو ہتھیانے کی اور بھی آس لگا لی گئی۔ فاطمی وزارتِ عظمیٰ کی یہ پیشکش اپنے مرحوم چچا کی طرح، صلاح الدین نے بھی قبول کر لی۔ پھر تاریخ کی آنکھ نے البتہ یہ دیکھا کہ صلاح الدین چند سال کے اندر مصر میں اہل سنت کی جڑیں از سر نو مضبوط کرتا ہے۔ یہاں ایک بڑا انفراسٹرکچر کھڑا کر کے تجارت کے ذرائع عام کرتا اور خوش حالی کا دور دورہ کرواتا ہے۔ نظام کے اندر غیر معمولی اصلاحات کرتا ہے۔ اپنے عدل و انصاف سے مصری رعایا کے، جو ابھی تک سنی چلی آتی تھی، دل جیت لیتا ہے۔ یہاں تک کہ رعایا اب "خلیفہ" کی بجائے اس کے وزیر کا کلمہ پڑھنے لگتی ہے۔ اور آخر بڑی خوبصورتی کے ساتھ، کہ ہنگ لگے نہ پٹھکڑی، مصر کے خطباء کو اعتماد میں لینے کے بعد، یک لخت ایک جمعہ کو پورے مصر میں خطبہ قاہرہ کے فاطمی خلیفہ کی بجائے بغداد کے سنی خلیفہ کا جاری کر دیا جاتا ہے… اور مصر دو صدیوں بعد - بغیر کسی کشت و خون کے - سنت کو واپس مل جاتا ہے!!! یوں مصر و شام ہر دو سنت کے علم تلے آنے کے نتیجے میں… "مسلم ورلڈ" صلیبیوں کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ کی پوزیشن میں آجاتا ہے! اس سارے واقعے میں اصل مقصود فی الحال اس کا وہ "پریشان کن" اور وہ "دال میں کالا کالا" حصہ ہے جو "کافروں" کا دیا گیا ایک اعلىٰ عہدہ قبول کرنے سے متعلق ہے، خصوصاً جس میں "کفار" فی الواقع اپنی کسی مار پر بھی تھے، بس یہ ہے کہ ان کا یہ عہدہ قبول کرنے والا سُنی ان سے تیز نکلا!!! مگر جب تک اس سُنی کی پوری کارگزاری نکھر کر سامنے نہیں آئی تھی اُس وقت تک تو یہی درست تھا نا کہ ہم صلاح الدین یوسف بن ایوب نامی اس شخص پر فتوے لگاتے! اس کو "ملت کا غدار" اور "کافروں" کا ایجنٹ کہتے! "کافروں" کے اُس کو یہ عہدہ دینے کے پیچھے جو "اصل" پلان اور منصوبے ہو سکتے تھے اپنی ساری ذہانت، اور تجزیہ کاری کی اپنی ساری صلاحیت، اور "اندر کی بات" پا لینے کی ساری استعداد ہم اُن منصوبوں کی نشاندہی میں صرف کرتے جو اس عمل سے "کافروں" کے پیش نظر تھے! اس لیے کہ اِدھر اسلامی سُنی سائڈ پر تو کسی تیزی طراری، کسی جست، کسی طموح ambitious plan اور کسی دُور اندیشی کا امکان مانا ہی نہیں جا سکتا! یہ تو صرف کافروں کے پاس ہوتی ہے! جو کرنا ہے یہاں کافروں نے کرنا ہے! ہم نے تو شاید مضمون ہی ایک پڑھا ہے اور وہ ہمیں بہت اچھا آتا ہے: "کافــروں کی ریشہ دوانیاں"! "فراستِ مومن" تو اپنی پوری تاریخ میں کہیں ملتی ہی نہیں!!! ہے نا!!! تو پھر ایک ہی شے اپنے پلے رہ جاتی ہے: صبح شام، ہر نئی پیش رفت، اور ہر نئے آنے والے امکان کے موقع پر "آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں…"!!! کوئی چھت پھاڑ آئیڈیل تبدیلی جس میں کوئی "دخن" نہ ہو… یہ تو آنے سے رہی! تو پھر تجزیے ہی رہ جاتے ہیں جن میں کوئی "دخن" نہ ہو! یہ ایک ہی دائرہ ہے جس میں ہم باطل سے صاف بچ کر اور امت کو بچا کر - صحیح سلامت - گزر سکتے ہیں…اور الحمد للہ روز گزرتے ہیں! *** اپنے دو دن پہلے کے ایک مضمون میں میں یہ عرض کر چکا ہوں: پےدرپے ہزیمتوں کے باعث اپنے اکثر "اسلامی" اندازہ نگاروں کا ایسا کچھ ذہن بن گیا ہے کہ کافر سے جو مل رہا ہے یا تو وہ محض خیرات ہے یا نری سازش! گویا مسلمان کا تو اپنا کوئی ایجنڈا ہو ہی نہیں سکتا اور یہ تو کوئی مہرے چل ہی نہیں سکتا!!! یہ بھلے مانس لوگ اُس وقت سے اس مرعوب بیانیے کو بیچ رہے ہیں جب سے سوویت یونیں کے خلاف جــہــاد میں یہاں کے اسلامی سنی بلاک نے امریکہ و یورپ کے ساتھ ایک پارٹنرشپ کی تھی۔ اِن سطح بینوں کے نزدیک وہ سب امریکہ کی "مہربانی" تھی یا ہمیں "نوکر" بنانے کا ایک عمل۔ مگر چند سال میں کھُل گیا، ہمارے اُس دور کے ایک ہی ہیرو ضیاءالحق نے - ہمراہ اپنی آئی ایس آئی کے - اپنے امریکی دوستوں کو بھی اور یہاں کے "اسلامی آئیڈیلسٹ" تجزیہ کاروں کو بھی گھما کر رکھ دیا تھا، الحمد للہ۔ اگرچہ خواجہ آصف ایسے کچھ سطح بیں اب بھی ایسا سمجھ رہے ہوں کہ سوویت یونین کے خلاف ج/ہ/اد میں ہم نے جس زیرک پن کے ساتھ - اور تھوڑا اپنے آپ کو ضعیف ظاہر کر کے - اپنے وہ سب کارڈز کھیلے تھے وہ امریکہ کے ہاتھوں کسی "ڈرٹی گیم" میں محض "برتے جانے" کا عمل تھا!!! بلکہ ہمارے کئی "اسلامیوں" کو بھی آپ قریب قریب ایسا ہی کہتا سنیں گے۔ یہ نہیں جانتے کہ آپ کا ایٹم بم تک - ایک بہت بڑی حد تک - آپ کی اُسی پالیسی کا مرہونِ منت ہے۔ ___ اور ہاں…وہ اتنے سال جب صلاح الدین مصر میں رافضی اسماعیلی حکومت کے دیے ہوئے اس عہدے پر رہ کر دھیرے دھیرے اپنی جڑیں بنانے میں مصروف رہتا اور حقیقی قوت کی جانب ایک ایک انچ اپنا راستہ صاف کرتا ہے…وہ تمام تر عرصہ - "سوشل میڈیا" کے بےحد اصرار اور طعنوں کوسنوں کے باوجود - صلاح الدین نہ تو ٹس سے مس ہوتا ہے، نہ غیرتِ ایمانی میں آ کر پڑوس میں بیٹھے صلیبیوں پر حملہ کرتا ہے، اور نہ بغیر تیاری ان کی طرف کوئی لشکر روانہ کرتا ہے! یعنی اتنا عرصہ وہ اپنے "سوشل میڈیا" کو مایوس ہی کیے جاتا ہے… علاوہ "سوشل میڈیا" کو یہ کہنے کا موقع دینے کے کہ صلاح الدین تو العاضد کے ہاتھوں بک چکا، بس ایک نگوڑی وزارت کے عوض اپنا اور اپنے سب مجاہدین کا، اور اپنے تمام تر اسلامی مقاصد کا سودا کر چکا!!! اور دور بیٹھے ویسے کیا کیا جا سکتا ہے؟!
|
|
|
|
|
|